Surat un Noor

Surah: 24

Verse: 30

سورة النور

قُلۡ لِّلۡمُؤۡمِنِیۡنَ یَغُضُّوۡا مِنۡ اَبۡصَارِہِمۡ وَ یَحۡفَظُوۡا فُرُوۡجَہُمۡ ؕ ذٰلِکَ اَزۡکٰی لَہُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ خَبِیۡرٌۢ بِمَا یَصۡنَعُوۡنَ ﴿۳۰﴾

Tell the believing men to reduce [some] of their vision and guard their private parts. That is purer for them. Indeed, Allah is Acquainted with what they do.

مسلمان مردوں سے کہو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت رکھیں یہی ان کے لئے پاکیزگی ہے ، لوگ جو کچھ کریں اللہ تعالٰی سب سے خبردار ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Command to lower the Gaze This is a command from Allah to His believing servants, to lower their gaze from looking at things that have been prohibited for them. They should look only at what is permissible for them to look at, and lower their gaze from forbidden things. If it so happens that a person's gaze unintentionally falls upon something forbidden, he should quickly look away. Muslim recorded in his Sahih that Jarir bin Abdullah Al-Bajali, may Allah be pleased with him, said, "I asked the Prophet about the sudden glance, and he commanded me to turn my gaze away. In the Sahih it is narrated that Abu Sa`id said that the Messenger of Allah said: إِيَّاكُمْ وَالْجُلُوسَ عَلَى الطُّرُقَاتِ Beware of sitting in the streets. They said, "O Messenger of Allah, we have no alternative but to sit in the streets to converse with one another." The Messenger of Allah said: إِنْ أَبَيْتُمْ فَأَعْطُوا الطَّرِيقَ حَقَّهُ If you insist, then give the street its rights. They asked, "What are the rights of the street, O Messenger of Allah!" He said, غَضُّ الْبَصَرِ وَكَفُّ الاَْذَى وَرَدُّ السَّلَمِ وَالاَْمْرُ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّهْيُ عَنِ الْمُنْكَرِ Lower your gaze, return the greeting of Salam, enjoin what is good and forbid what is evil. Abu Al-Qasim Al-Baghawi recorded that Abu Umamah said, "I heard the Messenger of Allah say: اكْفُلُوا لِي سِتًّا أَكْفُلْ لَكُمْ بِالْجَنَّةِ إِذَا حَدَّث أَحَدُكُمْ فَلَ يَكْذِبْ وَإِذَا ايْتُمِنَ فَلَإ يَخُنْ وَإِذَا وَعَدَ فَلَإ يُخْلِفْ وَغُضُّوا أَبْصَارَكُمْ وَكُفُّوا أَيْدِيَكُمْ وَاحْفَظُوا فُرُوجَكُمْ Guarantee me six things and I will guarantee you Paradise: when any one of you speaks, he should not lie; if he is entrusted with something, he should not betray that trust; if he makes a promise, he should not break it; lower your gaze; restrain your hands; and protect your private parts. Since looking provokes the heart to evil, Allah commanded (the believers) to protect their private parts just as he commanded them to protect their gaze which can lead to that. So He said: قُل لِّلْمُوْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ... Tell the believing men to lower their gaze, and protect their private parts. Sometimes protecting the private parts may involve keeping them from committing Zina, as Allah says: وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَـفِظُونَ And those who guard their chastity. (23:5) Sometimes it may involve not looking at certain things, as in the Hadith in Musnad Ahmad and the Sunan: احْفَظْ عَوْرَتَكَ إِلاَّ مِنْ زَوْجَتِكَ أَوْ مَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ Guard your private parts except from your wife and those whom your right hands possess. ... ذَلِكَ أَزْكَى لَهُمْ ... That is purer for them. means, it is purer for their hearts and better for their commitment to religion, as it was said: Whoever protects his gaze, Allah will illuminate his understanding, or his heart. ... إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا يَصْنَعُونَ Verily, Allah is All-Aware of what they do. This is like the Ayah : يَعْلَمُ خَأيِنَةَ الاٌّعْيُنِ وَمَا تُخْفِى الصُّدُورُ Allah knows the fraud of the eyes and all that the breasts conceal. (40:19) In the Sahih it is recorded that Abu Hurayrah, may Allah be pleased with him, said that the Messenger of Allah said: كُتِبَ عَلَى ابْنِ ادَمَ حَظُّهُ مِنَ الزِّنَا أَدْرَكَ ذَلِكَ لاَ مَحَالَةَ فَزِنَا الْعَيْنَيْنِ النَّظَرُ وَزِنَا اللِّسَانِ النُّطْقُ وَزِنَا الاُْذُنَيْنِ الاْسْتِمَاعُ وَزِنَا الْيَدَيْنِ الْبَطْشُ وَزِنَا الرِّجْلَيْنِ الْخُطَى وَالنَّفْسُ تَمَنَّى وَتَشْتَهِي وَالْفَرْجُ يُصَدِّقُ ذَلِكَ أَوْ يُكَذِّبُهُ The son of Adam has his share of Zina decreed for him, and he will commit that which has been decreed. The Zina of the eyes is looking; the Zina of the tongue is speaking; the Zina of the ears is listening; the Zina of the hands is striking; and the Zina of the feet is walking. The soul wishes and desires, and the private parts confirm or deny that. It was recorded by Al-Bukhari without a complete chain. Muslim recorded a similar report with a different chain of narration. Many of the Salaf said, "They used to forbid men from staring at beardless handsome boys. "

حرام چیزوں پر نگاہ نہ ڈالو حکم ہوتا ہے کہ جن چیزوں کا دیکھنا میں نے حرام کر دیا ہے ان پر نگاہیں نہ ڈالو ۔ حرام چیزوں سے آنکھیں نیچی کر لو ۔ اگر بالفرض نظر پڑجائے تو بھی دوبارہ یا نظر بھر کر نہ دیکھو ۔ صحیح مسلم میں ہے حضرت جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اچانک نگاہ پڑ جانے کی بابت پوچھا تو آپ نے فرمایا اپنی نگاہ فورا ہٹا لو ۔ نیچی نگاہ کرنا یا ادھر ادھر دیکھنے لگ جانا اللہ کی حرام کردہ چیز کو نہ دیکھنا آیت کا مقصود ہے ۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے آپ نے فرمایا ۔ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نظر پر نظر نہ جماؤ ، اچانک جو پڑگئی وہ تو معاف ہے قصدا معاف نہیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ فرمایا راستوں پر بیٹھنے سے بچو ۔ لوگوں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کام کاج کے لئے وہ تو ضروری ہے ۔ آپ نے فرمایا اچھا تو راستوں کا حق ادا کرتے رہو ۔ انہوں نے کہا وہ کیا ؟ فرمایا نیچی نگاہ رکھنا کسی کو ایذاء نہ دینا ، سلام کا جواب دینا ، اچھی باتوں کی تعلیم کرنا ، بری باتوں سے روکنا ۔ آپ فرماتے ہیں چھ چیزوں کے تم ضامن ہو جاؤ میں تمہارے لئے جنت کا ضامن ہوتا ہوں ۔ بات کرتے ہوئے جھوٹ نہ بولو ۔ امانت میں خیانت نہ کرو ۔ وعدہ خلافی نہ کرو ۔ نظر نیچی رکھو ۔ ہاتھوں کو ظلم سے بچائے رکھو ۔ اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرو ۔ صحیح بخاری میں ہے جو شخص زبان اور شرمگاہ کو اللہ کے فرمان کے ماتحت رکھے ۔ میں اس کے لئے جنت کا ضامن ہوں ، عبیدہ کا قول ہے کہ جس چیز کا نتیجہ نافرمانی رب ہو ، وہ کبیرہ گناہ ہے چونکہ نگاہ پڑنے کے بعد دل میں فساد کھڑا ہوتا ہے ، اس لئے شرمگاہ کو بچانے کے لئے نظریں نیچی رکھنے کا فرمان ہوا ۔ نظر بھی ابلیس کے تیروں میں سے ایک تیر ہے ۔ پس زنا سے بچنا بھی ضروری ہے اور نگاہ نیچی رکھنا بھی ضروری ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرو مگر اپنی بیویوں اور لونڈیوں سے ۔ محرمات کو نہ دیکھنے سے دل پاک ہوتا ہے اور دین صاف ہوتا ہے ۔ جو لوگ اپنی نگاہ حرام چیزوں پر نہیں ڈالتے ۔ اللہ ان کی آنکھوں میں نور بھر دیتا ہے ۔ اور ان کے دل بھی نورانی کر دیتا ہے ۔ آپ فرماتے ہیں جس کی نظر کسی عورت کے حسن وجمال پر پڑجائے پھر وہ اپنی نگاہ ہٹالے ۔ اللہ تعالیٰ اس کے بدلے ایک ایسی عبادت اسے عطا فرماتا ہے جس کی لذت وہ اپنے دل میں پاتا ہے ۔ اس حدیث کی سندیں تو ضعیف ہیں مگر یہ رغبت دلانے کے بارے میں ہے ۔ اور ایسی احادیث میں سند کی اتنی زیادہ دیکھ بھال نہیں ہوتی ۔ طبرانی میں ہے کہ یا تو تم اپنی نگاہیں نیچی رکھو گے اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کروگے اور اپنے منہ سیدھے رکھو گے یا اللہ تعالیٰ تمہاری صورتیں بدل دے گا ( اعاذنا اللہ من کل عذابہ ) فرماتے ہیں ۔ نظر ابلیسی تیروں میں سے ایک تیر ہے جو شخص اللہ کے خوف سے اپنی نگاہ روک رکھے ، اللہ اس کے دل کے بھیدوں کو جانتا ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ابن آدم کے ذمے اس کا زنا کا حصہ لکھ دیا گیا ہے جسے وہ لا محالہ پالے گا ، آنکھوں کا زنا دیکھنا ہے ۔ زبان کا زنا بولنا ہے ۔ کانوں کا زنا سننا ہے ۔ ہاتھوں کا زنا تھامنا ہے ۔ پیروں کا زنا چلنا ہے ۔ دل خواہش تمنا اور آرزو کرتا ہے ۔ پھر شرمگاہ تو سب کو سچا کر دیتی ہے یا سب کو جھوٹا بنا دیتی ہے ۔ ( رواہ البخاری تعلیقا ) اکثر سلف لڑکوں کو گھورا گھاری سے بھی منع کرتے تھے ۔ اکثر ائمہ صوفیہ نے اس بارے میں بہت کچھ سختی کی ہے ۔ اہل علم کی جماعت نے اس کو مطلق حرام کہا ہے اور بعض نے اسے کبیرہ گناہ فرمایا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ہر آنکھ قیامت کے دن روئے گی مگر وہ آنکھ جو اللہ کی حرام کردہ چیزوں کے دیکھنے سے بند رہے اور وہ آنکھ جو اللہ کی راہ میں جاگتی رہے اور وہ آنکھ جو اللہ کے خوف سے رودے ۔ گو اس میں سے آنسو صرف مکھی کے سر کے برابر ہی نکلا ہو ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

301جب کسی کے گھر میں داخل ہونے کے لئے اجازت لینے کو ضروری قرار دیا تو اس کے ساتھ ہی (آنکھوں کو پست رکھنے یا بند رکھنے) کا حکم دے دیا تاکہ اجازت طلب کرنے والا بھی بالخصوص اپنی نگاہوں پر کنٹرول رکھے۔ 302یعنی ناجائز استعمال سے اس کو بچائیں یا انھیں اس طرح چھپا کر رکھیں کہ ان پر کسی کی نظر نہ پڑے۔ اس کے یہ دونوں مفہوم صحیح ہیں کیونکہ دونوں ہی مطلوب ہیں۔ علاوہ ازیں نظروں کی حفاظت کا ذکر کیا کیونکہ اس میں بےاحتیاطی ہی، غفلت کا سبب بنتی ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٩] نگاہیں پست رکھنے کا حکم جیسے مومن مردوں کو ہے ویسے ہی مومن عورتوں کو بھی ہے۔ جیسا کہ اس سے اگلی آیت مذکور ہے نگاہیں نیچی رکھنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ چلتے وقت راستہ بھی پوری نظر نہ آئے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ مرد کی کسی غیر عورت پر اور عورت کی کسی غیر مرد پر نگاہ نہ پڑنی چاہئے اور اگر اتفاق سے نظر پڑجائے تو فوراً نظر ہٹا لینی چاہئے۔ جیسا کہ ایک دفعہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی (رض) سے فرمایا تھا کہ : پہلی بار کی نظر تجھے معاف ہے (یعنی اتفاقاً پڑجائے) لیکن بعد کی معاف نہیں && (ترمذی۔ ابو اب الادب۔ باب نظر الفحائۃ) یعنی اتفقاً نظر پڑجانے کے بعد پھر دیکھتے نہیں رہنا چاہئے بلکہ فوراً نظر ہٹا لینی چاہئے اور ایک بار آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یوں فرمایا کہ && نظر بازی آنکھوں کا زنا ہے یا آنکھوں کا زنا نظر بازی ہے && (بخاری۔ کتاب الاستیعذان۔ باب زنا الجوارح دون الفرج) [٤٠] نظر بازی سے اجتناب کے ساتھ ہی متصلاً اللہ تعالیٰ نے فروچ کی حفاظت کا ذکر فرمایا جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ فروج کی حفاظت کے لئے نظربازی سے اجتناب انتہائی ضروری ہے۔ بالفاظ دیگر زنا کے عوامل میں سے نظربازی ایک بہت بڑا عامل یا اس کا میں گیٹ ہے۔ اسی نظر باز کے نتیجہ میں بعد میں انسان کے دوسرے اعضاء بھی اس فتنہ میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ مندرجہ بالا پوری حدیث اس طرح ہے && آنکھ کا زنا نظر بازی ہے۔ زبان کا کا زنا فحش کلامی ہے اور آدمی کا نفس زنا کی خواہش کرنا ہے۔ پھر شرمگاہ تو ان سب قسموں کے زنا کی تصدیق کردیتی ہے یا تکذیب۔ (بخاری۔ کتاب الاستیعذان۔ باب زنا الجوارح دون الفرج) ٢۔ نیز سہل بن سعد کہتے ہیں کہ ایک شخص نے دروازہ کے سوراخ میں سے آپ کے حجرے میں جھانکا اس وقت آپ کے ہاتھ میں ایک فارپشت تھا جس سے آپ اپنا سر کھجلا رہے تھے۔ آپ نے فرمایا کہ اگر مجھے معلوم ہوجاتا کہ تو جھانگ رہا تو میں تیری آنکھ پر مار کر اسے پھوڑ دیتا۔ استیعذان کا حک کو تو نظر بازی کے فتنہ کے وجہ سے ہی ہوا ہے && (بخاری۔ کتاب الاستیعذان) ٣۔ اور طبرانی میں ایک روایت یوں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ : نظر بازی، ابلیس کے زہریلے تیروں میں سے ایک تیر ہے (بحوالہ تفہیم القرآن ج ٣ ص ٣٨٠) التبہ اس میں استثناء کی صرف ایک صورت ہے اور وہ یہ ہے کہ آدمی کو اپنی ہونے والی بیوی یعنی مخطوبہ کو دیکھنے کی اجازت ہے۔ مغیرہ بن شعبہ روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے ایک عورت سے منگنی کی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : && اس عور کی طرف دیکھ لو، کیونکہ تم دونوں میں موانست کا یہ بہتر طریقہ ہے && (ترمذی۔ ابو اب النکاح۔ باب النظر الی المخطوبت) اسی طرح آپ کے پاس ایک آدمی جو کسی انصاری عورت سے شادی کرنا چاہتا تھا۔ آپ نے اسے فرمایا : && کیا تو نے اس مخوطبہ کی طرف دیکھ لیا ؟ اس نے کہا && نہیں && آپ نے فرمایا : جا اور اس کے طرف دیکھ لے کیونکہ انصاری کی عورتوں میں کچھ عیب ہوتا ہے && (مسلم۔ کتاب النکاح۔ باب مذب من ارادالنکاح۔۔ )

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قُلْ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ يَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِمْ : ” غَضَّ طَرْفَہُ ، خَفَضَہُ “ ” اس نے اپنی آنکھ نیچی کرلی۔ “ دوسرا معنی ہے ” نَقَصَ وَ وَضَعَ مِنْ قَدْرِہِ “ ” اس نے فلاں کی قدر کم کی۔ “ (قاموس) زنا اور بہتان سے محفوظ رکھنے کے لیے گھروں میں داخلے کے آداب بیان فرمانے کے بعد نظر کی حفاظت کا حکم دیا، کیونکہ آدمی کے دل کا دروازہ یہی ہے اور تمام شہوانی فتنوں کا آغاز عموماً یہیں سے ہوتا ہے۔ احمد شوقی نے کہا ہے : ” نَظْرَۃٌ فَابْتِسَامَۃٌ فَسَلَامٌ فَکَلَامٌ فَمَوْعِدٌ فَلِقَاءٌ“ ” نظر ملتی ہے، پھر مسکراہٹ، پھر سلام، پھر گفتگو، پھر وعدہ اور پھر ملاقات تک بات جا پہنچتی ہے۔ “ 3 اس سے پہلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے ”ۧيٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا “ کے ساتھ براہ راست مخاطب فرمایا ہے، جیسا کہ ” لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّيْطٰنِ “ اور ” لَا تَدْخُلُوْا بُيُوْتًا غَيْرَ بُيُوْتِكُمْ “ سے پہلے ہے، یہاں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کر کے فرمایا : ” مومن مردوں سے کہہ دے “ اس کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ نظر کا معاملہ نہایت خطرناک ہے اور اسے روکنا نہایت مشکل کام ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے شہنشاہانہ جلال کے ساتھ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا کہ مومن مردوں سے کہہ دے اور مومن عورتوں سے کہہ دے۔ (البقاعی) (واللہ اعلم) ” قُلْ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ يَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِمْ “ میں ” مِنْ “ تبعیض کے لیے ہے، اس لیے ترجمہ کیا گیا ہے ” مومن مردوں سے کہہ دے اپنی کچھ نگاہیں نیچی رکھیں۔ “ اللہ تعالیٰ کا حکم یہ نہیں کہ کسی چیز کو بھی نظر بھر کر نہ دیکھو، راستہ چلتے ہوئے بھی نگاہ مت اٹھاؤ، بلکہ حکم کچھ نگاہیں نیچی رکھنے کا ہے اور مراد ان چیزوں سے نگاہ نیچی رکھنا ہے جن کی طرف نگاہ بھر کر دیکھنا اللہ تعالیٰ نے حرام فرمایا ہے، مثلاً اپنی بیوی اور محرم رشتوں کے سوا عورتوں کو دیکھنا، کسی ڈاڑھی کے بغیر لڑکے کو شہوت کی نظر سے دیکھنا، یا کسی کا خط یا وہ چیز دیکھنا جسے وہ چھپانا چاہتا ہے وغیرہ۔ يَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِمْ : بلا ارادہ پڑنے والی پہلی نظر معاف ہے، گناہ اس نظر پر ہے جو جان بوجھ کر ڈالی جائے۔ نظر کا ذکر خصوصاً فرمایا، کیونکہ عموماً زنا کی ابتدا اس سے ہوتی ہے، ورنہ زنا سارے حواس ہی سے ہوتا ہے۔ ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( إِنَّ اللّٰہُ کَتَبَ عَلَی ابْنِ آدَمَ حَظَّہُ مِنَ الزِّنَا أَدْرَکَ ذٰلِکَ لَا مَحَالَۃَ فَزِنَا الْعَیْنِ النَّظَرُ وَ زِنَا اللِّسَانِ الْمَنْطِقُ وَالنَّفْسُ تَتَمَنّٰی وَ تَشْتَھِيْ وَالْفَرْجُ یُصَدِّقُ ذٰلِکَ کُلَّہُ وَ یُکَذِّبُہُ ) [ بخاري، الاستئذان، باب زنا الجوارح دون الفرج : ٦٢٤٣ ] ” اللہ تعالیٰ نے ابن آدم پر زنا میں سے اس کا حصہ لکھ دیا ہے، جسے وہ لامحالہ حاصل کرے گا، چناچہ آنکھ کا زنا دیکھنا ہے، زبان کا زنا بولنا ہے اور نفس تمنا اور خواہش کرتا ہے اور شرم گاہ اس کی تصدیق کرتی ہے یا تکذیب کردیتی ہے۔ “ جریر بن عبد اللہ (رض) فرماتے ہیں : ” میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اچانک نظر کے بارے میں پوچھا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے حکم دیا کہ میں اپنی نظر ہٹا لوں۔ “ [ مسلم، الآداب، باب نظر الفجاءۃ : ٢١٥٩ ] البتہ ضرورت کے لیے غیر محرم عورت کو دیکھ سکتا ہے، مثلاً اس سے نکاح کا ارادہ ہو، یا طبی ضرورت ہو، یا کسی حادثہ کی وجہ سے ضرورت پڑجائے۔ اللہ نے فرمایا : (وَقَدْ فَصَّلَ لَكُمْ مَّا حَرَّمَ عَلَيْكُمْ اِلَّا مَا اضْطُرِرْتُمْ اِلَيْهِ ) [ الأنعام : ١١٩ ] ” حالانکہ بلاشبہ اس نے تمہارے لیے وہ چیزیں کھول کر بیان کردی ہیں جو اس نے تم پر حرام کی ہیں، مگر جس کی طرف تم مجبور کردیے جاؤ۔ “ ابوسعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( لَا یَنْظُرُ الرَّجُلُ إِلٰی عَوْرَۃِ الرَّجُلِ وَلَا الْمَرْأَۃُ إِلٰی عَوْرَۃِ الْمَرْأَۃِ وَ لَا یُفْضِي الرَّجُلُ إِلَی الرَّجُلِ فِيْ ثَوْبٍ وَاحِدٍ وَلَا تُفْضِي الْمَرْأَۃُ إِلَی الْمَرْأَۃِ فِي الثَّوْبِ الْوَاحِدِ ) [ مسلم، الحیض، باب تحریم النظر إلی العورات : ٣٣٨ ] ” کوئی مرد دوسرے مرد کی شرم گاہ نہ دیکھے، نہ ہی کوئی عورت کسی عورت کی شرم گاہ دیکھے۔ نہ کوئی مرد کسی مرد کے ساتھ ایک کپڑے میں لیٹے اور نہ کوئی عورت کسی عورت کے ساتھ ایک کپڑے میں لیٹے۔ “ 3 مرد کے لیے اپنی بیوی یا لونڈی کے جسم کا ہر حصہ دیکھنا جائز ہے، اسی طرح بیوی کے لیے اپنے خاوند کے جسم کا اور لونڈی کے لیے اپنے مالک کے جسم کا ہر حصہ دیکھنا جائز ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (ھُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَاَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ ) [ البقرۃ : ١٨٧ ] ” وہ تمہارے لیے لباس ہیں اور تم ان کے لیے لباس ہو۔ “ ظاہر ہے کہ لباس سے جسم کا کوئی حصہ پوشیدہ نہیں رہتا۔ ابن ماجہ (٦٦٢) میں عائشہ (رض) سے مروی حدیث کہ میں نے کبھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شرم گاہ نہیں دیکھی، سند کے لحاظ سے ثابت نہیں، کیونکہ عائشہ (رض) سے روایت کرنے والا راوی مجہول ہے۔ اس کے برعکس عائشہ (رض) فرماتی ہیں : ” میں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک ہی برتن سے غسل کرتے تھے، ہمارے ہاتھ اس میں باری باری آتے جاتے تھے۔ “ ایک روایت میں ہے : ” ہم جنبی ہوتے تھے۔ “ [ بخاري، الغسل، باب ھل یدخل الجنب یدہ۔۔ : ٢٦١، ٢٦٣ ] وَيَحْفَظُوْا فُرُوْجَهُمْ ۭ : یہاں ” مِنْ “ استعمال نہیں فرمایا کہ اپنی کچھ شرم گاہوں کی حفاظت کریں، بلکہ فرمایا، اپنی شرم گاہوں کی مکمل حفاظت کریں، کیونکہ نظر سے مکمل بچاؤ ممکن نہ تھا۔ اِنَّ اللّٰهَ خَبِيْرٌۢ بِمَا يَصْنَعُوْنَ : وہ اس حکم پر عمل کرنے والوں کو جزا دے گا اور عمل نہ کرنے والوں کو سزا دے گا، خواہ ان کی نیکی یا بدی سے کوئی آگاہ ہو یا آگاہ نہ ہو، جو کچھ وہ کر رہے ہیں اللہ تعالیٰ اس سے پوری طرح واقف ہے۔ فرمایا : (يَعْلَمُ خَاۗىِٕنَةَ الْاَعْيُنِ وَمَا تُخْفِي الصُّدُوْرُ ) [ المؤمن : ١٩ ] ” وہ آنکھوں کی خیانت کو جانتا ہے اور اسے بھی جو سینے چھپاتے ہیں۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary An important chapter for the prevention of obscenity and security of chastity: Hijab for women The very first verses on the subject of hijab for women are the ones which were revealed in Surah Ahzab at the time of marriage of the mother of the believers Sayyidah Zainab bint Jahash (رض) with the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . Some have given the date of revelation of these verses as 3rd Hijra while others say it was 5th Hijra. Tafsir Ibn Kathir and Nail Al-Autar have given preference to the latter date, while Ruh ul-Mani has reported on the authority of Sayyidna Anas (رض) that this marriage was solemnized in Dhulqa&dah 5th Hijra. But it is an agreed position that the first verse on Hijab was revealed on this occasion. As for the above referred verses of Surah an-Nur, they were revealed at the time of incident of Ifk, which had happened on return from the battle of Bani Mustaliq or Muraisi`. This battle had taken place in the 6th Hijra. Hence, it is clear from the revelation point of view that Surah An-Nur&s verses on hijab were revealed later, and Surah Ahzab&s four verses were revealed earlier, and that the practice on the injunction of hijab had started when the verses of Surah Alhzab were revealed. The subject of hijab will be discussed Insh’ Allah in detail under Surah Ahzab. Here the explanation will be restricted to only those verses which appear in Surah an-Nur. قُل لِّلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِ‌هِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُ‌وجَهُمْ ۚ ذَٰلِكَ أَزْكَىٰ لَهُمْ ۗ إِنَّ اللَّـهَ خَبِيرٌ‌ بِمَا يَصْنَعُونَ ﴿٣٠﴾ Say to the believing men that they must lower their gazes andguard their private parts; it is more decent for them. Surely Allah is All-Aware of what they do. (24:30) The word يَغُضُّ (yaghuddu) is derived from غضّ (ghadd), which means to bring down or to lower, (Raghib) lowering of eyes or to keep eyes down as enjoined in the verse, means to turn the eyes from something which is prohibited to be seen by Shari` ah (Ibn Kathir). Ibn Hibban has given the explanation that to look at a non-Mahram woman with intent to have (sexual) pleasure is totally prohibited, and to look without any such motive is makruh (undesirable). To look at any woman&s or man&s private parts of the body is included in this explanation (except in case of dire necessity, such as medical examination). Peeping into anyone&s house with the intent of finding out his secrets, and all such acts where looking is prohibited by Shari` ah are all included in the injunction. (24:30) وَيَحْفَظُوا فُرُ‌وجَهُمْ Protection of private parts is purported to express that all possible situations of satisfying unlawful sexual desires be guarded against. In this, adultery, sodomy, lesbian act, masturbation and all such acts that fulfill unlawful lust and passions are prohibited. The purpose of the verse is to prohibit all illicit acts for fulfilling unlawful passions. For this purpose the initial and the ultimate acts have been mentioned rather clearly, and all those actions which fall in between them are also included in the prohibition. For unlawful sexual passion the very first act is casting eye with bad motive and its ultimate result is adultery. Both these acts have been mentioned clearly and are prohibited. All other acts falling in between, such as touching hands or having conversation, are included by implication. Ibn Kathir has related Sayyidna ` Ubaidah (رض) having said . کُلّ ما عصی اللہ بہ فھو کبیرۃ وقد ذکر الطفین that is ` Any act done in disobedience to Allah is a major sin, but the initial and ultimate acts are mentioned at the two ends of the verse&. The initial act is to cast eye, and the ultimate is adultery. Tabarani has quoted Sayyidna ` Abdullah Ibn Masud (رض) that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) once said: النظر سھم من سھام ابلیس مسموم من ترکھا مخافتی ابدلتہ ایمانا یجد حلاوۃ فی قلبہ (از ابن کثیر) ` Casting eye is a poisonous arrow among the arrows of Satan. Whoever turns away his eye fearing from Me (despite demand of the heart), I will give him such strong faith, the delight of which he will feel in his heart&. (Ibn Kathir) It is reported in Sahih Muslim on the authority of Sayyidna Jarir Ibn ` Abdullah al-Bajali (رض) that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has advised what should one do if by chance one&s eye is cast on a non-Mahram woman. He has quoted the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) as saying ` Turn away your eyes from there&. (Ibn Kathir). Sayyidna Ali (رض) has said that first sight is forgivable, but casting eye a second time is sin. Both versions are alike, that is, if one casts his eye by chance without intention, it is forgiven being not intentional, otherwise it is prohibited to cast the eye intentionally, even the first time. To stare intentionally at boys having no beard also falls within this ruling Ibn Kathir has reported that many elders of the Ummah used to forbid forcefully staring at young boys (having no beard), and many scholars have declared it as forbidden (Perhaps it is in a situation when one looks with bad intention and passionate desire. God knows best)

خلاصہ تفسیر حکم ششم عورتوں کے پردہ کے احکام : آپ مسلمان مردوں سے کہہ دیجئے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں (یعنی جس عضو کی طرف مطلقاً دیکھنا ناجائز ہے اس کو بالکل نہ دیکھیں اور جس کو فی نفسہ دیکھنا جائز ہے مگر شہوت سے جائز نہیں اس کو شہوت سے نہ دیکھیں) اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں (یعنی ناجائز محل میں شہوت رانی نہ کریں جس میں زنا اور لواطت سب داخل ہے) یہ ان کے لئے زیادہ صفائی کی بات ہے (اور اس کے خلاف میں آلودگی ہے زنا یا مقدمہ زنا میں) بیشک اللہ تعالیٰ کو سب خبر ہے جو کچھ لوگ کیا کرتے ہیں (پس خلاف کرنے والے سزا یابی کے مستحق ہوں گے) اور (اسی طرح) مسلمان عورتوں سے کہہ دیجئے کہ (وہ بھی) اپنی نگاہیں نیچی رکھیں (یعنی جس عضو کی طرف مطلقاً دیکھنا ناجائز ہے اس کو بالکل نہ دیکھیں اور سج کو فی نفسہ دیکھنا جائز ہے مگر شہوت سے جائز نہیں اس کو شہوت سے نہ دیکھیں) اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں (یعنی ناجائز محل میں شہوت رانی نہ کریں جس میں زنا و سحاق سب داخل ہے) اور اپنی زینت (کے مواقع) کو ظاہر نہ کریں (زینت سے مراد زیور جیسے کنگن، چوڑی، خلخال، بازو بند طوق، جھومر، پٹی، بالیاں وغیرہ اور ان کے مواقع سے مراد ہاتھ پنڈلی، بازو، گردن، سر، سینہ کان، یعنی ان سب مواقع کو سب سے چھپائے رکھیں بلحاظ دو استثناؤں کے جو آگے آتے ہیں اور جب ان مواقع کو اجانب سے پوشیدہ رکھنا واجب ہے جن کا ظاہر کرنا محارم کی روبرو جائز ہے جیسا آگے آتا ہے تو اور مواقع و اعضاء جو بدن کے رہ گئے جیسے پشت و شکم وغیرہ جن کا کھولنا محارم کے روبرو بھی جائز نہیں ان کا پوشیدہ رکھنا بدلالۃ النص واجب ہوگیا۔ حاصل یہ ہوا کہ سر سے پاؤں تک تمام بدن اپنا پوشیدہ رکھیں۔ دو استثناء جن کا ذکر اوپر آیا ہے ان میں سے پہلا استثناء مواقع ضرورت کے لحاظ سے ہے کہ روز مرہ کے کام کاج میں جن اعضاء کے کھولنے کی ضرورت ہوتی ہے ان کو مستثنیٰ قرار دیا گیا اس کی تفصیل یہ ہے) مگر جو اس (موقع زینت) میں سے (غالباً ) کھلا (ہی) رہتا ہے (جس کے چھپانے میں ہر وقت حرج ہے مراد اس موقع زینت سے چہرہ اور ہاتھ کی ہتھیلیاں اور اصح قول کے مطابق دونوں قدم بھی، کیونکہ چہرہ تو قدرتی طور پر مجمع زینت ہے اور بعض زینتیں قصداً بھی اس میں کی جاتی ہیں مثل سرمہ وغیرہ اور ہتھیلیاں اور انگلیاں انگوٹھی چھلے مہندی کا موقع ہے اور قدمین بھی چھلوں اور مہندی کا موقع ہے پس ان مواقع کو اس ضرورت سے مستثنیٰ فرمایا ہے کہ ان کو کھولے بغیر کام کاج نہیں ہوسکتا اور مَا ظَهَرَ کی تفسیر وجہ اور کفین کے ساتھ حدیث میں آئی ہے اور قدمین کو فقہاء نے اس پر قیاس کر کے اس حکم میں شامل قرار دیا ہے) اور (خصوصاً سر اور سینہ ڈھکنے کا بہت اہتمام کریں اور) اپنے دوپٹے (جو سر ڈھانکنے کے لئے ہیں) اپنے سینوں پر ڈالے رہا کریں (گو سینہ قمیض سے ڈھک جاتا ہے لیکن اکثر قمیض میں سامنے سے گریبان کھلا رہتا ہے اور سینہ کی ہئیت قمیض کے باوجود ظاہر ہوتی ہے اس لئے اہمتام کی ضرورت ہوئی آگے دوسرا استثناء بیان کیا جاتا ہے جن میں محرم مردوں وغیرہ کو پردہ کے حکم مذکور سے مستثنی کیا گیا ہے) اور اپنی زینت ( کے مواقع مذکورہ) کو (کسی پر) ظاہر نہ ہونے دیں مگر اپنے شوہروں پر یا (اپنے محارم پر یعنی) اپنے باپ پر یا اپنے شوہر کے باپ پر یا اپنے بیٹیوں پر یا اپنے شوہر کے بیٹوں پر اپنے (حقیقی و علاتی و اخیافی) بھائیوں پر (نہ کہ چچا زاد ماموں زاد وغیرہ بھائیوں پر) یا اپنے (مذکورہ) بھائیوں کے بیٹوں پر اپنی (حقیقی و علاتی و اخیافی) بہنوں کے بیٹوں پر (نہ کہ چچا زاد خالہ زاد بہنوں کی اولاد پر) یا اپنی (یعنی دین کی شریک) عورتوں پر (مطلب یہ کہ مسلمان عورتوں پر کیونکہ کافر عورتوں کا حکم مثل اجنبی مرد کے ہے رواہ فی الدر عن طاؤس و مجاہد وعطاء و سعید بن المسیب و ابراہیم) یا اپنی لونڈیوں پر (مطلقاً گو وہ کافر ہی ہوں کیونکہ مرد غلام کا حکم ابوحنیفہ کے نزدیک مثل اجنبی مرد کے ہے اس سے بھی پردہ واجب ہے رواہ فی الدر عن طاؤس و مجاہد وعطاء و سعید بن المسیب و ابراہیم) یا ان مردوں پر جو (محض کھانے پینے کے واسطے) طفیلی (کے طور پر رہتے) ہوں اور ان کو (بوجہ حواس درست نہ ہونے کے عورتوں کی طرف) ذرا توجہ نہ ہو (تابعین کی تخصیص اس لئے ہے کہ اس وقت ایسے ہی لوگ موجود تھے کذا فی الدر عن ابن عباس اور اسی حکم میں ہے ہر مسلوب العقل پس مدار حکم کا سلب حواس پر ہے نہ کہ تابع اور طفیلی ہونے پر مگر اس وقت وہ تابع ایسے ہی تھے اس لئے تابع کا ذکر کردیا گیا لقول ابن عباس، فی الدر مغفل فی عقلہ احمق لا بکترث للنساء اور جو سمجھ رکھتا ہو تو وہ بہرحال اجنبی مرد ہے گو بوڑھا یا خصی یا محبوب ہی کیوں نہ ہو اس سے پردہ واجب ہے) یا ایسے لڑکوں پر جو عورتوں کے پردہ کی باتوں سے ابھی واقف نہیں ہوئے ( مراد وہ بچے ہیں جو ابھی بلوغ کے قریب نہیں پہنچے اور انہیں شہوت کی کچھ خبر نہیں پس ان سب کے سامنے وجہ و کفین و قدمین کے علاوہ زینت کے مواقع مذکورہ کا ظاہر کرنا بھی جائز ہے یعنی سر اور سینہ اور شوہر کے روبر کسی جگہ کا بھی اخفاء واجب نہیں گو خاص بدن کو دیکھنا خلاف اولی ہے قالت سیدتنا ام المومنین عائشہ ما محصلہ لم ار منہ ولم یرمنی ذلک الموضع اور دہ فی المشکوة وروی بقی بن مخلد و ابن عدی عن ابن عباس مرفوعا اذا جامع احدکم زوجتہ او جاریتہ فلا ینظر الی فرجھا فان ذلک یورث العمی قال ابن صلاح جید الاسناد کذا فی الجامع الصغیر) اور (پردے کا یہاں تک اہتمام رکھیں کہ چلنے میں) اپنے پاؤں زور سے نہ رکھیں کہ ان کا مخفی زیور معلوم ہوجائے (یعنی زیور کی آواز غیر محرموں کے کان تک پہنچے) اور مسلمانو (تم سے جو ان احکام میں کوتاہی ہوگئی ہو تو) تم سب اللہ تعالیٰ کے سامنے توبہ کرو تاکہ تم فلاح پاؤ (ورنہ معصیت مانع فلاح کامل ہوجاتی ہے۔ ) معارف و مسائل انسداد فواحش اور حفاظت عصمت کا ایک اہم باب پردہ نسواں : عورتوں کے لئے حجاب اور پردہ کے احکام کی پہلی آیات وہ ہیں جو سورة احزاب میں ام المومنین حضرت زینب بنت جحش کے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عقد نکاح میں آنے کے وقت نازل ہوئیں جس کی تاریخ بعض حضرات نے ٠٣ ہجری اور بعض نے ٥ ھجری بتلائی ہے تفسیر ابن کثیر اور نیل الاوطار میں ٥ ہجری کو ترجیح دی ہے اور روح المعانی میں حضرت انس سے روایت نقل کی ہے کہ ذی قعدہ ٥ ہجری میں یہ عقد ہوا ہے اور اس پر سب کا اتفاق ہے کہ پہلی آیت حجاب اسی موقع پر نازل ہوئی اور سورة نور کی یہ آیات قصہ افک کے ساتھ نازل ہوئی ہیں جو غزوہ بن المصطلق یا مریسیع سے واپسی میں پیش آیا یہ غزوہ ٦ ہجری میں ہوا ہے اس سے معلوم ہوا کہ سورة نور کی آیات پردہ و حجاب نزول کے اعتبار سے بعد میں آئی ہیں سورة احزاب کی چار آیتیں متعلقہ حجاب نزول کے اعتبار سے مقدم ہیں اور شرعی پردہ کے احکام اسی وقت سے شروع ہوئے جبکہ سورة احزاب کی آیات نازل ہوئیں، اس لئے حجاب اور پردہ کی پوری بحث تو انشاء اللہ تعالیٰ سورة احزاب میں آوے گی یہاں صرف ان آیات کی تفسیر لکھی جاتی ہے جو سورة نور میں آئی ہیں۔ قُلْ لِّلْمُؤ ْمِنِيْنَ يَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوْا فُرُوْجَهُمْ ۭ ذٰلِكَ اَزْكٰى لَهُمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ خَبِيْرٌۢ بِمَا يَصْنَعُوْنَ ، یغضوا، غض سے مشتق ہے جس کے معنی کم کرنے اور پست کرنے کے ہیں (راغب) نگاہ پست اور نیچی رکھنے سے مراد نگاہ کو ان چیزوں سے پھیرلینا ہے جن کی طرف دیکھنا شرعاً ممنوع و ناجائز ہے۔ ابن کثیر ابن حبان نے یہی تفسیر فرمائی ہے اس میں غیر محرم عورت کی طرف بری نیت سے دیکھنا تحریماً اور بغیر کسی نیت کے دیکھنا کر اہتہ داخل ہے اور کسی عورت یا مرد کے ستر شرعی پر نظر ڈالنا بھی اس میں داخل ہے (مواضع ضرورت جیسے علاج معالجہ وغیرہ اس سے مستثنی ہیں) کسی کا راز معلوم کرنے کے لئے اس کے گھر میں جھانکنا اور تمام وہ کام جن میں نگاہ کے استعمال کرنے کو شریعت نے ممنوع قرار دیا ہے اس میں داخل ہیں۔ وَيَحْفَظُوْا فُرُوْجَهُمْ ، شرمگاہوں کی حفاظت سے مراد یہ ہے کہ نفس کی خواہش پورا کرنے کی جتنی ناجائز صورتیں ہیں ان سب سے اپنی شرمگاہوں کو محفوظ رکھیں۔ اس میں زنا، لواطت اور دو عورتوں کا باہمی سحاق جس سے شہوت پوری ہوجائے، ہاتھ سے شہوت پوری کرنا یہ سب ناجائز و حرام چیزیں داخل ہیں۔ مراد اس آیت کی ناجائز حرام شہوت رانی اور اس کے تمام مقدمات کو ممنوع کرنا ہے جن میں سے ابتدا اور انتہا کو تصریحاً بیان فرما دیا باقی درمیانی مقدمات سب اس میں داخل ہوگئے۔ فتنہ شہوت کا سب سے پہلا سبب اور مقدمہ نگاہ ڈالنا اور دیکھنا ہے اور آخری نتیجہ زنا ہے ان دونوں کو صراحة ذکر کر کے حرام کردیا گیا ان کے درمیانی حرام مقدمات مثلاً باتیں سننا، ہاتھ لگانا وغیرہ یہ سب ضمناً آگئے۔ ابن کثیر نے حضرت عبیدہ سے نقل کیا ہے کہ کل ما عصی اللہ بہ فھو کبیرة وقد ذکر الطرفین۔ یعنی جس چیز سے بھی اللہ کے حکم کی مخالفت ہوتی ہو سب کبیرہ ہی ہیں لیکن آیت میں ان کے دو طرف ابتداء و انتہاء کو ذکر کردیا گیا۔ ابتداء نظر اٹھا کر دیکھنا اور انتہا زنا ہے۔ طبرانی نے حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ النظر سھم من سھام ابلیس مسموم من ترکھا مخافتی ابدلتہ ایمانا یجدہ حلاوتہ فی قلبہ (از ابن کثیر) نظر ایک زہریلا تیر شیطان کے تیروں میں سے ہے جو شخص باوجود دل کے تقاضے کے اپنی نظر پھیر لے تو میں اس کے بدلے اس کو ایسا پختہ ایمان دوں گا جس کی لذت وہ اپنے قلب میں محسوس کرے گا۔ اور صحیح مسلم میں حضرت جریر بن عبداللہ بجلی سے روایت ہے کہ انہوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کیا اگر بلا ارادہ اچانک کسی غیر محرم عورت پر نظر پڑجائے تو کیا کرنا چاہئے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم دیا کہ اپنی نظر اس طرف سے پھیر لو (ابن کثیر) حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی حدیث میں جو یہ آیا ہے کہ پہلی نظر تو معاف ہے دوسری گناہ ہے، اس کا مطلب بھی یہی ہے کہ پہلی نظر جو بلا ارادہ اچانک پڑجائے وہ غیر اختیاری ہونے کے سبب معاف ہے ورنہ بالقصد پہلی نظر بھی معاف نہیں۔ بے ریش لڑکوں کی طرف قصداً نظر کرنا بھی اسی حکم میں ہے : ابن کثیر نے لکھا ہے کہ بہت سے اسلاف امت کسی امرو (بےریش) لڑکے کی طرف دیکھتے رہنے سے بڑی سختی کے ساتھ منع فرماتے تھے اور بہت سے علماء نے اس کو حرام قرار دیا ہے (غالباً یہ اس صورت میں ہے جبکہ بری نیت اور نفس کی خواہش کے ساتھ نظر کی جائے واللہ اعلم۔ ش)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قُلْ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ يَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِہِمْ وَيَحْفَظُوْا فُرُوْجَہُمْ۝ ٠ۭ ذٰلِكَ اَزْكٰى لَہُمْ۝ ٠ ۭ اِنَّ اللہَ خَبِيْرٌۢ بِمَا يَصْنَعُوْنَ۝ ٣٠ قول القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ، ( ق و ل ) القول القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ أمن والإِيمان يستعمل تارة اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ويقال لكلّ واحد من الاعتقاد والقول الصدق والعمل الصالح : إيمان . قال تعالی: وَما کانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمانَكُمْ [ البقرة/ 143] أي : صلاتکم، وجعل الحیاء وإماطة الأذى من الإيمان قال تعالی: وَما أَنْتَ بِمُؤْمِنٍ لَنا وَلَوْ كُنَّا صادِقِينَ [يوسف/ 17] قيل : معناه : بمصدق لنا، إلا أنّ الإيمان هو التصدیق الذي معه أمن، وقوله تعالی: أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيباً مِنَ الْكِتابِ يُؤْمِنُونَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوتِ [ النساء/ 51] فذلک مذکور علی سبیل الذم لهم، ( ا م ن ) الامن الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ { وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ } ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلما ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست (2 ۔ 62) میں امنوا کے یہی معنی ہیں اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید ہوۃ کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ اور کبھی ایمان کا لفظ بطور مدح استعمال ہوتا ہے اور اس سے حق کی تصدیق کرکے اس کا فرمانبردار ہوجانا مراد ہوتا ہے اور یہ چیز تصدیق بالقلب اقرار باللسان اور عمل بالجوارح سے حاصل ہوتی ہے اس لئے فرمایا ؛۔ { وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللهِ وَرُسُلِهِ أُولَئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ } ( سورة الحدید 19) اور جو لوگ خدا اور اس کے پیغمبر پر ایمان لائے ہیں روہی صدیق میں یہی وجہ ہے کہ اعتقاد قول صدق اور عمل صالح میں سے ہر ایک کو ایمان کہا گیا ہے چناچہ آیت کریمہ :۔ { وَمَا كَانَ اللهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ } ( سورة البقرة 143) ۔ اور خدا ایسا نہیں کہ تمہارے ایمان کو یوں ہی کھودے (2 ۔ 143) میں ایمان سے مراد نماز ہے اور (16) آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حیا اور راستہ سے تکلیف کے دور کرنے کو جزو ایمان قرار دیا ہے اور حدیث جبرائیل میں آنحضرت نے چھ باتوں کو کو اصل ایمان کہا ہے اور آیت کریمہ ؛۔ { وَمَا أَنْتَ بِمُؤْمِنٍ لَنَا وَلَوْ كُنَّا صَادِقِينَ } ( سورة يوسف 17) اور آپ ہماری بات کو گو ہم سچ ہی کہتے ہوں باور نہیں کریں گے (12 ۔ 17) میں مومن بمعنی مصدق ہے ۔ لیکن ایمان اس تصدیق کو کہتے ہیں جس سے اطمینان قلب حاصل ہوجائے اور تردد جاتا رہے اور آیت کریمہ :۔ { أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيبًا مِنَ الْكِتَابِ } ( سورة النساء 44 - 51) من ان کی مذمت کی ہے کہ وہ ان چیزوں سے امن و اطمینان حاصل کرنا چاہتے ہیں جو باعث امن نہیں ہوسکتیں کیونکہ انسان فطری طور پر کبھی بھی باطل پر مطمئن نہیں ہوسکتا ۔ غض الغَضُّ : النّقصان من الطّرف، والصّوت، وما في الإناء . يقال : غَضَّ وأَغَضَّ. قال تعالی: قُلْ لِلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصارِهِمْ [ النور/ 30] ، وَقُلْ لِلْمُؤْمِناتِ يَغْضُضْنَ [ النور/ 31] ، وَاغْضُضْ مِنْ صَوْتِكَ [ لقمان/ 19] ، وقول الشاعر : فَغُضَّ الطّرفَ إنّك من نمیر فعلی سبیل التّهكّم، وغَضَضْتُ السّقاء : نقصت ممّا فيه، والْغَضُّ : الطّريّ الذي لم يطل مكثه . ( ع ض ض ) الغض ( ن ) کے معنی کمی کرنے کے ہیں خواہ نظر اور صور میں ہو یا کسی برتن میں سے کچھ کم کرنے کی صورت میں ہو قرآن میں ہے : ۔ قُلْ لِلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصارِهِمْ [ النور/ 30] مومن مردوں سے کہ دو کہ اپنی نظریں نیچی رکھا کریں ۔ وَقُلْ لِلْمُؤْمِناتِ يَغْضُضْنَ [ النور/ 31] اور مومن عورتوں سے بھی کہدو ( کہ اپنی نگاہیں ) نیچی رکھا کریں وَاغْضُضْ مِنْ صَوْتِكَ [ لقمان/ 19] اور بولتے وقت ) آواز نیچی رکھنا ۔ اور شاعر کے قول ( 328 ) فغض الطرف انک من نمیر نگاہ نیچی رکھ تو بنی نمیر سے ہے ) میں غض کا لفظ بطور نہي کم استعمال ہوا ہے غضضت السقاء میں نے مشک سے پانی کم کردیا اور غض ایسی تر اور تازہ چیز کو کہتے ہیں جس پر ابھی زیادہ عرصہ نہ گزرا ہو ۔ بصر البَصَر يقال للجارحة الناظرة، نحو قوله تعالی: كَلَمْحِ الْبَصَرِ [ النحل/ 77] ، ووَ إِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب/ 10] ( ب ص ر) البصر کے معنی آنکھ کے ہیں جیسے فرمایا ؛کلمح البصر (54 ۔ 50) آنکھ کے جھپکنے کی طرح ۔ وَ إِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب/ 10] اور جب آنگھیں پھر گئیں ۔ نیز قوت بینائی کو بصر کہہ لیتے ہیں اور دل کی بینائی پر بصرہ اور بصیرت دونوں لفظ بولے جاتے ہیں قرآن میں ہے :۔ فَكَشَفْنا عَنْكَ غِطاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق/ 22] اب ہم نے تجھ پر سے وہ اٹھا دیا تو آج تیری نگاہ تیز ہے ۔ حفظ الحِفْظ يقال تارة لهيئة النفس التي بها يثبت ما يؤدي إليه الفهم، وتارة لضبط الشیء في النفس، ويضادّه النسیان، وتارة لاستعمال تلک القوة، فيقال : حَفِظْتُ كذا حِفْظاً ، ثم يستعمل في كلّ تفقّد وتعهّد ورعاية، قال اللہ تعالی: وَإِنَّا لَهُ لَحافِظُونَ [يوسف/ 12] ( ح ف ظ ) الحفظ کا لفظ کبھی تو نفس کی اس ہیئت ( یعنی قوت حافظہ ) پر بولا جاتا ہے جس کے ذریعہ جو چیز سمجھ میں آئے وہ محفوظ رہتی ہے اور کبھی دل میں یاد ررکھنے کو حفظ کہا جاتا ہے ۔ اس کی ضد نسیان ہے ، اور کبھی قوت حافظہ کے استعمال پر یہ لفظ بولا جاتا ہے مثلا کہا جاتا ہے ۔ حفظت کذا حفظا یعنی میں نے فلاں بات یاد کرلی ۔ پھر ہر قسم کی جستجو نگہداشت اور نگرانی پر یہ لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَإِنَّا لَهُ لَحافِظُونَ [يوسف/ 12] اور ہم ہی اس کے نگہبان ہیں ۔ فرج الفَرْجُ والفُرْجَةُ : الشّقّ بين الشّيئين کفرجة الحائط، والفَرْجُ : ما بين الرّجلین، وكنّي به عن السّوأة، وکثر حتی صار کالصّريح فيه . قال تعالی: وَالَّتِي أَحْصَنَتْ فَرْجَها [ الأنبیاء/ 91] ، لِفُرُوجِهِمْ حافِظُونَ [ المؤمنون/ 5] ، وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ [ النور/ 31] ، واستعیر الفَرْجُ للثّغر وكلّ موضع مخافة . وقیل : الفَرْجَانِ في الإسلام : التّرک والسّودان «1» ، وقوله : وَما لَها مِنْ فُرُوجٍ [ ق/ 6] ، أي : شقوق وفتوق، قال : وَإِذَا السَّماءُ فُرِجَتْ [ المرسلات/ 9] ، أي : انشقّت، والفَرَجُ : انکشاف الغمّ. يقال : فَرَّجَ اللہ عنك، وقوس فَرْجٌ: انفرجت سيتاها، ورجل فَرْجٌ: لا يكتم سرّه، وفَرَجٌ: لا يزال ينكشف فرجه «2» ، وفَرَارِيجُ الدّجاج لانفراج البیض عنها، ودجاجة مُفْرِجٌ: ذات فراریج، والْمُفْرَجُ : القتیل الذي انکشف عنه القوم فلا يدری من قتله . ( ف ر ج ) & الفرج والفرجہ کے معنی دوچیزوں کے درمیان شگاف کے ہیں ۔ جیسے دیوار میں شگاف یا دونوں ٹانگوں کے درمیان کی کشادگی اور کنایہ کے طور پر فرج کا لفظ شرمگاہ پر بولا جاتا ہے اور کثرت استعمال کی وجہ سے اسے حقیقی معنی سمجھا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ وَالَّتِي أَحْصَنَتْ فَرْجَها [ الأنبیاء/ 91] اور ان ( مریم ) کو ( بھی یاد کرو جنہوں نے اپنی عصمت کو محفوظ رکھا ۔ لِفُرُوجِهِمْ حافِظُونَ [ المؤمنون/ 5] اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں ۔ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ [ النور/ 31] اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کیا کریں ۔ اور استعارہ کے طور سر حد اور ہر خطرہ کی جگہ کو فرج کیا جاتا ہے اور بعض نے کہا ہے کہ اسلامی دور حکومت میں فرجان کا لفظ ترک اور سوڈان پر بولا جاتا تھا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَما لَها مِنْ فُرُوجٍ [ ق/ 6] اور اس میں کہیں شگاف تک نہیں ۔ میں فروج بمعنی شگاف ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَإِذَا السَّماءُ فُرِجَتْ [ المرسلات/ 9] اور جب آسمان پھٹ جائے ۔ میں فرجت بمعنی انشقت ہے یعنی جب آسمان شق ہوجائے گا ۔ الفرج کے معنی غم دور ہونیکے ہیں چناچہ محاورہ ہے ۔ فرج اللہ عنک اللہ تجھ سے غم کو دور کرے اور قوس فرج اس کمان کو کہتے ہیں جس کے دونوں گوشے کشادہ ہوں ۔ جیسا کہ تانت سے علیدہ ہونے کی حالت میں اور جو شخص اپنا بھید نہ چھپائے اس کو فرج کہا جاتا ہے اور فرج اس شخص کو کہتے ہیں جس کی شرمگاہ پر ستر یعنی پردہ نہ ہو ۔ فراریج الدجامرغی کے چوزے کیونکہ وہ انڈوں سے نکتے ہیں اور چوزوں والی مرغی کو مفرج کہا جاتا ہے المفروج وہ قتیل جس سے لوگ دور ہوجائیں اور اس کے قاتل کا علم نہ ہوسکے ۔ خبیر والخَبِيرُ : الأكّار فيه، والخبر «3» : المزادة العظیمة، وشبّهت بها النّاقة فسمّيت خبرا، وقوله تعالی: وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِما تَعْمَلُونَ [ آل عمران/ 153] ، أي : عالم بأخبار أعمالکم، ( خ ب ر ) الخبر کسان کو ِِ ، ، خبیر ، ، کہاجاتا ہے ۔ الخبر۔ چھوٹا توشہ دان ۔ تشبیہ کے طور پر زیادہ دودھ دینے والی اونٹنی کو بھی خبر کہاجاتا ہے اور آیت کریمہ :۔ وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِما تَعْمَلُونَ [ آل عمران/ 153] اور جو کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کی حقیقت کو جانتا ہے ۔ صنع الصُّنْعُ : إجادةُ الفعل، فكلّ صُنْعٍ فِعْلٌ ، ولیس کلّ فعل صُنْعاً ، ولا ينسب إلى الحیوانات والجمادات کما ينسب إليها الفعل . قال تعالی: صُنْعَ اللَّهِ الَّذِي أَتْقَنَ كُلَّ شَيْءٍ [ سورة النمل/ 88] ، وَيَصْنَعُ الْفُلْكَ [هود/ 38] ، ( ص ن ع ) الصنع ( ف) کے معنی کسی کام کو ( کمال مہارت سے ) اچھی طرح کرنے کے ہیں اس لئے ہر صنع کو فعل کہہ سکتے ہیں مگر ہر فعل کو صنع نہیں کہہ سکتے اور نہ ہی لفظ فعل کی طرح حیوانات اور جمادات کے لئے بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ صُنْعَ اللَّهِ الَّذِي أَتْقَنَ كُلَّ شَيْءٍ [ سورة النمل/ 88] یہ خدا کی صنعت کاری ہے جس نے ہر چیز کو نہایت مہارت سے محکم طور پر بنایا ۔ وَيَصْنَعُ الْفُلْكَ [هود/ 38] تو نوح (علیہ السلام) نے کشتی بنائی شروع کردی ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

محرمات سے غض بصر کے وجوب کا بیان قول باری ہے : (قل للمومنین یغضوا من ابصارھم ویحفظو افرجھم) مومن مردوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ ظاہر آیت سے جو بات سمجھ میں آتی ہے وہ یہی ہے کہ ہمیں ان تمام چیزوں سے نظریں بچا کر رکھنے کا حکم دیا گیا ہے جن پر نظر ڈالنا حرام ہے۔ آیت کی عبارت میں اسے مخذوف رکھا گیا ہے اور اس کی مراد سے مخاطبین کے علم پر اکتفا کرلیا گیا ہے۔ محمد بن اسحاق نے محمد بن ابراہیم سے روایت کی ہے، انہوں نے سلمہ بن ابی الطفیل سے اور انہوں نے حضرت علی (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے فرمایا : ” علی ! تمہارے لئے جنت میں ایک بڑا خزاہ ہے جس سے تمہیں ایک بڑا حصہ ملے گا۔ تم پہلی نظر کے بعد دوسری نظر نہ ڈالو، کیونکہ پہلی نظر معاف ہے لیکن دوسری نظر معاف نہیں ہے۔ “ الربیع بن صبیح نے حسن سے اور انہوں نے حضرت انس سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اے ابن آدم ! پہلی نظر معاف ہے لیکن دوسری نظر سے بچو۔ “ ابوزرعہ نے حضرت جریر (رض) سے روایت کی ہے کہ انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اچانک نظر پڑجانے کے متعلق دریافت کیا تھا تو آپ نے انہیں فوراً اپنی نظر پھیر لینے کا حکم دیا تھا۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد میں جس پہلی نظر کا ذکر ہے اس سے وہ نظر مراد ہے جو قصداً نہ ڈالی جائے۔ اگر قصداً ڈالی جائے گی تو اس پہلی نظر اور دوسری نظر دوں کی حیثیت یکساں ہوگی۔ حضرت جریر (رض) نے اچانک نظر پڑجانے کے متعلق حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جو مسئلہ دریافت کیا تھا یہ بات اس پر محمول ہے۔ اس کی مثال یہ قول باری ہے : (ان السمع والبصر والقود کل اولئک کان عنہ مسئولا) بیشک کان، آنکھ اور دل سب ہی کی باز پرس ہونی ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣٠) اور آپ مسلمان مردوں سے فرما دیجیے کہ وہ حرام چیزوں کے دیکھنے سے اپنی نگاہیں روکے رکھیں اور حرام کام سے اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں یہ آنکھ اور شرم گاہ کی حفاظت ان کے لیے زیادہ درستگی اور نیکی کا باعث ہے اور نیکی اور بدی جو کچھ تم کرتے ہو اللہ تعالیٰ سب سے باخبر ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

29. The word ghadd means to reduce, shorten or lower down something. Accordingly, ghadd basar is generally translated as lowering the gaze or keeping it lowered. But the command of ghadd basar does not imply that the gaze should always be kept lowered. It only means to imply that one should restrain his gaze and avoid casting of looks freely. That is, if it is not desirable to see a thing, one should turn the eyes away and avoid having a look at it. The restriction of a restrained gaze is applicable only in a limited sphere. The context in which the words occur shows that this restriction applies to the men’s gazing at women, or casting looks at the satar of the other persons, or fixing the eyes at indecent scenes. The details of this divine commandment as explained in the Sunnah of the Prophet (peace be upon him) are given below. (1) It is not lawful for a man to cast a full gaze at the other women except at his own wife or the mahram women of his family. The chance look is pardonable but not the second look which one casts when one feels the lure of the object. The Prophet (peace be upon him) has termed such gazing and glancing as wickedness of the eyes. He has said that man commits adultery with all his sensory organs. The evil look at the other woman is the adultery of the eyes; lustful talk is the adultery of the tongue; relishing the other woman’s voice is adultery of the ears; and touching her body with the hand or walking for an unlawful purpose is adultery of the hands and feet. After these preliminaries the sexual organs either bring the act of adultery to completion or leave it incomplete. (Bukhari, Muslim, Abu Daud). According to a tradition related by Buraidah, the Prophet (peace be upon him) instructed Ali: O Ali, do not cast a second look after the first look. The first look is pardonable but not the second one. (Tirmizi;, Ahmad, Abu Daud). Jarir bin Abdullah Bajali says that he asked the Prophet, What should I do if I happen to cast a chance look? The Prophet (peace be upon him) replied: Turn your eyes away or lower your gaze. (Muslim, Ahmad, Tirmizi, Abu Daud, Nasai). Abdullah bin Masud quotes the Prophet (peace be upon him) as having said: Allah says that the gaze is one of the poisonous arrows of Satan. Whoever forsakes it, out of His fear, he will be rewarded with a faith whose sweetness he will relish in his own heart. (Tabarani). According to a tradition related by Abu Umamah, the Prophet (peace be upon him) said: If a Muslim happens to glance at the charms of a woman and then turns his eyes away, Allah will bless his worship and devotion and will make it all the more sweet. (Musnad Ahmad). Imam Jafar Sadiq has quoted from his father, Imam Muhammad Baqir, who has quoted Jabir bin Abdullah Ansari as saying: On the occasion of the Farewell Pilgrimage, Fadal bin Abbas, who was a young cousin of the Prophet (peace be upon him), was riding with him on the camel-back during the return journey from Masharal-Haram. When they came to a few women passing on the way, Fadal started looking at them. Thereupon the Prophet (peace be upon him) put his hand on his face and turned it to the other side. (Abu Da'ud). On another occasion during the same pilgrimage, a woman of the clan of Khatham stopped the Prophet (peace be upon him) on the way and sought clarification about a certain matter pertaining to Hajj. Fadal bin Abbas fixed his gaze at her, but the Prophet turned his face to the other side. (Bukhari, Abu Daud, Tirmizi). (2) Nobody should have the misunderstanding that the command to restrain the gaze was enjoined because the women were allowed to move about freely with open faces, for if veiling of the face had already been enjoined, the question of restraining or not restraining the gaze would not have arisen. This argument is incorrect rationally as well as factually. It is incorrect rationally because even when veiling of the face is the usual custom, occasions can arise where a man and a woman come face to face with each other suddenly, or when a veiled woman has to uncover her face under necessity. Then even if the Muslim women observe hijab, there will be non-Muslim women who will continue to move about unveiled. Thus, the commandment to lower the gaze or restrain the eyes, does not necessarily presume existence of a custom allowing the women to move about with unveiled faces. It is incorrect factually because the custom of hijab which was introduced after the revelation of the commandments in Surah Al- Ahzab included veiling of the face, and this is supported by a number of traditions relating to the time of the Prophet (peace be upon him) himself. Aishah in her statement relating to the incident of the slander, which has been narrated on the authority of reliable reporters, has said: When I came back to the camp, and found that the caravan had left, I lay down and was overpowered by sleep. In the morning when Safwan bin Muattal passed that way he recognised me because he had seen me before the commandment of hijab had been sent down. On recognising me he exclaimed: Inna lillahi wa inna ilaihi rajiun: To Allah we belong and to Him we shall return; and I awoke and covered my face with my sheet. (Bukhari, Muslim, Ahmad, Ibn Jarir, Ibn Hisham). Abu Daud contains an incident that when the son of Umm Khallad was killed in a battle, she came to the Prophet (peace be upon him) to enquire about him and was wearing the veil as usual. It was natural to presume that on such a sad occasion one is liable to lose one’s balance and ignore the restrictions of hijab. But when questioned she said: I have certainly lost my son but not my modesty. Another tradition in Abu Daud quoted on the authority of Aishah relates that a woman handed an application to the Prophet (peace be upon him) from behind a curtain. The Prophet enquired: Is it a man’s hand or a woman’s? She replied that it was a woman’s. Thereupon the Prophet (peace be upon him) said: If it is a woman’s hand, the nails at least should have been coloured with henna! As regards to the two incidents relating to the occasion of Hajj, which we have mentioned above, they cannot be used as an argument to prove that the veil was not in vogue in the time of the Prophet (peace be upon him). This is because wearing of the veil is prohibited in the state of ihram. However, even in that state pious women did not like to uncover their faces before the other men. Aishah has stated that during the Farewell Pilgrimage when they were moving towards Makkah in the state of ihram, the women would lower down their head sheets over their faces whenever the travellers passed by them, and would uncover their faces as soon as they had passed by. (Abu Daud). (3) There are certain exceptions to the command of lowering the gaze or restraining the look. These exceptions relate to occasions when it is really necessary to see a woman, for instance, when a man intends to marry her. It is not only permissible to see the woman in such a case but even commendable. Mughirah bin Shubah has stated: I wanted to marry in a certain family. The Holy Prophet asked me whether I had seen the girl or not. When 1 replied in the negative, he said: Have a look at her; this will enhance harmonious relationship between you two. (Ahmad, Tirmizi, Nasai, Ibn Majah, Darimi). According to a tradition related by Abu Hurairah, a man wanted to marry in a family of the Ansar. The Prophet (peace be upon him) asked him to have a look at the girl, for the Ansar usually had a defect in their eyes. (Muslim, Nasai, Ahmad). According to Jabir bin Abdullah, the Prophet (peace be upon him) said: When a person from among you wants to marry a woman, he should have a look at her to satisfy himself that there is some quality in the woman which induces him to marry her. (Ahmad, Abu Daud). According to another tradition emanating from Abu Humaidah and quoted in Musnad Ahmad, the Prophet (peace be upon him) said that there was no harm in such a procedure. He also permitted that the girl may be seen without her being aware of it. From this the jurists have concluded that there is no harm in looking at a woman when it is really necessary. For instance, there is no harm in looking at a suspect woman when investigating a crime, or in the judge’s looking at a female witness, who appears in the court, or in the physician’s looking at a female patient, etc. (4) The intention of the command to restrain the gaze also implies that no man or woman should look at the private parts of the other man or woman. The Prophet (peace be upon him) has said: No man should look at the satar of another man nor a woman at the satar of another woman. (Ahmad, Muslim, Abu Daud, Tirmizi). Ali has quoted the Prophet (peace be upon him) as saying: Do not look at the thigh of another person, living or dead. (Abu Daud, Ibn Majah). 30. Guard their private parts: Abstain from illicit sexual gratification and from exposing their satar before others. For males, the satar is the part of the body from the navel to the knee, and it is not permissible to expose that part of the body intentionally before anybody except one’s own wife. (Daraqutni, Baihaqi). Jarhad Aslami states that once he was sitting in the company of the Prophet (peace be upon him) with his thigh exposed. The Prophet (peace be upon him) said: Do you not know that the thigh has to be kept concealed. (Tirmizi, Abu Daud, Muatta). AIi reports that the Prophet (peace be upon him) said: Do not expose your thigh. (Abu Daud, Ibn Majah). Not only is the satar to be kept concealed before others but even when alone. The Prophet has warned: Beware, never remain naked, for with you are those (that is, the angels of goodness and mercy), who never leave you alone except when you ease yourself or you go to your wives. So feel shy of them and give them due respect. (Tirmizi). According to another tradition, the Prophet (peace be upon him) said: Guard your satar from everybody except from your wife and your slave-girl. The questioner asked: Even when we are alone? The Prophet (peace be upon him) replied: Yes, even when alone, for Allah has a greater right that you should feel shy of Him. (Abu Daud, Tirmizi, Ibn Majah).

سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :29 اس میں الفاظ ہیں : یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِھِمْ ۔ غَضّ کے معنی ہیں کسی چیز کو کم کرنے ، گھٹانے اور پست کرنے کے ۔ غَضِّ بصر کا ترجمہ عام طور پر نگاہ نیچی کرنا یا رکھنا کیا جاتا ہے ۔ لیکن دراصل اس حکم کا مطلب ہر وقت نیچے ہی دیکھتے رہنا نہیں ہے ، بلکہ پوری طرح نگاہ بھر کر نہ دیکھنا ، اور نگاہوں کو دیکھنے کے لیے بالکل آزادانہ چھوڑ دینا ہے ۔ یہ مفہوم نظر بچانے سے ٹھیک ادا ہوتا ہے ، یعنی جس چیز کو دیکھنا مناسب نہ ہو اس سے نظر ہٹالی جائے ، قطع نظر اس سے کہ آدمی نگاہ نیچی کرے یا کسی اور طرف اسے بچا لے جائے ۔ مِنْ اَبْصَارِھِمْ میں مِنْ تبعیض کے لیے ہے ، یعنی حکم تمام نظروں کو بچانے کا نہیں ہے بلکہ بعض نظروں کو بچانے کا ہے ۔ بالفاظ دیگر اللہ تعالیٰ کا منشا یہ نہیں ہے کہ کسی چیز کو بھی نگاہ بھر کر نہ دیکھا جائے ، بلکہ وہ صرف ایک مخصوص دائرے میں نگاہ پر یہ پابندی عائد کرنا چاہتا ہے ۔ اب یہ بات سیاق و سباق سے معلوم ہوتی ہے کہ یہ پابندی جس چیز پر عائد کی گئی ہے وہ چاہے مردوں کا عورتوں کو دیکھنا ، یا دوسرے لوگوں کے ستر پر نگاہ ڈالنا ، یا فحش مناظر پر نگاہ جمانا ۔ کتاب اللہ کے اس حکم کی جو تشریح سنت نے کی ہے اس کی تفصیلات حسب ذیل ہیں : 1 : آدمی کے لیے یہ بات حلال نہیں ہے کہ وہ اپنی بیوی یا اپنی محرم خواتین کے سوا کسی دوسری عورت کو نگاہ بھر کر دیکھے ۔ ایک دفعہ اچانک نظر پڑ جائے تو وہ معاف ہے ، لیکن یہ معاف نہیں ہے کہ آدمی نے پہلی نظر میں جہاں کوئی کشش محسوس کی ہو وہاں پھر نظر دوڑائے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح کی دیدہ بازی کو آنکھ کی بد کاری سے تعبیر فرمایا ہے ۔ آپ کا ارشاد ہے کہ آدمی اپنے تمام حواس سے زنا کرتا ہے ۔ دیکھنا آنکھوں کی زنا ہے ۔ لگاوٹ کی بات چیت زبان کی زنا ہے ۔ آواز سے لذت لینا کانوں کی زنا ہے ۔ ہاتھ لگانا اور ناجائز مقصد کے لیے چلنا ہاتھ پاؤں کی زنا ہے ۔ بد کاری کی یہ ساری تمہیدیں جب پوری ہو چکتی ہیں تب شرم گاہیں یا تو اس کی تکمیل کر دیتی ہیں ، یا تکمیل کرنے سے رہ جاتی ہیں ( بخاری ، مسلم ، ابو داؤد ) ۔ حضرت بُرَیدَہ کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا یَا علی لا تتبع النظرۃ النظرۃ فان لک الاولی ولیست لک الاٰخرۃ ، اے علی ایک نظر کے بعد دوسری نظر نہ ڈالنا ۔ پہلی نظر تو معاف ہے مگر دوسری معاف نہیں ( احمد ، ترمذی ، ابو داؤد ، دارمی ) ۔ حضرت جریر بن عبد اللہ بَجَلِی کہتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا اچانک نگاہ پڑ جائے تو کیا کروں ۔ فرمایا فوراً نگاہ پھیر لو ، یا نیچی کر لو ( مسلم ، احمد ، ترمذی ، ابو داؤد ، نسائی ) ۔ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ان النظر سہم من سھام ابلیس مسموم ، من ترکھا مخافتی ابدلتہ ایمانا ایمانا یجد حلاوتۃ فی قلبہ نگاہ ابلیس کے زہریلے تیروں میں سے ایک تیر ہے ، جو شخص مجھ سے ڈر کر اس کو چھوڑ دے گا میں اس کے بدلے اسے ایسا ایمان دوں گا جس کی حلاوت وہ اپنے دل میں پائے گا ( طبرانی ) ۔ ابو امامہ کی روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ما من مسلم ینظر الیٰ محاسن امرأۃ ثم یغض بصرہ الا اخلف اللہ لہ عبادۃ یجد حلاوتھا ، جس مسلمان کی نگاہ کسی عورت کے حسن پر پڑے اور وہ نگاہ ہٹا لے تو اللہ اس کی عبادت میں لطف اور لذت پیدا کر دیتا ہے ( مسند احمد ) ۔ امام جعفر صادق اپنے والد امام محمد باقر سے اور وہ حضرت جابر بن عبد اللہ انصاری سے روایت کرتے ہیں کہ حجۃ الوداع کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی فضل بن عباس رضی اللہ عنہ ( جو اس وقت ایک نوجوان لڑکے تھے ) مَشْعِرَ حرام سے واپسی کے وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اونٹ پر سوار تھے ۔ راستے سے جب عورتیں گزرنے لگیں تو فضل ان کی طرف دیکھنے لگے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے منہ پر ہاتھ رکھا اور اسے دوسری طرف پھیر دیا ( ابو داؤد ) ۔ اسی حجۃ الوداع کا قصہ ہے کہ قبیلہ خَثْعَم کی ایک عورت راستہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو روک کر حج کے متعلق ایک مسئلہ پوچھنے لگی اور فضل بن عباس نے اس پر نگاہیں گاڑ دیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا منہ پکڑ کر دوسری طرف کر دیا ۔ ( بخاری ، ابو داؤد ، ترمذی ) ۔ 2: اس سے کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہو کہ عورتوں کو کھلے منہ پھرنے کی عام اجازت تھی تبھی تو غضِّ بصر کا حکم دیا گیا ، ورنہ اگر چہرے کا پردہ رائج کیا جا چکا ہوتا تو پھر نظر بچانے یا نہ بچانے کا کیا سوال ۔ یہ استدلال عقلی حیثیت سے بھی غلط ہے اور واقعہ کے اعتبار سے بھی ۔ عقلی حیثیت سے یہ اس لیے غلط ہے کہ چہرے کا پردہ عام طور پر رائج ہو جانے کے باوجود ایسے مواقع پیش آ سکتے ہیں جبکہ اچانک کسی عورت اور مرد کا آمنا سامنا ہو جائے ۔ اور ایک پردہ دار عورت کو بھی بسا اوقات ایسی ضرورت لاحق ہو سکتی ہے کہ وہ منہ کھولے ۔ اور مسلمان عورتوں میں پردہ رائج ہونے کے باوجود بہرحال غیر مسلم عورتیں تو بے پردہ ہی رہیں گی ۔ لہٰذا محض غضِّ بصر کا حکم اس بات کی دلیل نہیں بن سکتا کہ یہ عورتوں کے کھلے منہ پھرنے کو مسْتَلزم ہے ۔ اور واقعہ کے اعتبار سے یہ اس لیے غلط ہے کہ سورہ احزاب میں احکام حجاب نازل ہونے کے بعد جو پردہ مسلم معاشرے میں رائج کیا گیا تھا اس میں چہرے کا پردہ شامل تھا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں اس کا رائج ہونا بکثرت روایات سے ثابت ہے ۔ واقعہ افک کے متعلق حضرت عائشہ کا بیان جو نہایت معتبر سندوں سے مروی ہے اس میں وہ فرماتی ہیں کہ جنگل سے واپس آ کر جب میں نے دیکھا کہ قافلہ چلا گیا ہے تو میں بیٹھ گئی اور نیند کا غلبہ ایسا ہوا کہ وہیں پڑ کر سوگئی ۔ صبح کو صفوان بن مُعطّل وہاں سے گزرا تو دور سے کسی کو پڑے دیکھ کر ادھر آ گیا ۔ فعرفنی حین راٰنی وکان قد راٰنی قبل الحجاب فاستیقظت باسترجاعہ حین عرفنی فخمرت وجھی بجلبابی ، وہ مجھے دیکھتے ہی پہچان گیا کیونکہ حجاب کے حکم سے پہلے وہ مجھے دیکھ چکا تھا ۔ مجھے پہچان کر جب اس نے انا للہ و انا الیہ راجعون پڑھا تو اس کی آواز سے میری آنکھ کھل گئی اور میں نے اپنی چادر سے منہ ڈھانک لیا ۔ ( بخاری ، مسلم ، احمد ، ابن جریر ، سیرت ابن ہشام ) ابو داؤد ، کتاب الجہاد میں ایک واقعہ مذکور ہے کہ ایک خاتون اُم خلّاد کا لڑکا ایک جنگ میں شہید ہو گیا تھا ۔ وہ اس کے متعلق دریافت کرنے کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں ، مگر اس حال میں بھی چہرے پر نقاب پڑی ہوئی تھی ۔ بعض صحابہ نے حیرت کے ساتھ کہا کہ اس وقت بھی تمہارے چہرے پر نقاب ہے ؟ یعنی بیٹے کی شہادت کی خبر سن کر تو ایک ماں کو تن بدن کا ہوش نہیں رہتا ، اور تم اس اطمینان کے ساتھ با پردہ آئی ہو ۔ جواب میں کہنے لگیں : ان ارزأ ابنی فلن ارزأ حیائی ، میں نے بیٹا تو ضرور کھویا ہے مگر اپنی حیا تو نہیں کھودی ۔ ابو داؤد ہی میں حضرت عائشہ کی روایت ہے کہ ایک عورت نے پردے کے پیچھے سے ہاتھ بڑھا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو درخواست دی ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا یہ عورت کا ہاتھ ہے یا مرد کا ؟ اس نے عرض کیا عورت ہی کا ہے ۔ فرمایا عورت کا ہاتھ ہے تو کم از کم ناخن ہی مہندی سے رنگ لیے ہوتے ۔ رہے حج کے موقع کے وہ دو واقعات جن کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے تو وہ عہد نبوی میں چہرے کا پردہ نہ ہونے کی دلیل نہیں بن سکتے ، کیونکہ احرام کے لباس میں نقاب کا استعمال ممنوع ہے ۔ تاہم اس حالت میں بھی محتاط خواتین غیر مردوں کے سامنے چہرہ کھول دینا پسند نہیں کرتی تھیں ۔ حضرت عائشہ کی روایت ہے کہ حجۃ الوداع کے سفر میں ہم لوگ بحالت احرام مکہ کی طرف جا رہے تھے ۔ جب مسافر ہمارے پاس سے گزرنے لگتے تو ہم عورتیں اپنے سر سے چادریں کھینچ کر منہ پر ڈال لیتیں ، اور جب وہ گزر جاتے تو ہم منہ کھول لیتی تھیں ( ابو داؤد ، باب فی المحرمۃ تغطّی وجھہا ) ۔ 3 : غضّ بصر کے اس حکم سے مستثنیٰ صرف وہ صورتیں ہیں جن میں کسی عورت کو دیکھنے کی کوئی حقیقی ضرورت ہو ۔ مثلاً کوئی شخص کسی عورت سے نکاح کرنا چاہتا ہو ۔ اس غرض کے لیے عورت کو دیکھ لینے کی نہ صرف اجازت ہے ، بلکہ ایسا کرنا کم از کم مستحب تو ضرور ہے ۔ مغیرہ بن شعبہ کی روایت ہے کہ میں نے ایک جگہ نکاح کا پیغام دیا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا تم نے لڑکی کو دیکھ بھی لیا ہے ۔ میں نے عرض کیا نہیں ۔ فرمایا : النظر الیھا فانہ احری ان یُؤدِم بینکما ، اسے دیکھ لو ۔ اس طرح زیادہ توقع کی جا سکتی ہے کہ تمہارے درمیان موافقت ہو گی ( احمد ، ترمذی ، نسائی ، ابن ماجہ ، دارمی ) ۔ ابو ہریرہ کی روایت ہے کہ ایک شخص نے کہیں شادی کا پیغام دیا ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : انظر الیھا فان فی اعین الانصار شیئاً ، لڑکی کو دیکھ لو ، کیونکہ انصار کی آنکھوں میں کچھ خرابی ہوتی ہے ( مسلم ، نسائی ، احمد ) ۔ جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اذا خطب احدکم المرأۃ فَقَدَ رَاَن یریٰ منھا بعض ما یدعوہ الیٰ نکاحھا فلیفعل ، تم میں سے جب کوئی شخص کسی عورت سے نکاح کا خواستگار ہو تو حتی الامکان اسے دیکھ کر یہ اطمینان کر لینا چاہیے کہ آیا عورت میں ایسی کوئی خوبی ہے جو اس کے ساتھ نکاح کی طرف راغب کرنے والی ہو ( احمد ، ابو داؤد ) ۔ مسند احمد میں ابو حُمَیدَہ کی روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس غرض کے لیے دیکھنے کی اجازت کو : فلاجناح علیہ کے الفاظ میں بیان کیا ، یعنی ایسا کر لینے میں مضائقہ نہیں ہے ۔ نیز اس کی بھی اجازت دی کہ لڑکی کی بے خبری میں بھی اس کو دیکھا جا سکتا ہے ۔ اسی سے فقہاء نے یہ قاعدہ اخذ کیا ہے کہ بضرورت دیکھنے کی دوسری صورتیں بھی جائز ہیں ۔ مثلاً تفتیش جرائم کے سلسلے میں کسی مشتبہ عورت کو دیکھنا ، یا عدالت میں گواہی کے موقع پر قاضی کا کسی گواہ عورت کو دیکھنا ، یا علاج کے لیے طبیب کا مریضہ کو دیکھنا وغیرہ ۔ 4 : غضِّ بصر کے حکم کا منشا یہ بھی ہے کہ آدمی کسی عورت یا مرد کے ستر پر نگاہ نہ ڈالے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : لا ینظر الرجل الیٰ عورۃ الرجل ولا تنظر المرأۃ الیٰ عورۃ المرأۃ ، کوئی مرد کسی مرد کے ستر کو نہ دیکھے ، اور کوئی عورت کسی عورت کے ستر کو نہ دیکھے ( احمد ، مسلم ، ابوداؤد ، ترمذی ) ۔ حضرت علی کی روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا لاتنظر الیٰ فخذ حی ولا میت ، کسی زندہ یا مردہ انسان کی ران پر نگاہ نہ ڈالو ( ابو داؤد ، ابن ماجہ ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٣٠:۔ اوپر ذکر تھا کہ ایک رشتہ دار دوسرے رشتہ دار کے گھر میں بےکھنکارے ‘ بیخبر ی کی حالت میں نہ جاوے کیونکہ بیخبر ی کی حالت میں چلے جانے سے ننگی کھلی اجنبی عورتوں کے سامنے آجانے کا اندیشہ ہے ‘ اس آیت میں فرمایا ‘ اجازت کے بعد دوسرے رشتہ دار کے گھر میں جانے سے یا بازار وغیرہ میں اجنبی عورت نظر پڑجاوے تو ایماندار آدمی کو چاہیے کہ اپنی نگاہ نیچی کرے مرد کے نیچی نگاہ کرلینے کی حالت عورت مرد کی صورت دیکھ سکتی ہے ‘ اس واسطے اللہ کے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آیت کو پوری تعمیل ہونے کی غرض سے ایسے موقع پر حکم دیا کہ ایماندار شخص اجنبی عورت کی طرف سے اپنا منہ پھیر لے ‘ چناچہ مسند امام احمد ‘ صحیح مسلم ‘ ترمذی اور ابوداود میں جریر بن عبد اللہ بجلی سے جو روایت ٣ ؎ ہے ‘ اس میں یہ ذکر تفصیل سے ہے ‘ یہ جریر بن عبد اللہ کوفہ میں اکثر رہے ہیں اس لیے ان کو کوفی صحابہ میں شمار کرنا چاہیے ‘ یہ بہت خوبصورت اور اس امت کے یوسف مشہور تھے ‘ اسی واسطے انہوں نے اجنبی عورتوں پر نظر پڑجانے کا مسئلہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا تھا ‘ صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کے بھائی فضل بن عباس (رض) کا قصہ ٤ ؎ ہے جب اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فضل بن عباس (رض) کا منہ ایک عورت کی طرف سے پھیر کر دوسری طرف کردیا تھا ‘ معتبر سند سے ترمذی ابوداؤد وغیرہ میں حضرت علی (رض) کی حدیث ٥ ؎ ہے جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ‘ کسی ایماندار شخص کی نظر کسی اجنبی عورت پر اتفاق سے پڑجاوے تو پہلی نظر معاف ہے ‘ لیکن پھر ایماندار شخص کو نگاہ نیچی کرلینے کا ادھر سے منہ پھر لینے کا حکم ہے ‘ ترمذی ‘ نسائی ‘ دارمی ‘ ابن حبان وغیرہ میں مغیرہ بن شعبہ سے روایت ٦ ؎ ہے جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب کسی شخص کا ارادہ کسی عورت سے نکاح کرنے کا ہو تو اس شخص کا اس عورت کو نکاح سے پہلے دیکھ لینا اچھا ہے ‘ کیونکہ اس سے نکاح کے بعد ان آیتوں میں رانڈ عورتوں اور نیک غلام اور لونڈیوں کے نکاح کردینے کا حکم بیان فرمایا ‘ ایامی ایم کی جمع ہے اور ایم کا لفظ رانڈ عورت اور رنڈوے مرد دونوں پر بولا جاتا ہے ‘ اس لیے حاصل مطلب آیتوں کا یہ ہے ‘ اسے مسلمانوں کے گروہ تم کو چاہیے کہ اپنے گروہ میں کی رانڈ عورتوں اور رنڈوے مردوں کو بغیر نکاح کے بیٹھا نہ رہنے دو بلکہ سمجھا بجھا کر ان کا اور اپنے نیک غلام لونڈیوں کا نکاح کرادو پھر فرمایا نکاح سے پہلے اگر ان میں کا کوئی تنگ دست ہو تو تنگدستی کے عذر سے نکاح کو نہ روکا جاوے۔ نکاح کے بعد اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان کی تنگدستی کو رفع کر کے انہیں خوشحال کر دے گا کیونکہ اللہ کا فضل اور اس کا خزانہ بہت بڑا ہے اور وہ اپنے بندوں کی ضرورتوں سے خوب واقف ہے ‘ صحیح بخاری ومسلم کے ١ ؎ حوالہ سے عبد اللہ بن مسعود (رض) کی حدیث کئی جگہ گزر چکی ہے کہ جب ماں کے پیٹ میں بچہ کا پتلا تیار ہوتا ہے تو اس میں روح کے پھونکے جانے سے پہلے اس کا رزق لوح محفوظ کے نوشتہ کے موافق قرار دیا جاتا ہے اس حدیث سے یہ مطلب اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے کہ نکاح کے بعد میاں بی بی دونوں کا رزق ایک کہ ہوجانے سے کچھ تو نکاح سے یوں رزق بڑھ جاتا ہے علاوہ اس کے اکثر سلف نے اپنا یہ تجربہ بھی بیان کیا ہے کہ پارسائی کی نیت سے نکاح کیا جاوے تو اللہ تعالیٰ مقررہ رزق میں برکت دیتا ہے ‘ ترمذی وغیرہ میں ابوہریرہ (رض) سے صحیح روایت ٢ ؎ ہے کہ پارسائی کی نیت سے نکاح کرنے والے شخص کی اللہ تعالیٰ مدد کرتا ہے اس حدیث سے مسلم کے تجربہ کی پوری تائید ہوتی ہے کیونکہ رزق میں برکت کا ہونا یہ بھی اللہ تعالیٰ کی ایک مدد ہے آگے فرمایا جو لوگ بالکل ایسے تنگدست ہوں کہ کسی طرح کا نکاح کا بار نہ اٹھا سکتے ہوں تو جب تک اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان کو کسی قدر صاحب مقدور نہ کر دیوے ‘ اس وقت تک ان کو اپنی حالت پر صبر کرنا اور بدکاری سے بچنا چاہیے ‘ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے عبد اللہ بن مسعود (رض) کی روایت اوپر گزر چکی ‘ اس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایسے لوگوں کو روزے رکھنے کی ہدایت فرما کر یہ فرمایا ہے کہ روزے رکھنے سے مردانگی کی قوت کم ہوجاتی ہے جو آقا اپنے غلام کو یہ کتابت کردے کہ اس قدر رقم ادا کرنے کے بعد وہ غلام آزاد ہے ‘ ایسے غلام کو مکاتب کہتے ہیں ‘ آگے ایسے ہی غلام کا ذکر ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اس طرح کی کتابت کا چاہنے والا غلام اگر کتابت کی رقم کمانے کے قابل نظر آوے تو اس سے کتابت کا معاملہ کرلیا جاوے یہ جو فرمایا اگر کتابت کی رقم کمانے کے قابل نظر آئے تو کتابت کے چاہنے والے غلام سے کتابت کا معاملہ کرلیا جاوے ‘ اس سے ان علماء کے قول کی بڑی تائید ہوتی ہے جو کتابت کے فرض ہونے کے قائل نہیں ہیں ‘ کیونکہ آیت میں کتابت کو آقا کی مرضی پر رکھا ہے جو کہ حکم کے فرضی ہونے کی صورت نہیں ہے پھر فرمایا کہ جب کتابت کا معاملہ ٹھہر جاوے تو ہر ایک مسلمان صدقہ خیرات کی رقم میں سے ایسے غلام کو کچھ مدد دے دیوے تاکہ یہ بےچارہ جلدی سے اپنے ذمہ کی رقم ادا کر کے آزاد ہوجاوے۔ (٣ ؎ مشکوٰۃ ص ٢٦٨ باب النظرالی املحظوبۃ وبیان العورات و تفسیر ابن کثشر ص ٢٨١ ج ٣ و تفسیر الدر المنثور ص ٤٠ ج ٥ ) (٤ ؎ صحیح بخاری باب الحج عمن لا یستطیع الثبت علی الدابۃ ١٢ ) (٥ ؎ مشکوٰۃ ص ٢٦٩ تفسیر ابن کثیر ٢٨٢ ج ٣ ) (٦ ؎ مشکوٰۃ ص ٢٦٩ ) (١ ؎ مشکوٰۃ باب الایمان بالقدر ) (٢ ؎ مشکوٰۃ کتاب النکاح ‘ والترغیب ص ٤٣ ج ٣۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

6 ۔ یعنی کسی ایسی چیز کی طرف نہ دیکھیں جس کی طرف دیکھنا جائز نہیں کیونکہ اس سے خرابی پیدا ہوتی ہے۔ سلف (رح) کا قول ہے کہ نظر ایک زہریلا تیر ہے جس کا نشانہ انسان ہی بنتا ہے اور اگر بلا ارادہ کسی پر نگاہ پڑجائے تو نگاہ پھیر لیں۔ صحیحین میں حضرت ابوبکر صدیق (رض) سے روایت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :”……دیکھنا (یعنی کسی اجنبی عورت کی طرف دیکھنا) آنکھ کا زنا ہے۔ نفس تمنا کرتا ہے اور شرمگاہ اس کی (عملاً ) تصدیق یا تکذیب کرتی ہے۔ “ نیز سنن میں حضرت بریدہ (رض) سے سروایت ہے کہ ایک نظر کے بعد دوسری نظر نہ ڈال۔ پہلی نظر تو معاف ہے اور دوسری معاف نہیں۔ (شوکانی) 7 ۔ یعنی زنا سے حفاظت کریں اور نہ اپنا ستر ہی اس شخص پر کھولیں جس کے سامنے ستر کھولنا حرام ہے اس لئے ستر کی حفاظت کے ساتھ نظر کی حفاظت کا حکم دیا ہے۔ حدیث میں ہے احفظ عورتک الا من زوجتاء اوما ملکیت یمینک بیوی اور لونڈی کے سوا سب سے اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرو۔ آدمی کے لئے ناف اور گھٹنوں تک کا حصہ شرمگاہ میں شامل ہے جس کا ڈھانپنا فرض ہے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک مرتبہ حضرت بریدہ (رض) کی رانیں کھلی دیکھیں تو فرمایا : اپنی رانیں ڈھانپ لو، اس لئے کہ رانیں شرمگاہ کا حصہ ہیں۔ البتہ کسی عذر سے ران کا کھولنا جائز ہے۔ چناچہ حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ خیبر کے دن آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی ران کھولی۔ (ابن کثیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 30 تا 31 : یغضوا (نیچے رکھیں) فروج (فرج) شرم گاہیں) ‘ لایبدین (ظاہر نہ کرے) ‘ ظھر (کھلا رہتا ہے) ‘ خمر (دوپٹے۔ اوڑھنیاں) ‘ جیوب (سینے) بعولۃ (شوہر) ابنائ (بیٹے) اخوان (اخ) بھائی ‘ نسائ (عورتیں) ملکت ایمان (دائیں ہاتھ کی ملکیت ۔ باندیاں) ‘ تابعین (پیچھے چلنے والے) ‘ غیر اولی الاربۃ (جوعورتوں سے کام نہیں رکھتے) ‘ لم یظھروا ( واقف نہیں ہوئے) عورت (چھپانے کی چیز) لا یضربن (نہ مارے) ‘ تو بوا (توبہ کرو) ‘ تشریح : آیت نمبر 30 تا 31 : دین اسلام نے ایک ایسے صاف ستھرے ‘ پاکیزہ اور تقویٰ سے بھر پور معاشرہ کا تصور عطا فرمایا ہے۔ جس میں ہر شخص ایک دوسرے کی جان ‘ مال ‘ عزت اور آبرو کا محافظ ہوتا ہے۔ اسلامی معاشرہ میں ہر چھوٹے بڑے گناہ سے بچنے کا عظیم جذبہ موجزن ہوتا ہے جس سے ہر شخص اطمینان و سکون کی زندگی بسر کرتا ہے۔ قرآن کریم اور سنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی روشنی میں یہ حقیقت بھی سامنے آتی ہے کہ بڑے بڑے گناہ ہمیشہ چھوٹی چھوٹی باتوں سے شروع ہوتے ہیں۔ اگر ان چھوٹی چھوٹی باتوں میں احتیاط برتی جائے تو انسان ہر بڑے گناہ سے بچ سکتا ہے۔ ان آیات میں نامحرموں پر بری نظر ڈالنا اس بڑے گناہ کی ابتدا ہے جس سے دنیا اور آخرت تباہ و برباد ہو کر رہ جاتے ہیں۔ کسی نامحرم کے چہرے پر نگاہیں ڈالنے اور اس میں احتیاط نہ کرنے سے انسان بدکاری میں مبتلا ہوسکتا ہے۔ اسی لئے غیر ارادی طور پر اگر کوئی نظر پڑجائے تو پہلی نظر معاف ہے لیکن ارادہ کرکے دوسری مرتبہ نامحرموں کے چہرے پر نگاہ ڈالنا جائز نہیں ہے۔ ایسے موقعوں پر اہل ایمان کو اپنی نظریں پھیر لینی چاہئیں۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں ارشاد فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے نظر شیطان کے زہریلے تیروں میں سے ایک تیر ہے۔ جو شخص خواہش اور دلی تقاضے کے باوجود اپنی نظر پھیر لے گا تو میں اس کے بدلے میں اس کو ایک ایسا مضبوط ایمان عطا کروں گا جس کی حلاوت اور لذت کو وہ اپنے قلب میں محسوس کرسکے گا۔ (ابن کثیر) ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے مردوں کو ان کی ذمہ داریوں پر آگاہ کرتے ہوئے فرمایا کہ (1) وہ اپنی نظروں کو نیچے رکھیں (2) اور اپنے ستر ڈھانپ کررکھیں۔ مراد یہ ہے کہ جب مردوں اور عورتوں کا سامنا ہو تو مرد اپنی نظروں کو نیچے رکھیں۔ اگر مرد کی نگاہ کسی نامحرم پر پڑجائے تو وہ اس کو فوراً چہرے سے ہٹا لے اور ارادہ کر کے دوبارہ نہ دیکھے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ مردوں کا ستر ناف سے گھٹنے تک ہے ( بیقی۔ دارقطنی) ستر کو اپنی بیوی کے علاوہ کسی کے سامنے کھولنے کی کی اجازت نہیں ہے۔ اسلامی معاشرہ میں جہاں مردوں کی یہ ذمہ داریاں ہیں وہیں عورتوں سے اس سے بھی زیادہ باتوں کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ (1) پہلی بات یہ ہے کہ جس طرح مردوں کونا محرم عورتوں پر نگاہ ڈالنا جائز نہیں ہے اسی طرح عورتوں کو بھی یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنی نگاہوں کو نامحرموں پر نہ ڈالیں۔ چناچہ ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ حضرت ام سلمہ اور حضرت میمونہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بیٹھی تھیں۔ اسی وقت نا بینا صحابی حضرت عبد اللہ ابن ام مکتوم (رض) بھی آگئے۔ آپ نے دونوں ازواج مطہرات سے فرمایا کہ ان سے پردہ کرو بیویوں نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا یہ نا بینا نہیں ہیں ؟ یہ نہ تو ہمیں دیکھ سکتے ہیں اور نہ پہچان سکتے ہیں۔ آپ نے ارشاد فرمایا عبد اللہ تو نا بینا ہیں لیکن تم تو نا بینا نہیں ہو ؟ کیا تم ان کو نہیں دیکھتیں ؟ حضرت ام سلمہ نے فرمایا کہ یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب پردے کے احکامات آچکے تھے ۔ (ترمذی۔ ابو دائود۔ مسند احمد) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس طرح مردوں کو نامحرموں پر نگاہ ڈالنے کی ممانعت ہے سی طرح عورتوں کے لئے بھی جائز نہیں ہے کہ وہ نا محرموں پر نگاہیں دوڑائیں۔ (2) دوسرا حکم یہ دیا گیا ہے کہ وہ سوائے شوہر کے اپنے چھپے ہوئے اعضاء کی حفاظت کریں۔ کسی کے سامنے ان اعضاء کو کھولنے اور ظاہر کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ (3) تیسرا حکم یہ دیا گیا ہے کہ وہ اپنی زینت کی کسی چیز کو بھی ظاہر نہ ہونے دیں۔ البتہ کام کاج میں یا نقل و حرکت میں عادتاً جو اعضاء کھل جاتے ہیں جیسے چہرہ ‘ ہتھیلیاں ‘ بازو اور پاؤں وغیرہ تو محرموں کے سامنے ان کا کھولنا جائز ہے۔ یا باہر نکلتے وقت ہاتھ ‘ پاؤں اور چہرہ جو ہوا سے یا غفلت سے کھل جاتا ہے وہ جائز ہے۔ اصل یہ ہے کہ عورتیں ہر وقت اوڑھنیوں اور دو پٹوں سے اپنی زینت کو چھپائے رہیں۔ اسی لئے فرمایا گیا کہ اپنے سینوں پر دو پٹوں کا آنچل ڈالے رکھیں۔ (جن سے سینہ ‘ کان اور بال ڈھکے رہیں) زمانہ جاہلیت میں عورتیں اپنی زینت کو چھپانے کے لئے نہیں بلکہ فیشن کے طور پر دوپٹہ گلے میں اس طرح ڈال لیتی تھیں کہ دو پٹے کے دونوں کنارے اپنی پشت پر چھڑ دیا کرتی تھیں جن سے گلا ‘ سینہ ‘ کان اور بال کھلے رہتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان خواتین کو حکم دیا ہے کہ وہ ایسا نہ کریں بلکہ دو پٹے یا چادر کے دونوں پلو ایک دوسرے پر اس طرح الٹ لیا کریں جس سے زینت کے تمام اعضاء چھپ جائیں۔ (4) چوتھا حکم یہ دیا ہے کہ بعض وہ رشتے ہیں جن سے ہمیشہ کے لئے نکاح حرام ہے ان کو محرم کہا جاتا ہے۔ محرموں کے سامنے ستر کھولنے یا ظاہر کرنے تو اجازت نہیں ہے لیکن بقیہ جسم پر نگاہ ڈالنے کی ممانعت نہیں ہے۔ اگر محرموں کے سامنے ہاتھ ‘ بازو ‘ پاؤں ‘ ہتھیلیاں کھلی رہیں تو وہ جائز ہے۔ سوائے شوہر کے کسی کے سامنے ستر کھولنے کی اجازت نہیں ہے۔ شوہر سے بیوی کے کسی عضو کا پردہ نہیں ہے بقیہ محارم میں مندرجہ ذیل لوگ شامل ہیں۔ (1) باپ ‘ دادا ‘ پردادا ‘ نانا ‘ پرنانا (2) سسر اور ان کے باپ دادا (3) اپنے لڑکے جو اپنی اولاد ہیں۔ ان میں پوتے ‘ نواسے سب شامل ہیں۔ (4) شوہر کے وہ لڑکے جو کسی دوسری بیوی سے ہوں یعنی سوتیلے بیٹے ‘ پوتے ‘ نواسے (5) اپنے سگے بھائی ‘ باپ شریک بھائی یا ماں شریک بھائی (6) بھائیوں کے لڑکے (بھتیجے ) حقیقی بھائی یا ماں یا باپ شریک بھائیوں کے بیٹے (7) بہنوں کے لڑکے (بھانجے) اس میں حقیقی ماں یا باپ شریک بہنوں کے لڑکے مراد ہیں ۔ یہ مذکورہ سب کے سب پردے اور حجاب کے احکامات سے مستثنیٰ ہیں۔ مگر ستر اس سے بھی مستثنیٰ نہیں ہے۔ (ان رشتوں کی بقیہ تفصیل فقہ کی کتابوں میں دیکھی جاسکتی ہے) (پانچواں حکم یہ دیا گیا ہے کہ لونڈی اور غلام سے بھی پردہ نہیں ہے۔ دین اسلام کی برکت سے اب دنیا میں لونڈی اور غلام کا وجود نہیں ہے۔ لیکن جب یہ آیات نازل ہوئی تھیں اس وقت تک لونڈی ‘ غلام کارواج تھا اسی لئے ان کے احکامات کو بیان کیا گیا ہے۔ (6) چھٹا حکم ان لوگوں کے سلسلہ میں بیان کیا گیا ہے جو عورتوں سے یا ان کی پوشیدہ باتوں سے کوئی دلچسپی نہیں رکھتے جو محض کھانے پینے کے واسطے طفیلی کے طور پر گھروں میں آتے جاتے ہیں ان سے بھی پردہ نہیں ہے۔ (7) ساتواں حکم دیا گیا ہے کہ عورتیں عورتوں سے پردہ نہ کریں یعنی ان کے لئے پردے کی پابندی نہیں ہے۔ (8) آٹھواں حکم ان نا بالغ بچوں کے لئے دیا گیا ہے کہ ان سے بھی پردہ نہیں ہے جو لڑکے ابھی تک ان باتوں سے ناواقف ہیں جو مردوں اور عورتوں کے چھپے ہوئے بھید ہیں۔ لیکن فقہا نے لکھا ہے کہ اگر نابالغ لڑکے بھی عورتوں مردوں کی پوشیدہ باتوں سے واقف ہوں تو ان سے بھی پردہ کیا جائے گا۔ (9) نواں حکم یہ دیا گیا ہے کہ وہ اپنے پاؤں یا ان میں پہنے ہوئے زیور یا جوتوں کو اتنی زور سے نہ چھنکائیں جن سے خواہ مخواہ بھی غیر مرد متوجہ ہوجائیں اور برائیکا دروازہ کھل جائے۔ (10) دسواں حکم یہ دیا گیا ہے کہ جو بھی صاحبان ایمان ہیں وہ اگر حقیقی فلاح اور کامیابی چاہتے ہیں تو ان کو ہر وقت اللہ سے توبہ کرتے رہنا چاہیے۔ ان احکامات کے علاوہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی احادیث سے چند اور بھی احکامات سامنے آتے ہیں جن کی پابندی کرنا ہر مسلم خاتون کی ذمہ داری ہے۔ مثلا وہ خوشبو لگا کر گھر سے باہر نہ نکلیں۔ ایسے بھڑک دار ‘ چست اور خوبصورت برقعے استعمال نہ کریں جن سے دیکھنے والے خواہ مخواہ بھی متوجہ ہوجائیں اور گناہ گار ہوں۔ اسی طرح اتنا باریک لباس نہ پہنیں جس سے جسم جھلکتا ہو۔ وہ اپنی آواز کا بھی پردہ رکھیں کیونکہ عورت کی آواز سے بھی اکثر فتنے جنم لیتے ہیں۔ یقیناً جو مرد اور خواتین مذکورہ قوانین کی پابندی کریں گے وہی دنیا اور آخرت کی حقیقی کامیابی حاصل کرسکیں گے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ یعنی جس عضو کی طرف مطلقا دیکھنا ناجائز ہے اس کو بالکل نہ دیکھیں اور جس کو فی نفسہ دیکھنا جائز ہے مگر شہوت سے دیکھنا جائز نہیں اس کو شہوت سے نہ دیکھیں۔ 4۔ یعنی ناجائز محل میں شہوت رانی نہ کریں، جس میں زنا اور لواطت سب داخل ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : معاشرتی آداب سکھلانے کے بعد ذاتی اور انفرادی شرم و حیا کی حفاظت کا حکم دیا گیا ہے۔ اسلام جرائم کے قلع قمع کے لیے خارجی اور داخلی محرکات کا خاتمہ کرنا چاہتا ہے کیونکہ برائی اور بےحیائی اس وقت تک ختم نہیں ہوسکتی جب تک خارجی اسباب اور داخلی محرکات پر قابو نہ پایاجائے۔ داخلی محرکات میں انسان کے مثبت اور منفی جذبات کا اثر اس کے فکر وعمل پر ہوتا ہے۔ دل میں کسی کے بارے میں احترام ہو تو آنکھوں میں عقیدت واحترام کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ دل میں کسی کے بارے میں غصہ یا بےحیائی ہو تو آنکھیں اس کی چغلی کھاتی ہیں گویا کہ اچھے برے جذبات کی ترجمانی کرنا انسان کے چہرے اور آنکھوں کا فطری عمل ہے۔ ظاہری طور پر بےحیائی کی ابتدا آنکھوں سے ہوتی ہے اس لیے مومن مرد اور مومن عورتوں کو ایک جیسے الفاظ میں حکم دیا ہے کہ اپنی نگاہوں کو نیچا رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں یہ شخصی کردار اور معاشرے کے لیے انتہائی پاکیزہ انداز ہے۔ اللہ تعالیٰ خوب واقف ہے جو کچھ لوگ کرتے ہیں۔ یہاں پہلے مومنوں کو حکم دیا گیا کیونکہ مرد کی نسبت عورت میں حیا زیادہ اور بےحیائی کے اظہار میں جرأت کم ہوتی ہے۔ مرد میں جرأت زیادہ ہونے اور عورتوں کے ساتھ فطری کشش کی بنا پر دیکھا گیا ہے کہ دیکھا دیکھی کی ابتدا مرد کی طرف سے ہوتی ہے اس لیے مومنوں کو پہلے حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنی نگاہوں کو نیچا رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں یہی دونوں حکم عورتوں کو دیے گئے ہیں نگاہیں نیچی رکھنے سے مراد یہ نہیں کہ عورت بازار میں چلتے ہوئے ٹھوکریں کھاتی پھرے۔ نگاہیں نیچی رکھنے سے مراد کسی غیر محرم کو دانستہ طور پر دیکھنے سے منع کیا گیا ہے۔ جہاں تک کسی پر اچانک نظر پڑنے کا معاملہ ہے اسے معاف کردیا گیا ہے بشرطیکہ اس طرف دوبارہ نظر نہ اٹھائی جائے۔ عورتوں کے لیے تیسرا حکم یہ ہے کہ وہ اپنا بناؤ سنگھار دانستہ طور پر غیر محرم کے سامنے ظاہر نہ ہونے دیں۔ سوائے اس کے جو فطری اور مجبوری کی وجہ سے ظاہر ہوجائے عورت کو اپنی زینت چھپانے کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنی اوڑھنیوں سے اپنے چہرے اور گریبان ڈھانپا کریں انہیں محرم رشتوں کے سوا کسی کے سامنے اپنی زیب وزینت ظاہر کرنے کی اجازت نہیں۔ (وَعَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اِنَّ اللّٰہَ کَتَبَ عَلَی ابْنِ اٰدَمَ حَظَّہُ مِنَ الزِّنَا اَدْرَکَ ذَالِکَ لَا مَحَالَۃَ فَزِنَاالْعَےْنِ النَّظَرُ وَزِنَا اللِّسَانِ الْمَنْطِقُ وَالنَّفْسُ تَتَمَنّٰی وَتَشْتَھِیْ وَالْفَرْجُ ےُصَدِّقُ ذٰلِکَ وَےُکَذِّبُہُ (مُتَّفَقٌ عَلَےْہِ وَفِیْ رِوَاے َۃٍ لِّمُسْلِمٍ قَالَ کُتِبَ عَلَی ابْنِ اٰدَمَ نَصِےْبُہُ مِنَ الزِّنَا مُدْرِکٌ ذالِکَ لَا مَحَالَۃَ الْعَےْنَانِ زِنَاھُمَا النَّظَرُ وَالْاُذُنَانِ زِنَاھُمَا الْاِسْتِمَاعُ وَاللِّسَانُ زِنَاہُ الْکَلاَمُ وَالْےَدُ زِنَاھَا الْبَطْشُ وَالرِّجْلُ زِنَاھَا الْخُطٰی وَالْقَلْبُ ےَھْوِیْ وَےَتَمَنّٰی وَےُصَدِّقُ ذَالِکَ الْفَرْجُ وَےُکَذِّبُہُ ۔ ) [ رواہ البخاری : باب (وَحَرَامٌ عَلَی قَرْیَۃٍ أَہْلَکْنَاہَا أَنَّہُمْ لاَ یَرْجِعُونَ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کے بیٹے پر اس کے حصہ کے زنا لکھ دیا ہے وہ اس کو ضرور پالے گا۔ آنکھ کا زنا دیکھنا ہے، زبان کا زنا بولنا ہے۔ انسان کے دل میں خواہش پیدا ہوتی ہے وہ شہوت پر آمادہ ہوتا ہے شرم گاہ اس کی تصدیق یا تکذیب کرتی ہے۔ (بخاری ومسلم) مسلم کی روایت میں ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا آدم کے بیٹے پر اس کے زنا کا حصہ ثبت ہے وہ لازم طور پر اس کو پانے والا ہے۔ آنکھوں کا زنا دیکھنا ہے، کانوں کا زنا سننا ہے اور زبان کا زنا کلام کرنا ہے۔ ہاتھ کا زناپکڑنا ہے، پاؤں کا زنا چل کر جانا ہے، دل خواہشات کو ابھارتا اور آرزوئیں پیدا کرتا ہے۔ شرم گاہ اس کی تصدیق یا تکذیب کرتی ہے۔ “ (عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ جَآءَ رَجُلٌ اِلَی النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقَالَ اِنِّیْ تَزَوَّجْتُ امْرَأَۃً مِّنَ الْاَنْصَارِ قَالَ فَانْظُرْ اِلَیْھَا فَاِنَّ فِیْ اَعْیُنِ الْاَنْصَارِ شَیْءًا) [ رواہ مسلم : باب نَدْبِ النَّظَرِ إِلَی وَجْہِ الْمَرْأَۃِ وَکَفَّیْہَا لِمَنْ یُرِیدُ تَزَوُّجَہَا ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں ایک آدمی نے حاضر ہوا کر عرض کی کہ میں قبیلۂ انصار کی ایک عورت سے نکاح کرنا چاہتا ہوں۔ آپ نے فرمایا کہ اسے دیکھ لینا کیونکہ انصار کی آنکھوں میں کچھ نقص ہوتا ہے۔ “ (عَنْ عَلِیٍّ (رض) قَالَ قَالَ لِی رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اَ تُتْبِعِ النَّظَرَ النَّظَرَ فَإِنَّ الأُولَی لَکَ وَلَیْسَتْ لَکَ الأَخِیرَۃُ ) [ رواہ احمد : مسند علی ابن ابی طالب ] ” حضرت علی (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میرے لیے فرمایا کہ ایک بار دیکھنے کے بعد دوسری بار مت دیکھو پہلی نظر تجھے معاف ہے اور دوسری دفعہ دیکھنا جائز نہیں۔ “ زمانۂ جاہلیت میں عورتیں سروں پر ایک طرح کے کساوے سے باندھے رکھتی تھیں جن کی گرہ جوڑے کی طرح پیچھے چوٹی پر لگائی جاتی تھی۔ سامنے گریبان کا ایک حصہ کھلا رہتا تھا جس سے گلا اور سینے کا بالائی حصہ صاف نمایاں ہوتا تھا۔ چھاتیوں پر قمیص کے سوا اور کوئی چیز نہ ہوتی تھی اور پیچھے دو دو تین تین چوٹیاں لہراتی رہتی تھیں، تفسیر کشاف جلد ٢، ابن کثیر جلد ٣ اس آیت کے نزول کے بعد مسلمان عورتوں میں دوپٹہ رائج کیا گیا جس کا مقصد یہ نہیں تھا کہ آج کل کی صاحبزادیوں کی طرح بس اسے بل دے کر گلے کا ہار بنا لیا جائے۔ بلکہ یہ تھا کہ اسے اوڑھ کر سر، کمر، سینہ سب اچھی طرح ڈھانک لیے جائیں۔ اہل ایمان خواتین نے قرآن کا یہ حکم سنتے ہی فوراً جس طرح اس کی تعمیل کی اس کی تعریف کرتے ہوئے حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ جب سورة نور نازل ہوئی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سن کر لوگ اپنے گھروں کی طرف پلٹے اور جا کر انہوں نے اپنی بیویوں، بیٹیوں، بہنوں کو اس کی آیات سنائیں۔ انصار کی عورتوں میں سے کوئی ایسی نہ تھی جو آیت (وَلْیَضْرِبْنَ بِخُمْرِہِنَّ عَلٰی جُیُوْبِہِنَّ ) کے الفاظ سن کر اپنی جگہ بیٹھی رہ گئی ہو۔ ہر ایک اٹھی اور کسی کی چادر بنائی اور دوسرے دن صبح کی نماز کے وقت جتنی عورتیں مسجد میں حاضر ہوئیں سب چادریں اوڑھے ہوئے تھیں۔ اسی سلسلے کی ایک روایت میں حضرت عائشہ (رض) مزید تفصیل بتاتی ہیں کہ عورتوں نے باریک کپڑے چھوڑ کر اپنے موٹے موٹے کپڑے چھانٹے اور ان کی چادریں بنائی۔ ( ابن کثیر ج ٣، ابو داؤد کتاب اللباس) مسائل ١۔ مومن مردوں اور عورتوں کو اپنی نگاہیں جھکا کر رکھنی چاہئیں۔ ٢۔ مومن مرد و عورت کو اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرنی چاہے۔ ٣۔ مومنہ عورتوں کے لیے لائق نہیں کہ وہ اپنی زیب وزیبائش کا اظہار غیر محرموں کے سامنے کریں۔ ٤۔ سابقہ جرائم کی اللہ سے معافی مانگی چاہیے۔ ٥۔ جرائم سے توبہ تائب ہونا اور نیکی کو اختیار کرنا کامیابی کی ضمانت ہے۔ ٦۔ اللہ تعالیٰ سب کے اعمال سے باخبر ہے۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(قل للمئو منین۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بما یصنعون) (٢٤ : ٣٠) ” “۔ مردوں کی طرف سے غض بصر ایک نفسیاتی ادب اور تہذیب ہے اور دوسرے انسانوں کے اندر فطری محاسن اور جسمانی محاسن اور چہرے کے محاسن کی تلاش ہر انسان کے اندر ایک فطری داعیہ ہوتا ہے۔ اس طرح ایک مومن اپنے اس داھیہ پر قابو پاتا ہے۔ نیز یہ غلط روی کے پہلے دریچے کی بندش کا اقدام ہے۔ اگر غض بصر سے کام نہ لیا جائے تو انسانی نظر انسان کو فتنے میں ڈال سکتی ہے۔ گویا زہریلے تیر سے بچنے کی یہ پہلی کوشش ہے۔ جب انسان اپنی نظروں پر قابو پالے تو اس کے نتیجے میں اس کی شرمگاہ خود بخود زیر کنٹرول ہوگی۔ غض بعر کے نتیجے میں بےراہ روی کے اس دوسرے مرحلے میں داخل ہونے ہی سے انسان بچ جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ غض بعر اور حفظ فروج کو ایک ہی آیت میں لایا گیا ہے۔ کیونکہ غض بصر سبب ہے اور حفظ فرج مسبب ہے۔ بلکہ عالم ضمیر اور عالم واقعہ دونوں میں یہ پہلا اور دوسرا قدم ہیں اور ایک دوسرے کے قریب قریب ہیں۔ ذلک ازکی لھم ” یہ ان کے لیے پاکیزہ طریقہ ہے “۔ یہ ان کے جذبات کے لیے پاکیزہ طریقہ ہے ‘ اس طریقے سے وہ برائی میں مبتلا ہونے سے بچ جائیں گے اور ان کا میلان اپنے جائز راہ تک محدود ہوگا۔ اللہ ہی ہے جو تمہیں یہ احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کا حکم دیتا ہے۔ یہ فطری اور نفسیاتی تعلیم و تربیت ہے۔ اللہ تمہاری تمام حرکات سے واقف ہے اور وہ علیم وخبیر ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

نظر کی حفاظت اور عفت و عصمت کا حکم، محارم کا بیان ان دونوں آیتوں میں پردہ کے احکام بیان فرمائے ہیں اور اول تو مردوں اور عورتوں کو نظریں پست یعنی نیچی رکھنے کا حکم فرمایا اور ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ اپنی شرمگاہوں کو محفوظ رکھیں یعنی زنا نہ کریں۔ دونوں باتوں کو ساتھ جوڑ کر یہ بتادیا کہ نظر کی حفاظت نہ ہوگی تو شرم گاہوں کی حفاظت بھی نہ رہے گی۔ گھروں میں جانے کے لیے جو اجازت لینے کا حکم ہے اس میں جہاں دیگر امور کی رعایت ملحوظ ہے وہاں حفاظت نظر بھی مطلوب ہے، جب نظر کی حفاظت ہوگی تو مرد عورت کا میل جول آگے نہیں بڑھے گا اور زنا تک نہ پہنچیں گے۔ چونکہ نظر کو بھی مزہ آتا ہے اور نظر بازی سے دواعی زنا کی ابتداء ہوتی ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے نظر پر پابندی لگائی ہے اور نظر کو بھی زنا قرار دیا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ آنکھوں کا زنا دیکھنا ہے اور کانوں کا زنا سننا ہے اور زبان کا زنا بات کرنا ہے اور ہاتھ کا زنا پکڑنا ہے اور پاؤں کا زنا چل کر جانا ہے اور دل خواہش کرتا ہے اور آرزو کرتا ہے اور شرمگاہ اس کو سچا کردیتی ہے۔ (رواہ مسلم ج ٣٣٦) مطلب یہ ہے کہ زنا سے پہلے جو زانی مرد اور زانی عوت کی طرف سے نظر بازی اور گفتگو اور چھونا اور پکڑنا اور چل کر جانا ہوتا ہے یہ سب زنا میں شمار ہے اور یہ چیزیں اصل زنا تک پہنچا دیتی ہیں بعض مرتبہ اصل زنا کا صدور ہو ہی جاتا ہے (جس کے بارے میں فرمایا کہ شرمگاہ تصدیق کردیتی ہے) اور بعض مرتبہ اصلی زنا رہ جاتا ہے مرد عورت اسے نہیں کر پاتے (جس کو یوں بیان فرمایا کہ شرمگاہ جھٹلا دیتی ہے۔ یعنی اعضاء سے زنا کا صدور تو ہوگیا لیکن اس کے بعد اصلی زنا کا موقع نہیں لگتا) حفاظت نظر کا حکم مردوں کو بھی ہے اور عورتوں کو بھی ہے۔ نظر کے بارے میں شریعت مطہرہ میں بہت سے احکام ہیں، عورت عورت کے کس حصے پر نظر ڈال سکتی ہے اور مرد مرد کے کس حصہ کو دیکھا سکتا ہے اس کے بھی قوانین ہیں اور شہوت کی نظر تو بجز میاں بیوی کے کسی کے لیے حلال نہیں۔ جس نظر سے نفس کو مزہ آئے وہ شہوت کی نظر ہے اگر عورت پردہ نہ کرے مردوں کو تب بھی نظر ڈالنا ممنوع ہے۔ حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے صحابہ سے فرمایا کہ راستوں میں مت بیٹھا کرو، صحابہ نے عرض کیا ہمارے لیے اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے ہم راستوں پر بیٹھ کر باتیں کرتے ہیں آپ نے فرمایا اگر تمہیں یہ کرنا ہی ہے تو راستے کو اس کا حق دیا کرو۔ عرض کیا یا رسول اللہ راستہ کا حق کیا ہے ؟ فرمایا نظریں پست رکھنا، کسی کو تکلیف نہ دینا، سلام کا جواب دینا، بھلائی کا حکم کرنا، گناہ سے روکنا۔ (رواہ البخاری) اپنے محرموں سے پردہ نہیں ہے لیکن اگر وہاں بھی شہوت کی نظر پڑنے لگے تو پردہ لازم ہے اگر کوئی عورت یہ سمجھتی ہو کہ میرا فلاں محرم مجھ پر بری نظر ڈالتا ہے تو پردہ کرے۔ اگر بےدھیانی سے کہیں ایسی نظر پڑجائے، جو حلال نہیں ہے تو فوراً نظر کو ہٹا لیں۔ حضرت جریر بن عبداللہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا اچانک نظر پڑجائے تو کیا کروں آپ نے فرمایا کہ نظر کو پھیر لو۔ (رواہ مسلم) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی کو خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اے علی نظر پڑجانے کے بعد نظر کو باقی نہ رکھو یعنی جو نظر بےاختیار پڑجائے اس کو فوراً ہٹا لو کیونکہ بےاختیار جو نظر پڑی اس پر مواخذہ نہیں اگر نظر کو باقی رکھا تو اس پر مواخذہ ہوگا۔ فان لک الا ولی ولیست لک الاخرۃ (مشکوٰۃ المصابیح ٢٦٩) حضرت عبادہ بن صامت سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ تم مجھے چھ چیزوں کی ضمانت دو میں تمہارے لیے جنت کا ضامن ہوجاتا ہوں۔ (١) جب بات کرو تو سچ بولو (٢) جب وعدہ کرو تو پورا کرو (٣) جب تمہارے پاس امانت رکھی جائے تو ادا کرو (٤) اور اپنی شرمگاہوں کو محفوظ رکھو (٥) اور اپنی آنکھوں کو نیچی رکھ (٦) اور اپنے ہاتھوں کو (ظلم و زیادتی سے) روکے رکھو۔ (مشکوٰۃ المصابیح ٤١٥)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

29:۔ ” قل للمومنین الخ “ یہ دوسرا قانون ہے ایمان والوں کو ہدایت فرمائی کہ وہ نظریں جھکا کر چلا کریں تاکہ اجنبی عورتوں سے ان کی نگاہیں محفوظ رہیں نیز فرمایا وہ اپنی شرمگاہوں کو بدکاری سے محفوظ رکھیں۔ یہ ان کے لیے طہارت و عفاف کا باعث غیر محرم عورت کی طرف دیکھنا دواعی زنا میں سے ہے اس لیے پہلے اس سے منع فرمایا کیونکہ جب آدمی اس کے اسباب و محرکات سے دور رہے گا تو اس سے بھی محفوظ رہے گا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(30) اے پیغمبر ! آپ مسلمان مردوں سے فرما دیجئے کہ وہ اپنی نگاہوں کو پست اور نیچا رکھا کریں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کیا کریں یہ نگاہوں کا نیچا رکھنا اور شرمگاہوں کی حفاظت کرنا ان کے لئے بڑی پاکیزگی کی بات ہے۔ بلاشبہ جو کچھ لوگ کیا کرتے ہیں اللہ تعالیٰ اس سب سے باخبر ہے۔ اوپر کی آیتوں میں زنا کی برائی بیان فرمائی تھی پھر زنا کی تہمت لگانے کی برائی مذکور ہوئی اب دواعی زنا کی برائی اور مقتضائے احتیاط کا بیان ہے تاکہ زنا کی نوبت نہ آئے اسی احتیاط کی بنا پر گھروں میں بےروک ٹوک جانے کی ممانعت فرمائی اب نگاہ نیچی رکھنے کی تعلیم دی یعنی جس عضو کو دیکھنے کی اجازت نہیں اس کو نہ دیکھیں اور جس عضو کو دیکھنے کی اجازت ہے اس کو شہوت اور بدنگاہی کے ساتھ نہ دیکھیں اور شرمگاہوں کی حفاظت کا مطلب یہ ہے کہ ناجائز محل میں شہوت رانی نہ کریں اس سلسلہ میں جو لوگ نفسانی خواہش کو پورا کرنے کے لئے جو کارروائیاں کرتے رہتے ہیں اللہ تعالیٰ ان سب سے باخبر ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں تھامتے رہیں ستر یعنی نہ کسی کا ستر دیکھیں اور نہ اپنا دکھائیں اور خبر ہے جو کرتے ہیں کفر کی رسم میں اس بات کی قید نہ تھی۔ 12۔ یعنی زمانہ جاہلیت میں ستر دیکھنے دکھانے پر کوئی پابندی نہ تھی وہ دور بےحیائی اور فحش کا دور تھا۔ حدیث شریف میں ہے کہ پہلی نظر جو بلاقصد کسی اجنبی عورت پر پڑجائے وہ قابل عفو ہے اور دوبارہ جو قصداً نظر ڈالی جائے وہ قابل مواخذہ ہے۔