Surat un Noor

Surah: 24

Verse: 40

سورة النور

اَوۡ کَظُلُمٰتٍ فِیۡ بَحۡرٍ لُّجِّیٍّ یَّغۡشٰہُ مَوۡجٌ مِّنۡ فَوۡقِہٖ مَوۡجٌ مِّنۡ فَوۡقِہٖ سَحَابٌ ؕ ظُلُمٰتٌۢ بَعۡضُہَا فَوۡقَ بَعۡضٍ ؕ اِذَاۤ اَخۡرَجَ یَدَہٗ لَمۡ یَکَدۡ یَرٰىہَا ؕ وَ مَنۡ لَّمۡ یَجۡعَلِ اللّٰہُ لَہٗ نُوۡرًا فَمَا لَہٗ مِنۡ نُّوۡرٍ ﴿٪۴۰﴾  11

Or [they are] like darknesses within an unfathomable sea which is covered by waves, upon which are waves, over which are clouds - darknesses, some of them upon others. When one puts out his hand [therein], he can hardly see it. And he to whom Allah has not granted light - for him there is no light.

یا مثل ان اندھیروں کے ہے جو نہایت گہرے سمندر کی تہ میں ہوں جسے اوپر تلے کی موجوں نے ڈھانپ رکھا ہو ، پھر اوپر سے بادل چھائے ہوئے ہوں ۔ الغرض اندھیریاں ہیں جو اوپر تلے پے درپے ہیں ۔ جب اپنا ہاتھ نکالے تو اسے بھی قریب ہے کہ نہ دیکھ سکے ، اور ( بات یہ ہے کہ ) جسے اللہ تعالٰی ہی نور نہ دے اس کے پاس کوئی روشنی نہیں ہوتی ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

أَوْ كَظُلُمَاتٍ فِي بَحْرٍ لُّجِّيٍّ يَغْشَاهُ مَوْجٌ مِّن فَوْقِهِ مَوْجٌ مِّن فَوْقِهِ سَحَابٌ ظُلُمَاتٌ بَعْضُهَا فَوْقَ بَعْضٍ إِذَا أَخْرَجَ يَدَهُ لَمْ يَكَدْ يَرَاهَا ... Or like the darkness in a vast deep sea, overwhelmed with waves topped by waves, topped by dark clouds, darkness upon darkness: if a man stretches out his hand, he can hardly see it! meaning, he can hardly see it because it is so intensely dark. This is the parable of the heart of the disbeliever whose ignorance is simple, who merely follows and does not know the true nature of the one whom he follows or where he is going. He is like the ignorant man in the parable who was asked, "Where are you going?" He said, "With them." He was asked, "Where are they going?" He said, "I do not know." ... ظُلُمَاتٌ بَعْضُهَا فَوْقَ بَعْضٍ ... darkness upon darkness, Ubayy bin Ka`b said: "He is enveloped in five types of darkness: his speech is darkness, his deeds are darkness, his coming in is darkness, his going out is darkness and his destiny on the Day of Resurrection will be darkness in the fire of Hell." As-Suddi and Ar-Rabi` bin Anas also said something similar. ... وَمَن لَّمْ يَجْعَلِ اللَّهُ لَهُ نُورًا فَمَا لَهُ مِن نُّورٍ And he for whom Allah has not appointed light, for him there is no light. One whom Allah does not guide is ignorant and doomed, an utter loser and disbeliever. This is like the Ayah: مَن يُضْلِلِ اللَّهُ فَلَ هَادِيَ لَهُ Whomsoever Allah sends astray, none can guide him. (7:186) This is in contrast to what Allah says about the believers: يَهْدِى اللَّهُ لِنُورِهِ مَن يَشَأءُ Allah guides to His Light whom He wills. (24:35) We ask Allah the Almighty to put light in our hearts and give us light on our right and on our left, and to increase us in light.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

401یعنی دنیا میں ایمان و اسلام کی روشنی نصیب نہیں ہوتی اور آخرت میں بھی اہل ایمان کو ملنے والے نور سے وہ محروم رہیں گے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦٦] یہ ان کافروں کی مثال ہے جو اپنے کفر میں پکے اور ہٹ دھرم ہیں۔ وہ صرف اللہ کی نافرمانی اور رسولوں کی تکذیب پر ہی اکتفا ہی نہیں کرتے۔ بلکہ رسول اور مومنوں کو ایذائیں اور دکھ بھی پہنچاتے ہیں اور اللہ کی راہ روکنے کے لئے ہر وقت سرگرم عمل رہتے ہیں۔ اس طرح ان کے کفر کا جرم شدید تر ہوتا جاتا ہے اور اس پر ان کے کفر کی کئی تہیں چڑھتی جاتی ہیں ان کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص گہرے سمندر میں رات کے وقت سفر کر رہا ہو۔ موجوں پر موجیں اٹھ رہی ہوں اور اوپر گہرے بادل بھی چھائے ہوں۔ اس طرح تین چار طرح کی تاریکیاں مل کر ایک ایسا گھٹا ٹوپ اندھیرا ہوجاتا ہے کہ اگر وہ شخص اپنا ہاتھ اپنی آنکھ کے سامنے لائے تو اپنے ہاتھ کو دیکھ بھی نہ سکے۔ کیا ایسے شخص سے توقع ہوسکتی ہے کہ سیدھی راہ پر اپنا سفر جاری رکھ سکے گا۔ اللہ تعالیٰ نے کفر کو ہمیشہ اندھیرے یا اندھیروں سے اور ہدایت کو روشنی سے تعبیر کیا ہے۔ اور اس معاملہ اور ہٹ دھرمی کا تو یہ حال ہے کہ اس پر ایسے اندھیروں کے کئی ردے چڑھے ہوئے ہیں پھر اسے بھلا راہ ہدایت نصیب ہوسکتی ہے۔ [٦٧] یہ مضمون ( اَللّٰهُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ مَثَلُ نُوْرِهٖ كَمِشْكٰوةٍ فِيْهَا مِصْبَاحٌ ۭ اَلْمِصْبَاحُ فِيْ زُجَاجَةٍ ۭ اَلزُّجَاجَةُ كَاَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ يُّوْقَدُ مِنْ شَجَرَةٍ مُّبٰرَكَةٍ زَيْتُوْنَةٍ لَّا شَرْقِيَّةٍ وَّلَا غَرْبِيَّةٍ ۙ يَّكَادُ زَيْتُهَا يُضِيْۗءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌ ۭ نُوْرٌ عَلٰي نُوْرٍ ۭ يَهْدِي اللّٰهُ لِنُوْرِهٖ مَنْ يَّشَاۗءُ ۭ وَيَضْرِبُ اللّٰهُ الْاَمْثَال للنَّاسِ ۭ وَاللّٰهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ 35؀ۙ ) 24 ۔ النور :35) سے شروع ہوا تھا اور یہ اس مضمون کا اختتام ہے۔ منبع ہدایت اور نور تو صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ پھر جو شخص اللہ کی طرف رجوع ہی نہ کرے۔ بلکہ اللہ سے باغیانہ اور معاندانہ روش اختیار کرے۔ اسے ہدایت کی روشنی کیسے نصیب ہوسکتی ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَوْ كَظُلُمٰتٍ فِيْ بَحْرٍ لُّـجِّيٍّ ۔۔ : ” لُّـجِّيٍّ “ میں یاء نسبت کی ہے اور یہ ” لُجٌّ“ کی طرف منسوب ہے، جو ” لُجَّۃٌ“ کی جمع ہے، جس کا معنی ہے بہت بڑا اور گہرا پانی۔ ” بَحْرٍ لُّـجِّيٍّ “ کا معنی ہوگا ” نہایت گہرے پانیوں والا سمندر۔ “ اس مثال کی وضاحت یہ ہے کہ گہرے پانیوں والے سمندر کی گہرائی پانی کی موٹائی کی وجہ سے نہایت تاریک ہوتی ہے۔ جدید تحقیقات بھی یہی ہیں کہ سمندر کی گہرائی میں ایک حد کے بعد روشنی کا گزر بالکل نہیں ہوتا، پھر جب اس پر تہ بہ تہ موجیں ہوں تو تاریکی اور بڑھ جاتی ہے اور جب ان موجوں کے اوپر بادل بھی ہوں تو تاریکی اپنی انتہا کو پہنچ جاتی ہے، تو جو شخص ایسے سمندر کی گہرائی میں ہو وہ اتنی تہ بہ تہ تاریکیوں میں ہوگا کہ اپنے ہاتھ کو دیکھنا چاہے تو قریب نہیں کہ دیکھ پائے، حالانکہ آدمی اپنے جسم کا جو حصہ آنکھوں کے سب سے زیادہ قریب لے جا کر دیکھ سکتا ہے وہ اس کا ہاتھ ہے۔ 3 آیت میں کافر کے عمل کی ایسے شخص کے ساتھ تشبیہ کی کیفیت اہل علم نے کئی طرح بیان فرمائی ہے، طبری نے ابی بن کعب (رض) سے معتبر سند کے ساتھ نقل فرمایا ہے کہ انھوں نے فرمایا : ” کافر پانچ ظلمتوں میں پھرتا رہتا ہے، چناچہ اس کا کلام ظلمت ہے، اس کا عمل ظلمت ہے، وہ ظلمت میں داخل ہوتا ہے اور ظلمت ہی میں سے نکلتا ہے اور قیامت کے دن آگ کی طرف جاتے ہوئے اس کا لوٹنا بھی ظلمتوں میں ہوگا۔ “ (طبری : ٢٦٣٧١) یہ سید القراء کی تفسیر ہے، بعض اہل علم نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ نے تین طرح کی ظلمتیں بیان فرمائی ہیں، سمندر کی ظلمت، امواج کی ظلمت اور بادلوں کی ظلمت۔ اسی طرح کافر بھی تین ظلمتوں میں گرفتار ہے، عقیدے کی ظلمت، قول کی ظلمت اور عمل کی ظلمت۔ “ رازی نے اسے حسن کی طرف منسوب کیا ہے۔ بعض اہل علم نے فرمایا کہ ان ظلمتوں سے مراد دل پر، آنکھوں پر اور کانوں پر پڑے ہوئے پردے ہیں، جیسا کہ فرمایا : (خَتَمَ اللّٰهُ عَلٰي قُلُوْبِهِمْ وَعَلٰي سَمْعِهِمْ ۭ وَعَلٰٓي اَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ) [ البقرۃ : ٧ ] ” اللہ نے ان کے دلوں پر اور ان کے کانوں پر مہر لگا دی اور ان کی نگاہوں پر بھاری پردہ ہے۔ “ بعض نے فرمایا، تاریک دل تاریک سینے میں ہے جو تاریک جسم میں ہے۔ ایک وجہ تشبیہ یہ ہے کہ کافر حق بات نہیں جانتا اور اسے یہ علم بھی نہیں ہوتا کہ وہ نہیں جانتا اور وہ سمجھتا یہ ہے کہ وہ جانتا ہے۔ یہ تینوں مراتب ان تین ظلمتوں کے مشابہ ہیں۔ (رازی) ایک وجہ تشبیہ یہ ہے کہ کافر کے اعمال کو اس شخص کی مجموعی حالت کے ساتھ تشبیہ دی ہے جو سمندر، اس کی امواج اور بادلوں کی تاریکیوں میں گھرا ہوا ہے۔ اسے تشبیہ تمثیل کہتے ہیں اور اس میں مشبّہ کی ایک ایک چیز کی مشبّہ بہ کی ایک ایک چیز کے ساتھ مشابہت تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ یہ توجیہ تکلف سے خالی ہونے کی وجہ سے بہت اچھی ہے۔ وَمَنْ لَّمْ يَجْعَلِ اللّٰهُ لَهٗ نُوْرًا فَمَا لَهٗ مِنْ نُّوْرٍ : اس سے پہلے آیت (٣٥) میں مومن کے متعلق فرمایا تھا : (يَهْدِي اللّٰهُ لِنُوْرِهٖ مَنْ يَّشَاۗءُ ) ” اللہ اپنے نور کی طرف جس کی چاہتا ہے رہنمائی کرتا ہے۔ “ اب کافر کے متعلق فرمایا : ( وَمَنْ لَّمْ يَجْعَلِ اللّٰهُ لَهٗ نُوْرًا فَمَا لَهٗ مِنْ نُّوْرٍ ) جسے اللہ تعالیٰ (اس کی استعداد کی خرابی کی وجہ سے) نور ہدایت نہ دے اسے کہیں سے بھی کوئی نور نہیں مل سکتا۔ یا اللہ ! تو اپنے خاص فضل و کرم سے ہمیں اپنا نور ہدایت عطا فرما اور ہمیں ان لوگوں میں شامل فرما جن کے متعلق تو نے فرمایا ہے : (يَوْمَ تَرَى الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ يَسْعٰى نُوْرُهُمْ بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ وَبِاَيْمَانِهِمْ ) [ الحدید : ١٢ ] ” جس دن تو ایمان والے مردوں اور ایمان والی عورتوں کو دیکھے گا ان کی روشنی ان کے آگے اور ان کی دائیں طرفوں میں دوڑ رہی ہوگی۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

After describing the two examples the next sentence says: وَمَن لَّمْ يَجْعَلِ اللَّـهُ لَهُ نُورً‌ا فَمَا لَهُ مِن نُّورٍ‌(And the one to whom Allah does not give light can have no light at all - 40). This sentence about the disbelievers is like the one that appeared earlier for the believers: يَهْدِي اللَّـهُ لِنُورِ‌هِ مَن يَشَاءُ (Allah guides to His light whomsoever He wills - 35). It describes the deprivation of disbelievers from the Nur of guidance, which they lost by denying the injunctions of Allah, and when they have lost Allah&s Nur of guidance how can they get any other Nur. This verse also explains that no one can become a perspicacious scholar merely by having resource of insight and knowledge, rather it is bestowed by the grace of Allah only. It is for this reason that those who are regarded naive in mundane matters prove themselves very knowledgeable and scholarly in the cognizance of the Hereafter. And, vice versa, many who are regarded very intelligent and knowledgeable in worldly matters, prove themselves completely ignorant and foolish in the perception and comprehension of the Hereafter. (Mazhari)

دونوں مثالیں بیان فرمانے کے بعد ارشاد فرمایا وَمَنْ لَّمْ يَجْعَلِ اللّٰهُ لَهٗ نُوْرًا فَمَا لَهٗ مِنْ نُّوْرٍ ، یہ جملہ کفار کے بارے میں ایسا ہی ہے جیسا مومنین کے بارے میں یہ ارشاد ہوا تھا يَهْدِي اللّٰهُ لِنُوْرِهٖ مَنْ يَّشَاۗءُ کفار کے لئے اس جملہ میں نور ہدایت سے محرومی کا ذکر ہے کہ انہوں نے احکام الہیہ سے انحراف کر کے اپنا فطری نور بھی فنا کرلیا اب جبکہ اللہ کے نور ہدایت سے محروم ہوگئے تو نور کہاں سے آئے۔ اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کوئی شخص محض اسباب علم و بصیرت جمع ہونے سے عالم مبصر نہیں ہوتا بلکہ وہ صرف اللہ تعالیٰ کی عطا سے ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے آدمی جو دنیا کے کاموں میں بالکل ناواقف بیخبر سمجھے جاتے ہیں آخرت کے معاملہ میں وہ بڑے مبصر عقلمند ثابت ہوتے ہیں۔ اسی طرح اس کے برعکس بہت سے آدمی جو دنیا کے کاموں میں بڑے ماہر اور مبصر محقق مانے جاتے ہیں مگر آخرت کے معاملہ میں بڑے بیوقوف جاہل ثابت ہوتے ہیں۔ (مظہری)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَوْ كَظُلُمٰتٍ فِيْ بَحْرٍ لُّجِّيٍّ يَّغْشٰـىہُ مَوْجٌ مِّنْ فَوْقِہٖ مَوْجٌ مِّنْ فَوْقِہٖ سَحَابٌ۝ ٠ۭ ظُلُمٰتٌۢ بَعْضُہَا فَوْقَ بَعْضٍ۝ ٠ۭ اِذَآ اَخْرَجَ يَدَہٗ لَمْ يَكَدْ يَرٰىہَا۝ ٠ۭ وَمَنْ لَّمْ يَجْعَلِ اللہُ لَہٗ نُوْرًا فَمَا لَہٗ مِنْ نُّوْرٍ۝ ٤٠ۧ ظلم) تاریکی) الظُّلْمَةُ : عدمُ النّور، وجمعها : ظُلُمَاتٌ. قال تعالی: أَوْ كَظُلُماتٍ فِي بَحْرٍ لُجِّيٍ [ النور/ 40] ، ظُلُماتٌ بَعْضُها فَوْقَ بَعْضٍ [ النور/ 40] ، وقال تعالی: أَمَّنْ يَهْدِيكُمْ فِي ظُلُماتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [ النمل/ 63] ، وَجَعَلَ الظُّلُماتِ وَالنُّورَ [ الأنعام/ 1] ، ويعبّر بها عن الجهل والشّرک والفسق، كما يعبّر بالنّور عن أضدادها . قال اللہ تعالی: يُخْرِجُهُمْ مِنَ الظُّلُماتِ إِلَى النُّورِ [ البقرة/ 257] ، أَنْ أَخْرِجْ قَوْمَكَ مِنَ الظُّلُماتِ إِلَى النُّورِ [إبراهيم/ 5] ( ظ ل م ) الظلمۃ ۔ کے معنی میں روشنی کا معدوم ہونا اس کی جمع ظلمات ہے ۔ قرآن میں ہے : أَوْ كَظُلُماتٍ فِي بَحْرٍ لُجِّيٍ [ النور/ 40] ان کے اعمال کی مثال ایسی ہے ) جیسے دریائے عشق میں اندھیرے ۔ ظُلُماتٌ بَعْضُها فَوْقَ بَعْضٍ [ النور/ 40] ( غرض ) اندھیرے ہی اندھیرے ہوں ایک پر ایک چھایا ہوا ۔ أَمَّنْ يَهْدِيكُمْ فِي ظُلُماتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [ النمل/ 63] بتاؤ برو بحری کی تاریکیوں میں تمہاری کون رہنمائی کرتا ہے ۔ وَجَعَلَ الظُّلُماتِ وَالنُّورَ [ الأنعام/ 1] اور تاریکیاں اور روشنی بنائی ۔ اور کبھی ظلمۃ کا لفظ بول کر جہالت شرک اور فسق وفجور کے معنی مراد لئے جاتے ہیں جس طرح کہ نور کا لفظ ان کے اضداد یعنی علم وایمان اور عمل صالح پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : يُخْرِجُهُمْ مِنَ الظُّلُماتِ إِلَى النُّورِ [ البقرة/ 257] ان کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے جاتا ہے ۔ أَنْ أَخْرِجْ قَوْمَكَ مِنَ الظُّلُماتِ إِلَى النُّورِ [إبراهيم/ 5] کہ اپنی قوم کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے جاؤ بحر أصل البَحْر : كل مکان واسع جامع للماء الکثير، هذا هو الأصل، ثم اعتبر تارة سعته المعاینة، فيقال : بَحَرْتُ كذا : أوسعته سعة البحر، تشبيها به، ومنه : بَحرْتُ البعیر : شققت أذنه شقا واسعا، ومنه سمیت البَحِيرَة . قال تعالی: ما جَعَلَ اللَّهُ مِنْ بَحِيرَةٍ [ المائدة/ 103] ، وذلک ما کانوا يجعلونه بالناقة إذا ولدت عشرة أبطن شقوا أذنها فيسيبونها، فلا ترکب ولا يحمل عليها، وسموا کلّ متوسّع في شيء بَحْراً ، حتی قالوا : فرس بحر، باعتبار سعة جريه، وقال عليه الصلاة والسلام في فرس ركبه : «وجدته بحرا» «1» وللمتوسع في علمه بحر، وقد تَبَحَّرَ أي : توسع في كذا، والتَبَحُّرُ في العلم : التوسع واعتبر من البحر تارة ملوحته فقیل : ماء بَحْرَانِي، أي : ملح، وقد أَبْحَرَ الماء . قال الشاعر : 39- قد عاد ماء الأرض بحرا فزادني ... إلى مرضي أن أبحر المشرب العذب «2» وقال بعضهم : البَحْرُ يقال في الأصل للماء الملح دون العذب «3» ، وقوله تعالی: مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ هذا عَذْبٌ فُراتٌ وَهذا مِلْحٌ أُجاجٌ [ الفرقان/ 53] إنما سمي العذب بحرا لکونه مع الملح، كما يقال للشمس والقمر : قمران، وقیل السحاب الذي كثر ماؤه : بنات بحر «4» . وقوله تعالی: ظَهَرَ الْفَسادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [ الروم/ 41] قيل : أراد في البوادي والأرياف لا فيما بين الماء، وقولهم : لقیته صحرة بحرة، أي : ظاهرا حيث لا بناء يستره . ( ب ح ر) البحر ( سمندر ) اصل میں اس وسیع مقام کو کہتے ہیں جہاں کثرت سے پانی جمع ہو پھر کبھی اس کی ظاہری وسعت کے اعتبار سے بطور تشبیہ بحرت کذا کا محارہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی سمندر کی طرح کسی چیز کو وسیع کردینا کے ہیں اسی سے بحرت البعیر ہے یعنی میں نے بہت زیادہ اونٹ کے کان کو چیز ڈالا یا پھاڑ دیا اور اس طرح کان چر ہے ہوئے اونٹ کو البحیرۃ کہا جا تا ہے قرآن میں ہے ما جَعَلَ اللَّهُ مِنْ بَحِيرَةٍ [ المائدة/ 103] یعنی للہ تعالیٰ نے بحیرہ جانور کا حکم نہیں دیا کفار کی عادت تھی کہ جو اونٹنی دس بچے جن چکتی تو اس کا کان پھاڑ کر بتوں کے نام پر چھوڑ دیتے نہ اس پر سواری کرتے اور نہ بوجھ لادیتے ۔ اور جس کو کسی صنعت میں وسعت حاصل ہوجائے اسے بحر کہا جاتا ہے ۔ چناچہ بہت زیادہ دوڑ نے والے گھوڑے کو بحر کہہ دیا جاتا ہے ۔ آنحضرت نے ایک گھوڑے پر سواری کے بعد فرمایا : ( 26 ) وجدتہ بحرا کہ میں نے اسے سمندر پایا ۔ اسی طرح وسعت علمی کے اعتبار سے بھی بحر کہہ دیا جاتا ہے اور تبحر فی کذا کے معنی ہیں اس نے فلاں چیز میں بہت وسعت حاصل کرلی اور البتحرفی العلم علم میں وسعت حاصل کرنا ۔ اور کبھی سمندر کی ملوحت اور نمکین کے اعتبار سے کھاری اور کڑوے پانی کو بحر انی کہد یتے ہیں ۔ ابحرالماء ۔ پانی کڑھا ہوگیا ۔ شاعر نے کہا ہے : ( 39 ) قدعا دماء الا رض بحر فزادنی الی مرض ان ابحر المشراب العذاب زمین کا پانی کڑوا ہوگیا تو شریں گھاٹ کے تلخ ہونے سے میرے مرض میں اضافہ کردیا اور آیت کریمہ : مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ هذا عَذْبٌ فُراتٌ وَهذا مِلْحٌ أُجاجٌ [ الفرقان/ 53] بحرین ھذا عذاب فرات ولھذا وھذا ملح اجاج ( 25 ۔ 53 ) دو دریا ایک کا پانی شیریں ہے پیاس بجھانے والا اور دوسرے کا کھاری ہے چھاتی جلانے والا میں عذاب کو بحر کہنا ملح کے بالمقابل آنے کی وجہ سے ہے جیسا کہ سورج اور چاند کو قمران کہا جاتا ہے اور بنات بحر کے معنی زیادہ بارش برسانے والے بادلوں کے ہیں ۔ اور آیت : ظَهَرَ الْفَسادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [ الروم/ 41] کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ بحر سے سمندر مراد نہیں ہے بلکہ بر سے جنگلات اور بحر سے زرخیز علاقے مراد ہیں ۔ لقیتہ صحرۃ بحرۃ میں اسے ایسے میدان میں ملا جہاں کوئی اوٹ نہ تھی ؟ لج اللَّجَاجُ : التّمادي والعناد في تعاطي الفعل المزجور عنه، وقد لَجَّ في الأمر يَلجُّ لَجَاجاً ، قال تعالی: وَلَوْ رَحِمْناهُمْ وَكَشَفْنا ما بِهِمْ مِنْ ضُرٍّ لَلَجُّوا فِي طُغْيانِهِمْ يَعْمَهُونَ [ المؤمنون/ 75] ، بَلْ لَجُّوا فِي عُتُوٍّ وَنُفُورٍ [ الملک/ 21] ومنه : لَجَّةُ الصّوت بفتح اللام . أي : تردّده، ولُجَّةُ البحر بالضّم : تردّد أمواجه، ولُجَّةُ اللیل : تردّد ظلامه، ويقال في كلّ واحد لَجَّ والْتَجَّ. قال : فِي بَحْرٍ لُجِّيٍ [ النور/ 40] منسوب إلى لجّة البحر، وما روي : ( وضع اللّجّ علی قفيّ ) ، أصله : قفاي، فقلب الألف ياء، وهو لغة فعبارة عن السّيف المتموّج ماؤه، واللَّجْلَجَةُ : التّردّد في الکلام وفي ابتلاع الطّعام، قال الشاعر : يُلَجْلِجَ مضغة فيها أنيض «5» أي : غير منضج، ورجل لَجْلَجٌ ولَجْلَاجٌ: في کلامه تردّد، وقیل : الحقّ أبلج والباطل لَجْلَجٌ. أي : لا يستقیم في قول قائله، وفي فعل فاعله بل يتردّد فيه . ( ل ج ج ) اللجاج ( مصدر ض س ) کے معنی کسی ممنوع کام کے کرنے میں بڑھتے چلے جاتے اور اس پر ضد کرنے کے ہیں اس سے فعل لج فی الامر استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلَوْ رَحِمْناهُمْ وَكَشَفْنا ما بِهِمْ مِنْ ضُرٍّ لَلَجُّوا فِي طُغْيانِهِمْ يَعْمَهُونَ [ المؤمنون/ 75] اور اگر ہم ان پر رحم کریں اور جو تکلیفیں انہیں پہنچ رہی ہیں وہ دور کردیں تو اپنی سر کشی پر اڑے رہیں اور بھٹکے ( پھریں ) بَلْ لَجُّوا فِي عُتُوٍّ وَنُفُورٍ [ الملک/ 21] لیکن یہ سرکشی اور نفرت میں بڑھتے چلے جاتے ہیں ۔ اسی سے لجۃ الصوف مشہور ہے جس کے معنی اواز کے بار بار آنے جانے اور پلٹنے کے ہیں ۔ لجۃ البحر ( بضم اللام ) سمندر کی موجوں کا تلاطم ( ان کا بار بار آنا اور پلٹنا ) لجۃ اللیل ۔ رات کی تاریکی کا آنا جان اور سخت ہونا ۔ اور لجۃ و لجۃ میں ایک لغت لج ولج بھی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فِي بَحْرٍ لُجِّيٍ [ النور/ 40] دریائے عمیق میں میں لجی بھی لجۃ البحر کی طرف منسوب ہے اور روایت اس نے میری گر دن پر تلوار رکھ دی ) میں لج کے معنی آبد ار تلوار کے ہیں اور قفی اصل میں قفای ہے الف یاء سے مبدل ہو کر یاء میں ادغام ہوگیا ہے ۔ اللجلجۃ کے معنی ہکلاپن کے ہیں اور نیز لقمہ کو بغیر چبائے منہ میں پھر انے کو بھی لجلجۃ کہتے ہیں کسی شاعر نے کہا ہے ۔ ( 392 ) یلجلج مضغۃ فیھا انیض یعنی منہ میں گوشت کا نیم پختہ ٹکڑا پھر ا رہا ہے ۔ رجل لجلج ہکلا رک رک کر بات کرنے والا ۔ الحق ایلج والباطل لجلج حق واضح ہے اور باطل مشتبہ یعنی کوئی شخص باطل کو نہ تو صاف طور پر بیان کرسکتا ہے اور نہ انشراح صدر کے ساتھ اسے انجام دے سکتا ہے ۔ بلکہ اس میں ہمیشہ متردور رہتا ہے ۔ غشي غَشِيَهُ غِشَاوَةً وغِشَاءً : أتاه إتيان ما قد غَشِيَهُ ، أي : ستره . والْغِشَاوَةُ : ما يغطّى به الشیء، قال : وَجَعَلَ عَلى بَصَرِهِ غِشاوَةً [ الجاثية/ 23] ( غ ش و ) غشیۃ غشاوۃ وغشاء اس کے پاس اس چیز کی طرح آیا جو اسے چھپائے غشاوۃ ( اسم ) پر دہ جس سے کوئی چیز ڈھانپ دی جائے قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلَ عَلى بَصَرِهِ غِشاوَةً [ الجاثية/ 23] اور اس کی آنکھوں پر پر دہ ڈال دیا ۔ موج المَوْج في البحر : ما يعلو من غوارب الماء . قال تعالی: فِي مَوْجٍ كَالْجِبالِ [هود/ 42] ، يَغْشاهُ مَوْجٌ مِنْ فَوْقِهِ مَوْجٌ [ النور/ 40] ومَاجَ كذا يَمُوجُ ، وتَمَوَّجَ تَمَوُّجاً : اضطرب اضطرابَ الموج . قال تعالی: وَتَرَكْنا بَعْضَهُمْ يَوْمَئِذٍ يَمُوجُ فِي بَعْضٍ [ الكهف/ 99] ( م و ج ) الموج سمندر سے پانی کی جو لہر مغرب کی طرف سے اٹھتی ہے اسے موج کہا جاتا ہے قرآن میں ہے ؛ ۔ فِي مَوْجٍ كَالْجِبالِ [هود/ 42] مہروں میں چلنے لگی ( لہریں کیا تھیں گویا پہاڑ ( تھے) يَغْشاهُ مَوْجٌ مِنْ فَوْقِهِ مَوْجٌ [ النور/ 40] جس پر چلی آتی ہو اور اس کے اوپر اور لہر آرہی ہے ماج کذا یموج وتموج تموجا موج کی طرح سضطرب ہونا۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَتَرَكْنا بَعْضَهُمْ يَوْمَئِذٍ يَمُوجُ فِي بَعْضٍ [ الكهف/ 99] اس ( روز ) ہم ان کو چھوڑ دیں گے ۔ کہ روئے زمین پر پھیل کر ) ایک دوسرے میں گھس جائیں ۔ فوق فَوْقُ يستعمل في المکان، والزمان، والجسم، والعدد، والمنزلة، وذلک أضرب : الأول : باعتبار العلوّ. نحو : وَرَفَعْنا فَوْقَكُمُ الطُّورَ [ البقرة/ 63] ، مِنْ فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِنَ النَّارِ [ الزمر/ 16] ، وَجَعَلَ فِيها رَواسِيَ مِنْ فَوْقِها [ فصلت/ 10] ، ويقابله تحت . قال : قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ أَوْ مِنْ تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ [ الأنعام/ 65] الثاني : باعتبار الصّعود والحدور . نحو قوله :إِذْ جاؤُكُمْ مِنْ فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ [ الأحزاب/ 10] . الثالث : يقال في العدد . نحو قوله : فَإِنْ كُنَّ نِساءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ [ النساء/ 11] . الرابع : في الکبر والصّغر مَثَلًا ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة/ 26] . الخامس : باعتبار الفضیلة الدّنيويّة . نحو : وَرَفَعْنا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجاتٍ [ الزخرف/ 32] ، أو الأخرويّة : وَالَّذِينَ اتَّقَوْا فَوْقَهُمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ البقرة/ 212] ، فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا [ آل عمران/ 55] . السادس : باعتبار القهر والغلبة . نحو قوله : وَهُوَ الْقاهِرُ فَوْقَ عِبادِهِ [ الأنعام/ 18] ، وقوله عن فرعون : وَإِنَّا فَوْقَهُمْ قاهِرُونَ [ الأعراف/ 127] ( ف و ق ) فوق یہ مکان ازمان جسم عدد اور مرتبہ کے متعلق استعمال ہوتا ہے اور کئی معنوں میں بولا جاتا ہے اوپر جیسے فرمایا ۔ وَرَفَعْنا فَوْقَكُمُ الطُّورَ [ البقرة/ 63] اور کوہ طور کو تم پر اٹھا کھڑا کیا ۔ مِنْ فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِنَ النَّارِ [ الزمر/ 16] کے اوپر تو آگ کے سائبان ہوں گے ۔ وَجَعَلَ فِيها رَواسِيَ مِنْ فَوْقِها [ فصلت/ 10] اور اسی نے زمین میں اس کے پہاڑ بنائے ۔ اس کی ضد تحت ہے جس کے معنی نیچے کے ہیں چناچہ فرمایا ۔ قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ أَوْ مِنْ تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ [ الأنعام/ 65] کہ وہ اس پر بھی قدرت رکھتا ہے کہ تم پر اوپر کی طرف سے یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے عذاب بھیجے ۔ 2 صعود یعنی بلند ی کی جانب کے معنی میں اس کی ضدا سفل ہے جس کے معنی پستی کی جانب کے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ إِذْ جاؤُكُمْ مِنْ فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ [ الأحزاب/ 10] جب وہ تمہارے اوپر اور نیچے کی جانب سے تم پر چڑھ آئے ۔ 3 کسی عدد پر زیادتی کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے جیسے فرمایا : ۔ فَإِنْ كُنَّ نِساءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ [ النساء/ 11] اگر اولاد صرف لڑکیاں ہی ہوں ( یعنی دو یا ) دو سے زیادہ ۔ 4 جسمانیت کے لحاظ سے بڑا یا چھوٹا ہونے کے معنی دیتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : مَثَلًا ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة/ 26] مچھر یا اس سے بڑھ کر کسی چیز مثلا مکھی ۔ مکڑی کی مثال بیان فرمائے ۔ 5 بلحاظ فضیلت دنیوی کے استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا ۔ وَرَفَعْنا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجاتٍ [ الزخرف/ 32] اور ایک دوسرے پر درجے بلند کئے ۔ اور کبھی فضلیت اخروی کے لحاظ سے آتا ہے جیسے فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اتَّقَوْا فَوْقَهُمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ البقرة/ 212] لیکن جو پرہیز گار ہیں وہ قیامت کے دن ان پر پر فائق ہوں گے ۔ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا [ آل عمران/ 55] کافروں پر فائق ۔ 6 فوقیت معنی غلبہ اور تسلط کے جیسے فرمایا : ۔ وَهُوَ الْقاهِرُ فَوْقَ عِبادِهِ [ الأنعام/ 18] اور وہ اپنے بندوں پر غالب ہے ۔ وَإِنَّا فَوْقَهُمْ قاهِرُونَ [ الأعراف/ 127] فرعون سے اور بےشبہ ہم ان پر غالب ہیں ۔ سحب أصل السَّحْبِ : الجرّ کسحب الذّيل، والإنسان علی الوجه، ومنه : السَّحَابُ ، إمّا لجرّ الرّيح له، أو لجرّه الماء، أو لانجراره في مرّه، قال تعالی: يَوْمَ يُسْحَبُونَ فِي النَّارِ عَلى وُجُوهِهِمْ [ القمر/ 48] ، وقال تعالی: يُسْحَبُونَ فِي الْحَمِيمِ [ غافر/ 71] ، وقیل : فلان يَتَسَحَّبُ علی فلان، کقولک : ينجرّ ، وذلک إذا تجرّأ عليه، والسَّحَابُ : الغیم فيها ماء أو لم يكن، ولهذا يقال : سحاب جهام «4» ، قال تعالی: أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يُزْجِي سَحاباً [ النور/ 43] ، حَتَّى إِذا أَقَلَّتْ سَحاباً [ الأعراف/ 57] ، وقال : وَيُنْشِئُ السَّحابَ الثِّقالَ [ الرعد/ 12] ، وقد يذكر لفظه ويراد به الظّلّ والظّلمة، علی طریق التّشبيه، قال تعالی: أَوْ كَظُلُماتٍ فِي بَحْرٍ لُجِّيٍّ يَغْشاهُ مَوْجٌ مِنْ فَوْقِهِ مَوْجٌ مِنْ فَوْقِهِ سَحابٌ ظُلُماتٌ بَعْضُها فَوْقَ بَعْضٍ [ النور/ 40] . ( س ح ب ) السحب اس کے اصل معنی کھینچنے کے ہیں ۔ چناچہ دامن زمین پر گھسیٹ کر چلنے یا کسی انسان کو منہ کے بل گھسیٹنے پر سحب کا لفظ بولا جاتا ہے اسی سے بادل کو سحاب کہا جاتا ہے یا تو اس لئے کہ ہوا اسے کھینچ کرلے چلتی ہے اور یا اس بنا پر کہ وہ چلنے میں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گھسٹتا ہوا چل رہا ہے قرآن میں ہے :۔ يَوْمَ يُسْحَبُونَ فِي النَّارِ عَلى وُجُوهِهِمْ [ القمر/ 48] جس دن ان کو انکے منہ کے بل ( دوزخ کی ) آگ میں گھسیٹا جائیگا ۔ اور فرمایا : يُسْحَبُونَ فِي الْحَمِيمِ [ غافر/ 71] انہیں دوزخ میں کھینچا جائے گا ۔ محاورہ ہے :۔ فلان یتسحب علی فلان : کہ فلاں اس پر جرات کرتا ہے ۔ جیسا کہ یتجرء علیہ کہا جاتا ہے ۔ السحاب ۔ ابر کو کہتے ہیں خواہ وہ پانی سے پر ہو یا خالی اس لئے خالی بادل کو سحاب جھام کہا جاتا ہے قرآن میں ہے :۔ أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يُزْجِي سَحاباً [ النور/ 43] کیا تو نے غور نہیں کیا کہ اللہ بادل کو چلاتا ہے ۔ حَتَّى إِذا أَقَلَّتْ سَحاباً [ الأعراف/ 57] حتی کہ جب وہ بھاری بادل کو اٹھا لاتی ہیں ۔ وَيُنْشِئُ السَّحابَ الثِّقالَ [ الرعد/ 12] اور وہ بھاری بادل اٹھاتا ہے ۔ اور کبھی لفظ سحاب بول کر بطور تشبیہ کے اس سے سایہ اور تاریکی مراد لی جاتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : أَوْ كَظُلُماتٍ فِي بَحْرٍ لُجِّيٍّ يَغْشاهُ مَوْجٌ مِنْ فَوْقِهِ مَوْجٌ مِنْ فَوْقِهِ سَحابٌ ظُلُماتٌ بَعْضُها فَوْقَ بَعْضٍ [ النور/ 40] یا ( ان کے اعمال کی مثال ) بڑے گہرے دریا کے اندورنی اندھیروں کی سی ہے کہ دریا کو لہر نے ڈھانپ رکھا ہے اور ( لہر بھی ایک نہیں بلکہ ) لہر کے اوپر لہر ان کے اوپر بادل ( کی تاریکی غرض اندھیرے ہیں ایک کے اوپر ایک ۔ بعض بَعْضُ الشیء : جزء منه، ويقال ذلک بمراعاة كلّ ، ولذلک يقابل به كلّ ، فيقال : بعضه وكلّه، وجمعه أَبْعَاض . قال عزّ وجلّ : بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة/ 36] ( ب ع ض ) بعض الشئی ہر چیز کے کچھ حصہ کو کہتے ہیں اور یہ کل کے اعتبار سے بولا جاتا ہے اسلئے کل کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے جیسے : بعضہ وکلہ اس کی جمع ابعاض آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة/ 36] تم ایک دوسرے کے دشمن ہو ۔ خرج خَرَجَ خُرُوجاً : برز من مقرّه أو حاله، سواء کان مقرّه دارا، أو بلدا، أو ثوبا، وسواء کان حاله حالة في نفسه، أو في أسبابه الخارجة، قال تعالی: فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص/ 21] ، ( خ رج ) خرج ۔ ( ن) خروجا کے معنی کسی کے اپنی قرار گاہ یا حالت سے ظاہر ہونے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ قرار گاہ مکان ہو یا کوئی شہر یا کپڑا ہو اور یا کوئی حالت نفسانی ہو جو اسباب خارجیہ کی بنا پر اسے لاحق ہوئی ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص/ 21] موسٰی وہاں سے ڈرتے نکل کھڑے ہوئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔ كَادَ ووُضِعَ «كَادَ» لمقاربة الفعل، يقال : كَادَ يفعل : إذا لم يكن قد فعل، وإذا کان معه حرف نفي يكون لما قد وقع، ويكون قریبا من أن لا يكون . نحو قوله تعالی: لَقَدْ كِدْتَ تَرْكَنُ إِلَيْهِمْ شَيْئاً قَلِيلًا[ الإسراء/ 74] ، وَإِنْ كادُوا[ الإسراء/ 73] ، تَكادُ السَّماواتُ [ مریم/ 90] ، يَكادُ الْبَرْقُ [ البقرة/ 20] ، يَكادُونَ يَسْطُونَ [ الحج/ 72] ، إِنْ كِدْتَ لَتُرْدِينِ [ الصافات/ 56] ولا فرق بين أن يكون حرف النّفي متقدما عليه أو متأخّرا عنه . نحو : وَما کادُوا يَفْعَلُونَ [ البقرة/ 71] ، لا يَكادُونَ يَفْقَهُونَ [ النساء/ 78] . وقلّما يستعمل في كاد أن إلا في ضرورة الشّعر «1» . قال قد كَادَ من طول البلی أن يمصحا«2» أي : يمضي ويدرس . ( ک و د ) کاد ( س ) فعل مقارب ہے یعنی کسی فعل کے قریب الوقوع ہون کو بیان کرنے کے لئے آتا ہے مثلا کا دیفعل قریب تھا وہ اس کا م کو گزرتا یعنی کرنے والا تھا مگر کیا نہیں قرآن میں لَقَدْ كِدْتَ تَرْكَنُ إِلَيْهِمْ شَيْئاً قَلِيلًا[ الإسراء/ 74] تو تم کسی قدر ان کی طرف مائل ہونے ہی لگے تھے ۔ وَإِنْ كادُوا[ الإسراء/ 73] قریب تھا کہ یہ ( کافر) لگ تم اس سے بچلا دیں ۔ تَكادُ السَّماواتُ [ مریم/ 90] قریب ہے کہ ( اس فتنہ ) سے آسمان پھٹ پڑیں ۔ ؛ يَكادُ الْبَرْقُ [ البقرة/ 20] قریب ہے ک کہ بجلی کی چمک ان کی آنکھوں کی بصاحب کو اچک لے جائے ۔ يَكادُونَ يَسْطُونَ [ الحج/ 72] قریب ہوتے ہیں کہ ان پر حملہ کردیں إِنْ كِدْتَ لَتُرْدِينِ [ الصافات/ 56] تو تو مجھے ہلا ہی کرچکا تھا ۔ اور اگر ا ن کے ساتھ حرف نفی آجائے تو اثباتی حالت کے برعکدس فعل وقوع کو بیان کرنے کیلئے آتا ہے جو قوع کے قریب نہ ہوا اور حروف نفی اس پر مقدم ہو یا متاخر دونوں صورتوں میں ایک ہی معنی دیتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : وَما کادُوا يَفْعَلُونَ [ البقرة/ 71] اور وہ ا یسا کرنے والے تھے نہیں ۔ لا يَكادُونَ يَفْقَهُونَ [ النساء/ 78] کہ بات بھی نہیں سمجھ سکتے۔ اور کاد کے بعد ا ان کا استعمال صرف ضرورت شعری کے لئے ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ( الرجز) ( 387 ) قد کاد من طول البلیٰ ان یمصحا قریب تھا کہ زیادہ بوسیدہ گی کے باعث وہ سٹ جائے يد الْيَدُ : الجارحة، أصله : وقوله : فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْواهِهِمْ [إبراهيم/ 9] ، ( ی د ی ) الید کے اصل معنی تو ہاتھ کے ہیں یہ اصل میں یدی ( ناقص یائی ) ہے کیونکہ اس کی جمع اید ویدی اور تثنیہ یدیان اور آیت کریمہ : ۔ فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْواهِهِمْ [إبراهيم/ 9] تو انہوں نے اپنے ہاتھ ان کے مونہوں پر رکھ دئے ۔ نور ( روشنی) النّور : الضّوء المنتشر الذي يعين علی الإبصار، وذلک ضربان دنیويّ ، وأخرويّ ، فالدّنيويّ ضربان : ضرب معقول بعین البصیرة، وهو ما انتشر من الأمور الإلهية کنور العقل ونور القرآن . ومحسوس بعین البصر، وهو ما انتشر من الأجسام النّيّرة کالقمرین والنّجوم والنّيّرات . فمن النّور الإلهي قوله تعالی: قَدْ جاءَكُمْ مِنَ اللَّهِ نُورٌ وَكِتابٌ مُبِينٌ [ المائدة/ 15] ، وقال : وَجَعَلْنا لَهُ نُوراً يَمْشِي بِهِ فِي النَّاسِ كَمَنْ مَثَلُهُ فِي الظُّلُماتِ لَيْسَ بِخارِجٍ مِنْها [ الأنعام/ 122] ( ن و ر ) النور ۔ وہ پھیلنے والی روشنی جو اشیاء کے دیکھنے میں مدد دیتی ہے ۔ اور یہ دو قسم پر ہے دینوی اور اخروی ۔ نور دینوی پھر دو قسم پر ہے معقول جس کا ادراک بصیرت سے ہوتا ہے یعنی امور الہیہ کی روشنی جیسے عقل یا قرآن کی روشنی دوم محسوس جسکاے تعلق بصر سے ہے جیسے چاند سورج ستارے اور دیگر اجسام نیزہ چناچہ نور الہیٰ کے متعلق فرمایا : ۔ قَدْ جاءَكُمْ مِنَ اللَّهِ نُورٌ وَكِتابٌ مُبِينٌ [ المائدة/ 15] بیشک تمہارے خدا کی طرف سے نور اور روشن کتاب آچکی ہے ۔ وَجَعَلْنا لَهُ نُوراً يَمْشِي بِهِ فِي النَّاسِ كَمَنْ مَثَلُهُ فِي الظُّلُماتِ لَيْسَ بِخارِجٍ مِنْها [ الأنعام/ 122] اور اس کے لئے روشنی کردی جس کے ذریعہ سے وہ لوگوں میں چلتا پھرتا ہے کہیں اس شخص جیسا ہوسکتا ہے ۔ جو اندھیرے میں پڑا ہو اور اس سے نکل نہ سکے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤٠) یا یہ کہ کافر کے دل میں کفر کی تاریکی کی حالت ایسی ہے جیسے بڑے گہرے سمندر کے اندرونی اندھیرے کہ اس سمندر کو ایک بڑی موج نے ڈھانپ لیا ہو بلکہ اس لہر کے اوپر دوسری لہر ہو اور پھر اس کے اوپر بادل ہو، یہی حالت کافر کے دل کی ہے کہ اس کے دل میں جو گندگی اور تاریکی ہے وہ سمندر کی تاریکی کی طرح ہے اور اس کے دل کی حالت بڑے گہرے سمندر کی سی ہے اور اس کا سینہ اس لہر کی طرح ہے جس نے سمندر کی اصلی سطح کو ڈھانپ لیا ہو اور اس کے اعمال کی مثال اس اوپر والے بادل کی طرح ہے کہ جس سے کچھ بھی فائدہ نہیں حاصل ہوسکتا، اسی چیز کو اللہ تعالیٰ نے دوسرے مقام پر فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں اور کانوں اور ان کے سینوں پر مہر لگا دی ہے سو یہ اوپر تلے بہت سے اندھیرے ہی اندھیرے ہیں تو ایسی تاریکیوں میں اگر کوئی اپنا ہاتھ نکال کردیکھنا چاہے تو دیکھنا تو درکنار دیکھنے کا احتمال بھی نہیں، اسی طرح کافر اپنے دل کی تاریکی کی شدت سے حق اور ہدایت کے راستہ کو نہیں دیکھ سکتا اور جس کو اللہ تعالیٰ دنیا میں نور معرفت نہ دے اس کے لیے آخرت میں بھی نور معرفت نہیں یا یہ کہ جس کو اللہ تعالیٰ دنیا میں دولت ایمان کے ساتھ سرفرازی نہ عطا فرمائے اس کے لیے آخرت میں بھی ایمان پر کچھ صلہ نہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٠ (اَوْ کَظُلُمٰتٍ فِیْ بَحْرٍ لُّجِّیٍّ یَّغْشٰہُ مَوْجٌ مِّنْ فَوْقِہٖ مَوْجٌ مِّنْ فَوْقِہٖ سَحَابٌ ط) ” یعنی اندھیری رات ہے ‘ سمندر کی گہرائی میں موج در موج کی کیفیت ہے اور اوپر فضا میں گہرے بادل چھائے ہوئے ہیں۔ گویا روشنی کی کسی ایک کرن کا بھی کہیں کوئی وجود نہیں۔ (ظُلُمٰتٌم بَعْضُہَا فَوْقَ بَعْضٍط اِذَآ اَخْرَجَ یَدَہٗ لَمْ یَکَدْ یَرٰٹہَا ط) ” مطلق تاریکی (absolute darkness) کی اس کیفیت کو اردو محاورے میں یوں بیان کیا جاتا ہے کہ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا۔ ایک فرینچ ایڈمرل اس آیت کو پڑھ کر مسلمان ہوگیا تھا۔ اس کی ساری عمر سمندروں میں گزری تھی اور پانی کے نیچے absolute darkness کی کیفیت اس نے اپنی آنکھوں سے دیکھی تھی۔ یہ آیت پڑ ھ کر اسے بجا طور پر یہ تجسسّ ہوا کہ کیا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بحری سفر بھی کیے تھے ؟ اور جب اسے معلوم ہوا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کبھی بھی کوئی بحری سفر نہیں کیا تو اس نے اعتراف کرلیا کہ یہ ان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کلام نہیں اللہ کا کلام ہے ‘ کیونکہ ایسی تشبیہہ تو صرف وہی شخص دے سکتا ہے جو سمندر میں غوطہ خوری کرتا رہا ہو اور سمندر کی گہرائی میں اندھیروں کی کیفیت کو اپنی آنکھوں سے دیکھا چکا ہو۔ (وَمَنْ لَّمْ یَجْعَلِ اللّٰہُ لَہٗ نُوْرًا فَمَا لَہٗ مِنْ نُّوْرٍ ) ” یعنی وہ لوگ جن کی زندگیاں ملمع کی نیکیوں سے بھی خالی ہیں ان کے لیے اندھیرے ہی اندھیرے ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

72. This parable describes the condition of all the disbelievers and the hypocrites including those who perform good deeds for ostentation. It is being stated that such people are passing their life in a state of absolute and complete ignorance, whether they are the most learned people in the world and leaders in their respective fields of learning. They are like the man who is lost in complete darkness where no ray of light can reach him. They think that knowledge merely consists in producing atom bombs, hydrogen bombs, supersonic planes and moon rockets, or in attaining excellence in economics and finance and law and philosophy. But they little understand that real knowledge is something entirely different and they have no idea of it. Thus considered they are just ignorant, and an illiterate peasant who has gained some acquaintance of the divine truth is wiser than them. 73. Here is stated the real object of the discourse which began with: Allah is the Light of the heavens and the earth. When in fact there is no light in the universe except the Light of Allah and all manifestation of reality is due to that Light, where from can the one whom Allah does not give light have light? There exists no other source of light from where he can receive a ray.

سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :72 اس مثال میں تمام کفار و منافقین کی حالت بیان کی گئی ہے جن میں نمائشی نیکیاں کرنے والے بھی شامل ہیں ۔ ان سب کے متعلق بتایا جا رہا ہے کہ وہ اپنی پوری زندگی قطعی اور کامل جہالت کی حالت میں بسر کر رہے ہیں ، خواہ وہ دنیا کی اصطلاحوں میں علامہ دہر اور علوم و فنون کے استاذ الاساتذہ ہی کیوں نہ ہوں ۔ ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی جگہ پھنسا ہوا ہو جہاں مکمل تاریکی ہو ، روشنی کی ایک کرن تک نہ پہنچ سکتی ہو ۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ایٹم بم اور ہائیڈروجن بم اور آواز سے تیز رفتار طیارے ، اور چاند تک پہنچنے والی ہوائیاں بنا لینے کا نام علم ہے ۔ ان کے نزدیک معاشیات اور مالیات اور قانون اور فلسفے میں مہارت کا نام علم ہے ۔ مگر حقیقی علم ایک اور چیز ہے ، اور اس کی ان کو ہوا تک نہیں لگی ہے ۔ اس علم کے اعتبار سے وہ جاہل محض ہیں ، اور ایک ان پڑھ دیہاتی ذی علم ہے اگر وہ معرفت حق سے بہرہ مند ہو ۔ سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :73 یہاں پہنچ کر وہ اصل مدعا کھول دیا گیا ہے جس کی تمہید : اَللہُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ کے مضمون سے اٹھائی گئی تھی ۔ جب کائنات میں کوئی نور درحقیقت اللہ کے نور کے سوا نہیں ہے ، اور سارا ظہور حقائق اسی نور کی بدولت ہو رہا ہے ، تو جو شخص اللہ سے نور نہ پائے وہ اگر کامل تاریکی میں مبتلا نہ ہو گا تو اور کیا ہو گا ۔ کہیں اور تو روشنی موجود ہی نہیں ہے کہ اس سے ایک کرن بھی وہ پا سکے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

37: یہ ان کافروں کی مثال ہے جو آخرت کو سرے سے مانتے ہی نہیں، اس لئے ان کے پاس اتنا نور بھی نہیں جتنا پہلے گروہ کے پاس تھا کہ کم از کم وہ یہ امید رکھتے تھے کہ ان کے اعمال اُنہیں آخرت میں فائدہ پہنچائیں گے، لیکن ان لوگوں کے پاس امید کی یہ کرن بھی نہیں ہے۔ اور بعض مفسرین نے دونوں مثالوں میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ کافروں کے اعمال دو قسم کے ہوتے ہیں، ایک وہ جو وہ نیکی سمجھ کر کرتے ہیں، اور اُن سے فائدے کی امید رکھتے ہیں، اُن کی مثال تو سراب جیسی ہے، اور ایک وہ اعمال ہیں جو وہ نیکی سمجھ کر نہیں کرتے، اُن کی مثال اُن اندھیروں کی ہے جن میں روشنی کوئی کرن نہیں ہوتی۔ پھر سمندر کی تہہ کا اندھیرا اُن کے کافرانہ عقائد کی مثال ہے، اور ایک موج کا اندھیرا اُن کے بُرے اعمال کی مثال ہے، اور دوسری موج کا اندھیرا اُن کی ہٹ دھرمی کی مثال ہے۔ اس طرح اُن میں اوپر تلے بہت سے اندھیرے جمع ہوگئے ہیں۔ ایسے سخت اندھیرے میں جس طرح اِنسان کو اپنا ہاتھ بھی نظر نہیں آتا، اسی طرح کفر اور فِسق کے اندھیروں میں ان لوگوں کو خود اپنی حقیقت بھی سمجھ میں نہیں آتی۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(24:40) او کظلمت۔ او حرف عطف۔ کظلمت معطوف۔ کسراب معطوف علیہ ۔ یہ کفار کے اعمال کی دوسری مثال ہے ک حرف تشبیہ۔ ظلمت تاریکیاں۔ اندھیرے۔ ظلمۃ کی جمع ۔ ظلمت کہتے ہیں روشنی کے نہ ہونے کو۔ اس کی ضد نور ہے۔ جیسے ارشاد الٰہی ہے یخرجہم من الظلمت الی (2:257) وہ (اللہ) ان کو اندھیروں سے اجالے میں نکال لاتا ہے۔ او کظلمت تا مجرور بوجہ ک حرف جار کے ہے جیسے کسراب۔ یا ان (کفار ) کے اعمال ایسے اندھروں کی مانند ہیں۔ لجی۔ یائے نسبتی ہے جس کی نسبت بحر سے ہے۔ بحر لجی بہت پانی والا دریا۔ اللجاج مصدر (باب ضرب وسمع) کے معنی کسی ممنوع کام کے کرنے میں بڑھتے چلے جانے کے اور اس پر ضد کرنے کے ہیں۔ مثلا بل لجوا فی عتو و نفور (67:21) لیکن یہ سرکشی اور نفرت میں بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ لجۃ البحر۔ سمندر کی موجوں کا تلاطم (ان کا باہر آنا اور پلٹنا) ۔ بحر لجی۔ صفت موصوف۔ بہت پانی والا دریا۔ عمیق ۔ ایسا سمندر جو نہایت عمیق اور متلاطم ہو۔ بحر الذی لا یدرک قعدہ۔ ایسا سمندر جس کی گہرائی معلوم نہ ہو سکے۔ یغشہ موج من فوقہ موج۔ یغشہ مضارع واحد مذکر غائب غشی (باب سمع) مصدر اس پر چھا رہی ہو۔ اس کو ڈھانکے ہوئے ہو۔ یغشی میں ضمیر مضارع برائے موج ہے اور ہ ضمیر مفعول واحد مذکر غائب بحر کے لئے ہے۔ من فوقہ موج اس پر ایک دوسری موج۔ من فوقہ سحاب (پھر) اس موج پر بادل۔ ظلمت بعضھا فوق بعض۔ اندھیرے (جو تہہ در تہہ) ایک دوسرے پر امڈے چلے آرہے ہوں ۔ لم یکد یرھا۔ لم یکد مضارع نفی حجد بلم۔ ھا ضمیر واحد مؤنث غائب۔ جس کا مرجع یدہ ہے۔ فما لہ نور۔ اس کی کیفیت آیۃ 35 میں ملاحظہ ہو اور کفار اور ان کے اعمال کا بیان آیۃ ہذا میں ملاحظہ ہو۔ ظلمت بعضھا فوق بعض۔ تفسیر حقانی میں ہے بحر لجی۔ یعنی بڑے گہرے اور بہت عمیق سمندر کی تہ میں (بوجہ گہرائی اندھیرا ہوتا ہے۔ پھر جب اس پر امواج کا تلاطم ہو تو اور بھی اندھیرا زیادہ ہوجاتا ہے اور جب کہ امواج پر بادل اور گھنگھور گھٹا ہوتی ہے تو انتہا درجہ کا اندھیرا ہوجاتا ہے تو ایسی حالت میں ہاتھ بھی دکھائی نہیں دیتا۔ حالانکہ پاس کی چیزوں میں سے ہاتھ بہت قریب سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح کفار تین اندھیروں میں مبتلا ہیں :۔ (1) اعتقاد کی ظلمت جو بحر عمیق کے مشابہ ہے اور عقائد کا محل دل ہے جس کو مختلف موجیں مارنے میں اور خطرات شہوت کے تلاطم میں بڑی مناسب اور کامل تشبیہ ہے۔ (2) قول بد کی ظلمت جو ان کی زبان سے نکل کر دریا کی طرح موجیں مارتی ہے۔ (3) عمل بد کی ظلمت جو بادل کی طرح محیط ہے۔ یا ۔ اس کے قلب اور سمع وبصر کی اندھیریاں مراد ہیں۔ یا ۔ کافر کو جو اپنے کفر پر اصرار ہے اس ظلمات متراکمہ کو دریا اور امواج اور سحاب کی ظلمات متراکمہ سے تشبیہ دی گئی ہے۔ پس وہ کافر جو ان اندھیروں میں مبتلا ہے اگر اس کو اللہ تعالیٰ ہی اندھیروں سے نہ نکالے اور نور میں نہ لائے تو اسے کون نکال سکتا ہے اور نور میں لاسکتا ہے۔ اسی لئے فرمایا : ومن لم یجعل اللہ لہ نورا فما لہ من نور۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

2 ۔ ابرکا اندھیرا، موج کا اندھیرا، سمندر کا اندھیرا۔ 3 ۔ یہ ان لوگوں کی مثال ہے جو جہل بسیط کا شکار ہوتے ہیں۔ نہ تو ان کو یہ معلوم ہے کہ ان کی قیادت کرنے والے کیسے ہیں اور نہ یہی جانتے ہیں کہ ان کو کس طرف لے جا رہے ہیں مگر اپنے آپ کو راہ راست پر سمجھتے ہیں حالانکہ باپ دادا کی اندھی تقلید، جہالت، ادہام پرستی وغیرہ۔ نہ معلوم کتنی گمراہیاں ہیں جن میں یہ لوگ گرفتار ہیں۔ اسی کو مثال میں ظلمات بضھا فوق بعض۔ کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ (شوکانی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ پس ان لوگوں کو چاہئے تھا کہ اتباع احکام الہیہ کا ارادہ کرتے، تو اللہ تعالیٰ جب نور ہدایت ڈالتا ہے تو روز بروز اس کا انشراح قبول حق کے لئے بڑہتا چلا جاتا ہے اور وہ ہر وقت احکام پر عمل کرنے کے لئے تیار رہتا ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : کفار کے اعمال کے بارے میں ایک اور مثال : کفار کے اعمال ان اندھیروں کی طرح ہیں جو گہرے سمندر کے نیچے پائے جاتے ہیں۔ جس طرح سمندر کی بڑی، بڑی موجیں ایک دوسرے کے اوپر ٹھاٹھیں مار رہی ہوتی ہیں اور ان موجوں کو رات کے وقت کالے بادلوں نے ڈھانپ رکھا ہو گو یا کہ اندھیروں پہ اندھیرے چھائے ہوئے ہیں۔ ایسے سمندر کی تہہ سے کسی شخص کا نکلنا تو درکنار وہ اپناہاتھ اپنے سامنے کرکے دیکھنا چاہے تو اسے بھی نہ دیکھ پائے۔ یہی کفار کے اخلاق اور اعمال کی کیفیت ہے جن پر کفرو شرک کا پردہ، نبی آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا انکار اور قیامت کے عقیدہ سے انحراف کے پردے پڑے ہوئے ہیں ایسے شخص کا اپنے اعمال کی قبولیت کا تصور کرنا اس شخص کی مانند ہے جو بادلوں کے اندھیرے، رات کی تاریکیوں اور سمندر کی تہہ در تہہ ظلمتوں کے نیچے اپنے ہاتھ کو دیکھنے کی کوشش کرتا ہے جس طرح اس کا اپنا ہاتھ دیکھنا ناممکنات میں سے ہے اسی طرح ہی کفار کے اعمال کی قبولیت بھی ناممکن ہے۔ جس طرح تاریکیوں سے نکلنے کے لیے روشنی کی ضرورت ہے اسی طرح ہی ہدایت پانے کے لیے کتاب وسنت کے نور کی ضرورت ہے یہ اسی کو نصیب ہوتا ہے جو اس کے لیے چاہت رکھتا اور کوشش کرتا ہے۔ جو اس کی چاہت اور کوشش نہیں کرتا اسے ہدایت کا نور نصیب نہیں ہوتا اور جسے ہدایت کا نور نصیب نہ ہو وہ اس کے نور کے علاوہ کہاں سے ہدایت کا نور پائے گا ؟ (اللّٰہُمَّ اجْعَلْ فِی قَلْبِی نُورًا وَفِی بَصَرِی نُورًا وَفِی سَمْعِی نُورًا وَعَنْ یَمِینِی نُورًا وَعَنْ یَسَارِی نُورًا وَفَوْقِی نُورًا وَتَحْتِی نُورًا وَأَمَامِی نُورًا وَخَلْفِی نُورًا وَاجْعَلْ لِیّ نُورًا) [ رواہ البخاری، کتاب الدعوات، باب الدعا اذا انتبدہ بالیل ] ” اے اللہ میرے دل میں نور پیدا فرمادے میری نگاہ میں بھی نور، میرے کا نوں میں بھی نور، میرے دائیں بھی نور، میرے بائیں بھی نور، میرے اوپر بھی نور، میرے نیچے بھی نور، میرے آگے بھی نور، میرے پیچھے بھی نور، اور میرے لیے ہر جانب نور پیدا فرمادے۔ “ اس لیے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ (اَللّٰہُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْایُخْرِجُھُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِوَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اَوْلِیٰٓءُھُمُ الطَّاغُوْتُ یُخْرِجُوْنَھُمْ مِّنَ النُّوْرِ اِلَی الظُّلُمٰتِ اُولٰٓءِکَ اَصْحٰبُ النَّارِھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ ) [ البقرۃ : ٢٥٧ ] ” اللہ تعالیٰ ایمان والوں کا دوست ہے وہ انہیں اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لاتا ہے۔ اور کفار کے ساتھی شیاطین ہیں وہ انہیں روشنی سے نکال کر اندھیروں کی طرف لے جاتے ہیں۔ یہ لوگ جہنمی ہیں جو اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ “ مسائل ١۔ کافر اور مشرک کفرو شرک کے اندھیروں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ٢۔ ہدایت نور ہے اور گمراہی اندھیرا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کے نور ہدایت کے سوا کہیں سے نور حاصل نہیں ہوسکتا۔ تفسیر بالقرآن ہدایت نور ہے اور کفرو شرک اندھیرے ہیں : ١۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ کو اپنی نشانیوں کے ساتھ بھیجا تاکہ ان کے ذریعے اپنی قوم کو اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لائیں۔ (ابراہیم : ٥) ٢۔ یقیناً تمہارے پاس اللہ کی طرف سے نور اور واضح کتاب پہنچ چکی ہے۔ (المائدۃ : ١٥) ٣۔ اللہ نور کی طرف رہنمائی کرتا ہے جس کی چاہتا ہے۔ (النور : ٣٥) ٤۔ ہم نے تو رات اتاری اس میں ہدایت اور نور ہے۔ (المائدۃ : ٤٤) ٥۔ ہم نے آپ کی طرف کتاب نازل کی تاکہ آپ لوگوں کو اندھیروں سے روشنی کی طرف لائیں۔ (ابراہیم : ١)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یہاں قرآن کریم نے اہل کفر کی زندگی اور ان کے نظریات اور سرگرمیوں کی تصویر کشی دو طرح کی ہے۔ یہ دو مشاہد ہیں جو بطور تمثیل دیئے گئے ہیں۔ پہلی تمثیل ہے ان کے اعمال کی۔ یہ اعمال ایسے نظر آتے ہیں جس طرح چٹیل وسعی ریگستان میں سراب نظر آتا ہے۔ یہ سراب ٹیلے پانی کی طرح دکھائی دیتا ہے۔ پیاسا اس کے پیچھے بھگتا ہے۔ وہ توقع تو یہ کرتا ہے کہ سراب تک پہنچ کر پانی پئے گا لیکن وہ اس بات سے غافل ہوتا ہے کہ وہاں تک پہنچ کر وہ وہاں کیا پانے والاہوتا ہے۔ یہاں منظر میں اچانک تبدیلی آجاتی ہے۔ یہ شخص جو سراب کے پیچھے بھاگ رہا ہے پیاسا ہے ‘ پانی کی تلاش میں ہے۔ اور غافل ہے اس معاملے سے جو اسے پیش آنے والا ہے۔ یہ جب منزل تک پہنچتا ہے تو وہاں اسے پانی نہیں ملتا۔ وہاں اسے وہ چیز ملتی ہے جس کے بارے میں اس نے کبھی سوچا بھی نہ تھا۔ اب یہ اس نئی حقیقت سے دو چار ہو کر خوفزدہ ہوجاتا ہے۔ امیدیں کٹ جاتی ہیں۔ وجد اللہ عندہ (٢٤ : ٣٩) ” وہاں اس نے اللہ کو موجود پایا “۔ وہ اللہ موجود ہے جس کا وہ منکر تھا اور یہ شخص اللہ وحدہ کا دشمن تھا۔ اس سراب میں اس کا منتظر اللہ تھا۔ اگر اس سراب میں یہ شخص اپنے کسی دنیاوی دشمن کو پائے تو پھر یہ سخت خوفزدہ ہوجائے لیکن یہ وہاں خالق کائنات کو پارہا ہے جو جبار ہے۔ بڑی قوت والا ہے اور سخت انتقام لینے والا بھی ہے۔ وہ بہت جلد حساب لینے والا ہے۔ پانی کے بجائے اس کا وہاں حساب و کتاب شروع ہوجاتا ہے۔ فوقہ حسابہ واللہ سریع الحساب (٢٤ : ٣٩) ” جس نے اس کا پورا پورا حساب چکادیا اور اللہ کو حساب لینے میں دیر نہیں لگتی “۔ یہ منظر سرعت اور ستابی کے ساتھ اچانک سرپرائز کو پیش کرتا ہے اور سرعت اور سراب کے ساتھ ‘ جلدی سے حساب چکا نا اور اچانک خوف میں مبتلا ہونا ‘ فنی ہم آہنگی ہے۔ دوسرا منظر یہ ہے کہ اس میں جھوٹی روشنی کے بعد اندھیرے چھا جاتے ہیں ‘ یوں کہ ایک انسان سمندری جہاز میں ہے ‘ یہ جہاز سمندر کی ظالم لہروں میں گھرا ہوا ہے ‘ خوفناک موج کے اوپر موج اٹھ رہی ہے ‘ ان کے اوپر سیاہ بادل چھائے ہوئے ہیں۔ ایسا خوفناک اندھیرا ہوگیا ہے کہ کوئی شخص اگر اپنے ہاتھ کو دیکھنا چاہتا ہے تو وہ دیکھ نہیں سکتا ‘ شدت خوف اور شدت تاریکی کی وجہ سے ۔ کفر کیا ہے ‘ یہ دراصل امواج زندگی میں ایک گھمبیر اندھیرا ہے۔ یہ اندھیرا اللہ کے نور کو نظروں سے اوجھل کردیتا ہے۔ یہ اس قدر گہری گمراہی ہے کہ اس میں انسان کو ہاتھ کی طرح قریبی دلائل بھی نظر نہیں آتے۔ کفر اس قدر خوفناک صورت حال کا نام ہے کہ اس میں انسان کے لیے سکون وقرار نہیں ہوتا۔ ومن لم یجعل اللہ لہ نورا فما لہ من نور (٢٤ : ٤٠) ” جسے اللہ نور نہ بخشے اس کے لیے کوئی نور نہیں ہے “۔ اللہ کا نور کیا ہے ‘ وہ ہدایت جو اللہ دل مومن میں ڈال دیتا ہے وہ اللہ کا نور ہے۔ یہ ہدایت انسان کے دل کو کھول دیتی ہے اور انسان کی فطرت نو اس میں قدرت کے ساتھ ہم آہنگ ہوجاتی ہے۔ یوں انسانی قلب میں موجود نور الہی اس کائنات میں موجود نور الہی کے ساتھ یکجا ہوجاتا ہے اور جس شخص کا اتصال اس نور کائنات سے نہ ہوسکا تو وہ اندھیروں میں ہے اسے کچھ نظر نہ آئے گا۔ یہ ہمیشہ خوفناک حالات میں ہوگا جن میں کوئی امن نہ ہوگا۔ یہ شخص ایسی گمراہی میں پڑجائے گا جس سے اس کا نکلنا مشکل ہوگا اور اس کے اعمال کا انجام سراب ہوگا اور سراب کے پیچھے بھاگنے والا ظاہر ہے کہ ہلاک ہوجائے گا۔ کیونکہ کفار کے اعمال کے پیچھے کوئی نظر یہ اور کوئی نور نہیں ہوتا۔ نور ایمان کے بغیر کوئی عمل مقبول نہیں ہوتا اس لیے کوئی اصلاحی کام بغیر ایمان کے نہیں ہو سکتا۔ اللہ کی ہدایت ہی نور ہے اور اللہ کا ڈر ہی نور ہے۔ یہ تھے مناظر کفر و ضلالت اور مناظر تاریکی۔ اس کے بعد پھر اس کائنات میں ایمان اور نور کے مناظر آتے ہیں۔ یہاں پوری کائنات میں نور ہی کا عالم ہے۔ تمام موجودات اس نور میں تسبیح پڑھ رہی ہیں اور عالم نماز میں ہیں۔ انس ہوں ‘ جن ہوں ‘ زمین ہو یا افلاک ہوں۔ زندہ ہوں یا جمادات ہوں ‘ تمام کائنات تسبیح پڑھ رہی ہے اور تمام موجودات اس زمرے میں ہمقدم ہیں ‘ یوں کہ ایک دانا کا وجدان اس سے ارتعاش میں آجاتا ہے اور دل معرفت سے بھر جاتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

کافروں کے اعمال کی دوسری مثال بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا (اَوْ کَظُلُمَاتٍ فِیْ بَحْرٍ لُجِّیٍّ ) یا یوں سمجھو جیسے بہت سی اندھیریاں بڑے گہرے سمندر کے اندرونی حصہ میں ہوں اور اس سمندر کو ایک بڑی موج نے ڈھانک لیا ہو پھر اس موج کے اوپر دوسری موج ہو پھر اس کے اوپر بادل ہو نیچے اوپر اندھیریاں ہی اندھیریاں ہوں۔ اگر کوئی شخص دریا کی تہہ میں جہاں مذکورہ اندھیریوں پر اندھیریاں ہوں اور اپنا ہاتھ نکال کر دیکھنا چاہے تو وہاں اس کے اپنے ہاتھ کے دیکھنے کا ذرا بھی احتمال نہیں۔ اسی طرح کافر بھی گھٹا ٹوپ گھپ اندھیریوں میں ہیں وہ سمجھ رہے ہیں کہ ہمارے اعمال کا اچھا نتیجہ نکلے گا حالانکہ اس کا کچھ بھی اچھا نتیجہ نکلنے والا نہیں ہے۔ مفسر ابن کثیر (٢٩٦ ج ٣) فرماتے ہیں کہ پہلی مثال ان کافروں کی ہے جو جہل مرکب میں مبتلا ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے اعمال ہمارے لیے نفع مند ہونگے اور دوسری مثال ان لوگوں کی ہے جو جہل بسیط میں مبتلا ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو کفر کے سرغنوں کے مقلد ہونے کی وجہ سے کافر ہیں انہیں کچھ پتہ نہیں کہ ہمارے قائد کا کیا حال ہے اور وہ ہمیں کہاں لے جائے گا۔ جب ان سے پوچھا جائے کہ تم کہاں جا رہے ہو تو کہتے ہیں کہ ہم اپنے سرداروں کے ساتھ ہیں پھر جب پوچھا جاتا ہے کہ وہ لوگ کہاں جا رہے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہمیں پتہ نہیں۔ اور بعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ پہلی مثال ان لوگوں کی ہے جو موت کے بعد ثواب ملنے کے قائل ہیں اور یوں سمجھتے ہیں کہ ہمارے نیک اعمال ہمارے لیے نفع مند ہونگے اور دوسری مثال ان کافروں کی جو قیامت اور آخرت کو مانتے ہی نہیں اور وہ اعمال کی جزا سزا کے منکر ہیں۔ ان کے پاس وہمی نور بھی نہیں (جبکہ پہلے قسم کے کافروں کے پاس ایک وہمی اور خیالی نور تھا) سو جن لوگوں نے آخرت کے لیے کوئی عمل کیا ہی نہیں ان کے لیے تو بس ظلمت ہی ظلمت ہے۔ مفسر ابن کثیر نے (ظُلُمَاتٌ بَعْضُہَا فَوْقَ بَعْضٍ ) کی تفسیر کرتے ہوئے حضرت ابی بن کعب (رض) کا قول نقل کیا ہے کہ کافر پانچ اندھیریوں میں ہے اس کی بات ظلمت ہے اس کا عمل ظلمت ہے اس کا اندر جانا (عمارت میں داخل ہونا) ظلمت ہے اور اس کا نکلنا ظلمت ہے اور قیامت کے دن وہ دوزخ کی اندھیریوں میں داخل کردیا جائے گا۔ (وَمَنْ لَّمْ یَجْعَلْ اللّٰہُ لَہٗ نُوْرًا فَمَا لَہٗ مِنْ نُّوْرٍ ) (اور اللہ جس کے لیے نور مقرر نہ فرمائے اس کے لیے کوئی نور نہیں) یہ (یَھْدِی اللّٰہُ لِنُوْرِہٖ مَن یَّشَآءُ ) کے مقابلے میں فرمایا مومن کو اللہ نے نور دیا (فَھُوَ عَلٰی نُوْرٍ مِّنْ رَّبِّہٖ ) اور کافر کے لیے اللہ نے نور مقرر نہیں فرمایا لہٰذا وہ کفر کی ظلمتوں میں ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

46:۔ ” اَوْ کَظُلُمٰتٍ الخ یہ مشرکین کے دوسری قسم کے اعمال کی تمثیل ہے جو بظاہر بھی برے ہوں اور حقیقت میں بھی۔ یعنی ان کے بعض اعمال تو ظلمات در ظلمات ہیں جس طرح ایک بہت ہی گہرے سمندر کی تہ جس کے اوپر پانی کے بیشمار موجیں ہوں اور پھر سیاہ بادل چھائے ہوئے ہوں۔ ایسا گھٹا ٹوپ اندھیرا ہو کہ اپنا ہاتھ دکھائی نہ دے۔ مشرکین، شرک و جہالت کے ایسے ہی تہ بتہ اور موج در موج اندھیروں میں غرق ہیں اور رشد و ہدایت کی روشنی کی کوئی کرن ان تک نہیں پہنچ سکتی شرک و ضلالت کے ان دبیز اندھیروں میں وہ جو اعمال بجا لاتے ہیں وہ بھی سراپا ظلمت ہی ہوتے ہیں نہ ان کا ظاہر اچھا ہوتا ہے نہ باطن۔ ” شبھھا (اعمالھم) فی ظلم تھا وسودھا لکونھا باطلۃ و خلوھا عن نور الحق بظلمات متراکمۃ من لج البحر والامواج والسحاب (مدارک ج 3 ص 113) ۔ مشرکین کے ان اعمال کی فہرست کا صی طویل ہے جو ظاہر میں بھی قبیح اور شرمناک ہیں اور ان کا انجام بھی تاریک ہے مثلاً کنجروں اور کنجریوں کا بزرگوں کی رضا جوئی کے لیے ناچ و گانے کی نذر و منت ماننا اور پھر ان کے مزاروں پر ایفاء نذر کے طور پر ناچ گانے کا مظاہرہ کرنا۔ اسی طرح بعض مشرک عورتوں کا بعض بزرگوں کے مزارات پر ایسی ایسی چیزوں کا چڑھاوا چڑھانا جن کا نام زبان و قلم کی نوک پر لانے سے شرم و حیاء مانع ہے۔ 47:۔ ” ومن لم یجعل الخ “ : جس کو اللہ تعالیٰ نے دنیا میں نور توحید عطاء نہیں فرمایا اور جس نے دنیا میں نیک کام نہیں کیے وہ آخرت میں بھی نور رحمت اور مغفرت سے محروم رہے گا۔ یا مطلب یہ ہے کہ جسے اللہ تعالیٰ نے نور ہدایت عطا نہیں فرما ای اسے اور کوئی ہدایت نہیں دے سکتا۔ ای من لم یشا اللہ تعالیٰ ان یھدیہ اللہ سبحانہ لنورہ فی الدنیا فما لہ ھدایۃ ما من احد اصلا فیھا وقیل و معنی الایۃ من لم یکن لہ نور فی الدنیا فلا نور لہ فی الاخرۃ (روح ج 18 ص 185) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(40) یا دین حق کا انکار کرنے والوں کے اعمال کی مثال ایسی ہے جیسے بڑے گہرے اور عمیق سمندر کے اندرونی اندھیرے اس سمندر کو موج بالائے موج نے ڈھانک رکھا ہو اس موج پر بادل چھایا ہوا ہو۔ غرض بہت سے اندھیرے ہیں جو اوپر تلے چھائے ہوئے ہیں ان حالات میں اگر کوئی شخص سمندر کی تہ میں اپنا ہاتھ نکال کر دیکھنا چاہے تو اس کا احتمال ہی نہیں کہ وہ اس ہاتھ کو دیکھ سکے اور جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے روشنی نہیں دی اس کو کہیں نہیں روشنی۔ یہ دوسری قسم کے بداعتقاد لوگوں کی مثال ہے یعنی ان کے لئے سراب جیسی چمک بھی نہیں بلکہ کفر و جہل ظلم و عصیاں کی تاریکیوں میں پڑے ہاتھ مار رہے ہیں۔ اور گھٹا ٹوپ اندھیروں میں پڑے ہوئے ہیں۔ سمندر کی تہ کا اندھیرا۔ موجوں کے طوفان کا اندھیرا، پھر موجوں پر گہرا بادل نہ معاد پر اعتقاد نہ اعمال پر اطمینان تو یہ شخص واقعی سخت ظلمات میں مبتلا ہے اندھیرے بھی ایسے کہ ہاتھ کو ہاتھ دکھائی نہ پڑے اگر ان اندھیروں میں ہاتھ کو آنکھ کے قریب لاکر بھی دیکھے تو دیکھنا تو درکنار اس کا احتمال بھی نہیں کہ ہاتھ کو دیکھ سکے۔ اور یہ واقعہ ہے کہ جس کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے نور توفیق عطا نہ ہو اس کو کہیں سے بھی روشنی میسر نہیں آسکتی استعداد کی خرابی کے باعث توفیق نصیب نہ ہوئی کفر وعناد کے سمندر میں پڑے ہیں ان پر روشنی کے سب دروازے بند ہیں۔