Commentary كُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلَاتَهُ وَتَسْبِيحَهُ (Everyone knows one&s own (way of) praying - 41). In the beginning of the verse it is said that every creature on earth and heavens and in between them is busy in the glorification and sanctification of Allah Ta’ ala. The meaning of Tasbih is explained by Sufyan (رح) that Allah Ta’ ala has created everything in this universe like earth, heavens, sun, moon, stars, water, fire, air or sand with purpose, and they are all performing all the time the task they are assigned. They cannot refuse to perform their assigned job. This obedience and submission to carry out the assigned job is referred here as Tasbih. Hence, their Tasbih is by action and not by words. By their actions they are confirming that they are performing this worship because they believe Allah Ta’ ala to be Pure and Almighty. Zamakhshari and some other commentators have, on the other hand, elaborated that it is not improbable that Allah Ta’ ala has placed so much sense and understanding in everything that they do recognize their Creator and Master. And it is also not improbable that He has taught them some sort of speech, and some special Tasbih and worship in which they keep themselves busy. There is an allusion towards this point in the last sentence كُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلَاتَهُ وَتَسْبِيحَهُ (Every one knows one&s own { way of} praying and proclaiming Allah&s purity - 41). It indicates that all creatures are busy in Tasbih and worship of Allah Ta’ ala, but the manner of worship of each creature is different. Angels worship in a different manner, humans worship differently, trees and vegetation also worship differently, and the rocks and minerals yet in another manner. Another verse of the Holy Qur’ an also confirms this view when it says أَعْطَىٰ كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدَىٰ (He who gave everything its shape, then guidance - 20:50) that is ` Allah Ta’ ala created everything and then given guidance to them&. The guidance is that everything is obeying Allah and performing its assigned duty diligently. Apart from this, everything has been guided how to fulfill the need of its existence with such perfection that even the best of minds get boggled. How creative and complicated nests and holes they make for their living, and how they strive and work hard to find and collect their food is in itself a great wonder.
خلاصہ تفسیر (اے مخاطب) کیا تجھ کو (دلائل اور مشاہدہ سے) معلوم نہیں ہوا کہ اللہ کی پاکی بیان کرتے ہیں سب جو کچھ آسمانوں اور زمین میں (مخلوقات) ہیں (خواہ قالاً جو بعض مخلوقات میں مشاہد بھی ہے خواہ حالاً جو کل مخلوقات میں بدلالت عقل معلوم ہے) اور (بالخصوص) پرند (بھی) جو پر پھیلاے ہوئے (اڑتے پھرتے) ہیں (کہ ان کی دلالت علی وجود الصانع اور زیادہ عجیب ہے کہ باوجود ان کے ثقل اجسام کے پھر فضاء میں رکے ہوئے ہیں اور) سب (پرندوں) کو اپنی اپنی دعا (اور التجاء اللہ سے) اور اپنی تسبیح (و تقدیس کا طریقہ الہام سے) معلوم ہے اور (باوجود ان دلائل کے پھر بھی بعضے توحید کو نہیں مانتے تو) اللہ تعالیٰ کو ان لوگوں کے سب افعال کا پورا علم ہے (اس انکار و اعراض پر ان کو سزا دے گا) اور اللہ ہی کی حکومت ہے آسمانوں اور زمین میں (اب بھی) اور (انتہا میں) اللہ ہی کی طرف (سب کو) لوٹ کر جانا ہے (اس وقت بھی حاکمانہ تصرف اسی کا ہوگا چناچہ حکومت کا ایک اثر بیان کیا جاتا ہے وہ یہ کہ اے مخاطب) کیا تجھ کو یہ بات معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ (ایک) بادل کو (دوسرے بادل کی طرف) چلتا کرتا ہے (اور) پھر اس بادل (کے مجموعہ) کو باہم ملا دیتا ہے پھر اس کو تہ بہ تہ کرتا ہے پھر تو بارش کو دیکھتا ہے کہ اس (بادل) کے بیچ میں سے نکل (نکل کر) آتی ہے اور اس بادل سے یعنی اس کے بڑے بڑے حصوں میں سے اولے برساتا ہے پھر ان کو جس (کی جان پر یا مال) پر چاہتا ہے گراتا ہے (کہ اس کا نقصان ہوجاتا ہے) اور جس سے چاہتا ہے اس کو ہٹا دیتا ہے (اور اس کے جان و مال کو بچا لیتا ہے اور) اس بادل ( میں سے بجلی بھی پیدا ہوتی ہے اور ایسی چمکدار کہ اس بادل) کی بجلی کی چمک کی یہ حالت ہے کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا اس نے اب بینائی کو اچک لیا (یہ بھی اللہ تعالیٰ ہی کے تصرفات میں سے ہے اور) اللہ تعالیٰ رات اور دن کو بدلتا رہتا ہے (یہ بھی منجملہ تصرفات الہیہ کے ہے) اس (سب مجموعہ) میں اہل دانش کے لئے استدلال (کا موقع) ہے (جس سے مضمون توحید اور مضمون لہ ملک السموت والارض پر استدلال کرتے ہیں) اور اللہ (ہی کا یہ تصرف بھی ہے کہ اس) نے ہر چلنے والے جاندار کو (بری ہو یا بحری) پانی سے پیدا کیا ہے پھر ان (جانوروں) میں بعضے تو وہ (جانور) ہیں جو اپنے پیٹ کے بل چلتے ہیں (جیسے سانپ مچھلی) اور بعضے ان میں وہ ہیں جو دو پیروں پر چلتے ہیں (جیسے انسان اور پرندے جبکہ ہوا میں نہ ہوں) اور بعضے ان میں وہ جو چارے (پیروں) پر چلتے ہیں (جیسے مواشی، اسی طرح بعضے زیادہ پر بھی اصل یہ ہے کہ) اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے بناتا ہے۔ بیشک اللہ تعالیٰ ہر چیز پر پورا قادر ہے (اس کو کچھ بھی مشکل نہیں۔ ) معارف ومسائل كُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلَاتَهٗ وَتَسْبِيْحَهٗ ، شروع آیت میں یہ فرمایا ہے کہ زمین و آسمان اور ان کے درمیان کی ہر مخلوق اور ہر چیز اللہ تعالیٰ کی تبسح و تقدیس کرنے میں مشغول ہے۔ اس تسبیح کا مفہوم حضرت سفیان نے یہ بیان فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا کی ہر چیز آسمان، زمین، آفتاب و ماہتاب اور کل سیارے اور ستارے اور زمین کے عناصر آگ، پانی، مٹی، ہوا سب کو خاص خاص کاموں کے لئے پیدا فرمایا ہے اور جس کو جس کام کے لئے پیدا فرمایا ہے وہ برابر اس پر لگا ہوا ہے اس سے سر مو خلاف نہیں کرتا۔ اسی اطاعت وانقیاد کو ان چیزوں کی تسبیح فرمایا ہے۔ حاصل یہ ہے کہ ان کی تسبیح حالی ہے مقالی نہیں۔ ان کی زبان حال بول رہی ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کو پاک و برتر سمجھ کر اس کی اطاعت میں لگے ہوئے ہیں۔ زمحشری اور دوسرے مفسرین نے فرمایا کہ اس میں بھی کوئی بعد نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہر ایک چیز کے اندر اتنا فہم و شعور رکھا ہو جس سے وہ اپنے خالق ومالک کو پہچانے اور اس میں بھی کوئی بعد نہیں کہ ان کسی خاص قسم کی گویائی عطا فرمائی ہو اور خاص قسم کی تسبیح و عبادت ان کو سکھا دی ہو جس میں وہ مشغول رہتے ہیں آخری جملے كُلٌّ قَدْ عَلِمَ میں اسی مضمون کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تسبیح اور نماز میں ساری مخلوق لگی ہوئی ہے مگر ہر ایک کی نماز اور تسبیح کا طریقہ اور صورت مختلف ہے۔ فرشتوں کا اور طریقہ، انسان کا دوسرا، اور نباتات کسی اور طرح سے عبادت نماز و تسبیح ادا کرتے ہیں جمادات کسی اور طریق سے، قرآن کریم کی ایک دوسری آیت سے بھی اسی مضمون کی تائید ہوتی ہے جس میں ارشاد ہے (آیت) اعطی کل شئی خلقہ ثم ھدی، یعنی اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو پیدا کیا پھر اس کو ہدایت دی۔ وہ ہدایت یہی ہے کہ وہ ہر وقت حق تعالیٰ کی اطاعت میں لگی ہوئی اپنی مفوضہ ڈیوٹی کو پورا کر رہی ہے اس کے علاوہ اس کی اپنی ضروریات زندگی کے متعلق بھی اس کو ایسی ہدایت دے دی ہے کہ بڑے بڑے عقلاء کی عقل حیران ہوجاتی ہے۔ اپنے رہنے بسنے کے لئے کیسے کیسے گھونسلے اور بل وغیرہ بناتے ہیں اور اپنی غذا وغیرہ حاصل کرنے کے لئے کیسی کیسی تدبیریں کرتے ہیں۔