Surat un Noor

Surah: 24

Verse: 41

سورة النور

اَلَمۡ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ یُسَبِّحُ لَہٗ مَنۡ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ الطَّیۡرُ صٰٓفّٰتٍ ؕ کُلٌّ قَدۡ عَلِمَ صَلَاتَہٗ وَ تَسۡبِیۡحَہٗ ؕ وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌۢ بِمَا یَفۡعَلُوۡنَ ﴿۴۱﴾

Do you not see that Allah is exalted by whomever is within the heavens and the earth and [by] the birds with wings spread [in flight]? Each [of them] has known his [means of] prayer and exalting [Him], and Allah is Knowing of what they do.

کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ آسمانوں اور زمین کی کل مخلوق اور پر پھیلائے اڑنے والے کل پرند اللہ کی تسبیح میں مشغول ہیں ۔ ہر ایک کی نماز اور تسبیح اسے معلوم ہے لوگ جو کچھ کریں اس سے اللہ بخوبی واقف ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Everything glorifies Allah, may He be exalted, and to Him belongs the Sovereignty Allah tells: أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يُسَبِّحُ لَهُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالاَْرْضِ ... See you not that Allah, He it is Whom glorify whosoever is in the heavens and the earth, Allah tells us that whosoever is in the heavens and on the earth, i.e., the angels, mankind, Jinn, animals and even inanimate objects, all glorify Him. This is like the Ayah: تُسَبِّحُ لَهُ السَّمَـوَتُ السَّبْعُ وَالاٌّرْضُ وَمَن فِيهِنَّ The seven heavens and the earth and all that is therein, glorify Him. (17:44) ... وَالطَّيْرُ صَافَّاتٍ ... and the birds with wings outspread, means, while they are flying they glorify their Lord and worship Him with the glorification with which they are inspired and to which they are guided. Allah knows what they are doing, and so He says: ... كُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلَتَهُ وَتَسْبِيحَهُ .... Of each one He knows indeed his Salah and his glorification; meaning, He has guided every creature to its own way of worshipping Allah, may He be glorified. .. وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِمَا يَفْعَلُونَ and Allah is All-Aware of what they do. Allah tells us that He knows all of that and nothing at all is hidden from Him. He says:

ہر ایک تسبیح خوان ہے کل کے کل انسان ، جنات ، فرشتے اور حیوان یہاں تک کہ جمادات بھی اللہ کی تسبیح کے بیان میں مشغول ہیں ۔ ایک اور جگہ ہے کہ ساتوں آسمان اور سب زمینیں اور ان میں جو ہیں سب اللہ کی پاکیزگی کی بیان میں مشغول ہیں ۔ اپنے پروں سے اڑنے والے پرند بھی اپنے رب کی عبادت اور پاکیزگی کے بیان میں مشغول ہیں ۔ ان سب کو جو جو تسبیح لائق تھی اللہ نے انہیں سکھا دی ہے ، سب کو اپنی عبادت کے مختلف جداگانہ طریقے سکھا دئے ہیں اور اللہ پر کوئی کام مخفی نہیں ، وہ عالم کل ہے ۔ حاکم ، متصرف ، مالک ، مختار کل ، معبود حقیقی ، آسمان وزمین کا بادشاہ صرف وہی ہے ۔ اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ، اس کے حکموں کو کوئی ٹالنے والا نہیں ۔ قیامت کے دن سب کو اسی کے سامنے حاضر ہونا ہے ، وہ جو چاہے گا اپنی مخلوقات میں حکم فرمائے گا ۔ برے لوگ برا بدلہ پائیں گے ۔ نیک نیکیوں کا پھل حاصل کریں گے ۔ خالق مالک وہی ہے ، دنیا اور آخرت کا حاکم حقیقی وہی ہے اور اسی کی ذات لائق حمد وثنا ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

411یعنی اہل زمین و اہل آسمان، جس طرح اللہ کی اطاعت اور اس کی تسبیح کرتے ہیں، سب اس کے علم میں ہے، یہ گویا انسانوں اور جنوں کو تنبیہ ہے کہ تمہیں اللہ نے شعور اور ارادے کی آزادی دی ہے تو تمہیں تو دوسری مخلوقات سے زیادہ اللہ کی تسبیح وتحمید اور اس کی اطاعت کرنی چاہیئے۔ لیکن معاملہ اس کے برعکس ہے۔ دیگر مخلوقات تو تسبیح الٰہی میں مصروف ہیں۔ لیکن شعور اور ارادہ سے بہرہ ور مخلوق اس میں کوتاہی کا ارتکاب کرتی ہے۔ جس پر یقینا وہ اللہ کی گرفت کی مستحق ہوگی۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦٨] کافروں کی دو مثالیں بیان کرنے کے بعد اب اللہ تعالیٰ نے کائنات سے کچھ اپنی ایسی نشانیاں بیان فرمائی ہیں۔ جن میں غور کرنے سے انسان اللہ تعالیٰ کی معرفت یا نور ہدایت حاصل کرسکتا ہے۔ ان نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پرندوں کو فطری طور پر ایسا طریقہ سکھلا دیا کہ وہ زمین اور آسمان کے درمیان فضا میں اپنے پر کھولے ہوئے اور قافلہ کی صورت میں قطار در قطار اڑتے پھرتے ہیں۔ اور وہ زمین پر گر نہیں پڑتے۔ پھر بعض دفعہ وہ اڑتے اڑتے اپنے پروں کو سمیٹ بھی لیتے ہیں۔ مگر گرتے پھر بھی نہیں۔ آکر ان پرندوں کو یہ طریقہ کس نے سکھلایا ؟ زمین کی کشش ثقل جو کاغذ کے ایک ہلکے سے پرزے کو اپنی طرح کھینچ لیتی ہے انھیں کیوں نہیں کھینچتی ؟ [٦٩] کائنات کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کے حکم اور اس کے قانون کے سامنے سر تسلیم خم کئے ہوئے ہے۔ جس کام پر اسے اللہ نے لگا دیا ہے بلاچون و چرا اس کو سرانجام دے رہی ہے۔ اور فطری قانون ان کے لئے اللہ تعالیٰ نے بنائے ہیں۔ ان سے سرمو تجاوز نہیں کرتی۔ ایسی اطاعت کو بھی ان کی نماز اور تسبیح کہا جاسکتا ہے۔ تاہم ان اشیاء کی نماز اور تسبیح اس کے علاوہ کچھ اور ہی چیز ہے۔ جسے ہم انسان یا جن جو مکلف مخلوق ہیں، جان نہیں سکتے۔ اور تسبیح کرنے والی اشیاء اپنی نماز اور تسبیح اور اس کے طریق کار کو خوب جانتی ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے خود ہی سورة بنی اسرائیل کی آیت نمبر ٤٤ میں بتلا دیا کہ تم ان کی تسبیح کو سمجھ نہیں سکتے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ يُسَبِّحُ لَهٗ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ : اس سے پہلی آیات میں یہ بتایا کہ آسمانوں اور زمین کو حسی اور معنوی نور سے روشن کرنے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے، ساتھ ہی مومنوں کے دلوں کے نور ایمان سے منور ہونے اور کفار کے دلوں کے تاریکیوں میں غوطے کھانے کی مثالیں بیان فرمائیں، اب آسمانوں اور زمین میں پھیلے ہوئے اس نور (توحید) کی طرف رہنمائی کرنے والے چند دلائل بیان فرمائے۔ اَلَمْ تَرَ : یہ بات تو صاف ظاہر ہے کہ زمین و آسمان میں موجود ہر چیز کو اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے سوا کسی نے بھی نہیں دیکھا، اس لیے یہاں ” اَلَمْ تَرَ “ سے مراد یہ نہیں کہ ” کیا تو نے نہیں دیکھا “ بلکہ مراد ہے ” أَلَمْ تَعْلَمْ “ یعنی کیا تجھے معلوم نہیں ؟ جیسا کہ فرمایا : (اَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِاَصْحٰبِ الْفِيْلِ ) [ الفیل : ١ ] اس میں مخاطب اگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہوں تو آپ پیدا ہی اس واقعہ کے بعد ہوئے ہیں، آپ کے اسے دیکھنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور اگر ہر شخص اس کا مخاطب ہے تو ہر شخص کا اس واقعہ کو دیکھنا ممکن ہی نہیں، اس لیے وہاں بھی معنی ” أَلَمْ تَعْلَمْ “ ہے۔ دراصل اس لفظ سے پوچھنا نہیں بلکہ بتانا مقصود ہوتا ہے کہ کیا تمہیں یہ بات معلوم نہیں، اگر معلوم نہیں ہے تو اب جان لو، اور ” اَلَمْ تَرَ “ کا لفظ اس لیے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے بتانے سے حاصل ہونے والا علم خود دیکھنے سے حاصل ہونے والے علم کی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ یقینی ہے۔ (شعراوی) 3 یعنی کیا تمہیں معلوم نہیں کہ زمین و آسمان میں جو بھی موجود ہیں، یعنی جن، انسان، فرشتے، جانور، اڑتے ہوئے پرندے، حتیٰ کہ نباتات اور جمادات سب شہادت دیتے ہیں کہ ہمیں پیدا کرنے والا اور ساری کائنات کو کسی خرابی کے بغیر نہایت حسن و خوبی سے چلانے والا ہر نقص اور ہر شریک سے پاک ہے۔ تو جب ہر چیز اللہ کی تسبیح بیان کرتی ہے تو انسان پر تو سب سے بڑھ کر اس کی تسبیح کرنا اور اس کی توحید کی شہادت دینا لازم ہے۔ کائنات کی ہر چیز کی یہ تسبیح زبان حال ہی سے نہیں زبان قال سے یعنی بول کر بھی ہے۔ اس کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورة بنی اسرائیل (٤٤) اور سورة رعد (١٣) ۔ وَالطَّيْرُ صٰۗفّٰتٍ : زمین و آسمان میں موجود ہر چیز کی تسبیح کے بعد پرندوں کی تسبیح کا الگ ذکر فرمایا، کیونکہ وہ اڑتے وقت نہ زمین پر ہوتے ہیں نہ آسمان میں، بلکہ ان کے درمیان معلق ہوتے ہیں، یہ پرندے بھی اللہ کے ہر نقص سے پاک ہونے کی گواہی دے رہے ہیں۔ مزید دیکھیے سورة ملک (١٩) ۔ كُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلَاتَهٗ وَتَسْبِيْحَهٗ : اس سے معلوم ہوا کہ ان کی یہ تسبیح اتفاقی طور پر بےسوچے سمجھے نہیں، بلکہ سمجھ کر اور علم کی بنا پر ہے، جو اللہ تعالیٰ نے انھیں سکھایا اور ان کی طرف الہام کیا ہے۔ وَاللّٰهُ عَلِيْمٌۢ بِمَا يَفْعَلُوْنَ : یعنی اللہ تعالیٰ ان کی تسبیح اور بندگی کو اور ان کے ہر عمل کو خوب جاننے والا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary كُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلَاتَهُ وَتَسْبِيحَهُ (Everyone knows one&s own (way of) praying - 41). In the beginning of the verse it is said that every creature on earth and heavens and in between them is busy in the glorification and sanctification of Allah Ta’ ala. The meaning of Tasbih is explained by Sufyan (رح) that Allah Ta’ ala has created everything in this universe like earth, heavens, sun, moon, stars, water, fire, air or sand with purpose, and they are all performing all the time the task they are assigned. They cannot refuse to perform their assigned job. This obedience and submission to carry out the assigned job is referred here as Tasbih. Hence, their Tasbih is by action and not by words. By their actions they are confirming that they are performing this worship because they believe Allah Ta’ ala to be Pure and Almighty. Zamakhshari and some other commentators have, on the other hand, elaborated that it is not improbable that Allah Ta’ ala has placed so much sense and understanding in everything that they do recognize their Creator and Master. And it is also not improbable that He has taught them some sort of speech, and some special Tasbih and worship in which they keep themselves busy. There is an allusion towards this point in the last sentence كُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلَاتَهُ وَتَسْبِيحَهُ (Every one knows one&s own { way of} praying and proclaiming Allah&s purity - 41). It indicates that all creatures are busy in Tasbih and worship of Allah Ta’ ala, but the manner of worship of each creature is different. Angels worship in a different manner, humans worship differently, trees and vegetation also worship differently, and the rocks and minerals yet in another manner. Another verse of the Holy Qur’ an also confirms this view when it says أَعْطَىٰ كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدَىٰ (He who gave everything its shape, then guidance - 20:50) that is ` Allah Ta’ ala created everything and then given guidance to them&. The guidance is that everything is obeying Allah and performing its assigned duty diligently. Apart from this, everything has been guided how to fulfill the need of its existence with such perfection that even the best of minds get boggled. How creative and complicated nests and holes they make for their living, and how they strive and work hard to find and collect their food is in itself a great wonder.

خلاصہ تفسیر (اے مخاطب) کیا تجھ کو (دلائل اور مشاہدہ سے) معلوم نہیں ہوا کہ اللہ کی پاکی بیان کرتے ہیں سب جو کچھ آسمانوں اور زمین میں (مخلوقات) ہیں (خواہ قالاً جو بعض مخلوقات میں مشاہد بھی ہے خواہ حالاً جو کل مخلوقات میں بدلالت عقل معلوم ہے) اور (بالخصوص) پرند (بھی) جو پر پھیلاے ہوئے (اڑتے پھرتے) ہیں (کہ ان کی دلالت علی وجود الصانع اور زیادہ عجیب ہے کہ باوجود ان کے ثقل اجسام کے پھر فضاء میں رکے ہوئے ہیں اور) سب (پرندوں) کو اپنی اپنی دعا (اور التجاء اللہ سے) اور اپنی تسبیح (و تقدیس کا طریقہ الہام سے) معلوم ہے اور (باوجود ان دلائل کے پھر بھی بعضے توحید کو نہیں مانتے تو) اللہ تعالیٰ کو ان لوگوں کے سب افعال کا پورا علم ہے (اس انکار و اعراض پر ان کو سزا دے گا) اور اللہ ہی کی حکومت ہے آسمانوں اور زمین میں (اب بھی) اور (انتہا میں) اللہ ہی کی طرف (سب کو) لوٹ کر جانا ہے (اس وقت بھی حاکمانہ تصرف اسی کا ہوگا چناچہ حکومت کا ایک اثر بیان کیا جاتا ہے وہ یہ کہ اے مخاطب) کیا تجھ کو یہ بات معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ (ایک) بادل کو (دوسرے بادل کی طرف) چلتا کرتا ہے (اور) پھر اس بادل (کے مجموعہ) کو باہم ملا دیتا ہے پھر اس کو تہ بہ تہ کرتا ہے پھر تو بارش کو دیکھتا ہے کہ اس (بادل) کے بیچ میں سے نکل (نکل کر) آتی ہے اور اس بادل سے یعنی اس کے بڑے بڑے حصوں میں سے اولے برساتا ہے پھر ان کو جس (کی جان پر یا مال) پر چاہتا ہے گراتا ہے (کہ اس کا نقصان ہوجاتا ہے) اور جس سے چاہتا ہے اس کو ہٹا دیتا ہے (اور اس کے جان و مال کو بچا لیتا ہے اور) اس بادل ( میں سے بجلی بھی پیدا ہوتی ہے اور ایسی چمکدار کہ اس بادل) کی بجلی کی چمک کی یہ حالت ہے کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا اس نے اب بینائی کو اچک لیا (یہ بھی اللہ تعالیٰ ہی کے تصرفات میں سے ہے اور) اللہ تعالیٰ رات اور دن کو بدلتا رہتا ہے (یہ بھی منجملہ تصرفات الہیہ کے ہے) اس (سب مجموعہ) میں اہل دانش کے لئے استدلال (کا موقع) ہے (جس سے مضمون توحید اور مضمون لہ ملک السموت والارض پر استدلال کرتے ہیں) اور اللہ (ہی کا یہ تصرف بھی ہے کہ اس) نے ہر چلنے والے جاندار کو (بری ہو یا بحری) پانی سے پیدا کیا ہے پھر ان (جانوروں) میں بعضے تو وہ (جانور) ہیں جو اپنے پیٹ کے بل چلتے ہیں (جیسے سانپ مچھلی) اور بعضے ان میں وہ ہیں جو دو پیروں پر چلتے ہیں (جیسے انسان اور پرندے جبکہ ہوا میں نہ ہوں) اور بعضے ان میں وہ جو چارے (پیروں) پر چلتے ہیں (جیسے مواشی، اسی طرح بعضے زیادہ پر بھی اصل یہ ہے کہ) اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے بناتا ہے۔ بیشک اللہ تعالیٰ ہر چیز پر پورا قادر ہے (اس کو کچھ بھی مشکل نہیں۔ ) معارف ومسائل كُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلَاتَهٗ وَتَسْبِيْحَهٗ ، شروع آیت میں یہ فرمایا ہے کہ زمین و آسمان اور ان کے درمیان کی ہر مخلوق اور ہر چیز اللہ تعالیٰ کی تبسح و تقدیس کرنے میں مشغول ہے۔ اس تسبیح کا مفہوم حضرت سفیان نے یہ بیان فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا کی ہر چیز آسمان، زمین، آفتاب و ماہتاب اور کل سیارے اور ستارے اور زمین کے عناصر آگ، پانی، مٹی، ہوا سب کو خاص خاص کاموں کے لئے پیدا فرمایا ہے اور جس کو جس کام کے لئے پیدا فرمایا ہے وہ برابر اس پر لگا ہوا ہے اس سے سر مو خلاف نہیں کرتا۔ اسی اطاعت وانقیاد کو ان چیزوں کی تسبیح فرمایا ہے۔ حاصل یہ ہے کہ ان کی تسبیح حالی ہے مقالی نہیں۔ ان کی زبان حال بول رہی ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کو پاک و برتر سمجھ کر اس کی اطاعت میں لگے ہوئے ہیں۔ زمحشری اور دوسرے مفسرین نے فرمایا کہ اس میں بھی کوئی بعد نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہر ایک چیز کے اندر اتنا فہم و شعور رکھا ہو جس سے وہ اپنے خالق ومالک کو پہچانے اور اس میں بھی کوئی بعد نہیں کہ ان کسی خاص قسم کی گویائی عطا فرمائی ہو اور خاص قسم کی تسبیح و عبادت ان کو سکھا دی ہو جس میں وہ مشغول رہتے ہیں آخری جملے كُلٌّ قَدْ عَلِمَ میں اسی مضمون کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تسبیح اور نماز میں ساری مخلوق لگی ہوئی ہے مگر ہر ایک کی نماز اور تسبیح کا طریقہ اور صورت مختلف ہے۔ فرشتوں کا اور طریقہ، انسان کا دوسرا، اور نباتات کسی اور طرح سے عبادت نماز و تسبیح ادا کرتے ہیں جمادات کسی اور طریق سے، قرآن کریم کی ایک دوسری آیت سے بھی اسی مضمون کی تائید ہوتی ہے جس میں ارشاد ہے (آیت) اعطی کل شئی خلقہ ثم ھدی، یعنی اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو پیدا کیا پھر اس کو ہدایت دی۔ وہ ہدایت یہی ہے کہ وہ ہر وقت حق تعالیٰ کی اطاعت میں لگی ہوئی اپنی مفوضہ ڈیوٹی کو پورا کر رہی ہے اس کے علاوہ اس کی اپنی ضروریات زندگی کے متعلق بھی اس کو ایسی ہدایت دے دی ہے کہ بڑے بڑے عقلاء کی عقل حیران ہوجاتی ہے۔ اپنے رہنے بسنے کے لئے کیسے کیسے گھونسلے اور بل وغیرہ بناتے ہیں اور اپنی غذا وغیرہ حاصل کرنے کے لئے کیسی کیسی تدبیریں کرتے ہیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللہَ يُسَبِّحُ لَہٗ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالطَّيْرُ صٰۗفّٰتٍ۝ ٠ۭ كُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلَاتَہٗ وَتَسْبِيْحَہٗ۝ ٠ۭ وَاللہُ عَلِيْمٌۢ بِمَا يَفْعَلُوْنَ۝ ٤١ رأى والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس : والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] ، والثاني : بالوهم والتّخيّل، نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] . والثالث : بالتّفكّر، نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] . والرابع : بالعقل، وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] ، ( ر ء ی ) رای الرؤیتہ کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔ ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔ (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ سبح السَّبْحُ : المرّ السّريع في الماء، وفي الهواء، يقال : سَبَحَ سَبْحاً وسِبَاحَةً ، واستعیر لمرّ النجوم في الفلک نحو : وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [ الأنبیاء/ 33] ، ولجري الفرس نحو : وَالسَّابِحاتِ سَبْحاً [ النازعات/ 3] ، ولسرعة الذّهاب في العمل نحو : إِنَّ لَكَ فِي النَّهارِ سَبْحاً طَوِيلًا[ المزمل/ 7] ، والتَّسْبِيحُ : تنزيه اللہ تعالی. وأصله : المرّ السّريع في عبادة اللہ تعالی، وجعل ذلک في فعل الخیر کما جعل الإبعاد في الشّرّ ، فقیل : أبعده الله، وجعل التَّسْبِيحُ عامّا في العبادات قولا کان، أو فعلا، أو نيّة، قال : فَلَوْلا أَنَّهُ كانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ [ الصافات/ 143] ، ( س ب ح ) السبح اس کے اصل منعی پانی یا ہوا میں تیز رفتار ری سے گزر جانے کے ہیں سبح ( ف ) سبحا وسباحۃ وہ تیز رفتاری سے چلا پھر استعارہ یہ لفظ فلک میں نجوم کی گردش اور تیز رفتاری کے لئے استعمال ہونے لگا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [ الأنبیاء/ 33] سب ( اپنے اپنے ) فلک یعنی دوائر میں تیز ی کے ساتھ چل رہے ہیں ۔ اور گھوڑے کی تیز رفتار پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ وَالسَّابِحاتِ سَبْحاً [ النازعات/ 3] اور فرشتوں کی قسم جو آسمان و زمین کے درمیان ) تیر تے پھرتے ہیں ۔ اور کسی کام کو سرعت کے ساتھ کر گزرنے پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ إِنَّ لَكَ فِي النَّهارِ سَبْحاً طَوِيلًا[ المزمل/ 7] اور دن کے وقت کو تم بہت مشغول کا رہے ہو ۔ التسبیح کے معنی تنزیہ الہیٰ بیان کرنے کے ہیں اصل میں اس کے معنی عبادت الہی میں تیزی کرنا کے ہیں ۔۔۔۔۔۔ پھر اس کا استعمال ہر فعل خیر پر ہونے لگا ہے جیسا کہ ابعاد کا لفظ شر پر بولا جاتا ہے کہا جاتا ہے ابعد اللہ خدا سے ہلاک کرے پس تسبیح کا لفظ قولی ۔ فعلی اور قلبی ہر قسم کی عبادت پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَلَوْلا أَنَّهُ كانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ [ الصافات/ 143] قو اگر یونس (علیہ السلام) اس وقت ( خدا کی تسبیح ( و تقدیس کرنے والوں میں نہ ہوتے ۔ یہاں بعض نے مستحین کے معنی مصلین کئے ہیں لیکن انسب یہ ہے کہ اسے تینوں قسم کی عبادت پر محمول کیا جائے طير الطَّائِرُ : كلُّ ذي جناحٍ يسبح في الهواء، يقال : طَارَ يَطِيرُ طَيَرَاناً ، وجمعُ الطَّائِرِ : طَيْرٌ «3» ، كرَاكِبٍ ورَكْبٍ. قال تعالی: وَلا طائِرٍ يَطِيرُ بِجَناحَيْهِ [ الأنعام/ 38] ، وَالطَّيْرَ مَحْشُورَةً [ ص/ 19] ، وَالطَّيْرُ صَافَّاتٍ [ النور/ 41] وَحُشِرَ لِسُلَيْمانَ جُنُودُهُ مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ وَالطَّيْرِ [ النمل/ 17] ، وَتَفَقَّدَ الطَّيْرَ [ النمل/ 20] ( ط ی ر ) الطائر ہر پر دار جانور جو فضا میں حرکت کرتا ہے طار یطیر طیرا نا پرند کا اڑنا ۔ الطیر ۔ یہ طائر کی جمع ہے جیسے راکب کی جمع رکب آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلا طائِرٍ يَطِيرُ بِجَناحَيْهِ [ الأنعام/ 38] یا پرند جو اپنے پر دل سے اڑتا ہے ۔ وَالطَّيْرَ مَحْشُورَةً [ ص/ 19] اور پرندوں کو بھی جو کہ جمع رہتے تھے ۔ وَالطَّيْرُ صَافَّاتٍ [ النور/ 41] اور پر پھیلائے ہوئے جانور بھی ۔ وَحُشِرَ لِسُلَيْمانَ جُنُودُهُ مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ وَالطَّيْرِ [ النمل/ 17] اور سلیمان کے لئے جنون اور انسانوں اور پرندوں کے لشکر جمع کئے گئے ۔ وَتَفَقَّدَ الطَّيْرَ [ النمل/ 20] انہوں نے جانوروں کا جائزہ لیا ۔ صف الصَّفُّ : أن تجعل الشیء علی خط مستو، کالناس والأشجار ونحو ذلك، وقد يجعل فيما قاله أبو عبیدة بمعنی الصَّافِّ «1» . قال تعالی:إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الَّذِينَ يُقاتِلُونَ فِي سَبِيلِهِ صَفًّا[ الصف/ 4] ، ثُمَّ ائْتُوا صَفًّا [ طه/ 64] ، يحتمل أن يكون مصدرا، وأن يكون بمعنی الصَّافِّينَ ، وقال تعالی: وَإِنَّا لَنَحْنُ الصَّافُّونَ [ الصافات/ 165] ، وَالصَّافَّاتِ صَفًّا[ الصافات/ 1] ، يعني به الملائكة . وَجاءَ رَبُّكَ وَالْمَلَكُ صَفًّا صَفًّا [ الفجر/ 22] ، وَالطَّيْرُ صَافَّاتٍ [ النور/ 41] ، فَاذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَيْها صَوافَ [ الحج/ 36] ، أي : مُصْطَفَّةً ، وصَفَفْتُ كذا : جعلته علی صَفٍّ. قال : عَلى سُرُرٍ مَصْفُوفَةٍ [ الطور/ 20] ، وصَفَفْتُ اللّحمَ : قدّدته، وألقیته صفّا صفّا، والصَّفِيفُ : اللّحمُ المَصْفُوفُ ، والصَّفْصَفُ : المستوي من الأرض كأنه علی صفٍّ واحدٍ. قال : فَيَذَرُها قاعاً صَفْصَفاً لا تَرى فِيها عِوَجاً وَلا أَمْتاً [ طه/ 106] ، والصُّفَّةُ من البنیان، وصُفَّةُ السَّرج تشبيها بها في الهيئة، والصَّفُوفُ : ناقةٌ تُصَفُّ بين مَحْلَبَيْنِ فصاعدا لغزارتها، والتي تَصُفُّ رجلَيْها، والصَّفْصَافُ : شجرُ الخلاف . ( ص ف ف ) الصف ( ن ) کے اصل معنی کسی چیز کو خط مستوی پر کھڑا کرنا کے ہیں جیسے انسانوں کو ایک صف میں کھڑا کرنا یا ایک لائن میں درخت وغیرہ لگانا اور بقول ابوعبیدہ کبھی صف بمعنی صاف بھی آجاتا ہے ۔ چناچہ آیات : ۔ نَّ اللَّهَ يُحِبُّ الَّذِينَ يُقاتِلُونَ فِي سَبِيلِهِ صَفًّا[ الصف/ 4] جو لوگ خدا کی راہ میں ایسے طور پر ) پرے جما کر لڑتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ بیشک محبوب کرو گار ہیں ۔ ثُمَّ ائْتُوا صَفًّا [ طه/ 64] پھر قطار باندھ کر آؤ ۔ وَجاءَ رَبُّكَ وَالْمَلَكُ صَفًّا صَفًّا [ الفجر/ 22] اور فرشتے قطار باندھ کر آموجود ہوں گے ۔ میں صفا مصدر بھی ہوسکتا ہے اور بمعنی صافین ( اسم فاعل ) بھی اور آیات : ۔ وَإِنَّا لَنَحْنُ الصَّافُّونَ [ الصافات/ 165] اور ہم صف باندھتے رہتے ہیں ۔ وَالصَّافَّاتِ صَفًّا[ الصافات/ 1] قسم ہے صف بستہ جماعتوں ن کی میں صافون اور صافات سے مراد فرشتے ہیں نیز فرمایا : ۔ وَالطَّيْرُ صَافَّاتٍ [ النور/ 41] اور پرند بازو پھیلائے ہوئے ۔ فَاذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَيْها صَوافَ [ الحج/ 36] تو ( قربانی کرنے کے وقت قطار میں کھڑے ہوئے اونٹوں پر خدا کا نام لو ۔ اور صففت کذا کے معنی کسیچیز کی صف لگانا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ عَلى سُرُرٍ مَصْفُوفَةٍ [ الطور/ 20] صف میں لگائے تختوں پر ۔ صفقت اللحم کے معنی گوشت کے پار چوں کو بریاں کرنے کے لئے سیخ کشیدہ کرنے کے ہیں اور سیخ کشیدہکئے ہوئے پار چوں کو صفیف کہا جاتا ہے : ۔ الصفصف ہموار میدان گویا وہ ایک صف کی طرح ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَيَذَرُها قاعاً صَفْصَفاً لا تَرى فِيها عِوَجاً وَلا أَمْتاً [ طه/ 106] اور زمین کو ہموار میدان کر چھوڑے گا جس میں نہ تم کجی ( اور پستی ) دیکھو گے اور نہ ٹیلا ) اور نہ بلندی ۔ الصفۃ کے معنی سایہ دار چبوتر ہ یا بر آمدہ کے ہیں اور تشبیہ کے طور پر زین کی گدی کو صفۃ السراج کہا جاتا ہے ۔ الصفوف وہ اونٹنی جو زیادہ دودھ دینے کی وجہ سے دو یا تین برتن بھرے یا وہ جو دودھ دوہنے کے وقت اپنی ٹانگوں کو ایک قطار میں رکھ کر کھڑی ہوجائے ۔ الصفصاف بید کا درخت ۔ علم العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، ( ع ل م ) العلم کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا سبح السَّبْحُ : المرّ السّريع في الماء، وفي الهواء، يقال : سَبَحَ سَبْحاً وسِبَاحَةً ، واستعیر لمرّ النجوم في الفلک نحو : وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [ الأنبیاء/ 33] ، ولجري الفرس نحو : وَالسَّابِحاتِ سَبْحاً [ النازعات/ 3] ، ولسرعة الذّهاب في العمل نحو : إِنَّ لَكَ فِي النَّهارِ سَبْحاً طَوِيلًا[ المزمل/ 7] ، والتَّسْبِيحُ : تنزيه اللہ تعالی. وأصله : المرّ السّريع في عبادة اللہ تعالی، وجعل ذلک في فعل الخیر کما جعل الإبعاد في الشّرّ ، فقیل : أبعده الله، وجعل التَّسْبِيحُ عامّا في العبادات قولا کان، أو فعلا، أو نيّة، قال : فَلَوْلا أَنَّهُ كانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ [ الصافات/ 143] ، ( س ب ح ) السبح اس کے اصل منعی پانی یا ہوا میں تیز رفتار ری سے گزر جانے کے ہیں سبح ( ف ) سبحا وسباحۃ وہ تیز رفتاری سے چلا پھر استعارہ یہ لفظ فلک میں نجوم کی گردش اور تیز رفتاری کے لئے استعمال ہونے لگا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [ الأنبیاء/ 33] سب ( اپنے اپنے ) فلک یعنی دوائر میں تیز ی کے ساتھ چل رہے ہیں ۔ اور گھوڑے کی تیز رفتار پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ وَالسَّابِحاتِ سَبْحاً [ النازعات/ 3] اور فرشتوں کی قسم جو آسمان و زمین کے درمیان ) تیر تے پھرتے ہیں ۔ اور کسی کام کو سرعت کے ساتھ کر گزرنے پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ إِنَّ لَكَ فِي النَّهارِ سَبْحاً طَوِيلًا[ المزمل/ 7] اور دن کے وقت کو تم بہت مشغول کا رہے ہو ۔ التسبیح کے معنی تنزیہ الہیٰ بیان کرنے کے ہیں اصل میں اس کے معنی عبادت الہی میں تیزی کرنا کے ہیں ۔۔۔۔۔۔ پھر اس کا استعمال ہر فعل خیر پر ہونے لگا ہے جیسا کہ ابعاد کا لفظ شر پر بولا جاتا ہے کہا جاتا ہے ابعد اللہ خدا سے ہلاک کرے پس تسبیح کا لفظ قولی ۔ فعلی اور قلبی ہر قسم کی عبادت پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَلَوْلا أَنَّهُ كانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ [ الصافات/ 143] قو اگر یونس (علیہ السلام) اس وقت ( خدا کی تسبیح ( و تقدیس کرنے والوں میں نہ ہوتے ۔ یہاں بعض نے مستحین کے معنی مصلین کئے ہیں لیکن انسب یہ ہے کہ اسے تینوں قسم کی عبادت پر محمول کیا جائے فعل الفِعْلُ : التأثير من جهة مؤثّر، وهو عامّ لما کان بإجادة أو غير إجادة، ولما کان بعلم أو غير علم، وقصد أو غير قصد، ولما کان من الإنسان والحیوان والجمادات، والعمل مثله، ( ف ع ل ) الفعل کے معنی کسی اثر انداز کی طرف سے اثر اندازی کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ تاثیر عمدگی کے ساتھ ہو یا بغیر عمدگی کے ہو اور علم سے ہو یا بغیر علم کے قصدا کی جائے یا بغیر قصد کے پھر وہ تاثیر انسان کی طرف سے ہو یا دو سے حیوانات اور جمادات کی طرف سے ہو یہی معنی لفظ عمل کے ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قول باری ہے : (الم تران اللہ یسبح لہ من فی السموت والارض) کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ کی تسبیح کررہے ہیں وہ سب جو آسمانوں اور زمین میں ہیں تسبیح اللہ کی ذات کو ان تمام صفات سے پاک کرنے کا نام ہے جو اس کی شایان شان نہ ہوں۔ اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ تمام مخلوقات اس کی ذات پر دلالت کی جہت سے اس کی تنزیہہ کرتی ہیں۔ اور اللہ کے فرمانبردار ارباب عقول اعتقاد کی جہت سے نیز اس کی شایان شان صفات بیان کرکے اور ناپسندیدہ صفات کی نفی کرکے اس کی تنزیہ کرتے ہیں۔ قول باری ہے : (قل قد علم صلاتہ وتسبیحہ) ہر ایک اپنی نماز اور تسبیح کا طریقہ جانتا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ ان لوگوں کی نمازوں کو جانتا ہے جو ان میں سے نماز ادا کرتے ہیں۔ مجاہد کا قول ہے کہ نماز انسان کے لئے ہے اور تسبیح دوسری تمام چیزوں کے لئے۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤١۔ ٤٢) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا آپ کو بذریعہ قرآن کریم یہ بات معلوم نہیں ہوئی کہ سب اللہ تعالیٰ کی پاکی بیان کرتے ہیں جو آسمانوں میں فرشتے ہیں اور زمین میں جتنے مومنین ہیں بالخصوص پرند بھی اللہ تعالیٰ کی پاکی بیان کرتے ہیں جو پر پھیلائے ہوئے اڑتے پھرتے ہیں ان میں سے ہر ایک کو جو بھی اللہ تعالیٰ کے سامنے التجا کرے اور اس کی پاکی بیان کرے اپنی اپنی دعا اور تسبیح کا طریقہ معلوم ہے۔ یا یہ مطلب ہے کہ جو اللہ تعالیٰ سے دعا کرے اللہ تعالیٰ کو اس کی دعا اور جو اس کی پاکی بیان کرے اللہ تعالیٰ کو اس کی پاکی بیان کرنا معلوم ہے اور اللہ تعالیٰ کو ان سب کے افعال کا خواہ اچھے ہوں پورا علم ہے۔ اور آسمانوں کے خزانے یعنی بارش وغیرہ اور زمین کے خزانے یعنی نباتات وغیرہ سب اللہ ہی کے قبضہ قدرت میں ہیں اور مرنے کے بعد سب کو اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤١ (اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ یُسَبِّحُ لَہٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ) ” نہ صرف آسمانوں اور زمین کی تمام مخلوقات اللہ کی تسبیح کرتی ہیں بلکہ ان دونوں (آسمان و زمین) کے مابین جو مخلوق ہے وہ بھی اس میں شامل ہیں۔ (وَالطَّیْرُ صٰٓفّٰتٍط کُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلَا تَہٗ وَتَسْبِیْحَہٗ ط) ” یہی مضمون سورة بنی اسرائیل کی آیت ٤٤ میں اس طرح آیا ہے : (وَاِنْ مِّنْ شَیْءٍ الاَّ یُسَبِّحُ بِحَمْدِہٖ وَلٰکِنْ لاَّ تَفْقَہُوْنَ تَسْبِیْحَہُمْ ط) کہ کوئی چیز اس کائنات میں ایسی نہیں ہے جو اللہ کی تسبیح وتحمید نہ کر رہی ہو ‘ لیکن تم لوگوں کو ان کے طریقہ تسبیح کا شعور نہیں ہوسکتا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :74 اوپر ذکر آ چکا ہے کہ اللہ ساری کائنات کا نور ہے مگر اس نور کے ادراک کی توفیق صرف صالح اہل ایمان ہی کو نصیب ہوتی ہے ، باقی سب لوگ اس نور کامل و شامل کے محیط ہوتے ہوئے بھی اندھوں کی طرح تاریکی میں بھٹکتے رہتے ہیں ۔ اب اس نور کی طرف رہنمائی کرنے والے بے شمار نشانات میں سے صرف چند کو بطور نمونہ پیش کیا جا رہا ہے کہ دل کی آنکھیں کھول کر کوئی انہیں دیکھے تو ہر وقت ہر طرف اللہ کو کام کرتے دیکھ سکتا ہے ۔ مگر جو دل کے اندھے ہیں وہ اپنے سر کے دیدے پھاڑ پھاڑ کر بھی دیکھتے ہیں تو انہیں بیولوجی اور زولوجی اور طرح طرح کی دوسری لوجیاں تو اچھی خاصی کام کرتی نظر آتی ہیں مگر اللہ کہیں کام کرتا نظر نہیں آتا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

38: سورۂ بنی اسرائیل (١٧۔ ٤٤) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ کائنات کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتی ہے ؛ لیکن تم ان کی تسبیح کو سمجھتے نہیں ہو، یہاں اللہ تعالیٰ نے اشارہ فرمادیا ہے کہ ہر چیز کے تسبیح کرنے کا طریقہ مختلف ہے، اور کائنات کی تمام چیزیں اپنے اپنے مخصوص انداز میں اللہ تعالیٰ کی تسبیح کررہی ہیں، جیسا کہ سورۂ بنی اسرائیل کے حاشیے میں عرض کیا گیا، قرآن کریم کی متعدد آیتوں سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جن چیزوں کو ہم دنیا میں بے حس سمجھتے ہیں ان سب میں کچھ نہ کچھ حس موجود ہے، اور یہ بات اب رفتہ رفتہ موجودہ سائنس بھی تسلیم کررہی ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٤١۔ ٤٢:۔ مجاہد کے قول کے موافق نماز کا حکم انسان کے حق میں ہے اور حسب حال یاد الٰہی کا حکم باقی کی مخلوقات کے حق میں ہے ‘ قرآن شریف میں تسبیح کا ذکر بعضے جگہ تسبیح کا لفظ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ آسمان و زمین کی کل چیزیں اپنی اپنی زبان میں ہر وقت اللہ کو یاد کرتی اور اس کے نام کی تسبیح پڑھتی ہیں ‘ بعض مفسروں نے یہ جو لکھا ہے کہ جنات اور انسان کے سوائے اور مخلوقات کی تسبیح زبان حال سے ہے ‘ زبان قال سے نہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ سوائے جنات اور انسان کے اور مخلوقات کی تسبیح میں کسی طرح کی گویائی نہیں ہے بلکہ یہ مخلوقات اللہ تعالیٰ کے حکم کی جو تابع ہے اس مخلوقات کی یہی حالت اس کی تسبیح ہے ‘ ان مفسروں کا یہ قول بعض صحیح روایتوں کے برخلاف ہے چناچہ مثلا صحیح بخاری ومسلم میں حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے ٢ ؎ روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ ایک روز اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا گزر دو قبروں پر ہوا اور آپ نے فرمایا کہ ان دونوں قبروں میں جو مردے دفن ہیں ان پر عذاب قبر ہو رہا ہے یہ فرما کر آپ نے ایک ہری ٹہنی درخت کی لی اور اس کی دو شاخیں کیں اور یہ دونوں ان دونوں قبروں پر لگا کر فرمایا کہ جب تک یہ شاخیں ہری رہیں گی ‘ شاید ان مردوں کے عذاب قبر میں کچھ تخفیف ہوجاوے گی اس حدیث سے یہ مطلب اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے کہ ہرے درخت کی ٹہنی جب تک ہری رہتی ہے تو وہ اپنی زبان کی ایک طرح کی خاص گویائی سے اللہ کی یاد کرتی ہے اور ان دونوں شاخوں کی تسبیح تھی جس کی برکت سے عذاب قبر میں تخفیف ہوئی اگر زبان حال کی تسبیح شریعت میں مقصود ہوتی ‘ تو ان دونوں شاخوں کے سوکھ جانے کے بعد بھی ان کی تسبیح اور عذاب قبر کی تخفیف باقی رہ سکتی تھی ‘ صحیح بخاری میں عبداللہ بن مسعود سے روایت ١ ؎ ہے کہ کھانا کھاتے وقت ہم صحابہ لوگ کھانے کی چیزوں کی تسبیح کی آواز سنا کرتے تھے ‘ اس روایت سے یہ مطلب اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے کہ ان کھانے کی چیزوں کی تسبیح زبان حال سے نہیں تھی بلکہ اتنی گویائی کی آواز سے تھی جو آواز صحابہ (رض) کے کانوں میں آیا کرتی تھی ‘ حاصل مطلب آیت کا یہ ہے کہ آسمان و زمین میں اکیلے اللہ کی حکومت ہے اس کی حکومت میں کوئی اس کا شریک نہیں ‘ اس لیے آسمان پر فرشتے زمین پر جنات اور انسان اور آسمان و زمین کے درمیان اڑتے ہوئے جانور اپنی زبان میں اللہ کی یاد میں ہر وقت لگے ہوئے ہیں ‘ سورة النحل میں گزر چکا ہے کہ جو لوگ خوشی سے خالص اللہ کی یاد اور اس کی بندگی نہیں کرتے ‘ دوپہر سے پہلے سیدھے ہاتھ کی طرف اور دوپہر کے بعد الٹے ہاتھ کی طرف ان کا سایہ جو آجاتا ہے ‘ سایہ کے ذریعے سے ایسے لوگوں کے پیچھے بھی اللہ کی بندگی لگی ہوئی ہے وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ بِمَا یَفْعَلُوْنَ اس کا مطلب یہ ہے کہ پہاڑ اور درخت جب سب ناسمجھ چیزیں اپنے پیدا کرنے والے کی تعظیم میں دوسروں کو شریک کرتے ہیں ‘ اللہ تعالیٰ کو ان کے سب کام معلوم ہیں ‘ وقت مقررہ پر ایسے لوگوں کو اپنے عملوں کی پوری سزا بھگتنی پڑے گی ‘ صحیح مسلم کے حوالہ سے ابوموسیٰ اشعری (رض) کی حدیث کئی جگہ گزر چکی ہے کہ لوگوں کے رات کے عمل دن سے پہلے اور دن کے عمل رات سے پہلے ہر روز اللہ تعالیٰ کے ملاحظہ میں پیش ہوتے رہتے ہیں ‘ اسی طرح صحیح مسلم کے حوالہ سے عبداللہ بن عمرو بن العاص کی حدیث ٢ ؎ بھی کئی جگہ گزر چکی ہے کہ دنیا کے پیدا کرنے سے پچاس ہزار برس پہلے دنیا میں جو کچھ ہونے والا تھا ‘ اپنے علم غیب کے نتیجہ کے طور پر وہ سب اللہ تعالیٰ نے لوح محفوظ میں لکھ لیا ہے ان حدیثوں کو وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ بِمَا یَفْعَلُوْنَ کے ساتھ ملانے سے یہ مطلب ہوا کہ دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے ‘ اگرچہ دنیا کے پیدا ہونے سے پہلے بھی وہ اللہ تعالیٰ کے علم غیب سے باہر نہیں تھا ‘ لیکن بنظر انصاف جزا وسزا کے فیصلہ کا مدار اللہ تعالیٰ نے اپنے علم غیب پر نہیں رکھا بلکہ علم کے ظہور پر رکھا ہے اور اس ظہور کے ہر وقت ملاحظہ فرمانے کا یہ انتظام قرار دیا کہ صبح وشام لوگوں کے اعمال نامے ملاحظہ فرمائے جاتے ہیں وَاِلَی اللّٰہِ الْمَصِیْرُ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علم غیب کے ظہور کے موافق ہر روز صبح وشام لوگوں کے اعمال نامے جو اللہ تعالیٰ کے ملاحظہ میں پیش ہوتے ہیں ‘ ان کے موافق ہر ایک شخص کو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے روبرو جوابدہی کرنی پڑے گی اور پھر جزا وسزا کا فیصلہ ہوگا۔ (٢ ؎ مشکوٰۃ باب آداب الخلاء ) (١ ؎ مشکوٰۃ ص ٥٣٨ باب المعجزات ) (٢ ؎ مشکوٰۃ باب الایمان بالقدر۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(24:41) والطیر۔ معطوف ہے اس کا عطف من پر ہے۔ طیر۔ طائر کی جمع ہے۔ جیسے صحب جمع صاحب کی اور رکب راکب کی جمع ہے۔ طیر کی جمع طیور آتی ہے۔ بعض کے نزدیک طیر واحد اور جمع دونوں کے لئے مستعمل ہے۔ صفت۔ صف بستہ۔ پرا باندھے۔ پرا باندھے۔ اسم فاعل کا صیغہ جمع مؤنث۔ صافۃ واحد۔ صفتحال ہے الطیر کا۔ صفت صفت بستہ۔ کئی جگہ قرآن مجید میں آیا ہے۔ مثلاً ثم ائتوا صفا۔ (20:46) پھر قطار باندھ کر آئو۔ یا والصافات صفاء (37:1) قسم ہے صف بستہ جماعتوں کی۔ صف یصف (باب نصر) صف وصف پرواز کے دوران پرندے کا پروں کو پھیلانا۔ (الفرائد الدریہ) صفت۔ ای صافات اجتنحھا۔ اپنے پروں کو پھیلانے والے۔ اسی معنی میں اور جگہ قرآن مجید میں آیا ہے اولم یروا الی الطیر فوقہم صفت ویقبضن (67:19) کیا وہ نہیں دیکھتے اپنے اوپر پر وندون کو کہ پر پھیلائے ہوئے ہیں اور سمیٹ بھی لیتے ہیں۔ کل۔ ای کل واحد منہم۔ علم کی ضمیر فاعل کل کی طرف راجع ہے اور اسی طرح صلاتہ میں ہ ضمیر واحد مذکر غائب کا مرجع بھی کل ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

4 ۔ یعنی تمام انسان، جن، فرشتے، جانر، اڑتے ہوئے پرندے حتیٰ کہ جمادات اللہ تعالیٰ کے ہر عیب اور ہر نقص سے پاک ہونے کی شہادت دے رہے ہیں۔ 5 ۔ اس سے معلوم ہوا کہ ان کی یہ تسبیح اتفاقی طور پر بےسوچے سمجھے نہیں ہے بلکہ سمجھ کر اور علم کی بنا پر ہے جو اللہ تعالیٰ نے انہیں سکھایا اور ان کی طرف الہام کیا ہے۔ 6 ۔ یعنی ان کی تسبیح اور اطاعت سے اللہ تعالیٰ بیخبر نہیں ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

(رکوع نمبر ٦) اسرارومعارف عظمت الہی اور اس کی قدرت کاملہ کے دلائل کس قدر واضح اور آنکھوں کے سامنے ہیں کیا تو انہیں دیکھتا اے مخاطب کہ زمین وآسمان کی ہر چیز اور ہر وجود اس کی پاکی بیان کرتا ہے اور یہ فضا میں پر پھیلائے ہوئے پرندوں کے غول مفسرین کرام کے مطابق ہر ایک کا ذکر دو طرح سے ہے ۔ (ہر شے اللہ جل جلالہ کا ذکر کرتی ہے) اول ہر انسان کے سمجھنے کے لیے کہ ارض وسما میں اللہ جل جلالہ نے جو چیز پیدا فرما کر جس کام پر لگا دی وہ سرمو اس سے انحراف نہیں کرتی اور پوری پوری طرح وہ فریضہ انجام دے رہی ہے جو تخلیقی طور پر اللہ نے اس کے ذمہ لگا دیا ہے یا جس کام کے لیے اللہ جل جلالہ نے اسے پیدا فرمایا وہ پورا کر رہی ہے اور کبھی سستی اور کوتاہی نہیں کرنے پاتی اور دوسرے یہ کہ ہر شے اپنی زبان سے بھی اللہ جل جلالہ کا ذکر کرتی ہے ہاں ہر ایک کی اپنی زبان ہے اور الگ طریق ذکر کہ یہاں ارشاد ہوتا ہے کہ ہر شے اپنے طریق عبادت اور اپنے طریق ذکر سے واقف ہے اور قرآن وسنت سے ہر شے میں ایک درجہ کا شعور ہونا ایک طرز گفتگو کا پایا جانا ثابت ہے نیز ہر ایک کے ہر کام سے اللہ واقف ہے اور آسمانوں اور زمینوں کی سلطنت و حکومت اللہ جل جلالہ ہی کو زیبا ہے کہ ہر شے نے بالآخر اسی کے بارگاہ میں پلٹ کر جانا ہے اس کی قدرت کاملہ کو دیکھو کہ کیسے بادلوں کو لاتا ہے اور انہیں ایک جگہ جہاں چاہتا ہے جمع فرما دیتا ہے اور وہ ایک دوسرے پر تہہ در تہہ جمتے اور بڑھتے چلے جاتے ہیں پھر ان میں سے بارش برسنے لگتی ہے انسانی علم کے مطابق اگرچہ بادلوں کے بننے چلنے اور برسنے کے کچھ خاص اسباب ہوتے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ وہ اسباب کون پیدا کرتا ہے ، سورج کی روشنی و گرمی اور ہواؤں کی روانی کس کی عطا اور قدرت کا مظہر ہے پھر ہم دیکھتے ہیں کہ کئی بار مطلع بالکل صاف اور دھوپ روشن ہوتی ہے کہ لمحوں میں بدل چھا جاتے ہیں اور ٹوٹ کر برستے ہیں ، یہ ایک دم سے سب اسباب کیسے جمع ہوگئے ، کس نے کردیے یا کبھی کئی دن بادل چھائے رہتے ہیں مگر ایک قطرہ نہیں ٹپکتا ، یہ کس کی قدرت کاملہ ہے ، ایسے ہی پہاڑ جیسے بادلوں سے اولے برساتا ہے اور جس کی کھیتی یا مال کو چاہتا ہے وہ تباہ کردیتے ہیں نیز جسے چاہتا ہے بچا دیتا ہے ساتھ کا کھیت اجڑ جاتا ہے جبکہ دوسرا محفوظ رہتا ہے اور بادلوں کے اس غبار میں بجلی کے کو ندے یوں لپکتے ہیں جیسے انسانی نگاہ کو اچک لیں گے ، پھر رات کو دن اور دن کو رات سے بدلتا ہے یعنی سارے نظام حیات کو ایک روشن پہ قائم رکھتا ہے جن لوگوں میں بصیرت ہے ان کے لیے تو اس میں بہت دلائل ہیں ۔ یہ سب اس کی قدرت کاملہ کے کرشمے ہیں نیز ہر جاندار کو اسی نے پیدا فرمایا ہے اور سب کے اجسام کو مادے کی شکل سے بناتا ہے ، ذرات خاکی کو جمع فرما کر مادے میں ڈھال دیتا ہے اور اس پانی جیسی شے سے وجود پیدا فرماتا ہے اور کچھ ہیں کہ پیٹ پر اور رینگ کر چلتے ہیں جبکہ کچھ جانور دو پاؤں پہ یا کچھ چارپاؤں پر ، ایسے ہی زیادہ پر بھی کہ اللہ جسے چاہتا ہے سیدھے راستے کی طرف چلنے کے لیے توفیق ارزاں فرما دیتا ہے فرق یہ ہے کہ انسان کے لیے اس کا انتخاب رکھا ہے ، اگر کوئی اپنے لیے ہدایت اور نیکی کا راستہ چاہے تو اسے اس کے لیے ایسا ہی آسان کردیتا ہے جیسے فطری زندگی کے امور اور پھر اسی رات کے لیے واضح دلائل بھی نازل فرمائے ، انبیاء کرام (علیہ السلام) مبعوث فرما کر اپنی کتب نازل فرمائیں لیکن اگر کوئی طلب ہی سے حالی اور محروم ہوجائے تو پھر اسے کچھ حاصل نہیں ہوتا ، جیسے کچھ لوگ جن کے دل طلب سے خالی اور محروم ہوتے ہیں وہ حالات سے سمجھوتہ کرکے یا دنیا کے فائدے کی خاطر یا کبھی دیکھا دیکھی کہہ دیتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں ۔ rnّ (طلب سے خالی دلوں کا حال) ہم اللہ جل جلالہ پر اور اس کے رسول پر ایمان رکھتے ہیں اور اس کی اطاعت کریں گے مگر جب اطاعت کا موقع آتا ہے تو ان سب وعدوں کے باوجود ان میں سے ایک گروہ اطاعت سے بھر جاتا ہے ، غریب کو تو نہ چاہتے ہوئے بھی انکار کی جرات نہیں ہوتی مگر بااثر اور امیر لوگ الگ ہو جوتے ہیں جیسے آجکل کے کچھ دانشور اور برائے نام سیانے فرماتے ہیں ہم خود مسلمان ہیں مگر کیا کریں اسلام دور جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہے یعنی اب قابل عمل نہیں فرمایا ایسے لوگ ہرگز ایمان دار نہیں اگر ان کا کسی سے جھگڑا ہو اور کہا جائے کہ آؤ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم کے مطابق فیصلہ کرلو تو ادھر نہیں آتے لیکن اگر ان کا حق بنتا ہو اور دوسرے فریق کے قبضے میں ہو تو پھر دوڑے آتے ہیں یعنی ان کی مسلمانی محض دنیا حاصل کرنے کے لیے ہے تو اب دیکھ لے اے مخاطب کہ ان کے دل کے مرض کا کیا حال ہے اور کتنی شدت ہے کہ کبھی تو انہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت ہی میں شک ہوجاتا ہے اور کبھی یہ وہم کہ معاذ اللہ اللہ رسول کا قانون ان سے زیادتی کا مرتکب ہوگا حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ خود ظالم اور غلط کار ہیں ۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن : آیت نمبر 41 تا 46 : صفت (صافۃ) (صفیں بنانے والے۔ پر پھیلانے والے) ‘ یزجی (ازجائ) وہ ہانکتا ہے۔ چلاتا ہے) ‘ یئولف (ملادیتا ہے) ‘ رکاما (تہہ در تہہ ایک کے اوپر دوسرا) ‘ الودق (بارش) ‘ خلال (درمیان) ‘ برد (اولے۔ برف) ‘ یصرف (وہ پھیر دیتا ہے۔ پلٹا دیتا ہے) ‘ مسنا (چمک) ‘ یقلب (وہ بدلتا ہے) اولی الا بصار (آنکھوں والے۔ عقل رکھنے والے) ‘ دابۃ (جان دار۔ زمین پر رینگنے والا) ‘ بطن (پیٹ) رجلین (دونوں پاؤں ) ‘۔ تشریح : آیت نمبر 41 تا 46 : اس سے پہلے آیات میں نہایت وضاحت سے بیان کردیا گیا ہے کہ اس کائنات میں صرف ایک اللہ کا نور ہدایت ہے جس کی روشنی اور رہنمائی میں سارا نظام کائنات چل رہا ہے۔ اسی بات کو ذرا اور تفصیل سے ارشاد فرمایا جارہا ہے کہ اس کائنات میں جتنی بھی ملوقات ہیں وہ اسی کے نور ہدایت سے فیض حاصل کر کے اسی کی عبادت و بندگی ‘ حمد وثناء اور تسبیح میں مشغول ہیں۔ جس کی جو ذمہ داری لگادی گئی ہے وہ اس کو نہایت احسن طریقہ پر انجام دے رہا ہے۔ لیکن وہ انسان جس کے لئے اس پوری کائنات کا نظام بنایا گیا ہے اور اس کی رہبری و رہنمائی کے لئے صراط مستقیم پر چلنے کے لئے واضح آیات اور نشانیوں کو بھیجا گیا ہے وہ ان پر نہ تو عمل کرتا ہے اور نہ عبرت ونصیحت حاصل کرتا ہے۔ زمین ‘ آسمان ‘ چاند ‘ سورج اور ستارے چرند ‘ پرند ‘ درند ‘ خشکی ‘ تری ‘ ہوا اور پانی میں بسنے والی بیشمار مخلوقات ہیں جو ہر وقت اللہ کی حمد وثناء اور عبادت و بندگی میں لگی ہوئی ہیں۔ جو اپنی ذمہ داری کو پہچانتی اور عمل کرتی ہیں لیکن انسان ان باتوں سے بےپرواہ غفلت اور غیر ذمہ داری کا انداز اختیار کئے ہوئے ہے۔ فرمایا کہ انسان اگر ذرا غور و فکر اور تدبر سے کام لے تو اس پر یہ حقیقت پوری طرح کھل کر سامنے آجائے گی کہ اس کا رخانہ قدرت کو اللہ رب العالمین اپنی لامحدود طاقت و قوت سے چلا رہا ہے اور اس نے قدم قدم پر عبرت و نصیحت کے ہر پہلو کو اجاگر کردیا ہے اور اس نے اپنی نعمتوں کو ساری کائنات میں بکھیر دیا ہے۔ وہ نعمتیں کیا ہیں ؟ ان میں سے چند چیزوں کو بطور مثال بیان کردیا گیا ہے۔ فرمایا کہ تم دن رات اپنی آنکھوں سے پرندوں کو پر پھیلائے اور صفیں بنائے ہوئے اڑتے دیکھتے ہو۔ ان کو فضا میں کون سنبھالے ہوئے ہے۔ یقیناً ایک اللہ کے سوا دوسرا کون ہے۔ فرمایا کہ وہ پرندے ہر وقت اس کی تسبیح اور عبادت و بندگی میں مشغول ہیں ۔ ان کے منہ سے نکلنے والی آوازیں درحقیقت اللہ کی حمد و ثنا کی گونج ہیں جنہیں عام آدمی سمجھنے سے قاصر اور مجبور ہے۔ البتہ اگر اللہ کسی کو اس بات کی صلاحیت عطا فرمادے کہ وہ ان کی تسبیح کو سمجھ سکے تو یہ ممکن ہے۔ جس طرح حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو اللہ نے تمام جان داروں کی بولیاں سمجھنے کی صلاحیت دی تھی۔ اسی طرح رسو ل اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دست مبارک میں کنکریوں کا تسبیح کرنا جس کو صحابہ کرام (رض) نے بھی اپنے کانوں سے سنا۔ فرمایا کہ غور کرے کی بات ہے کہ اللہ نے ان پرندوں کو پیدا کیا اور ان کی مناسب رہنمائی فرمائی جس سے وہ اپنی غذا حاصل کرتے ‘ گھونسلے بناتے اور پانا ٹھکانا تلاش کرلیتے ہیں۔ اللہ نے ان کی فطرت میں یہ صلاحیت عطا فرمائی اور اپنی قدرت کاملہ کا اظہار فرمایا ہے۔ بادلوں اور بارشوں کی مثال دے کر فرمایا کہ اللہ نے کیسا عجیب نظام بنایا ہے کہ سمندر سے مون سون اٹھتا ہے اور وہ بادلوں کی شکل میں تہہ درتہہ پہاڑروں جیسے بن جاتے ہیں۔ جو فضا میں تیرتے پھرتے ہیں۔ زیادہ گہرے ہوں تو وہ کالی گھٹابن کر چھا جاتے ہیں۔ ان ہی میں بجلی کی تیز چمک او ہیبت ناک کڑک ہوتی ہے۔ کبھی وہ بادل بوندیں بن کر برستے ہیں اور کبھی موسلادھار بارش بن کر۔ کبھی وہ اولوں کی شکل میں اور کبھی وہ پہاڑوں کی چوٹیوں پر جم جاتے ہیں جن سے پورے سال انسان اور جانور اپنی زندگی کا سامان حاصل کرتے ہیں۔ یہ سب اللہ کی نشانیاں ہیں۔ اسی طرح دن اور رات کا آنا جانا بھی اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔ کبھی دن ہے کبھی رات۔ انسان دن کی روشنی میں اپنارزق حاصل کرنے کے لئے جدوجہد کرتا ہے اور سخت محنت کے بعد وہ رات کو آرام کر کے تازہ دم ہوجاتا ہے۔ اگر ہر وقت دن ہی دن ہوتا یا رات ہی رات ہوتی تو انسان نہ صرف یکسانیت سے اکتا جاتا بلکہ وہ محنت اور آرام بھی نہ کرسکتا۔ اسی طرح اللہ نے موسموں کو بھی مختلف بنایا ہے کبھی گرمی کبھی سردی کبھی خزاں اور کبھی بہار یہ سب کچھ اللہ کی نشانیوں میں سے بڑی نشانیاں ہیں۔ جانوروں کی مثال دیتے ہوئے فرمایا کہ اس نے ہزاروں لاکھوں قسم کے خشکی اور تری پر جان دار پیدا کئے کوئی پیٹ کے بل چل رہا ہے گھسٹ رہا ہے۔ کوئی دو ٹانگوں پر چل رہا ہے کوئی چار ٹانگوں پر ان میں سے بعض جانور ایسے بھی ہیں جو سواری کے کام آتے ہیں جو انسانوں کو اور ان کے بھاری سامانوں کو لے کر ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرتے ہیں۔ یہ سواریوں کا ہونا بھی ایک نعمت ہے اور قیامت تک نجانے اللہ کیسی کیسی سواریاں بنائے گا۔ غرضیکہ سانپ ‘ کیڑے مکوڑے ‘ سمندر اور دریاؤں کے جانور ‘ انسان ‘ گائے ‘ بھینس ‘ گھوڑا یہ سب اپنے اپنے پاؤں پر چلتے ہیں اپنی اپنی غذا حاصل کرتے ہیں اور اپنے رہنے کے ٹھکانے بناتے ہیں۔ کائنات میں بکھری ہوئی یہ وہ حقیقتیں ہیں جن کو ہر شخص ہر آن دیکھتا اور برتتا ہے۔ لیکن ان سے عبرت و نصحیت حاصل نہیں کرتا۔ ان تمام چیزوں کا پیدا کرنے والا صرف اللہ ہے اس کے سوا کوئی نہیں ہے۔ فرمایا کہ دنیا کے جانور تو وہ ہیں جن کی فطری رہنمائی کی گئی ہے لیکن انسان پر تو اللہ کا دہراکرم ہے کہ اس نے اس کو فطری صلاحیتوں سے بھی نوازا ہے اور صراط مستقیم پر چلنے کے لئے اپنی آیات کو اپنے نیک اور برگزیدہ بندوں کے ذریعہ اس تک پہنچایا ہے۔ کائنات میں ہر چیز اللہ کے حکم کے مطابق چل رہی ہے لیکن انسان اس قدر نا شکرا ہے کہ وہ راستہ بھٹک کر اپنی منزل سے بہت دور نکل جاتا ہے اور اس بات کو بھول جاتا ہے کہ ایک اللہ ہی ہے جس نے اس سارے کارخانہ کائنات کو پیدا کیا ہے۔ وہی سب کا مالک اور خالق ہے اور سچی رہنمائی صرف وہی ہے جو اس نے انسانوں کو عطا فرمائی ہے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : ہدایت کو اللہ تعالیٰ نے نور قرار دیا ہے اور اس نور سے کافر محروم ہیں جبکہ اس نور ہدایت کے سبب ہر چیز اپنی عبادت اور ذمہ داری کو پہچانتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان بالخصوص کافر کو اس بات کی طرف توجہ دلائی ہے کہ کیا ” اللہ “ کے باغی اور منکر اس بات پر غور نہیں کرتے کہ جو زمین و آسمان میں جو کچھ ہے یہاں تک کہ پرندے جو فضا میں پر پھیلائے اڑتے ہیں۔ ہر کوئی اپنی نماز اور ذکر کو جانتا ہے اور اے لوگو ! جو کچھ تم کرتے ہو اللہ تعالیٰ اسے بھی اچھی طرح جانتا ہے کیونکہ زمین و آسمان کی بادشاہی اسی کے لیے ہے اور ہر کسی نے اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔ زمین و آسمان کی ہر چیز اور پرندوں کی نماز اور تسبیح پڑھنے کے بارے میں کچھ اہل علم نے لکھا ہے کہ نماز سے مراد ہر چیز کے ذمہ جو کام لگا ہے وہ اسے ادا کرتا ہے حالانکہ یہاں نماز سے مراد ہر چیز کے عبادت کرنے کا طریقہ ہے اس میں سجدہ بھی شامل ہے اس عبادت کے ساتھ وہ ذمہ داری بھی شامل ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کے ہر فرد کے ذمہ لگائی ہے وہ اس ذمہ داری کو پورا کرنے کے ساتھ اور اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ اور بتلائے ہوئے طریقہ کے مطابق اس کی عبادت بھی کرتا ہے فرق یہ ہے کہ انسان کی نماز قیام، رکوع، سجود اور تشہد پر مشتمل ہے انسان کے سوا للہ تعالیٰ نے ہر چیز کی عبادت کا طریقہ اس کے حسب حال مقرر کیا ہے جس کی ادائیگی انسان کے لیے سمجھنا مشکل ہے اس لیے دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا ہے کہ ہر چیز نماز پڑھتی ہے اور اپنے رب کی تسبیح کرنے میں مشغول ہے لیکن انسان اسے نہیں سمجھتے (بنی اسرائیل : ٤٤ ) جہاں تک انسان کے علاوہ دوسری مخلوق کی نماز کا تعلق ہے اس کے بارے میں یہ وضاحت بھی موجود ہے کہ نہ صرف ہر چیز اپنے رب کے حضور سجدہ کرتی ہے بلکہ ان کے سائے بھی اللہ تعالیٰ کو سجدہ کرتے ہیں اور ان کے سجدہ کرنے کے اوقات بھی بتلا دیئے ہیں کہ وہ صبح شام اپنے رب کے حضور سجدہ ریز ہوتے ہیں۔ (الرعد : ١٥) کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کی ملک ہیں اور ان پر اسی کی بادشاہی ہے پہلی آیت کی ابتدا اور آخر میں ہر انسان کو یہ احساس دلایا گیا ہے کہ اسے اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ جو کچھ وہ کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس سے پوری طرح واقف ہے اور دوسری آیت کے آخر میں یہ احساس دلایا گیا ہے کہ نہ صرف اللہ تعالیٰ ہر کسی کے اعمال سے واقف ہے بلکہ ہر کسی نے اپنے اعمال کے ساتھ اس کے حضور پیش ہونا ہے۔ مسائل ١۔ انسان کو زمین و آسمان اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق پر غور کرنا چاہیے۔ ٢۔ ہر چیز اللہ تعالیٰ کے بتلائے ہوئے طریقہ کے مطابق اس کے حضور نماز اور تسبیح پڑھتی ہے۔ ٣۔ زمین و آسمان اور ہر چیز پر حقیقی بادشاہی صرف ایک اللہ کی ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ ہر انسان کے فکروعمل کو جانتا ہے اور سب نے اسی کے حضور پلٹ کر جانا ہے۔ تفسیر بالقرآن ہرچیز اللہ تعالیٰ کے حضور اپنے طریقہ کے مطابق نماز پڑھتی اور عبادت کرتی ہے۔ ١ زمین و آسمان کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتی ہے وہ غالب، حکمت والا ہے۔ (الحشر : ١) ٢۔ زمین و آسمان کی ہر چیز اللہ کو سجدہ کرتی ہے۔ (الر عد : ١٥) ٣۔ کیا وہ نہیں دیکھتے کہ اللہ کو زمین و آسمان کی ہر چیز سجدہ کرتی ہے۔ (الحج : ١٨) ٤۔ ہر چیز اللہ کی تسبیح بیان کرتی ہے لیکن انسان اس کی تسبیح کو نہیں سمجھتے۔ (بنی اسرائیل : ٤٤) ٥۔ چوپائے، فرشتے اور جو کچھ زمین و آسمان میں ہے اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہوتے ہیں۔ (النحل : ٤٩) ٦۔ ستارے اور درخت اللہ کو سجدہ کرتے ہیں۔ (الرحمن : ٦) ٧۔ بیشک وہ لوگ جو تیرے رب کے پاس ہیں وہ اس کی عبادت سے تکبر نہیں کرتے۔ اس کی تسبیح بیان کرتے ہیں اور اسی کو سجدہ کرتے ہیں۔ (الاعراف : ٢٠٦)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(الم تر۔۔۔۔۔۔۔ یفعلون ) (٤١) ” اس وسیع کائنات میں انسان صرف منفرد نہیں ہے۔ اس کا ایک ماحول ہے جس میں وہ رہتا ہے۔ بڑا ہی وسیع ماحول ہے۔ اس کے دائیں اور بائیں ہر طرف اللہ کی بندگی ہورہی ہے۔ اس کے آگے اور پیچھے اور اوپر اور نیچے جہاں جہاں تک نظر جاسکتی ہے۔ پھر نظر کی حدود سے آگے جہاں جہاں تک خیال جاسکتا ہے ‘ اس وسیع کائنات میں انسان کے بھائی بند موجود ہیں۔ یہ مختلف شکلیں اور مختلف طبیعیتیں رکھتے ہیں۔ لیکن ایک بات میں سب ایک ہیں۔ یہ کہ یہ سب اللہ کی مخلوقات ہیں۔ یہ سب اللہ کے مطیع فرمان ہیں اور اللہ کی حمد اور تسبیح میں رطب اللسان ہیں۔ واللہ علیم بما یفعلون (٢٤ : ٤١) ” اور یہ سب جو کچھ کرتے ہیں اللہ اس سے باخبر رہتا ہے “۔ قرآن کریم کا یہ مخصوص انداز استدلال ہے کہ وہ انسان کو اپنے ماحول کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ انسان کے ماحول میں ان سماوات میں جو اللہ کی تخلیق ہے یہ سب کی سب اللہ کی ثنا خواں ہے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ اس کائنات کے مشاہد میں غور کرے کیونکہ انسان اپنے ماحول کو روز دیکھتا ہے۔ اور طول الفت کی وجہ سے اس کا دل و دماغ اس ماحول سے متاثر نہیں ہوتے۔ ڈرا دیکھو کہ بعض پرندے اس ہوا میں اڑتے ہیں اور ان کی اڑان صفوں کی شکل میں ہوتی ہے۔ یہ اپنی اس صف بندی اور منظم پرواز میں دراصل اللہ کی حمد بیان کررہے ہوتے ہیں اور نماز پڑھ رہے ہوتے ہیں۔ کل قد علم صلاتہ و تسبیحہ (٢٤ : ٤١) ” ہر ایک اپنی نماز اور تسبیح کا طریقہ جانتا ہے “۔ لیکن انسان ہے کہ اس عقل و بینش کے ساتھ بھی اللہ کی تسبیح سے غافل ہے۔ حالانکہ وہ تمام مخلوقات سے زیادہ اس بات کا مکلف ہے کہ ہر وقت تسبیح اور نماز میں مصروف ہو۔ اس منظر میں وپری کائنات نہایت ہی خشوع سے سجدہ ریز نظر آتی ہے اپنے خالق کے آگے۔ تسبیح اور نماز میں کھڑی ہے۔ یہ بات تو فطرت کائنات ہے کہ وہ ایسا کرے اور اللہ کے نوامیس فطرت کی اطاعت کرتے ہوئے چلے۔ انسانی وجدان جب صاف اور شفاف ہوجاتا ہے اور جیسے وہ صبح و شام چڑیوں کو چہچہاتے سنتا ہے تو وہ یہ منظم دیکھ سکتا ہے کہ یہ کائنات پوری کی پوری حدی خواں ہے اور انسان اپنے کانوں سے اس کائنات کی آواز اور تسبیح سن سکتا ہے۔ اگر انسان کو معرفت کرو گار حاصل ہوجائے تو وہ پھر اس پوری کائنات کے ساتھ اس محفل اور مجلس صلوۃ و تسبیح میں ہم رنگ اور ہم آہنگ اور نغمہ سرا ہوجاتا ہے۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے پائوں کے نیچے جب کنکریوں کی تسبیح سنی ‘ اور حضرت دائود جب زبور کے ساتھ رمزمہ سرا ہوتے تھے تو یہ پوری کائنات ان کے ساتھ روحانی نغمے گاتی تھی۔ وہ سنتے تھے اور ان کے ساتھ و حوش و طیور سب گاتے تھے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

آسمان اور زمین والے اور صفیں بنائے ہوئے پرندے اللہ تعالیٰ کی تسبیح میں مشغول رہتے ہیں ہر ایک کو اپنی اپنی نماز کا طریقہ معلوم ہے ان آیات میں اللہ جل شانہٗ کی قدرت کے بعض مظاہر بیان فرمائے ہیں اور مخلوق میں جو اس کے تصرفات ہیں ان میں سے بعض تصرفات کا تذکرہ فرمایا ہے اور یہ بھی فرمایا ہے کہ آسمانوں اور زمینوں میں جو رہنے اور بسنے والے ہیں وہ سب اللہ کی تسبیح بیان کرتے ہیں یعنی اللہ تعالیٰ کی پاکی بیان کرتے ہیں کہ وہ ہر عیب اور ہر نقص سے پاک ہے۔ اس مخلوق میں پرندے بھی ہیں جو پر پھیلائے ہوئے فضا میں اڑتے ہیں یہ بھی اللہ کی تسبیح و تقدیس میں مشغول رہتے ہیں ان کا فضاء میں اڑنا اور زمین پر نہ گرنا ان کے پروں کی حرکتوں کو اس قابل بنانا کہ ان سے اڑیں اور زمین پر نہ گریں ان سب میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کا مظاہرہ ہے یہ مضمون کہ آسمانوں میں اور زمین میں جو کچھ ہے سب اللہ کی تسبیح بیان کرتے ہیں پہلے بھی گزر چکا ہے اور قرآن مجید میں بہت سی جگہ مذکور ہے۔ اللہ کی تسبیح و تقدیس میں مشغول ہونا زبان قال سے بھی اور زبان حال سے بھی ہے۔ جو لوگ اہل زبان ہیں وہ زبان سے اللہ کی تسبیح بیان کرتے ہیں اور جن چیزوں کو قوت گویائی عطا نہیں فرمائی گئی وہ بھی اپنے حال کے مطابق اللہ کی تسبیح میں مشغول ہیں اول تو ہر چیز کا وجود ہی اس بات کو بتاتا ہے کہ اس کا خالق مالک قادر مطلق اور حاکم متصرف ہے پھر اللہ تعالیٰ نے جس کو جو فہم اور شعور عطا فرمایا ہے اپنے اس شعور سے اللہ کی تسبیح میں اور اس کی عبادت میں مشغول ہے۔ فرشتوں میں اور انسانوں اور جنات میں زیادہ عقل و فہم ہے اس سے کم حیوانات میں (وہ بھی مختلف ہے) اور اس سے کم نباتات میں اور اس سے کم جمادات میں ہے، فیما بین العباد جمادات میں بظاہر فہم و ادراک اور شعور ہے اسی لیے سورة بقرہ میں پتھروں کے بارے میں فرمایا ہے (وَ اِنَّ مِنْھَا لَمَا یَھْبِطُ مِنْ خَشْیَۃِ اللّٰہِ ) اور سورة حج میں فرمایا (اَلَمْ تَرَی اَنَّ اللّٰہَ یُسَبِّحُ لَہٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْض) مزید سمجھنے کے لیے مذکورہ دونوں آیتوں کی تفسیر دیکھی جائے۔ (انوار البیان ج ١) آیت بالا میں جو (کُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلاَتَہُ وَتَسْبِیحَہُ ) فرمایا ہے اس میں یہ بتایا ہے کہ جو آسمانوں اور زمین کے رہنے اور بسنے والے ہیں انہیں معلوم ہے کہ ہمیں اپنے خالق جل مجدہ کی تسبیح میں اور نماز میں کس طرح مشغول رہنا چاہئے۔ بعض حضرات نے صلاۃ بمعنی دعاء لیا ہے یہ معنی مراد لینا بھی درست ہے لیکن صلاۃ کا معروف معنی لیا جائے تو اس میں بھی اشکال نہیں۔ جس طرح بنی آدم دوسری مخلوق کی تسبیح کو نہیں سمجھتے کما قال تعالیٰ فی سورة الاسراء (وَ لٰکِنْ لاَّ تَفْقَھُوْنَ تَسْبِیْحَھُمْ ) اسی طرح اگر دوسری مخلوق کی نماز کو نہ جانیں اس میں اشکال کی کوئی بات نہیں ہے۔ بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ تسبیح اور صلاۃ سے اطاعت اور انقیاد مراد ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے جس چیز کو جس کام میں لگا دیا ہے وہ اس میں لگی ہوئی ہے اور جس کو جو الہام فرما دیا وہ اسی کے مطابق اپنی ڈیوٹی پوری کرنے میں مشغول ہے۔ یہاں یہ جو اشکال ہوتا ہے کہ بہت سے لوگ اللہ کے وجود ہی کو نہیں مانتے ان کے بارے میں یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ وہ اللہ کی تسبیح بیان کرتے ہیں ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ باعتبار ان کی خلقت کے ان کا اپنا وجود ہی اللہ کی تنزیہ بیان کرنے کے لیے کافی ہے اور بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ ان نالائقوں کو تنبیہ کرنے ہی کے لیے ارشاد فرمایا ہے کہ ساری مخلوق اللہ کی تسبیح بیان کرتی ہے تم ایسے ناہنجار ہو کہ جس نے تمہیں پیدا کیا اس کو نہیں مانتے اور اس کی تسبیح و تقدیس میں مشغول نہیں ہوتے اسی لیے آیت کے آخر میں (وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ بِمَا یَفْعَلُوْنَ ) فرمایا ہے (اور اللہ تعالیٰ جانتا ہے جو لوگ کرتے ہیں) اسے اہل ایمان کے اعمال کا بھی علم ہے اور وہ اہل کفر کو بھی جانتا ہے وہ سب کی جزا سزا اپنے علم و حکمت کے موافق نافذ فرما دے گا۔ قال صاحب الروح ج ١٨ ص ١٨٧ وانما تسبیحھم ماذکر من الدلالۃ التی یشار کھم فیھا غیر العقلاء ایضا و فی ذلک من تخطئتھم و تعییر ھم مافیہ۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

48:۔ ” الم تر الخ “: یہ دعوی توحید پر پہلی عقلی دلیل ہے زمین و آسمان کی ساری ذی عقل اور غیر ذی عقل مخلوق اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تقدیس کرتی ہے اور وہ ہر چیز کو جانتا ہے۔ ” وللہ ملک السموت الخ “ : زمین و آسمان کا مالک و مختار بھی وہی ہے اور ہر کام اور ہر معاملہ اسی کے اختیار میں ہے تو اس سے معلوم ہوا کہ معبود برحق اور متصرف اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ ” الطیر “ ، ” من “ پر معطوف ہے۔ اور صافات اس سے حال ہے یہ جو پرندے ہوا میں اڑتے اپنے پروں کو کھولتے اور سمیٹتے ہیں اور جس رخ چاہتے ہیں مڑ جاتے ہیں وہ بھی اللہ ہی کی تسبیح کرتے ہیں ” کل “ کی تنوین مضاف الیہ سے عوض ہے ای کل واحد ممن ذکر یعنی اللہ کی مخلوق میں سے ہر ایک اللہ کی عبادت اور اس کی تسبیح و تمجید کے طریقے جانتا ہے انسانوں کو انبیاء (علیہم السلام) کے ذریعہ تعلیم دی گئی اور باقی مخلوق کو بذریعہ الہام ذکر اللہ کے طریقے بتا دئیے گئے۔ المعنی قد علم کل مصل و مسبح صلاۃ نفسہ وتسبیحہ الخ (قرطبی ج 12 ص 287) ۔ ویراد بافرادھا (الطیر) بالصلوۃ والتسبیح ما الھم اللہ تعالیٰ کل واحد منھا من الدعاء والتسبیح (ابو السعود ج 6 ص 350) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(41) کیا اے مخاطب ! تجھ کو یہ معلوم نہیں کہ جو مخلوقات آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے اور وہ پرندے جو پر پھیلائے اڑتے پھرتے ہیں۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کی پاکی بیان کرتے ہیں ان سب نے اپنی اپنی عبادت و دعا کا طریقہ اور اپنی تسبیح و تقدیس کو جان رکھا ہے اور جو کچھ وہ کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کو سب معلوم ہے یعنی تمام اہل سموات والارض اللہ تعالیٰ کی پاکی اور اس کی خالقیت و صانعیت کا کمال ظاہر کرتے ہیں اور پرندے خاص طور پر وجود صانع پر دلالت کرتے ہیں یہ تسبیح قال سے ہو یا حال سے جیسا کہ ہم بنی اسرئیل میں قدرے تفصیل کے ساتھ عرض کرچکے ہیں ہر ایک اپنی دعا اور تسبیح سے جو اس کو الہام کے ذریعہ بتائی گئی ہے جانتا ہے اور جب یہ چیز مشاہد بھی ہے تو ہر مخاطب کو یہ بات سمجھنی چاہئے کہ تمام مخلوقات اللہ تعالیٰ کی مطیع و منقاد ہے اور ہر چیز کی بناوٹ اور ساخت وجود صانع پر دال ہے لیکن باوجود اس کے بعد لوگ توحید الٰہی اور وجود باری کے منکر ہیں اور یہ لوگ جو کچھ کرتے ہیں اللہ اس کو جانتا ہے یا یہ مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سب کے افعال اور دعا اور تنزیہ سے واقف ہے خواہ تم نہ سمجھو۔