Surat un Noor

Surah: 24

Verse: 58

سورة النور

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لِیَسۡتَاۡذِنۡکُمُ الَّذِیۡنَ مَلَکَتۡ اَیۡمَانُکُمۡ وَ الَّذِیۡنَ لَمۡ یَبۡلُغُوا الۡحُلُمَ مِنۡکُمۡ ثَلٰثَ مَرّٰتٍ ؕ مِنۡ قَبۡلِ صَلٰوۃِ الۡفَجۡرِ وَ حِیۡنَ تَضَعُوۡنَ ثِیَابَکُمۡ مِّنَ الظَّہِیۡرَۃِ وَ مِنۡۢ بَعۡدِ صَلٰوۃِ الۡعِشَآءِ ۟ ؕ ثَلٰثُ عَوۡرٰتٍ لَّکُمۡ ؕ لَیۡسَ عَلَیۡکُمۡ وَ لَا عَلَیۡہِمۡ جُنَاحٌۢ بَعۡدَہُنَّ ؕ طَوّٰفُوۡنَ عَلَیۡکُمۡ بَعۡضُکُمۡ عَلٰی بَعۡضٍ ؕ کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمُ الۡاٰیٰتِ ؕ وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌ حَکِیۡمٌ ﴿۵۸﴾

O you who have believed, let those whom your right hands possess and those who have not [yet] reached puberty among you ask permission of you [before entering] at three times: before the dawn prayer and when you put aside your clothing [for rest] at noon and after the night prayer. [These are] three times of privacy for you. There is no blame upon you nor upon them beyond these [periods], for they continually circulate among you - some of you, among others. Thus does Allah make clear to you the verses; and Allah is Knowing and Wise.

ایمان والو! تم سے تمہاری ملکیت کے غلاموں کو اور انہیں بھی جو تم میں سے بلوغت کو نہ پہنچے ہوں ( اپنے آنے کی ) تین وقتوں میں اجازت حاصل کرنی ضروری ہے ۔ نماز فجر سے پہلے اور ظہر کے وقت جب کہ تم اپنے کپڑے اتار رکھتے ہو اور عشا کی نماز کے بعد ، یہ تینوں وقت تمہاری ( خلوت ) اور پردہ کے ہیں ، ان وقتوں کے ماسوا نہ تو تم پر کوئی گناہ ہے اور نہ ان پر ، تم سب آپس میں ایک دوسرے کے پاس بکثرت آنے جانے والے ہو ( ہی ) ، اللہ اس طرح کھول کھول کر اپنے احکام تم سے بیان فرما رہا ہے ۔ اللہ تعالٰی پورے علم اور کامل حکمت والا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Times when Servants and Young Children should seek Permission to enter Allah commands the believers: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ امَنُوا لِيَسْتَأْذِنكُمُ الَّذِينَ مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ وَالَّذِينَ لَمْ يَبْلُغُوا الْحُلُمَ مِنكُمْ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ مِن قَبْلِ صَلَاةِ الْفَجْرِ ... O you who believe! Let your slaves and slave-girls, and those among you who have not come to the age of puberty ask your permission on three occasions: before the Fajr prayer, These Ayat include a discussion of how people who are closely related should seek permission to enter upon one another. What was mentioned earlier in the Surah had to do with how unrelated people should seek permission to enter upon one another. Allah commanded the believers to ensure that their servants and their children who have not yet reached puberty should seek permission at three times: the first is before the Fajr prayer, because people are asleep in their beds at that time. ... وَحِينَ تَضَعُونَ ثِيَابَكُم مِّنَ الظَّهِيرَةِ ... and while you put off your clothes during the afternoon, means, at the time of rest, because a man may be in a state of undress with his wife at that time. ... وَمِن بَعْدِ صَلَةِ الْعِشَاء ... and after the `Isha' prayer. because this is the time for sleep. Servants and children are commanded not to enter upon household members at these times, because it is feared that a man may be in an intimate situation with his wife and so on. Allah says: ... ثَلَثُ عَوْرَاتٍ لَّكُمْ لَيْسَ عَلَيْكُمْ وَلاَ عَلَيْهِمْ جُنَاحٌ بَعْدَهُنَّ ... (These) three (times) are of privacy for you; other than these times there is no sin on you or on them, If they enter at a time other than these, there is no sin on you if you let them enter, and no sin on them if they see something at a time other than these times. They have been given permission to enter suddenly, because they are those who go around in the house, i.e., to serve you etc., and as such they may be forgiven for things that others will not be forgiven. Although this Ayah is quite clear and has not been abrogated, people hardly follow it, and Abdullah bin Abbas denounced the people for that. Abu Dawud recorded that Ibn Abbas said: "Most of the people do not follow it, the Ayah that speaks about asking permission, but I tell my servant woman to seek permission to enter." Abu Dawud said: Ata' also narrated that Ibn Abbas commanded this. Ath-Thawri narrated that Musa bin Abi A'ishah said, "I asked Ash-Sha`bi (about the Ayah): لِيَسْتَأْذِنكُمُ الَّذِينَ مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ (Let your slaves and slave-girls ask your permission). He said, `It has not been abrogated.' I said: `But the people do not do that.' He said, `May Allah help them."' ... طَوَّافُونَ عَلَيْكُم بَعْضُكُمْ عَلَى بَعْضٍ ... to move about, attending to each other. ... كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمُ الاْيَاتِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ Thus Allah makes clear the Ayat to you. And Allah is All-Knowing, All-Wise. Then Allah says:

گھروں میں اجازت کے بغیر داخل نہ ہوں اس آیت میں قریب رشتے داروں کو بھی حکم ہو رہا ہے کہ وہ اجازت حاصل کر کے آیا کریں ۔ اس سے پہلے کہ اس سورت کی شروع کی آیت میں جو حکم تھا وہ اجنبیوں کے لئے تھا ۔ پس فرماتا ہے کہ تین وقتوں میں غلاموں کو نابالغ بچوں کو بھی اجازت مانگنی چاہے ۔ صبح کی نماز سے پہلے کیونکہ وہ وقت سونے کا ہوتا ہے ۔ اور دوپہر کو جب انسان دو گھڑی راحت حاصل کرنے کے لئے عموما اپنے گھر میں بالائی کپڑے اتار کر سوتا ہے اور عشاء کی نماز کے بعد کیونکہ وہ بھی بال بچوں کے ساتھ سونے کا وقت ہے ۔ پس تین وقتوں میں نہ جائیں انسان بےفکری سے اپنے گھر میں کس حالت میں ہوتا ہے ؟ اس لئے گھر کے لونڈی غلام اور چھوٹے بچے بھی بے اطلاع ان وقتوں میں چپ چاپ نہ گھس آئیں ۔ ہاں ان خاص وقتوں کے علاوہ انہیں آنے کی اجازت مانگنے کی ضرورت نہیں کیونکہ ان کا آنا جانا تو ضروری ہے بار بار کے آنے جانے والے ہیں ہر وقت کی اجازت طلبی ان کے لئے اور نیز تمہارے لئے بھی بڑی حرج کی چیز ہوگی ۔ ایک حدیث میں ہے کہ بلی نجس نہیں وہ تو تمہارے گھروں میں تمہارے آس پاس گھومنے پھرنے والی ہے ۔ حکم تو یہی ہے اور عمل اس پر بہت کم ہے ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں تین آیتوں پر عموما لوگوں نے عمل چھوڑ رکھا ہے ۔ ایک تو یہی آیت اور ایک سورہ نساء کی آیت ( وَاِذَا حَضَرَ الْقِسْمَةَ اُولُوا الْقُرْبٰي وَالْيَتٰمٰى وَالْمَسٰكِيْنُ فَارْزُقُوْھُمْ مِّنْهُ وَقُوْلُوْا لَھُمْ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا Ď۝ ) 4- النسآء:8 ) اور ایک سورہ حجرات کی آیت ( اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌ خَبِيْرٌ 13؀ ) 49- الحجرات:13 ) شیطان لوگوں پر چھا گیا اور انہیں ان آیتوں پر عمل کرنے سے غافل کر دیا گویا ان پر ایمان ہی نہیں میں نے تو اپنی اس لونڈی سے بھی کہہ رکھا ہے کہ ان تینوں وقتوں میں بے اجازت ہرگز نہ آئے ۔ پہلی آیت میں تو ان تین وقتوں میں لونڈی غلاموں اور نابالغ بچوں کو بھی اجازت لینے کا حکم ہے دوسری آیت میں ورثے کی تقسیم کے وقت جو قرابت دار اور یتیم مسکین آجائیں انہیں بنام الہٰی کچھ دے دینے اور ان سے نرمی سے بات کرنے کا حکم ہے اور تیسری آیت میں حسب ونسب پر فخر کرنے بلکہ قابل اکرام خوف الہٰی کے ہونے کا ذکر ہے ۔ حضرت شعبی رحمۃاللہ علیہ سے کسی نے پوچھا کیا یہ آیت منسوخ ہوگئی ہے ؟ آپ نے فرمایا ہرگز نہیں ۔ اس نے کہا پھر لوگوں نے اس پر عمل کیوں چھوڑ رکھا ہے ؟ فرمایا اللہ سے توفیق طلب کرنی چاہے ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں اس آیت پر عمل کے ترک کی وجہ مالداری اور فراخ دلی ہے ۔ پہلے تو لوگوں کے پاس اتنا بھی نہ تھا کہ اپنے دروازوں پر پردے لٹکا لیتے یا کشادہ گھر کئی کئی الگ الگ کمروں والے ہوتے ہیں تو بسا اوقات لونڈی غلام بےخبری میں چلے آتے اور میاں بیوی مشغول ہوتے تو آنے والے بھی شرما جاتے اور گھر والوں پر بھی شاق گزرتا اب جب کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو کشادگی دی ، کمرے جداگانہ بن گئے ، دروازے باقاعدہ لگ گئے ، دروازوں پر پردے پڑگئے تو محفوظ ہوگئے ۔ حکم الہٰی کی مصلحت پوری ہوگئی اس لئے اجازت کی پابندی اٹھ گئی اور لوگوں نے اس میں سستی اور غفلت شروع کر دی ۔ سدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں یہی تین وقت ایسے ہیں کہ انسان کو ذرا فرصت ہوتی ہے گھر میں ہوتا ہے اللہ جانے کس حالت میں ہو اس لئے لونڈی غلاموں کو بھی اجازت کا پابند کر دیا ہے کیونکہ اسی وقت میں عموما لوگ اپنی گھر والیوں سے ملتے ہیں تاکہ نہا دھو کر بہ آرام گھر سے نکلیں اور نمازوں میں شامل ہوں ۔ یہ بھی مروی ہے کہ ایک انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کچھ کھانا پکایا جائے لوگ بلا اجازت ان کے گھر میں جانے لگے ۔ حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ تو نہایت بری بات ہے کہ غلام بے اجازت گھر میں آجائے ممکن ہے میاں بیوی ایک ہی کپڑے میں ہوں ۔ پس یہ آیت اتری ۔ اس آیت کے منسوخ نہ ہونے پر اس آیت کے خاتمے کے الفاظ بھی دلالت کرتے ہیں کہ اسی طرح تین وقتوں میں جن کا بیان اوپر گزرا اجازت مانگنی ضروری ہے لیکن بعد بلوغت تو ہر وقت اطلاع کر کے ہی جانا چاہے ۔ جیسے کہ اور بڑے لوگ اجازت مانگ کر آتے ہیں خواہ اپنے ہوں یا پرائے ۔ جو بڑھیا عورتیں اس عمر کو پہنچ جائیں کہ نہ اب انہیں مرد کی خواہش رہے نہ نکاح کی توقع حیض بند ہوجائے عمر سے اتر جائیں تو ان پر پردے کی وہ پابندیاں نہیں جو اور عورتوں پر ہیں ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایسی عورتوں کو اجازت ہے کہ وہ برقعہ اور چادر اتار دیا کریں صرف دوپٹے میں اور کرتے پاجامے میں رہیں ۔ آپ کی قرأت بھی آیت ( اَنْ يَّضَعْنَ ثِيَابَهُنَّ غَيْرَ مُتَبَرِّجٰتٍۢ بِزِيْنَةٍ ۭوَاَنْ يَّسْتَعْفِفْنَ خَيْرٌ لَّهُنَّ ۭ وَاللّٰهُ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ 60؀ ) 24- النور:60 ) ہے ۔ مراد اس سے دوپٹے کے اوپر کی جادر ڈالنا ضروری نہیں ۔ لیکن مقصود اس سے بھی اظہار زینت نہ ہو ۔ حضرت عائشہ سے جب اس قسم کے سوالات عورتوں نے کئے تو آپ نے فرمایا تمہارے لئے بناؤ سنگھار بیشک حلال اور طیب ہے لیکن غیر مردوں کی آنکھیں ٹھنڈی کرنے کے لیے نہیں ۔ حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیوی صاحبہ جب بالکل بڑھیا پھوس ہوگئیں تو آپ نے اپنے غلام کے ہاتھوں اپنے سر کے بالوں میں مہندی لگوائی جب ان سے سوال کیا گیا تو فرمایا میں ان عمر رسیدہ عورتوں میں ہوں جنہیں خواہش نہیں رہی ۔ آخر میں فرمایا گو چادر کا نہ لینا ان بڑی عورتوں کے لئے جائز تو ہے مگر تاہم افضل یہی ہے کہ چادروں اور برقعوں میں ہی رہیں ۔ اللہ تعالیٰ سننے والا ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

581یعنی ان اوقات ثلاثہ کے علاوہ گھر کے مذکورہ خدمت گزاروں کو اس بات کی اجازت ہے کہ وہ اجازت طلب کئے بغیر گھر کے اندر آ جاسکتے ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨٧] اس آیت سے پھر وہی معاشرتی احکام شروع ہو رہے ہیں جو اس سورت کا اصل موضوع ہے۔ اس آیت میں عورات کا لفظ عورت کی جمع ہے۔ یہ لفظ ان الفاظ سے ہے جو کسی دوسری زبان میں منتقل ہو کر بالکل جداگانہ مفہوم اختیار کرلیتے ہیں۔ ہماری زبان میں تو عورت مرد کی تانیث یا مادہ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے جبکہ عربی زبان میں (جس زبان کا یہ لفظ ہے) عورت ہر اس چیز کو کہتے ہیں جس کو کھلا رکھنا یا اس کا کھلا رہنا انسان کے لئے باعث ننگ و عار ہو۔ اور انسان اسے چھپانا ضروری سمجھتا ہو (مفرادت امام راغب) اور مردوں کی مادہ کے لئے نساء کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ اسی سورة کی آیت نمبر ٣١ میں یہ دونوں الفاظ اکٹھے استعمال ہوئے ہیں۔ چناچہ ارشاد باری ہے۔ (اَوِ الطِّفْلِ الَّذِيْنَ لَمْ يَظْهَرُوْا عَلٰي عَوْرٰتِ النِّسَاۗءِ 31؀) 24 ۔ النور :31) && ترجمہ : یا پھر وہ (نابالغ) بچے جو ابھی عورتوں کی پوشیدہ باتوں سے واقف نہ ہوئے ہوں && علاوہ ازیں قرآن یہ لفظ ایسے غیر محفوظ مکان کے لئے بھی استعمال ہوا ہے جس کو محفوظ رکھنا ضروری ہو (٣٣: ١٣) اور اس مقام پر پوشیدہ اوقات یا پردہ کے اوقات کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ اس آیت میں بالخصوص گھر کی خلوت) Privacy ( کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے اور حکم یہ دیا جارہا ہے کہ دن اور رات یعنی ٢٤ گھنٹوں میں تین اوقات ایسے ہیں جن میں تمہارے غلاموں، تمہاری کنیزوں اور تمہارے نابالغ بچوں خواہ وہ لڑکے ہوں یا یا لڑکیاں، سب کا داخلہ بلا اجازت ممنوع ہے۔ اور وہ اوقات ہیں۔ طلوع فجر سے پہلے یعنی سحری کا وقت، دوسرے ظہر کے وقت نماز ظہر سے پہلے یا بعد، جب تم آرام کرنے کے لئے اپنے کپڑے اتارتے ہو۔ اور تیسرے جب عشاء کی نماز کے بعد تمہارے سونے کا وقت ہوتا ہے اور یہ تینوں اوقات ایسے ہیں کہ جن میں اکثر میاں بیوی کی ہم بستری کا امکان ہوتا ہے۔ لہذا تمہارے کسی نابالغ بچے یا تمہارے غلام کو بلا اجازت گھر میں داخل نہ ہونا چاہئے۔ [٨٨] ان تین اوقات کے علاوہ کسی بھی وقت تمہارے نوکر چاکر اور تمہارے نابالغ بچے تمہاری عورتوں کے ہاں یا تمہارے پرائیوٹ کمروں میں بلا اجازت آجاسکتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ گھر کے کام کاج کے سلسلہ میں انھیں ہر وقت گھر سے باہر اور باہر سے گھر میں داخلہ کی ضرورت پیش آتی رہتی ہے۔ اور ان پر ہر وقت اجازت کے ساتھ داخلہ کی پابندی ان کے لئے بھی اور تمہارے لئے بھی ایک مصیبت بن جائے گی۔ ہاں اگر یہ لوگ ان خلوت کے اوقات میں بلا اجازت اندر آئیں تو یہ ان کی غلطی ہے اور اگر ان اوقات کے علاوہ کسی دوسرے وقت تم کسی نامناسب حالت میں ہو اور وہ بلا اجازت اندر آجائیں تو تمہیں ان کو ڈانٹ ڈپٹ کرنے کا کوئی حق نہیں۔ کیونکہ اس صورت میں غلطی تمہاری اپنی ہوگی کہ کام کاج کے اوقات میں تم نے اپنے آپ کو ایسی نامناسب حالت میں رکھا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لِيَسْتَاْذِنْكُمُ الَّذِيْنَ مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ ۔۔ : یہاں سے پھر انھی احکام کی تکمیل کا سلسلہ شروع ہوتا ہے جو آیت (٣٤) تک بیان ہو رہے تھے۔ اس آیت میں ان لوگوں کا ذکر فرمایا جنھیں گھر میں داخلے کے لیے اجازت کی ضرورت نہیں اور یہ بھی کہ تین اوقات میں انھیں بھی اجازت لینا ضروری ہے۔ یہ دو قسم کے لوگ ہیں، آدمی کے لونڈی و غلام اور نابالغ بچے۔ انھیں داخلے کے لیے اجازت کی ضرورت نہیں، کیونکہ گھروں میں ان کا آنا جانا کثرت سے ہوتا ہے اور ان پر اجازت کی پابندی لگانے سے دشواری اور تنگی پیدا ہوتی ہے۔ ” طَوّٰفُوْنَ عَلَيْكُمْ “ میں یہی حکمت بیان ہوئی ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے احکام میں انسانوں کی آسانی کو مدنظر رکھا ہے اور اس کے ہر حکم میں حکمت ہے، خواہ ہمیں معلوم ہو سکے یا نہ ہو سکے۔ ” ثَلٰثَ مَرّٰتٍ “ سے مراد تین اوقات ہیں، یعنی ان تین اوقات میں اجازت مانگیں، جن کا ذکر آگے فرمایا ہے، یعنی نماز فجر سے پہلے، دوپہر کو آرام کے وقت جب عموماً آرام کے لیے کپڑے اتار دیے جاتے ہیں اور عشاء کی نماز کے بعد۔ یہ تینوں وقت پردے کے اوقات ہیں، ان اوقات میں آدمی ایسی حالت میں بھی ہوتا ہے کہ جس پر کسی کا بھی مطلع ہونا درست نہیں۔ ” ثَلٰثَ مَرّٰتٍ “ کی ایک تفسیر یہ ہے کہ غلام اور بچے بھی ان تین اوقات میں تین دفعہ اجازت مانگیں، اجازت مل جائے تو اندر آجائیں ورنہ واپس چلے جائیں۔ (بقاعی) اس تفسیر میں ” ثَلٰثَ مَرّٰتٍ “ کے لفظ سے محض گنتی بتانے کے بجائے ایک مستقل حکم معلوم ہوتا ہے، جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سب لوگوں کے لیے تمام اوقات میں اپنے گھر کے سوا دوسرے گھروں میں جانے کے متعلق بیان فرمایا کہ اجازت مانگنا تین دفعہ ہے، اگر مل جائے تو بہتر ورنہ واپس ہوجانا چاہیے۔ [ دیکھیے بخاري : ٦٢٤٥۔ أبوداوٗد : ٥١٨٠ ] اس آیت میں ان تین اوقات میں غلاموں اور بچوں کو بھی تین دفعہ اجازت مانگنے کا پابند فرمایا۔ لَيْسَ عَلَيْكُمْ وَلَا عَلَيْهِمْ جُنَاحٌۢ بَعْدَهُنَّ : یعنی ان تین اوقات کے سوا غلام اور بچے بلا اجازت آ جاسکتے ہیں۔ اس وقت اگر کوئی ایسی حالت میں ہے جو مناسب نہیں تو غلاموں اور بچوں کا قصور نہیں، خود اس کی نالائقی ہے۔ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللّٰهُ لَكُمُ الْاٰيٰتِ ۭ وَاللّٰهُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ : آیات کو کھول کر وہی بیان کرسکتا ہے جس کا علم کامل ہو اور حکمت بھی کامل ہو، کوئی دوسرا جتنی وضاحت بھی کرلے اپنے علم و حکمت کی نارسائی کی وجہ سے اس کی بات پوری ہی نہیں ہوگی، پوری طرح واضح ہونا تو دور کی بات ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary It has been described in the beginning of this Surah that the injunctions of Surah Nur mostly relate to prevention of obscenity and vulgarity. Under the same sequence some injunctions regarding social etiquette and mutual meetings are also enjoined. After that the injunctions about Hijab for women are prescribed. The injunction for relatives and mahrams for seeking permission at specific timings Earlier in this Surah the social etiquette and manners for mutual meetings were described in verses 27, 28 and 29 under the heading &injunctions on seeking permission&, where it was enjoined that if you go to visit someone, do not enter the house without taking permission. Irrespective of the situation whether it is a female section of the house or the male section, and whether the visitor is a man or a woman, it has been made obligatory on every one to seek permission before entering the house. However, these injunctions relate to those who come in the house as visitors. But in the present verses a different type of isti&dhan is enjoined. Here those persons are instructed to seek permission who live together in the same house and keep roaming in the rooms freely. In this category those men are also included with whom the hijab of women is not required (the mahrams). They, too, are advised to make some sort of sound, either by cleaning the throat or by thumping of steps, in order to make their presence felt. This type of isti&dhan is preferable and not obligatory, but to give it up is Makruh Tanzihi. Tafsir Mazhari has remarked: فمن اراد الدخول فی بیت نفسہ و فیہ محرماتہ یکرہ لہ الدخول فیہ من غیر استیذان تنزیھا لاحتمال رؤیۃ واحدۃ منھن عریانۃ وھو احتمال ضعیف و مقتضاہ التنرہ (مظھری) The one who intends to enter his own house, while it is occupied by his mahram ladies, it is not desirable (makruh tanzihi) for him to enter it without seeking permission, because of the possibility that one of those ladies is without clothes. However, since this possibility is a remote one, it requires precaution only (and not Prohibition). This injunction relates to the time before entering the house, but once men-folk have entered the house, all the inmates live together and being members of the same family keep meeting each other within the house. For the family members living together there is another injunction of seeking permission at three specific times, which are the times of privacy. These three times are before the Fajr prayers, the resting time in the afternoon and in the night after ` Isha& prayers. At these times all the mahrams and relatives, even the young children and slave girls having sense, are prohibited to enter the private places without taking permission. It is to ensure that none should go in the private rooms without first seeking the permission. At these times one wants to be on one&s own and sometimes takes off the extra clothes, while at times one is in a compromising position with his wife. During any of these situations one would feel very embarrassed and upset if seen by even a very young but sensible child or a woman of the household. In the least it will cause him disturbance in his rest. Hence, there is a need to take permission at these three specific times before entering the private chambers. After this injunction it is said لَيْسَ عَلَيْكُمْ وَلَا عَلَيْهِمْ جُنَاحٌ بَعْدَهُنَّ (58) that is besides these times there is no harm if you go to each other without any permission, because during all other times people are busy doing their normal duties and are properly attired in their usual clothing. These are also not the normal times for intimacy with the wife. Here the question arises that enforcement of injunction on adult man and woman is normal, but why the young children are also commanded to comply with this injunction, which is not the normal practice. The answer to this confusion is that in actual fact it is the adult men and women who are charged with this duty to explain to the young children not to go to private chambers at these times without taking permission. It is in the same manner as a hadith instructs to teach the prayers to children when they attain the age of seven years and persuade them to offer it. And when they attain the age of ten years they be bound down to offer prayers regularly, and if they default then they should be beaten to be regular in their prayers. Similarly, the injunction of isti&dhan in the above verse is actually for the adult men and women. In the sentence under discussion the word Junah is used to say that apart from these three times there is no harm if the inmates go in the private chambers without permission. Generally the word Junah is used for sin, but sometimes it is also used for harm or obstacle. Here in this verse it is used for the latter meaning, hence, any doubt of sinning on the part of children is also removed. (Bayan ul-Qur’ an) Ruling The phrase الَّذِينَ مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ (the slaves owned by you) used in verse (58) covers the meaning of both the slaves and the slave girls. Among them the adult slaves fall under the category of non-Mahrams under the Islamic law. As has been explained earlier, the mistress owner woman of an adult slave is obligated to be in hijab before him. Therefore, the phrase is purported to mean here the slave girls and minor slaves who roam about in the house freely. Ruling The scholars and jurists have different viewpoints on the question whether this type of isti&dhan is obligatory or merely commendable and whether this injunction is still valid or is abrogated. Majority of jurists have ruled that this verse is firm and thus not abrogated, and the injunction is obligatory both for men and women (Qurtubi). But it is obvious that the reason and ground for the injunction to be obligatory is that which is given above, that is, one wants to be on his own at these three times and likes privacy, and sometimes gets busy with his wife. However, if people could get into the habit of keeping their concealable parts covered even at these three times, and be careful to copulate with wife only at times when there is no possibility of anyone coming in, as is the norm these days, then it is not obligatory to restrain the relatives and children from entering without isti&dhan. In this situation it is no more obligatory for the relatives to follow it. But there is no doubt that it is a desirable and commendable act, though it seems that people have given it up for a long time. According to one narration Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) &, has used very strong words for ignoring it, and according to another narration he has put forward excuses for those who do not follow it. The first narration is reported by Ibn Kathir on authority of Ibn Abi Hatim that Sayyidna ` Abdullah Ibn ` Abbas (رض) has said that there are three verses which people have stopped following. One of them is this very verse of istidhan يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِيَسْتَأْذِنكُمُ الَّذِينَ مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ (58) in which relatives and young children are instructed to seek permission. The second verse is وَإِذَا حَضَرَ‌ الْقِسْمَةَ أُولُو الْقُرْ‌بَىٰ (4:8) in which people are advised to hand over a part of the inheritance to those relatives also who are present at the time of division of patrimony but have no claim on it, in order to console them. The third verse is إِنَّ أَكْرَ‌مَكُمْ عِندَ اللَّـهِ أَتْقَاكُمْ in which it is declared that the noblest among you in the sight of Allah is the most god-fearing of you. But these days such persons are regarded honorable and respectable who possess plenty of wealth and palatial houses. According to some other narration Ibn ` Abbas (رض) has also said that in respect of these three verses the Shaitan has overpowered the people. Then he said |"I have restrained even my slave girl not to come to me without permission at these three times|". The second narration is also reported on authority of Ibn Abi Hatim by Sayyidna ` Ikrimah (رض) that two persons enquired from Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) عنہما about isti&dhan enjoined (by this verse) upon near relatives and commented that people have stopped acting on this. Ibn ` Abbas (رض) replied ان اللہ ستیریحبّ السّتر that Allah keeps cover on many things, and He likes the same for others. The fact of the matter is that at the time of revelation of this verse the society was very simple. People did not use curtains at the door nor did they have large beds with curtains. There used to be occasions when a child or servant would come in unannounced at a time the person was in a compromising position with his wife. It was to prevent such happenings that Allah Ta’ ala sent down this injunction to take permission at these three times. But now people use curtains at the door and large beds having curtains, which is considered enough for the purpose. Now there is no need for isti&dhan. (Having reproduced this narration Ibn Kathir has said ھٰذا اسناد صحیح الی ابن عباس (رض) (that is, the chain of its narrators is &Sahih& i.e. authentic). In the light of this narration ascribed to Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) one thing is quite clear that when there is no apprehension of any one seeing the other in an uncovered position or involved with his wife, in that case some concession is allowed. But Qur&an teaches for a pure society so that no one interferes in anyone&s freedom and everybody lives in peace and comfort. Those who do not make their family members follow the practice of seeking permission they themselves face inconvenience and curb their natural instincts and desires.

خلاصہ تفسیر اے ایمان والو (تمہارے پاس آنے کے لئے) تمہاری مملوکوں کو اور جو تم میں حد بلوغ کو نہیں پہنچے ان کو تین وقتوں میں اجازت لینا چاہئے (ایک تو) نماز صبح سے پہلے اور (دوسرے) جب دوپہر کو (سونے لیٹنے کیلئے) اپنے (٥ ائد) کپڑے اتار دیا کرتے ہو اور (تیسرے) نماز عشاء کے بعد یہ تین وقت تمہارے پردے کے ہیں (یعنی یہ اقوات چونکہ عام عادت کے مطابق تخلیہ اور آرام کے ہیں، جس میں آدمی بےتکلفی سے رہنا چاہتا ہے اور تنہائی میں کسی قوت اعضائے مستورہ بھی کھل جاتے ہیں، یا کسی ضرورت سے کھولے جاتے ہیں اس لئے اپنے مملوک غلاموں لونڈیوں کو اور اپنے نابالغ بچوں کو سمجھاو کہ بےاطلاع اور بغیر اجازت لئے ہوئے ان اوقات میں تمہارے پاس نہ آیا کریں اور) ان اوقات کے علاوہ نہ (تو بلا اجازت آنے دینے اور منع نہ کرنے میں) تم پر کوئی الزام ہے اور نہ (بلا اجازت چلے آنے میں) ان پر کچھ الزام ہے (کیونکہ) وہ بکثرت تمہارے پاس آتے جاتے رہتے ہیں کوئی کسی کے پاس اور کوئی کسی کے پاس (پس ہر وقت اجازت لینے میں تکلیف ہے اور چونکہ یہ وقت پردے کے نہیں ہیں اس لئے ان میں اپنے اعضاء مستورہ کو چھپائے رکھنا کچھ مشکل نہیں) اسی طرح اللہ تعالیٰ تم سے (اپنے احکام صاف صاف بیان کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ جاننے والا حکمت والا ہے اور جس وقت تم میں کے (یعنی احرار میں کے) وہ لڑکے (جن کا اوپر حکم آیا ہے) حد بلوغ کو پہنچیں (یعنی بالغ یا قریب بہ بلوغ ہوجاویں) تو ان کو بھی اسی طرح اجازت لینا چاہئے جیسا ان سے اگلے (یعنی ان سے بڑی عمر کے) لوگ اجازت لیتے ہیں اسی طرح اللہ تعالیٰ تم سے اپنے احکام صاف صاف بیان کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ جاننے والا حکمت والا ہے اور (ایک بات یہ جاننا چاہئے کہ پردہ کے احکام میں شدت فتنہ کے خوف پر مبنی ہے جہاں فتنہ کا عادة احتمال نہ ہو مثلاً جو) بڑی بوڑھی عورتیں جن کو (کسی کے) نکاح (میں آنے) کی امید نہ ہی ہو (یعنی وہ محل رغبت نہیں رہیں یہ تفسیر ہے بڑی بوڑھی ہوے کی) ان کو اس بات میں کوئی گناہ نہیں کہ وہ اپنے (زائد) کپڑے (جس سے چہرہ وغیرہ چھپا رہتا ہے غیر محرم کے روبرو بھی) اتار رکھیں بشرطیکہ زینت (کے مواقع) کا اظہار نہ کریں (جن کا ظاہر کرنا غیر محرم کے سامنے بالکل ناجائز ہے پس مراد اس سے چہرہ ہتھیلیاں اور بقول بعض دونوں قدم بھی، بخلاف جو ان عورت کے کہ بوجہ احتمال فتنہ اس کے چہرہ وغیرہ کا بھیپردہ ضروری ہے) اور (اگرچہ بڑی بوڑھی عورتوں کے لئے غیر محرموں کے سامنے چہرہ کھولنے کی اجاتز ہے لیکن) اس سے بھیا تیاط رکھیں تو ان کے لئے اور زیادہ بہتر ہے (کیونکہ اول تو ” ہر گندہ پرے راگندہ خورے “ مثل مشہور ہے دوسرے بالکل ہی بےپردگی کا سدباب مقصود ہے) معارف ومسائل شروع سورت میں یہ بیان ہوچکا ہے کہ سورة نور کے بیشتر احکام بےحیائی اور فواحش کے انسداد کے لئے آئے ہیں اور انہیں کی مناسبت سے کچھ احکام اب معاشرت اور ملاقات باہمی کے بھی بیان ہوئے ہیں۔ پھر عورتوں کے پردے کے احکام بیان کئے گئے۔ اوقات میں استیذان کا حکم :۔ آداب معاشرت اور ملاقات باہمی کے آداب اس سے پہلے اسی سورت کی آیت ٧٢، ٨٢، ٩٢ میں احکام استیان کے عنوان سے بیان ہوئے ہیں کہ کسی سے س ملاقات کو جاؤ تو بغیر اجازت لئے اس کے گھر میں داخل نہ ہو۔ گھر زنانہ ہو یا مردانہ آنے والا مرد ہو یا عورت سب کے لئے کسی کے گھر میں جانے سے پہلے اجازت کو واجب قرار دیا گیا ہے مگر یہ احکام استیذان اجانب کے لئے تھے جو باہر سے ملاقات کے لئے آئے ہوں۔ آیات مذکورہ میں ایک دوسرے استیذان کے احکام کا بیان ہے جن کا تعلق ان اقارب اور محارم سے جو عموماً ایک گھر میں رہتے اور ہر وقت آتے جاتے رہتے ہیں اور ان سے عورتوں کا پردہ بھی نہیں ایسے لوگوں کے لئے بھی اگرچہ گھر میں داخل ہونے کے وقت اس کا حکم ہے کہ اطلاع کر کے یا کم از کم قدموں کی آہٹ کو ذرا تیز کر کے یا کھاسن کھنکار کر گھر میں داخل ہوں اور یہ استیذان ایسے اقارب کے لئے واجب نہیں مستحب ہے جس کو ترک کرنا مکروہ تنزیہی ہے تفسیر مظہری میں ہے ثمن ارادالخول فی بیت نفسہ وفیہ محرماتہ یکوہ لہ الدخول فیہ من غیر استیذان تنزیھا لاحتمال رویت واحدة منھن عریانتہ وھواحمتال ضعیف و مقتضاہ التنزہ (مظہری) یہ حکم تو گھر میں داخل ہونے سے پہلے کا تھا لیکن گھر میں داخل ہو کر پھر یہ سب ایک جگہ ایک دوسرے کے سامن رہتے ہیں اور ایک دوسرے کے پاس آتے جاتے رہتے ہیں ان کے لئے تین خاص اوقات میں جو انسان کے خلوت میں رہنے کے اوقات ہیں ایک اور استیذان کا حکم ان آیات میں دیا گیا ہے وہ تین اوقات صبح کی نماز سے پہلے اور دوپہر کو آرام کرنے کے وقت اور عشاء کی نماز کے بعد کے اقوات ہیں۔ ان میں محارم اور اقارب کو یہاں تک کہ سمجھدار نابالغ بچوں اور مملوکہ لونڈیوں کو بھی اس استیذان کا پابند کیا گیا ہے کہ ان تین اوقات خلوت میں ان میں سے بھی کوئی کسی کی خلوت گاہ میں بغیر اجازت کے نہ جائے کیونکہ ایسے اوقات میں ہر انسان آزاد بےتکلف رہنا چاہتا ہے زائد کپڑے بھی اتار دیتا ہے اور کبھی اپنی بیوی کے ساتھ بےتکلف اختلاط میں مشغول ہوتا ہے ان اوقات میں کوئی ہوشیار بچہ یا گھر کی کوئی عورت یا اپنی الاد میں سے کوئی بغیر اجازت کے اندر آجائے تو بسا اوقات وہ ایسی حالت میں پائیگا جس کے ظاہر ہونے سے انسان شرماتا ہے اس کو سخت تکلیف پہنچے گی اور کم از کم اس کی بےتکلفی اور آرام میں خلل پڑنا تو ظاہر ہی ہے۔ اس لئے آیات مذکورہ میں ان کے لئے خصوصی استیذان کے احکام آئے ہیں کہ ان تین وقتوں میں کوئی کسی کے پاس غبیر اجازت کے نہ جائے۔ ان احکام کے بعد پھر یہ بھی فرمایا کہ لیس علیکم ولاعلیھم جناح بعدھن، یعنی ان وقتوں کے علاوہ کوئی مضائقہ نہیں کہ ایک دوسرے کے پاس بلا اجازت جایا کریں کیونکہ وہ اوقات عموماً ہر شخص کے کام کاج میں مشغول ہنے اور اعضائی مستورہ کر چھپائے رہنے کے ہیں جن میں عادة آدمی بیوی کیساتھ اختلاط بھی نہیں کرتا۔ یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس آیت میں بالغ مرد و عورت کو استیذان کا حکم دینا تو ظاہر ہے مگر نابالغ بچے جو شرعاً کسی حکم کے مکلف نہیں انکو بھی اس حکم کا پابند کرنا بظاہر اصول کے خلاف ہے۔ جواب یہ ہے کہ اس کے مخاطب دراصل بالغ مرد و عورت ہیں کہ وہ چھوٹے بچوں کو بھی سمجھا دیں کہ ایسے وقت میں بغیر پوچھے اندر نہ آیا کرو۔ جیسے حدیث میں ہے کہ بچوں کو جب وہ سات سال کے ہوجائیں تو نماز سکھاؤ اور پڑھنے کا حکم دو اور دس سال کی عمر کے بعد ان کو سختی سے نماز کا پابند کرو نہ مانیں تو مار کر نماز پڑھاؤ۔ اسی طرح اس استیذان کا اصل حکم بالغ مرد و عورت کو ہے اور مذکورہ جملے میں جو یہ الفاظ ہیں کہ ان وقتوں کے علاوہ دوسرے اوقات میں نہ تم پر جناح ہے کہ ان کو بلا اجازت آنے دو اور نہ ان پر کوئی جناح ہے کہ وہ بلا اجازت آجائیں اس میں اگرچہ لفظ جناح آیا ہے جو عموماً گناہ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے مگر کبھی مطلاقً حرج اور مضائقہ کے معنے میں بھی آتا ہے یہاں لا جناح کے معنی یہی ہیں کہ کوئی مضائقہ اور تنگی نہیں ہے اس سے بچوں کے مکلف اور گناہگار ہونے کا شبہ ختم ہوگیا ہے۔ (بیان القرآن) مسئلہ :۔ آیت مذکورہ میں جو الذین ملکت ایمانکم کا لفظ آیا ہے جس کے معنے مملوک غلام اور لونڈی دونوں پر حاوی ہیں۔ ان میں مملوک غلام جو بالغ ہو وہ تو شرعاً اجنبی غیر محرم کے حکم میں ہے۔ اس کی آقا اور مالک عورت کو بھی اس سے پردہ کرنا واجب ہے جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے اس لئے یہاں اس لفظ سے مراد لونڈیاں یا مملوک غلام جو بالغ نہ ہو وہ ہے جو ہر وقت گھر میں آنے جانے کے عادی ہیں۔ مسئلہ :۔ اس میں علماء و فقہاء کا اختلاف ہے کہ یہ خاص استیذان اقارب کے لئے واجب ہے یا استحبابی حکم ہے اور یہ کہ یہ حکم اب بھی جاری ہے یا منسوخ ہوگیا۔ جمہور فقہاء کے نزدیک یہ آیت محکم غیر منسوخ ہے اور حکم وجوب کے لئے ہے مردوں کے واسطے بھی عورتوں کے واسطے بھی (قرطبی) لیکن یہ ظاہر ہے کہ اس کے وجوب کی علت اور وجہ وہ ہے جو اوپر بیان ہوچکی ہے کہ ان تینا وقات میں عام آدمی خلوت چاہتا ہے اور اس میں بسا اوقات اپنی بیوی کے ساتھ بھی مشغول ہوتا ہے بعض اوقات اعضائی مستورہ بھی کھلے ہوتے ہیں۔ اگر کچھ لوگ اس کی احتیاط کرلیں کہ ان اوقات میں بھی اعضائی مستورہ کو چھپانے کی عادت ڈالیں اور بیوی سے اختلاط بھی بجز اس صورت کے نہ کریں کہ کسی کے آنے کا احتمال نہ رہے جیسے عموماً یہی عادت بن گئی ہے تو اس صورت میں ان پر یہ بھی واجب نہیں رہتا کہ اپنے اقارب اور بچوں کو استیذان کا پابند کریں اور نہ اقارب پر واجب رہتا ہے۔ البتہ اس کا مستحسن اور مستحب ہونا ہر حال میں ہے۔ مگر عام طور پر عمل اس پر زمانہ دراز سے متروک سا ہوگیا ہے۔ اسی لئے حضرت ابن عباس نے ایک روایت میں تو اس پر بڑی شدت کے الفاظ استعمال فرمائے اور ایک روایت میں عمل نہ کرنے والے لوگوں کا کچھ عذر بیان کردیا۔ پہلیر وایت ابن کثیر نے بسند ابن ابی حاتم یہ نقل کی ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس نے فرمایا کہ تین آیتیں ایسی ہیں جن پر لوگوں نے عمل کو چھوڑ ہی دیا ہے۔ ایک یہی آیت استیذان یا یھا الذین امنوا لیستاذنکم الذین ملکت ایمانکم جس میں اقابر اور نابالغ بچوں کو بھی استیذان کی تعلیم ہے دوسری آیت وذا حضرالقسمة الوالقربی ہے جس میں تقسیم میراث کے قوت وارثوں کو اس کی ہدایت کی گئی ہے کہ اگر مال وراثت تقسمی کرنے کے وقت کچھ ایسے رشتہ دار بھی موجود ہوجاویں جن کا ضابطہ میراث سے کوئی حصہ نہیں ہے تو ان کو بھی کچھ دے دیا کرو کہ ان کی دل شکنی نہ ہو۔ تیسری آیت ان اکرمکم عنداللہ اتقاکم ہے جس میں بتلایا ہے کہ سب سے زیادہ معزز و مکرم وہ آدمی ہے جو سب سے زیداہ متقی ہو اور آج کل لوگ معزز مکرم اس کو سمجھتے ہیں جس کے پاس پیسہ بہت ہو جس کا مکان کوٹھی بنگلہ شاندار ہو۔ بعض روایات کے الفاظ اسمیں یہ بھی ہیں کہ ابن عباس نے فرمایا کہ تین آیتوں کے معاملہ میں لوگوں پر شیطان غالب آگیا ہے اور پھر فرمایا کہ میں نے تو اپنی لونڈی کو بھی اس کا پابند کر رکھا ہے کہ ان تین وقتوں میں بغیر اجازت میرے پاس نہ آیا کرے۔ دوسری روایت ابن ابی حاتم ہی کے حوالہ سے حضرت عکرمہ سے یہ منقول ہے کہ دو شخصوں نے حضرت ابن عباس سے اس استیذان اقارب کے متعلق سوال کیا کہ اس پر لوگ عمل نہیں کرتے تو ابن عباس نے فرمایا ان اللہ ستیریجب الستر یعنی اللہ بہت ستر رکھنے والا ہے اور ستر کی حفاظت کو پسند فرماتا ہے بات یہ ہے کہ ان آیات کے نزول کے وقت معاشرت بہت سادہ تھی نہ لوگوں کے دروازوں پر پردے تھے نہ گھر کے اندر پردہ دار مسہریاں تھیں اس وقت کبھی ایسا ہوتا تھا کہ آدمی کو نوکریا بیٹا بیٹی اچانک آجاتے اور یہ آدمی اپنی بیوی کے ساتھ مشغول ہوتا، اس لئے اللہ جل شانہ نے ان آیات میں تین وقتوں میں استیذان کی پابندی لگا دی تھی اور اب جن کہ دروازوں پر پردے اور گھر میں پردہ دار مسریاں ہونے لگیں اس لئے لوگوں نے یوں سمجھ لیا کہ بس یہ پردہ کافی ہے اب استیذان کی ضرورت نہیں (ابن کثیر نے یہ روایت نقل کر کے فرمایا ہے ھذ اسناد صحیح الی ابن عباس) بہرحال حضرت ابن عباس کی اس دوسری روایت سے اتنی بات نکلتی ہے کہ جب اس طرح کے واقعات کا ندیشہ نہ ہو کہ آدمی بیوی کے ساتھ مشغول یا اعضائی مستورہ کھولے ہوئے ہو اور کسی کے آنے کا احتمال ہو ایسے حالات میں کچھ مساہلت ہے۔ لیکن قرآن نے پاکیزہ معاشرت کی تعلیم دی ہے : کہ کوئی کسی کی آزادی میں خلل انداز نہ ہو سب آرام و راحت سے رہیں جو لوگ اس طرح کے استیذان کا گھر والوں کو پابند نہیں بناتے وہ خود تکلیف میں مبتلا رہتے ہیں، اپنی ضرورت و خواہش کا کام کرنے میں تنگی برتتے ہیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لِـيَسْتَاْذِنْكُمُ الَّذِيْنَ مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ وَالَّذِيْنَ لَمْ يَبْلُغُوا الْحُلُمَ مِنْكُمْ ثَلٰثَ مَرّٰتٍ۝ ٠ۭ مِنْ قَبْلِ صَلٰوۃِ الْفَجْرِ وَحِيْنَ تَضَعُوْنَ ثِيَابَكُمْ مِّنَ الظَّہِيْرَۃِ وَمِنْۢ بَعْدِ صَلٰوۃِ الْعِشَاۗءِ۝ ٠ ۣۭ ثَلٰثُ عَوْرٰتٍ لَّكُمْ۝ ٠ۭ لَيْسَ عَلَيْكُمْ وَلَا عَلَيْہِمْ جُنَاحٌۢ بَعْدَہُنَّ۝ ٠ۭ طَوّٰفُوْنَ عَلَيْكُمْ بَعْضُكُمْ عَلٰي بَعْضٍ۝ ٠ۭ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللہُ لَكُمُ الْاٰيٰتِ۝ ٠ۭ وَاللہُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ۝ ٥٨ استئذان : طلب الإذن، قال تعالی: إِنَّما يَسْتَأْذِنُكَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ [ التوبة/ 45] ، فَإِذَا اسْتَأْذَنُوكَ [ النور/ 62] . الاستئذن کے معنی اجازت طلب کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ { إِنَّمَا يَسْتَأْذِنُكَ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِاللهِ } ( سورة التوبة 45) اجازت دہی لوگ مانگتے ہیں جو خدا پر اور پچھلے دن پر ایمان نہیں رکھتے ۔ { فَإِذَا اسْتَأْذَنُوكَ } ( سورة النور 62) سو جب یہ لوگ تم سے کسی کام کے لئے ) اجازت مانگا کریں ۔ بلغ البُلُوغ والبَلَاغ : الانتهاء إلى أقصی المقصد والمنتهى، مکانا کان أو زمانا، أو أمرا من الأمور المقدّرة، وربما يعبّر به عن المشارفة عليه وإن لم ينته إليه، فمن الانتهاء : بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ الأحقاف/ 15] ( ب ل غ ) البلوغ والبلاغ ( ن ) کے معنی مقصد اور متبٰی کے آخری حد تک پہنچے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ مقصد کوئی مقام ہو یا زمانہ یا اندازہ کئے ہوئے امور میں سے کوئی امر ہو ۔ مگر کبھی محض قریب تک پہنچ جانے پر بھی بولا جاتا ہے گو انتہا تک نہ بھی پہنچا ہو۔ چناچہ انتہاتک پہنچے کے معنی میں فرمایا : بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ الأحقاف/ 15] یہاں تک کہ جب خوب جو ان ہوتا ہے اور چالس برس کو پہنچ جاتا ہے ۔ حلم الحِلْم : ضبط النّفس والطبع عن هيجان الغضب، وجمعه أَحْلَام، قال اللہ تعالی: أَمْ تَأْمُرُهُمْ أَحْلامُهُمْ بِهذا [ الطور/ 32] ، قيل معناه : عقولهم «5» ، ولیس الحلم في الحقیقة هو العقل، لکن فسّروه بذلک لکونه من مسبّبات العقل «6» ، وقد حَلُمَ «7» وحَلَّمَهُ العقل وتَحَلَّمَ ، وأَحْلَمَتِ المرأة : ولدت أولادا حلماء «8» ، قال اللہ تعالی: إِنَّ إِبْراهِيمَ لَحَلِيمٌ أَوَّاهٌ مُنِيبٌ [هود/ 75] ، وقوله تعالی: فَبَشَّرْناهُ بِغُلامٍ حَلِيمٍ [ الصافات/ 101] ، أي : وجدت فيه قوّة الحلم، وقوله عزّ وجل : وَإِذا بَلَغَ الْأَطْفالُ مِنْكُمُ الْحُلُمَ [ النور/ 59] ، أي : زمان البلوغ، وسمي الحلم لکون صاحبه جدیرا بالحلم، ويقال : حَلَمَ «1» في نومه يَحْلُمُ حُلْماً وحُلَماً ، وقیل : حُلُماً نحو : ربع، وتَحَلَّمَ واحتلم، وحَلَمْتُ به في نومي، أي : رأيته في المنام، قال اللہ تعالی: قالُوا أَضْغاثُ أَحْلامٍ [يوسف/ 54] ، والحَلَمَة : القراد الکبير، قيل : سمیت بذلک لتصوّرها بصورة ذي حلم، لکثرة هدوئها، فأمّا حَلَمَة الثدي فتشبيها بالحلمة من القراد في الهيئة، بدلالة تسمیتها بالقراد في قول الشاعر : 125- كأنّ قرادي زوره طبعتهما ... بطین من الجولان کتّاب أعجمي «2» وحَلِمَ الجلد : وقعت فيه الحلمة، وحَلَّمْتُ البعیر : نزعت عنه الحلمة، ثم يقال : حَلَّمْتُ فلانا : إذا داریته ليسكن وتتمکّن منه تمكّنک من البعیر إذا سكّنته بنزع القراد عنه «3» . ( ح ل م ) الحلم کے معنی ہیں نفس وطبیعت پر ایسا ضبط رکھنا کہ غیظ وغضب کے موقع پر بھڑ کنہ اٹھے اس کی جمع احلام ہے اور آیت کریمہ : ۔ کیا عقلیں ان کو ۔۔۔ سکھاتی ہیں ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ احلام سے عقیں مراد ہیں اصل میں ھلم کے معنی متانت کے ہیں مگر چونکہ متانت بھی عقل کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے اس لئے حلم کا لفظ بول کر عقل مراد لے لیتے ہیں جیسا کہ مسبب بول کر سبب مراد لے لیا جاتا ہے حلم بردبار ہونا ۔ عقل نے اسے برد بار رہنا دیا ۔ عورت کا حلیم بچے جننا ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ إِبْراهِيمَ لَحَلِيمٌ أَوَّاهٌ مُنِيبٌ [هود/ 75] بیشک ابراہیم بڑے تحمل والے نرم دل اور رجوع کرنے والے تھے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَبَشَّرْناهُ بِغُلامٍ حَلِيمٍ [ الصافات/ 101] تو ہم نے ان کو ایک نرم دل لڑکے کی خوشخبری دی ۔ کے معنی یہ ہیں کہ اس غلام ہیں قوت برداشت ۔۔۔۔۔۔ تھی اور آیت کریمہ : ۔ وَإِذا بَلَغَ الْأَطْفالُ مِنْكُمُ الْحُلُمَ [ النور/ 59] اور جب تمہارے لڑکے بالغ ہوجائیں & میں حلم کے معنی سن بلوغت کے ہیں اور سن بلوغت کو حلم اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس عمر میں طور عقل وتمیز آجاتی ہے کہا جاتا ہے ۔ حلم ( ن ) فی نومہ خواب دیکھنا مصدر حلم اور حلم مثل ربع بھی کہا گیا ہے ۔ اور ۔ یہی معنی تحلم واحتلم کے ہیں ۔ حلمت بہ فی نومی ۔ میں نے اسے خواب میں دیکھا ۔ قرآن میں ہے : ۔ قالُوا أَضْغاثُ أَحْلامٍ [يوسف/ 54] انہوں نے کہا یہ تو پریشان سے خواب ہیں ۔ الحلمۃ بڑی چیچڑی ۔ کیونکہ وہ ایک جگہ پر جمے رہنے کی وجہ سے حلیم نظر آتی ہے اور سر پستان کو حلمۃ الثدی کہنا محض ہیت میں چیچڑی کے مشابہ ہونے کی وجہ سے ہے ۔ اس مجاز کی دلیل یہ ہے کہ سر پستان کو قراد بھی کہہ دیتے ہیں ۔ جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ع ( طویل ) اس کے سینے پر پستانوں کے نشانات اسطرح خوشمنا نظر اتے ہیں کہ گویا کسی کاتب لے مٹی کی مہریں لگادیں ہیں چمڑے کو کیڑا الگ جانا ۔ حلمت البعیر میں نے اونٹ سے خیچڑ نکالے حلمت فلانا کسی پر قدرت حاصل کے لئے اس کے ساتھ مدارات سے پیش آنا تاکہ وہ مطمئن رہے جیسا کہ اونٹ سے چیچڑ دور کرنے سے اسے سکون اور راحت محسوس ہوتا ہے اور انسان اس پر پوری طرح قدرت پالیتا ہے فجر الْفَجْرُ : شقّ الشیء شقّا واسعا كَفَجَرَ الإنسان السّكرَيقال : فَجَرْتُهُ فَانْفَجَرَ وفَجَّرْتُهُ فَتَفَجَّرَ. قال تعالی: وَفَجَّرْنَا الْأَرْضَ عُيُوناً [ القمر/ 12] ، وَفَجَّرْنا خِلالَهُما نَهَراً [ الكهف/ 33] ، فَتُفَجِّرَ الْأَنْهارَ [ الإسراء/ 91] ، تَفْجُرَ لَنا مِنَ الْأَرْضِ يَنْبُوعاً [ الإسراء/ 90] ، وقرئ تفجر . وقال : فَانْفَجَرَتْ مِنْهُ اثْنَتا عَشْرَةَ عَيْناً [ البقرة/ 60] ، ومنه قيل للصّبح : فَجْرٌ ، لکونه فجر اللیل . قال تعالی: وَالْفَجْرِ وَلَيالٍ عَشْرٍ [ الفجر/ 1- 2] ، إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كانَ مَشْهُوداً [ الإسراء/ 78] ، وقیل : الفَجْرُ فجران : الکاذب، وهو كذَنَبِ السَّرْحان، والصّادق، وبه يتعلّق حکم الصّوم والصّلاة، قال : حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيامَ إِلَى اللَّيْلِ [ البقرة/ 187] . ( ف ج ر ) الفجر کے معنی کسی چیز کو وسیع طور پر پھا ڑ نے اور شق کردینے کے ہیں جیسے محاورہ ہے فجر الانسان السکری اس نے بند میں وسیع شکاف ڈال دیا فجرتہ فانفجرتہ فتفجر شدت کے ساتھ پانی کو پھاڑ کر بہایا قرآن میں ہے : ۔ وَفَجَّرْنَا الْأَرْضَ عُيُوناً [ القمر/ 12] اور زمین میں چشمے جاری کردیئے ۔ وَفَجَّرْنا خِلالَهُما نَهَراً [ الكهف/ 33] اور دونوں میں ہم نے ایک نہر بھی جاری کر رکھی تھی اور اس کے بیچ میں نہریں بہا نکالو ۔ تَفْجُرَ لَنا مِنَ الْأَرْضِ يَنْبُوعاً [ الإسراء/ 90] جب تک کہ ہمارے لئے زمین میں سے چشمے جاری ( نہ) کردو ۔ اور ایک قرآت میں تفجر ( بصیغہ تفعیل ) ہے ۔ فَانْفَجَرَتْ مِنْهُ اثْنَتا عَشْرَةَ عَيْناً [ البقرة/ 60] تو پھر اس میں سے بارہ چشمے پھوٹ نکلے ۔ اور اسی سے صبح کو فجر کہا جاتا ہے کیونکہ صبح کی روشنی بھی رات کی تاریکی کو پھاڑ کر نمودار ہوتی ہے ۔ قرآن میں ہے : وَالْفَجْرِ وَلَيالٍ عَشْرٍ [ الفجر/ 1- 2] فجر کی قسم اور دس راتوں کی ۔ إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كانَ مَشْهُوداً [ الإسراء/ 78] کیونکہ صبح کے وقت قرآن پڑھنا موجب حضور ( ملائکہ ) ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ فجر دو قسم پر ہے ایک فجر کا ذب جو بھیڑیئے کی دم کی طرح ( سیدھی روشنی سی نمودار ہوتی ہے دوم فجر صادق جس کے ساتھ نماز روزہ وغیرہ احکام تعلق رکھتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيامَ إِلَى اللَّيْلِ [ البقرة/ 187] یہاں تک کہ صبح کی سفید دھاری رات کی ) سیاہ دھاری سے الگ نظر آنے لگے پھر روزہ ( رکھ کر ) رات تک پورا کرو حين الحین : وقت بلوغ الشیء وحصوله، وهو مبهم المعنی ويتخصّص بالمضاف إليه، نحو قوله تعالی: وَلاتَ حِينَ مَناصٍ [ ص/ 3] ( ح ی ن ) الحین ۔ اس وقت کو کہتے ہیں جس میں کوئی چیز پہنچے اور حاصل ہو ۔ یہ ظرف مبہم ہے اور اس کی تعین ہمیشہ مضاف الیہ سے ہوتی ہے جیسے فرمایا : ۔ وَلاتَ حِينَ مَناصٍ [ ص/ 3] اور وہ رہائی کا وقت نہ تھا ۔ وضع الوَضْعُ أعمّ من الحطّ ، ومنه : المَوْضِعُ. قال تعالی: يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَواضِعِهِ [ النساء/ 46] ويقال ذلک في الحمل والحمل، ويقال : وَضَعَتِ الحملَ فهو مَوْضُوعٌ. قال تعالی: وَأَكْوابٌ مَوْضُوعَةٌ [ الغاشية/ 14] ، وَالْأَرْضَ وَضَعَها لِلْأَنامِ [ الرحمن/ 10] فهذا الوَضْعُ عبارة عن الإيجاد والخلق، ووَضَعَتِ المرأةُ الحمل وَضْعاً. قال تعالی: فَلَمَّا وَضَعَتْها قالَتْ رَبِّ إِنِّي وَضَعْتُها أُنْثى وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِما وَضَعَتْ [ آل عمران/ 36] فأما الوُضْعُ والتُّضْعُ فأن تحمل في آخر طهرها في مقبل الحیض . ووَضْعُ البیتِ : بناؤُهُ. قال اللہ تعالی: إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ [ آل عمران/ 96] ، وَوُضِعَ الْكِتابُ [ الكهف/ 49] هو إبراز أعمال العباد نحو قوله : وَنُخْرِجُ لَهُ يَوْمَ الْقِيامَةِ كِتاباً يَلْقاهُ مَنْشُوراً [ الإسراء/ 13] ووَضَعَتِ الدابَّةُ تَضَعُ في سيرها وَضْعاً : أسرعت، ودابّة حسنةُ المَوْضُوعِ ، وأَوْضَعْتُهَا : حملتها علی الإسراع . قال اللہ عزّ وجلّ : وَلَأَوْضَعُوا خِلالَكُمْ [ التوبة/ 47] والوَضْعُ في السیر استعارة کقولهم : ألقی باعه وثقله، ونحو ذلك، والوَضِيعَةُ : الحطیطةُ من رأس المال، وقد وُضِعَ الرّجلُ في تجارته يُوضَعُ : إذا خسر، ورجل وَضِيعٌ بيّن الضعَةِ في مقابلة رفیع بيّن الرّفعة . ( و ض ع ) الواضع ( نیچے رکھ دینا ) یہ حطه سے عام ہے ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَأَكْوابٌ مَوْضُوعَةٌ [ الغاشية/ 14] اور آبخورے ( قرینے سے ) رکھے ہوئے ۔ اور اسی سے موضع ہے جس کی جمع مواضع آتی ہے جس کے معنی ہیں جگہیں یا موقعے جیسے فرمایا : ۔ يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَواضِعِهِ [ النساء/ 46] یہ لوگ کلمات ( کتاب ) کو ان کے مقامات سے بدل دیتے ۔ اور وضع کا لفظ وضع حمل اور بوجھ اتارنے کے معنی میں آتا ہے چناچہ محاورہ ہے وضعت لمرءۃ الحمل وضعا عورت نے بچہ جنا ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ فَلَمَّا وَضَعَتْها قالَتْ رَبِّ إِنِّي وَضَعْتُها أُنْثى وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِما وَضَعَتْ [ آل عمران/ 36] جب ان کے ہاں بچہ پیدا ہوا اور جو کچھ ان کے ہاں پیدا ہوا تھا خدا کو خوب معلوم تھا تو کہنے لگیں کہ پروردگار میرے تو لڑکی ہوئی ہے ۔ لیکن الوضع والتضع کے معنی عورت کے آخر طہر میں حاملہ ہونے کے ہیں ۔ وضعت الحمل میں نے بوجھ اتار دیا اور اتارے ہوئے بوجھ کو موضوع کہا جاتا ہے اور آیت : ۔ وَالْأَرْضَ وَضَعَها لِلْأَنامِ [ الرحمن/ 10] اور اسی نے خلقت کے لئے زمین بچھائی ۔ میں وضع سے مراد خلق وایجا د ( یعنی پیدا کرنا ) ہے اور وضع البیت کے معنی مکان بنانے کے آتے ہیں چناچہ قرآن پا ک میں ہے : ۔ إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ [ آل عمران/ 96] پہلا گھر جو لوگوں کے عبادت کرنے کیلئے بنایا کیا گیا تھا ۔ اور آیت کریمہ : وَوُضِعَ الْكِتابُ [ الكهف/ 49] اور عملوں کی کتاب کھول کر رکھی جائے گی ۔ میں وضع کتاب سے قیامت کے دن اعمال کے دفتر کھولنا اور ان کی جزا دینا مراد ہے ۔ جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : ۔ وَنُخْرِجُ لَهُ يَوْمَ الْقِيامَةِ كِتاباً يَلْقاهُ مَنْشُوراً [ الإسراء/ 13] اور قیامت کے دن وہ کتاب اسے نکال دکھائیں گے جسے وہ کھلا ہوا دیکھے گا ۔ وضعت ( ف ) الدابۃ فی سیر ھا : سواری تیز رفتاری سے چلی اور تیز رفتار سواری کو حسنتہ المواضع ( وحسن المواضع کہا جاتا ہے ۔ اوضع تھا میں نے اسے دوڑایا قرآن پاک میں ہے : ۔ وَلَأَوْضَعُوا خِلالَكُمْ [ التوبة/ 47] اور تم میں ( فساد دلوانے کی غرض ) سے دوڑے دوڑے پھرتے ۔ اور وضع کا لفظ سیر یعنی چلنے کے معنی میں بطور استعارہ استعمال ہوتا ہے جیسا کہ القی باعہ وثقلہ : میں قیام کرنے سے کنایہ ہوتا ہے ۔ الوضیعۃ :( رعایت ) کمی جو اصل قمیت میں کی جائے اس نے تجارت میں نقصان اٹھایا رجل وضیع : نہایت خسیس آدمی ( باب کرم ) یہ رفیع کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے جس کے معنی بلند قدر کے ہیں ۔ ثوب أصل الثَّوْب : رجوع الشیء إلى حالته الأولی التي کان عليها، أو إلى الحالة المقدّرة المقصودة بالفکرة، وهي الحالة المشار إليها بقولهم : أوّل الفکرة آخر العمل «2» . فمن الرجوع إلى الحالة الأولی قولهم : ثَابَ فلان إلى داره، وثَابَتْ إِلَيَّ نفسي، وسمّي مکان المستسقي علی فم البئر مَثَابَة، ومن الرجوع إلى الحالة المقدرة المقصود بالفکرة الثوب، سمّي بذلک لرجوع الغزل إلى الحالة التي قدّرت له، وکذا ثواب العمل، وجمع الثوب أَثْوَاب وثِيَاب، وقوله تعالی: وَثِيابَكَ فَطَهِّرْ [ المدثر/ 4] ( ث و ب ) ثوب کا اصل معنی کسی چیز کے اپنی اصلی جو حالت مقدمہ اور مقصود ہوتی ہے اس تک پہنچ جانا کے ہیں ۔ چناچہ حکماء کے اس قول اول الفکرۃ اٰخرالعمل میں اسی حالت کی طرف اشارہ ہے یعنی آغاز فکر ہی انجام عمل بنتا ہے ۔ چناچہ اول معنی کے لحاظ سے کہا جاتا ہے ۔ شاب فلان الی درہ ۔ فلاں اپنے گھر کو لوٹ آیا ثابت الی نفسی میری سانس میری طرف ہوئی ۔ اور کنوئیں کے منہ پر جو پانی پلانے کی جگہ بنائی جاتی ہے اسے مثابۃ کہا جاتا ہے اور غور و فکر سے حالت مقدرہ مقصود تک پہنچ جانے کے اعتبار سے کپڑے کو ثوب کہاجاتا ہے کیونکہ سوت کاتنے سے عرض کپڑا بننا ہوتا ہے لہذا کپڑا بن جانے پر گویا سوت اپنی حالت مقصود ہ کی طرف لوٹ آتا ہے یہی معنی ثواب العمل کا ہے ۔ اور ثوب کی جمع اثواب وثیاب آتی ہے اور آیت کریمہ ؛۔ وَثِيابَكَ فَطَهِّرْ [ المدثر/ 4] اپنے کپڑوں کو پاک رکھو ۔ ظھیر ، وَما لَهُ مِنْهُمْ مِنْ ظَهِيرٍ [ سبأ/ 22] ، أي : معین «3» . فَلا تَكُونَنَّ ظَهِيراً لِلْكافِرِينَ [ القصص/ 86] ، وَالْمَلائِكَةُ بَعْدَ ذلِكَ ظَهِيرٌ [ التحریم/ 4] ، وَكانَ الْكافِرُ عَلى رَبِّهِ ظَهِيراً [ الفرقان/ ] ، أي : معینا للشّيطان علی الرّحمن . وقال أبو عبیدة «1» : الظَّهِيرُ هو المَظْهُورُ به . أي : هيّنا علی ربّه کا لشّيء الذي خلّفته، من قولک : ظَهَرْتُ بکذا، أي : خلفته ولم ألتفت إليه . ظھیر الظھیر۔ مدد گار ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَما لَهُ مِنْهُمْ مِنْ ظَهِيرٍ [ سبأ/ 22] اور نہ ان میں سے کوئی خدا کا مددگار ہے ۔ فَلا تَكُونَنَّ ظَهِيراً لِلْكافِرِينَ [ القصص/ 86] تو تم ہر گز کافروں کے مددگار نہ ہونا ۔ وَالْمَلائِكَةُ بَعْدَ ذلِكَ ظَهِيرٌ [ التحریم/ 4] اور ان کے علاوہ اور فرشتے بھی مددگار ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَكانَ الْكافِرُ عَلى رَبِّهِ ظَهِيراً [ الفرقان/اور کافر اپنے پروردگار کی مخالفت میں بڑا زورمارتا ہے ۔ کے معنی یہ ہیں کہ کافر خدائے رحمٰن کی مخالفت میں شیطان کا مددگار بنا ہوا ہے ابو عبیدہ نے کہا ہے کہ یہاں ظھیر کے معنی ہیں پس پشت ڈالا ہوا اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک کافر کی مثال اس چیز کی سی ہے جسے بےوقعت سمجھ کر پس پشت ڈال دیا جائے اور یہ ظھر ت بکذا سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں میں نے اسے پس پشت ڈال دیا اور درخواعتناء نہ سمجھا ۔ عشا العَشِيُّ من زوال الشمس إلى الصّباح . قال تعالی: إِلَّا عَشِيَّةً أَوْ ضُحاها[ النازعات/ 46] ، والعِشَاءُ : من صلاة المغرب إلى العتمة، والعِشَاءَانِ : المغرب والعتمة «1» ، والعَشَا : ظلمةٌ تعترض في العین، ( ع ش ی ) العشی زوال آفتاب سے لے کر طلوع فجر تک کا وقت قرآن میں ہے : ۔ إِلَّا عَشِيَّةً أَوْضُحاها[ النازعات 46] گویا ( دنیا میں صرف ایک شام یا صبح رہے تھے ۔ العشاء ( ممدود ) مغرب سے عشا کے وقت تک اور مغرب اور عشا کی نمازوں کو العشاء ن کہا جاتا ہے اور العشا ( توندی تاریکی جو آنکھوں کے سامنے آجاتی ہے رجل اعثی جسے رتوندی کی بیمار ی ہو اس کی مؤنث عشراء آتی ہے ۔ عور العَوْرَةُ سوأة الإنسان، وذلک کناية، وأصلها من العارِ وذلک لما يلحق في ظهوره من العار أي : المذمّة، ولذلک سمّي النساء عَوْرَةً ، ومن ذلک : العَوْرَاءُ للکلمة القبیحة، وعَوِرَتْ عينه عَوَراً وعَارَتْ عينه عَوَراً وعَوَّرَتْهَا، وعنه اسْتُعِيرَ : عَوَّرْتُ البئر، وقیل للغراب : الْأَعْوَرُ ، لحدّة نظره، وذلک علی عکس المعنی ولذلک قال الشاعر : وصحاح العیون يدعون عوراً والعَوارُ والعَوْرَةُ : شقّ في الشیء کا لثّوب والبیت ونحوه . قال تعالی: إِنَّ بُيُوتَنا عَوْرَةٌ وَما هِيَ بِعَوْرَةٍ [ الأحزاب/ 13] ، أي : متخرّقة ممكنة لمن أرادها، ومنه قيل : فلان يحفظ عَوْرَتَهُ ، أي : خلله، وقوله : ثَلاثُ عَوْراتٍ لَكُمْ [ النور/ 58] ، أي : نصف النهار وآخر اللیل، وبعد العشاء الآخرة، وقوله : الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا عَلى عَوْراتِ النِّساءِ [ النور/ 31] ، أي : لم يبلغوا الحلم . وسهم عَائِرٌ: لا يدری من أين جاء، ولفلان عَائِرَةُ عين من المال «4» . أي : ما يعور العین ويحيّرها لکثرته، والْمُعَاوَرَةُ قيل في معنی الاستعارة . والعَارِيَّةُ فعليّة من ذلك، ولهذا يقال : تَعَاوَرَهُ العواري، وقال بعضهم : هو من العارِ ، لأنّ دفعها يورث المذمّة والعَارَ ، كما قيل في المثل : (إنه قيل لِلْعَارِيَّةِ أين تذهبين ؟ فقالت : أجلب إلى أهلي مذمّة وعَاراً ) ، وقیل : هذا لا يصحّ من حيث الاشتقاق، فإنّ العَارِيَّةَ من الواو بدلالة : تَعَاوَرْنَا، والعار من الیاء لقولهم : عيّرته بکذا . ( ع و ر ) العورۃ انسان کے مقام ستر کو کہتے ہیں مگر اس کے معنی کنائی ہیں اصل میں یہ عار سے مشتق ہے اور مقام ستر کے کھلنے سے بھی چونکہ عار محسوس ہوتی ہے اس لئے اسے عودۃ کہا جاتا ہے اور عورت کو بھی عورت اس لئے کہاجاتا ہے کہ ان کے بےستر رہنے کو باعث عار سمجھا جاتا ہے اسی سے بری بات کو اعوراء کہا جاتا ہے ۔ عورت عینہ عورا و عادت عینہ عورا اسکی ایک آنکھ کی بینائی جاتی رہی عور تھا میں نے اسے بھینگا کردیا ۔ اسی سے بطور استعارہ عورت البئر کا محاورہ ہے جس کے معنی ہیں مٹی ڈال کر کنوئیں کا پانی خشک کردینا اور مجازا نظر کی تیزی کی وجہ سے کوے کو الا عور کہا جاتا ہے جیسے کسی لفظ کو اس کی ضد میں استعمال کرلیتے ہیں چناچہ شاعر نے کہا ہے ۔ ( 324 ) وصحاب العیون یدعین عورا تندرست آنکھوں والے آدمیوں کو بھینگا کہا جاتا ہے ۔ العوار والعوارۃ کے معنی کپڑے یا مکان وغیرہ میں شگاف کے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ إِنَّ بُيُوتَنا عَوْرَةٌ وَما هِيَ بِعَوْرَةٍ [ الأحزاب/ 13] کہ ہمارے گھر کھلے پڑے ہیں حالانکہ وہ کھلے نہیں تھے ۔ یعنی ان میں جگہ جگہ رخنے پڑے ہوئے ہیں جن میں سے جو چاہے ان کے ندر گھس سکتا ہے اسی سے محاورہ ہے فلان یحفظ عورتہ کہ فلاں اپنے خلیل کی حفاظت کرتے ہے اور آیت کریمہ : ۔ ثَلاثُ عَوْراتٍ لَكُمْ [ النور/ 58]( یہ تین ( وقت ) تمہارے پردے کے ہیں ۔ ن میں ثلاث عورات سے پردہ کے تین اوقات مراد ہیں یعنی دوپہر کے وقت عشا کی نماز کے بعد اور صبح کی نماز سے پہلے اور آیت کریمہ : ۔ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا عَلى عَوْراتِ النِّساءِ [ النور/ 31] ( یا ایسے لڑکوں سے ) جو عورتوں کے پردے کی چیزوں سے واقف نہ ہو ۔ سے مراد نابالغ لڑکے ہیں جن میں ہننوز جنسیات کے متعلق یا توں کا شعور پیدا نہ ہوا ہو سھم عائر وہ تیر جو نامعلوم طرف سے آئے لفلان عائرۃ من المال فلاں کے پاس اتنا زیادہ مال ہے کہ اس کی فردانی آنکھ کو حیرت زدہ اور خیرہ کردیتی ہے المع اور ۃ بعض نے کہا ہے اس کے معنی مستعار لینے کے ہیں اور اسی سے عاریۃ بر وزن فعلیۃ ہے اسی سے کہا جاتا ہے تع اور العواری استعمال کی چیزیں باہم لینا دینا ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ عار سے مشتق ہے چونکہ کوئی چیز مستعار دیکر اسکا واپس لینا بھی موجب عار سمجھا جاتا ہے اس لئے اسے عاریۃ کہا جاتا ہے مثل مشہور ہے کہ عاریۃ ( مستعار لی ہوئی چیز ) سے کسی نے دریافت کیا کہ کدھر جارہی ہو تو اس نے کہا میں اپنے اہل کے لئے مذمت اور عار لینے جارہی ہوں ۔ بعض نے کہا ہے کہ عاریۃ کا مادہ وادی ہے جیسا کہ تع اور نا کا لفظ اس پر دلالت کرتا ہے اور عار کا مادہ پائی ہے ۔ جیسا کہ عیرے ہ بکذا کے محاورہ سے معلوم ہوتا ہے ۔ جناح وسمي الإثم المائل بالإنسان عن الحق جناحا ثم سمّي كلّ إثم جُنَاحاً ، نحو قوله تعالی: لا جُناحَ عَلَيْكُمْ «1» في غير موضع، وجوانح الصدر : الأضلاع المتصلة رؤوسها في وسط الزور، الواحدة : جَانِحَة، وذلک لما فيها من المیل اسی لئے ہر وہ گناہ جو انسان کو حق سے مائل کردے اسے جناح کہا جاتا ہے ۔ پھر عام گناہ کے معنی میں یہ لفظ استعمال ہونے لگا ہے ۔ قرآن میں متعدد مواضع پر آیا ہے پسلیاں جن کے سرے سینے کے وسط میں باہم متصل ہوتے ہیں اس کا واحد جانحۃ ہے اور ان پسلیوں کو جو انح اسی لئے کہا جاتا ہے کہ ان میں میلان یعنی خم ہوتا ہے ۔ طوف الطَّوْفُ : المشيُ حولَ الشیءِ ، ومنه : الطَّائِفُ لمن يدور حول البیوت حافظا . يقال : طَافَ به يَطُوفُ. قال تعالی: يَطُوفُ عَلَيْهِمْ وِلْدانٌ [ الواقعة/ 17] ، قال : فَلا جُناحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِما[ البقرة/ 158] ، ومنه استعیر الطَّائِفُ من الجنّ ، والخیال، والحادثة وغیرها . قال : إِذا مَسَّهُمْ طائِفٌ مِنَ الشَّيْطانِ [ الأعراف/ 201] ، وهو الذي يدور علی الإنسان من الشّيطان يريد اقتناصه، وقد قرئ : طيف «4» وهو خَيالُ الشیء وصورته المترائي له في المنام أو الیقظة . ومنه قيل للخیال : طَيْفٌ. قال تعالی: فَطافَ عَلَيْها طائِفٌ [ القلم/ 19] ، تعریضا بما نالهم من النّائبة، وقوله : أَنْ طَهِّرا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ [ البقرة/ 125] ، أي : لقصّاده الذین يَطُوفُونَ به، والطَّوَّافُونَ في قوله : طَوَّافُونَ عَلَيْكُمْ بَعْضُكُمْ عَلى بَعْضٍ [ النور/ 58] عبارة عن الخدم، وعلی هذا الوجه قال عليه السلام في الهرّة : (إنّها من الطَّوَّافِينَ عليكم والطَّوَّافَاتِ ) «5» . وَالطَّائِفَةُ من الناس : جماعة منهم، ومن الشیء : القطعة منه، وقوله تعالی: فَلَوْلا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ [ التوبة/ 122] ، قال بعضهم : قد يقع ذلک علی واحد فصاعدا «1» ، وعلی ذلک قوله : وَإِنْ طائِفَتانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ [ الحجرات/ 9] ، إِذْ هَمَّتْ طائِفَتانِ مِنْكُمْ [ آل عمران/ 122] ، والطَّائِفَةُ إذا أريد بها الجمع فجمع طَائِفٍ ، وإذا أريد بها الواحد فيصحّ أن يكون جمعا، ويكنى به عن الواحد، ويصحّ أن يجعل کراوية وعلامة ونحو ذلك . والطُّوفَانُ : كلُّ حادثة تحیط بالإنسان، وعلی ذلک قوله : فَأَرْسَلْنا عَلَيْهِمُ الطُّوفانَ [ الأعراف/ 133] ، وصار متعارفا في الماء المتناهي في الکثرة لأجل أنّ الحادثة التي نالت قوم نوح کانت ماء . قال تعالی: فَأَخَذَهُمُ الطُّوفانُ [ العنکبوت/ 14] ، وطَائِفُ القوسِ : ما يلي أبهرها «2» ، والطَّوْفُ كُنِيَ به عن العَذْرَةِ. ( ط و ف ) الطوف ( ن ) کے معنی کسی چیز کے گرد چکر لگانے اور گھومنے کے ہیں ۔ الطائف چوکیدار جو رات کو حفاظت کے لئے چکر لگائے اور پہرہ دے طاف بہ یطوف کسی چیز کے گرد چکر لگانا گھومنا ۔ قرآن میں ہے : يَطُوفُ عَلَيْهِمْ وِلْدانٌ [ الواقعة/ 17] نوجوان خدمت گزار جو ہمیشہ ایک ہی حالت میں رہیں گے ان کے آس پاس پھیریں گے ۔ فَلا جُناحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِما[ البقرة/ 158] اس پر کچھ گناہ نہیں کہ دونوں کا طواف کرے ۔ اور اسی سے بطور استعارہ جن خیال ، حادثہ وغیرہ کو بھی طائف کہاجاتا ہے چناچہ آیت کریمہ :إِذا مَسَّهُمْ طائِفٌ مِنَ الشَّيْطانِ [ الأعراف/ 201] جب ان کو شیطان کیطرف سے کوئی وسوسہ پیدا ہوتا ہے ۔ میں طائف سے وہ شیطان مراد ہے جو انسان کا شکار کرنے کے لئے اس کے گرد چکر کاٹتا رہتا ہے ایک قرآت میں طیف ہے ، جس کے معنی کسی چیز کا خیال اور اس صورت کے ہے جو خواب یابیداری میں نظر آتی ہے اسی سے خیال کو طیف کہاجاتا ہے اور آیت کریمہ : فَطافَ عَلَيْها طائِفٌ [ القلم/ 19] کہ تمہارے پروردگار کی طرف سے ( راتوں رات ) اس پر ایک آفت پھر گئی ۔ میں طائف سے وہ آفت یا حادثہ مراد ہے جو انہیں پہنچا تھا ۔ اور آیت کریمہ : أَنْ طَهِّرا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ [ البقرة/ 125] طواف کرنے والوں ۔۔۔ کے لئے میرے گھر کو صاف رکھا کرو۔ میں طائفین سے مراد وہ لوگ ہیں جو حج یا عمرہ کرنے کے لئے ) بیت اللہ کا قصد کرتے اور اس کا طواف کرتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : طَوَّافُونَ عَلَيْكُمْ بَعْضُكُمْ عَلى بَعْضٍ [ النور/ 58] اور نہ ان پر جو کام کے لئے تمہارے اردگرد پھرتے پھراتے رہتے ہیں ۔ میں طوافون سے نوکر چاکر مراد ہیں ( جنہیں خدمت گزاری کے لئے اندروں خانہ آنا جا نا پڑتا ہے ) اسی بنا پر بلی کے متعلق حدیث میں آیا ہے (33) انما من الطوافین علیکم والطوافات ۔ کہ یہ بھی ان میں داخل ہے جو تمہارے گرد پھرتے پھراتے رہتے ہیں ۔ الطائفۃ (1) لوگوں کی ایک جماعت (2) کسی چیز کا ایک ٹکڑہ ۔ اور آیت کریمہ : فَلَوْلا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ [ التوبة/ 122] تویوں کیوں نہیں کیا کہ ہر ایک جماعت میں چند اشخاص نکل جاتے تاکہ دین کا علم سیکھتے ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ کبھی طائفۃ کا لفظ ایک فرد پر بھی بولا جاتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَإِنْ طائِفَتانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ [ الحجرات/ 9] ، اور اگر مومنوں میں سے کوئی دوفریق ۔۔۔ اور آیت کریمہ :إِذْ هَمَّتْ طائِفَتانِ مِنْكُمْ [ آل عمران/ 122] اس وقت تم میں سے دو جماعتوں نے چھوڑ دینا چاہا ۔ طائفۃ سے ایک فرد بھی مراد ہوسکتا ہے مگر جب طائفۃ سے جماعت مراد لی جائے تو یہ طائف کی جمع ہوگا ۔ اور جب اس سے واحد مراد ہو تو اس صورت میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جمع بول کر مفر د سے کنایہ کیا ہو اور یہ بھی کہ راویۃ وعلامۃ کی طرح مفرد ہو اور اس میں تا برائے مبالغہ ہو ) الطوفان وہ مصیبت یا حادثہ جو انسان کو چاروں طرف سے گھیرے اس بنا پر آیت کریمہ ؛فَأَرْسَلْنا عَلَيْهِمُ الطُّوفانَ [ الأعراف/ 133] تو ہم ان پر طوفان ( وغیرہ کتنی کھلی ہوئی نشانیاں بھیجیں ۔ میں طوفان بمعنی سیلاب بھی ہوسکتا ہے ۔ کیونکہ نوح (علیہ السلام) کی قوم پر جو عذاب آیا تھا ۔ وہ پانی کی صورت میں ہی تھا اور دوسری جگہ فرمایا : فَأَخَذَهُمُ الطُّوفانُ [ العنکبوت/ 14] پھر ان کو طوفان کے عذاب ) نے آپکڑا ۔ طائف القوس خانہ کمان جو گوشہ اور ابہر کے درمیان ہوتا ہے ۔ الطوف ( کنایہ ) پلیدی ۔ بعض بَعْضُ الشیء : جزء منه، ويقال ذلک بمراعاة كلّ ، ولذلک يقابل به كلّ ، فيقال : بعضه وكلّه، وجمعه أَبْعَاض . قال عزّ وجلّ : بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة/ 36] ( ب ع ض ) بعض الشئی ہر چیز کے کچھ حصہ کو کہتے ہیں اور یہ کل کے اعتبار سے بولا جاتا ہے اسلئے کل کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے جیسے : بعضہ وکلہ اس کی جمع ابعاض آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة/ 36] تم ایک دوسرے کے دشمن ہو ۔ الآية والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع . الایۃ ۔ اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔ حكيم والحِكْمَةُ : إصابة الحق بالعلم والعقل، فالحکمة من اللہ تعالی: معرفة الأشياء وإيجادها علی غاية الإحكام، ومن الإنسان : معرفة الموجودات وفعل الخیرات . وهذا هو الذي وصف به لقمان في قوله عزّ وجلّ : وَلَقَدْ آتَيْنا لُقْمانَ الْحِكْمَةَ [ لقمان/ 12] ، ونبّه علی جملتها بما وصفه بها، فإذا قيل في اللہ تعالی: هو حَكِيم «2» ، فمعناه بخلاف معناه إذا وصف به غيره، ومن هذا الوجه قال اللہ تعالی: أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] ، وإذا وصف به القرآن فلتضمنه الحکمة، نحو : الر تِلْكَ آياتُ الْكِتابِ الْحَكِيمِ [يونس/ 1] ( ح ک م ) الحکمتہ کے معنی علم وعقل کے ذریعہ حق بات دریافت کرلینے کے ہیں ۔ لہذا حکمت الہی کے معنی اشیاء کی معرفت اور پھر نہایت احکام کے ساتھ انکو موجود کرتا ہیں اور انسانی حکمت موجودات کی معرفت اور اچھے کو موں کو سرانجام دینے کا نام ہے چناچہ آیت کریمہ : وَلَقَدْ آتَيْنا لُقْمانَ الْحِكْمَةَ [ لقمان/ 12] اور ہم نے لقمان کو دانائی بخشی ۔ میں حکمت کے یہی معنی مراد ہیں جو کہ حضرت لقمان کو عطا کی گئی تھی ۔ لہزا جب اللہ تعالے کے متعلق حکیم کا لفظ بولاجاتا ہے تو اس سے وہ معنی مراد نہیں ہوتے جو کسی انسان کے حکیم ہونے کے ہوتے ہیں اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق فرمایا ہے ۔ أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] کیا سب سے بڑا حاکم نہیں ہے ؟

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

غلاموں اور لونڈیوں نیز بچوں کا گھروں میں جانے کے لئے اذن طلب کرنے کا بیان قول باری ہے : (یایھا الذین امنوا لیستاذنکم الذین ملکت ایمانکم والذین لم یبلغوا الحلم منکم ثلث مرات۔ ) اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، لازم ہے کہ تمہارے مملوک اور تمہارے وہ بچے جو ابھی عقل کی حد کو نہیں پہنچے ہیں، تین اوقات میں اجازت لے کر تمہارے پاس آیا کریں تاآخر آیت۔ لیث بن سلیم نے نافع سے اور انہوں نے حضرت ابن عمر (رض) سے نیز سفیان نے ابوحصین سے اور انہوں نے ابوعبدالرحمن سے روایت کی ہے کہ قول باری : (لیستاذنکم الذین ملکت ایمانکم ) عورتوں یعنی لونڈیوں کے ساتھ خاص ہے ، مرد یعنی غلام دن اور رات کے دوران ہر حال میں اجازت لے کر آئیں گے۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ بعض حضرات نے اس تاویل پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر عورتیں تنہا ہوں تو ان پر لفظ ” الذین “ کا اطلاق نہیں ہوتا بلکہ ایسے موقعہ پر ” اللائی “ کا لفظ استعمال ہوتا ہے جس طرح یہ قول باری ہے : (واللائی یئسن من المحیض) وہ عورتیں جو حیض سے مایوس ہوچکی ہیں۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ اگر لفظ ممالیک کے ساتھ تعبیر کی جائے تو یہ استعمال درست ہوتا ہے جس طرح اس وقت بھی یہ استعمال درست ہوتا ہے جب لفظ اشخاص کے ذریعے عورتوں سے تعبیر کی جاتی ہے اسی طرح مونث کے لئے مذکر کا صیغہ لانا درست ہوتا ہے جب ممالیک کے لفظ کے ساتھ عورتوں سے تعبیر کی جائے۔ نساء کے لفظ نیز اماء کے لفظ سے تعبیر کی صورت میں یہ بات درست نہیں ہوتی۔ اس استعمال کے درست ہونے کی وجہ یہ ہے کہ تذکیر وتانیث لفظ کے تابع ہوتی ہے۔ جس طرح آپ کہتے ہیں ” ثلاث مصاحن “ (تین چادریں) لیکن اگر آپ ازار یعنی تہمد سے تعبیر کریں گے تو اس کے لئے عدد اور معدود کے کے اندر تذکیر کے قاعدے کے مطابق ” ثلاثۃ ازر “ (تین تہمد) کہیں گے۔ اس لئے ظاہر بات یہ ہے کہ یہاں لونڈیاں اور غلام دونوں مراد ہیں۔ یہ بات نہیں کہ اس بنا پر غلام مراد نہ ہوں کہ انہیں تو ہر وقت اجازت لے کر اندر آنے کا حکم ہے۔ اس حکم کی یہ صورت تخلیہ کے تین اوقات میں اجازت لے کر اندر آنے کا حکم ہے، اس حکم کی یہ صورت تخلیہ کے تین اوقات میں اجازت لے کر اندر آنے کے حکم کو صرف لونڈیوں تک محدود کرنے کی موجب نہیں ہے۔ بلکہ اس میں غلام بھیداخل ہیں کیونکہ جب انہیں ہر وقت اجازت لینے کا حکم ہے تو ت خلیفہ کے ان تین اوقات میں بطریق اولیٰ اجازت لینے کا حکم ہوگا۔ اس لئے استیذان کے اس حکم میں دونوں شامل ہوں گے۔ ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی، انہیں ابودائود نے، انہیں ابن السرح اور صباح بن سفیان اور ابن عبدہ نے، (حدیث کے الفاظ ابن عبدہ کی روایت کے مطابق ہیں) ، انہیں سفیان نے عبیداللہ بن ابی یزید سے، انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عباس (رض) کو یہ کہتے ہوئے سنا تھا کہ اکثر لوگ اپنے غلاموں اور لونڈیوں کو استیذان کی آیت پر عمل پیرا ہونے کا حکم نہیں دیتے لیکن میں تو اپنی اس لونڈی کو بھی اجازت لے کر اندر آنے کا حکم دیتا ہوں۔ “ ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی، انہیں ابودائود نے، انہیں القعنبی نے، انہیں عبدالعزیز بن محمد نے ، عمرو ابی عمرو سے، انہوں نے عکرمہ سے کہ عراق کے چند لوگوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے پوچھا کہ آیت استیذان کے متعلق آپ کا خیال ہے۔ ہمیں اس میں جو حکم ملا ہے وہ تو اپنی جگہ ہے لیکن اس پر عمل کوئی نہیں کرتا۔ پھر ان لوگوں نے قول باری : (یا یھا الذین امنو لیستاذنکم الذین ملکت ایمانکم) تا (علیم حکیم) کی تلاوت کی، ان کی بات سن کر حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا : ” اللہ بڑا حلیم ہے اہل ایمان پر بڑا رحیم ہے، وہ پردہ پوشی چاہتا ہے۔ ایسا وقت بھی آیا تھا کہ گھروں میں نہ پردے تھے اور نہ ہی کوئی آڑ، پھر کوئی نوکر، یا بچہ یا کوئی رشتہ دار یتیم بچی گھر میں ایسے وقت داخل ہوجاتی جب میاں بیوی ہم بستری میں مشغول ہوتے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے تخلیہ کے ان اوقات میں اجازت لے کر اندر آنے کا حکم دیا۔ پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ فراخی کی بنا پر گھروں میں پردے بھی لگ گئے۔ اس کے بعد پھر مجھے اس آیت پر عمل کرتا ہوا کوئی نظر نہیں آیا۔ “ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ اسی روات کے بعض طرق میں جس کے راوی سلیمان بن بلال ہیں، انہوں نے عمرو بن ابی عمرو سے روایت کی ہے، حضرت ابن عباس (رض) کے یہ الفاظ مذکور ہیں، ” جب اللہ تعالیٰ نے فراخی اور خوش حالی عطا کردی اور لوگوں نے اپنے گھروں میں پردے لگالیے اور آڑ کھڑے کردیے تو انہوں نے یہ سمجھ لیا کہ آیت استیذان میں اللہ تعالیٰ نے جو حکم دیا تھا اس پر اب عمل کرنے کی ضرورت باقی نہ رہی۔ “ حضرت ابن عباس (رض) نے یہ بات بتائی ہے کہ آیت میں اجازت طلب کرکے اندر آنے کا حکم ایک سبب کے ساتھ تعلق رکھتا تھا جب سبب زائل ہوگیا تو حکم بھی ختم ہوگیا۔ یہ بات اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ حضرت ابن عباس (رض) کے نزدیک آیت منسوخ نہیں ہوئی ہے اور اگر یہ سبب پھر پیدا ہوجائے تو حکم دوبارہ لوٹ آئے گا۔ شعبی کا قول بھی ہے کہ آیت منسوخ نہیں ہے، اس کی نظیر وہ آیت ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے عقد سوالات کی بنا پر میراث کی فرضیت کا حکم دیا تھا چناچہ ارشاد ہے : (والذین عقدت ایمانکم فاتو ھما نصیبھم ) اور جن لوگوں سے تمہارے عہد و پیمان ہیں انہیں ان کا حصہ دو ۔ اس حکم کے تحت عقد موالات کی بنا پر لوگ ایک دوسرے کے وارث ہوتے تھے۔ لیکن جب نسب کی بنیاد پر میراث کی فرضیت ہوگئی تو پھر نسبی رشتہ دار موالات کے تحت تعلق رکھنے والے انسان سے بڑھ کر میراث کے حق دار ہوگئے۔ اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ درج بالا آیت منسوخ ہوگئی بلکہ اب صورت یہ ہوگئی کہ جب نسبی رشتہ دار موجود نہیں ہوں گے تو عقد موالات کے تحت تعلق والا شخص یا اشخاص جائداد کے وارث قرار دیے جائیں گے۔ جابرین یزید نے قول باری (لیستاذنکم الذیر ملکت ایمانکم والذین لم یبلغوا الحلم منکم) کی تفسیر میں کہا ہے کہ اس سے مراد وہ بچے اور بچیاں ہیں جو سمجھدار تو ہیں لیکن ابھی بلوغت کو نہیں پہنچے ہیں وہ اپنے والدین کے پاس اندر آنے کے لئے تین اوقات میں اجازت حاصل کریں گے۔ فجر کی نماز سے پہلے، دوپہر کو قیلولہ کے وقت اور عشا، یعنی عتمہ کی نماز کے بعد۔ پھر یہ بچے جب بالغ ہوجانیں گے تو وہ بھی پہلے لوگوں یعنی اپنے بالغ بھائی بہنوں کی طرح اندر آنے کے وقت اجازت لے کر آئیں گے خواہ کسی وقت بھی آئیں۔ ابن جریج نے مجاہد سے روایت کی ہے کہ (الذین ملکت ایمانکم) سے تمہارے غلام مراد ہیں اور (والذین کم یبلغوا الحلم منکم) سے تمہارے آزاد مراد ہیں۔ عطاء بن ابی رباح سے بھی اس قسم کی تفسیر منقول ہے۔ لیکن بعض حضرات نے اس تاویل پر تنقید کی ہے کیونکہ اپنی مالکن پر نظر ڈالنے کی حرمت کے سلسلے میں بالغ غلام کا وہی حکم ہے جو بالغ آزاد شخص کا ہے۔ پھر وہ استیذان کے حکم میں بچوں کے ساتھ کس طرح شامل ہوسکتا ہے جو سرے سے مکلف ہی نہیں ہیں۔ ان حضرات نے مزید کہا ہے کہ زیادہ ظاہر بات یہ ہے کہ یہاں نابالغ غلام اور لونڈیاں نیز ہمارے وہ چھوٹے بچے مراد ہیں جو ابھی تک بالوغت کی حد کو نہیں پہنچے ہیں۔ حضرت ابن عباس (رض) سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ اس آیت کی قرات لیستاذنکم الذین لم یبلغوا الحلم مما ملکت ایمانکم کی ترتیب میں کرتے تھے۔ سعید بن جبیرا اور شعبی کا قول ہے کہ ” اس آیت پر عمل کرنے میں لوگوں نے سستی کا مظاہرہ کیا ہے ورنہ آیت منسوخ نہیں ہوگی۔ “ ابو قلابہ کا قول ہے کہ آیت کا حکم واجب نہیں ہے۔ جس طرح اس قول باری میں ہے : (واشھدوا اذا تبایعتم) اور جب تم آپس میں خریدوفروخت کرو تو گواہ بنالیا کرو۔ قاسم بن محمد کا قول ہے کہ ہر تخلیہ کے وقت اجازت طلب کرے گا اس کے بعد بالا اجازت اس کا آنا جانا ہوگا۔ “ یعنی غلام اور لونڈی تخلیہ کے اوقات نیز کپڑے اتار کر آرام کرنے کے اوقات میں اجازت لے کر اندر آئیں گے۔ کیونکہ یہ پردے اور تخلیہ کے اوقات ہیں۔ ان اوقات کے بعد اگر وہ بلا اجازت آئیں تو اس میں کوئی حرج نہیں کیونکہ ایک دوسرے کے پاس بار بار آنا پڑتا ہے اور نوکر چاکر نیز بچے وغیرہ اندر آنے جانے سے باز نہیں رہ سکتے۔ جس طرح حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بلی کے متعلق فرمایا ہے : (انھا من الطوافین علیکم والطوافات) بلی ان مردوں اور عورتوں میں شامل ہے جنہیں تمہارے پاس بار بار آنا پڑتا ہے یعنی بلی کو گھر میں داخل ہونے سے روکنا ناممکن ہے، ایک روایت ہے کہ کسی شخص نے حضرت عمر (رض) سے یہ پوچھا کہ آیا میں اپنی والدہ کے پاس بھی اندر اجازت لے کر جائوں ؟ “ آپ نے فرمایا ” ہاں “ حضرت ابن عباس (رض) اور حضرت ابن مسعود (رض) کا بھی یہی قول ہے۔ فصل قول باری : (والذین لم یبلغوا الحلم منکم) اس قول کے بطلان پر دلالت کرتا ہے کہ اگر ایک نوجوان کو احتلام نہ ہو تو اس کے لئے بلوغت کی حد پندرہ برس ہے۔ بطلان کی وجہ یہ ہے کہ ایک لڑکا جب حد بلوغت کو نہ پہنچا ہو تو اللہ تعالیٰ نے اس سلسلے میں پندرہ برس کی عمر کو پہنچنے والے اور نہ پہنچنے والے درمیان کوئی فرق نہیں کیا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی مختلف طرق سے مروی ہے کہ (رفع القلم عن ثلاثۃ عن النائم حتی یستیقظ وعن المجنون حتی یفیق وعن الصبی حتی یحتلم) تین افراد مرفوع القلم ہیں۔ نیند میں پڑا ہوا انسان جب تک بیدار نہ ہوجائے۔ جنون کا مریض جب تک اسے افاقہ نہ جائے اور بچہ جب تک بالغ نہ ہوجائے آپ نے پندرہ برس کی عمر کو پہنچنے والے اور نہ پہنچنے والے کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا۔ حضرت ابن عمر (رض) سے ایک روایت منقول ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ جنگ احد کے موقع پر انہیں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے پیش کہا گیا اس وقت ان کی عمر چودہ برس تھی۔ آپ نے انہیں جنگ میں شرکت کی اجازت نہیں دی۔ پھر غزوہ خندق کے موقعہ پر پیش ہوئے۔ اس وقت عمر پندرہ برس تھی آپ نے انہیں جنگ میں شرکت کی اجازت دے دی۔ لیکن اس روایت میں فنی لحاظ سے اضطراب ہے کیونکہ غزوہ خندق 5 ھ میں اور غزوہ احد 3 ھ میں پیش آیا تھا اس حساب سے ان دونوں کے درمیان ایک سال کا فرق نہیں ہوسکتا ۔ اس کے ساتھ یہ بات بھی ہے کہ جنگ میں شرکت کی اجازت کا بلوغت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ کیونکہ بعض دفعہ ایک بالغ انسان کو جسمانی کمزوری کی بنا پر شرکت سے منع کردیا جاتا ہے اور ایک نابالغ کو جسمانی قوت کی بنا پر شرکت کی اجازت دے دی جاتی ہے کیونکہ وہ ہتھیار اٹھانے اور دشمن سے دو دو ہاتھ کرنے کے قابل ہوتا ہے۔ جس طرح حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت سمرہ بن جندب کو واپس کردیا تھا اور رافع بن خدیج کو لشکر میں شامل کرلیا تھا ۔ جب آپ سے یہ عرض کیا گیا کہ سمرۃ تو رافع کو کشتی میں پچھاڑ دیتے ہیں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دونوں میں کشتی کرائی اور حضرت سمرہ (رض) نے حضرت رافع (رض) کو پچھاڑ دیا جس پر آپ نے انہیں جنگ میں شرکت کی اجازت دے دی اور ان سے ان کی عمر کے بارے میں نہیں پوچھا۔ نیز حضرت ابن عمر (رض) کی روایت میں ہے ذکر ہی نہیں ہے کہ آپ نے ان سے جنگ احد یا جنگ خندق کے موقع پر شرکت کے مسئلے میں ان سے ان کی عمر پوچھی ہو بلکہ آپ نے تو جسمانی قوت وضعف کے لحاظ سے ان کی حالت کا اعتبار کیا تھا۔ اس لئے اس پر بنا پر عمر کا اعتبار کرنا غلط ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک موقعہ پر حضرت ابن عمر (رض) کو واپس کردیا تھا اور دوسرے موقعہ پر شرکت کی اجازت دے دی تھی۔ فقہاء کا اس پر اتفاق ہے کہ احتلام ہوجانا بلوغت کی پکی علامت ہے۔ البتہ اس صورت میں اختلاف رائے ہے جب ایک نوجوان پندرہ برس کی عمر کو پہنچ گیا ہو لیکن اسے ابھی تک احتلام نہ ہوا ہو۔ امام ابوحنیفہ کا قول ہے کہ ایسا لڑکا جب تک اٹھارہ سال مکمل نہیں کرلے گا اس وقت تک وہ بالغ قرار نہیں دیاجائے گا۔ لڑکی کے لئے سترہ سال کی عمر شرط ہے۔ امام ابوسیف ، امام محمد اور امام شافعی کا قول ہے کہ خواہ لڑکا ہو یا لڑکی پندرہ برس کی عمر کو پہنچ کر دونوں بالغ ہوجاتے ہیں۔ انہوں نے استدلال میں حضرت ابن عمر (رض) کی روایت کا حوالہ دیا ہے۔ ہم نے پہلے ہی بیان کردیا ہے کہ اس روایت کی اس امر پر کوئی دلالت نہیں ہے کہ حد بلوغ پندرہ برس ہے۔ اس پر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ آپ نے حضرت ابن عمر (رض) سے نہ عمر پوچھی تھی اور نہ ہ یہ سوال کیا تھا کہ تمہیں احتلام ہوا ہے یا نہیں۔ ہماری اس وضاحت سے جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ پندرہ برس کی عمر بلوغت کی حد نہیں ہے نیز ظاہر قول باری (والذین لم یبلغا الحلم منکم) بھی اس کی نفی کررہا ہے تو حد بلوغت کو ثابت کرنے کا ایک ہی طریقہ رہ گیا اور وہ یہ ہے ۔ ہم صغر یعنی کم سنی اور کبر یعنی بڑی عمر کے مفہوم سے پوری طرح آگاہ ہیں اور یہ بھی جانتے ہیں کہ ان دونوں کے درمیان بلوغت رابطہ کا کام دیتی ہے۔ اس لئے اجتہاد کے ذریعے اس کا پتہ چلانا درست ہوگا۔ ہماری اس وضاحت کی روشنی میں اجتہاد کے ذریعے بلوغت کے قائل پر کوئی اعتراض بھی وارد نہیں ہوگا جس طرح اس مجتہد پر کوئی اعتراض نہیں ہوتا جو مستہلکات یعنی صرف ہوجانے والی اشیاء کی تقوی نیز مہر مثل اور ایسی دیتوں کی تعیین میں اپنے اجتہاد سے کام لیتا ہے جن کی مقداروں کے سلسلے میں شریعت کی طرف سے کوئی ہدیات اور رہنمائی یا دلیل موجود نہیں ہوتی۔ اگر یہاں یہ کہا جائے کہ اس سے یہ لازم آیا ہے کہ جب مجتہد کسی نوعیت کی ترجیح کی بنیاد پر ایک خاص مقدار کا تعیین کردے تو یہی بات اسکی رائے میں دوسری مقداروں پر اس مقدار کی تغلیب کی موجب قرار دے دی جائے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ہمیں معلوم ہے کہ عادۃ پندرہ برس کی عمر بلوغت کی حد ہوتی ہے اور ایسے امور جن کے تعین میں عادات کا اعتبار کیا جاتا ہے ان میں کمی بیشی کی گنجائش ہوتی ہے ، ہمیں ایسے افراد بھی ملتے ہیں جو بارہ برس کی عمر میں بالغ ہوجاتے ہیں۔ ہم نے یہ بات واضح کردی ہے کہ پندرہ برس کی عمر جو بلغت کی معتاد عمر ہے اس میں کمی بیشی کی گنجائش ہوتی ہے۔ امام ابوحنیفہ نے بلوغت کے اس معتاد عمر میں اضافہ کو اس میں کمی کی طرح قرار دیا ہے۔ یہ اضافہ تین برس کا ہوتا ہے۔ جس طرح حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حمتہ (رض) بنت جحش سے یہ فرما کر کہ ( تخیضین فی علم اللہ ستا اوسبعا کما تحیض النساء فی کل شھر۔ ) اللہ کے علم کے مطابق تم حیض کے چھ یا سان دن گزارو گی جس طرح عورتیں ہر ماہ گزارتی ہیں۔ جب عورتوں کے حیض کے معتاد مقداد چھ یا سات دن مقرر کردی تو یہ حکم اس امر کا مقتضی ہوگیا کہ یہ مدت ساڑھے چھ دنوں کی بن جائے کیونکہ ساتویں دن کا معاملہ مشکوک ہوگیا تھا جس کا اظہار حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے قول (ستا وسبعا) کے ذریعے فرمادیا ہے پھر ہمارے نزدیک یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ معتادمدت سے کم کی مقدار ساڑھے تین دن ہوتی ہے کیونکہ ہمارے نزدیک حیض کی کم سے کم مدت تین دن ہے اور زیادہ سے زیادہ دس دن ہے۔ اس طرح معتاد مدت پر اضافہ اس مدت سے کم کے مقابل قرار دیا گیا۔ اس بنا پر ہماری زیر بحث نساد یعنی بلوغت کے بارے میں معتاد مدت پر اضافہ کا اسی طرح اعتبار کرنا واجب ہوگیا۔ لڑکے کی بلوغت کب ہوگی ؟ امام ابوحنیفہ سے لڑکے کی بلوغت کے لئے انیس سال کی روایت بھی منقول ہے اسے ہم اٹھارہ سال پورا کرکے انیسویں سال میں داخل ہونے پر محمول کریں گے۔ انبات یعنی موئے زیر ناف اُگ آنے پر بلوغ یا عدم بلوغ کے حکم کے متعلق اختلاف رائے ہے۔ ہمارے اصحاب نے اسے بلوغت کی نشانی قرار نہیں دیا ہے جبکہ امام شافعی اسے نشانی قرار دیتے ہیں۔ ظاہر قول باری (والذین لم یبلغوا الحلم منکم) احتلام نہ ہونے کی صورت میں انبات کو بلوغت قرار دینے کی اسی طرح نفی کرتی ہے جس طرح پندرہ برس کی عمر کو بلوغت قرار دینے کی نفی کررہا ہے۔ اسی طرح حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا قول (رفع القلم عن ثلاث……وعن الصبی حستی یحتلم) بھی اس کی نفی کررہا ہے۔ استفاضہ کی بنیاد پر اس حدیث کا درجہ مقبول حدیث کا ہے اس پر سلف اور سب کا عمل رہا ہے کہ نائم، مجنون اور بچہ مرفوع القلم ہوتے ہیں۔ جن حضرات نے انبات کو بلوغت کی نشانی قرار دیا ہے انہوں نے عبدالملک بن عمیر کی روایت سے استدلال کیا ہے۔ انہوں نے یہ روایت عطیہ القرظی سے نقل کی ہے اور عطیہ نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہ آپ نے بنوقریضہ کے تمام لوگوں کو قتل کردینے کا حکم دیا تھا جن کے موئے پر زیر ناف اگ آئے تھے اور جن کے نہیں اگے تھے انہیں زندہ رہنے دیا تھا۔ عطیہ قرظی کہتے ہیں کہ لوگوں نے میری تفتیش بھی کی، اور میرے اندار انبات نہ پاکر مجھے زندہ رہنے دیا۔ یہ اسی روایت ہے کہ اس کی بنیاد پر کوئی شرعی مسئلہ ثابت نہیں کیا جاسکتا کیونکہ حدیث کا راوی عطیہ مجہول ہے اور صرف اسی روایت میں اس کا نام آتا ہے۔ خاص طور پر جبکہ یہ روایت آیت سے متصادم ہے نیز حدیث سے بھی جس میں احتلام کے بغیر کی نفی کی گئی ہے۔ اس کے ساتھ یہ حقیقت بھی اپنی جگہ ہے کہ روایت کے الفاظ مختلف ہیں۔ بعض طرق میں یہ الفاظ آتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمام لوگوں کو قتل کرنے کا حکم دے دیا تھا جن کے موئے زبر ناف پر استرا پھر چکا تھا۔ اور بض طرق کے الفاظ یہ ہے کہ جن کے ازارسبز ہوں یعنی ازار کے نیچے موئے زیر ناف اگا ہو۔ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ ایک انسان اس حالت کو اسی وقت پہنچتا ہے جب وہ بالغہوچکا ہو۔ اور راستہ کا استعمال اسی وقت ہوتا ہے جب انسان پورا مرد بن جاتا ہے۔ آپ نے انبات اور استہ 7 کے استعمال کی عمر کی اس حد تک پہنچ جانے کے لئے کنایہ قرار دیا جس کا ہم نے عمر کے سلسلے میں ذکر کیا ہے یعنی اٹھارہ برس یا اس سے زائدعقبہ (رض) بن عامر اور ابوبصرہ (رض) غفاری کے متعلق روایت ہے کہ انہوں نے مال غنیمت میں اس شخص کا حصہ بھی رکھا تھا جس کا موئے زیر ناف اگ آیا تھا۔ لیکن اس روایت کی اس امر پر کوئی دلالت نہیں ہے کہ انہوں نے انبات کو بلوغت قرار دیا تھا کیونکہ بچوں کو مال غنیمت میں سے رضح یعنی کچھ تھوڑا سا دے دینا بھی جائز ہوتا ہے ۔ سلف کے ایک گروہ سے طول قامت کے اعتبار کی روایت بھی منقول ہے۔ لیکن فقہاء نے اس اعتبار کو قبول نہیں کیا ہے۔ محمد بن سیرین نے حضرت انس (رض) سے روایت کی ہے کہ حضرت ابوبکر (رض) کے پاس ایک لڑکا چوری کے الزام میں پکڑ کر لایا گیا۔ آپ نے اس کی قد کی پیمائش کا حکم دیا۔ پیمائش ایک پورہ کم نکلی آپ نے اسے چھوڑ دینے کا حکم دیا۔ قتادہ نے خلاص سے اور انہوں نے حضرت علی (رض) سے روایت کی ہے کہ جب ایک لڑکا پانچ بالشت کا ہوجائے تو اس پر حد جاری ہوجائیں گے۔ اس سے قصاص لیا جائے گا اور اس کے قاتل سے بھی قصاص لیا جائے گا اور اگر پانچ بالشت سے کم قد کے لڑکے کو کوئی شخص لڑکے کے گھر والوں کی اجازت کے بغیر اپنے ساتھ جرم میں شریک کرلے گا تو وہ تاوان بھرے گا۔ ابن جریج نے ابن ابی ملیکہ سے روایت کی ہے کہ حضرت عبداللہ بن الزبیر (رض) کے پاس عمر بن ابی ربیعہ کے ایک مزدور کو پکڑ کر لایا گیا جس نے چوری کی تھی۔ آپ نے اس کا ہاتھ کاٹ دیا اور فرمایا کہ حضرت عمر (رض) نے انہیں اہل عراق کے ایک لڑکے کے متعلق چوری کے سلسلے میں لکھا تھا کہ اس کے قد کی پیمائش کی جائے۔ پیمائش کرنے پر وہ ا کی پورہ کم نکلا چناچہ اس کا نام نمیلہ پڑگیا۔ انملہ انگلی کے پورے کو کہتے ہیں۔ ان روایات پر ابوبکر حبصاص تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ اقوال شاذہ ہیں اور ان کی اسانید بھی ضعیف ہیں۔ سلف سے ایسے اقوال کا وجود بعید از قیاس ہے۔ کیونکہ قد کی لمبائی یا کوتاہی نہ تو بلوغت کے ثبوت پر دلالت کرتی ہے اور نہ ہی اس کی نفی پر ۔ اس لئے کہ ایک انسان بیس برس کا ہوکر بھی ٹھگنے قد کا ہوسکتا ہے اور پندرہ برس کی عمر کو پہنچنے سے قبل بلوغت سے پہلے اس کا قداونچا ہوسکتا ہے۔ قول باری (ولذین لم یبلغوا الحلم منکم) اس پر دلالت کرتا ہے کہ جو لڑکا بالغ نہ ہوا لیکن اس میں عقل و شعور پیدا ہوچکا ہوا سے شریعت کے احکام پر عمل کرنے کا حکم دیا جائے گا اور قبائح کے ارتکاب سے روکا جائے گا اگرچہ وہ اہل تکلیف یعنی کلفین میں شمار نہیں ہوگا لیکن تعلیم کے طور پر اسے یہ حکم دیا جائے گا جس طرح اللہ تعالیٰ نے ایسے لڑکوں اور لڑکیوں کو تخلیہ کے اوقات میں اجازت لے کر اندر آنے کا حکم دیا ہے۔ عبدالمالک بن الربیع بن سبرہ الجہنی سے روایت ہے جو انہوں نے اپنے والد اور دادا کے واسطوں سے بیان کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے (اذا بلغ انعلام سبع سنین فمروہ بالصلوٰۃ واذا بلغ عشرا فاضبوہ علیھا) جب لڑکا سات برس کا ہوجائے تو اسے نماز پڑھنے کے لئے کہو اور جب اس کی عمر دس برس ہوجائے اور وہ نماز میں کوتاہی کرے تو اس کی پٹائی کرو۔ عمروبن شعیب نے اپنے والد اور دادا کے واسطوں سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد نقل کیا ہے۔ (مروا صبیانکم بالصلوٰۃ اذا بلغوا سیعا واضربوھم علیھا اذا بلغوا عشرا وفرقوا بینھم فی المضاجع) جب تمہارے بچے سات برس کی ہوجائیں تو انہیں نماز پڑھنے کے لئے کہو اور جب دس برس کو پہنچ جائیں تو نماز میں کوتاہی پر ان کی پٹائی کرو۔ اس عمر میں ان کے بستر الگ الگ کردو۔ حضرت ابن مسعود (رض) سے مروی ہے کہ نماز کے معاملے میں اپنے بچوں پر کڑی نظر رکھو۔ “ نافع نے حضرت ابن عمر (رض) سے ان کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ” بچہ جب اپنے دائیں بائیں میں امتیاز کرنا سیکھ لے تو وہ نماز سیکھنے کے قابل ہوجاتا ہے۔ حاتم بن اسماعیل نے جعفر بن محمد سے روایت کی ہے، انہوں نے اپنے والد سے کہ علی بن الحسین بچوں کو ظہر اور عصر نیز مغرب اور عشاء ایک ساتھ پڑھتے کا حکم دیتے تھے ۔ ان سے جب یہ پوچھا گیا کہ اس طرح بچے کے بغیر نماز ادا کرتے ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ بات ان کے نماز پڑھنے سے بہتر ہے۔ ہشام بن عروہ نے روایت کی ہے کہ عروہ اپنے بچوں کو اس وقت نماز پڑھنے کا حکم دیتے جب ان کے اندر نماز کی سمجھ پیدا ہوجاتی اور روزہ رکھنے کے لئے اس وقت کہتے جب ان میں روزہ رکھنے کی طاقت پیدا ہوجاتی۔ ابواسحاق نے عمرو بن شرجیل سے اور انہوں نے حضرت ابن مسعود (رض) سے روایت کی ہے کہ ” جب بچہ دس برس کا ہوجائے تو اس کے نامہ اعمال میں اس کی نیکیاں لکھی جاتی ہیں اور جب تک بالغ نہ ہوجانے اس وقت تک اس کی بدیاں نہیں لکھی جاتیں۔ “ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ لڑکے کو نماز کا حکم تعلیم کے طور پر اور عادی بنانے کی خاطر دیاجاتا ہے تاکہ اسے نماز پڑھنے کی مشق ہوجائے اور بالغ ہونے کے بعد اس کے لئے نماز کی ادائیگی آسان ہوجائے اور طبیعت میں نماز کی طرف سے کم از کم بےرغبتی پیدا ہو، یہی کیفیت شراب نوشی اور دوسری منہیات سے روکنے کی بھی ہے اس لئے کہ اگر اسے بچپن ہی سے نیکیوں کا حکم نہیں دیا جائے گا اور برائیوں سے روکا نہیں جائے گا بلکہ اسے اپنی مرضی کرنے کے لئے آزادچھوڑ دیا جائے گا تو بالغ ہوکر ان برائیوں سے پیچھا چھڑانا اور نیکیوں کی طرف مائل ہونا اس کے لئے مشکل ہوجائے گا۔ قول باری ہے : (قوانفسکم واھلیکم نارا) اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کو آگ سے بچائو۔ اس آیت کی تفسیر میں منقول ہے : ” انہیں ادب سکھائو اور علم پڑھائو۔ “ بچے اگرچہ مکلف نہیں ہوتے لیکن اس کے باوجود انہیں کفر اور شرک کے اعتقاد اور ان کے اظہار سے انہیں روکا جاتا ہے یہی بات احکام شرائع کے سلسلے میں بھی ضروری ہے۔ قول باری : (واذا بلغ الاطفال منکم الحلم) تا آخر آیت کا مفہوم یہ ہے کہ بچے جب سمجھ اور شعور کی عمر کو پہنچ جائیں تو انہیں بھی تمام اوقات میں اجازت لے کر اندر آنا چاہیے جس طرح ان سے پہلے لوگوں کے یہ ضروری ہے جن کا ذکر اس قول باری میں ہے (لا تدخلوا بیوتا غیر بیوتکم حتی تستانسوا وتسلموا علی اھلھا) آیت میں اس امر پر دلالت موجود ہے کہ احتلام بلوغت کی نشانی ہے۔ قول باری ہے : (لیس علیکم ولا علیھم جناح بعدھن طوافون علیکم بعضکم علی بعض) ان کے بعد وہ بلا اجازت آئیں تو نہ تم پر کوئی گناہ ہے نہ ان پر، تمہیں ایک دوسرے کے پاس بار بار آنا ہی ہوتا ہے۔ یعنی تخلیہ اور پردے کے ان تین اوقات کے بعد لونڈیوں کے لئے نیز ان کے لئے جو ابھی عقل اور سمجھ کو حدکو نہ پہنچے ہوں اجازت لئے بغیر آنا درست ہے کیونکہ یہ تین اوقات تخلیہ اور کپڑوں کے بغیر آرام کے اوقات ہیں لیکن ان کے بعد تمام اوقات تن پوشی نیز ان لوگوں کے آنے کے اوقات ہیں جن کے لئے ہر دفعہ اجازت لینا اس بنا پر مشکل ہوتا ہے کہ انہیں بار بار آنا جانا پڑتا ہے۔ قول باری (طوافون علیکم بعضکم علی بعض) کا یہی مفہوم ہے۔ عشاء کی نماز کے نام کے متعلق بیان قول باری ہے (ومن بعد صلوٰۃ العشاء۔ اور عشاء کی نماز کے بعد) حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا : (لا تغلبنکم الاعراب علی اسم صلاتکم فان اللہ قال (ومن بعد صلوٰۃ العشاء) وان الاعراب یسمونھا العتمۃ وانما العتمۃ عتمۃ الابل للحلاب) بدوی لوگ تمہاری نماز کے نام کے سلسلے میں تم پر غالب نہ آجائیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے (اور عشاء کی نماز کے بعد) جبکہ بدوی اسے عتمہ کے نام سے پکارتے ہیں۔ حالانکہ عتمہ اونٹوں کا دودھ نکالنے کے لئے رات کی تاریکی یا تہائی رات گزر جانے کا نام ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥٨) اے ایمان والو تمہارے پاس آنے کے لیے تمہارے چھوٹے غلاموں کو اور تمہارے آزادوں کو جو ابھی تک حد بلوغ کو نہیں پہنچے، تین وقتوں میں اجازت لینی چاہیے ایک تو صبح صادق کے وقت نماز صبح سے پہلے اور دوپہر کو آرام کے وقت ظہر کی نماز پڑھنے تک اور تیسرے نماز عشاء کے بعد سے صبح صادق تک، یہ تین وقت تمہارے پردہ اور خلوت کے ہیں، حضرت عمر فاروق (رض) نے فرمایا تھا کہ میری خواہش ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے ان تینوں خلوت کے وقتوں میں ہمارے بچوں اور خادموں کو بلااجازت آنے کی ممانعت فرما دے چناچہ اس وقت یہ آیت نازل ہوئی۔ ان اوقات کے علاوہ پھر بلااجازت آنے جانے کی اللہ تعالیٰ نے اجازت مرحمت فرما دی، چناچہ فرمایا کہ ان تین اوقات کے علاوہ نہ گھر والوں پر کوئی الزام ہے اور نہ ان نابالغ لڑکوں اور خادموں پر کیوں کہ وہ بکثرت تمہارے پاس آتے جاتے رہتے ہیں کوئی کسی کے پاس کوئی کسی کے پاس اور بہرحال بڑے غلام اور نوجوان لڑکے ان کو آنے کے لیے ہر مرتبہ اجازت لینا ضروری ہے اللہ تعالیٰ اسی طرح تم سے اوامرو نواہی کو کھول کھول کر بیان کرتا رہتا ہے جیسا کہ ان احکامات کو بیان کیا اور اللہ تعالیٰ تمہاری مصلحتوں کو جاننے والا اور حکمت والا ہے، چناچہ بڑوں کو آنے کے لیے ہر مرتبہ اجازت لینے کا حکم دیا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

اب سورت کے آخر میں معاشرتی و سماجی معاملات کے بارے میں دوبارہ کچھ ہدایات دی جا رہی ہیں۔ مضامین کی ترتیب کے اعتبار سے اس سورت کی مثال ایک ایسے خوبصورت ہار کی سی ہے جس کے درمیان میں ایک بہت بڑا ہیرا ہے اور اس کے دونوں اطراف میں موتی جڑے ہوئے ہیں۔ سورت کا پانچواں رکوع (جو اس کا وسطی رکوع ہے) اس طرح شروع ہوتا ہے : (اَللّٰہُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِط مَثَلُ نُوْرِہٖ کَمِشْکٰوۃٍ فِیْہَا مِصْبَاحٌط اَلْمِصْبَاحُ فِیْ زُجَاجَۃٍ ط) ۔ یہ اس سورت کی آیت ٣٥ ہے جو سورت کے تقریباً وسط میں کوہ نور ہیرے کی مانند ہے اور اس کے دونوں اطراف میں معاشرتی و سماجی احکام موتیوں کی طرح جڑے ہوئے ہیں۔ ان میں سے کچھ احکام پہلے چار رکوعات میں ہیں اور کچھ آخری چار رکوعات میں۔ (وَالَّذِیْنَ لَمْ یَبْلُغُوا الْحُلُمَ مِنْکُمْ ثَلٰثَ مَرّٰتٍ ط) ” دن رات میں تین اوقات تمہاری خلوت (privacy) کے اوقات ہیں۔ ان اوقات میں تمہارے غلام ‘ باندیاں اور بچے بھی بلا اجازت تمہاری خلوت میں مخل نہ ہوں۔ ان اوقات کی تفصیل یہ ہے : (ثَلٰثُ عَوْرٰتٍ لَّکُمْ ط) ” یعنی یہ تمہاری خلوت (privacy) کے اوقات ہیں۔ ان اوقات میں تمہارے خادموں اور تمہارے بچوں کا اچانک تمہارے پاس آجانا مناسب نہیں ‘ لہٰذا انہیں یہ ہدایت کردی جائے کہ وہ ان اوقات میں تمہاری خلوت کی جگہ آنے لگیں تو پہلے اجازت لے لیا کریں۔ (لَیْسَ عَلَیْکُمْ وَلَا عَلَیْہِمْ جُنَاحٌم بَعْدَہُنَّ ط) ” یعنی ان اوقات کے علاوہ تمہارے غلام ‘ باندیاں یا بچے اگر تمہارے پاس بغیر اجازت آئیں جائیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ (طَوَّافُوْنَ عَلَیْکُمْ بَعْضُکُمْ عَلٰی بَعْضٍ ط) ” یعنی گھر کے اندر ادھر ادھر مختلف کاموں کے لیے مختلف افراد کو وقتاً فوقتاً آنا جانا ہوتا ہے۔ اس طرح کی آمد و رفت پر ان خاص اوقات کے علاوہ کوئی پابندی نہیں ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

85. From here again, the commandments for social life are being resumed. It is just possible that this portion of Surah An-Noor was revealed at a later date. 86. According to the majority of commentators and jurists, this refers to both male and female slaves. Ibn Umar and Mujahid, however, have expressed the opinion that it refers to the male slaves only. But in view of the commandment that follows there appears to be no reason for making this distinction. Violation of one’s privacy by his children is as undesirable as by his female slaves. All jurists agree that the commandment given in this verse is applicable both to the minor and to the grown up slaves. 87. Another translation can be: Who have not yet reached the age of seeing wet dreams. From this the jurists have deduced the principle that in case of boys puberty starts when they begin having nocturnal emissions. But the translation that we have adopted is preferable because the injunction is meant both for boys and for girls. If nocturnal emission is taken as the sign of attaining puberty, the injunction would be confined to boys only, because in the case of girls it is the menstrual discharge, and not nocturnal emission, which marks the beginning of puberty. In our opinion the intention is that the children of the house should follow this procedure till the time that they become sex conscious. After they have become sex conscious they have to follow the injunction that follows. 88. Literally aurat is a place of danger and trouble; it also means a private part of the body which one would not like to expose before others, and something which is not fully secured. All these meanings are close to each other and all are implied in the meaning of this verse. The verse means to say that these are your times of privacy when you are either alone or with your wives in a state when it is not proper for your children and servants to come in to see you unannounced. Therefore, they should be instructed that they must take your permission before coming in to see you in your places of privacy at these three times. 89. That is, at other times than these, there is no restriction on the entry of minor children and slaves in your private rooms without permission. If on such an occasion you are not properly dressed and they enter without permission, you will have no right to take them to task. For in that case, it will be your own folly to have kept yourself in an improper state at a time when you should have been properly dressed for the day’s business. However, if they enter without permission during the times of privacy, the blame will lie with them provided they have been taught the necessary etiquette. 90. This is the reason for the general permission for children and slaves to come without permission at other times than those mentioned above. This throws light on a fundamental fiqh principle that every religious injunction is based on some wisdom or good reason, whether it has been explained or not.

سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :85 یہاں سے پھر احکام معاشرت کا سلسلہ شروع ہوتا ہے ۔ بعید نہیں کہ سورہ نور کا یہ حصہ اوپر کی تقریر کے کچھ مدت بعد نازل ہوا ہو ۔ سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :86 جمہور مفسرین و فقہاء کے نزدیک اس سے مراد لونڈیاں اور غلام دونوں ہیں ، کیونکہ لفظ عام استعمال کیا گیا ہے ۔ مگر ابن عمر اور مجاہد اس آیت میں مملوکوں سے مراد صرف غلام لیتے ہیں اور لونڈیوں کو اس سے مستثنیٰ کرتے ہیں ۔ حالانکہ آگے جو حکم بیان کیا گیا ہے اس کو دیکھتے ہوئے اس تخصیص کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی ۔ تخلیہ کے اوقات میں جس طرح خود اپنے بچوں کا اچانک آجانا مناسب نہیں اسی طرح خادمہ کا بھی آ جانا غیر مناسب ہے ۔ یہ امر متفق علیہ ہے کہ اس آیت کا حکم بالغ و نا بالغ دونوں قسم کے مملوکوں کے لیے عام ہے ۔ سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :87 دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بالغوں کا سا خواب دیکھنے کی عمر کو نہیں پہنچے ہیں ۔ اسی سے فقہاء نے لڑکوں کے معاملے میں احتلام کو بلوغ کا آغاز مانا ہے اور اس پر سب کا اتفاق ہے ۔ لیکن جو ترجمہ ہم نے متن میں اختیار کیا ہے وہ اس بنا پر قابل ترجیح ہے کہ یہ حکم لڑکوں اور لڑکیوں ، دونوں کے لیے ہے ، اور احتلام کو علامت بلوغ قرار دینے کے بعد حکم صرف لڑکوں کے لیے خاص ہو جاتا ہے ، کیونکہ لڑکی کے معاملہ میں ایام ماہواری کا آغاز علامت بلوغ ہے نہ کہ احتلام ۔ لہٰذا ہمارے نزدیک حکم کا منشا یہ ہے کہ جب تک گھر کے بچے اس عمر کو نہ پہنچیں جس میں ان کے اندر صنفی شعور بیدار ہوا کرتا ہے ، اور اس قاعدے کی پابندی کریں ، اور جب اس عمر کو پہنچ جائیں تو پھر ان کے لیے وہ حکم ہے جو آگے آرہا ہے ۔ سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :88 اصل میں لفظ عورات استعمال ہوا ہے اور فرمایا گیا ہے کہ یہ تین وقت تمہارے لیے عورات ہیں ۔ عورت اردو میں تو صنف اُناث کے لیے بولا جاتا ہے مگر عربی میں اس کے معنی خلل اور خطرے کی جگہ کے ہیں ، اور اس چیز کے لیے بھی بولا جاتا ہے جس کا کھل جانا آدمی کے لیے باعث شرم ہو ، یا جس کا ظاہر ہو جانا اس کو ناگوار ہو ، نیز اس معنی میں بھی یہ مستعمل ہے کہ کوئی چیز غیر محفوظ ہو ۔ یہ سب معنی باہم قریبی مناسبت رکھتے ہیں اور آیت کے مفہوم میں کسی نہ کسی حد تک سبھی شامل ہیں ۔ مطلب یہ ہے کہ ان اوقات میں تم لوگ تنہا ، یا اپنی بیویوں کے ساتھ ایسی حالتوں میں ہوتے ہو جن میں گھر کے بچوں اور خادموں کا اچانک تمہارے پاس آ جانا مناسب نہیں ہے ، لہٰذا ان کو یہ ہدایت کرو کہ ان تین وقتوں میں جب وہ تمہاری خلوت کی جگہ آنے لگیں تو پہلے اجازت لے لیا کریں ۔ سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :89 یعنی ان تین وقتوں کے سوا دوسرے اوقات میں نا بالغ بچے اور گھر کے مملوک ہر وقت عورتوں اور مردوں کے پاس ان کے کمرے میں یا ان کے تخلیے کی جگہ میں بلا اجازت آ سکتے ہیں ۔ اس صورت میں اگر تم کسی نا مناسب حالت میں ہو اور وہ بلا اجازت آ جائیں تو تمہیں ڈانٹ ڈپٹ کرنے کا حق نہیں ہے ، کیونکہ پھر یہ تمہاری اپنی حماقت ہوگی کہ کام کاج کے اوقات میں اپنے آپ کو ایسی نامناسب حالت میں رکھو ۔ البتہ اگر تخلیے کے مذکورۂ بالا تین اوقات میں وہ بلا اجازت آ جائیں ، تو وہ قصور وار ہیں اگر تمہاری تربیت و تعلیم کے باوجود یہ حرکت کریں ، ورنہ تم خود گناہ گار ہو اگر تم نے اپنے بچوں اور مملوکوں کو یہ تہذیب نہیں سکھائی ۔ سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :90 یہ وجہ ہے اس اجازت عام کی جو تین اوقات مذکورہ کے سوا دوسرے تمام اوقات میں بچوں اور مملوکوں کو بلا اجازت آنے کے لیے دی گئی ہے ۔ اس سے اصول فقہ کے اس مسئلے پر روشنی پڑتی ہے کہ شریعت کے احکام مصلحت پر مبنی ہیں ، اور ہر حکم کی کوئی نہ کوئی علت ضرور ہے ، خواہ وہ بیان کی گئی ہو یا نہ کی گئی ہو ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

42: آیات ٢٧ تا ٢٩ میں یہ حکم دیا گیا تھا کہ کسی دوسرے کے گھر میں اجازت مانگے بغیر داخل نہیں ہونا چاہئیے، عام طور سے مسلمان اس حکم پر عمل کرنے لگے تھے لیکن کسی گھر کے غلام باندیوں اور نابالغ لڑکے لڑکیوں کو چونکہ بکثرت گھروں میں آنا جانا رہتا تھا، اس لئے وہ اس حکم کی پابندی نہیں کرتے تھے، چنانچہ بعض واقعات ایسے پیش آئے کہ یہ لوگ کسی کے گھر میں ایسے وقت بلا اجازت داخل ہوگئے جو اس کے آرام اور تنہائی کاو قت تھا، جس سے نہ صرف یہ کہ ا سکو تکلیف ہوئی بلکہ بے پردگی بھی ہوئی اس پر یہ آیات نازل ہوئیں اور ان میں یہ واضح کردیا گیا کہ کم از کم تین اوقات میں ان لوگوں کو بھی بلااجازت گھروں میں داخل نہیں ہونا چاہئیے، یہ تین اوقات وہ ہیں جن میں عام طور سے انسان تنہائی پسند کرتا ہے اور بے تکلفی سے صرف ضروری کپڑوں میں رہنا چاہتا ہے، اور ایسے میں کسی کے اچانک آجانے سے بے پردگی کا بھی احتمال رہتا ہے، البتہ دوسرے اوقات میں چونکہ یہ خطرہ نہیں ہے اس لئے ضرورت کی وجہ سے ان کو بلا اجازت بھی چلے جانے کی اجازت دی گئی ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٥٨۔ ٥٩:۔ شروع سورت میں ہر وقت گھر والوں سے اجازت لے کر پرائے گھر میں جانے کا حکم تھا ‘ ان آیتوں میں غلاموں اور نابالغ لڑکوں کو یہ حکم ہے کہ فجر کی نماز سے پہلے ‘ دوپہر ‘ اور عشاء کی نماز کے بعد غلام اپنے آقا کے اور نابالغ لڑکے اپنے رشتہ داروں کے گھر میں بغیر اجازت کے نہ جاویں ‘ یہ تینوں وقت لوگوں کے آرام کرنے اور ننگے کھلے رہنے کے ہیں ‘ اس واسطے ان وقتوں کے لیے یہ خاص حکم نازل فرمایا اگرچہ سلف کا اس میں اختلاف ہے کہ اَلَّذِیْنَ مَلَکَتْ اَیْمَا نُکُمْ میں غلام لونڈی دونوں داخل ہیں یا یہ حکم فقط غلاموں کے لیے ہے مگر حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) کا صحیح قول یہی ہے کہ اس حکم میں لونڈی داخل نہیں ہے ‘ حاصل مطلب آیتوں کا یہ ہے کہ اے ایمان والو ! تم اپنے غلاموں اور نابالغ لڑکوں سے کہہ دو کہ جن تین وقتوں کا ذکر آیتوں میں ہے ان تین وقتوں میں تمہارے یہ غلام اور نابالغ لڑکے پروانگی مانگ کر تمہارے پاس آیا کریں کیونکہ یہ تینوں وقت تمہارے اور تمہاری عورتوں کے ننگے کھلے رہنے کے ہیں اور یہ لوگ ہر وقت تمہارے پاس آیا جایا کرتے ہیں ‘ ہر گھڑی ان کا پروانگی مانگنا مشکل ہے اس لیے ان تینوں وقتوں کے علاوہ اور وقتوں میں یہ لوگ بغیر پروانگی بھی تمہارے پاس آجاویں تو کچھ مناہی نہیں ہے ‘ پھر فرمایا ‘ جب یہ نابالغ لڑکے بالغ ہوجاویں تو جس طرح ان کے بالغ ہوجانے سے پہلے کے لوگوں پر ہر وقت پروانگی مانگ کر گھر میں آنے کا حکم ہے وہی حکم ان کے حق میں بھی ہوگا پھر تین وقتوں کی خصوصیت باقی نہ رہے گی ‘ ہاں بالغ نابالغ سب غلاموں کے لیے تین وقتوں کی خصوصیت ہے ‘ غلام اور نابالغ لڑکے علیحدہ مکان میں سوتے بیٹھتے ہوں تو حسن بصری کے قول کے موافق ١ ؎ پروانگی کا حکم ہے ‘ نہیں تو نہیں ‘ دونوں آیتوں کے آخر میں فرمایا اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی ہر طرح کی ضرورتوں کو خوب جانتا ہے ‘ اس لیے اس نے یہ پروانگی مانگنے کا حکم حکمت اور تدبیر سے دیا ہے ‘ جو علماء اس بات کے قائل ہیں کہ غلام سے پردہ نہیں ہے ان آیتوں میں ان کے قول کی پوری تائید ہوتی ہے کیونکہ ان آیتوں میں سوائے تین وقتوں کے اور سب وقتوں میں غلام کو بغیر پروانگی آقا کے گھر میں جانے کی اجازت ہے صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے سہل بن سعد کی حدیث اس سورة میں گزر چکی ٢ ؎ ہے کہ بغیر پروانگی کے مانگنے کے کسی شخص نے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ایک زنانہ حجرہ میں جھانکنے کی جرأت کی ‘ جب اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس شخص کی جرأت کا حال سنا تو فرمایا کسی کے گھر میں جانے سے پہلے پروانگی کے مانگنے کا حکم اسی واسطے نازل ہوا ہے کہ بیخبر کسی کے گھر کے اندر گھس جانے سے ننگی کھلی عورتوں پر نظر نہ پڑے اس واسطے اگر میں اس شخص کو حجرہ میں جھانکتے ہوئے دیکھ لیتا تو اس کی آنکھ پھوڑ ڈالتا ‘ اس حدیث کو آیتوں کے ساتھ ملانے سے یہ مطلب ہوا کہ جس طرح اجنبی لوگوں کو ہر وقت بغیر پروانگی کے پرائے گھر میں جانے کی سخت مناہی ہے ‘ خاص تین وقتوں میں وہی سخت مناہی غلام اور نابالغ لڑکوں کے حق میں ہے کہ ان تینوں وقتوں میں بلا پروانگی کے غلام اپنے آقا کے اور نابالغ لڑکا اپنے رشتہ داروں کے گھر میں ہرگز نہ جاوے۔ (١ ؎ یعنی اجازت حاصل کرنا ) (٢ ؎ یعنی ص ٢٤٩ پر )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(24:58) لیستاذنکم۔ فعل امر واحد مذکر غائب کم ضمیر مفعول جمع مذکر حاضر۔ یستاذن میں صیغہ واحد مذکر غائب کا ہے لیکن جمع مذکر غائب کے لئے استعمال ہوا ہے چاہے کہ وہ تم سے اجازت لے لیا کریں۔ (1) الذین ملکت ایمانکم۔ وہ جن کے تمہارے دائیں ہاتھ مالک ہوئے۔ یعنی تمہارے مملوک ۔ غلام۔ ملازم۔ (2) والذین لم یبلغوا الحلم منکم۔ اور تم میں سے وہ جو ابھی بلوغت کو نہیں پہنچے۔ الحلم۔ الحلم کے معنی نفس و طبیعت پر ایسا ضبط رکھنا کہ غیظ وغضب کے موقع پر بھڑک نہ اٹھے۔ اس کی جمع احلام ہے حلم کے معنی متانت کے ہیں مگر چونکہ متانت بھی عقل کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے اس لئے حلم کا لفظ بول کر عقل مراد لے لیتے ہیں جیسا کہ مسبب بول کر سبب مراد لیا جاتا ہے۔ حلم یحلم (باب کرم) حلم درگذر کرنا۔ بردبار ہونا۔ حلیم صفت۔ مؤنث حلیمۃ حلم (تفعیل) اور تحلم (تفعل) بردبار بنادینا۔ سن بلوغت کو بھی حلم کہا جاتا ہے کہ اس عمر میں عام طور پر عقل وتمیز آجاتی ہے۔ حلم یحلم (نصر) فی نومہ۔ خواب دیکھنا۔ قالوا اضغاث احلام (12:44) انہوں نے کہا کہ یہ تو پریشان سے خواب ہیں۔ حلم بروزن عنق۔ خواب میں جماع کرنا۔ اسی سے احتلام ہے۔ ثلاث مرات۔ ای ثلاث اوقات فی الیوم واللیلۃ۔ یعنی رات اور دن کے تین اوقات ہیں۔ تضعون۔ جمع مذکر حاضر مضارع معروف وضع مصدر (باب فتح) تم اتار کر رکھتے ہو۔ جیسے وضعت المراۃ خمارھا۔ عورت کا اوڑھنی اتارنا۔ حین تضعون ثیابکم۔ جب تم اپنے کپڑے اتارتے ہو۔ الظھیرۃ۔ دوپہر۔ وقت ظہر۔ ٹھیک دوپہر میں جو گرمی کی شدت ہوتی ہے وہ ظھیرۃ کہلاتی ہے۔ سردیوں میں دوپہر کو ظھیرہ نہیں بولتے۔ قرآن مجید میں اس سے قیلولہ کا وقت مراد ہے ! ثلث عورات۔ تین اوقات پردے کے۔ بعدھن میں ضمیر جمع مؤنث غائب انہیں تین اوقات کی طرف راجع ہے۔ طوفون۔ طوف اور طواف سے مبالغہ کا صیغہ ہے جمع مذکر ۔ بہت پھرتے رہنے والے۔ کثرت سے آنے جانے والے۔ زیادہ چکر کاٹنے والے۔ یہاں مراد لونڈی، غلام، خادم ہیں جو گھروں سے اندر باہر چکر کاٹتے رہتے ہیں۔ طوفون علیکم بعضکم علی بعض۔ انہیں تمہارے پاس اکثر آنا جانا ہوتا ہے۔ اور تمہیں ایک دوسرے کے پاس آنا جانا ہوتا ہے۔ ای طوافون علیکم وطوافون بعضکم علی بعض۔۔ طوافون علیکم میں طوافون سے مراد مملوک اور نابالغ جن کا ذکر شروع آیۃ میں آیا ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

1 ۔ لفظی ترجمہ یہ ہے کہ ” وہ احتلام کی عمر کو نہیں پہنچتے مراد ہے کہ ابھی بچے ہیں۔ 2 ۔ یعنی جن میں تم تنہایا اپنی بیویوں کے ساتھ ایسی حالت میں ہوتے ہیں کہ غلاموں اور بچوں کا تمہارے پاس اچانک آپہنچا مناسب نہیں۔ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں : ” اکثر لوگ اس آیت پر ایمان نہیں لائے (یعنی اس پر عمل کرنے سے بےپروا ہیں) میں تو اپنی چھوٹی سی بچی کو بھی جو سامنے کھڑی ہے حکم دیتا ہوں کہ ان اوقات میں اذن لے کر آیا کرے۔ (ابن کثیر۔ شوکانی) 3 ۔ اگر ان کے لئے بھی ضروری کردیا جاتا کہ جب آئیں اجازت لے کر آئیں تو گھرکے کام کاج میں سخت دقت پیش آتی۔ گویا خدمت گزاری کی ضرورت کے پیش نظر اجازت دی گئی ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

(رکوع نمبر ٨) اسرارومعارف اور اسلامی معاشرہ تو ایک پاکیزہ معاشرہ ہے جسے باطل قوتیں دبا نہیں سکتیں مگر اس کی پاکیزگی اور اس کی قوت کو قائم رکھنا مسلمانوں کا فریضہ ہے جیسے پہلے گھر آنے کے لیے آداب اور اجازت لینے کی تعلیم دی گئی تو یہاں گھر کے اندر رہنے والوں کے لیے ارشاد ہوتا ہے تمہارے لونڈی غلام نوکر چاکر اور چھوٹے بچے بھی اگر گھر کے کسی فرد کے کمرے میں جانا چاہیں تو تین اوقات ضرور اجازت لے کر جائیں ، صلوۃ فجر سے پہلے یا جب تم لوگ دوپہر کو آرام کرتے ہو اور زائد لباس وغیرہ اتار دیتے ہو اور عشاء کی نماز کے بعد کہ یہ تین اوقات ایسے ہیں جن میں آدمی بےتکلفی سے آرام کر رہا ہوتا ہے اور اپنے کمرے کے اندر پردے وغیرہ کا خیال نہیں رکھتا جیسے میاں بیوی ہوں اور بےتکلفی ہو رہی ہو یا کوئی اکیلے میں بھی مختصر لباس میں آرام کر رہا ہو تو ان اوقات کے بارے بچوں کو بھی سکھایا جائے کہ وہ بلا اجازت ہر کمرے میں نہ گھسا کریں کہ ویسے تو عادتا گھر کے تمام افراد ایک دوسرے سے ہر وقت ملتے اور ایک دوسرے کے پاس بیٹھتے یا کمروں میں آتے جاتے رہتے ہیں تو خاص آرام کے اوقات میں مخل نہ ہونا کوئی مشکل کام نہیں اور نہ علاوہ ان اوقات کے آنے جانے میں کوئی حرج ہے ، یہ احکام اللہ کریم تمہارے فائدے اور تعمیر اخلاق کے لیے ارشاد فرماتا ہے کہ وہ ہر بات سے واقف اور حکیم ودانا ہے اور جب بچے بالغ ہوجائیں تو اجازت حاصل کرنے کے احکام پہلے موجود ہیں جیسے ان سے پہلے جوان اور بالغ اجازت حاصل کرتے ہیں ویسا ہی وہ بھی کریں کہ اسلامی معاشرہ خوبصورت پاکیزہ آرام دہ ہو یہی اس کی قوت کا باعث ہے اور اللہ کریم تمہاری ہی بہتری اور سربلندی کے لیے ان باتوں کو بڑی وضاحت سے اور ہر پہلو سے بیان فرماتے ہیں کہ اللہ ہر حال اور ہر ضرورت سے باخبر اور حکیم ودانا ہے کہ ہر ضرورت کا خوبصورت حل ارشاد فرماتے ہیں اور ایسے ہی وہ خواتین جو عمر رسیدہ ہوں یعنی نکاح کی عمر سے گزر چکی ہوں اور انہیں اب جنس سے رغبت نہ رہی ہو تو وہ اگر زائد لباس جو پردے وغیرہ کے لیے ہوتا ہے نہ بھی پہنیں تو حرج نہیں مگر زینت کے لیے زیور وغیرہ پہن کر یا بناؤ سنگھار کرکے لوگوں کے سامنے آنے کی انہیں بھی اجازت نہیں ، ہاں عمر کے لحاظ سے بےتکلفی سے رہیں تو خیر ہے اور اگر اس سے بھی بچ سکیں اور باپردہ ہی رہیں تو وہ بہت ہی بہتر ہے اور اسی میں ان کی پوری بھلائی ہے کہ اللہ جل جلالہ تو ہر ایک کی سنتا ہے اور ہر شے سے واقف ہے ۔ اور اگر تم سب مل جل کر کسی اپنے عزیز یا رشتہ دار کے گھر یا اپنے گھر دوسرے کو کھانا کھلا دو یا ان افراد کو جو کسی بیماری کا شکار ہیں اپنے ساتھ کھانے میں شامل کرلو تو یہ کوئی حرج کی بات نہیں جیسے غیر اسلامی معاشرہ میں ایسے لوگ نفرت کا شکار ہوتے ہیں ، اسلامی معاشرہ میں یہ نہ ہونا چاہیے ۔ (معذورین کی دل جوئی اور آپس میں مل کر کھانا) صد افسوس کہ اس دور کی غیر اسلامی برائی یعنی معذورین سے نفرت آج کے مسلمانوں نے اپنا لی اور وہ خوبی جو اللہ جل جلالہ نے مسلمانوں کو تعلیم فرمائی تھی کہ معذورین کا خیال رکھا جائے حتی کہ انہیں ساتھ کھانے میں کبھی کبھی شریک کرلیا جائے ۔ یہ غیر اسلامی معاشرہ نے اختیار کرلی ورنہ نزول قرآن کے وقت تو غریب یا معذور سے کلام کرنا خلاف شان تصور ہوتا تھا جب ارشاد ہوا اس میں کوئی حرج نہیں کہ اندھے ، لنگڑے ، تکلیف میں مبتلا یا کسی بیمار کو یا خود بھی ساتھ اپنے ہی گھروں میں سے کسی بھی گھر میں کھلاؤ پلاؤ اس کی حاجت پوری ہو اور دلجوئی بھی ہو جیسے تم والدین کے گھر یا اپنے بھائی کے گھر کسی بہن کے گھر یا چچا یا پھوپھی کے گھر یا ایسے ہی خالہ کے گھر یا کسی ایسے بےتکلف دوست کے گھر جس کی چابی تک تمہیں دے سکتے ہوں اگر ان گھروں میں دعوت کرو یا اکیلے جانا ہو تو کھا پی لو کوئی مضائقہ نہیں اور معذورین کو بلا کر کھلانا چاہیے اور جب بھی گھر میں داخل ہوا کرو یا اکیلے جانا ہو تو کھا پی لو کوئی مضائقہ نہیں اور معذورین کو بلا کر کھلانا چاہیے اور جب بھی گھر میں داخل ہوا کرو تو نیکی اور سلامتی کی دعا ، یعنی سلام ضرور کیا کرو کہ اللہ جل جلالہ کے نزدیک بہت بابرکت بھی ہے اور بہت صاف ستھری بات اور معاشرے کی پاکیزگی کا سبب بھی ہے اللہ کریم تمہیں کس قدر عقل و شعور کی تعلیم دیتے ہیں کہ تمہاری حیات حکیمانہ اور دانشمندانہ ہوجائے ۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن : آیت نمبر 58 تا 60 : لم یبلغوا (نہیں پہنچے۔ بالغ نہیں ہوئے) ‘ الحلم (سمجھ۔ عقل۔ شعور) ‘ مرات (مرۃ) کئی مرتبہ ۔ بار بار ‘ (تضعون) تم اتار کر رکھ دیتے ہو ‘(ثیاب (ثوب) کپڑے ‘ عورت (عورۃ) چھپانے کی چیزیں ‘(طوافون) پھرا کرتے ہیں۔ آتے جاتے رہتے ہیں ‘(الاطفال) (طفل) بچے ‘(استاذن) اجازت مانگی (القواعد) (قاعدۃ) بیٹھ رہنے والیاں۔ بڑی بوڑھیاں ‘ لایرجون (وہ امید نہیں رکھتے۔ توقع نہیں رکھتے) ‘ غیر متبرجت (ظاہرنہ کرتی ہوں) ‘ ان یستعففن (یہ کہ وہ بچپن) ‘۔ تشریح : آیت نمبر 58 تا 60 : قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اور احادیث میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایسے قاعدے طریقے مقرر فرمادیئے ہیں جن کی پابند کرنے سے انسان کو انتہائی پاکیزہ ‘ کامیاب اور پر سکون زندگی نصیب ہو سکتی ہے۔ اگر اللہ و رسول کے بتائے ہوئے مقررہ اصولوں کو تڑاجائے گا یا ان کی مخالفت کی جائے گی تو اس سے انسانی زندگی کے تمام معاملات بگڑ سکتے ہیں اور اس کو آخرت کی راحتوں سے محروم کرسکتے ہیں۔ چنانچہ سورة نور میں ابتداء ہی سے نہایت اہم احکامات ارشاد فرمائے گئے ہیں زنا ‘ اس کی سزا ‘ پاک دامن عورتوں پر تہمت اور الزام لگانے کی سزا ‘ لعان کے احکامات دوسروں کے گھروں میں داخل ہوتے وقت اجازت لے کر جانا ‘ مردوں اور عورتوں کو ایک دوسرے کو دیکھتے ہوئے نگاہیں نیچی رکھنا ‘ زیب وزینت کا نامحرموں پر ظاہر نہ کرنا ‘ بےنکاحوں کا نکاح کرنا ‘ غلام اور باندیوں کے حقوق کا تحفظ ‘ ان کو زنا پر مجبور نہ کرنا ‘ نور ہدایت کی وضاحت ‘ مخلص مومنوں کی صفات ‘ کفار کے برے اعمال کی بدترین سزائیں وغیرہ احکامات بیان کرنے کے بعد دو اہم احکامات ارشاد فرمائے جارہے ہیں۔ (1) انسان جب تھکا ماندہ اپنے گھر کے اندر پہنچتا ہے تو وہ اپنے گھر میں اپنے معمولات اور پہننے اوڑھنے میں نہایت سادگی ‘ آزادی اور بےتکلفی سے رہنا چاہتا ہے۔ اگر کوئی شخص اچانک آجائے تو وہ اخلاقاتوں کچھ نہ کہے گا ملر دل میں محسوس ضرور کرے گا۔ اس لئے یہ حکم یدا گیا کہ جب کسی کیگھرجائیں تو اجازت لے کرجائیں۔ اگر وہ کسی وجہ سے اس وقت ملنا پسند نہیں کرتا تو اس کو واپس لوٹ جانے میں اپنی توہین محسوس نہ کرنا چاہیے۔ لیکن تین وقت ایسے ہیں جن میں ایک نا بالغ بچے یا لونڈی غلام کا بےتکلف چلے آنا بھی نا گوار گذرسکتا ہے۔ اس لء فرمایا کہ فجر کی نماز سے پہلے ‘ دن میں دوپہر کو اس وقت جب آدمی بےتکلف اپنے گھر میں زائد کپڑے اتار کر آرام کر کتا ہے یا نماز عشاء کے بعد اپنے گھر میں رہتا ہے فرمایا کہ ان تین اوقات میں گھر کے لونڈی ‘ غلاموں اور نا بالغ بچے بھ یا جازت لے کر آئیں کیونکہ یہ تین اوقات انسان کے لئے بےتکلفی اور آزادی سے رہنے کے اوقات ہیں۔ البتہ ان اوقات کے علاوہ دوسرے وقتوں میں نا بالغ بچے اور مملوک (غلام ‘ لونڈی) اگر گھر یلو کاموں سے آئیں جائیں تو کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن جب بچے بالغ ہوجائیں یعنی ان میں جنسی شعور بیدا ہوجائے تو ان کو دوسرے مردوں کی طرح اجازت لے کر آنا لازمی اور ضروری ہے۔ (2) دوسرا حکم یہ دیا گیا ہے کہ وہ عورتیں جنہیں نکاح کی امیدنہ رہی ہو یعین وہ اتنی بورڑھی ہوگئی ہوں کہ نہ تو ان کو ایام آتے ہوں نہ بڑھاپے کی وجہ سے عام طور پر ان کی طرف کسی کو رغبت ہوتی ہو تو ان بوڑھی عورتوں کے لئے جائز ہے کہ وہ گھر کے اندر یا باہر جاتے وقت اپنے زائد کپڑے یعنی اوپر کی چادر (اوڑھنی) نہ لیں تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے لیکن یہ شرط ہے کہ وہ اس طرح نہ رہیں کہ ان کے بدن کی بنائوٹ ‘ بنائو سنگھار اور زیب وزینت کا اظہار ہوتا ہو۔ لیکن اس اجازت کے ساتھ ہی یہ بھی فرما دیا گیا کہ اگر وہ اس سے بچیں یعنی خوب پہن اوڑھ کر نکلیں تو یہ زیادہ بہتر ہے اور اس کا انجام بھی نہایت اعلیٰ ہے۔ بوڑھی عورتیں جن کی طرف عام طور پر کسی کی رغبت نہیں ہوتی جب ان کے لئے اتنے واضح احکامات ہیں تو وہ جوان لڑکیاں جو دوسری قوموں کی نقل میں بےپردگی کی انتہاؤں تک پہنچ گئی ہیں ان کو بےپردگی کی کیسے اجازت دی جاسکتی ہے۔ اصل میں اس بےپردگی نے ہمارے معاشرہ میں بھی ہزاروں وہ خرابیاں پیداکردی ہیں جن کی وجہ سے دوسری قومیں پریشان ‘ شرمندہ اور فکر مند ہیں۔ جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اگر کہیں چند بوڑھی عورتیں جارہی ہوں اور ان کے ساتھ چند جوان لڑکیاں ہوں تو بوڑھی عورتیں پردے کی پابندی کرتی نظر آتی ہیں اور نوجوان لڑکیاں بےپردہ اور ایسے لباس میں نظر آتی ہیں جن کے دیکھنے سے آزاد مزاج کی عورتیں بھی شرماجاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس آفت سے محفوظ رکھے کیونکہ بےپردگی جتنی تیزی کے ساتھ عام ہورہی ہے نجانے وہ کس انجام تک پہنچا کر چھوڑے گی۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ یعنی یہ اوقات چونکہ عادة اور غالبا تخلیہ اور استراحت کے ہیں، ان میں اکثر آدمی بےتکلفی سے رہتے ہیں، اس لئے اپنے مملوکین اور نابالغ بچوں کو سمجھا دو کہ بےاطلاع اور اجازت لئے بغیر تمہارے پاس نہ آیا کریں۔ (فائدہ) کچھ تخصیص تین وقت کی نہیں اس وقت عادت اسی کے موافق تھی، باقی جہاں جیسی ضرور ہو وجود علت پر مدار ہے۔ 5۔ پس سب مصالح اور حکمتوں پر اس کی نظر ہے، اور احکام میں ان کی رعایت فرماتا ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : نئے خطاب کا آغاز مومنوں کے لیے لازم ہے کہ ان کے غلام اور ان کے نابالغ بیٹے تین اوقات میں ان سے اجازت لے کر ان کی خلوت گاہوں میں داخل ہوا کریں کیونکہ یہ تین اوقات پردہ کے اوقات ہیں۔ تینوں اوقات کے علاوہ ان کے غلاموں اور نابالغ بچوں کا خلوت گاہ میں آنے پر کوئی گناہ نہیں۔ اس اجازت کا سبب یہ ہے کہ انہوں نے گھر یلو کام کے لیے باربار خلوت گاہ میں آنا جانا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ تمہارے لیے اصول بیان کرتا ہے تاکہ تمہاری معاشرت برائی اور بےحیائی سے محفوظ رہے اور یاد رکھو اللہ تعالیٰ ہر کام اور بات کو پوری طرح جانتا ہے اور اس کے ہر حکم میں حکمت اور دانائی ہوتی ہے۔ ہاں جب نابالغ بچے بلوغت کو پہنچ جائیں تو وہ بھی اسی طرح اجازت لینے کے پابند ہیں جس طرح تمہارے بڑے لوگوں کے لیے اجازت لینا ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ تمہارے لیے اپنی آیات بیان کرتا ہے اسے خوب معلوم ہے کہ کیا حکم دینا ہے اور کیا نہیں دینا ؟ کیونکہ وہ ہر کام اور بات کی حکمت جانتا ہے۔ مسائل ١۔ صبح، دوپہر اور عشاء کے بعد غلاموں اور چھوٹے بچوں کو بھی اجازت لے کر دوسروں کے خلوت خانہ میں جانا چاہیے۔ ٢۔ جب نابالغ بچے بالغ ہوجائیں تو انہیں بھی اپنے بڑوں کی طرح اجازت لے کر دوسروں کے گھر جانا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن گھر میں داخل ہونے کے آداب۔ ١۔ اے ایمان والو ایک دوسرے کے گھروں میں اجازت طلب کیے اور سلام کہے بغیر داخل نہ ہوا کرو۔ (النور : ٢٧) ٢۔ اہل خانہ کی عدم موجودگی میں کسی کے گھر میں داخل نہ ہوا جائے۔ (النور : ٢٨) ٣۔ اہل خانہ اگر اجازت نہ دیں تو واپس آجانا چاہیے۔ (النور : ٢٨) ٤۔ بےآباد گھروں میں بغیر اجازت کے داخل ہوا جاسکتا ہے۔ بشرطیکہ وہاں جانا ناگزیر ہو۔ (النور : ٢٩)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

درس نمبر ١٥٦ ایک نظر میں اسلام ایک مکمل نظام زندگی ہے۔ وہ انسانی زندگی کے مختلف طور طریقوں کو منظم کرتا ہے۔ تمام تعلقات ‘ تمام رابطوں ‘ تمام حرکات و سکنات ‘ اور تمام مسائل میں انسانی زندگی کی تنظیم کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام روز مرہ کے انسانی آداب بھی سکھاتا ہے جس طرح وہ عمومی فرائض اور بڑے بڑے معاملات کی تعلیم دیتا ہے وہ ان تمام امور کے اندر نظم اور یکجہتی پیدا کرتا ہے اور زندگی کے تمام امور کو اللہ کی سمت موڑ دیتا ہے۔ یہ سورة اس امر کا ایک بہترین نمونہ ہے۔ اس سورة میں ایک طرف تو اسلام کے قوانین وحد ود بتائے گئے ہیں اور دوسری طرف ایک جگہ بسنے والے انسانوں کے باہم ملاقات کے آداب سکھائے گئے ہیں یعنی قانون اسپذان۔ اس کے ساتھ ساتھ اس پوری کائناپ پر غور و فکر کے خالص فلسفیانہ اور سائنسی مضامین بھی لائے گئے ہیں۔ پھر اس میں اسلامی انقلاب کو روبعمل لانے کا دائمی منہاج بھی دیا گیا ہے کہ جب بھی تم اس پر عمل کرو گے زمین کا اقتدار اعلیٰ تمہیں مل جائے گا۔ اس سبق میں یہ آداب بھی سکھائے جاتے ہیں کہ جب تم کسی کے گھر ملنے کے لیے جائو تو اجازت طلب کرنے کے آداب یہ ہیں۔ پھر مجلس رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آداب یہ ہیں۔ پھر یہ کہ ملاقات اور کھانے پینے اور ضیافت کرنے اور اس سے استفادہ کرنے کے آداب یہ ہیں۔ پھر باہم خطاب اور ہم کلام ہونے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہمکلام ہونے کے آداب یہ ہیں۔ یہ تمام آداب یہ اور ہدایات ایسی ہیں جن کا تعلق اسلامی سوسائٹی کی تنظیم اور تربیت سے ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ قرآن کریم اسلامی سوسائٹی کو چھوٹے بڑے تمام معاملات میں ترتیب دیتا ہے۔ درس نمبر ١٥٦ تشریح آیات ٥٨۔۔ تا۔۔۔۔۔۔۔۔ ٦٤ (یآیھا الذین۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ واللہ علیم حکیم واذا بلغ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ واللہ علیم حکیم ” اس سورة میں گھروں میں داخلہ کے طریق کار پر اس سے قبل بحث ہوچکی ہے یعنی گھر میں داخلہ سے قبل طلب اجازت یہاں اب گھروں میں اندر آنے یا ان لوگوں کا ذکر ہے جن سے گھروں کے اندر پر دہ لازمی نہیں ہے جبکہ داخل ہونے کے احکام استیذان ان پر بھی لازمی ہیں۔ مثلا خدام ‘ غلام ‘ وہ لڑکے جو عورتوں کے معاملات سے ابھی تک اچھی طرح واقف نہیں ہیں وہ بلا روک ٹوک گھروں میں داخل ہوسکتے ہیں۔ الا یہ کہ تین اوقات میں یہ بھی نہیں آسکتے جن میں لوگ کپڑے اتار کر آرام کرتے ہیں۔ ان مخصوص اوقات میں ان لوگوں کو بھی اجازت سے اندر آنا چاہیے۔ وہ اوقات یہ ہیں ‘ یعنی نماز فجر سے پہلے جب لوگ عموماً سونے کے کپڑوں میں ہوتے ہیں یا انہوں نے یہ کپژے تبدیل نہیں کیے ہوتے اور باہر نکلنے کے کپژے نہیں پہنے ہوتے اور دوپہر کے وقت جب لوگ قیلولہ کرتے ہیں اور عادی لباس اتار کر آرام کرتے ہیں اور نماز عشاء کے بعد کے وقت جب سب لوگ آرام کرتے ہیں اور گھروں کے لباس میں ہوتے ہیں۔ یہ اوقات ” اوقات عورات “ ہیں یعنی ان اوقات میں لوگ کپڑے تار دیتے ہیں۔ ان اوقات میں خانگی نوکروں کے لیے لازم ہے کہ وہ گھر کے اندر اجازت لے کر جائیں اور ان نو عمر لڑکوں کے لیے بھی اجازت ضروری ہے جو اگر چہ بالغ نہ ہوئے ہوں لیکن سیانے ہوگئے ہوں۔ یہ اس لیے کہ ان کی نظریں اہل خانہ کے ننگے اجسام پر نہ پڑجائیں۔ یہ وہ آداب ہیں جن کے سلسلے میں آج کے دور جدید میں بھی خانگی زندگی میں عمل نہیں کیا جاتا اور یہ پابندیاں نہ کرنے کے نفسیاتی ‘ اعصابی اور اخلاقی اثرات کو اہمیت نہیں دی جاتی۔ لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ نوکروں کی نظریں مالکان خانہ پر نہیں پرتیں اور یہ کہ قبل از بلوغ مراھق لڑکے ایسی باتوں سے بیخبر ہوتے ہیں حالانکہ ماہرین نفسیات یہ کہتے ہیں کہ بچپن میں بچوں کی نظریں جن مناظر پر پڑتی ہیں بعد کے زمانے میں ان کا اثر بھی بچے کی زندگی پر پڑتا ہے اور ان کی وجہ سے وہ ایسی نفسیاتی اور اعصابی بیماریوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں جن کا علاج ہی نہیں ہوتا۔ یاد رہے کہ ہمارے دور میں علم النفس نے خوب ترقی کرلی ہے۔ اللہ علیم وخبیر ہے۔ اس نے اہل ایمان کو اس قسم کے بلند آداب سکھائے کیونکہ وہ ایک ایسی امت پیدا کرنا چاہتا تھا جس کے اعصاب صحیح و سلامت ہوں ‘ جس کا سینہ صحیح ہو ‘ جس کا شعور پاکیزہ ہو ‘ جس کے دل پاک ہوں اور جس کے تصورات صاف اور ستھرے ہوں۔ ان تین اوقات کو اس لیے مخصوص کیا گیا ہے کہ ان میں بالعموم لوگ لاپرواہی کی حالت میں ہوتے ہیں اور اس گمان پر کہ ان اوقات میں باہر کا کوئی آدمی اندر نہیں آتا ‘ لوگ تن ڈھاپننے کی پرواہ نہیں کرتے۔ اگر تمام اوقات میں ملازمین خانہ اور چھوٹے لڑکوں کے لیے اجازت لینے کو لازم کردیا جاتا تو اس پر عمل کرنے میں بڑی دقت ہوتی کیونکہ ملازم اور چھوٹے بچے ہر وقت آتے جاتے رہتے ہیں۔ طوفون علیکم بعضکم علی بعض (٢٤ : ٥٨) ” تمہیں ایک دوسرے کے پاس آنا جانا رہتا ہے “۔ یوں اللہ تعالیٰ نے پردہ داری کا بھی انتظام کردیا ‘ مشکل کو بھی دور کردیا اور مشقت اور حرج کو بھی دور کردیا۔ اگر دوسرے اجنبی بالغوں کی طرح ہر وقت ان کے لیے بھی اجازت لینا لازم کردیا گیا ہوتا تو اس میں تمہارے لیے مشکلات ہوتیں۔ چھوٹے لڑکے جب سن بلوغ کو پہنچ جائیں تو وہ بھی اجنبی لوگوں کے حکم میں آجائیں گے اور وہ اسی حکم میں آجائیں گے جو عام حالت استیذان میں لوگوں کے لیے مقرر ہے۔ آخر میں کہا جاتا ہے۔ واللہ علیم حکیم (٢٤ : ٥٨) ” اور اللہ علیم و حکیم ہے “۔ کیونکہ قانون سازی اور اخلاقی رویہ کے اثرات کے بارے میں انسانوں کے مزاج کو اللہ ہی جانتا ہے کہ ان کے لیے کیا مفید ہے اور کیا مفید نہیں ہے۔ اس سے پہلے یہ حکم آیا تھا کہ عورتیں اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں تاکہ اسلامی معاشرے کے اندر کوئی جنسی فتنہ نہ آئے۔ یہاں ایسی بوڑھی عورتوں کو اس سے مستثنیٰ کیا جاتا ہے جن کے اندر مردوں کے ساتھ معاشرت کی کوئی رغبت باقی نہیں رہی ہے اور ان کے اجسام کے اندر بھی ایسی کوئی فتنہ سامانی نہیں ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

گھروں میں داخل ہونے کے لیے خصوصی طور پر تین اوقات میں اجازت لینے کا اہتمام کیا جائے اسی سورة نور کے چوتھے رکوع میں کسی کے پاس اندر جانے کے لیے اجازت لینے اور اجازت نہ ملنے پر واپس ہوجانے کا حکم مذکور ہے وہ حکم اجانب کے لیے ہے جن کا اس گھر سے رہنے سہنے کا تعلق نہ ہوں جس میں اندر جانے کی اجازت طلب کرنا چاہتے ہوں۔ ان دو آیتوں میں ان اقارب اور محارم کا حکم فرمایا ہے جو عموماً ایک گھر میں رہتے ہیں اور ہر وقت آتے جاتے رہتے ہیں اور ان سے عورتوں کو پردہ کرنا بھی واجب نہیں ہے ان میں ان بچوں کا حکم بیان فرمایا جو حد بلوغ کو نہیں پہنچے اور غلاموں کا ذکر ہے (جنہیں کام کے لیے اپنے آقا کی خدمت کے لیے بار بار اندر آنا جانا پڑتا ہے) ان کے بارے میں فرمایا کہ یہ لوگ تین اوقات میں تمہارے پاس اندر آنے کے سلسلے میں اجازت لینے کا خاص دھیان رکھیں۔ مطلب یہ ہے کہ تم انہیں یہ تعلیم دو اور انہیں سمجھاؤ اور سدھاؤ کہ وہ ان اوقات میں اجازت لینے کا اہتمام کریں ان اوقات میں سے پہلا وقت نماز فجر سے پہلے اور دوسرا دوپہر کا وقت ہے جب عام طور سے زائد کپڑے اتار کر رکھ دیتے ہیں اور تیسرا وقت نماز عشاء کے بعد کا ہے۔ ان تینوں اوقات کے بارے میں فرمایا کہ (ثَلاَثُ عَوْرَاتٍ لَکُمْ ) کہ یہ تینوں تمہارے پردہ کے اوقات ہیں کیونکہ ان اوقات میں عام عادت کے مطابق تخلیہ ہوتا ہے اور انسان بےتکلفی کے ساتھ آرام سے رہنا چاہتا ہے۔ تنہائی میں کسی وقت وہ اعضاء بھی کھل جاتے ہیں جن کا ڈھانکے رکھنا ضروری ہے اور سوتے وقت غیر ضروری کپڑے تو اتار ہی دیتے ہیں اور تنہائی کا موقع پا کر بعض مرتبہ میاں بیوی بھی بےتکلفی کے ساتھ ایک دوسرے سے متمتع ہوتے ہیں۔ اگر آنے والا آزاد لڑکا ہو یا غلام یا لونڈی ہو اور اندر آنے کی اجازت نہ لے تو بعض مرتبہ ممکن ہے کہ ان کی نظر کسی ایسی حالت یا کسی ایسے عضو پر پڑجائے جس کا دیکھنا جائز نہیں ہے بالغ غلام مرد اپنے آقا کے پاس ان اوقات میں جائے تو وہ بھی اجازت لے۔ گو مرد کا مرد سے پردہ نہیں ہے لیکن ان اوقات میں کپڑے اتارے ہوئے ہونے کا احتمال رہتا ہے۔ اور بعض مرتبہ بےدھیانی میں بعض وہ اعضاء کھل جاتے ہیں جن کا مرد کے سامنے بھی کھولنا جائز نہیں ہے۔ اس لیے مذکورہ اوقات میں اجازت لینے کا اہتمام کریں۔ معالم التنزیل میں حضرت ابن عباس (رض) سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک انصاری لڑکے کو جس کا نام مدلج تھا حضرت عمر (رض) کو بلانے بھیجا یہ دوپہر کا وقت تھا اس نے حضرت عمر کو ایسی حالت میں دیکھ لیا جو انہیں نا گوارا ہوا اس پر آیت بالا نازل ہوئی۔ مضمون بالا بیان فرمانے کے بعد ارشاد فرمایا ہے ان اوقات کے علاوہ اگر یہ لوگ بلا اجازت آجائیں تو اس میں تم پر یا ان پر کوئی الزام نہیں ہے پھر اس کی وجہ بتاتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ (طَوَّافُوْنَ عَلَیْکُمْ بَعْضُکُمْ عَلٰی بَعْضٍ ) (یہ لوگ تمہارے پاس آتے جاتے رہتے ہیں) چونکہ ہر وقت اجازت لینے میں دشواری ہے اس لیے مذکورہ بالا اوقات کے علاوہ بلا اجازت داخل ہونے کی گھر کے لڑکوں اور غلاموں کو اجازت دے دی گئی آخر میں فرمایا (کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمُ اٰیٰتِہٖ ) اللہ اسی طرح تمہارے لیے صاف صاف احکام بیان فرماتا ہے (وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ) (اور اللہ جاننے والا ہے حکمت والا ہے) ۔ یاد رہے کہ عورت کا اپنا غلام ہو یا اس کے شوہر کا اگر نا محرم ہو تو اس سے پردہ کرنا اسی طرح واجب ہے جیسے نا محرموں سے پردہ واجب ہے۔ یہ پہلی آیت کا مضمون تھا دوسری آیت میں یہ فرمایا کہ جب لڑکے بالغ ہوجائیں جنہیں بلوغ سے پہلے مذکورہ تین وقتوں کے علاوہ بےاجازت اندر آنے کی اجازت تھی اب بالغ ہونے کے بعد اسی طرح اجازت لیں جیسے ان سے پہلے لوگ اجازت لیتے رہے یہ خیال نہ کریں کہ کل تک تو ہم یوں ہی چلے جاتے تھے اب اجازت کیوں لیں۔ (کَذَالِکَ یُبِیِّنُ اللّٰہُ لَکُمْ اٰیَاتِہٖ ) (اللہ اسی طرح تمہارے لیے صاف صاف احکام بیان فرماتا ہے) (وَ اللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ) (اور اللہ جاننے والا اور حکمت والا ہے) فائدہ : پہلی آیت میں جو تین اوقات میں اجازت لینے کا حکم فرمایا ہے اس کے بارے میں حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا تین آیات ایسی ہیں جن پر لوگوں نے عمل چھوڑ رکھا ہے ایک تو یہی آیت ( ٰٓیاََیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِیَسْتَاْذِنْکُمْ الَّذِیْنَ ) اور دوسرے نساء کی آیت (وَ اِذَا حَضَرَ الْقِسْمَۃَ اُولُوا الْقُرْبٰی) اور سورة حجرات کی آیت (اِنَّ اَکْرَ مَکُمْ عِنْدِ اللّٰہِ اَتْقٰکُمْ ) نیز حضرت ابن عباس (رض) نے یہ بھی فرمایا (اکثر لوگ اس آیت پر عمل نہیں کرتے) (گویا کہ) اس پر ایمان ہی نہیں لائے اور میں تو اپنی اس باندی کو بھی حکم دیتا ہوں کہ میرے پاس اجازت لے کر آئے۔ (ابن کثیر ص ٣٠٣ ج ٣)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

61:۔ دوسرا حصہ : اصلاح و تطہیر معاشرہ کے لیے تین قوانین، مخلصین اور منافقین کے اعمال کا تقابل، آداب رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور دعوی توحید کا دوسری بار ذکر جس کی وجہ سے منافقین نے تہمت لگائی تھی۔ ” یا ایہا الذین اٰمنوا الخ “: یہاں سے سورت کا دوسرا حصہ شروع ہوتا ہے۔ پہلے معاشرت کے تین آداب بیان کیے گئے ہیں جو بدکاری سے روکنے والے اور عفت و عصمت کی حفاظت میں ممد و معاون ہیں گویا یہ آداب ان احکام وہدایات کا تتمہ ہیں جو پہلے حصے میں مذکور ہوچکی ہیں۔ قیل ھذا رجوع الی تتمۃ الاحکام السابقۃ بعد الفراغ من الایات الدالۃ علی وجوب الطاعۃ (جامع ص 312) ۔ یہ پہلا قانون معاشرت ہے۔ تین وقت ایسے ہیں جن میں عموماً زائد کپڑے اتار دئیے جاتے ہیں یا شب باشی کا لباس پہن لیا جاتا ہے۔ خاوند بیوی میں مخالطت بھی عموماً انہی اوقات میں ہوتی ہے اس لیے ان اوقات میں نابالغ لڑکوں اور لونڈیوں کو بھی باقاعدہ اجازت لینی چاہیے وہ اوقات یہ ہیں۔ نماز صبح سے قبل، دوپہر کے وقت، اور نماز عشاء کے بعد ” لیس علیکم جناح الخ “ ان تینوں وقتوں کے علاوہ نابالغ لڑکوں اور لونڈی غلاموں کو اجنبیوں کی طرح اجازت لینے کی ضرورت نہیں۔” طوافوان علیکم الخ “ ان کی ہر وقت گھر میں آمد و رفت ہوتی ہے اس لیے ہر بار اذن لینے میں حرج ہے ” یطوفون علیکم للخدمۃ و تطوفون علیھم لل اس خدام فلو جزم الامر بالاستیزان فی کل وقت لافضی الی حرج وھو مدفوع فی الشرع بالنص (مدارک ج 3 س 118) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(58) اے دعوت ایمانی کو قبول کرنے والو تمہارے لونڈی اور غلام تم میں کے وہ ہوشیار لڑکے جو ابھی حد بلوغ کو نہیں پہنچے اور بالغ نہیں ہوئے ان کو چاہئے کہ وہ تین اوقات میں تمہارے پاس تم سے اجازت لیکر آئیں ایک تو صبح کی نماز سے پہلے اور ایک جب تم دوپہر کے وقت اپنے کپڑے اتار کر رکھ دیا کرتے ہو اور ایک عشاء کی نماز کے بعد یہ مذکورہ تین وقت تمہارے پردے کے اوقات ہیں ان اوقات کے علاوہ بلااجازت آنے جانے میں نہ تم پر کوئی الزام ہے اور نہ ان لونڈی غلاموں اور نابالغ لڑکوں پر کوئی الزام ہے کیونکہ یہ لوگ بکثرت خدمت کی غرض سے تمہارے پاس آتے جاتے رہتے ہیں کوئی کسی کے پاس کوئی کسی کے پاس۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ تمہارے لئے اپنے احکام صاف صاف بیان کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ بڑے علم والا بڑی حکمت والا ہے۔ پہلے بیان فرمایا تھا کہ کوئی شخص صاحب خانہ کی بلا اجازت کے مکان میں داخل نہ ہوا کرے اسی حکم سے یہاں بعض سورتوں کا استثنیٰ فرمای کیونکہ بعض مواقع ایسے ہوتے ہیں جن کا اظہار ناگواری خاطر کا سبب ہوتا ہے اس لئے مملوک خواہ وہ لونڈی ہو یا غلام اور نابالغ لڑکے جو خدمت کی غرض سے بےروک ٹوک مکان میں آتے جاتے ہیں ان کیلئے بھی بعض اوقات تستر میں اجازت ضروری قرار دی اور دوسرے اوقات میں ان کو اجازت کی ضرورت سے مستثنیٰ رکھا تاکہ بلاوجہ تکلیف اور کلفت پیش نہ آئے۔ چوتھے رکوع میں جو استیذان کا حکم گزرا ہے اس رکوع میں اسی کا تتمہ ہے درمیان میں اور مضامین زیر بحث آگئے جو تین اوقات قرآن کریم میں بیان کئے ہیں وہ استراحت آرام اور خلوت کے مواقع ہیں جن میں لوگ عادتاً زائد کپڑے اتار دیتے ہیں اور سونے جاگنے کا لباس تبدیل کیا کرتے ہیں اور اپنی گھروالیوں کے ساتھ اختلاط اور مباشرت وغیرہ کے بھی عمومًا یہی اوقات ہیں اور اس وقت کسی لونڈی غلام یا لڑکے بالے کا اگرچہ وہ خدمتی کیوں نہ ہو بلا اجازت آجانا تستر اور پردہ پوشی کے خلاف ہے اس لئے اجانب کی طرح ان کو بھی اجازت حاصل کرنے کا حکم دے دیا گیا باقی اوقات کھلے رکھے گئے۔ مگر یہ کہ کوئی شخص اپنی مصلحت کی بنا پر کسی دوسرے وقت کے لئے بھی ان لوگوں کو اجازت حاصل کرنے کا پابند کردے۔ اوقات مذکورہ کے علاوہ ان لونڈی غلاموں وغیرہ پر اجازت کی پابندی نہیں رکھی کیونکہ اس سے کاروبار میں دشواریاں پیش آتیں۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں ان تین وقت میں لڑکوں کو اور غلام لونڈی کو بھی پروانگی لینی چاہئے اور سارے وقتوں میں حاجت نہیں۔ 12