Surat un Noor

Surah: 24

Verse: 59

سورة النور

وَ اِذَا بَلَغَ الۡاَطۡفَالُ مِنۡکُمُ الۡحُلُمَ فَلۡیَسۡتَاۡذِنُوۡا کَمَا اسۡتَاۡذَنَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ ؕ کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمۡ اٰیٰتِہٖ ؕ وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌ حَکِیۡمٌ ﴿۵۹﴾

And when the children among you reach puberty, let them ask permission [at all times] as those before them have done. Thus does Allah make clear to you His verses; and Allah is Knowing and Wise.

اور تمہارے بچے ( بھی ) جب بلوغت کو پہنچ جائیں تو جس طرح ان کے اگلے لوگ اجازت مانگتے ہیں انہیں بھی اجازت مانگ کر آنا چاہیے اللہ تعالٰی تم سے اسی طرح اپنی آیتیں بیان فرماتا ہے ۔ اللہ تعالٰی ہی علم و حکمت والا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَإِذَا بَلَغَ الاْإَطْفَالُ مِنكُمُ الْحُلُمَ فَلْيَسْتَأْذِنُوا كَمَا اسْتَأْذَنَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ ... And when the children among you come to puberty, then let them (also) ask for permission, as those senior to them (in age), meaning: when the children who used to seek permission at the three times of privacy reach puberty, then they have to seek permission at all times, i.e., with regard to those who are non-relatives, and at times when a man may be in a state of intimacy with his wife, even if it is not one of the three times stated above. ... كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ ايَاتِهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ Thus Allah makes clear His Ayat for you. And Allah is All-Knowing, All-Wise. There is no Sin on Elderly Women if They do not wear a Cloak Allah says:

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

591ان بچوں سے مراد احرار بچے ہیں، بلوغت کے بعد ان کا حکم عام مردوں کا سا ہے، اس لئے ضروری ہے کہ جب بھی کسی کے گھر آئیں تو پہلے اجازت طلب کریں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨٩] یعنی ان میں جنسی شعور،۔۔ میلانات بیدار ہونے لگیں اور شرعاً اس کی حد یہ ہے کہ بچے کو احتلام آنے لگے۔ بلوغت کی عمر کی سالوں سے تعیین کرنا مشکل ہے یہ بھی ممکن ہے کہ ایک لرکا گیارہ سال کا ہی بالغ ہوجائے اور یہ بھی ممکن ہے کہ اٹھارہ سال تک بالغ نہ ہو۔ اور اس سن بلوغت کے بھی کئی عوامل ہیں مثلاً جن ممالک کی آب و ہوا گرم مرطوب ہو وہاں بچے جلد بالغ ہوجاتے ہیں۔ اور جہاں آب و ہوا سرد ہو وہاں دیر سے بالغ ہوتے ہیں۔ اسی طرح خوشحالی گھرانوں کے بچے جلد بالغ ہوجاتے ہیں۔ اور تنگدست گھرانوں کے بچے دیر سے بالغ ہوتے ہیں۔ اسی طرح مرد و عورت کے آزادانہ اور فحاشی کے ماحول میں بچے جلد بالغ ہوجاتے ہیں اور پاکیزہ ماحول والے بچے دیر سے بالغ ہوتے ہیں۔ علاوہ ازین بچے کی بلوغت کا مدار کسی حد تک اس کی قد و قامت اور صحت پر بھی ہوتا ہے کمزور خلقت والے بچے نسبتاً دیر سے بالغ ہوتے ہیں۔ لہذا بلوغت کا اندازہ کسی بچے کی عمر سے نہیں بلکہ اس کی دوسری کیفیات سے لگانا چاہئے۔ اور جب ان کی بلوغت کا علم ہوجائے۔ تو ان پر گھروں میں داخلہ پر وہی پابندیاں عائد ہوجائیں گی جو بڑوں پر ہیں یعنی کسی وقت بھی ان کا گھروں میں بلا اجازت داخلہ ممنوع ہوگا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاِذَا بَلَغَ الْاَطْفَالُ مِنْكُمُ الْحُلُمَ فَلْيَسْتَاْذِنُوْا۔۔ : بالغ ہونے کے بعد بچوں کو بھی اجازت لینا ضروری ہے، جس طرح ان لوگوں کے لیے ضروری ہے جن کا ذکر اس سے پہلے آیت (٢٧) ” لَا تَدْخُلُوْا بُيُوْتًا غَيْرَ بُيُوْتِكُمْ حَتّٰى تَسْتَاْنِسُوْا “ میں آیا ہے اور جس طرح بالغ ہونے والے ان بچوں سے پہلے دوسرے بالغ لوگ اجازت لیتے چلے آئے ہیں، بالغ ہونے کے بعد انھیں بھی ہر حال میں اجازت لے کر آنا ہوگا۔ عطاء بن یسار کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس (رض) سے پوچھا : ” کیا میں اپنی بہن کے پاس جانے کے لیے بھی اجازت مانگوں ؟ “ فرمایا : ” ہاں ! “ میں نے پھر سوال دہرایا : ” میری پرورش میں میری دو بہنیں ہیں، ان کا خرچہ میرے ذمے ہے، ان کے پاس بھی اجازت لے کر جاؤں ؟ “ فرمایا : ” ہاں ! کیا تم پسند کرتے ہو کہ انھیں برہنہ حالت میں دیکھو۔ “ پھر یہ آیت پڑھی : (يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لِيَسْتَاْذِنْكُمُ الَّذِيْنَ مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ ) [ النور : ٥٨ ] ” ثَلٰثُ عَوْرٰتٍ لَّكُمْ “ تک، تو ان لوگوں کو صرف ان تین اوقات میں اجازت مانگنے کا حکم دیا گیا، پھر فرمایا : (وَاِذَا بَلَغَ الْاَطْفَالُ مِنْكُمُ الْحُلُمَ فَلْيَسْتَاْذِنُوْا) [ النور : ٥٩ ] ابن عباس (رض) نے فرمایا : ” اب اجازت لینا واجب ہے۔ “ [ الأدب المفرد للبخاري : ١٠٦٣ ]

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِذَا بَلَغَ الْاَطْفَالُ مِنْكُمُ الْحُلُمَ فَلْيَسْتَاْذِنُوْا كَـمَا اسْتَاْذَنَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ۝ ٠ۭ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللہُ لَكُمْ اٰيٰتِہٖ۝ ٠ۭ وَاللہُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ۝ ٥٩ بلغ البُلُوغ والبَلَاغ : الانتهاء إلى أقصی المقصد والمنتهى، مکانا کان أو زمانا، أو أمرا من الأمور المقدّرة، وربما يعبّر به عن المشارفة عليه وإن لم ينته إليه، فمن الانتهاء : بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ الأحقاف/ 15] ( ب ل غ ) البلوغ والبلاغ ( ن ) کے معنی مقصد اور متبٰی کے آخری حد تک پہنچے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ مقصد کوئی مقام ہو یا زمانہ یا اندازہ کئے ہوئے امور میں سے کوئی امر ہو ۔ مگر کبھی محض قریب تک پہنچ جانے پر بھی بولا جاتا ہے گو انتہا تک نہ بھی پہنچا ہو۔ چناچہ انتہاتک پہنچے کے معنی میں فرمایا : بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ الأحقاف/ 15] یہاں تک کہ جب خوب جو ان ہوتا ہے اور چالس برس کو پہنچ جاتا ہے ۔ طفل الطِّفْلُ : الولدُ ما دام ناعما، وقد يقع علی الجمع، قال تعالی: ثُمَّ يُخْرِجُكُمْ طِفْلًا [ غافر/ 67] ، أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا[ النور/ 31] ، وقد يجمع علی أَطْفَالٍ. قال : وَإِذا بَلَغَ الْأَطْفالُ [ النور/ 59] ، وباعتبار النّعومة قيل : امرأة طِفْلَةٌ ، وقد طَفِلَتْ طُفُولَةً وطَفَالَةً ، والمِطْفَلُ من الظبية : التي معها طِفْلُهَا، وطَفَلَتِ الشمسُ : إذا همَّت بالدَّوْرِ ، ولمّا يستمکن الضَّحُّ من الأرضِ قال : وعلی الأرض غياياتُ الطَّفَلِ وأما طَفَّلَ : إذا أتى طعاما لم يدع إليه، فقیل، إنما هو من : طَفَلَ النهارُ ، وهو إتيانه في ذلک الوقت، وقیل : هو أن يفعل فِعْلَ طُفَيْلِ العرائسِ ، وکان رجلا معروفا بحضور الدّعوات يسمّى طُفَيْلًا ( ط ف ل) الطفل جب تک بچہ نرم و نازک رہے اس وقت تک اسے طفل کہاجاتا ہے یہ اصل میں مفرد ہے مگر کبھی بمعنی جمع بھی آتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : ثُمَّ يُخْرِجُكُمْ طِفْلًا[ غافر/ 67] پھر تم کو نکالتا ہے کہ تم بچے ہوتے ہو ۔ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا[ النور/ 31] یا ایسے لڑکوں سے جو عورتوں کے پردے کی چیزوں سے واقف نہ ہوں ۔ طفل کی جمع اطفال آتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : وَإِذا بَلَغَ الْأَطْفالُ [ النور/ 59] اور جب تمہارے لڑکے بالغ ہوجائیں ۔ اور نرمونازک ہونے کے معنی کی مناسبت سے گداز بدن عورت کو طفلۃ کہاجاتا ہے ۔ اور طفلت طفولۃ وطفالۃ کے نرم ونازک ہونے کے ہیں ۔ اور جس ہرنی کے ساتھ اس کا بچہ ہوا سے مطفل کہاجاتا ہے طفلت الشمس اس وقت بولا جاتا ہے جس آفتاب نکلنے کو ہو اور ابھی تک اس کی دھوپ اچھی طرح زمین پر نہ پھیلی ہو ۔ شاعرنے کہا ہے ۔ ( الرمل) (293) وعلی الارض غیایات الطفل اور زمین پر تاحال صبح کا سوجھا کا موجود تھا ۔ اور طفل جس کے معنی ایسے کھانا میں شریک ہونا کے ہیں جس پر اسے ملایا نہ گیا ہو ، کے متعلق بعض نے کہا ہے کہ یہ طفل النھار سے ماخوذ ہے یعنی اس وقت آنا اور بعض نے کہا ہے کہ طفیل العرس ایک مشہور آدمی کا نام ہے جو بلا دعوت تقریبات میں شریک ہوجاتا تھا ۔ اور اسی سے طفل ہے جس کے معنی طفیلی بن کر جانے کے ہیں ۔ حلم الحِلْم : ضبط النّفس والطبع عن هيجان الغضب، وجمعه أَحْلَام، قال اللہ تعالی: أَمْ تَأْمُرُهُمْ أَحْلامُهُمْ بِهذا [ الطور/ 32] ، قيل معناه : عقولهم «5» ، ولیس الحلم في الحقیقة هو العقل، لکن فسّروه بذلک لکونه من مسبّبات العقل «6» ، وقد حَلُمَ «7» وحَلَّمَهُ العقل وتَحَلَّمَ ، وأَحْلَمَتِ المرأة : ولدت أولادا حلماء «8» ، قال اللہ تعالی: إِنَّ إِبْراهِيمَ لَحَلِيمٌ أَوَّاهٌ مُنِيبٌ [هود/ 75] ، وقوله تعالی: فَبَشَّرْناهُ بِغُلامٍ حَلِيمٍ [ الصافات/ 101] ، أي : وجدت فيه قوّة الحلم، وقوله عزّ وجل : وَإِذا بَلَغَ الْأَطْفالُ مِنْكُمُ الْحُلُمَ [ النور/ 59] ، أي : زمان البلوغ، وسمي الحلم لکون صاحبه جدیرا بالحلم، ويقال : حَلَمَ «1» في نومه يَحْلُمُ حُلْماً وحُلَماً ، وقیل : حُلُماً نحو : ربع، وتَحَلَّمَ واحتلم، وحَلَمْتُ به في نومي، أي : رأيته في المنام، قال اللہ تعالی: قالُوا أَضْغاثُ أَحْلامٍ [يوسف/ 54] ، والحَلَمَة : القراد الکبير، قيل : سمیت بذلک لتصوّرها بصورة ذي حلم، لکثرة هدوئها، فأمّا حَلَمَة الثدي فتشبيها بالحلمة من القراد في الهيئة، بدلالة تسمیتها بالقراد في قول الشاعر : 125- كأنّ قرادي زوره طبعتهما ... بطین من الجولان کتّاب أعجمي «2» وحَلِمَ الجلد : وقعت فيه الحلمة، وحَلَّمْتُ البعیر : نزعت عنه الحلمة، ثم يقال : حَلَّمْتُ فلانا : إذا داریته ليسكن وتتمکّن منه تمكّنک من البعیر إذا سكّنته بنزع القراد عنه «3» . ( ح ل م ) الحلم کے معنی ہیں نفس وطبیعت پر ایسا ضبط رکھنا کہ غیظ وغضب کے موقع پر بھڑ کنہ اٹھے اس کی جمع احلام ہے اور آیت کریمہ : ۔ کیا عقلیں ان کو ۔۔۔ سکھاتی ہیں ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ احلام سے عقیں مراد ہیں اصل میں ھلم کے معنی متانت کے ہیں مگر چونکہ متانت بھی عقل کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے اس لئے حلم کا لفظ بول کر عقل مراد لے لیتے ہیں جیسا کہ مسبب بول کر سبب مراد لے لیا جاتا ہے حلم بردبار ہونا ۔ عقل نے اسے برد بار رہنا دیا ۔ عورت کا حلیم بچے جننا ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ إِبْراهِيمَ لَحَلِيمٌ أَوَّاهٌ مُنِيبٌ [هود/ 75] بیشک ابراہیم بڑے تحمل والے نرم دل اور رجوع کرنے والے تھے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَبَشَّرْناهُ بِغُلامٍ حَلِيمٍ [ الصافات/ 101] تو ہم نے ان کو ایک نرم دل لڑکے کی خوشخبری دی ۔ کے معنی یہ ہیں کہ اس غلام ہیں قوت برداشت ۔۔۔۔۔۔ تھی اور آیت کریمہ : ۔ وَإِذا بَلَغَ الْأَطْفالُ مِنْكُمُ الْحُلُمَ [ النور/ 59] اور جب تمہارے لڑکے بالغ ہوجائیں & میں حلم کے معنی سن بلوغت کے ہیں اور سن بلوغت کو حلم اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس عمر میں طور عقل وتمیز آجاتی ہے کہا جاتا ہے ۔ حلم ( ن ) فی نومہ خواب دیکھنا مصدر حلم اور حلم مثل ربع بھی کہا گیا ہے ۔ اور ۔ یہی معنی تحلم واحتلم کے ہیں ۔ حلمت بہ فی نومی ۔ میں نے اسے خواب میں دیکھا ۔ قرآن میں ہے : ۔ قالُوا أَضْغاثُ أَحْلامٍ [يوسف/ 54] انہوں نے کہا یہ تو پریشان سے خواب ہیں ۔ الحلمۃ بڑی چیچڑی ۔ کیونکہ وہ ایک جگہ پر جمے رہنے کی وجہ سے حلیم نظر آتی ہے اور سر پستان کو حلمۃ الثدی کہنا محض ہیت میں چیچڑی کے مشابہ ہونے کی وجہ سے ہے ۔ اس مجاز کی دلیل یہ ہے کہ سر پستان کو قراد بھی کہہ دیتے ہیں ۔ جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ع ( طویل ) اس کے سینے پر پستانوں کے نشانات اسطرح خوشمنا نظر اتے ہیں کہ گویا کسی کاتب لے مٹی کی مہریں لگادیں ہیں چمڑے کو کیڑا الگ جانا ۔ حلمت البعیر میں نے اونٹ سے خیچڑ نکالے حلمت فلانا کسی پر قدرت حاصل کے لئے اس کے ساتھ مدارات سے پیش آنا تاکہ وہ مطمئن رہے جیسا کہ اونٹ سے چیچڑ دور کرنے سے اسے سکون اور راحت محسوس ہوتا ہے اور انسان اس پر پوری طرح قدرت پالیتا ہے استئذان : طلب الإذن، قال تعالی: إِنَّما يَسْتَأْذِنُكَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ [ التوبة/ 45] ، فَإِذَا اسْتَأْذَنُوكَ [ النور/ 62] . الاستئذن کے معنی اجازت طلب کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ { إِنَّمَا يَسْتَأْذِنُكَ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِاللهِ } ( سورة التوبة 45) اجازت دہی لوگ مانگتے ہیں جو خدا پر اور پچھلے دن پر ایمان نہیں رکھتے ۔ { فَإِذَا اسْتَأْذَنُوكَ } ( سورة النور 62) سو جب یہ لوگ تم سے کسی کام کے لئے ) اجازت مانگا کریں ۔ الله الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم/ 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، ( ا ل ہ ) اللہ (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ { هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا } ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥٩) اور جس وقت تمہارے نابالغ لڑکے اور غلام حد بلوغ کو پہنچیں تو ان کو بھی ہر وقت آنے کے لیے اسی طرح اجازت لینی چاہیے جیسا کہ ان سے بڑی عمر والے ان کے بھائی اجازت لیتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے یہ احکام بیان فرمائے اسی طرح وہ تم سے اپنے اوامرو نواہی بیان کرتا رہتا ہے اور اللہ تعالیٰ تمہاری مصلحتوں کا جاننے والا اور حکمت والا ہے کہ بڑوں کو ہر وقت آنے جانے کے لیے اجازت لینے کا حکم فرمایا۔ اور بڑی بوڑھی عورتیں جن کو حیض آنا بند ہوگیا ہو اور ان کو کسی سے شادی کرنے کی کوئی امید اور خواہش نہ باقی رہی ہو تو ان کو اس بات میں کوئی گناہ نہیں کہ وہ اپنے زیادہ کپڑے یعنی چادر وغیرہ اتار دیں، بشرطیکہ کسی نامحرم کے سامنے مواقع زینت کا اظہار نہ کریں جیسا کہ چہرہ وغیرہ لیکن اگر نامحرم کے سامنے اس کے کھولنے سے بھی احتیاط رکھیں اور چادر سے مواقع زینت کو چھپا لیں یہ ان کے لیے اظہار سے بہتر ہے۔ اور اللہ تعالیٰ تمہاری سب باتوں کو سنتا ہے اور تمہارے سب اعمال سے باخبر ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٩ (وَاِذَا بَلَغَ الْاَطْفَالُ مِنْکُمُ الْحُلُمَ فَلْیَسْتَاْذِنُوْا کَمَا اسْتَاْذَنَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ ط) ” گھروں میں داخلے کے آداب کے سلسلے میں ایک عمومی حکم اس سے پہلے (اسی سورة کی آیت ٢٧ میں) نازل ہوچکا ہے۔ تمہارے بچے جب بالغ ہوجائیں تو وہ بھی اس حکم کی تعمیل کریں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

91. That is, when they have reached the age of puberty. As has been explained in E.N. 87 above, the signs of puberty in the case of boys and girls are nocturnal emission and menstrual discharge respectively. There is, however, a difference of opinion among the jurists regarding the beginning of puberty in those boys and girls who for some reason do not show these physical signs for an unduly long time. According to Imam Shafai, Imam Abu Yusuf, Imam Muhammad and Imam Ahmad, a boy or a girl of 15 years will be considered to have attained puberty, and a saying of Imam Abu Hanifah also supports this view. But the well known view of Imam Abu Hanifah is that in such cases the age of puberty will be 17 years for girls and 18 years for boys. Both these opinions are the result of juristic reasoning and neither is based on any injunction of the Quran or Sunnah. It is therefore not necessary that the age limits of 15 or 18 years be accepted as marking the beginning of puberty everywhere in the world in abnormal cases. In different countries and ages there are different conditions of physical development and growth. The age of puberty in a certain country can be determined by means of the law of averages in normal cases. As for abnormal cases, the mean difference of ages may be added to the upper age limit to determine the age of puberty. For instance, if in a country, the minimum and maximum ages for noctural discharge are normally 12 and 15 years respectively, the mean difference of one and a half years may be added to the maximum limit of 15 years to determine the beginning of puberty for abnormal cases. The same principle can be used by the legal experts of various countries to fix the age of puberty keeping in view their peculiar local conditions. There is a tradition quoted from Ibn Umar in support of the age of 15 years for puberty. He says: I was 14, when I presented myself before the Prophet (peace be upon him) to ask his permission to join the battle of Uhud, but he declined permission. Then on the occasion of the battle of the Trench, when I was 15, I was again presented and he permitted me to join. (Sihah Sitta, Musnad Ahmad). This tradition, however, does not stand scrutiny for the following two reasons: (a) The battle of Uhud took place in Shawwal, 3 A.H., and the battle of the Trench in Shawwal, 5 A.H. according to Ibn Ishaq, and in Zil-Qad, 5 A.H. according to Ibn Saad. There is an interval of two years or more between the two events. Now if Ibn Umar was 14 at the time of the battle of Uhud, he could not be 15 at the time of the battle of the Trench. It may be that he mentioned 14 years for 13 years and 11 months and 15 years for 15 years and 11 months. (b) It is a different thing to be regarded as an adult for the purposes of war and quite different to be legally adult for social affairs. They are not necessarily interconnected. Therefor the correct view is that the age of 15 for an abnormal boy has been fixed on the basis of analogous and juristic reasoning and not on the basis of anything in the Quran or Sunnah.

سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :91 یعنی بالغ ہو جائیں ۔ جیسا کہ اوپر حاشیہ نمبر 87 میں بیان کیا جا چکا ہے لڑکوں کے معاملے میں احتلام اور لڑکیوں کے معاملے میں ایام ماہواری کا آغاز علامت بلوغ ہے ۔ لیکن جو لڑکے اور لڑکیاں کسی وجہ سے دیر تک ان جسمانی تغیرات سے خالی رہ جائیں ان کے معاملہ میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے ۔ امام شافعی ، امام ابو یوسف ، امام محمد ، اور امام احمد کے نزدیک اس صورت میں 15 برس کے لڑکے اور لڑکی کو بالغ سمجھا جائے گا ، اور امام ابو حنیفہ کا بھی ایک قول اس کی تائید میں ہے ۔ لیکن امام اعظم کا مشہور قول یہ ہے کہ اس صورت میں 17 برس کی لڑکی اور 18 برس کے لڑکے کو بالغ قرار دیا جائے گا ۔ یہ دونوں قول کسی نص پر نہیں بلکہ فقیہانہ اجتہاد پر مبنی ہیں ، لہٰذا ضروری نہیں ہے کہ تمام دنیا میں ہمیشہ 15 یا 18 برس کی عمر ہی کو غیر محتلم لڑکوں اور غیر حائضہ لڑکیوں کے معاملے میں حد بلوغ مانا جائے ۔ دنیا کے مختلف ملکوں میں ، اور مختلف زمانوں میں جسمانی نشو ونما کے حالات مختلف ہوا کرتے ہیں ۔ اصل چیز یہ ہے کہ عموماً کسی ملک میں جن عمروں کے لڑکوں اور لڑکیوں کو احتلام اور ایام ماہواری ہونے شروع ہوتے ہوں ان کا اوسط فرق نکال لیا جائے ، اور پھر جن لڑکوں اور لڑکیوں میں کسی غیر معمولی وجہ سے یہ علامات اپنے معتاد وقت پر نہ ظاہر ہوں ان کے لیے زیادہ سے زیادہ معتاد عمر پر اس اوسط کا اضافہ کر کے اسے بلوغ کی عمر قرار دے دیا جائے ۔ مثلاً کسی ملک میں بالعموم کم سے کم 12 اور زیادہ سے زیادہ 15 برس کے لڑکے کو احتلام ہوا کرتا ہو ، تو اوسط فرق ڈیڑھ سال ہو گا ، اور غیر معمولی قسم کے لڑکوں کے لیے ہم ساڑھے سولہ برس کی عمر کو سن بلوغ قرار دے سکیں گے ۔ اسی قاعدے پر مختلف ممالک کے اہل قانون اپنے ہاں کے حالات کا لحاظ کرتے ہوئے ایک حد مقرر کر سکتے ہیں ۔ 15 برس کی حد کے حق میں ایک حدیث پیش کی جاتی ہے ، اور وہ ابن عمر کی یہ روایت ہے کہ میں 14 سال کا تھا جب غزوۂ خندق کے موقع پر ، جبکہ میں 15 سال کا تھا ، مجھے دوبارہ پیش کیا گیا اور آپ نے مجھ کو اجازت دے دی ( صحاح ستہ و مسند احمد ) ۔ لیکن یہ روایت دو وجوہ سے قابل استدلال نہیں ہے ۔ اول یہ کہ غزوہ احد شوال 3 ھ کا واقعہ ہے اور غزوہ خندق بقول محمد بن اسحاق شوال 5 ھ میں اور بقول ابن سعد ذی القعدہ 5 میں پیش آیا ۔ دونوں واقعات کے درمیان پورے دو سال یا اس سے زیادہ کا فرق ہے ۔ اب اگر غزوہ احد کے زمانے میں ابن عمر 14 سال کے تھے تو کس طرح ممکن ہے کہ غزوہ خندق کے زمانے میں وہ صرف 15 سال کے ہوں ؟ ہو سکتا ہے کہ انہوں نے 12 سال 11 مہینے کی عمر کو 14 سال ، اور 15 برس 11 مہینے کی عمر کا 15 سال کہہ دیا ہو ۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ لڑائی کے لیے بالغ ہونا اور چیز ہے اور معاشرتی معاملات میں قانوناً نا بالغ ہونا اور چیز ۔ ان دونوں میں کوئی لازمی تعلق نہیں ہے کہ ایک کو دوسرے کے لیے دلیل بنایا جا سکے ۔ لہٰذا صحیح یہ ہے کہ غیر محتلم لڑکے کے لیے 15 برس کی عمر مقرر کرنا ایک قیاسی و اجتہادی حکم ہے ، کوئی منصوص حکم نہیں ہے ۔ سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :92 اصل میں لفظ قواعد من النسآء کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں ، یعنی عورتوں میں سے جو بیٹھ چکی ہوں یا بیٹھی ہوئی عورتیں ۔ اس سے مراد ہے سن یاس ، یعنی عورت کا اس عمر کو پہنچ جانا جس میں وہ اولاد پیدا کرنے کے قابل نہ رہے ، اس کی اپنی خواہشات بھی مر چکی ہوں اس کو دیکھ کر مردوں میں بھی کوئی صنفی جذبہ نہ پیدا ہو سکتا ہو ۔ اسی معنی کی طرف بعد کا فقرہ اشارہ کر رہا ہے ۔ سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :93 اصل الفاظ ہیں یَضَعْنَ ثِیَابَھُنَّ ، اپنے کپڑے اتار دیں ۔ مگر ظاہر ہے کہ اس سے مراد سارے کپڑے اتار کر برہنہ ہو جانا تو نہیں ہو سکتا ۔ اسی لیے تمام فقہاء اور مفسرین نے بالاتفاق اس سے مراد وہ چادریں لی ہیں جن سے زینت کو چھپانے کا حکم سور احزاب کی آیت یُدْنِیْنَ عَلَیْھِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِھِنَّ میں دیا گیا تھا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(24:59) من قبلہم۔ ان سے قبل (کے لوگ) یعنی جیسے ان کے بڑے (اجازت لے کر آتے ہیں) ای کما استاذن الذین بلغوا الحلم من قبلہم۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

4 ۔ یا جس طرح وہ لوگ اجازت لیتے ہیں جن کا ذکر پہلے (آیت 27 میں) ہوچکا ہے۔ الغرض بلوغت کے بعد ہرحال میں اجازت لیکر آنا ضروری ہے۔ پھر ان تین اوقات کی تخصیص نہیں ہے۔ (ابن کثیر) عطا بن یسار (رض) سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا۔ ” اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! کیا میں اپنی ماں کے پاس بھی اجازت لے کر جایا کروں ؟ فرمایا : ” ہاں “ اس نے کہا۔ ” میں تو اس کے ساتھ ایک ہی گھر میں رہتا ہوں۔ “ فرمایا :” تب بھی اجازت لیکر جایا کرو۔ ماں کو برہنگی کی حالت میں دیکھنا چاہتے ہو ؟ “ اس نے جواب دیا۔ ” نہیں “۔ فرمایا تو اجازت لے کر جایا کرو۔ (شوکانی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

6۔ اس کو مکرر اس لئے لایا گیا کہ قانون استیذان کی مصلحتیں نہایت واضح اور اس کے احکام نہایت قابل رعایت ہیں، تکریر سے اہتمام ظاہر ہوگیا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

62:۔ ” واذا بلغ الاطفال الخ “۔ لیکن جب نابالغ لڑکے بلوغ کو پہنچ جائیں تو اب ان پر بھی لازم ہے کہ وہ بھی اسی طرح اجازت لے کر گھر میں داخل ہوا کریں جس طرح دوسرے بالغ مرد اجازت لیتے ہیں جن کا حکم پہلے بیان ہوچکا ہے۔ اللہ تعالیٰ جو سب کچھ جاننے والا اور حکمت والا ہے وہ تمہیں معاشرت کے ایسے سنہرے اصول تعلیم دیتا ہے جن میں تمہارا دینی اور دنیوی فائدہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کا کوئی حکم ھکمت اور مصلحت سے خالی نہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(59) اور جب تم میں کے لڑکے حد بلوغ کو پہنچ جائیں تو جس طرح ان سے پہلے کے بالغ مرد اجازت لیتے آئے ہیں اسی طرح یہ بھی اجازت حاصل کیا کریں اسی طرح اللہ تعالیٰ تمہارے لئے صاف صاف اپنے احکام بیان کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ سب جاننے والا بڑی حکمت والا ہے۔ یعنی جب نابالغ لڑکے بالغ ہوجائیں یا قریب البلوغ یعنی مراہق ہوجائیں تو ان کا حکم بھی بالغ مردوں کا سا ہوگا کہ وہ کسی وقت بھی بلاا جازت لئے مکان میں داخل ہوسکیں گے۔ جیسا کہ چوتھے رکوع میں مذکور ہوا یہ آزاد اور احرار لڑکوں کا حکم ہے جب بالغ ہوگئے تو بلوغ کے احکام جاری ہوں گے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں ایسی پروانگی یعنی جیسے جدی گھر والے ہر وقت خبر کر کر آویں۔ 12