91. That is, when they have reached the age of puberty. As has been explained in E.N. 87 above, the signs of puberty in the case of boys and girls are nocturnal emission and menstrual discharge respectively. There is, however, a difference of opinion among the jurists regarding the beginning of puberty in those boys and girls who for some reason do not show these physical signs for an unduly long time. According to Imam Shafai, Imam Abu Yusuf, Imam Muhammad and Imam Ahmad, a boy or a girl of 15 years will be considered to have attained puberty, and a saying of Imam Abu Hanifah also supports this view. But the well known view of Imam Abu Hanifah is that in such cases the age of puberty will be 17 years for girls and 18 years for boys. Both these opinions are the result of juristic reasoning and neither is based on any injunction of the Quran or Sunnah. It is therefore not necessary that the age limits of 15 or 18 years be accepted as marking the beginning of puberty everywhere in the world in abnormal cases. In different countries and ages there are different conditions of physical development and growth. The age of puberty in a certain country can be determined by means of the law of averages in normal cases. As for abnormal cases, the mean difference of ages may be added to the upper age limit to determine the age of puberty. For instance, if in a country, the minimum and maximum ages for noctural discharge are normally 12 and 15 years respectively, the mean difference of one and a half years may be added to the maximum limit of 15 years to determine the beginning of puberty for abnormal cases. The same principle can be used by the legal experts of various countries to fix the age of puberty keeping in view their peculiar local conditions.
There is a tradition quoted from Ibn Umar in support of the age of 15 years for puberty. He says: I was 14, when I presented myself before the Prophet (peace be upon him) to ask his permission to join the battle of Uhud, but he declined permission. Then on the occasion of the battle of the Trench, when I was 15, I was again presented and he permitted me to join. (Sihah Sitta, Musnad Ahmad). This tradition, however, does not stand scrutiny for the following two reasons:
(a) The battle of Uhud took place in Shawwal, 3 A.H., and the battle of the Trench in Shawwal, 5 A.H. according to Ibn Ishaq, and in Zil-Qad, 5 A.H. according to Ibn Saad. There is an interval of two years or more between the two events. Now if Ibn Umar was 14 at the time of the battle of Uhud, he could not be 15 at the time of the battle of the Trench. It may be that he mentioned 14 years for 13 years and 11 months and 15 years for 15 years and 11 months.
(b) It is a different thing to be regarded as an adult for the purposes of war and quite different to be legally adult for social affairs. They are not necessarily interconnected. Therefor the correct view is that the age of 15 for an abnormal boy has been fixed on the basis of analogous and juristic reasoning and not on the basis of anything in the Quran or Sunnah.
سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :91
یعنی بالغ ہو جائیں ۔ جیسا کہ اوپر حاشیہ نمبر 87 میں بیان کیا جا چکا ہے لڑکوں کے معاملے میں احتلام اور لڑکیوں کے معاملے میں ایام ماہواری کا آغاز علامت بلوغ ہے ۔ لیکن جو لڑکے اور لڑکیاں کسی وجہ سے دیر تک ان جسمانی تغیرات سے خالی رہ جائیں ان کے معاملہ میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے ۔ امام شافعی ، امام ابو یوسف ، امام محمد ، اور امام احمد کے نزدیک اس صورت میں 15 برس کے لڑکے اور لڑکی کو بالغ سمجھا جائے گا ، اور امام ابو حنیفہ کا بھی ایک قول اس کی تائید میں ہے ۔ لیکن امام اعظم کا مشہور قول یہ ہے کہ اس صورت میں 17 برس کی لڑکی اور 18 برس کے لڑکے کو بالغ قرار دیا جائے گا ۔ یہ دونوں قول کسی نص پر نہیں بلکہ فقیہانہ اجتہاد پر مبنی ہیں ، لہٰذا ضروری نہیں ہے کہ تمام دنیا میں ہمیشہ 15 یا 18 برس کی عمر ہی کو غیر محتلم لڑکوں اور غیر حائضہ لڑکیوں کے معاملے میں حد بلوغ مانا جائے ۔ دنیا کے مختلف ملکوں میں ، اور مختلف زمانوں میں جسمانی نشو ونما کے حالات مختلف ہوا کرتے ہیں ۔ اصل چیز یہ ہے کہ عموماً کسی ملک میں جن عمروں کے لڑکوں اور لڑکیوں کو احتلام اور ایام ماہواری ہونے شروع ہوتے ہوں ان کا اوسط فرق نکال لیا جائے ، اور پھر جن لڑکوں اور لڑکیوں میں کسی غیر معمولی وجہ سے یہ علامات اپنے معتاد وقت پر نہ ظاہر ہوں ان کے لیے زیادہ سے زیادہ معتاد عمر پر اس اوسط کا اضافہ کر کے اسے بلوغ کی عمر قرار دے دیا جائے ۔ مثلاً کسی ملک میں بالعموم کم سے کم 12 اور زیادہ سے زیادہ 15 برس کے لڑکے کو احتلام ہوا کرتا ہو ، تو اوسط فرق ڈیڑھ سال ہو گا ، اور غیر معمولی قسم کے لڑکوں کے لیے ہم ساڑھے سولہ برس کی عمر کو سن بلوغ قرار دے سکیں گے ۔ اسی قاعدے پر مختلف ممالک کے اہل قانون اپنے ہاں کے حالات کا لحاظ کرتے ہوئے ایک حد مقرر کر سکتے ہیں ۔
15 برس کی حد کے حق میں ایک حدیث پیش کی جاتی ہے ، اور وہ ابن عمر کی یہ روایت ہے کہ میں 14 سال کا تھا جب غزوۂ خندق کے موقع پر ، جبکہ میں 15 سال کا تھا ، مجھے دوبارہ پیش کیا گیا اور آپ نے مجھ کو اجازت دے دی ( صحاح ستہ و مسند احمد ) ۔ لیکن یہ روایت دو وجوہ سے قابل استدلال نہیں ہے ۔ اول یہ کہ غزوہ احد شوال 3 ھ کا واقعہ ہے اور غزوہ خندق بقول محمد بن اسحاق شوال 5 ھ میں اور بقول ابن سعد ذی القعدہ 5 میں پیش آیا ۔ دونوں واقعات کے درمیان پورے دو سال یا اس سے زیادہ کا فرق ہے ۔ اب اگر غزوہ احد کے زمانے میں ابن عمر 14 سال کے تھے تو کس طرح ممکن ہے کہ غزوہ خندق کے زمانے میں وہ صرف 15 سال کے ہوں ؟ ہو سکتا ہے کہ انہوں نے 12 سال 11 مہینے کی عمر کو 14 سال ، اور 15 برس 11 مہینے کی عمر کا 15 سال کہہ دیا ہو ۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ لڑائی کے لیے بالغ ہونا اور چیز ہے اور معاشرتی معاملات میں قانوناً نا بالغ ہونا اور چیز ۔ ان دونوں میں کوئی لازمی تعلق نہیں ہے کہ ایک کو دوسرے کے لیے دلیل بنایا جا سکے ۔ لہٰذا صحیح یہ ہے کہ غیر محتلم لڑکے کے لیے 15 برس کی عمر مقرر کرنا ایک قیاسی و اجتہادی حکم ہے ، کوئی منصوص حکم نہیں ہے ۔
سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :92
اصل میں لفظ قواعد من النسآء کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں ، یعنی عورتوں میں سے جو بیٹھ چکی ہوں یا بیٹھی ہوئی عورتیں ۔ اس سے مراد ہے سن یاس ، یعنی عورت کا اس عمر کو پہنچ جانا جس میں وہ اولاد پیدا کرنے کے قابل نہ رہے ، اس کی اپنی خواہشات بھی مر چکی ہوں اس کو دیکھ کر مردوں میں بھی کوئی صنفی جذبہ نہ پیدا ہو سکتا ہو ۔ اسی معنی کی طرف بعد کا فقرہ اشارہ کر رہا ہے ۔
سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :93
اصل الفاظ ہیں یَضَعْنَ ثِیَابَھُنَّ ، اپنے کپڑے اتار دیں ۔ مگر ظاہر ہے کہ اس سے مراد سارے کپڑے اتار کر برہنہ ہو جانا تو نہیں ہو سکتا ۔ اسی لیے تمام فقہاء اور مفسرین نے بالاتفاق اس سے مراد وہ چادریں لی ہیں جن سے زینت کو چھپانے کا حکم سور احزاب کی آیت یُدْنِیْنَ عَلَیْھِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِھِنَّ میں دیا گیا تھا ۔