Surat un Noor

Surah: 24

Verse: 6

سورة النور

وَ الَّذِیۡنَ یَرۡمُوۡنَ اَزۡوَاجَہُمۡ وَ لَمۡ یَکُنۡ لَّہُمۡ شُہَدَآءُ اِلَّاۤ اَنۡفُسُہُمۡ فَشَہَادَۃُ اَحَدِہِمۡ اَرۡبَعُ شَہٰدٰتٍۭ بِاللّٰہِ ۙ اِنَّہٗ لَمِنَ الصّٰدِقِیۡنَ ﴿۶﴾

And those who accuse their wives [of adultery] and have no witnesses except themselves - then the witness of one of them [shall be] four testimonies [swearing] by Allah that indeed, he is of the truthful.

جو لوگ اپنی بیویوں پر بدکاری کی تہمت لگائیں اور ان کا کوئی گواہ بجز خود ان کی ذات کےنہ ہو تو ایسے لوگوں میں سے ہر ایک کا ثبوت یہ ہے کہ چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر کہیں کہ وہ سچوں میں سے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Details of Al-Li`an Allah says: وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ وَلَمْ يَكُن لَّهُمْ شُهَدَاء إِلاَّ أَنفُسُهُمْ فَشَهَادَةُ أَحَدِهِمْ أَرْبَعُ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ ... And for those who accuse their wives, but have no witnesses except themselves, let the testimony of one of them be four testimonies by Allah, This Ayah offers a way out for husbands. If a husband ha... s accused his wife but cannot come up with proof, he can swear the Li`an (the oath of condemnation) as Allah commanded. This means that he brings her before the Imam and states what he is accusing her of. The ruler then asks him to swear four times by Allah in front of four witnesses, ... إِنَّهُ لَمِنَ الصَّادِقِينَ that he is one of those who speak the truth. in his accusation of her adultery. وَالْخَامِسَةُ أَنَّ لَعْنَتَ اللَّهِ عَلَيْهِ إِن كَانَ مِنَ الْكَاذِبِينَ   Show more

لعان سے مراد ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ رب العالمین نے ان خاوندوں کیلئے جو اپنی بیویوں کی نسبت ایسی بات کہہ دیں چھٹکارے کی صورت بیان فرمائی ہے کہ جب وہ گواہ پیش نہ کرسکیں تو لعان کرلیں ۔ اس کی صورت یہ ہے کہ امام کے سامنے آکر وہ اپنا بیان دے جب شہادت نہ پیش کرسکے تو حاکم اسے چار گواہوں کے قائم مقام ... چار قسمیں دے گا اور یہ قسم کھاکر کہے گا کہ وہ سچا ہے جو بات کہتا ہے وہ حق ہے ۔ پانچویں دفعہ کہے گا کہ اگر وہ جھوٹا ہو تو اس پر اللہ کی لعنت ۔ اتنا کہتے ہی امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ وغیرہ کے نزدیک اس کی عورت اس سے بائن ہو جائے گی اور ہمیشہ کیلئے حرام ہو جائے گی ۔ یہ مہر ادا کر دے گا اور اس عورت پر زنا ثابت ہو جائے گی ۔ لیکن اگر وہ عورت بھی سامنے ملاعنہ کرے تو حد اس پر سے ہٹ جائے گی ۔ یہ بھی چار مرتبہ حلفیہ بیان دے گی کہ اس کا خاوند جھوٹا ہے ۔ اور پانچویں مرتبہ کہے گی کہ اگر وہ سچا ہو تو اس پر اللہ کا غضب نازل ہو ۔ اس نکتہ کو بھی خیال میں رکھئے کہ عورت کیلئے غضب کا لفظ کہا گیا اس لئے کہ عموماً کوئی مرد نہیں چاہتا کہ وہ اپنی بیوی کو خواہ مخواہ تہمت لگائے اور اپنے آپ کو بلکہ اپنے کنبے کو بھی بدنام کرے عموماً وہ سچا ہی ہوتا ہے اور اپنے صدق کی بنا پر ہی وہ معذور سمجھا جاسکتا ہے ۔ اس لئے پانچویں مرتبہ میں اس سے یہ کہلوایا گیا کہ اگر اس کا خاوند سچا ہو تو اس پر اللہ کا غضب آئے ۔ پھر غضب والے وہ ہوتے ہیں جو حق کو جان کر پھر اس سے روگردانی کریں ۔ پھر فرماتا ہے کہ اگر اللہ کا فضل و رحم تم پر نہ ہوتا تو پھر غضب والے وہ ہوتے ہیں جو حق کو جان کر پھر اس سے روگردانی کریں ۔ پھر فرماتا ہے کہ اگر اللہ کا فضل و رحم تم پر نہ ہوتا تو ایسی آسانیاں تم پر نہ ہوتیں بلکہ تم پر مشقت اترتی ۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی توبہ قبول فرمایا کرتا ہے گو کیسے ہی گناہ ہوں اور گو کسی وقت بھی توبہ ہو وہ حکیم ہے ، اپنی شرع میں ، اپنے حکموں میں ، اپنی ممانعت میں اس آیت کے بارے میں جو روایتیں ہیں وہ بھی سن لیجئے ۔ مسند احمد میں ہے جب یہ آیت اتری تو حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو انصار کے سردار ہیں کہنے لگے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا یہ آیت اسی طرح اتاری گئی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انصاریو سنتے نہیں ہو؟ یہ تمہارے سردار کیا کہہ رہے ہیں؟ انہوں نے کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ درگزر فرمائیے یہ صرف ان کی بڑھی چڑھی غیرت کا باعث ہے اور کچھ نہیں ۔ ان کی غیرت کا یہ حال ہے کہ انہیں کوئی بیٹی دینے کی جرأت نہیں کرتا ۔ حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ تو میرا ایمان ہے کہ یہ حق ہے لیکن اگر میں کسی کو اس کے پاؤں پکڑے ہوئے دیکھ لوں تو بھی میں اسے کچھ نہیں کہہ سکتا یہاں تک کہ میں چار گواہ لاؤں تب تک تو وہ اپنا کام پورا کرلے گا ۔ اس بات کو ذرا سی ہی دیر ہوئی ہوگی کہ حضرت ہلال بن امیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے یہ ان تین شخصوں میں سے ایک غیر مرد ہے خود آپ نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اپنے کانوں سے ان کی باتیں سنیں ۔ صبح ہی صبح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ذکر کیا آپ کو بہت برا معلوم ہوا اور طبیعت پر نہایت ہی شاق گزرا ۔ سب انصار جمع ہوگئے اور کہنے لگے حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قول کی وجہ سے ہم اس آفت میں مبتلا کئے گئے مگر اس صورت میں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہلال بن امیہ کو تہمت کی حد لگائیں اور اس کی شہادت کو مردود ٹھہرائیں ۔ حضرت ہلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہنے لگے واللہ میں سچا ہوں اور مجھے اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ میرا چھٹکارا کردے گا ۔ کہنے لگے یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں دیکھتا ہوں کہ میرا کلام آپ کی طبیعت پر بہت گراں گزرا ۔ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے اللہ کی قسم ہے میں سچا ہوں ، اللہ خوب جانتا ہے ۔ لیکن چونکہ گواہ پیش نہیں کرسکتے تھے قریب تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں حد مارنے کو فرماتے اتنے میں وحی اترنا شروع ہوئی ۔ صحابہ آپ کے چہرے کو دیکھ کر علامت سے پہچان گئے کہ اس وقت وحی نازل ہو رہی ہے ۔ جب اترچکی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ہلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف دیکھ کر فرمایا ، اے ہلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ خوش ہو جاؤ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے کشادگی اور چھٹی نازل فرما دی ۔ حضرت ہلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہنے لگے الحمدللہ مجھے اللہ رحیم کی ذات سے یہی امید تھی ۔ پھر آپ نے حضرت ہلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیوی کو بلوایا اور ان دونوں کے سامنے آیت ملاعنہ پڑھ کر سنائی اور فرمایا دیکھو آخرت کا عذاب دنیا کے عذاب سے سخت ہے ۔ ہلال فرمانے لگے یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں بالکل سچا ہوں ۔ اس عورت نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ جھوٹ کہہ رہا ہے آپ نے حکم دیا کہ اچھا لعان کرو ۔ تو ہلال کو کہا گیا کہ اس طرح چار قسمیں کھاؤ اور پانچویں دفعہ یوں کہو ۔ حضرت ہلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب چار بار کہہ چکے اور پانچویں بار کی نوبت آئی تو آپ سے کہا گیا کہ ہلال اللہ سے ڈر جا ۔ دنیا کی سزا آخرت کے عذابوں سے بہت ہلکی ہے یہ پانچویں بار تیری زبان سے نکلتے ہی تجھ پر عذاب واجب ہو جائے گا تو آپ نے کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قسم اللہ کی جس طرح اللہ نے مجھے دنیا کی سزا سے میری صداقت کی وجہ سے بچایا ، اسی طرح آخرت کے عذاب سے بھی میری سچائی کی وجہ سے میرا رب مجھے محفوظ رکھے گا ۔ پھر پانچویں دفعہ کے الفاظ بھی زبان سے ادا کردیئے ۔ اب اس عورت سے کہا گیا کہ تو چار دفعہ قسمیں کھا کہ یہ جھوٹا ہے ۔ جب وہ چاروں قسمیں کھاچکی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پانچویں دفعہ کے اس کلمہ کے کہنے سے روکا اور جس طرح حضرت ہلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سمجھایا گیا تھا اس سے بھی فرمایا تو اسے کچھ خیال پیدا ہوگیا ۔ رکی ، جھجکی ، زبان کو سنبھالا ، قریب تھا کہ اپنے قصور کا اقرار کرلے لیکن پھر کہنے لگی میں ہمیشہ کیلئے اپنی قوم کو رسوا نہیں کرنے کی ۔ پھر کہہ دیا کہ اگر اس کا خاوند سچا ہو تو اس پر اللہ کا غضب نازل ہو ۔ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں میں جدائی کرا دی اور حکم دیدیا کہ اس سے جو اولاد ہو وہ حضرت ہلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف منسوب نہ کی جائے ۔ نہ اسے حرام کی اولاد کہا جائے ۔ جو اس بچے کو حرامی کہے یا اس عورت پر تہمت رکھے ، وہ حد لگایا جائے گا ، یہ بھی فیصلہ دیا کہ اس کا کوئی نان نفقہ اس کے خاوند پر نہیں کیونکہ جدائی کردی گئی ہے ۔ نہ طلاق ہوئی ہے نہ خاوند کا انتقال ہوا ہے اور فرمایا دیکھو اگر یہ بچہ سرخ سفید رنگ موٹی پنڈلیوں والا پیدا ہو تو تو اسے ہلال کا سمجھنا اور اگر وہ پتلی پنڈلیوں والا سیاہی مائل رنگ کا پیدا ہو تو اس شخص کا سمجھنا جس کے ساتھ اس پر الزام قائم کیا گیا ہے ۔ جب بچہ ہوا تو لوگوں نے دیکھا کہ وہ اس بری صفت پر تھا جو الزام کی حقانیت کی نشانی تھی ۔ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر یہ مسئلہ قسموں پر طے شدہ نہ ہوتا تو میں اس عورت کو قطعاً حد لگاتا ۔ یہ صاحبزادے بڑے ہو کر مصر کے والی بنے اور ان کی نسبت ان کی ماں کی طرف تھی ۔ ( ابوداؤد ) اس حدیث کے اور بھی بہت سے شاہد ہیں ۔ بخاری شریف میں بھی یہ حدیث ہے ۔ اس میں ہے کہ شریک بن عماء کے ساتھ تہمت لگائی گئی تھی ۔ اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جب حضرت ہلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ذکر کیا تو آپ نے فرمایا گواہ پیش کرو ورنہ تمہاری پیٹھ پر حد لگے گی ۔ حضرت ہلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک شخص اپنی بیوی کو برے کام پر دیکھ کر گواہ ڈھونڈنے جائے؟ لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہی فرماتے رہے ۔ اس میں یہ بھی ہے کہ دونوں کے سامنے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ اللہ خوب جانتا ہے کہ تم دونوں میں سے ایک ضرور جھوٹا ہے ۔ کیا تم میں سے کوئی توبہ کرکے اپنے جھوٹ سے ہٹتا ہے؟ اور روایت میں ہے کہ پانچویں دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی سے کہا کہ اس کا منہ بند کردو پھر اسے نصیحت کی ۔ اور فرمایا اللہ کی لعنت سے ہر چیز ہلکی ہے ۔ اسی طرح اس عورت کے ساتھ کیا گیا ۔ سعید بن جبیر رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ لعان کرنے والے مرد و عورت کی نسبت مجھ سے دریافت کیا گیا کہ کیا ان میں جدائی کرا دی جائے؟ یہ واقعہ ہے حضرت ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی امارت کے زمانہ کا ۔ مجھ سے تو اس کا جواب کچھ نہ بن پڑا تو میں اپنے مکان سے چل کر حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی منزل پر آیا اور ان سے یہی مسئلہ پوچھا تو آپ نے فرمایا سبحان اللہ سب سے پہلے یہ بات فلاں بن فلاں نے دریافت کی تھی کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی شخص اپنی عورت کو کسی برے کام پر پائے تو اگر زبان سے نکالے تو بھی بڑی بےشرمی کی بات ہے اور اگر خاموش رہے تو بھی بڑی بےغیرتی کی خاموشی ہے ۔ آپ سن کر خاموش ہو رہے ۔ پھر وہ آیا اور کہنے لگا حضور صلی اللہ علیہ وسلم میں نے جو سوال جناب سے کیا تھا افسوس وہی واقعہ میرے ہاں پیش آیا ۔ پس اللہ تعالیٰ نے سورۃ نور کی یہ آیتیں نازل فرمائیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں کو پاس بلا کر ایک ایک کو الگ الگ نصیحت کی ۔ بہت کچھ سمجھایا لیکن ہر ایک نے اپنا سچا ہونا ظاہر کیا پھر دونوں نے آیت کے مطابق قسمیں کھائیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں جدائی کرا دی ۔ ایک اور روایت میں ہے کہ صحابہ کا ایک مجمع شام کے وقت جمعہ کے دن مسجد میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک انصاری نے کہا جب کوئی شخص اپنی بیوی کے ساتھ کسی شخص کو پائے تو اگر وہ اسے مار ڈالے تو تم اسے مار ڈالو گے اور اگر زبان سے نکالے گا تو تم شہادت موجود نہ ہونے کی وجہ سے اسی کو کوڑے لگاؤ گے اور اگر یہ اندھیر دیکھ کر خاموش ہو کر بیٹھا رہے تو یہ بڑی بےغیرتی اور بڑی بےحیائی ہے ۔ واللہ اگر میں صبح تک زندہ رہا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی بابت دریافت کروں گا ۔ چنانچہ اس نے انہی لفظوں میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا اور دعا کی کہ یا اللہ اس کا فیصلہ نازل فرما ۔ پس آیت لعان اتری اور سب سے پہلے یہی شخص اس میں مبتلا ہوا ۔ اور روایت میں ہے کہ حضرت عویمر نے حضرت عاصم بن عدی سے کہا کہ ذرا جاؤ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت تو کرو کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے ساتھ کسی کو پائے تو کیا کرے؟ ایسا تو نہیں کہ وہ قتل کرے تو اسے بھی قتل کیا جائے گا ؟ چنانچہ عاصم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس سوال سے بہت ناراض ہوئے ۔ جب عویمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ عاصم سے ملے تو پوچھا کہ کہو تم نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا ؟ اور آپ نے کیا جواب دیا ؟ عاصم نے کہا تم نے مجھ سے کوئی اچھی خدمت نہیں لی افسوس میرے اس سوال پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عیب پکڑا اور برا مانا ۔ عویمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا اب اگر میں اسے اپنے گھر لے جاؤں تو گویا میں نے اس پر جھوٹ تہمت باندھی تھی ۔ پس آپ کے حکم سے پہلے ہی اس عورت کو جدا کردیا ۔ پھر تو لعان کرنے والوں کا یہی طریقہ مقرر ہوگیا ۔ ایک اور روایت میں ہے کہ یہ عورت حاملہ تھی اور ان کے خاوند نے اس سے انکار کیا کہ یہ حمل ان سے ہوا ۔ اس لئے یہ بچہ اپنی ماں کی طرف منسوب ہوتا رہا پھر منسون طریقہ یوں جاری ہوا کہ یہ اپنی ماں کا وارث ہوگا اور ماں اس کی وارث ہوگی ۔ ایک مرسل اور غریب حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا کہ اگر تمہارے ہاں ایسی واردات ہو تو کیا کرو گے؟ دونوں نے کہا گردن اڑا دیں گے ۔ ایسے وقت چشم پوشی وہی کرسکتے ہیں جو دیوث ہوں ، اس پر یہ آیتیں اتریں ۔ ایک روایت میں ہے کہ سب سے پہلا لعان مسلمانوں میں ہلال بن امیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کی بیوی کے درمیان ہوا تھا ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَالَّذِيْنَ يَرْمُوْنَ اَزْوَاجَهُمْ ۔۔ : حد قذف کی آیات نازل ہونے کے بعد یہ مسئلہ پیش آیا کہ اگر خاوند اپنی بیوی کو زنا کرتے ہوئے دیکھے اور اس کے پاس گواہ نہ ہوں تو وہ کیا کرے۔ سب سے پہلے سعد بن عبادہ (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرضی طور پر اس کے متعلق پوچھا، کہنے لگے : ( یَا رَ... سُوْلَ اللّٰہِ ! إِنْ وَجَدْتُ مَعَ امْرَأَتِيْ رَجُلاً ، أَ أُمْھِلُہُ حَتّٰی آتِيَ بِأَرْبَعَۃِ شُھَدَاءَ ؟ قَالَ نَعَمْ ) [ مسلم، کتاب اللعان : ١٥؍١٤٩٨ ] ” یا رسول اللہ ! اگر میں اپنی بیوی کے ساتھ کسی آدمی کو پاؤں تو کیا اسے چار گواہ لانے تک مہلت دوں ؟ “ آپ نے فرمایا : ” ہاں ! “ عبداللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ ایک آدمی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور آپ سے پوچھا : ” اگر کوئی آدمی اپنی بیوی کے ساتھ کسی مرد کو پائے تو وہ یا تو بات کرے گا تو تم اسے کوڑے مارو گے، یا وہ (اسے) قتل کر دے گا، تو تم اسے قتل کر دو گے، یا خاموش رہے گا تو دلی غیظ پر خاموش رہے گا۔ “ آپ نے کہا : ( اللّٰھُمَّ ! افْتَحْ ) ” یا اللہ ! تو فیصلہ فرما ! “ اور دعا کرنے لگے، تو لعان کی آیات اتریں : (وَالَّذِيْنَ يَرْمُوْنَ اَزْوَاجَهُمْ وَلَمْ يَكُنْ لَّهُمْ شُهَدَاۗءُ اِلَّآ اَنْفُسُهُمْ ۔۔ اِنْ كَانَ مِنَ الصّٰدِقِيْنَ ) [ النور : ٦ تا ٩ ] تو وہی آدمی اس آزمائش میں مبتلا ہوگیا۔ چناچہ وہ اور اس کی بیوی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے اور انھوں نے لعان کیا۔ مرد نے اللہ کی چار قسمیں کھائیں کہ وہ یقیناً سچوں میں سے ہے، پھر پانچویں دفعہ اس نے لعنت کی کہ اس پر لعنت ہو اگر وہ جھوٹوں میں سے ہو۔ پھر وہ عورت لعنت کرنے لگی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” ٹھہرو ! “ مگر وہ نہیں مانی اور اس نے لعان کردیا۔ جب وہ واپس گئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” شاید کہ وہ سیاہ گھونگھریالے بالوں والے بچے کو جنم دے۔ “ تو اس نے سیاہ گھونگھریالے بالوں والے بچے ہی کو جنم دیا۔ [ مسلم، کتاب اللعان : ١٤٩٥ ] سہل بن سعد (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک آدمی آیا اور کہنے لگا : ” یا رسول اللہ ! یہ بتائیں کہ کوئی آدمی اپنی بیوی کے ساتھ کسی مرد کو دیکھے تو کیا اسے قتل کر دے، تو تم اسے قتل کر دو گے، یا وہ کیا کرے ؟ تو اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کے بارے میں قرآن کی وہ آیات نازل فرمائیں جن میں لعان کا ذکر ہے۔ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ نے تمہارے اور تمہاری بیوی کے متعلق فیصلہ فرما دیا ہے۔ “ سہل (رض) فرماتے ہیں : ” ان دونوں نے لعان کیا اور میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس حاضر تھا اور اس نے بیوی سے علیحدگی اختیار کرلی تو یہ سنت ٹھہری کہ لعان کرنے والے میاں بیوی کے درمیان علیحدگی کردی جائے گی اور وہ حاملہ تھی تو خاوند نے اس کے حمل کو اپنا تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ اس لیے وہ ماں کے نام پر پکارا جاتا تھا، پھر میراث میں یہ سنت جاری ہوئی کہ وہ لڑکا اپنی ماں کا وارث بنے گا اور وہ اس کی وارث ہوگی۔ “ [ بخاري، التفسیر، باب : ( والخامسۃ أن لعنت اللہ علیہ ۔۔ ) : ٤٧٤٦ ] 3 ان دونوں احادیث میں لعان کے تقریباً سبھی احکام آگئے ہیں۔ میاں بیوی دونوں میں سے ایک کے یقیناً جھوٹا ہونے کے باوجود ان کا معاملہ لعان کے بعد اللہ کے سپرد کیا جائے گا، تاکہ مہلت اور پردہ پوشی سے فائدہ اٹھا کر غلطی والا فریق اللہ تعالیٰ سے توبہ و استغفار کرلے۔ 3 یاد رہے کہ کسی خاوند کا محض شک کی بنا پر یا بچے کے حلیہ کو اپنے مطابق نہ دیکھ کر بیوی پر زنا کا الزام لگا دینا سخت گناہ ہے۔ ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور کہنے لگا : ” یا رسول اللہ ! میرے ہاں کالے رنگ کا بچہ پیدا ہوا ہے ؟ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” تمہارے پاس کچھ اونٹ ہیں ؟ “ اس نے کہا : ” جی ہاں ! “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” ان کے رنگ کیا ہیں ؟ “ کہا : ” سرخ ہیں۔ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” کیا ان میں کوئی خاکستری بھی ہے ؟ “ کہا : ” جی ہاں ! “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” وہ کیسے ہوگیا ؟ “ کہا : ” شاید اسے کوئی رگ کھینچ کرلے گئی ہو۔ “ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” تو شاید تمہارے اس بیٹے کو بھی کوئی رگ کھینچ کرلے گئی ہو۔ “ [ بخاری، الطلاق، باب إذا عرض بنفي الولد : ٥٣٠٥ ]  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary The fourth injunction is of Li&an (لِعَان : curse) among the adjuncts of fornication The meaning of لِعَان and is to curse and praying for Allah&s wrath on each other. Certain specific types of oaths between husband and wife with special connotation are called Li` an (لِعَان) in Islamic law. When a husband accuses his wife of adultery or refuses to own his child as being legitim... ate, and his wife refutes his allegation to be false, and claims for the punishment of false accusation (قَذَف) of eighty stripes to be awarded to him, then the husband will be asked to produce four witnesses. If the husband produces four witnesses, then the wife will be awarded the punishment of adultery, and if he could not produce four witnesses, then they will be subjected to li&an (لِعَان), that is first the husband will be asked to testify four times with the wordings given in the Qur&an to the effect that he is honest, and the fifth time will say that if he was lying, then Allah&s curse be on him. If the husband hesitates from saying these words, then he should be arrested, and asked either to swear by saying these words five times or accept himself to be a liar. Until he accedes to one of the two alternatives, he should not be released. If he accepts himself to be a liar, then he should be awarded the punishment of false allegation of adultery (حد القذف), but, in case he swears by repeating the required words five times, then the wife be asked to swear five times by uttering the words given in the Qur&an for this purpose. If she refuses to swear, then she should be put under arrest until such time that either she swears five times or accepts her guilt of adultery, in which case she will be awarded the punishment for adultery. In case she agrees to swear and utters the required words five times, then the process of li` an (لِعَان) has been completed. This way they both have escaped the punishment in this world, but in the Hereafter, the one who has lied will suffer the punishment, as Allah knows best who is the liar. However, in this world also, after the process of li&an (لِعَان) this couple will be forbidden to each other for ever-The husband should free the woman by divorcing her. If the husband does not divorce her, then the judge or the ruler can have them separated by his decree, which will have the same force as divorce. Moreover, they also cannot get married again for ever. Details of the process of li&an (لِعَان) are given in the books of fiqh, where they can be seen. The law of li&an (لِعَان) has been placed in the Islamic jurisprudence to take care of the psychology and emotions of the husband, because in the preceding verses it has been ruled that for putting the blame of adultery on anyone it is essential to produce four eyewitnesses, and if one fails to do so, then he himself will be liable to punishment of false allegation of adultery. For a common man it is possible to keep quiet and not to accuse someone of adultery if he cannot produce four eye-witnesses, in order to save himself from the punishment of false accusation of adultery, but for the husband it is different and a very grave matter, when he has seen the adultery of his wife with his own eyes. For if he accuses his wife without the support of four eye-witnesses he will be liable to punishment of eighty stripes, and if he keeps quiet, it will be a lifelong agony for him to live with the knowledge that his wife has been unfaithful to him. Therefore, the husband&s case has been separated from the general law and a separate provision has been prescribed, which is exclusive to the case between husband and wife. For others the directive is the same a: enjoined in the preceding verses. The books of Hadith have narrated two incidents under this subject. The commentators have different views as to which of the two incidents was the cause of revelation of these verses. Qurtubi has taken both the incidents as the cause of revelation of verses so as the revelation was repeated twice. Hafiz Ibn Hajr, the annotator of Bukhari, and Nawawi, the annotator of Muslim, have treated both incidents as the cause of revelation of the verses. Their reasoning is more appealing, which will soon appear. One incident is that of Hilal bin Umayyah and his wife, which is narrated in Bukhari on the authority of Ibn ` Abbas (رض) . The initial part of this incident, also on the authority of Ibn ` Abbas (رض) ، has appeared in the Musnad of Alimad like this: Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) has said that when the verses of Qur&an on punishment of false accusation of adultery were revealed namely, وَالَّذِينَ يَرْ‌مُونَ الْمُحْصَنَاتِ ثُمَّ لَمْ يَأْتُوا بِأَرْ‌بَعَةِ شُهَدَاءَ فَاجْلِدُوهُمْ ثَمَانِينَ جَلْدَةً And those who accuse the chaste women (of fornication), but they do not produce four witnesses, flog them with eighty stripes - 24:4. in which it is made obligatory on the person accusing a woman of adultery to produce four eyewitnesses, one of them he being himself, and if he fails to do so, then he should be charged with the false accusation and awarded eighty stripes instead, and should also be debarred for life from giving any evidence. After hearing these verses a leader of Madinah, Sayyidna Sa&d Ibn ` Ubadah (رض) enquired from the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) whether these verses were revealed like that only. The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (was very surprised to hear this from Sa&d Ibn Ubadah), asked the Ansar whether they were listening to what their leader had said. The group of Ansar pleaded to the Holy Prophet صلی اللہ علیہ وسلم not to reproach him, as he had made this enquiry only because of extreme sense of honour. Then Sa&d Ibn ` Ubadah (رض) spoke himself and said |"My parents be sacrificed on your honour! I know fully well that these verses are nothing but truth, and have been revealed from Allah Ta’ ala; but what I am surprised of is that if I see a shameless wife in a situation that a strange man is lying over her, then would it not be right for me to scold him and remove him from there. Instead, will it be incumbent on me to get four men and show them this situation to make them eye-witnesses, and by the time I could find four men, he runs away after performing his work?|" (Sayyidna Sa` d&s wordings are recorded with slight differences by various narrators, but the gist of all is the same. - Qurtubi) Only a short time had lapsed after revelation of the verses of punishment against false accusation of adultery and the remarks made by Sa&d Ibn ` Ubadah, that the incident of Hilal Ibn Umayyah (رض) took place. It so happened that Sayyidna Hilal (رض) returned from his lands late in the night, when he saw a man with his wife with his own eyes, and listened to their conversation. But he did not do anything and waited until the dawn, when he went to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and narrated the story, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) was very unhappy to hear about this incident and felt very bad. In the meantime the people of Ansar were gathered and started discussing among themselves that the same thing had happened as was hinted by their chief, and that Hilal Ibn Umayyah (رض) would be punished with eighty stripes in accordance with the Islamic law, and be debarred for life for giving any evidence. Nevertheless, Hilal Ibn Umayyah (رض) said &By Allah I am very hopeful that Allah Ta’ ala will take me out of this predicament&. Sahih of Bukhari has also quoted that in fact the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، after hearing the incident of Sayyidna Hilal (رض) had asked him, according to Islamic law, to produce four eye-witnesses or be prepared for the punishment of eighty stripes on the back. Sayyidna Hilal Ibn Umayyah (رض) swore an oath by God before the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، and pleaded that he was honest, and that Allah will surely send down a command which will save his back from flogging. While this conversation was still on, Jibra&il (علیہ السلام) descended with the verses containing the law of Wan, that is: وَالَّذِينَ يَرْ‌مُونَ أَزْوَاجَهُمْ And those who accuse their wives (of adultery). - 24:6. Abu Ya` la has quoted the same version on the authority of Sayyidna Anas رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، which also says that when the verses of li` an were revealed, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) gave the good tiding to Hilal Ibn Umayyah (رض) that Allah Ta’ ala has sent down the solution to his predicament. Hilal replied that he was hoping the same from Allah Ta’ ala. Then the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) called Sayyidna Hilal Ibn Umayyah&s wife also, and when they were both together, he inquired from the wife about the incident. She said that her husband was making a false accusation against her. The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said that Allah knows one of you is a liar, so would you not dread (Allah&s torment) and come out with the truth and repent. Then Sayyidna Hilal Ibn Umayyah (رض) said &My parents be sacrificed on you! I have said nothing but truth and whatever I have said is true&. After that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) directed that the process of li&an be conducted on both husband and wife according to the revealed verses of the Qur&an. First Sayyidna Hilal (رض) was asked to testify four times with the wordings of Qur&an, which are, &Believing Allah to be present everywhere and seeing everything, I testify that I am honest in my allegation&, Sayyidna Hilal testified four times with the Qur&anic wordings. When it came to testify the fifth time, of which the Qur&anic wordings are, &Allah&s curse be on me, if I were lying&. At that time the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said to Sayyidna Hilal Ibn Umayyah (رض) ، as a warning, that he must be careful and fear Allah, as worldly punishment is lighter than the torment of the Hereafter. The torment of Allah is much more severe than the punishment of people, and that the fifth testimony is the final one, on which the ruling would depend. But Hilal Ibn Umayyah insisted that he could say under oath that Allah Ta’ ala would not punish him for his testimony in the Hereafter (as he was sure that this was a true testimony). Then he uttered the wordings of the fifth testimony. After that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) obtained four oaths, in the similar manner, from his wife. She too swore with Qur&anic wordings that her husband was lying. When it came to testify the fifth time, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) asked her to wait, and warned her that it was the fifth and final testimony, and as such she should be fearful of Allah, as His torment is much more severe than the punishment by the people, that is the Islamic punishment of adultery. On hearing this, she hesitated to swear and waited in that condition for a while. Then said ultimately &By Allah I will not disgrace my people&, and testified the fifth time, saying that if her husband was true then Allah&s wrath be on her. This way when the process of li&an was completed, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) separated the husband and wife, that is broke down their marriage, and ruled that the child to be born of this conception will take the mother&s name and will not be attributed to the father, but the child should not be disparaged. (Tafsir Mazhari quoted from Musnad Ahmad, authority Ibn ` Abbas). The second incident The second incident is also quoted in the Sahih of Bukhari and Muslim, and the details of the incident are narrated by Baghawi on the authority of Ibn ` Abbas (رض) . He has said that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، while standing on minbar, related the verses& in which it is enjoined to punish the man making false accusation of adultery (حَدِّ القذف ), that is وَالَّذِينَ يَرْ‌مُونَ الْمُحْصَنَاتِ (24:4). At that time Sayyidna ` Asim Ibn ` Adiyy al-Ansa (رض) was also present in the crowd. He got up and pleaded ` O Messenger of Allah, my life be sacrificed on your honour! If any one of us discovers his wife lying in bed with another man and narrates this situation, then he will be punished with eighty stripes, and would be debarred from giving evidence for life. Moreover, the Muslims would call him liar. In such a situation how can we get the eyewitnesses immediately? And if we do, and go in search of eyewitnesses, he would run away after doing his work, by the time we could bring the witnesses. It was the same inquiry made by &Asim Ibn ` Adiyy (رض) ، which was made by Sayyidna Sa&d Ibn &Ubadah in the first incident. This inquiry was made on a Friday. After that it so happened that ` Asim Ibn Adiyy&s cousin, Uwaimir, who had married Khaula (رض) another cousin of Adiyy&s, saw his wife involved with yet another cousin, Sharik Ibn Sahma&. Uwaimir (رض) related this incident to his cousin ` Asim Ibn ` Adiyy (رض) ، who recited إِنَّا لِلَّـهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَ‌اجِعُونَ and went to see the Holy Prophet صلی اللہ علیہ وسلم the next day - again a Friday. ` Adiyy said to the Holy Prophet صلی اللہ علیہ وسلم that he had made an inquiry on the previous Friday in which he himself has got involved unfortunately, as the same incident has taken place in his family. Baghawl has narrated the incident in great detail as to how were the husband and wife were called and went through the process of lean (Mazhari) This incident is narrated in the Sahihs on the authority of Sayyidna Sahal Ibn Sa&d Sa&idi (رض) that ` Uwaimir al-` Ajlani (رض) inquired from the Holy Prophet صلی اللہ علیہ وسلم that if someone finds his wife in bed with another man then should he kill that man, as a result of which he will be killed by people or what else should he do? The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) replied that Allah Ta’ ala has revealed an injunction for the case of your wife and yourself. Go and get your wife. Sayyidna Sahal Ibn Sa&d (رض) ، the narrator of the Hadith, narrates that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) subjected them to the process of lian in the mosque (This process has been explained above). When the process of li` an was completed after both husband and wife had sworn five times, ` Uwaimir said ` If I still keep her as my wife this will mean as if I had made a false accusation against her. Therefore, I am announcing three divorces to her&. (Mazhari on authority of Sahihs) In both these incidents it is reported that the verses of lian were revealed for that particular incident. Hafiz Ibn Hajar and Shaikh ul Islam Nawawi (رح) have noted the alikeness in the two by explaining that it looks the first incident was that of Hilal Ibn Umayyah (رض) ، and the verses of li&an were revealed in that connection, and immediately after that Uwaimir (رض) was also confronted with a similar incident, which he presented before the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، perhaps not knowing Hilal Ibn Umayyah&s incident, which had occurred earlier. Then the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) told him the judgment in his case. This appears plausible because, in the case of Hilal Ibn Umayyah (رض) the wordings are فنزل جبریٔل (Then Jibra&il (علیہ السلام) descended with these verses) , while in the case of ` Uwaimir (رض) the wordings are قد انزل اللہ فیک (Allah has revealed about you), the meaning of which could be that Allah Ta’ ala has enjoined His command in a case similar to yours. وَاللہُ سبحانَہُ و تعالیٰ اَعلَ (Mazhari) Ruling When li&an has taken place between husband and wife before the judge then that woman becomes forbidden for good for that man, just like foster relatives are forbidden for marriage among themselves forever. The Holy Prophet صلی اللہ علیہ وسلم has said in a Hadith المتلاعنان لا یجتمعان ابداً (The spouses who have gone through li` an can never join each other). Unlawfulness establishes immediately after the li` an. As for the woman&s second marriage with another man, she is allowed after the expiry of her ` iddah period of three months, when she is divorced by her first husband or if he had just said that he had left her. This is the ruling given by Imam Abu Hanifah (رح) But if the husband does not carry out any of the two alternatives, then the ruler or the judge would order the separation, which would have the same effect as the divorce, and after that she would complete three periods of menses, and then she would be free to marry another man. (Mazhari etc.) Ruling When the li&an is completed, after that the child that would born from that conception would not have the name of her husband, but would be called after the name of the mother. The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) gave this ruling in both the cases of Hilal Ibn Umayyah and ` Uwaimir ` Aljani (رض) اجمعین . Ruling Although the torment of Hereafter would increase on the one who is liar, after the li&an, but the punishment of the world be annulled. Similarly, it is not permissible to call the woman an adulterer nor is it permissible to call her child illegitimate. This was also ruled by the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) in the case of Hilal Ibn Umayyah (رض) . وقضٰی بان لا تُرمٰی ولا ولدھا .  Show more

خلاصہ تفسیر اور جو لوگ اپنی بیبیوں کو (زنا کی) تہمت لگائیں اور ان کے پاس بجز اپنے (ہی دعوے کے) اور کوئی گواہ نہ ہوں (جو عدد میں چار ہونے ضروری ہیں) تو ان کی شہادت (جو کہ دافع حبس یا حد قذف ہو) یہی ہے کہ چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر یہ کہہ دے کہ بیشک میں سچا ہوں اور پانچویں مرتبہ یہ کہے کہ مجھ پر خ... دا کی لعنت ہو اگر میں جھوٹا ہوں اور (اس کے بعد) اس عورت سے سزا (یعنی حبس یا حد زنا) اس طرح ٹل سکتی ہے کہ وہ چار مرتبہ قسم کھا کر کہے کہ بیشک یہ مرد جھوٹا ہے اور پانچویں بار یہ کہے کہ مجھ پر خدا کا غضب ہو اگر یہ مرد سچا ہو (اس طریق سے دونوں میاں بیوی سزائے دنیوی سے بچ سکتے ہیں البتہ وہ عورت اس مرد پر حرام ہوجاوے گی) اور اگر یہ بات نہ ہوتی کہ تم پر اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کا کرم ہے (کہ ایسے ایسے احکام مقرر کئے جس میں انسان کے فطری جذبات کی پوری رعایت ہے) اور یہ کہ اللہ تعالیٰ توبہ قبول کرنے والا حکمت والا ہے) تو تم بڑی مضرتوں میں پڑجاتے جن کا بیان آگے آتا ہے) ۔ معارف و مسائل زنا کے متعلقات میں چوتھا حکم لعان کا ہے : لعان اور ملاعنت کے معنے ایک دوسرے پر لعنت اور غضب الٰہی کی بددعا کرنے کے ہیں۔ اصطلاح شرع میں میاں اور بیوی دونوں کو چند خاص قسمیں دینے کو لعان کہا جاتا ہے جس کی صورت یہ ہے کہ جب کوئی شوہر اپنی بیوی پر زنا کا الزام لگا دے یا اپنے بچے کو کہے کہ یہ میرے نطفہ سے نہیں ہے اور یہ عورت جس پر الزام لگایا گیا ہے اس کو جھوٹا بتلا دے اور اس کا مطالبہ کرے کہ مجھ پر جھوٹی تہمت لگائی ہے اس لئے شوہر پر تہمت زنا کی سزا اسی کوڑے جاری کی جاوے تو اس وقت شوہر سے مطالبہ کیا جاوے گا کہ الزام زنا پر چار گواہ پیش کرے۔ اگر اس نے گواہ پیش کردیئے تو عورت پر حد زنا لگائی جاوے گی۔ اور اگر وہ چار گواہ نہ لا سکا تو ان دونوں میں لعان کرایا جاوے گا۔ یعنی اول مرد سے کہا جاوے گا کہ وہ چار مرتبہ ان الفاظ سے جو قرآن میں مذکور ہیں یہ شہادت دے کہ میں اس الزام میں سچا اور پانچویں مرتبہ یہ کہے کہ اگر میں جھوٹ بولتا ہوں تو مجھ پر اللہ کی لعنت ہو۔ اگر شوہر ان الفاظ کے کہنے سے رکے تو اس کو قید کردیا جائے گا کہ یا تو اپنے جھوٹے ہونے کا اقرار کرویا مذکورہ الفاظ کے ساتھ پانچ مرتبہ یہ قسمیں کھاؤ اور جب تک وہ ان دونوں میں سے کوئی کام نہ کرے اس کو قید رکھا جائے گا۔ اگر اس نے اپنے جھوٹے ہونے کا اقرار کرلیا تو اس پر حد قذف یعنی تہمت زنا کی شرعی سزا جاری ہوگی اور اگر الفاظ مذکورہ کے ساتھ پانچ مرتبہ قسمیں کھا لیں تو پھر اس کے بعد عورت سے ان الفاظ میں پانچ قسمیں لی جاویں گی جو قرآن میں عورت کے لئے مذکور ہیں اگر وہ قسم کھانے سے انکار کرے تو اس کو اس وقت تک قید رکھا جاوے گا جب تک کہ وہ یا تو شوہر کی تصدیق کرے اور اپنے جرم زنا کا اقرار کرے تو اس پر حد زنا جاری کردی جاوے اور یا پھر الفاظ مذکورہ کے ساتھ پانچ قسمیں کھاوے۔ اگر وہ الفاظ مذکورہ سے قسمیں کھانے پر راضی ہوجاوے اور قسمیں کھالے تو اب لعان پورا ہوگیا۔ جس کے نتیجہ میں دنیا کی سزا سے دونوں بچ گئے آخرت کا معاملہ اللہ تعالیٰ کو معلوم ہی ہے کہ ان میں سے کون جھوٹا ہے جھوٹے کو آخرت میں سزا ملے گی، لیکن دنیا میں بھی جب دو میاں بیوی میں لعان کا معاملہ ہوگیا تو یہ ایک دوسرے پر ہمیشہ کے لئے حرام ہوجاتے ہیں شوہر کو چاہئے کہ اس کو طلاق دے کر آزاد کر دے۔ اگر وہ طلاق نہ دے تو حاکم ان دونوں میں تفریق کرسکتا ہے جو بحکم طلاق ہوگی۔ بہرحال اب ان دونوں کا آپس میں دوبارہ نکاح بھی کبھی نہیں ہوسکتا معاملہ لعان کی یہ تفصیل کتب فقہ میں مذکور ہے۔ لعان کا قانون شریعت اسلام میں شوہر کے جذبات و نفسیات کی رعایت کی بنا پر نافذ ہوا ہے کیونکہ کسی شخص پر الزام زنا لگانے کا قانون جو پہلی آیات میں گزر چکا ہے اس کی رو سے یہ ضروری ہے کہ الزام زنا لگانے والا چار گواہ عینی پیش کرے اور جو یہ نہ کرسکے تو الٹی اسی پر تہمت زنا کی حد جاری کی جاوے گی۔ عام آدمی کے لئے تو یہ ممکن ہے کہ جب چار گواہ میسر نہ ہوں تو وہ الزام زنا لگانے سے خاموش رہے تاکہ تہمت زنا کی سزا سے محفوظ رہ سکے لیکن شوہر کے لئے یہ معاملہ بہت سنگین ہے جب اس نے اپنی آنکھ سے دیکھ لیا اور گواہ موجود نہیں اگر وہ بولے تو تہمت زنا کی سزا پائے اور نہ بولے تو ساری عمر خون کے گھونٹ پیتا رہے اور اس کی زندگی وبال ہوجائے اس لئے شوہر کے معاملہ کو عام قانون سے الگ کر کے اس کا مستقل قانون بنادیا گیا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ لعان صرف میاں بیوی کے معاملہ میں ہوسکتا ہے دوسروں کا حکم وہی ہے جو پہلی آیات میں گزر چکا ہے۔ کتب حدیث میں اس جگہ دو واقعے ذکر کئے گئے ہیں ان میں سے آیات لعان کا شان نزول کون سا واقعہ ہے اس میں ائمہ تفسیر کے اقوال مختلف ہیں۔ قرطبی نے آیات کا نزول مکرر مان کر دونوں کو شان نزول قرار دیا ہے۔ حافظ ابن حجر شارح بخاری اور نووی شارح مسلم نے دونوں میں تطبیق دے کر ایک ہی نزول میں دونوں کو شان نزول آیات لعان کا قرار دیا ہے ان کی توجیہ زیادہ صاف ہے جو آگے آجائے گی۔ ایک واقعہ ہلال بن امیہ اور ان کی بیوی کا ہے جو صحیح بخاری میں بروایت ابن عباس مذکور ہے اور اس واقعہ کا ابتدائی حصہ حضرت ابن عباس ہی کی روایت سے مسند احمد میں اس طرح آیا ہے۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جب قرآن کریم میں حد قذف کے احکام کی آیات نازل ہوئیں یعنی والَّذِيْنَ يَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ ثُمَّ لَمْ يَاْتُوْا بِاَرْبَعَةِ شُهَدَاۗءَ فَاجْلِدُوْهُمْ ثَمٰنِيْنَ جَلْدَةً جس میں کسی عورت پر زنا کا الزام لگانے والے مرد پر لازم کیا گیا ہے کہ یا تو اس الزام پر چار گواہ پیش کرے جن میں ایک یہ خود ہوگا اور جو ایسا نہ کرسکے تو اس کو جھوٹا قرار دے کر اس پر اسی کوڑوں کی حد اور ہمیشہ کے لئے مردود الشہادت ہونے کی سزا جاری کی جائے گی۔ یہ آیات سن کر انصار مدینہ کے سردار حضرت سعد بن عبادہ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا، یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، کیا یہ آیات اسی طرح نازل ہوئی ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (کو سعد بن عبادہ کی زبان سے ایسی بات سن کر بڑا تعجب ہوا) آپ نے حضرات انصار کو خطاب کر کے فرمایا کہ آپ سن رہے ہیں کہ آپ کے سردار کیا بات کہہ رہے ہیں۔ لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ، آپ ان کو ملامت نہ فرماویں۔ ان کے اس کلام کی وجہ ان کی شدت غیرت ہے۔ پھر سعد بن عبادہ نے خود عرض کیا یا رسول اللہ ! میرے باپ اور ماں آپ پر قربان، میں پوری طرح جانتا ہوں یہ آیات حق ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوئی ہیں لیکن مجھے اس بات پر تعجب ہے کہ اگر میں بےحیا بیوی کو اس حال میں دیکھوں کہ غیر مرد اس پر چڑھا ہوا ہے تو کیا میرے لئے یہ جائز نہیں ہوگا کہ میں اس کو وہاں ڈانٹوں اور وہاں سے ہٹا دوں بلکہ میرے لئے یہ ضروری ہوگا کہ میں چار آدمیوں کو لا کر یہ حالت دکھلاؤں اور اس پر گواہ بناؤں اور جب تک میں گواہوں کو جمع کروں وہ اپنا کام کر کے بھاگ جائے (حضرت سعد کے الفاظ اس جگہ مختلف منقول ہیں خلاصہ سب کا ایک ہی ہے۔ قرطبی) آیات حد قذف نازل ہونے اور سعد بن عبادہ کے اس کلام پر تھوڑا ہی وقت گزرا تھا کہ ہلال بن امیہ کو یہ واقعہ پیش آیا کہ وہ عشاء کے وقت اپنی زمین سے واپس ہوئے تو اپنی بیوی کے ساتھ ایک مرد کو بچشم خود دیکھا اور ان کی باتیں اپنے کانوں سے سنیں مگر کوئی اقدام نہیں کیا یہاں تک کہ صبح ہوگئی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں یہ واقعہ عرض کیا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ واقعہ سن کر دل برا ہوا اور بڑا بھاری محسوس کیا۔ ادھر حضرات انصار جمع ہوگئے اور آپس میں تذکرہ کرنے لگے کہ جو بات ہمارے سردار سعد بن عبادہ نے کہی تھی ہم اسی میں مبتلا ہوگئے اب قانون شرعی کے مطابق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہلال بن امیہ کو اسی کوڑے حد قذف کے لگائیں گے اور لوگوں میں ان کو ہمیشہ کے لئے مردود الشہادت قرار دیدیں گے۔ مگر ہلال بن امیہ نے کہا کہ خدا کی قسم مجھے پوری امید ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس مصیبت سے نکالیں گے۔ اور صحیح بخاری کی روایت میں یہ بھی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہلال کا معاملہ سن کر قرآنی حکم کے مطابق ہلال سے فرما بھی دیا کہ یا تو اپنے اس دعوے پر بینہ (چار گواہ) لاؤ ورنہ تمہاری پیٹھ پر حد قذف جاری ہوگی۔ ہلال ابن امیہ نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی سے عرض کیا کہ قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے میں اپنے کلام میں سچا ہوں اور ضرور ہے کہ اللہ تعالیٰ کوئی ایسا حکم نازل فرما دیں گے جو میری پیٹھ کو حد قذف کی سزا سے بری کر دے گا۔ یہ گفتگو جاری رہی تھی کہ جبرئیل امین یہ آیات جن میں لعان کا قانون ہے لے کر نازل ہوئے ووَالَّذِيْنَ يَرْمُوْنَ اَزْوَاجَهُمْ الآیة ابو یعلی نے یہی روایت حضرت انس سے بھی نقل کی ہے اس میں یہ بھی ہے کہ جب آیات لعان نازل ہوئی تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہلال ابن امیہ کو بشارت دی کہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری مشکل کا حل نازل فرما دیا۔ ہلال نے عرض کیا کہ میں اللہ تعالیٰ سے اسی کی امید لگائے ہوئے تھا۔ اب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہلال بن امیہ کی بیوی کو بھی بلوا لیا اور جب دونوں میاں بیوی جمع ہوگئے تو بیوی سے معاملہ کے متعلق پوچھا گیا۔ اس نے کہا کہ میرا شوہر ہلال بن امیہ مجھ پر جھوٹ الزام لگاتا ہے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ تم میں سے کوئی ایک جھوٹا ہے۔ کیا تم میں کوئی ہے جو (اللہ کے عذاب سے ڈر کر) توبہ کرے اور سچی بات ظاہر کر دے۔ اس پر ہلال بن امیہ نے عرض کیا |" میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں میں نے بالکل سچ بات کہی ہے اور جو کچھ کہا ہے حق کہا ہے |"۔ تب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم دیا کہ نازل شدہ آیات قرآن کے مطابق دونوں میاں بیوی سے لعان کرایا جائے۔ پہلے حضرت ہلال سے کہا گیا کہ تم چار مرتبہ ان الفاظ سے شہادت دو جو قرآن میں مذکور ہیں۔ یعنی میں اللہ کو حاضر ناظر سمجھ کر کہتا ہوں کہ میں اپنے الزام میں سچا ہوں۔ ہلال نے اس کے مطابق چار مرتبہ اس کی شہادت دی۔ جب پانچویں شہادت کا نمبر آیا جس کے الفاظ قرآنی یہ ہیں کہ اگر میں جھوٹ بولتا ہوں تو مجھ پر اللہ کی لعنت ہو۔ اس وقت آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تاکید کے طور پر ہلال بن امیہ سے فرمایا کہ دیکھو ہلال خدا سے ڈرو کیونکہ دنیا کی سزا آخرت کے عذاب سے ہلکی ہے اور اللہ کا عذاب لوگوں کی دی ہوئی سزا سے کہیں زیادہ سخت ہے اور یہ پانچویں شہادت آخری شہادت ہے اسی پر فیصلہ ہونا ہے مگر ہلال بن امیہ نے عرض کیا کہ میں بقسم کہہ سکتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس شہادت پر آخرت کا عذاب نہیں دیں گے (کیونکہ بالکل سچی شہادت ہے) جیسا کہ اللہ کے رسول مجھے دنیا میں حد قذف کی سزا نہیں دیں گے اور پھر یہ پانچویں شہادت کے الفاظ ادا کردیئے۔ اس کے بعد آپ نے ہلال کی بیوی سے اسی طرح کی چار شہادات یا چار قسمیں لیں اس نے بھی ہر دفعہ میں قرآنی الفاظ کے مطابق یہ شہادت دی کہ میرا شوہر جھوٹا ہے۔ جب پانچویں شہادت کا نمبر آیا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ذرا ٹھہرو، پھر اس عورت سے فرمایا کہ خدا سے ڈرو کہ یہ پانچویں شہادت آخری بات ہے اور خدا کا عذاب لوگوں کے عذاب یعنی زنا کی حد شرعی سے کہیں زیادہ سخت ہے یہ سن کر وہ قسم کھانے سے جھجکنے لگی، کچھ دیر اسی کیفیت میں رہی مگر پھر آخر میں کہا کہ واللہ میں اپنی قوم کو رسوا نہیں کروں گی اور پانچویں شہادت بھی ان لفظوں کے ساتھ ادا کردی کہ اگر میرا شوہر سچا ہے تو مجھ پر خدا کا غضب ہو۔ یہ لعان کی کارروائی مکمل ہوگئی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان دونوں میاں بیوی میں تفریق کردی یعنی ان کا نکاح توڑ دیا اور یہ فیصلہ فرمایا کہ اس حمل سے جو بچہ پیدا ہو وہ اس عورت کا بچہ کہلائے گا باپ کی طرف منسوب نہیں کیا جائے گا مگر بچے کو مطعون بھی نہ کیا جائے۔ انتہیٰ (تفسیر مظہری بحوالہ مسند احمد عن ابن عباس) دوسرا واقعہ : بھی صحیحین بخاری و مسلم میں مذکور ہے اور واقعہ کی تفصیل امام بغوی نے بروایت ابن عباس اس طرح نقل فرمائی ہے کہ زنا کی تہمت لگانے والے پر حد قذف جاری کرنے کے احکام جن آیات میں نازل ہوئے یعنی والَّذِيْنَ يَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ الآیة تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ممبر پر کھڑے ہو کر یہ آیات لوگوں کو سنائیں۔ مجمع میں عاصم بن عدی انصاری بھی موجود تھے یہ کھڑے ہوگئے اور عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میری جان آپ پر قربان ہو اگر ہم میں سے کوئی شخص اپنی عورت کو کسی مرد کے ساتھ مبتلا دیکھے تو اگر وہ اپنے دیکھے ہوئے واقعہ کو بیان کرے تو اس کو کوڑے لگائے جاویں گے اور ہمیشہ کے لئے مردود الشہادت کردیا جاوے گا اور مسلمان اس کو فاسق کہا کریں گے ایسی حالت میں ہم گواہ کہاں سے لائیں گے اور اگر گواہوں کی تلاش میں نکلیں گے تو گواہ آنے تک وہ اپنا کام کر کے بھاگ چکا ہوگا۔ یہ وہی سوال تھا جو پہلے واقعہ میں حضرت سعد بن عبادہ نے کیا تھا اس دوسرے واقعہ میں عاصم بن عدی نے کیا ہے۔ یہ سوال ایک جمعہ کے دن کیا گیا تھا اس کے بعد یہ قصہ پیش آیا کہ عاصم بن عدی کا ایک چچا زاد بھائی عویمر تھا جس کا نکاح بھی عاصم بن عدی کی چچا زاد بہن خولہ سے ہوا تھا۔ عویمر نے ایک روز دیکھا کہ ان کی بیوی خولہ شریک بن سحماء کے ساتھ مبتلا ہے اور یہ شریک بن سحماء بھی عاصم کا چچا زاد بھائی تھا۔ عویمر نے یہ واقعہ آ کر عاصم بن عدی سے بیان کیا، عاصم نے انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھا اور اگلے روز جمعہ میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں پھر حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پچھلے جمعہ میں میں نے آپ سے جو سوال کیا تھا افسوس ہے کہ میں خود اس میں مبتلا ہوگیا کیونکہ میرے ہی اہل بیت میں ایک ایسا واقعہ پیش آ گیا۔ بغوی نے ان دونوں کو حاضر کرنے اور پھر آپس میں لعان کرانے کا واقعہ بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے (مظھری) اور صحیحین میں اس کا خلاصہ حضرت سہل بن سعد ساعدی کی روایت سے یہ مذکور ہے کہ عویمر عجلانی نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے ساتھ کسی غیر مرد کو دیکھے تو کیا وہ اس کو قتل کر دے جس کے نتیجہ میں لوگ اس کو قتل کریں گے یا پھر وہ کیا کرے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے اور تمہاری بیوی کے معاملے میں حکم نازل فرما دیا ہے۔ جاؤ بیوی کو لے کر آؤ۔ حضرت سہل بن سعد راوی حدیث فرماتے ہیں کہ ان دونوں کو بلا کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسجد کے اندر لعان کرایا (جس کی صورت واقعہ سابقہ میں بیان ہوچکی ہے) جب دونوں طرف سے پانچوں شہادات پوری ہو کر لعان ختم ہوا تو عویمر عجلانی نے کہا یا رسول اللہ، اگر میں اب اس کو بیوی بنا کر رکھوں تو گویا میں نے اس پر جھوٹا الزام لگایا ہے اس لئے میں اسے تین طلاق دیتا ہوں (مظہری بحوالہ صحیحین) ان دونوں واقعوں میں سے ہر ایک میں یہ مذکور ہے کہ آیات لعان اس کے بارے میں نازل ہوئی ہیں حافظ ابن حجر اور شیخ الاسلام نووی نے دونوں میں تطبیق کی یہ صورت بیان کی ہے کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پہلا واقعہ ہلال بن امیہ کا تھا اور آیات لعان کا نزول اسی واقعہ کے بارے میں ہوا اس کے بعد عویمر کو ایسا ہی واقعہ پیش آ گیا اور انہوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا ان کو ہلال بن امیہ کا معاملہ سابقہ معلوم نہ ہوگا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو بتلایا کہ تمہارے معاملہ کا فیصلہ یہ ہے اور قرینہ اس کا یہ ہے کہ ہلال بن امیہ کے واقعہ میں تو الفاظ حدیث کے یہ ہیں فنزل جبرئیل، اور عویمر کے واقعہ میں الفاظ یہ ہیں قد انزل اللہ فیک جس کا مفہوم یہ ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے واقعہ جیسے ایک واقعہ میں اس کا حکم نازل فرما دیا ہے واللہ اعلم (مظھری) مسئلہ : جب دو میاں بیوی کے درمیان حاکم کے سامنے لعان ہوجاوے تو یہ عورت اس مرد پر ہمیشہ کے لئے حرام ہوجاتی ہے جیسے حرمت رضاعت ابدی ہوتی ہے۔ حدیث میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے المتلاعنان لا یجتمعان ابداً ، حرمت تو لعان ہونے ہی سے ثابت ہوجاتی ہے لیکن عورت کو دوسرے شخص سے بعد عدت نکاح کرنا امام اعظم کے نزدیک جب جائز ہوگا جبکہ مرد طلاق دیدے یا زبان سے کہہ دے کہ میں نے اس کو چھوڑ دیا اور اگر مرد ایسا نہ کرے تو حاکم قاضی ان دونوں میں تفریق کا حکم کر دے گا وہ بھی بحکم طلاق ہوجائے گا پھر عدت طلاق تین حیض پورے ہونے کے بعد عورت آزاد ہوگی اور دوسرے کسی شخص سے نکاح کرسکے گی (مظھری وغیرہ) مسئلہ : جب لعان ہوچکا اس کے بعد اس حمل سے جو بچہ پیدا ہو وہ اس کے شوہر کی طرف منسوب نہیں ہوگا بلکہ اس کی نسبت اس کی ماں کی طرف کی جاوے گی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہلال بن امیہ اور عویمر عجلانی دونوں کے معاملات میں یہی فیصلہ فرمایا۔ مسئلہ : لعان کے بعد اگرچہ ان میں جو جھوٹا ہے اس کا عذاب آخرت پہلے سے زیادہ بڑھ گیا مگر دنیا کی سزا اس سے ساقط ہوگئی۔ اسی طرح دنیا میں اس کو زانیہ اور بچے کو ولد الزنا کہنا بھی کسی کے لئے جائز نہیں ہوگا۔ ہلال بن امیہ کے معاملہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فیصلہ میں یہ حکم بھی فرمایا۔ وقضی بان لا ترمی ولا ولدھا۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَالَّذِيْنَ يَرْمُوْنَ اَزْوَاجَہُمْ وَلَمْ يَكُنْ لَّہُمْ شُہَدَاۗءُ اِلَّآ اَنْفُسُہُمْ فَشَہَادَۃُ اَحَدِہِمْ اَرْبَعُ شَہٰدٰتٍؚبِاللہِ۝ ٠ۙ اِنَّہٗ لَمِنَ الصّٰدِقِيْنَ۝ ٦ زوج يقال لكلّ واحد من القرینین من الذّكر والأنثی في الحیوانات الْمُتَزَاوِجَةُ زَوْجٌ ، ولكلّ قرینین فيها وفي غيرها زوج، کا... لخفّ والنّعل، ولكلّ ما يقترن بآخر مماثلا له أو مضادّ زوج . قال تعالی: فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثى[ القیامة/ 39] ( ز و ج ) الزوج جن حیوانات میں نرا اور پایا جاتا ہے ان میں سے ہر ایک دوسرے کا زوج کہلاتا ہے یعنی نرا اور مادہ دونوں میں سے ہر ایک پر اس کا اطلاق ہوتا ہے ۔ حیوانات کے علا وہ دوسری اشیائیں سے جفت کو زوج کہا جاتا ہے جیسے موزے اور جوتے وغیرہ پھر اس چیز کو جو دوسری کی مما ثل یا مقابل ہونے کی حثیت سے اس سے مقترن ہو وہ اس کا زوج کہلاتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثى[ القیامة/ 39] اور خر کار اس کی دو قسمیں کیں یعنی مرد اور عورت ۔ صدق الصِّدْقُ والکذب أصلهما في القول، ماضیا کان أو مستقبلا، وعدا کان أو غيره، ولا يکونان بالقصد الأوّل إلّا في القول، ولا يکونان في القول إلّا في الخبر دون غيره من أصناف الکلام، ولذلک قال : وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ، ( ص دق) الصدق ۔ یہ ایک الکذب کی ضد ہے اصل میں یہ دونوں قول کے متعلق استعمال ہوتے ہیں خواہ اس کا تعلق زمانہ ماضی کے ساتھ ہو یا مستقبل کے ۔ وعدہ کے قبیل سے ہو یا وعدہ کے قبیل سے نہ ہو ۔ الغرض بالذات یہ قول ہی کے متعلق استعمال ہوتے ہیں پھر قول میں بھی صرف خبر کے لئے آتے ہیں اور اس کے ماسوا دیگر اصناف کلام میں استعمال نہیں ہوتے اسی لئے ارشاد ہے ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ وہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

لعان کا بیان قول باری : (والذین یرمون ازواجھم ولم یکن لھم شھدآء الا انفسھم۔ اور جو لوگ اپنی بیویوں پر زنا کی تہمت لگاتے ہیں اور ان کے پاس اپنی ذات کے سوا دوسرے گواہ نہیں ہوتے…) تا آخر مضمون۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ اجنبی عورت یا اپنی بیوی پر زنا کی تہمت لگانے والے کی حد کوڑے تھے اس کی دلیل حضور (صل... ی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا وہ حکم ہے جو آپ نے ہلال (رض) بن امیہ کو اس وقت دیا تھا جب انہوں نے اپنی بیوی پر شریک بن سمحاء کے ساتھ بدکاری کا الزام لگایا تھا۔ آپ نے بلال (رض) سے فرمایا تھا۔” میرے پاس چار آدمی لائو جو اس بات کی گواہی دیں ورنہ تمہارے پیٹھ پر حد لگے گی۔ “ اپ موقع پر حضراتِ انصار (رض) نے یہ کہا تھا کہ ” کیا ہلال بن امیہ (رض) کو حد لگے گی اور کیا ان کی گواہی مسلمانوں کے ہاں باطل قرار پائے گی ؟ “ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ بیوی کے قاذف کی وہی حد تھی جو اجنبی عورت کے قاذف کی تھی۔ پھر بیوی کے قاذف کی حد لعان کے ذریعے منسوخ ہوگئی کیونکہ جب لعان کی آیت نازل ہوئی تو آپ نے ہلال (رض) سے فرمایا کہ ” اپنی بیوی کو میرے پاس لے کر آئو۔ اللہ تعالیٰ نے تمہارے اور تمہاری بیوی کے بارے میں قرآن نازل کردیا ہے۔ “ اس کے بعد آپ نے دونوں کے درمیان لعان کرادیا۔ اس جیسی روایت حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے بھی ہے۔ جس میں ذکر ہے کہ ایک شخص نے آکر کہا ” لوگو کیا تم نے کبھی سوچا کہ اگر ایک شخص اپنی بیوی کے ساتھ کسی غیر مردکو ہم بستر دیکھ لے پھر اگر اپنی زبان سے وہ اس کا ذکر کرے تو تم اسے کوڑے لگاتے ہو اور اگر اسے قتل کردے تو تم اسے قتل کردیتے ہو اور اگر وہ خاموش رہتا ہے تو اپنا غصہ پی کر خاموش رہتا ہے۔ “ یہ روایات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ بیوی کے قاذف کی حد کوڑے تھے اور پھر اللہ تعالیٰ نے لعان کے ذریعے اس کی سزا کو منسوخ کردیا۔ اس بنا پر ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ شوہر اگر غلام یا حد قاذف کا سزا یافتہ ہو تو اس صورت میں اس پر حد قذف واجب ہوگی جب وہ جھوٹ بولنے کا اقرار کرے گا۔ اس طرح شوہر کی جہت سے لعان ساقط ہوگیا اور اس پر حد واجب ہوگئی ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ اگر بیوی لونڈی یا ذمیہ یا حد قذف کی سزا یافتہ ہو تو شوہر پر حد واجب نہیں ہوتی اس لئے کہ بیوی کی جہت سے لعان کا سقوط ہوا تھا۔ جب بیوی کی جہت سے لعان ساقط ہوگیا تو اس کی حیثیت یہ ہوگئی کہ گویا اس نے زنا کی تہمت کے سلسلے میں اپنے شوہر کی تصدیق کردی۔ اس لئے شوہر پر حد واجب نہیں ہوئی۔ فقہاء کا اس میں اختلاف ہے کہ کسی قسم کے میاں بیوی کے درمیان لعان واجب ہوتا ہے ہمارے تمام اصحاب یعنی امام ابوحنیفہ، امام ابویوسف، امام محمد اور امام زفر کا قول ہے کہ دو وجوہ میں سے ایک کی بنا پر لعان ساقط ہوجاتا ہے اول یہ کہ زوجین میں سے ایک ایسا ہو جس کے ہوئے ہوئے لعان واجب نہ ہوتا ہو۔ اس کی صورت یہ ہے کہ بیوی ایسی عورت ہو کہ اگر کوئی اجنبی مرد اس پر زنا کی تہمت لگائے تو اس پر حد واجب نہ ہوتی ہو۔ مثلاً بیوی مملوکہ یا ذمیہ ہو یا اس کے ساتھ ملک کے بغیر حرام ہم بستری ہوئی ہو۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ ان دونوں میں سے ایک اہل شہادت میں سے نہ ہو۔ یعنی اس کی گواہی قابل قبول نہ قرار دی جاتی ہو۔ اس کی صورت یہ ہے کہ شوہر غلام یا کافر ہو یا حد قذف کا سزا یافتہ ہو۔ لیکن اگر زوجین میں سے ایک نابینا فاسق ہو تو اس صورت میں لعان واجب ہوگا۔ ابن شبرمہ کا قول ہے کہ اگر مسلمان شوہر اپنی یہودن یا عیسائن بیوی پر زنا کی تہمت لگائے گا تو وہ اس کے ساتھ لعان کرے گا۔ اس وہب نے امام مالک کی طرف سے کہا ہے کہ مسلمان لونڈی، آزاد عورت ، یہودن اور عیسائن اپنے آزاد مسلمان شوہر کے ساتھ لعان کرے گی۔ اسی طرح غلام اپنی یہودن بیوی کے ساتھ لعان کرے گا۔ ابن القاسم نے امام مالک کی طرف سے کہا ہے کہ مسلمان اگر اپنی کافر بیوی کو قذف کرے گا تو ان دونوں کے درمیان لعان نہیں ہوگا الا یہ کہ شوہر ہے کہ میں نے اسے زنا کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ اس صورت میں بیوی اس کے ساتھ لعان کرے گی خواہ حمل ظاہر ہوجائے یا ظاہر نہ ہو اس لئے کہ شوہر نے گویا یہ کہا کہ مجھے خطر ہے کہ کہیں میری موت نہ آجائے اور اس کے پیٹ سے پیدا ہونے والے بچے کا نسب میرے ساتھ لاحق نہ ہوجائے۔ صرف حمل سے پیچھا چھڑانے کے لئے مسلمان شوہر اپنی کافر بیوی کے ساتھ لعان کرے گا اور اس کے سوا کسی اور صورت میں لعان نہیں کرے گا۔ اسی طرح شوہر اپنی لونڈی بیوی کے ساتھ نفی حمل کے سوا اور کسی صورت میں لعان نہیں کرے گا۔ انہوں نے مزید کہا ہے کہ حد قذف کا سزا یافتہ شخص بھی اپنی بیوی کے ساتھ لعان کرے گا اگر میاں بیوی دونوں کافر ہوں تو ان کے درمیان لعان نہیں ہوگا۔ میاں بیوی اگر دونوں ہی مملوک اور مسلمان ہوں تو ان کے درمیان لعان ہوگا، اگر شوہر بچے کے نسب کی نفی کا ارادہ کرے گا۔ سفیان ثوری اور حسن بن صالح کا قول ہے کہ اگر زوجین میں سے ایک مملوک یا کافر ہوگا تو ان کے درمیان لعان نہیں ہوگا۔ البتہ حد قذف کا سزا یافتہ ہوگا تو لعان واجب ہوگا۔ اوزاعی کا قول ہے کہ اہل کتاب کے درمیان لعان نہیں ہے اس طرح حد قذف کے سزا یافتہ شوہر اور اس کی بیوی کے درمیان لعان نہیں۔ لیث بن سعد کا بیان ہے کہ اگر غلام اپنی آزاد بیوی پر زنا کی تہمت لگا کر یہ دعویٰ کرے کہ اس نے غیر مرد کو اس پر سوار دیکھا تھا تو اس صورت میں وہ بیوی کے ساتھ لعان کرے گا کیونکہ اگر وہ اجنبی ہوتا اور اسے قذف کرتا تو اس صورت میں ایک آزادعورت کو قذف کرنے کی بنا پر اس پر حد قذف واجب ہوجاتی۔ اگر غلام کی بیوی لونڈی یا عیسائن ہو تو وہ بچے کے نسب کی نفی کی خاطر اس کے ساتھ لعان کرے گا بشرطیکہ حمل ظاہر ہوجائے۔ لیکن بیوی کو غیر مرد کے ساتھ بدکاری میں مشغول دیکھنے کی صورت میں وہ اس کے ساتھ لعان نہیں کرے گا کیونکہ ایسی عورت کو قذف کرنے کی بنا پر اس پر حد قذف واجب نہیں ہوتی ہے۔ حد قذف میں سزا یافتہ شوہر اپنی بیوی کے ساتھ لعان کرے گا۔ امام شافعی کا قول ہے کہ ہر ایسا شوہر جس کے لئے اپنی بیوی کو طلاق دینا جائز ہو اور اس پر فرض کالزوم ہو یعنی وہ مکلف ہو اپنی بیوی کے ساتھ لعان کرے گا ۔ بشرطیکہ بیوی بھی ان عورتوں میں سے ہو جن پر فرض کالزوم ہوگیا ہو۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ پہلی وجہ جس کی بنا لر لعان ساقط ہوجاتا ہے اس کے تحت لعان کا سقوط اس لئے واجب ہوتا ہے کہ ازواج یعنی شوہروں کی طرف سے اپنی بیویوں پر تہمت زنالگانے پر لعان کی حیثیت وہی ہے جو اجنبی عورتوں پر اس تہمت کے لگانے پر حد کی ہے۔ بیوی اور اجنبی عورت پر تہمت زنا لگانے والے کی سزا پہلے کوڑے تھے چناچہ ارشاد باری ہے : (والذین یرمون المحصنات ثم لم یاتوا باریعۃ شھدآء فاجلدوھم ثمانین جلدۃ) پھر کوڑوں کی یہ سزا شوہروں سے منسوخ کرکے اس کی جگہ لعان کو دے دی گئی۔ اس کی دلیل حضور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا وہ حکم ہے جو آپ نے ہلال (رض) بن امیہ کو دیا تھا جب انہوں نے اپنی بیوی پر شریک بن سمحاء کے ساتھ بدکاری کا الزام لگایا تھا۔ آپ نے ہلال (رض) سے فرمایا تھا کہ میرے پاس چار آدمی لے آئو جو اس بات کی گواہی دیں ورنہ تمہاری پیٹھ پر حد لگے گی۔ نیز حضرت ابن مسعود (رض) کی ورایت میں ایک شخص کا یہ کہنا بھی اس کی دوسری دلیل ہے کہ ” لوگو ! تم نے کبھی سوچا ہے کہ ایک شخص اپنی بیوی کے ساتھ کسی غیر مرد کو ہم بستر دیکھ لے پھر اگر وہ یہ بات اپنی زبان پر لائے تو تم لوگ اسے کوڑے مارتے ہو اور اگر وہ اسے قتل کردے تو تم لوگ اسے قتل کردیتے ہو اور اگر وہ چپ رہے تو غصہ پی کر چپ رہے گا۔ “ پھر لعان کی آیت نازل ہوئی اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہلال (رض) بن امیہ سے فرمایا کہ ” اللہ تمہارے اور تمہاری بیوی کے بارے میں قرآن نازل کردیا ہے اب اپنی بیوی کو میرے پاس لے کر آئو “ جب شوہروں کے لئے لعان کی وہی حیثیت ہوگئی جو اجنبی عورتوں کو قذف کرنے کی صورت میں حد کی ہے تو پھر لعان ایسے شوہر پر واجب نہیں ہوگا جو اپنی ایسی بیوی پر تہمت لگاتا ہے جس پر اگر کوئی اجنبی یہ تہمت لگاتا تو اس پر حد قذف واجب نہ ہوتی۔ نیزحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لعان کو حد کے نام سے موسوم کیا ہے۔ ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی، انہیں محمد بن احمد بن نصر الخراسانی نے، انہیں عبدالرحمن بن موسیٰ نے انہیں روح بن دراج نے ابن ابی لیلیٰ سے۔ انہوں نے الحکم سے انہوں نے سعید بن جبیر سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک میاں بیوی کے مابین لعان کرایا پھر ان دونوں کے درمیان علیحدگی کرادی اور فرمایا ” اگر عورت کے ہاں کشادہ قدموں والا بچہ پیدا ہو اور فلاں شخص کے ہم شکل ہو تو یہ اس کے نطفے سے ہوگا۔ “ جب بچہ پیدا ہو تو اس کی شکل وشباہت اس شخص سے ملتی جلتی تھی اس پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اگر حد کی بات گزر نہ چکی ہوتی یعنی شوہر کے ساتھ اس عورت کا لعان نہ ہوچکا ہوتا تو میں اسے ضرور سنگسار کردیا۔ “ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بتایا کہ لعان حد ہے جب لعان حد ہے تو اس صورت میں شوہر پر اس کا ایجاب جائز نہیں۔ جب بیوی مملوکہ ہو کر کیونکہ یہ کوڑوں کی حد کی طرح ایک حد ہے اسی طرح مملوک کے قاذف پر بھی واجب نہیں ہوگا۔ کیونکہ اس کی حیثیت حد جیسی ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ لعان اگر حد ہوتا تو اس صورت میں شوہر پر کوڑوں کی سزا واجب نہ ہوتی۔ جب وہ اپنی آزاد بیوی کو قذف کرتا اور لعان کے بعد اپنے جھوٹ کا اقرار کرلیتا کیونکہ یہ بات تو درست نہیں کہ کسی پر ایک قذف کے بدلے دو حد واجب ہوجائیں۔ شوہر کی طرف سے اپنے بارے میں جھوٹ کا اقرار کرلینے کے بعد اس پر حد قذف کا واجب ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ لعان حد نہیں ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لعان کو حد کے نام سے موسوم فرمایا ہے اور یہ بات جائز نہیں کہ قیاس اور نظر سے کام لے کر اثر یعنی حدیث کو نظر انداز کردیا جائے۔ اس کے ساتھ یہ بات بھی ہے کہ شوہر پر دو حد کا اجتماع اس وقت ممتنع ہوتا جب یہ دونوں حد کوڑوں کی صورت میں ہوتیں لیکن جب ایک کوڑوں کی صورت میں ہے اور دوسری لعان کی صورت میں تو ہم نے اصول کے اندر کوئی ایسی چیز نہیں پائی جو اس صورت کے خلاف ہو۔ اسے ایک اور پہلو سے دیکھئے۔ لعان حاکم کے فیصلے کے رو سے حد ہوتی ہے اس کے اندر یہ جواز ہوتا ہے کہ وہ کبھی حد بن جائے اور کبھی حدنہ بنے اسی طرح ہر ایسی بات جس کا کسی چیز کے ساتھ حاکم کے فیصلے کے رو سے تعلق ہوجائے اس کے اندر یہ جواز ہوتا ہے کہ وہ کبھی ایک وصف کے ساتھ متعلق ہوجاوے اور کبھی دوسرے وصف کے ساتھ ہم نے جو یہ کہا ہے کہ لعان کی ایک شرط یہ ہے کہ میاں بیوی دونوں اہل شہادت میں سے ہوں یعنی ان کی گواہی قابل قبول قرار دی جاتی ہو اس کی وجہ یہ قول باری ہے : (والذین ازواجھم ولم یکن لھم شھدآء الا انفسھم فشھادۃ احد ھم اربع شھادات باللہ ) تاآخر مضمون۔ جب اللہ تعالیٰ نے میاں بیوی کے لعان کی شہادت یعنی گواہی کا نام دیا پھر حد قذف کے سزا یافتہ کے متعلق فرمایا : (ولا تقباوا لھم شھادۃ ابدا) تو دونوں آیتوں کے مضمون کے رو سے حد قذف کے سزا یافتہ سے لعان کا انتفاء واجب ہوگیا۔ جب یہ بات حد قذف کے سزا یافتہ کے متعلق ثابت ہوگئی تو یہی بات ان تمام لوگوں کے بارے میں بھی ثابت ہوگئی جو اہل شہادت کے دائرے سے خرج ہیں مثلاً غلام اور کافر وغیرہ۔ اسے ایک اور جہت سے دیکھئے۔ جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ حد قذف کا سزا یافتہ اپنی بیوی کے ساتھ لعان نہیں کرے گا تو یہی حکم ان تمام لوگوں کے متعلق بھی ثابت ہوگیا جو اہل شہادت میں سے نہیں ہیں اس لئے کہ کسی نے بھی ان دوقسموں کے افراد کے درمیان فرق نہیں کیا ہے۔ اس لئے کہ جو اہل علم حد کے سزا یافتہ پر لعان واجب نہیں کرتے وہ ہمارے مذکورہ افراد پر بھی اسے واجب قرار ہیں دیتے۔ آیت کی اس دلالت پر ایک جہت ملاحظہ کیجئے۔ ارشاد باری ہے : (ولم یکن لھم شھدآء الا انفسھم) اب یا تو اس سے مراد بس قسمیں ہیں جو لعان کی صورت میں اٹھائی جاتی ہیں اور اس کے ساتھ گواہی کے مفہوم کا کوئی اعتبار نہیں ہے یا ان قسموں میں شہادت کے مفہوم کا بھی اعتبار کیا گیا ہے۔ جیسا کہ ہم کہتے ہیں۔ جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا :(ولم یکن لھم شھدآء الا انفسھم) تو اس سے معلوم ہوگیا کہ یہاں یہ مراد ہے کہ لعان کرنے والا اہل شہادت میں سے ہو۔ کیونکہ یہ مراد لینا تو درست نہیں کہ قاذفین کے لئے ان کی اپنی ذات کے سوا اور کوئی حلف اٹھانے والا نہ ہو اس لئے کہ ہر شخص اپنی ذات کی طرف سے حلف اٹھاتا ہے اور کسی انسان کو کسی دوسرے کی طرف سے حلف دلوانا جائز نہیں ہوتا۔ اس لئے اگر آیت کے معنی یہ ہوتے کہ ان قاذفین کے لئے ان کی اپنی ذات کے سوا کوئی اور حلف اٹھانے والا نہ ہو تو یہ بات محال ہوجاتی اور آیت کا فائدہ زائل ہوجاتا اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ اس سلسلے میں گواہی دینے والا اہل شہادت میں سے ہو اگرچہ یہ گواہی قسم کی صورت میں ہے اس پر یہ قول باری بھی دلالت کرتا ہے : (فشھادۃ احدھم اربع شھادات باللہ) یہ قول باری اسی مراد کی نشاندہی کرتا ہے کہ لعان کی قسموں کی ادائیگی لفظ شہادت کے ساتھ کی جائے یا میاں بیوی میں سے ہر ایک حلف اٹھائے خواہ یہ حلف لفظ شہادت کے ساتھ یا اس کے سوا کسی اور لفظ کے ساتھ اٹھایا جائے۔ بس اسے حلف ہونا چاہیے ۔ جبکہ ایک طرف یہ کہنا کہ میاں بیوی جس سے بھی قسم اٹھالیں ان کی قسموں کو قبول کرلینا جائز ہے ۔ کتاب وسنت کے خلاف ہے اس لئے کہ ارشاد باری ہے : (فشھا ادۃ احدھم اربع شھادات باللہ) جس طرح یہ ارشاد ہے۔ (واستشھدوا شھیدین من رجالکم) نیز فرمایا : (فاستشھدوا علیھن اربعۃ منکم) دوسری طرف لعان کو لفظ شہادت کے ساتھ بیان کیے بغیر اسے صرف خبر کی صورت میں بیان کردینے پر اکتفا کرنا جائز نہیں علاوہ ازیں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی جب میاں بیوی کے ایک جوڑے کے درمیان لعان کرایا تھا تو آپ نے انہیں لفظ شہادت کے ساتھ لعان کرنے کا حکم دیا تھا اور صرف لفظ یمین پر اقنصار نہیں کیا تھا تو ان باتوں کی روشنی میں ہمیں یہ چیزیں معلوم ہوگئی کہ ان قسموں کی شرط یہ ہے کہ قسمیں اٹھانے والے اہل شہادت میں سے ہوں اور پھر لعان کریں۔ فاسق لعان میں اہل شہادت سے ہے اگر یہ کہا جائے کہ فاسق اور نابینا اہل شہادت میں سے نہیں ہیں لیکن وہ لعان کرتے ہیں تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ فاسق کئی وجہ سے اہل شہادت میں سے ہے۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ وفسق جو گواہی کے رد ہونے کا موجب ہوتا ہے۔ بعض دفعہ اس کے روز قبول میں اجتہاد کو دخل ہوتا ہے اس لئے ایسے فسق کی موجودگی میں گواہی قبول ہونے کی گنجائش موجود ہوتی ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ فاسق پر اس کی گواہی کے بطلان کا حکم نہیں لگایا جاسکتا کیونکہ فسق ایسی چیز ہے جس کے متعلق حکم لگانا حاکم کے لئے جائز نہیں ہوتا۔ جب حاکم کے حکم کی جہت سے اس کی گواہی باطل نہیں ہوتی تو وہ اہل شہادت کے دائرے سے خارج نہیں ہوتا۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ لعان کی حالت میں فاسق کا فسق غیر یقینی ہوتا ہے۔ کیونکہ یہ ممکن ہے کہ اس نے اس حالت میں اللہ سے توبہ کرلی ہو اور اس توبہ کی بنا پر وہ اللہ کے نزدیک عادل اور پسندیدہ بن گیا ہو۔ پھر یہ گواہی ایسی نہیں ہوتی کہ اس کے ذریعے کسی پر کوئی حق ثابت کیا جاتا ہے کہ پھر اسے اس بنا پر رد کردینا ضروری قرار دیا جائے کہ شروع ہی سے اس شخص کے فسق کا ظاہری طور پر سب کو علم تھا۔ ان وجوہ کی بنا پر اس شخص کا فسق اسے لعان کرنے سے روک نہیں سکتا خواہ لعان کی یہ شرط ہے کہ لعان کرنے والے اہل شہادت میں سے ہوں۔ لیکن کفر کا معاملہ فسق کی طر نہیں ہے۔ کیونکہ کافر اگر اسلام کا اعتقاد کرلے تو وہ صری اس اعتقاد کی بنا پر مسلمان کہلا نہیں سکتا جب تک وہ اس کا اظہار نہ کرے اگر اس کے لئے اس کا اظہار ممکن ہو۔ اس بنا پر جب تک وہ اسلام کا اظہار نہیں کرے گا اس وقت تک اس پر کفر کا حکم باقی رہے گا خواہ اس کا اعتقاد کفر کا نہ بھی ہو ایک بات یہ بھی ہے کہ اس گواہی میں گواہ کی عدالت کا اعتبار کیا جاتا ہے۔ جس کے ذریعے کسی پر حق ثابت کرنا مقصود ہوتا ہے۔ اس لئے ایسی گواہی میں تہمت کے احتمال کی بنا پر اسے فیصلے کی بنیاد نہیں بنایا جاتا۔ حقوق کے معاملات میں فاسق کی گواہی اس تہمت کی بنا پر رد کردی جاتی ہے۔ لیکن لعان ایسا معاملہ ہے۔ جسے تہمت باطل نہیں کرتی اس لئے اس کے سقوط میں فسق کا اعتبار رواجب نہیں ہے۔ نابینا کی شہادت لعان میں رہ گیا نابینا تو وہ بھی بینا کی طرح اہل شہادت میں سے ہے ان دونوں کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ البتہ حقوق کے اندر نابینا کی گواہی قابل قبول ہیں ہوتی۔ اس لئے کہ ایسی صورت میں اس کی اور مشہود علیہ (جس کے خلاف گواہی دے رہا ہو) کے درمیان عدم بصارت کا پردہ حائل ہوتا ہے جبکہ لعان کی گواہی کی یہ شرط نہیں ہوتی کہ گواہ یہ کہے کہ میں نے عورت کو زنا کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ بلکہ اگر صرف یہ کہہ دے کہ یہ عورت یعنی میری بیوی زانیہ ہے، لیکن میں نے اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا ہے تو بھی وہ لعان کرے گا۔ جبکہ نابینا کو اس کی ضرورت نہیں ہوتی کہ وہ جس چیز کی گواہی دے رہا ہے اس کے متعلق آنکھوں دیکھی کیفیت کی خبر دے رہا ہے تو عدم بصارت کی بنا پر اس کا لعان باطل ہیں ہوگا۔ ہمارے اصحاب کے مسلک کی تائید میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کئی روایات منقول ہیں۔ ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی، انہیں احمد بن دائو د السراج نے، انہیں الحکم بن موسیٰ نے، انہیں عتاب بن ابراہیم نے، عثمان بن عطا سے، انہوں نے اپنے والد سے انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمر وبن عاص سے اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے آپ نے فرمایا (اربع من النساء لیس بیتھن وبین ازواجھن ملاعنۃ الیھودیۃ والنصرانیۃ تحت المسلم والحرۃ تحت المماوک والملوکۃ تحت الحر ) چار قسم کی عورتیں ایسی ہیں کہ ان کے اور ان کے شوہروں کے درمیان لعان نہیں ہوگا۔ یہودن یا عیسائن جو مسلمانوں کے عقد میں ہو ، آزاد عور ت جو مملوک کے عقد میں ہو اور مملوکہ جو آزاد مرد کے عقد میں ہو۔ ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی، انہیں احمد بن حمویہ بن یسار نے ، انہیں ابوسیار التستری نے ، انہیں حسن بن اسماعیل نے مجالد المصیص سے، انہیں حماد بن خالد نے معاویہ بن صالح سے، انہوں نے ابو توبہ صدقہ سے ، انہوں نے عمرو بن شعیب سے، انہوں نے اپنے ولاد سے، انہوں نے عمرو کے دادا سے اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہ آپ نے فرمایا (اربع لیس بینھن ملاعنۃ الیھودیۃ والنصرانیۃ تحت المسلم والمملوکۃ تحت الحدودالحدۃ العدۃ تحت المملودہ) اگر یہ کہا جائے کہ لعان تو صرف ولد کی نفی کے سلسلے میں ہوتا ہے تاکہ شوہر کے نسب کے ساتھ ایسے بچے کا الحاق نہ ہونے پائے جو اس کے نطفے سے نہ ہو یہ بات لونڈی اور آزاد عورت دونوں میں موجود ہوتی ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ شوہر لونڈی کے ساتھ نکاح میں داخل ہوجاتا ہے تو اسے نکاح کا حکم لازم ہوجاتا ہے اور نکاح کا ایک حکم یہ ہے کہ لونڈی کے بطن سے پیدا ہونے والے بچے کا نسب اس سے منتقی نہ ہو۔ جس طرح بچے کی غلامی کے سلسلے میں نکاح کا حکم اسے لازم ہوجاتا ہے۔ لعان کو واجب کردینے والے قذف کا بیان قول باری ہے : (والذین یرمون المحصنات ثم لم یاتوا باربعۃ شھدآء فاجلدوھم ثمانین جلدۃ ۔ ) تاآخر آیت۔ فقہاء کے مابین اس امر میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ آیت میں ایسی عورتوں کو قذف کرنا مراد ہے جو اجنبی اور محصنات یعنی پاک دامن ہوں خواہ قذف کرنے والے نے یہ کہا ہو : ” زنیت “ (تونے زنا کیا ہے) یا یہ کہے ” رایتک تزنین “ (میں نے تجھے زنا کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ پھر ارشاد باری ہوا : والذین یرمون ازوجھم) اس میں بھی کوئی اختلاف نہیں ہے اس سے مراد زنا کا الزام ہے جو عورت پر لگایا جائے، تاہم فقہاء کے درمیان اس قذف کی کیفیت کے بارے میں اختلاف ہے۔ جس کی بنا پر لعان واجب ہوجاتا ہے۔ امام ابوحنیفہ، امام ابویوسف، امام محمد، امام زفر اور امام شافعی کا قول ہے کہ جب شوہر اپنی بیوی کو ” یا زانیہ “ کہے تو لعان واجب ہوجائے گا۔ امام مالک بن انس کا قول ہے کہ لعان صرف اس صورت میں واجب ہوگا جب شوہر اپنی بیوی سے کہے کہ ” میں نے تجھے زنا کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ “ یا بیوی کے حمل کے متعلق کہہ دے یہ حمل میرا نہیں ہے۔ یا اس کے بطن سے پیدا ہونے والے بچے کو اپنا بچہ تسلیم کرنے سے انکار کردے۔ نابینا شخص جب اپنی بیوی کو قذف کرے گا تو اس کے ساتھ لعن کرے گا۔ لیث بن سعد کا قول ہے کہ شوہر اپنی بیوی کے ساتھ صرف اس صورت میں لعان کرے گا جب وہ یہ کہے کہ ” میں نے اس پر ایک مرد کو سوار دیکھا تھا “ یا یہ کہے کہ ” میں نے اس کا استبراء رحم کرلیا تھا اور اس کا یہ حمل میرے نطفے سے نہیں ہے۔ نیز اس پر وہ اللہ کی قسم بھی کھائے ۔ عثمان البتی کا قول ہے کہ جب شوہر یہ کہے ” میں نے اسے زنا کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ “ تولعان کرے گا۔ اگر اس نے عورت پر اس وقت زنا کی تہمت لگائی ہو جب وہ خراسان میں تھی اور اس نے ایک دن ہوئے اس کے ساتھ نکاح کیا تھا تو اس صورت میں لعان نہیں کرے گا، اس کا یہ فعل انتہائی بےشرمی کی بات ہوگی۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ ظاہر آیت اس امر کا مقتضی ہے کہ قذف کی بنا پر لعان واجب کردیا جائے خواہ اس نے یہ کہاہو کہ ” میں نے زنا کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ “ یا یہ نہ کہے اس لئے کہ جب وہ اس پر زنا کی تہمت لگادے گا تو آیت کی رو سے وہ رامی یعنت تہمت لگانے والا قرار پائے گا۔ خواہ اس نے اس فعل بد کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کا دعویٰ کیا ہو یا اسے مطلق رکھا ہو اور مشاہدہ کا ذکر نہ کیا ہو۔ نیز فقہاء کا اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اجنبی عورت کے قاذف کے حکم میں یعنی اس پر حد واجب ہونے کے سلسلے میں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اس نے اس کے مشاہدہ کا دعویٰ کیا ہو یا اسے مطلق رکھاہو، ہر صورت میں اس پر حد قذف واجب ہوگئی۔ شوہر کے متعلق بھی اس صورت میں حکم کا ہونا اسی طرح واجب ہے جب وہ اپنی بیوی پر زنا کی تہمت لگادے کیونکہ لعان کا تعلق قذف کے ساتھ ہوتا ہے۔ جس طرح کوڑوں کی سزا کا تعلق اس کے ساتھ ہوتا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ بیوی کو قذف کرنے کی صورت میں سزا کے طور پر لعان کا اسی طرح تعین ہو جس طرح اجنبی عورت کو قذف کرنے کی صورت میں حد کا تعین ہوا ہے۔ اس بنا پر لفظ قذف کے ساتھ تعلق کے لحاظ سے لعان اور حد کے حکم کی یکسانیت واجب ہے۔ نیز امام مالک کا قول ہے کہ نابینا شخص لعان کرے گا جبکہ وہ کبھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ ” میں نے بیوی کو بدکاری کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ “ اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوگئی کہ لعان کی یہ شرط نہیں ہے۔ کہ شوہر اپنی بیوی پر یہ الزام لگائے کہ اس نے اسے بدکاری کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ نیز امام مالک نے اس صورت میں بھی لعان واجب کردیا ہے جب شوہر بیوی کے حمل کی نفی کردے۔ یہاں انہوں نے رویت کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ اس بنا پر غیر حمل کی نفی کی صورت میں امام مالک پر یہ لازم آتا ہے کہ وہ اس میں بھی روایت کی شرط عائد نہ کریں۔  Show more

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٦) اور جو لوگ اپنی منکوحہ بیویوں کو زنا کی تہمت لگائیں اور ان کے پاس اس چیز پر اپنے علاوہ اور گواہ نہ ہو تو ایسا شخص چار مرتبہ اللہ وحدہ لاشریک کی قسم کھا کر یہ کہہ دے کہ میں نے اپنی عورت پر جو تہمت لگائی ہے اس میں، میں سچاہوں۔ شان نزول : ( آیت ) ”۔ والذین یرمون “۔ (الخ) امام بخاری (رح) نے عکرمہ ... (رض) کے ذریعے سے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ ہلال بن امیہ نے اپنی بیوی کو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے تہمت لگائی، رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے فرمایا گواہ لاؤ ورنہ تمہاری پشت پر حد قذف لگائی جائے گی انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگر ہم میں کوئی شخص اپنی عورت کے ساتھ کسی کو برا کام کرتے دیکھے تو گواہ ڈھونڈتا پھرے۔ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہی فرماتے رہے گواہ لاؤ ورنہ تم پر حد قائم ہوگی۔ حضرت ہلال (رض) نے عرض کیا کہ اس ذات کی قسم جس نے آپ کو سچائی کے ساتھ مبعوث فرمایا میں اپنی بات میں سچا ہوں اور اللہ تعالیٰ میرے بارے میں ضرور کوئی ایسا حکم نازل فرمائے گا جس سے میری پیٹھ سزا سے بچا دے گا۔ اس کے بعد جبریل امین (علیہ السلام) تشریف لائے اور آیت نازل ہوئی۔ ( آیت) ” والذین یرمون ازواجھم “۔ (الخ) آپ نے ( آیت) ” من الصادقین “۔ تک یہ آیات پڑھ کر سنائیں۔ اور نیز اسی روایت کو امام احمد (رح) نے انہی الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے کہ جس وقت یہ آیت نازل ہوئی ( آیت) ” والذین یرمون المحصنات “ (الخ) تو حضرت سعد بن عبادہ (رض) انصار کے سردار کہنے لگے یا رسول اللہ کیا اسی طرح نازل ہوئی ہے۔ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اے انصار کی جماعت سن نہیں رہے کہ تمہارے سردار کیا کہہ رہے ہیں، صحابہ کرام (رض) نے عرض کیا یارسول اللہ ان کو ملامت نہ کیجیے یہ بہت ہی باغیرت انسان ہیں اللہ کی قسم انہوں نے کنواری کے علاوہ اور کسی عورت سے کبھی شادی نہیں کی اور نہ کبھی کسی عورت کو طلاق دی ہے کہ ان کی غیرت کی شدت کی وجہ سے پھر ہم میں سے کسی کو جرأت ہو کہ وہ ان کی مطلقہ کے ساتھ شادی کرے، پھر حضرت سعد (رض) نے عرض کیا یارسول اللہ میں جانتا ہوں کہ یہ بات حق ہے اور یہ حکم الہی ہے لیکن مجھے اس بات پر تعجب ہوا کہ اگر میں کسی بےوقوفہ کے ساتھ کسی نامحرم کو پاؤں تو مجھے اس نامحرم کو علیحدہ کرنے اور اس کو حرکت دینے کی بھی اجازت نہیں، جب تک کہ میں چار گواہ نہ لے آؤں تو خدا کی قسم میں گواہوں کو اس وقت تک نہیں لاؤں گا جب تک کہ وہ اپنی حاجت کو پورا نہ کرے اس کے بعد کچھ وقت نہیں گزرا تھا کہ ہلال بن امیہ آگئے اور وہ تین حضرات میں سے ہیں جن کی اللہ تعالیٰ نے توبہ قبول فرمائی ہے وہ اپنی زمین سے شام کو گھر آئے تو انہوں نے اپنی گھر والی کے پاس کسی شخص کو پایا یہ منظر انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اپنے کانوں سے یہ باتیں سنیں تو وہ اس واقعہ سے بالکل نہیں گھبرائے یہاں تک کہ صبح ہوگئی وہ علی الصباح رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آکر عرض کیا کہ میں شام کے وقت اپنی گھر والی کے پاس آیا تو اس کے پاس ایک شخص کو دیکھا یہ چیز میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھی اور یہ باتیں میں نے اپنے کانوں سے سنیں یہ جس واقعہ کی اطلاع لے کر آئے اس سے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ناگواری ہوئی اور آپ پر یہ چیز گراں گزری، اتنے میں سب انصار جمع ہوگئے اور کہنے لگے کہ سعد بن عبادہ (رض) نے اس وقت جو بات کہی تھی اس کی وجہ سے ہم سب آزمایش میں ڈال دیے گئے، رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہلال بن امیہ کو سزا دیں گے اور ان کی گواہی کو مسلمانوں میں جھوٹی قرار دے دیں گے، حضرت ہلال (رض) نے فرمایا اللہ کی قسم میں اس چیز کی امید رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اس چیز سے میرے لیے نجات کا کوئی راستہ نکال دیں گے، سو اللہ کی قسم رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کو سزا دینے کے لیے حکم فرمانا ہی چاہ رہے تھے کہ آپ پر وحی نازل ہونا شروع ہوگئی تو سب ان سے رک گئے یہاں تک کہ آپ وحی سے فارغ ہوئے چناچہ آپ پر یہ آیات نازل ہوئیں یعنی جو لوگ اپنی منکوحہ عورتوں کو تہمت لگاتے ہیں، نیز ابویعلی نے اسی طرح حضرت انس (رض) سے روایت نقل کی ہے۔ اور امام بخاری (رح) اور مسلم (رح) نے مسہل بن سعد (رض) سے روایت کیا ہے کہ عویمر عاصم بن عدی کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ میرا ایک مسئلہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھو کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے پاس کسی اجنبی آدمی کو پائے تو کیا کرے وہ اس کو مار ڈالے تو کیا وہ بھی بدلے میں قتل کردیا جائے گا تو پھر کرے تو کیا کرے چناچہ عاصم رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے اور آپ سے یہ مسئلہ دریافت کیا رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس قسم کے سوال کو برا سمجھا، اس کے بعد عویمر سے ملاقات ہوئی، عویمر نے ان سے دریافت کیا کہ آپ نے کیا کیا عاصم نے جواب دیا میں کیا کرتا تم نے میرے ساتھ بھائی نہیں کی، میں نے آپ کا مسئلہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا تو آپ نے ایسے سوالات کو پسند نہیں فرمایا، عویمر بولے اللہ کی قسم میں تو رسول اکرم کی خدمت میں حاضر ہوں گا اور بغیر دریافت کیے ہوئے نہیں رہوں گا چناچہ انہوں نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جا کر دریافت کیا، آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے تمہارے اور تمہاری بیوی کے بارے میں حکم نازل کردیا ہے۔ حافظ بن حجر عسقلانی (رح) فرماتے ہیں کہ اس مقام پر ائمہ کرام کا اختلاف ہے کہ آیت مبارکہ کون سے واقعہ کے ماتحت نازل ہوئی ہے تو بعض حضرات نے اس چیز کو ترجیح دی ہے کہ یہ آیت حضرت عویمر (رض) کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور بعض نے حضرت ہلال (رض) کے واقعہ کو ترجیح دی ہے کہ یہ آیت اس واقعہ میں نازل ہوئی ہے۔ اور بعض لوگوں نے دونوں واقعات میں موافقت میں موافقت کردی ہے کہ پہلے تو حضرت ہلال (رض) کا واقعہ پیش آیا اور پھر حضرت عویمر (رض) کے آنے سے اس واقعہ کی تائید ہوگئی پھر دونوں کے بارے میں ایک ساتھ آیت مبارکہ نازل ہوئی، امام نووی (رح) کا بھی اسی جانب رجحان ہے اور خطیب بھی یہی کہتے ہیں کہ ممکن ہے یہ دونوں واقعے ایک ہی وقت پیش آئے ہوں۔ نیز حافظ بن حجر عسقلانی (رح) ان دونوں واقعات میں موافقت بیان کرتے ہیں کہ ممکن ہے حضرت ہلال (رض) کا واقعہ پیش آنے پر پہلے آیت کریمہ کا نزول ہوچکا ہو پھر جب حضرت عویمر (رض) اپنا واقعہ لے کر آئے اور انھیں اس بات کا علم نہ ہوا کہ حضرت ہلال (رض) کا کیا واقعہ ہوچکا ہے تو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انھیں اس حکم سے مطلع فرما دیا یہی وجہ ہے کہ حضرت ہلال (رض) کے واقعہ میں تو یہ الفاظ ہیں کہ پھر جبریل امین نازل ہوئے اور حضرت عویمر (رض) کے واقعہ میں یہ الفاظ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے بارے میں حکم نازل کردیا ہے یعنی تمہارے جیسا واقعہ پیش آچکا ہے اس کے اندر حکم نازل ہوگیا اور ابن الصباغ نے بھی شامل میں یہی جواب دیا ہے اور امام قرطبی کا میلان اس جانب ہے کہ دو مرتبہ آیت مبارکہ نازل ہوئی ہو کیوں کہ نزول آیت دو مرتبہ جائز ہے۔ اور بزار (رح) نے زیدبن مطیع (رح) کے ذریعے حضرت حذیفہ (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اکرم (رض) نے حضرت ابوبکر (رض) سے فرمایا اگر تم ام رومان کے ساتھ کسی اجنبی کو دیکھو تو تم کیا کرو گے، حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا میں ایسے شخص کے ساتھ بہت برا پیش آؤں گا پھر آپ حضرت عمر (رض) کی طرف مخاطب ہوئے اور فرمایا عمر تم کیا کرو گے حضرت عمر (رض) نے فرمایا میں ایسے شخص پر اللہ تعالیٰ کی لعنت بھیجوں گا اور ایسا شخص خبیث ہے، تب یہ آیت نازل ہوئی، حافظ بن حجر عسقلانی (رح) فرماتے ہیں اسباب النزول کے زیادہ تعداد میں ہونے میں کوئی حرج نہیں۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦ (وَالَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ اَزْوَاجَہُمْ وَلَمْ یَکُنْ لَّہُمْ شُہَدَآءُ اِلَّآ اَنْفُسُہُمْ ) ” یعنی اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو بدکاری کا ارتکاب کرتے ہوئے دیکھ لے اور اس کے پاس اپنے علاوہ موقع کے تین اور گواہ بھی نہ ہوں تو وہ کیا کرے ؟ چونکہ معاملہ اس کی اپنی بیوی کا ہے اس لیے وہ خاموشی اختیار...  کر کے اس کے ساتھ رہ بھی نہیں سکتا۔ عام حالات میں تو اگر کوئی شخص اپنے علاوہ تین چشم دید گواہوں کے بغیر کسی پر ایسا الزام لگائے تو اسے اسّی (٨٠) کوڑوں کی سزا دی جائے گی ‘ لیکن میاں بیوی کے معاملے میں ایسی صورت حال کے لیے یہاں ایک خصوصی قانون دیا گیا ہے جسے اصطلاح میں ” لعان “ کہا جاتا ہے۔ (فَشَہَادَۃُ اَحَدِہِمْ اَرْبَعُ شَہٰدٰتٍم باللّٰہِلا اِنَّہٗ لَمِنَ الصّٰدِقِیْنَ ) ” ایسے شخص سے تقاضا یہ ہے کہ وہ اللہ کی قسم کھا کر چار دفعہ واقعہ کی گواہی دے اور دعویٰ کرے کہ وہ جو کچھ کہہ رہا ہے سچ کہہ رہا ہے۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

بقیہ حصہ آیت نمبر 2 (٥) زنا کو قابل سزا فعل تو 3 ھ میں ہی قرار دے دیا گیا تھا، لیکن اس وقت یہ ایک " قانونی " جرم نہ تھا جس پر ریاست کی پولیس اور عدالت کوئی کاروائی کرے، بلکہ اس کی حیثیت ایک " معاشرتی " یا " خاندانی " جرم کی سی تھی جس پر اہل خاندان ہی کی بطور خود سزا سے لینے کا اختیار تھا۔ حکم یہ ت... ھا کہ اگر چار گواہ اس امر کی شہاست دے دیں کہ انہوں نے ایک مرد اور ایک عورت کو زنا کرتے دیکھا ہے تو دونوں کو مارا پیٹا جائے، اور عورت کو گھر میں قید کردیا جائے۔ اس کے ساتھ یہ اشارہ بھی کردیا گیا تھا کہ یہ قاعدہ " تا حکم ثانی " ہے، اصل قانون بعد میں آنے والا ہے (ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اول، صفحہ 331) اس کے ڈھائی تین سال بعد یہ حکم نازل ہوا جو آپ اس آیت میں پا رہے ہیں، اور اس نے حکم سابق کو منسوخ کر کے زنا کو ایک قانونی جرم قابل دست اندازی سرکار (Cognizableoffene) قرار دے دیا۔ (٦) اس آیت میں زنا کی جو سزا مقرر کی گئی ہے وہ دراصل " محض زنا " کی سزا ہے، زنا بعد احصان (یعنی شادی شدہ ہونے کے بعد زنا کے ارتکاب) کی سزا نہیں ہے جو اسلامی قانون کی نگاہ میں سخت تر جرم ہے، یہ بات خود قرآن ہی کے ایک اشارے سے معلوم ہوتی ہے کہ وہ یہاں اس زنا کی سزا بیان کر رہا ہے جس کے فریقین غیر شادی شدہ ہوں۔ سورة نساء میں پہلے ارشاد ہوا کہ : وَالّٰتِيْ يَاْتِيْنَ الْفَاحِشَةَ مِنْ نِّسَاىِٕكُمْ فَاسْتَشْهِدُوْا عَلَيْهِنَّ اَرْبَعَةً مِّنْكُمْ فَاِنْ شَهِدُوْا فَاَمْسِكُوْھُنَّ فِي الْبُيُوْتِ حَتّٰى يَتَوَفّٰىھُنَّ الْمَوْتُ اَوْ يَجْعَلَ اللّٰهُ لَھُنَّ سَبِيْلًا (آیت 15) " تمہاری عورتوں میں سے جو بدکاری کی مرتکب ہوں ان پر اپنے میں سے چار آدمیوں کی گواہی لو، اور اگر وہ گواہی دے دیں تو ان کو گھروں میں بند رکھو یہاں تک کہ انہیں موت آجائے یا اللہ ان کے لیے کوئی راستہ نکال دے "۔ اس کے بعد تھوڑی دور آگے چل کر پھر فرمایا : وَمَنْ لَّمْ يَسْتَطِعْ مِنْكُمْ طَوْلًا اَنْ يَّنْكِحَ الْمُحْصَنٰتِ الْمُؤْمِنٰتِ فَمِنْ مَّا مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ مِّنْ فَتَيٰتِكُمُ الْمُؤْمِنٰتِ ۔۔۔۔ فَاِذَآ اُحْصِنَّ فَاِنْ اَتَيْنَ بِفَاحِشَةٍ فَعَلَيْهِنَّ نِصْفُ مَا عَلَي الْمُحْصَنٰتِ مِنَ الْعَذَابِ (آیت 25) " اور تم میں سے جو لوگ اتنی مقدرت نہ رکھتے ہوں کہ مومنوں میں سے محصنت کے ساتھ نکاح کریں تو وہ تمہاری مومن لونڈیوں سے نکاح کرلیں۔۔۔ پھر اگر وہ (لونڈیاں) محصنہ ہوجانے کے بعد کسی بد چلنی کی مرتکب ہوں تو ان پر اس سزا کی بہ نسبت آدھی سزا ہے جو محصنت کو (ایسے جرم پر) دی جائے۔ ان میں سے پہلی آیت میں توقع دلائی گئی ہے کہ زانیہ عورتیں جن کو سردست قید کرنے کا حکم دیا جارہا ہے ان کے لیے اللہ تعالیٰ بعد میں کوئی سبیل پیدا کرے گا۔ اس سے معلوم ہوا کہ سورة نور کا یہ دوسرا حکم وہی چیز ہے جس کا وعدہ سورة نساء کی مذکورہ بالا آیت میں کیا گیا تھا۔ دوسری آیت میں شادی شدہ لونڈی کے ارتکاب زنا کی سزا بیان کی گئی ہے۔ یہاں ایک ہی آیت اور ایک ہی سلسلہ بیان میں دو جگہ محصنات کا لفظ استعمال ہوا ہے اور لا محالہ یہ ماننا پڑے گا کہ دونوں جگہ اس کے ایک ہی معنی ہیں۔ اب آغاز کے فقرے کو دیکھیے تو وہاں کہا جارہا ہے کہ جو لوگ " محصنات سے نکاح کرنے کی مقدرت نہ رکھتے ہوں "۔ ظاہر ہے کہ اس سے مراد شادی شدہ عورت نہیں ہوسکتی بلکہ ایک آزاد خاندان کی بن بیاہی عورت ہی ہوسکتی ہے۔ اس کے بعد اختتام کے فقرے میں فرمایا جاتا ہے کہ لونڈی منکوحہ ہونے کے بعد اگر زنا کرے تو اس کو اس سزا سے آدھی سزا دی جائے جو محصنات کو اس جرم پر ملنی چاہیے۔ سیاق عبارت صاف بتاتا ہے کہ اس فقرے میں بھی محصنات کے معنی وہی ہیں جو پہلے فقرے میں تھے، یعنی شادی شدہ عورت نہیں بلکہ آزاد خاندان کی حفاظت میں رہنے والی بن بیاہی عورت۔ اس طرح سورة نساء کی یہ دونوں آیتیں مل کر اس امر کی طرف اشارہ کردیتی ہیں کہ سورة نور کا یہ حکم، جس کا وہاں وعدہ کیا گیا تھا، غیر شادی شدہ لوگوں کے ارتکاب زنا کی سزا بیان کرتا ہے۔ (مزید توضیح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اول، النساء حاشیہ 46) (٧) یہ امر کہ زنا بعد احصان کی سزا کیا ہے، قرآن مجید نہیں بتاتا بلکہ اس کا علم ہمیں حدیث سے حاصل ہوتا ہے بکثرت معتبر روایات سے ثابت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نہ صرف قولاً اس کی سزا رجم (سنگساری) بیان فرمائی ہے، بلکہ عملاً آپ نے متعدد مقدمات میں یہی سزا نافذ بھی کی ہے۔ پھر آپ کے بعد چاروں خلفائے راشدین نے اپنے اپنے دور میں یہی سزا نافذ کی اور اسی کے قانونی سزا ہونے کا بار بار اعلان کیا۔ صحابہ کرام اور تابعین میں یہ مسئلہ بالکل متفق علیہ تھا۔ کسی ایک شخص کا بھی کوئی قول ایسا موجود نہیں ہے جس سے یہ نتیجہ نکالا جاسکے کہ قرن اول میں کسی کو اس کے ایک ثابت شدہ حکم شرعی ہونے میں کوئی شک تھا۔ ان کے بعد تمام زمانوں اور ملکوں کے فقہائے اسلام اس بات پر متفق رہے ہیں کہ یہ ایک سنت ثابتہ ہے، کیونکہ اس کی صحت کے اتنے متواتر اور قوی ثبوت موجود ہیں جن کے ہوتے کوئی صاحب علم اس سے انکار نہیں کرسکتا۔ امت کی پوری تاریخ میں بجز خوارج اور بعض معتزلہ کے کسی نے بھی اس سے انکار نہیں کیا ہے، اور ان کے انکار کی بنیاد بھی یہ نہیں تھی کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس حکم کے ثبوت میں وہ کسی کمزوری کی نشان دہی کرسکے ہوں، بلکہ وہ اسے " قرآن کے خلاف " قرار دیتے تھے۔ حالانکہ یہ ان کے اپنے فہم قرآن کو قصور تھا۔ وہ کہتے تھے کہ قرآن : الزّانی و الذّانیۃ کے مطلق الفاظ استعمال کر کے اس کی سزا سو کوڑے بیان کرتا ہے، لہٰذا قرآن کی رو سے ہر قسم کے زانی اور زانیہ کی سزا یہی ہے اور اس سے زانی محصن کو الگ کر کے اس کی کوئی سزا تجویز کرنا قانون خداوند کی خلاف ورزی ہے، مگر انہوں نے یہ نہیں سوچا کہ قرآن کے الفاظ جو قانونی وزن رکھتے ہیں وہی قانونی وزن ان کی اس تشریح کا بھی ہے جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کی ہو، بشرطیکہ وہ آپ سے ثابت ہو۔ قرآن نے ایسے ہی مطلق الفاظ میں : السّارق و السّارقۃ کا حکم بھی قطع ید بیان کیا ہے۔ اس حکم کو اگر ان تشریحات سے مقید نہ کیا جائے جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ثابت ہیں تو اس کے الفاظ کی عمومیت کا تقاضا یہ ہے کہ آپ ایک بیر کی چوری پر بھی آدمی کو سارق قرار دیں اور پھر پکڑ کر اس کا ہاتھ شانے کے پاس سے کاٹ دیں۔ دوسری طرف لاکھوں روپے کی چوری کرنے والا بھی اگر گرفتار ہوتے ہی کہہ دے کہ میں نے اپنے نفس کی اصلاح کرلی ہے اور اب میں چوری سے توبہ کرتا ہوں تو آپ کو اسے چھوڑ دینا چاہیے کیونکہ قرآن کہتا ہے : فَمَنْ تَابَ مِنْ بَعْدِ ظُلْمِہٖ وَاَصْلَحَ فَاِنَّ اللہَ یَتُوْ بُ عَلَیْہِ (المائدہ۔ آیت 39) ۔ اسی طرح قرآن صرف رضاعی ماں اور رضاعی بہن کی حرمت بیان کرتا ہے، رضاعی بیٹی کی حرمت اس استدلال کی رو سے قرآن کے خلاف ہونی چاہیے۔ قرآن صرف دو بہنوں کے جمع کرنے سے منع کرتا ہے۔ خالہ اور بھانجی، اور پھوپھی اور بھتیجی کے جمع کرنے کو شخص حرام کہے اس پر قرآن کے خلاف حکم لگانے کا الزام عائد ہونا چاہیے۔ قرآن صرف اس حالت میں سوتیلی بیٹی کو حرام کرتا ہے جب کہ اس نے سوتیلے باپ کے گھر میں پرورش پائی ہو۔ مطلقاً اس کی حرمت خلاف قرآن قرار پانی چاہیے۔ قرآن صرف اس وقت رہن کی اجازت دیتا ہے جب کہ آدمی سفر میں ہو اور قرض کی دستاویز لکھنے والا کاتب میسر نہ آئے۔ حضر میں، اور کاتب کے قابل حصول ہونے کی صورت میں رہن کا جواز قرآن کے خلاف ہونا چاہیے۔ قرآن عام لفظوں میں حکم دیتا ہے : وَاَشْھِدُوْآ اِذَا تَبَایَعْتُمْ (گواہ بناؤ جب کہ آپس میں خریدو فروخت کرو) ۔ اب وہ تمام خریدو فروخت ناجائز ہونی چاہیے جو رات دن ہماری دکانوں پر گواہی کے بغیر ہو رہی ہے۔ یہ صرف چند مثالیں ہیں جن پر ایک نگاہ ڈال لینے سے ہی ان لوگوں کے استدلال کی غلطی معلوم ہوجاتی ہے جو رجم کے حکم کو خلاف قرآن کہتے ہیں۔ نظام شریعت میں نبی کا یہ منصب ناقابل انکار ہے کہ وہ خدا کا حکم پہنچانے کے بعد ہمیں بتائے کہ اس حکم کا منشا کیا ہے، اس پر عمل کرنے کا طریقہ کیا ہے، کن معاملات پر اس کا اطلاق ہوگا، اور کن معاملات کے لیے دوسرا حکم ہے۔ اس منصب کا انکار صرف اصول دین ہی کے خلاف نہیں ہے بلکہ اس سے اتنی عملی قباحتیں لازم آتی ہیں کہ ان کا شمار نہیں ہو سکتا۔ (٨) زنا کی قانونی تعریف میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے۔ حنفیہ اس کی تعریف یہ کرتے ہیں کہ " ایک مرد کا کسی ایسی عورت سے قُبُل میں مباشرت کرنا جو نہ تو اس کے نکاح یا ملک یمین میں ہو اور نہ اس امر کا شبہ کی کوئی معقول وجہ ہو کہ اس نے منکوحہ یا مملوکہ سمجھتے ہوئے اس سے مباشرت کی ہے "۔ اس تعریف کی رو سے وطی فی الدُبُر، عمل قوم لوط، بہائم سے مجامعت وغیرہ، ماہیت زنا سے خارج ہوجاتے ہیں اور صرف عورت سے قُبُل میں مباشرت ہی پر اس کا اطلاق ہوتا ہے جب کہ شرعی حق یا اس کے شبہ کے بغیر یہ فعل کیا گیا ہو۔ بخلاف اس کے شافعیہ اس کی تعریف یوں بیان کرتے ہیں " شرمگاہ کو ایسی شرمگاہ میں داخل کرنا جو شرعاً حرام ہو مگر طبعاً جس کی طرف رغبت کی جاسکتی ہو "۔ اور مالکیہ کے نزدیک اس کی تعریف یہ ہے " شرعی حق یا اس کے شبہ کے بغیر قُبُل یا دُبُر میں مرد یا عورت سے وطی کرنا "۔ ان دونوں تعریفوں کی رو سے عمل قوم لوط بھی زنا میں شمار ہوجاتا ہے۔ لیکن صحیح بات یہ ہے کہ یہ دونوں تعریفیں لفظ زنا کے معروف معنوں سے ہٹی ہوئی ہیں۔ قرآن مجید ہمیشہ الفاظ کو ان کے معروف اور عام فہم معنی میں استعمال کرتا ہے۔ الا یہ کہ وہ کسی لفظ کو اپنی اصطلاح خاص بنا رہا ہو، اور اصطلاح خاص بنانے کی صورت میں وہ خود اپنے مفہوم خاص کو ظاہر کردیتا ہے۔ یہاں ایسا کوئی قرینہ نہیں ہے کہ لفظ زنا کو کسی مخصوص معنی میں استعمال کیا گیا ہو، لہٰذا اسے معروف معنی ہی میں لیا جائے گا، اور وہ عورت سے فطری مگر ناجائز تعلق تک ہی محدود ہے، شہوت رانی کی دوسری صورتوں تک وسیع نہیں ہوتا۔ علاوہ بریں یہ بات معلوم ہے کہ عمل قوم لوط کی سزا کے بارے میں صحابہ کرام کے درمیان اختلاف ہوا ہے۔ اگر اس فعل کا شمار بھی اسلامی اصطلاح کی رو سے زنا میں ہوتا تو ظاہر ہے کہ اختلاف رائے کی کوئی وجہ نہ تھی۔ (٩) قانوناً ایک فعل زنا کو مستلزم سزا قرار دینے کے لیے صرف ادخال حشفہ کافی ہے۔ پورا ادخال یا تکمیل فعل اس کے لیے ضروری نہیں ہے۔ اس کے برعکس اگر ادخال حشفہ نہ ہو تو محض ایک بستر پر یکجا پایا جانا، یا ملاعبت کرتے ہوئے دیکھا جانا، یا برہنہ پایا جانا کسی کو زانی قرار دینے کے لیے کافی نہیں ہے۔ اور اسلامی شریعت اس حد تک بھی نہیں جاتی کہ کوئی جوڑا ایسی حالت میں پایا جائے تو اس کا ڈاکٹری معائنہ کرا کے زنا کا ثبوت بہم پہنچایا جائے اور پھر اس پر حد زنا جاری کی جائے۔ جو لوگ اس طرح کی بےحیائی میں مبتلا پائے جائیں ان پر صرف تعزیر ہے۔ جس کا فیصلہ حالات کے لحاظ سے حاکم عدالت خود کرے گا، یا جس کے لیے اسلامی حکومت کی مجلس شوریٰ کوئی سزا تجویز کرنے کی مجاز ہوگی۔ یہ تعزیر اگر کوڑوں کی شکل میں ہو تو دس کوڑوں سے زیادہ نہیں لگائے جاسکتے، کیونکہ حدیث میں تصریح ہے کہ : لا یجلد فوق عشر جلداتٍ اِلَّا فی حدٍّ من حدود اللہ۔ " اللہ کی مقرر کردہ حدود کے سوا کسی اور جرم میں دس کوڑوں سے زیادہ نہ مارے جائیں " (بخاری، مسلم، ابو داؤد) ۔ اور اگر کوئی شخص پکڑا نہ گیا ہو بلکہ خود نادم ہو کر ایسے کسی قصور کا اعتراف کرے تو اس کے لیے صرف توبہ کی تلقین کافی ہے۔ عبداللہ بن مسعود کی روایت ہے کہ ایک شخص نے حاضر ہو کر عرض کیا کہ " شہر کے باہر میں ایک عورت سے سب کچھ کر گزرا بجز جماع کے۔ اب حضور جو چاہیں مجھے سزا دیں "۔ حضرت عمر نے کہا " جب خدا نے پردہ ڈال دیا تھا تو تو بھی پردہ پڑا رہنے دیتا "۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خاموش رہے اور وہ شخص چلا گیا۔ پھر آپ نے اسے واپس بلایا اور یہ آیت پڑھی : اَقِمِ الصَّلوٰۃ طَرَفَی النَّھَارِ وَ زُلَفاً مِّنَ الَّیْلِ اِنَّ الْحَسَنٰتِ یُذْھِبُنَ السَّیِّاٰتِ ۔ " نماز قائم کر دن کے دونوں سروں پر اور کچھ رات گزرنے پر، نیکیاں برائیوں کو دور کردیتی ہیں " (ہود، آیت 114) ۔ ایک شخص نے پوچھا " کیا یہ اسی کے لیے خاص ہے "؟ حضور نے فرمایا " نہیں، سب کے لیے ہے " (مسلم، ترمذی، ابو داؤد، نسائی) ۔ یہی نہیں بلکہ شریعت اس کو بھی جائز نہیں رکھتی کہ کوئی شخص اگر جرم کی تصریح کے بغیر اپنے مجرم ہونے کا اعتراف کرے تو کھوج لگا کر اس سے پوچھا جائے کہ تو نے کون سا جرم کیا ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں ایک شخص نے حاضر ہو کر عرض کیا " یا رسول اللہ میں حد کا مستحق ہوگیا ہوں، مجھ پر حد جاری فرمائیے " مگر آپ نے اس سے نہیں پوچھا کہ تو کس حد کا مستحق ہوا ہے۔ پھر نماز سے فارغ ہو کر وہ شخص پھر اٹھا اور کہنے لگا کہ میں مجرم ہوں مجھے سزا دیجیے۔ آپ نے فرمایا : " کیا تو نے ابھی ہمارے ساتھ نماز نہیں پڑھی ہے "؟ اس نے عرض کیا ،" جی ہاں "۔ فرمایا " بس تو اللہ نے تیرا قصور معاف کردیا "۔ (بخاری، مسلم، احمد) ۔ (١٠) کسی شخص (مرد یا عورت) کو مجرم قرار دینے لیے صرف یہ امر کافی نہیں ہے کہ اس سے فعل زنا صادر ہوا ہے، بلکہ اس کے لیے مجرم میں کچھ شرطیں پائی جانی چاہییں۔ یہ شرطیں زنائے محض کے معاملے میں اور ہیں، اور زنا بعد احصان کے معاملہ میں اور۔ زنائے محض کے معاملے میں شرط یہ ہے کہ مجرم عاقل ہو اور بالغ ہو۔ اگر کسی مجنون یا کسی بچے سے یہ فعل سرزد ہو تو وہ حد زنا کا مستحق نہیں ہے۔ اور زنا بعد احصان کے لیے عقل اور بلوغ کے علاوہ چند مزید شرطیں بھی ہیں جن کو ہم ذیل میں بیان کرتے ہیں : پہلی شرط یہ ہے کہ مجرم آزاد ہو۔ اس شرط پر سب کا اتفاق ہے، کیونکہ قرآن خود اشارہ کرتا ہے کہ غلام کو رجم کی سزا نہیں دی جائے گی۔ ابھی یہ بات گزر چکی ہے کہ لونڈی اگر نکاح کے بعد زنا کی مرتکب ہو تو اسے غیر شادی شدہ آزاد عورت کی بہ نسبت آدھی سزا دینی چاہیے۔ فقہاء نے تسلیم کیا ہے کہ قرآن کا یہی قانون غلام پر بھی نافذ ہوگا۔ دوسری شرط یہ ہے کہ مجرم باقاعدہ شادی شدہ ہو۔ یہ شرط بھی متفق علیہ ہے، اور اس شرط کی رو سے کوئی ایسا شخص جو ملک یمین کی بنا پر تمتع کرچکا ہو، یا جس کا نکاح کسی فاسد طریقے سے ہوا ہو، شادی شدہ قرار نہیں دیا جائے گا، یعنی اس سے اگر زنا کا صدور ہو تو اس کو رجم کی نہیں بلکہ کوڑوں کی سزا دی جائے گی۔ تیسری شرط یہ ہے کہ اس کا محض نکاح ہی نہ ہوا ہو بلکہ نکاح کے بعد خلوت صحیحہ بھی ہوچکی ہو۔ صرف عقد نکاح کسی مرد کو محصِن، یا عورت کو محصنہ نہیں بنا دیتا کہ زنا کے ارتکاب کی صورت میں اس کو رجم کردیا جائے۔ اس شرط پر بھی اکثر فقہا متفق ہیں۔ مگر امام ابوحنیفہ اور امام محمد اس میں اتنا اضافہ اور کرتے ہیں کہ ایک مرد یا ایک عورت کو محصن صرف اسی صورت میں قرار دیا جائے گا جب کہ نکاح اور خلوت صحیحہ کے وقت زوجین آزاد، بالغ اور عاقل ہوں۔ اس مزید شرط سے جو فرق واقع ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ اگر ایک مرد کا نکاح ایسی عورت سے ہوا ہو جو لونڈی ہو، یا نابالغ ہو، یا مجنون ہو، تو خواہ وہ اس حالت میں اپنی بیوی سے لذت اندوز ہو بھی چکا ہو، پھر بھی وہ مرتکب زنا ہونے کی صورت میں رجم کا مستحق نہ ہوگا۔ یہی معاملہ عورت کا بھی ہے اگر اس کو اپنے نابالغ یا مجنون یا غلام شوہر سے لذت اندوز ہونے کا موقع مل چکا ہو، پھر بھی وہ مرتکب زنا ہونے کی صورت میں رجم کی مستحق نہ ہوگی۔ غور کیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ یہ ایک بہت ہی معقول اضافہ ہے جو ان دونوں بالغ النظر بزرگوں نے کیا ہے۔ چوتھی شرط یہ ہے کہ مجرم مسلمان ہو۔ اس میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے۔ امام شافعی، امام ابو یوسف اور امام احمد (رحمہم اللہ) اس کو نہیں مانتے۔ ان کے نزدیک ذِمّی بھی اگر زنا بعد احصان کا مرتکب ہوگا تو رجم کیا جائے گا۔ لیکن امام ابوحنیفہ اور امام مالک اس امر پر متفق ہیں کہ زنا بعد احصان کی سزا رجم صرف مسلمان کے لیے ہے۔ اس کے دلائل میں سے سب سے زیادہ معقول اور وزنی دلیل یہ ہے کہ ایک آدمی کو سنگساری جیسی خوفناک سزا دینے کے لیے ضروری ہے کہ وہ مکمل " احصان " کی حالت میں ہو اور پھر بھی زنا کے ارتکاب سے باز نہ آئے۔ احصان کا مطلب ہے " اخلاقی قلعہ بندی "، اور اس کی تکمیل تین حصاروں سے ہوتی ہے۔ اولین حصار یہ ہے کہ آدمی خدا پر ایمان رکھتا ہو، آخرت کی جواب دہی کا قائل ہو اور شریعت خداوندی کو تسلیم کرتا ہو۔ دوسرا حصار یہ ہے کہ وہ معاشرے کا آزاد فرد ہو، کسی دوسرے کی غلامی میں نہ ہو جس کی پابندیاں اسے اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے جائز تدابیر اختیار کرنے میں مانع ہوتی ہیں، اور لا چاری و مجبوری اس سے گناہ کرا سکتی ہے، اور کوئی خاندان اسے اپنے اخلاق اور اپنی عزت کی حفاظت میں مدد دینے والا نہیں ہوتا۔ تیسرا حصار یہ ہے کہ اس کا نکاح ہوچکا ہو اور اسے تسکین نفس کا جائز ذریعہ حاصل ہو۔ یہ تینوں حصار جب پائے جاتے ہوں تب " قلع بندی " مکمل ہوتی ہے اور تب ہی وہ شخص بجا طور پر سنگساری کا مستحق قرار پاسکتا ہے جس نے ناجائز شہوت رانی کی خاطر تین تین حصار توڑ ڈالے۔ لیکن جہاں پہلا اور سب سے بڑا حصار، یعنی خدا اور آخرت اور قانون خداوندی پر ایمان ہی موجود نہ ہو وہاں یقیناً قلعہ بندی مکمل نہیں ہے اور اس بنا پر فجور کا جرم بھی اس شدت کو پہنچا ہوا نہیں ہے جو اسے انتہائی سزا کا مستحق بنا دے۔ اس دلیل کی تائید ابن عمر کی وہ روایت کرتی ہے جسے اسحاق بن راہویہ نے اپنی مسند میں اور دار قطنی نے اپنی سُنَن میں نقل کیا ہے کہ : من اشرک باللہ فلیس بمحصن " جس نے خدا کے ساتھ شرک کیا وہ محصن نہیں ہے "۔ اگرچہ اس امر میں اختلاف ہے کہ آیا ابن عمر نے اس روایت میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا قول نقل کیا ہے، یا یہ ان کا اپنا فتویٰ ہے۔ لیکن اس کمزوری کے باوجود اس کا مضمون اپنے معنی کے لحاظ سے نہایت قوی ہے۔ اس کے جواب میں اگر یہودیوں کے اس مقدمے سے استدلال کیا جائے جس میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رجم کا حکم نافذ فرمایا تھا، تو ہم کہیں گے کہ یہ استدلال صحیح نہیں ہے۔ اس لیے کہ اس مقدمے کے متعلق تمام معتبر روایات کو جمع کرنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان پر اسلام کا ملکی قانون (Law of theland) نہیں بلکہ ان کا اپنا مذہبی قانون (Personal law) نافذ فرمایا تھا۔ بخاری و مسلم کی متفقہ روایت ہے کہ جب یہ مقدمہ آپ کے پاس لایا گیا تو آپ نے یہودیوں سے پوچھا کہ : ما تجدون فی التوراۃ فی شان الرجم یا ما تجدون فی کتابکم، یعنی " تمہاری کتاب توراۃ میں اس کا کیا حکم ہے "؟ پھر جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ ان کے ہاں رجم کا حکم ہے تو حضور نے فرمایا : فانی احکم بما فی التوراۃ " میں وہی فیصلہ کرتا ہوں جو توراۃ میں ہے "۔ اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے اس مقدمے کا فیصلہ کرتے ہوئے فرمایا اللھم انی اول من احیا امرک اذا ماتوہ، " خداوندا، میں پہلا شخص ہوں جس نے تیرے حکم کو زندہ کیا جب کہ انہوں نے اسے مردہ کردیا تھا "۔ (مسلم، ابو داؤد، احمد) ۔ (١١) فعل زنا کے مرتکب کو مجرم قرار دینے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ اس نے اپنی آزاد مرضی سے یہ فعل کیا ہو۔ جبر واکراہ سے اگر کسی شخص کو اس فعل کے ارتکاب پر مجبور کیا گیا ہو تو وہ نہ مجرم ہے نہ سزا کا مستحق۔ اس معاملے پر شریعت کا صرف یہ عام قاعدہ ہی منطبق نہیں ہوتا کہ " آدمی جبراً کرائے ہوئے کاموں کی ذمہ داری سے بری ہے "۔ بلکہ آگے چل کر اسی سورے میں خود قرآن ان عورتوں کی معافی کا اعلان کرتا ہے جن کو زنا پر مجبور کیا گیا ہو۔ نیز متعدد احادیث میں تصریح ہے کہ زنا بالجبر کی صورت میں صرف زانی جابر کو سزا دی گئی اور جس پر جبر کیا گیا تھا اسے چھوڑ دیا گیا۔ ترمذی و ابو داؤد کی روایت ہے کہ ایک عورت اندھیرے میں نماز کے لیے نکلی۔ راستے میں ایک شخص نے اس کو گرا لیا اور زبردستی اس کی عصمت دری کردی۔ اس کے شور مچانے پر لوگ آگئے اور زانی پکڑا گیا۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو رجم کرا دیا اور عورت کو چھوڑ دیا۔ بخاری کی روایت ہے کہ حضرت عمر کے زمانہ خلافت میں ایک شخص نے ایک لڑکی سے زنا بالجبر کا ارتکاب کیا۔ آپ نے اسے کوڑے لگوائے اور لڑکی کو چھوڑ دیا۔ ان دلائل کی بنا پر عورت کے معاملہ میں تو قانون متفق علیہ ہے۔ لیکن اختلاف اس امر میں ہوا ہے کہ آیا مرد کے معاملے میں بھی جبر واکراہ معتبر ہے یا نہیں۔ امام ابو یوسف، امام محمد، امام شافعی اور امام حسن بن صالح (رحمہم اللہ) کہتے ہیں کہ مرد بھی اگر زنا کرنے پر مجبور کیا گیا ہو تو معاف کیا جائے گا۔ امام زُفَر کہتے ہیں کہ اسے معاف نہیں کیا جائے گا، کیونکہ وہ انتشار عضو کے بغیر اس فعل کا ارتکاب نہیں کرسکتا، اور انتشار عضو اس امر کی دلیل ہے کہ اس کی اپنی شہوت اس کی محرک ہوئی تھی۔ امام ابوحنیفہ کہتے ہیں کہ اگر حکومت یا اس کے کسی حاکم نے آدمی کو زنا پر مجبور کیا ہو تو سزا نہیں دی جائے گی، کیونکہ جب خود حکومت ہی جرم پر مجبور کرنے والی ہو تو اسے سزا دینے کا حق نہیں رہتا۔ لیکن اگر حکومت کے سوا کسی اور نے مجبور کیا ہو تو زانی کو سزا دی جائے گی، کیونکہ ارتکاب زنا بہر حال وہ اپنی شہوت کے بغیر نہ کرسکتا تھا اور شہوت جبراً پیدا نہیں کی جاسکتی۔ ان تینوں اقوال میں سے پہلا قول ہی زیادہ صحیح ہے، اور اس کی دلیل یہ ہے کہ انتشار عضو چاہے شہوت کی دلیل ہو مگر رضا ورغبت کی لازمی دلیل نہیں ہے۔ فرض کیجیے کہ ایک ظالم کسی شریف آدمی کو زبردستی پکڑ کر قید کردیتا ہے اور اس کے ساتھ ایک جوان، خوبصورت عورت کو بھی برہنہ کر کے ایک ہی کمرے میں بند رکھتا ہے اور اسے اس وقت تک رہا نہیں کرتا جب تک کہ وہ زنا کا مرتکب نہ ہوجائے۔ اس حالت میں اگر یہ دونوں زنا کے مرتکب ہوجائیں اور وہ ظالم اس کے چار گواہ بنا کر انہیں عدالت میں پیش کر دے تو کیا یہ انصاف ہوگا کہ ان کے حالات کو نظر انداز کر کے انہیں سنگسار کردیا جائے یا ان پر کوڑے برسائے جائیں ؟ اس طرح کے حالات میں عقلاً یا عادتاً ممکن ہیں جن میں شہوت لاحق ہو سکتی ہے، بغیر اس کے کہ اس میں آدمی کی اپنی رضا ورغبت کا دخل ہو۔ اگر کسی شخص کو قید کر کے شراب کے سوا پینے کو کچھ نہ دیا جائے، اور اس حالت میں وہ شراب پی لے تو کیا محض اس دلیل سے اس کو سزا دی جاسکتی ہے کہ حالات تو واقعی اس کے لیے مجبوری کے تھے مگر حلق سے شراب کا گھونٹ وہ اپنے ارادے کے بغیر نہ اتار سکتا تھا ؟ جرم کے متحقق ہونے کے لیے محض ارادے کا پایا جانا کافی نہیں ہے بلکہ اس کے لیے آزاد ارادہ ضروری ہے۔ جو شخص زبردستی ایسے حالات میں مبتلا کیا گیا ہو کہ وہ جرم کا ارادہ کرنے پر مجبور ہوجائے وہ بعض صورتوں میں تو قطعی مجرم نہیں ہوتا، اور بعض صورتوں میں اس کا جرم بہت ہلکا ہوجاتا ہے۔ (١٢) اسلامی قانون حکومت کے سوا کسی کو یہ اختیار نہیں دیتا کہ وہ زانی اور زانیہ کے خلاف کار روائی کرے، اور عدالت کے سوا کسی کو یہ حق نہیں دیتا کہ وہ اس پر سزا دے۔ اس امر پر تمام امت کے فقہاء کا اتفاق ہے کہ آیت زیر بحث میں حکم فاجلدوا (ان کو کوڑے مارو) کے مخاطب عوام نہیں ہیں بلکہ اسلامی حکومت کے حکام اور قاضی ہیں۔ البتہ غلام کے معاملے میں اختلاف ہے کہ اس پر اس کا آقا حد جاری کرنے کا مجاز ہے یا نہیں۔ مذہب حنفی کے تمام ائمہ اس پر متفق ہیں کہ وہ اس کا مجاز نہیں ہے۔ شافعیہ کہتے ہیں وہ مجاز ہے۔ اور مالکیہ کہتے ہیں کہ آقا کو سرقہ میں ہاتھ کاٹنے کا تو حق نہیں ہے مگر زنا، قذف اور شراب نوشی پر وہ حد جاری کرسکتا ہے۔ (١٣) اسلامی قانون زنا کی سزا کو قانون مملکت کا ایک حصہ قرار دیتا ہے اس لیے مملکت کی تمام رعایا پر یہ حکم جاری ہوگا خواہ وہ مسلم ہوں یا غیر مسلم۔ اس سے امام مالک کے سوا غالباً ائمہ میں سے کسی نے اختلاف نہیں کیا ہے۔ رجم کی سزا غیر مسلموں پر جاری کرنے میں امام ابوحنیفہ کا اختلاف اس بنیاد پر نہیں ہے کہ یہ قانون مملکت نہیں ہے، بلکہ اس بنیاد پر ہے کہ ان کے نزدیک رجم کی شرائط میں سے ایک شرط زانی کا پورا محصن ہونا ہے اور احصان کی تکمیل اسلام کے بغیر نہیں ہوتی، اس وجہ سے وہ غیر مسلم زانی کو رجم کی سزا سے مستثنیٰ قرار دیتے ہیں۔ بخلاف اس کے امام مالک کے نزدیک اس حکم کے مخاطب مسلمان ہیں نہ کہ کافر، اس لیے وہ حد زنا کو مسلمانوں کے شخصی قانون (پرسنل لا) کا ایک جز قرار دیتے ہیں۔ رہا مستامن (جو کسی دوسرے ملک سے دار الاسلام میں اجازت لے کر آیا ہو) تو امام شافعی اور امام ابو یوسف کے نزدیک وہ بھی اگر دار الاسلام میں زنا کرے تو اس پر حد جاری کی جائے گی۔ لیکن امام ابوحنیفہ اور امام محمد کہتے ہیں کہ ہم اس پر حد جاری نہیں کرسکتے۔ (١٤) اسلامی قانون یہ لازم نہیں کرتا کہ کوئی شخص اپنے جرم کا خود اقرار کرے، یا جو لوگ کسی شخص کے جرم زنا پر مطلع ہوں وہ ضرور ہی اس کی خبر حکام تک پہنچائیں۔ البتہ جب حکام اس پر مطلع ہوجائیں تو پھر اس جرم کے لیے معافی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : من اتی شیئا من ھٰذہ القاذورات فلیستتر بستر اللہ فان ابدیٰ لنا صفحۃ اقمنا علیہ کتاب اللہ (احکام القرآن، للجصاص) ۔ " تم میں سے جو شخص ان گندے کاموں میں سے کسی کا مرتکب ہوجائے تو اللہ کے ڈالے ہوئے پردے میں چھپا رہے۔ لیکن اگر وہ ہمارے سامنے اپنا پردہ کھولے گا تو ہم اس پر کتاب اللہ کا قانون نافذ کر کے چھوڑیں گے "۔ ابو داؤد میں ہے کہ ماعز بن مالک اسلمی سے جب زنا کا جرم سرزد ہوگیا تو ہزّال بن نعیم نے ان سے کہا کہ جا کر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے اپنے اس جرم کا اقرار کرو۔ چنانچہ انہوں نے جا کر حضور سے اپنا جرم بیان کردیا۔ اس پر حضور نے ایک طرف تو انہیں رجم کی سزا دی اور دوسری طرف ہزّال سے فرمایا : لو سترتہ بثوبک کان خیراً لک " کاش تم اس کا پردہ ڈھانک دیتے تو تمہارے لیے زیادہ اچھا تھا "۔ ابوداؤد اور نسائی میں ایک اور حدیث ہے کہ آپ نے فرمایا : تعافوا الحدود فی ما بینکم فما بلغنی من حد فقد وجب، " حدود کو آپس ہی میں معاف کردیا کرو۔ مگر جس حد (یعنی جرم مستلزم حد) کا معاملہ مجھ تک پہنچ جائے گا پھر وہ واجب ہوجائے گی۔ " (١٥) اسلامی قانون میں یہ جرم قابل راضی نامہ نہیں ہے۔ قریب قریب تمام کتب حدیث میں یہ واقعہ موجود ہے کہ ایک لڑکا ایک شخص کے ہاں اجرت پر کام کرتا تھا اور وہ اس کی بیوی سے زنا کا مرتکب ہوگیا۔ لڑکے کے باپ نے سو بکریاں اور ایک لونڈی دے کر اس شخص کو راضی کیا۔ مگر جب یہ مقدمہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا تو آپ نے فرمایا : اما غنمک و جاریتک فردٌّ علیک۔ " تیری بکریاں اور تیری لونڈی تجھی کو واپس "، اور پھر آپ نے زانی اور زانیہ دونوں پر حد جاری فرما دی اس سے صرف یہی نہیں معلوم ہوتا کہ اس جرم میں راضی نامہ کی کوئی گنجائش نہیں، بلکہ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی قانون میں عصمتوں کا معاوضہ مالی تاوانوں کی شکل میں نہیں دلوایا جاسکتا۔ آبرو کی قیمت کا یہ دیّوثانہ تصور مغربی قوانین ہی کو مبارک رہے۔ (١٦) اسلامی حکومت کسی شخص کے خلاف زنا کے جرم میں کوئی کاروائی نہ کرے گی جب تک کہ اس کے جرم کا ثبوت مل جائے۔ ثبوت جرم کے بغیر کسی کی بد کاری خواہ کتنے ہی ذرائع سے حکام کے علم میں ہو، وہ بہرحال اس پر حد جاری نہیں کرسکتے۔ مدینے میں ایک عورت تھی جس کے متعلق روایات ہیں کہ وہ کھلی کھلی فاحشہ تھی۔ بخاری کی ایک روایت میں ہے : کانت تظھر فی الاسلام السوء، دوسری روایت میں ہے : کانت قد اعلنت فی الاسلام۔ ابن ماجہ کی روایت ہے فقد ظھر منھا الرّیبۃ فیْ منطقہا و ھیئتھا ومن یدخل علیھا، لیکن چونکہ اس کے خلاف بد کاری کا ثبوت نہ تھا اس لیے اسے کوئی سزا نہ دی گئی، حالانکہ اس کے متعلق نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان مبارک سے یہ الفاظ تک نکل گئے تھے کہ : لوکنت راجماً احداً بغیر بینۃ لرجم تھا، " اگر میں ثبوت کے بغیر رجم کرنے والا ہوتا تو اس عورت کو ضرور رجم کرا دیتا "۔ (١٧) جرم زنا کا پہلا ممکن ثبوت یہ ہے کہ شہادت اس پر قائم ہو۔ اس کے متعلق قانون کے اہم اجزاء یہ ہیں : الف : قرآن تصریح کرتا ہے کہ زنا کے لیے کم سے کم چار عینی شاہد ہونے چاہییں۔ اس کی صراحت سورة نساء آیت 15 میں بھی گزر چکی ہے اور آگے اسی سورة نور میں بھی دو جگہ آ رہی ہے۔ شہادت کے بغیر قاضی محض اپنے علم کی بنا پر فیصلہ نہیں کرسکتا خواہ وہ اپنی آنکھوں سے ارتکاب جرم ہوتے دیکھ چکا ہو۔ ب : گواہ ایسے لوگ ہونے چاہییں جو اسلامی قانون شہادت کی رو سے قابل اعتماد ہوں، مثلاً یہ کہ وہ پہلے کسی مقدمے میں جھوٹے گواہ ثابت نہ ہوچکے ہوں، خائن نہ ہوں، پہلے کے سزا یافتہ نہ ہوں، ملزم سے ان کی دشمنی ثابت نہ ہو، وغیرہ۔ بہرحال ناقابل اعتماد شہادت کی بنا پر نہ تو کسی کو رجم کیا جاسکتا ہے اور نہ کسی کی بیٹھ پر کوڑے برسائے جاسکتے ہیں۔ ج : گواہوں کو اس بات کی شہادت دینی چاہیے کہ انہوں نے ملزم اور ملزمہ کو عین حالت مباشرت میں دیکھا ہے، یعنی : کالمیل فی المکحلۃ و الرشاء فی البئر (اس طرح جیسے سرمہ دانی میں سلائی اور کنویں میں رسی) ۔ د : گواہوں کو اس امر میں متفق ہونا چاہیے کہ انہوں نے کب، کہا ں، کس کو، کس سے زنا کرتے دیکھا ہے۔ ان بنیادی امور میں اختلاف ان کی شہادت کو ساقط کردیتا ہے۔ شہادت کی یہ شرائط خود ظاہر کر رہی ہیں کہ اسلامی قانون کا منشا یہ نہیں ہے کہ ٹکٹکیاں لگی ہوں اور روز لوگوں کی پیٹھوں پر کوڑے برستے رہیں۔ بلکہ وہ ایسی حالت ہی میں یہ سخت سزا دیتا ہے جب کہ تمام اصلاحی اور انسدادی تدابیر کے باوجود اسلامی معاشرے میں کوئی جوڑا ایسا بےحیا ہو کہ چار چار آدمی اس کو جرم کرتے دیکھ لیں۔ (١٨) اس امر میں اختلاف ہے کہ آیا محض حمل کا پایا جانا، جب کہ عورت کا کوئی شوہر، یا لونڈی کا کوئی آقا معلوم و معروف نہ ہو، ثبوت زنا کے لیے کافی شہادت بالقرینہ ہے یا نہیں۔ حضرت عمر کی رائے یہ ہے کہ یہ کافی شہادت ہے اور اسی کو مالکیہ نے اختیار کیا ہے۔ مگر جمہور فقہاء کا مسلک یہ ہے کہ محض حمل اتنا مضبوط قرینہ نہیں ہے کہ اس کی بنیاد پر کسی کو رجم کردیا جائے یا کسی کی بیٹھ پر سو کوڑے برسا دیے جائیں۔ اتنی بڑی سزا کے لیے ناگزیر ہے کہ یا تو شہادت موجود ہو، یا پھر اقرار۔ اسلامی قانون کے بنیادی اصولوں میں سے ایک یہ ہے کہ شبہ سزا دینے کے لیے نہیں بلکہ معاف کرنے کے لیے محرک ہونا چاہیے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ : ادفعوا الحدود ما وجدتم لھا مدفعا، " سزاؤں کو دفع کرو جہاں تک بھی ان کو دفع کرنے کی گنجائش پاؤ " (ابن ماجہ) ۔ ایک دوسری حدیث میں ہے : ادرؤا الحدود عن المسلمین ما استطعتم فان کان لہ مخرجٌ فخلوا سبیلہ فان الامام ان یخطئ فی العفو خیر من ان یخطئ فی العقوبۃ، " مسلمانوں سے سزاؤں کو دور رکھو جہاں تک بھی ممکن ہو۔ اگر کسی ملزم کے لیے سزا سے بچنے کا کوئی راستہ نکلتا ہے تو اسے چھوڑ دو ۔ کیونکہ حاکم کا معاف کردینے میں غلطی کر جانا اس سے بہتر ہے کہ وہ سزا دینے میں غلطی کر جائے " (ترمذی) ۔ اس قاعدے کے لحاظ سے حمل کی موجودگی، چاہے شبہ کے لیے کتنی ہی قوی بنیاد ہو، زنا کا یقینی ثبوت بہرحال نہیں ہے، اس لیے کہ لاکھ میں ایک درجے کی حد تک اس امر کا بھی امکان ہے کہ مباشرت کے بغیر کسی عورت کے رحم میں کسی مرد کے نطفے کا کوئی جز پہنچ جائے اور وہ حاملہ ہوجائے۔ اتنے خفیف شبہ کا امکان بھی اس کے لیے کافی ہونا چاہیے کہ ملزمہ کو زنا کی ہولناک سزا سے معاف رکھا جائے۔ (١٩) اس امر میں بھی اختلاف ہے کہ اگر زنا کے گواہوں میں اختلاف ہوجائے، یا اور کسی وجہ سے ان کی شہادتوں سے جرم ثابت نہ ہو تو کیا الٹے گواہ جھوٹے الزام کی سزا پائیں گے ؟ فقہاء کا ایک گروہ کہتا ہے کہ اس صورت میں وہ قاذف قرار پائیں گے اور انہیں 80 کوڑوں کی سزا دی جائے گی۔ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ ان کو سزا نہیں دی جائے گی کیونکہ وہ گواہ کی حیثیت سے آئے ہیں نہ کہ مدعی کی حیثیت سے۔ اور اگر اس طرح گواہوں کو سزا دی جائے تو پھر زنا کی شہادت بہم پہنچنے کا دروازہ ہی بند ہوجائے گا۔ آخر کس کی شامت نے دھکا دیا ہے کہ سزا کا خطرہ مول لے کر شہادت دینے آئے جب کہ اس مار کا یقین کسی کو بھی نہیں ہوسکتا کہ چاروں گواہوں میں سے کوئی ٹوٹ نہ جائے گا۔ ہمارے نزدیک یہی دوسری رائے معقول ہے، کیونکہ شبہ کا فائدہ جس طرح ملزم کو ملنا چاہیے، اسی طرح گواہوں کو بھی ملنا چاہیے۔ اگر ان کی شہادت کی کمزوری اس بات کے لیے کافی نہیں ہے کہ ملزم کو زنا کی خوفناک سزا دے ڈالی جائے، تو اسے اس بات کے لیے بھی کافی نہ ہونا چاہیے کہ گواہوں پر قذف کی خوفناک سزا برسا دی جائے، اِلّا یہ کہ ان کا صریح جھوٹا ہونا ثابت ہوجائے۔ پہلے قول کی تائید میں دو بڑی دلیلیں دی جاتی ہیں۔ اول یہ کہ قرآن زنا کی جھوٹی تہمت کو مستوجب سزا قرار دیتا ہے لیکن یہ دلیل اس لیے غلط ہے کہ قرآن خود قاذف (تہمت لگانے والے) اور شاہد کے درمیان فرق کر رہا ہے، اور شاہد محض اس بنا پر قاذف قرار نہیں پاسکتا کہ عدالت نے اس کی شہادت کو ثبوت جرم کے لیے کافی نہیں پایا۔ دوسری دلیل یہ دی جاتی ہے کہ مغیرہ بن شعبہ کے مقدمے میں حضرت عمر نے ابو بکْرَہ اور ان کے دو ساتھی شاہدوں کو قذف کی سزا دی تھی۔ لیکن اس مقدمے کی پوری تفصیلات دیکھنے سے معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ نظیر ہر اس مقدمے پر چسپاں نہیں ہوتی جس میں ثبوت جرم کے لیے شہادتیں نا کافی پائی جائیں۔ مقدمے کے واقعات یہ ہیں کہ بصرے کے گورنر مغیرہ بن شعبہ سے ابو بکرہ کے تعلقات پہلے سے خراب تھے۔ دونوں کے مکان ایک ہی سڑک پر آمنے سامنے واقع تھے۔ ایک روز یکایک ہوا کے زور سے دونوں کے کمروں کی کھڑکیاں کھل گئیں۔ ابو بکرہ اپنی کھڑکی بند کرنے کے لیے اٹھے تو ان کی نگاہ سامنے کے کمرے پر پڑی اور انہوں نے حضرت مغیرہ کو مباشرت میں مشغول دیکھا۔ ابو بکرہ کے پاس ان کے تین دوست (نافع بن کَلَدَہ، زیاد، اور شبل بن مَعْبَد) بیٹھے تھے۔ انہوں نے کہا کہ آؤ، دیکھو اور گواہ رہو کہ مغیرہ کیا کر رہے ہیں۔ دوستوں نے پوچھا یہ عورت کون ہے۔ ابو بکرہ نے کہا ام جمیل۔ دوسرے روز اس کی شکایت حضرت عمر کے پاس بھیجی گئی۔ انہوں نے فوراً حضرت مغیرہ کو معطل کر کے حضرت ابو موسیٰ اشعری کو بصرے کا گورنر مقرر کیا اور ملزم کو گواہوں سمیت مدینے طلب کرلیا۔ پیشی پر ابو بکرہ اور دو گواہوں نے کہا کہ ہم نے مغیرہ کو ام جمیل کے ساتھ بالفعل مباشرت کرتے دیکھا۔ مگر زیاد نے کہا کہ عورت صاف نظر نہیں آتی تھی اور میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ وہ ام جمیل تھی۔ مغیرہ بن شعبہ نے جرح میں یہ ثابت کردیا کہ جس رخ سے یہ لوگ انہیں دیکھ رہے تھے اس سے دیکھنے والا عورت کو اچھی طرح نہیں دیکھ سکتا تھا۔ انہوں نے یہ بھی ثابت کیا کہ ان کی بیوی اور ام جمیل باہم بہت مشابہ ہیں۔ قرائن خود بتا رہے تھے کہ حضرت عمر کی حکومت میں ایک صوبے کا گورنر، خود اپنے سرکاری مکان میں، جہاں اس کی بیوی اس کے ساتھ رہتی تھی، ایک غیر عورت کو بلا کر زنا نہیں کرسکتا تھا۔ اس لیے ابو بکرہ اور ان کے ساتھیوں کا یہ سمجھنا کہ مغیرہ اپنے گھر میں اپنی بیوی کے بجائے ام جمیل سے مباشرت کر رہے ہیں۔ ایک نہایت بےجا بد گمانی کے سوا اور کچھ نہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت عمر نے صرف ملزم کو بری کرنے ہی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ابو بکرہ نافع اور شبل پر حدّ قذف بھی جاری فرمائی۔ یہ فیصلہ اس مقدمے کے مخصوص حالات کی بنا پر تھا نہ کہ اس قاعدہ کلیہ کی بنا پر کہ جب کبھی شہادتوں سے جرم زنا ثابت نہ ہو تو گواہ ضرور پیٹ ڈالے جائیں۔ (مقدمے کی تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو احکام القرآن ابن العربی جلد 2 ۔ صفحہ 88 ۔ 89 ) ۔ (٢٠) شہادت کے سوا دوسری چیز جس سے جرم زنا ثابت ہوسکتا ہے وہ مجرم کا اپنا اقرار ہے۔ یہ اقرار صاف اور صریح الفاظ میں فعل زنا کے ارتکاب کو ہونا چاہیے، یعنی اسے یہ اعتراف کرنا چاہیے کہ اس نے ایک ایسی عورت سے جو اس کے لیے حرام تھی کالمیل فی المکحلۃ یہ فعل کیا ہے۔ اور عدالت کو پوری طرح یہ اطمینان کرلینا چاہیے کہ مجرم کسی خارجہ دباؤ کے بغیر بطور خود بحالت ہوش و حواس یہ اقرار کر رہا ہے۔ بعض فقہاء کہتے ہیں کہ ایک اقرار کافی نہیں ہے بلکہ مجرم کو چار مرتبہ الگ الگ اقرار کرنا چاہیے ( یہ امام ابو حنیفہ، امام احمد، ابن ابی لیلیٰ ، اسحاق بن راہَوْیہ اور حسن بن صالح کا مسلک ہے ) ۔ اور بعض کہتے ہیں کہ ایک ہی اقرار کافی ہے (امام مالک، امام شافعی، عثمان البتی اور حسن بصری وغیرہ اس کے قائل ہیں) پھر ایسی صورت میں جبکہ کسی دوسرے تائیدی ثبوت کے بغیر صرف مجرم کے اپنے ہی اقرار پر فیصلہ کیا گیا ہو اگر عین سزا کے دوران میں بھی مجرم اپنے اقرار سے پھر جائے تو سزا کو روک دینا چاہیے، خواہ یہ بات صریحاً ہی کیوں نہ ظاہر ہو رہی ہو کہ وہ مار کی تکلیف سے بچنے کے لیے اقرار سے رجوع کر رہا ہے۔ اس پورے قانون کا ماخذ وہ نظائر ہیں جو زنا کے مقدمات کے متعلق احادیث میں پائے جاتے ہیں۔ سب سے بڑا مقدمہ ماعز بن مالک اسلمی کا ہے جسے متعدد صحابہ سے بکثرت راویوں نے نقل کیا ہے اور قریب قریب تمام کتب حدیث میں اس کی روایات موجود ہیں۔ یہ شخص قبیلہ اسلم کا ایک یتیم لڑکا تھا جس نے حضرت ہَزّال بن نعیم کے ہاں پرورش پائی تھی۔ یہاں وہ ایک آزاد کردہ لونڈی سے زنا کر بیٹھا۔ حضرت ہزال نے کہا کہ جا کر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنے اس گناہ کی خبر دے، شاید کہ آپ تیرے لیے دعائے مغفرت فرما دیں۔ اس نے جا کر مسجد نبوی میں حضور سے کہا یا رسول اللہ، مجھے پاک کردیجیے، میں نے زنا کی ہے۔ آپ نے منہ پھیرلیا اور فرمایا : ویحک ارجع فاستغفر اللہ وتب الیہ۔ " ارے چلا جا اور اللہ سے توبہ و استغفار کر "۔ مگر اس نے پھر سامنے آ کر وہی بات کہی اور آپ نے پھر منہ پھیرلیا۔ اس نے تیسری بار وہی بات کہی اور آپ نے پھر منہ پھیرلیا۔۔ حضرت ابوبکر نے اس کو متنبہ کیا کہ دیکھ، اب چوتھی بار اگر تو نے اقرار کیا تو رسول اللہ تجھے رجم کرا دیں گے۔ مگر وہ نہ مانا اور پھر اس نے اپنی بات دہرائی۔ اب حضور اس کی طرف متوجہ ہوئے اور اس سے فرمایا : لعلک قبلت اور غمزت اونظرت " شاید تو نے بوس و کنار کیا ہوگا یا چھیڑ چھاڑ کی ہوگی یا نظر بد ڈالی ہوگی "۔ (اور تو سمجھ بیٹھا ہوگا کہ یہ زنا کا ارتکاب ہے ) ۔ اس نے کہا نہیں۔ آپ نے پوچھا " کیا تو اس سے ہم بستر ہوا "؟ اس نے کہا ہاں۔ پھر پوچھا " کیا تو نے اس سے مباشرت کی "؟ اس نے کہا ہاں۔ پھر پوچھا " کیا تو نے اس سے مجامعت کی "؟ اس نے کہا ہاں۔ پھر آپ نے وہ لفظ استعمال کیا جو عربی زبان میں خاص فعل مباشرت ہی کے لیے بولا جاتا ہے۔ اور یہ فحش لفظ حضور کی زبان سے نہ پہلے کبھی سنا گیا نہ اس کے بعد کسی نے سنا۔ اگر ایک شخص کی جان کا معاملہ نہ ہوتا تو زبان مبارک سے کبھی ایسا لفظ نہ نکل سکتا تھا مگر اس نے اس کے جواب میں بھی ہاں کہہ دیا۔ آپ نے پوچھا : حتّیٰ غاب ذٰلک منک فی ذٰلک منھا (کیا اس حد تک کہ تیری وہ چیز اس کی اس چیز میں غائب ہوگئی ؟ ) ۔ اس نے کہا ہاں۔ پھر پوچھا : کما یغیب المیل فی المکحلۃ و الرشاء فی البئر (کیا اس طرح غائب ہوگئی جیسے سرمہ دانی میں سلائی اور کنویں میں رسی ؟ ) اس نے کہا ہاں۔ پوچھا " کیا تو جانتا ہے کہ زنا کسے کہتے ہیں "؟ اس نے کہا " جی ہاں، میں نے اس کے ساتھ حرام طریقے سے وہ کام کیا جو شوہر حلال طریقے سے اپنی بیوی کے ساتھ کرتا ہے " آپ نے پوچھا " کیا تیری شادی ہوچکی ہے "؟ اس نے کہا " جی ہاں "۔ آپ نے پوچھا " تو نے شراب تو نہیں پی لی ہے "؟ اس نے کہا نہیں۔ ایک شخص نے اٹھ کر اس کا منہ سونگھا اور تصدیق کی۔ پھر آپ نے اس کے محلہ والوں سے دریافت کیا کہ یہ دیوانہ تو نہیں ہے ؟ انہوں نے کہا ہم نے اس کی عقل میں کوئی خرابی نہیں دیکھی۔ آپ نے ہزّال سے فرمایا لو سترتہ بثوبک کان خیرا لک، کاش تم نے اس کا پردہ ڈھانک دیا ہوتا تو تمہارے لیے اچھا تھا۔ پھر آپ نے ماعز کو رجم کرنے کا فیصلہ صادر فرما دیا اور اسے شہر کے باہر لے جا کر سنگسار کردیا گیا۔ جب پتھر پڑنے شروع ہوئے تو ماعز بھاگا اور اس نے کہا " لوگو، مجھے رسول اللہ کے پاس واپس لے چلو، میرے قبیلے کے لوگوں نے مجھے مروا دیا۔ انہوں نے مجھے دھوکا دیا کہ رسول اللہ مجھے قتل نہیں کرائیں گے "۔ مگر مارنے والوں نے اسے مار ڈالا۔ بعد میں جب حضور کو اس کی اطلاع دی گئی تو آپ نے فرمایا " تم لوگوں نے اسے چھوڑ کیوں نہیں دیا۔ میرے پاس لے آئے ہوتے، شاید وہ توبہ کرتا اور اللہ اس کی توبہ قبول کرلیتا "۔ دوسرا واقعہ غامدیہ کا ہے جو قبیلہ غامد (قبیلہ جُہَینَہ کی ایک شاخ) کی ایک عورت تھی۔ اس نے بھی آ کر چار مرتبہ اقرار کیا کہ وہ زنا کی مرتکب ہوئی ہے اور اسے ناجائز حمل ہے آپ نے اس سے بھی پہلے اقرار پر فرمایا : ویحک ارجعی فاستغفری الی اللہ و توبی الیہ، (" اری چلی جا، اللہ سے معافی مانگ اور توبہ کر " ) مگر اس نے کہا " یا رسول اللہ کیا آپ مجھے معز کی طرح ٹالنا چاہتے ہیں۔ میں زنا سے حاملہ ہوں "۔ یہاں چونکہ اقرار کے ساتھ حمل بھی موجود تھا، اس لیے آپ نے اس قدر مفصل جرح نہ فرمائی جو معز کے ساتھ کی تھی۔ آپ نے فرمایا " اچھا، نہیں مانتی تو جا، وضع حمل کے بعد آئیو "۔ وضع حمل کے بعد وہ بچے کو لے کر آئی اور ساتھ روٹی کا ایک ٹکڑا بھی لیتی آئی بچے کو روٹی کا ٹکڑا کھلا کر حضور کو دکھایا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ اب اس کا دودھ چھوٹ گیا ہے اور دیکھیے یہ روٹی کھانے لگا ہے۔ تب آپ نے بچے کو پرورش کے لیے ایک شخص کے حوالے کیا اور اس کے رجم کا حکم دیا۔ ان دونوں واقعات میں بصراحت چار اقراروں کا ذکر ہے۔ اور ابو داؤد میں حضرت بُرَیْدَہ کی روایت ہے کہ صحابہ کرام کا عام خیال یہی تھا کہ اگر ماعز اور غامدیہ چار مرتبہ اقرار نہ کرتے تو انہیں رجم نہ کیا جاتا۔ البتہ تیسرا واقعہ (جس کا ذکر ہم اوپر نمبر 15 میں کرچکے ہیں) اس میں صرف یہ الفاظ ملتے ہیں کہ " جا کر اس کی بیوی سے پوچھ، اور اگر وہ اعتراف کرے تو اسے رجم کر دے " اس میں چار اعترافوں کا ذکر نہیں ہے، اور اسی سے فقہاء کے ایک گروہ نے استدلال کیا ہے کہ ایک ہی اعتراف کافی ہے۔ (٢١) اوپر ہم نے جن تین مقدمات کی نظیریں پیش کی ہیں ان سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اقراری مجرم سے یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ اس نے کس سے زنا کا ارتکاب کیا ہے، کیونکہ اس طرح ایک کے بجائے دو کو سزا دینی پڑے گی، اور شریعت لوگوں کو سزائیں دینے کے لیے بےچین نہیں ہے۔ البتہ اگر مجرم خود یہ بتائے کہ اس فعل کا فریق ثانی فلاں ہے تو اس سے پوچھا جائے گا۔ اگر وہ بھی اعتراف کرے تو اسے سزا دی جائے گی لیکن اگر وہ انکار کر دے تو صرف اقراری مجرم ہی حد کا مستحق ہوگا۔ اس امر میں فقہاء کا اختلاف ہے کہ اس دوسری صورت میں (یعنی جبکہ فریق ثانی اس کے ساتھ مرتکب زنا ہونے کو تسلیم نہ کرے) اس پر آیا حد زنا جاری کی جائے گی یا حد قذف۔ امام مالک اور امام شافعی کے نزدیک وہ حد زنا کا مستوجب ہے، کیونکہ اسی جرم کا اس نے اقرار کیا ہے۔ امام ابوحنیفہ اور امام اوزاعی کی رائے میں اس پر حد قذف جاری کی جائے گی، کیونکہ فریق ثانی کے انکار نے اس کے جرم زنا کو مشکوک کردیا ہے، البتہ اس کا جرم قذف بہرحال ثابت ہے۔ اور امام محمد کا فتویٰ ہے (امام شافعی کا بھی ایک قول اس کی تائید میں ہے) اسے زنا کی سزا بھی دی جائے گی اور قذف کی بھی، کیونکہ اپنے جرم زنا کا وہ خود معترف ہے، اور فریق ثانی پر اپنا الزام وہ ثابت نہیں کرسکا ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عدالت میں اس قسم کا ایک مقدمہ آیا تھا۔ اس کی ایک روایت جو مسند احمد اور ابو داؤد میں سہل بن سعد سے منقول ہے اس میں یہ الفاظ ہیں : " ایک شخص نے آ کر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے اقرار کیا کہ وہ فلاں عورت سے زنا کا مرتکب ہوا ہے۔ آپ نے عورت کو بلا کر پوچھا۔ اس نے انکار کیا۔ آپ نے اس پر حد جاری کی اور عورت کو چھوڑ دیا "۔ اس روایت میں یہ تصریح نہیں ہے کہ کونسی حد جاری کی۔ دوسری روایت ابو داؤد اور نسائی نے ابن عباس سے نقل کی ہے اور اس میں یہ ہے کہ پہلے اس کے اقرار پر آپ نے حد زنا جاری کی، پھر عورت سے پوچھا اور اس کے انکار پر اس شخص کو حد قذف کے کوڑے لگوائے۔ لیکن یہ روایت سند کے لحاظ سے بھی ضعیف ہے، کیونکہ اس کے ایک راوی قاسم بن فیاض کو متعدد محدثین نے ساقط الاعتبار ٹھہرایا ہے، اور قیاس کے بھی خلاف ہے، اس لیے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ آپ نے اسے کوڑے لگوانے کے بعد عورت سے پوچھا ہوگا۔ صریح عقل اور انصاف کا تقاضا، جسے حضور نظر انداز نہیں فرما سکتے تھے، یہ تھا کہ جب اس نے عورت کا نام لے دیا تھا تو عورت سے پوچھے بغیر اس کے مقدمے کا فیصلہ نہ کیا جاتا۔ اسی کی تائید سہل بن سعد والی روایت بھی کر رہی ہے۔ لہٰذا دوسری روایت لائق اعتماد نہیں ہے۔ (٢٢) ثبوت جرم کے بعد زانی اور زانیہ کو کیا سزا دی جائے گی، اس مسئلے میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہوگیا ہے، مختلف فقہاء کے مسلک اس باب میں حسب ذیل ہیں : شادی شدہ مرد و عورت کے لیے زنا کی سزا : امام احمد، داؤد ظاہر اور اسحاق بن راہویہ کے نزدیک سو کوڑے لگانا اور اس کے بعد سنگسار کرنا ہے۔ باقی تمام فقہاء اس بات پر متفق ہیں کہ ان کی سزا صرف سنگساری ہے۔ رجم اور سزائے تازیانہ کو جمع نہیں کیا جائے گا۔ غیر شادی شدہ کی سزا : امام شافعی، امام احمد، اسحاق، داؤد ظاہری، سفیان ثوری، ابن ابی لیلیٰ اور حسن بن صالح کے نزدیک سو کوڑے اور ایک سال کی جلا وطنی، مرد عورت ہر دو کے لیے۔ (جلا وطنی سے مراد ان سب کے نزدیک یہ ہے کہ مجرم کو اس کی بستی سے نکال کر کم از کم اتنے فاصلے پر بھیج دیا جائے جس پر نماز میں قصر واجب ہوتا ہے۔ مگر زید بن علی اور امام جعفر صادق کے نزدیک قید کردینے سے بھی جلا وطنی کا مقصد پورا ہوجاتا ہے ) امام ابوحنیفہ اور ان کے شاگرد امام ابو یوسف، امام زُفَر اور امام محمد کہتے ہیں کہ اس صورت میں حد زنا مرد اور عورت دونوں کے لیے صرف سو کوڑے ہے۔ اس پر کسی اور سزا، مثلاً قید یا جلا وطنی کا اضافہ حد نہیں بلکہ تعزیر ہے۔ قاضی اگر یہ دیکھے کہ مجرم بد چلن ہے، یا مجرم اور مجرمہ کے تعلقات بہت گہرے ہیں تو حسب ضرورت وہ انہیں خارج البلد بھی کرسکتا ہے اور قید بھی کرسکتا ہے۔ (حد اور تعزیر میں فرق اس سزا کو کہتے ہیں جو قانون میں بلحاظ مقدار و نوعیت بالکل مقرر نہ کردی گئی ہو، بلکہ جس میں عدالت حالات مقدمہ کے لحاظ سے کمی بیشی کرسکتی ہو) ان مختلف مسالک میں سے ہر ایک نے مختلف احادیث کا سہارا لیا ہے جن کو ہم ذیل میں درج کرتے ہیں : حضرت عبادہ بن صامت کی روایت، جسے مسلم، ابو داؤد، ابن ماجہ، ترمذی اور امام احمد نے نقل کیا ہے۔ اس میں یہ الفاظ ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : خذوا عنی خذوا عنی، قد جعل اللہ لھن سبیلا، البکر بالبکر جلد ماۃ و تعریب عام و الثیب بالثیب جلد مأۃ والرجم (او رمی بالحجارۃ۔ اور جم با لحجارۃ) " مجھ سے لو، مجھ سے لو، اللہ نے زانیہ عورتوں کے لیے طریقہ مقرر کردیا۔ غیر شادی شدہ مرد کی غیر شادی شدہ عورت سے بدکاری کے لیے سو کوڑے اور ایک سال کی جلا وطنی، اور شادی شدہ عورت سے بدکاری کے لیے سو کوڑے اور سنگساری " (یہ حدیث اگرچہ سنداً صحیح ہے، مگر روایات صحیحہ کا ایک جم غفیر ہے جو ہمیں بتاتا ہے کہ اس پر نہ عہد نبوی میں کبھی عمل ہوا، نہ عہد خلفائے راشدین میں، اور نہ فقہاء میں سے کسی نے ٹھیک اس کے مضمون کے مطابق فتویٰ دیا۔ فقہ اسلامی میں جو بات متفق علیہ ہے وہ یہ ہے کہ زانی اور زانیہ کے محصن اور غیر محصن ہونے کا الگ الگ اعتبار کیا جائے گا۔ غیر شادی شدہ مرد خواہ شادی شدہ عورت سے زنا کرے یا غیر شادی شدہ ہر دو حالتوں میں اس کو ایک ہی سزا دی جائے گی۔ یہی معاملہ عورت کا بھی ہے۔ وہ شادی شدہ ہو تو ہر حالت میں ایک ہی سزا پائے گی خواہ اس سے زنا کرنے والا مرد شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ اور باکرہ ہونے کی صورت میں بھی اس کے لیے ایک ہی سزا ہے بلا اس لحاظ کے کہ اس کے ساتھ زنا کرنے والا محصن ہے یا غیر محصن) ، حضرت ابوہریرہ اور حضرت زید بن خالد جہنی کی روایت، جسے بخاری، مسلم ابو داؤد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ اور امام احمد نے نقل کیا ہے۔ اس میں یہ ہے کہ دو اعرابی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس مقدمہ لائے۔ ایک نے کہا کہ میرا بیٹا اس شخص کے ہاں اجرت پر کام کرتا تھا۔ وہ اس کی بیوی سے ملوث ہوگیا۔ میں نے اس کو سو بکریاں اور ایک لونڈی دے کر راضی کیا۔ مگر اہل علم نے بتایا کہ یہ کتاب اللہ کے خلاف ہے۔ آپ ہمارے درمیان کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ فرما دیں اور دوسرے نے بھی کہا کہ آپ کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ فرما دیں۔ حضور نے فرمایا میں کتاب اللہ ہی کے مطابق فیصلہ کروں گا۔ بکریاں اور لونڈی تجھی کو واپس۔ تیرے بیٹے کے لیے سو کوڑے اور ایک سال کی جلا وطنی۔ پھر آپ نے قبیلہ اسلم کے ایک شخص سے فرمایا اے اُنَیس، تو جا کر اس کی بیوی سے پوچھ۔ اگر وہ اعتراف کرے تو اسے رجم کر دے۔ چنانچہ اس نے اعتراف کیا اور رجم کردی گئی۔ (اس میں رجم سے پہلے کوڑے لگانے کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ اور غیر شادی شدہ مرد کو شادی شدہ عورت سے بدکاری کرنے پر تازیانے اور جلا وطنی کی سزا دی گئی ہے ) ۔ ماعز اور غامدیہ کے مقدمات کی جتنی رودادیں احادیث کی مختلف کتابوں میں مروی ہیں ان میں سے کسی میں بھی یہ نہیں ملتا کہ حضور نے رجم کرانے سے پہلے ان کو سو کوڑے بھی لگوائے ہوں۔ کوئی روایت کسی حدیث میں نہیں ملتی کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کسی مقدمے میں رجم کے ساتھ سزائے تازیانہ کا بھی فیصلہ فرمایا ہو۔ زنا بعد احصان کے تمام مقدمات میں آپ نے صرف رجم کی سزا دی ہے۔ حضرت عمر کا مشہور خطبہ جس میں انہوں نے پورے زور کے ساتھ زنا بعد احصان کی سزا رجم بیان کی ہے، بخاری و مسلم اور ترمذی و نسائی نے مختلف سندوں سے نقل کیا ہے اور امام احمد نے بھی اس کی متعدد روایتیں لی ہیں، مگر اس کی کسی روایت میں بھی رجم مع سزائے تازیانہ کا ذکر نہیں ہے۔ خلفائے راشدین میں سے صرف حضرت علی نے سزائے تازیانہ اور سنگساری کو ایک سزا میں جمع کیا ہے۔ امام احمد اور بخاری عامر شعبی سے یہ واقعہ نقل کرتے ہیں کہ ایک عورت شراحہ نامی نے ناجائز حمل کا اعتراف کیا، حضرت علی نے جمعرات کے روز اسے کوڑے لگوائے اور جمعہ کے روز اس کو رجم کرایا، اور فرمایا ہم نے اسے کتاب اللہ کے مطابق کوڑے لگائے ہیں اور سنت رسول اللہ کے مطابق سنگسار کرتے ہیں۔ اس ایک واقعہ کے سوا عہد خلافت راشدہ کا کوئی دوسرا واقعہ رجم مع تازیانہ کے حق میں نہیں ملتا۔ جابر بن عبداللہ کی ایک روایت، جسے ابو داؤد اور نسائی نے نقل کیا ہے، یہ بتاتی ہے کہ ایک شخص زنا کا مرتکب ہوا اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو صرف سزائے تازیانہ دی، پھر معلوم ہوا کہ وہ شادی شدہ تھا، تب آپ نے اسے رجم کرایا۔ اس کے علاوہ متعدد روایات ہم پہلے نقل کر آئے ہیں جن سے معلوم ہاتا ہے کہ غیر شادی شدہ زانیوں کو آپ نے صرف سزائے تازیانہ دی، مثلاً وہ شخص جس نے نماز کے لیے جاتی ہوئی عورت سے زنا بالجبر کی تھی، اور وہ شخص جس نے زنا کا اعتراف کیا اور عورت نے انکار کیا۔ حضرت عمر نے ربیعہ بن امیہ بن خلف کو شراب نوشی کے جرم میں جلا وطن کیا اور وہ بھاگ کر رومیوں سے جا ملا۔ اس پر حضرت عمر نے فرمایا کہ آئندہ میں کسی کو جلا وطنی کی سزا نہیں دوں گا۔ اسی طرح حضرت علی نے غیر شادی شدہ مرد و عورت کو زنا کے جرم میں جلا وطن کرنے سے انکار کردیا، اور فرمایا کہ اس میں فتنے کا اندیشہ ہے (احکام القرآن، جصاص، جلد 3، صضحہ 315 ) ۔ ان تمام روایات پر مجموعی نظر ڈالنے سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ امام ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب کا مسلک ہی صحیح ہے، یعنی زنا بعد احصان کی حد صرف رجم ہے، اور محض زنا کی حد صرف 100 کوڑے۔ تازیانے اور رجم کو جمع کرنے پر تو عہد نبوی سے لے کر عہد عثمانی تک کبھی عمل ہی نہیں ہوا۔ رہا تازیانے اور جلا وطنی کو جمع کرنا، تو اس پر کبھی عمل ہوا ہے اور کبھی نہیں ہوا۔ اس سے مسلک حنفی کی صحت صاف ثابت ہوجاتی ہے۔ (٢٣) ضرب تازیانہ کی کیفیت کے متعلق پہلا اشارہ خود قرآن کے لفظ : فَاجْلِدُوْا میں ملتا ہے۔ جَلد کا لفظ جلد (یعنی کھال) سے ماخوذ ہے۔ اس سے تمام اہل لغت اور علمائے تفسیر نے یہی معنی لیے ہیں کہ مار ایسی ہونی چاہیے جس کا اثر جلد تک رہے، گوشت تک نہ پہنچے۔ ایسی ضرب تازیانہ جس سے گوشت کے ٹکڑے اڑ جائیں، یا کھال پھٹ کر اندر تک زخم پڑجائے، قرآن کے خلاف ہے۔ مار کے لیے خواہ کوڑا استعمال کیا جائے یا بید، دونوں صورتوں میں وہ اوسط درجے کا ہونا چاہیے۔ نہ بہت موٹا اور سخت۔ اور نہ بہت پتلا اور نرم۔ مؤطّا میں امام مالک کی روایت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ضرب تازیانہ کے لیے کوڑا طلب کیا اور وہ کثرت استعمال سے بہت کمزور ہوچکا تھا۔ آپ نے فرمایا : فوق ھٰذا (اس سے زیادہ سخت لاؤ) ۔ پھر ایک نیا کوڑا لایا گیا، جو ابھی استعمال سے نرم نہیں پڑا تھا۔ آپ نے فرمایا دونوں کے درمیان۔ پھر ایسا کوڑا لایا گیا جو سواری میں استعمال ہوچکا تھا۔ اس سے آپ نے ضرب لگوائی۔ اسی مضمون سے ملتی جلتی روایت ابو عثمان النہدی نے حضرت عمر کے متعلق بھی بیان کی ہے کہ وہ اوسط درجے کا کوڑا استعمال کرتے تھے۔ (احکام القرآن جصاص۔ ج 3 ۔ ص 322 ) ۔ گرہ لگا ہوا کوڑا یا دو شاخہ سہ شاخہ کوڑا بھی استعمال کرنا ممنوع ہے۔ مار بھی اوسط درجے کی ہونی چاہیے۔ حضرت عمر مارنے والے کو ہدایت کرتے تھے کہ : لا ترفع (یا لا تخرج) ابطک۔ " اس طرح مار کہ تیری بغل نہ کھلے "۔ یعنی پوری طاقت سے ہاتھ کو تان کر نہ مار (احکام القرآن ابن عربی۔ ج 2 ص 84 ۔ احکام القرآن جصاص، ج 3 ۔ ص 322) ۔ تمام فقہاء اس پر متفق ہیں کہ ضرب مبرح نہیں ہونی چاہیے، یعنی زخم ڈال دینے والی۔ ایک ہی جگہ نہیں مارنا چاہیے بلکہ تمام جسم پر مار کو پھیلا دینا چاہیے۔ صرف منہ اور شرم گاہ کو (اور حنفیہ کے نزدیک سر کو بھی) بچا لینا چاہیے، باقی ہر عضو پر کچھ نہ کچھ مار پڑنی چاہیے۔ حضرت علی نے ایک شخص کو کوڑے لگواتے وقت فرمایا " ہر عضو کو اس کا حق دے اور صرف منہ اور شرمگاہ کو بچا لے "۔ دوسری روایت میں ہے " صرف سر اور شرمگاہ کو بچالے " (احکام القرآن جصاص، ج 3 ۔ ص 321) ۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے اذا ضرب احدکم فلیتق الوجہ۔ " جب تم میں سے کوئی مارے تو منہ پر نہ مارے " (ابو داؤد) ۔ مرد کو کھڑا کر کے مارنا چاہیے اور عورت کو بٹھا کر۔ امام ابوحنیفہ کے زمانے میں کوفے کے قاضی ابن ابی لیلی نے ایک عورت کو کھڑا کر کے پٹوایا۔ اس پر امام ابوحنیفہ نے سخت گرفت کی اور علانیہ ان کے فیصلے کو غلط ٹھہرایا (اس سے قانون توہین عدالت کے معاملے میں بھی امام صاحب کے مسلک پر روشنی پڑتی ہے ) ۔ ضرب تازیانہ کے وقت عورت اپنے پورے کپڑے پہنے رہے گی، بلکہ اس کے کپڑے اچھی طرح باندھ دیے جائیں گے تاکہ اس کا جسم کھل نہ جائے صرف موٹے کپڑے اتروا دیے جائیں گے۔ مرد کے معاملے میں اختلاف ہے۔ بعض فقہاء کہتے ہیں وہ صرف پاجامہ پہنے رہے گا، اور بعض کہتے ہیں کہ قمیض بھی نہ اتروایا جائے گا۔ حضرت ابو عبیدہ بن الجراح نے ایک زانی کو سزائے تازیانہ کا حکم دیا اس نے کہا " اس گناہ گار جسم کو اچھی طرح مار کھانی چاہیے "، اور یہ کہہ کر وہ قمیص اتارنے لگا۔ حضرت ابو عبیدہ نے فرمایا " اسے قمیص نہ اتارنے دو "۔ (احکام القرآن جصاص، ج 3 ۔ ص 322) ۔ حضرت علی کے زمانے میں ایک شخص کو کوڑے لگوائے گئے اور وہ چادر اوڑھے ہوئے تھا۔ سخت سردی اور سخت گرمی کے وقت مارنا ممنوع ہے۔ جاڑے میں گرم وقت اور گرمی میں ٹھنڈے وقت مارنے کا حکم ہے۔ باندھ کر مارنے کی بھی اجازت نہیں ہے، الا یہ کہ مجرم بھاگنے کی کوشش کرے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں لا یحل فی ھٰذہ الامۃ تجرید ولا مدّ ۔ " اس امت میں ننگا کر کے اور ٹکٹکی پر باندھ کر مارنا حلال نہیں ہے "۔ فقہاء نے اس کو جائز رکھا ہے کہ روزانہ کم از کم بیس بیس کوڑے مارے جائیں۔ لیکن اولیٰ یہی ہے کہ بیک وقت پوری سزا دے دی جائے۔ مار کا کام اجڈ جلادوں سے نہیں لینا چاہیے بلکہ صاحب علم و بصیرت آدمیوں کو یہ خدمت انجام دینی چاہیے جو جانتے ہوں کہ شریعت کا تقاضا پورا کرنے کے لیے کس طرح مارنا مناسب ہے۔ ابن قیم نے زاد المعاد میں لکھا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں حضرت علی، حضرت زبیر، مقداد بن عمرو، محمد بن مسلمہ، عاصم بن ثابت اور ضحاک بن سفیان جیسے صلحاء و معززین سے جلادی کی خدمت لی جاتی تھی (ج 1 ۔ ص 44 ۔ 45) ۔ اگر مجرم مریض ہو، اور اس کے صحت یاب ہونے کی امید نہ ہو، یا بہت بوڑھا ہو تو سو شاخوں والی ایک ٹہنی، یا سو تیلیوں والی ایک جھاڑو لے کر صرف ایک دفعہ مار دینا چاہے تاکہ قانون کا تقاضا پورا کردیا جائے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں ایک بوڑھا مریض زنا کے جرم میں پکڑا گیا تھا اور آپ نے اس کے لیے یہی سزا تجویز فرمائی تھی (احمد، ابو داؤد، نسائی، ابن ماجہ) ۔ حاملہ عورت کو سزائے تازیانہ دینی ہو تو وضع حمل کے بعد نفاس کا زمانہ گزر جانے تک انتظار کرنا ہوگا۔ اور رجم کرنا ہو تو جب تک اس کے بچے کا دودھ نہ چھوٹ جائے، سزا نہیں دی جاسکتی۔ اگر زنا شہادتوں سے ثابت ہو تو گواہ ضرب کی ابتدا کریں گے، اور اگر اقرار کی بنا پر سزا دی جا رہی ہو تو قاضی خود ابتدا کرے گا، تاکہ گواہ اپنی گواہی کو اور جج اپنے فیصلوں کو کھیل نہ سمجھ بیٹھیں۔ شراحہ کے مقدمے میں جب حضرت علی نے رجم کا فیصلہ کیا تو فرمایا " اگر اس کے جرم کا کوئی گواہ ہوتا تو اسی کو مار کی ابتدا کرنی چاہیے تھی، مگر اس کو اقرار کی بنا پر سزا دی جا رہی ہے اس لیے میں خود ابتدا کروں گا "۔ حنیفہ کے نزدیک ایسا کرنا واجب ہے۔ شافعیہ اس کو واجب نہیں مانتے، مگر سب کے نزدیک اولیٰ یہی ہے۔ ضرب تازیانہ کے قانون کی ان تفصیلات کو دیکھیے اور پھر ان لوگوں کی جرأت کی داد دیجیے جو اسے تو وحشیانہ سزا کہتے ہیں، مگر وہ سزائے تازیانہ ان کے نزدیک بڑی مہذب سزا ہے جو آج جیلوں میں دی جا رہی ہے۔ موجودہ قانون کی رو سے صرف عدالت ہی نہیں، جیل کا ایک معمولی سپرنٹنڈنٹ بھی ایک قیدی کو حکم عدولی یا گستاخی کے قصور میں 30 ضرب بید تک کی سزا دینے کا مجاز ہے۔ یہ بید لگانے کے لیے ایک آدمی خاص طور پر تیار کیا جاتا ہے اور وہ ہمیشہ اس کی مشق کرتا رہتا ہے۔ اس غرض کے لیے بید بھی خاص طور پر بھگو بھگو کر تیار کیے جاتے ہیں تاکہ جسم کو چھری کی طرح کاٹ دیں۔ مجرم کو ننگا کر کے ٹکٹکی سے باندھ دیا جاتا ہے تاکہ وہ تڑپ بھی نہ سکے۔ صرف ایک پتلا سا کپڑا اس کے ستر کو چھپانے کے لیے رہنے دیا جاتا ہے اور وہ ٹنکچر آیوڈین سے بھگو دیا جاتا ہے۔ جلاد دور سے بھاگتا ہوا آتا ہے اور پوری طاقت سے مارتا ہے ضرب ایک ہی مخصوص حصہ جسم (یعنی سرین) پر مسلسل لگائی جاتی ہے یہاں تک کہ گوشت قیمہ ہو کر اڑتا چلا جاتا ہے اور بسا اوقات ہڈی نظر آنے لگتی ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ طاقتور سے طاقتور آدمی بھی پورے تیس بید کھانے سے پہلے ہی بےہوش ہوجاتا ہے اور اس کے زخم بھرنے میں ایک مدت لگ جاتی ہے۔ اس " مہذب " سزا کو جو لوگ آج جیلوں میں خود نافذ کر رہے ہیں ان کا یہ منہ ہے کہ اسلام کی مقرر کی ہوئی سزائے تازیانہ کو " وحشیانہ " سزا کے نام سے یاد فرمائیں، پھر ان کی پولیس ثابت شدہ مجرموں کو نہیں بلکہ محض مشتبہ لوگوں کو تفتیش کی خاطر (خصوصاً سیاسی جرائم کے شبہات میں) جیسے جیسے عذاب دیتی ہے وہ آج کسی سے چھپے ہوئے نہیں ہیں۔ (٢٤) رجم کی سزا میں جب مجرم مر جائے تو پھر اس سے پوری طرح مسلمانوں کا سا معاملہ کیا جائے گا۔ اس کی تجہیز و تکفین کی جائے گی۔ اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی۔ اس کو عزت کے ساتھ مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کیا جائے گا۔ اس کے حق میں دعائے مغفرت کی جائے گی اور کسی کے لیے جائز نہ ہوگا کہ اس کا ذکر برائی کے ساتھ کرے۔ بخاری میں جابر بن عبداللہ انصاری کی روایت ہے کہ جب رجم سے ماعز بن مالک کی موت واقع ہوگئی تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو " خیر سے یاد فرمایا اور اس کی نماز جنازہ خود پڑھائی "۔ مسلم میں حضرت بریدہ کی روایت ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اسْتغفروا لماعز بن مالک۔ لقد تاب توبۃ لو قسمت بین امۃ لوسعتھم، " ماعز بن مالک کے حق میں دعائے مغفرت کرو، اس نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر ایک پوری امت پر تقسیم کردی جائے تو سب کے لیے کافی ہو "۔ اسی روایت میں یہ بھی ذکر ہے کہ غامدیہ جب رجم سے مر گئی تو حضور نے خود اس کی نماز جنازہ پڑھائی، اور جب حضرت خالد بن ولید نے اس کا ذکر برائی سے کیا تو آپ نے فرمایا : مھلا یا خالد، فوالذی نفسی بیدہٖ لقد تابت توبۃ لو تابھا صاحب مکس لغفر لہ۔ " خالد اپنی زبان روکو، اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، اس نے ایسی توبہ کی تھی کہ اگر ظالمانہ محصول وصول کرنے والا بھی وہ توبہ کرتا تو بخش دیا جاتا "۔ ابوداؤد میں حضرت ابوہریرہ کی روایت ہے کہ ماعز کے واقعہ کے بعد ایک روز حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) راستے سے گزر رہے تھے۔ آپ نے دو شخصوں کو ماعز کا ذکر برائی سے کرتے سنا۔ چند قدم آگے جا کر ایک گدھے کی لاش پڑی نظر آئی۔ حضور ٹھہر گئے اور ان دونوں آدمیوں سے کہا " آپ حضرات اس میں سے کچھ نوش جان فرمائیں "۔ انہوں نے عرض کیا " یا نبی اللہ اسے کون کھا سکتا ہے "۔ آپ نے فرمایا " اپنے بھائی کی آبرو سے جو کچھ آپ ابھی تناول فرما رہے تھے وہ اسے کھانے کی بہ نسبت بد تر چیز تھی "۔ مسلم میں عمران بن حصین کی روایت ہے کہ حضرت عمر نے غامدیہ کی نماز جنازہ کے موقع پر عرض کیا یا رسول اللہ، کیا اب اس زانیہ کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی ؟ آپ نے فرمایا : لقد تابت توبۃ لو قسمت بین اھل المدینہ لوسعتھم، " اس نے وہ توبہ کی ہے کہ اگر تمام اہل مدینہ پر تقسیم کردی جائے تو سب کے لیے کافی ہو "۔ بخاری میں حضرت ابوہریرہ کی روایت ہے کہ ایک شخص کو شراب نوشی کے جرم میں سزا دی جا رہی تھی۔ کسی کی زبان سے نکلا " خدا تجھے رسوا کرے "۔ اس پر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا " اس طرح نہ کہو، اس کے خلاف شیطان کی مدد نہ کرو "۔ ابو داؤد میں اس پر اتنا اور اضافہ ہے کہ حضور نے فرمایا " بلکہ یوں کہو : اللہمَّ اغفرلہ، اللہمَّ ارحمہ۔ " خدایا اسے معاف کر دے، خدایا اس پر رحم کر "۔ یہ ہے اسلام میں سزا کی اصل روح۔ اسلام کسی بڑے سے بڑے مجرم کو بھی دشمنی کے جذبے سے سزا نہیں دیتا بلکہ خیر خواہی کے جذبے سے دیتا ہے، اور جب سزا دے چکتا ہے تو پھر اسے رحمت و شفقت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ یہ کم ظرفی صرف موجودہ تہذیب نے پیدا کی ہے کہ حکومت کی فوج یا پولیس جسے مار دے، اور کوئی عدالتی تحقیقات جس کے مارنے کو جائز ٹھہرا دے، اس کے متعلق یہ تک گوارا نہیں کیا جاتا کہ کوئی اس کا جنازہ اٹھائے یا کسی کی زبان سے اس کا ذکر خیر سنا جائے۔ اس پر اخلاقی جرأت ( یہ موجودہ تہذیب میں ڈھٹائی کا مہذب نام ہے) کا یہ عالم ہے کہ دنیا کو رواداری کے وعظ سنائے جاتے ہیں۔ (٢٥) محرمات سے زنا کے متعلق شریعت کا قانون تفہیم القرآن جلد اول صفحہ 336 پر، اور عمل قوم لوط کے متعلق شرعی فیصلہ تفہیم القرآن جلد دوم صفحہ 51 ۔ 54 پر بیان کیا جا چکا ہے۔ رہا جانور سے فعل بد، تو بعض فقہاء اس کو بھی زنا کے حکم میں شمار کرتے ہیں اور اس کے مرتکب کو حد زنا کا مستحق ٹھہراتے ہیں، مگر امام ابوحنیفہ، امام ابو یوسف، امام محمد، امام زفر امام مالک اور امام شافعی (رحمہم اللہ) کہتے ہیں کہ یہ زنا نہیں ہے اس لیے اس کا مرتکب تعزیر کا مستحق ہے نہ کہ حد زنا کا۔ تعزیر کے متعلق ہم پہلے بیان کر آئے ہیں کہ اس کا فیصلہ قاضی کی رائے پر چھوڑا گیا ہے، یا مملکت کی مجلس شوریٰ ضرورت سمجھے تو اس کے لیے کوئی منا سب شکل خود تجویز کرسکتی ہے۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

7: اگر کوئی شوہر اپنی بیوی پر زنا کی تہمت لگائے تو اوپر جو قاعدہ بیان کیا گیا ہے، اس کی رو سے اگر وہ چار گواہ نہ لا سکے تو اُس پر بھی اسّی کوڑوں کی سزا لاگو ہونی چاہئے تھی، لیکن میاں بیوی کے تعلقات کی خصوصی نوعیت کی وجہ سے ان کے لئے اﷲ تعالیٰ نے ایک الگ خصوصی طریقۂ کار مقرّر فرمایا ہے جسے اصطلاح می... ں لعان کہا جاتا ہے۔ یہ طریق کار ان آیات میں بیان ہوا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ شوہر اور بیوی دونوں کو قاضی ان الفاظ میں پانچ پانچ قسمیں کھانے کو کہے گا جو ان آیتوں میں بیان کئے گئے ہیں۔ اور اس سے پہلے دونوں کو یہ ترغیب دے گا کہ آخرت کا عذاب دُنیا کی سزا سے زیادہ سخت ہے، اس لئے جھوٹی قسم کھانے کے بجائے اصل حقیقت کا اعترف کرلو۔ اگر بیوی قسم کھانے کے بجائے اپنے جرم کا اعتراف کرلے تو اس پر زنا کی حد جاری ہوگی، اور اگر شوہر قسم کھانے کے بجائے یہ اعتراف کرلے کہ اس نے جھوٹا الزام لگایا تھا تو اس پر وہ حد قذف جاری ہوگی، جو آیت نمبر 4 میں بیان ہوئی ہے۔ اگر دونوں قسم کھالیں تو کسی پر دُنیا میں سزا جاری نہیں ہوگی، البتہ اس کے بعد قاضی دونوں کے درمیان نکاح فسخ کردے گا اور اگر کوئی بچہ پیدا ہوا اور شوہر اُسے اپنا بچہ ماننے سے انکار کرے تو وہ صرف ماں کی طرف منسوب ہوگا۔  Show more

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٦۔ ١٠:۔ اس آیت کی شان نزول میں علمائے مفسرین نے بڑا اختلاف کیا ہے بعضے کہتے ہیں کہ ہلال بن امیہ (رض) ایک صحابی تھے ‘ ان کا قصہ اس آیت کا شان نزول ہے ‘ رفع اس اختلاف کا وہی ہے ‘ جو حافظ ابن حجر نے فتح الباری شرح صحیح بخاری ٣ ؎ میں بیان کیا ہے کہ دونوں قصے صحیح روایتوں میں ہیں اور ایک ہی زمانہ میں گزر... ے ہیں ‘ اس واسطے دونوں قصوں کو شان نزول کہنا چاہیے ‘ کیونکہ قرآن شریعت میں ایسی آیتیں بہت ہیں کہ کئی قصے ایک قسم کے گزرنے کے بعد وہ آیتیں نازل ہوئی ہیں اور ان چند قصوں کا مجموعہ ان کی شان نزول ہے ‘ ہلال بن امیہ کا قصہ صحیح بخاری میں عکرمہ کی سند سے حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نے جو روایت کیا ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے روبرو ہلال بن امیہ نے اپنی بی بی کی بدکاری کی شکایت کی۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اس شکایت کے ثبوت میں تم کو چار گواہی پیش کرنے پڑیں گے ورنہ تمہاری پیٹھ پر جھوٹی تہمت کے جرم میں اسی کوڑے پڑیں گے ‘ ہلال میں امیہ نے کہا کہ ایسے موقع پر گواہ کہاں پیدا ہوسکتے ہیں۔ مجھ کو اللہ کی ذات سے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ کوئی حکم نازل فرما کر میرے سچ کو سب پر ظاہر کردے گا اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور عیومر عجلانی کا قصہ صحیحین ٥ ؎ میں سہل بن سعد کی روایت سے ہے حاصل اس کا یہ ہے کہ عویمرنے ایک صحابی عاصم (رض) سے کہا کہ تم آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ مسئلہ پوچھو کہ کوئی شخص اپنی بی بی کے پاس غیر مرد کو دیکھے اور اس کو مار ڈالے تو کیا وہ قصاص میں قتل کیا جاوے گا ‘ عاصم (رض) نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے وہ مسئلہ پوچھا لیکن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کچھ جواب نہ دیا ‘ عویمر (رض) نے جب عاصم (رض) کی معرفت اپنے مسئلہ کا جواب نہ پایا تو خود آن کر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے وہ مسئلہ پوچھا ‘ اس وقت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ایسے لوگوں کے حق میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائی ہیں ‘ حافظ ابن حجر (رح) نے ان دونوں قصوں کے ذکر کرنے کے بعد کہا ١ ؎ ہے کہ عاصم (رض) کے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آنے کے وقت تک کوئی حکم اس باب میں نازل نہیں ہوا تھا اسی واسطے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عاصم (رض) کے جواب میں سکوت فرمایا اتنے میں ہلال (رض) بن امیہ کا قصہ پیش آیا اور اسی پر یہ آیت نازل ہوئی اور اس عرصہ میں خود عویمر اپنی ذات سے مسئلہ پوچھنے آئے اس لیے ہلال بن امیہ اور عویمر (رض) دونوں کے قصوں کی روایت میں آیتوں کے نازل ہونے کا ذکر ہے اور دونوں قصوں کو شان نزول کہنا مناسب حال ہے بعضے علماء نے جو یہ شبہ پیدا کیا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کی روایت کے لفظ پریشان ہیں کہیں ہلال بن امیہ کے قصہ کا ذکر ہے ‘ کہیں عویمر (رض) کے قصہ کا ‘ اس شبہ کا جواب یہ ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) نے دونوں قصوں کو بیان کیا ہے ایک روایت عکرمہ کی سند سے ہے جس کو امام بخاری نے کتاب التفسیر میں روایت کیا ہے ‘ اس سند میں ہلال بن امیہ کے قصہ کا ذکر ہے دوسری روایت قاسم بن محمد کی سند سے ہے جس کو امام بخاری (رح) نے بغیر گواہی کے سنگسار نہ کرنے کے باب میں روایت کیا ٢ ؎ ہے دونوں سندوں کو ایک خیال کرنے سے شبہ پیدا ہوتا ہے ورنہ حقیقت میں کوئی شہ نہیں۔ مسئلہ لعان : اس مسئلہ کو جس کا ذکر آیتوں میں ہے ‘ لعان کا مسئلہ کہتے ہیں کیونکہ اس مسئلہ میں خاوند اور بی بی دونوں اپنے اپنے سچے ہونے کے لیے جھوٹے پر لعنت کرتے ہیں ‘ اب اس لعان کے حکم میں علماء کا اختلاف ہے ‘ امام مالک اور شافعی کے نزدیک فقط لعان سے طلاق ہوجاتی ہے اور امام ابوحنیفہ کے نزدیک لعان کے بعد حاکم کے طلاق دلوانے کی ضرورت ہے اور امام احمد سے اس باب میں دونوں طرح روایتیں ہیں ‘ تفصیل اس کی فقہ کی کتابوں ٣ ؎ میں ہے ‘ حاصل مطلب ان آیتوں کا یہ ہے کہ جب میاں اپنی بی بی کے پاس غیر شخص کو دیکھتا ہے تو ایسی حالت میں اور کوئی نہیں ہوتا ‘ اس لیے اللہ تعالیٰ نے مرد کے لعان کو عورت کی بدکاری کی شہادت قرار دیا ہے تاکہ مرد کے ذمہ سے زبردستی کی بدکاری کے الزام کی سزا اٹھ جاوے ‘ مرد کی اس گواہی کے بعد عورت کو سنگساری کی سزا دی جاوے گی لیکن اگر وہ اس سزا کو اپنے ذمہ سے ساقط کرنا چاہے تو لعان کی وہ صورت اختیار کرے جس کا ذکر آیتوں میں ہے ‘ آخر کو فرمایا یہ اللہ کا فضل اور اس کی حکمت ہے کہ اس نے لعان کا حکم نازل فرما کر میاں بی بی دونوں کو بدکاری کے الزام کی سزا سے بچا دیا اور بدکاری کے چرچا پر کوئی عذاب نہیں بھیجا اور ان دونوں لعان والوں میں جو جھوٹا ہے اس کو توبہ کی رغبت بھی دلائی۔ (٣ ؎ ص ٢٦٢ ج ٤ تفسیر سورة نور ) (٥ ؎ صحیح بخاری ص ٦٩٥ ج ٢۔ ) (١ ؎ فتح الباری ص ٢٠٩ ج ٥ باب اللعان ومن طلق بعد اللعان ) (٢ ؎ باب قول النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوکنت راجما بغیر بینتہ ص ٢١١ صحیح بخاری مع الفتح جلد ٥ ) (٣ ؎ فتح الباری ص ٢٠٧ ج ٥ باب العان ومن طلق بد اللعان وص ٢١٣ ج ٥ باب التفریق بین المتلاعنین )  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : پاکدامن عورتوں اور مردوں پر جھوٹی تہمت لگانے کی سزا کے ذکر کے بعد اپنی بیویوں پر جھوٹی تہمت لگانے والوں کی سزا اور ان کے درمیان فیصلہ کرنے کا طریقہ۔ جس طرح عام مسلمان پاکدامن عورت اور مرد پر جھوٹی تہمت لگ سکتی ہے اسی طرح میاں بیوی کے درمیان تنازع پیدا ہوجانے کی شکل میں ان سے ا... یک دوسرے پر تہمت لگانے کا عمل سرزد ہوسکتا ہے۔ میاں بیوی کے تعلقات کو صحیح خطوط پر استوار رکھنے اور انہیں غلط فہمیوں سے بچانے کے لیے یہ قانون جاری کیا گیا ہے کہ اگر کوئی آدمی اپنی بیوی پر بدکاری کی تہمت لگاتا ہے اور اپنے سوا چارگواہ ثابت نہیں کرتا تو اسے چار مرتبہ ” اللہ “ کی قسم اٹھا کر شہادت دیناہو گی کہ میں سچے لوگوں میں شامل ہوں یعنی میں سچا ہوں۔ پانچویں دفعہ اسے اس طرح قسم اٹھانا ہوگی کہ اگر میں جھوٹ بول رہا ہوں تو مجھ پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو۔ اگر عورت اپنے آپ کو تہمت سے بری الذّمہ قرار دیتی ہے تو اسے چار مرتبہ اللہ تعالیٰ کی قسم اٹھا کر یہ گواہی دینا ہوگی کہ اس کا خاوند جھوٹ بولتا ہے اور پانچویں مرتبہ عورت اس طرح قسم دے گی کہ اگر اس کا خاوند سچ بولتا ہے تو مجھ پر ” اللہ “ کا غضب نازل ہونا چاہیے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے مسلمان معاشرے کو بےراہ روی سے بچانے کے لیے یہ سزائیں مقرر کیں اور میاں بیوی کے تعلق کو غلط فہمیوں سے بچانے کے لیے ٹھوس اور واضح طریقہ کار بتلایا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی توبہقبول کرنے والا ہے اور اس کے ہر ارشاد اور حکم میں حکمتیں پنہاں ہوتی ہیں۔ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ ہلاَلَ بْنَ أُمَیَّۃَ قَذَفَ امْرَأَتَہُ ، فَجَاءَ فَشَہِدَ وَالنَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُولُ إِنَّ اللَّہَ یَعْلَمُ أَنَّ أَحَدَکُمَا کَاذِبٌ، فَہَلْ مِنْکُمَا تَاءِبٌ ثُمَّ قَامَتْ فَشَہِدَتْ ) [ رواہ البخاری : باب یَبْدَأُ الرَّجُلُ بالتَّلاَعُنِ ] ” حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں بیشک ہلال بن امیہ نے اپنی عورت پر الزام لگایا انہیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے روبرو شہادت کے لیے لایا گیا آپ نے فرمایا یقیناً اللہ جانتا ہے کہ تم میں سے ایک جھوٹا ہے کیا تم میں سے کوئی توبہ کرنے کے لیے تیار ہے۔ پھر دعورت کھڑی ہوئی اس نے قسمیں اٹھائیں کہ ہلال جھوٹا ہے۔ ” حضرت سہل بن سعد ساعدی (رض) بیان کرتے ہیں کہ عویمر عجلانی عاصم بن عدی (رض) انصاری کے پاس آئے اور اس سے کہا کیا خیال ہے آپ کا اگر ایک آدمی اپنی عورت کے ساتھ کسی اور آدمی کو دیکھتا ہے کیا وہ اسے قتل کر دے اور اس کے بدلے میں اسے قتل کردیا جائے گا ؟ یا اس صورت حال سے کیسے نپٹا جائے ؟ اے عاصم اس سلسلہ میں میرے لیے سوال کیجئے تو عاصم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کے متعلق دریافت فرمایا تو آپ نے اس پوچھے جانے کو ناپسند فرمایا اور اسے ڈانٹ پلائی حتیٰ کہ اس بات کو عاصم (رض) نے برا محسوس کیا جو اس نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنی تھی تو عاصم اپنے اہل و عیال میں پلٹ آیا تو ان کے پاس حضرت عویمر تشریف لائے اور دریافت کیا کہ اس مسئلہ کے متعلق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کیا ارشاد فرمایا ہے عاصم نے کہا میں آپ کے پاس اس کے متعلق کوئی اچھی خبر نہیں لایا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سوال کو ناپسند جانا ہے حضرت عویمر کہنے لگے اللہ کی قسم میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر اس کے متعلق ضرور دریافت کروں گا۔ عویمر (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے اس وقت آپ لوگوں کے درمیان بیٹھے ہوئے تھے۔ اس نے عرض کیا۔ اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! فرمائیے کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے ساتھ کسی اجنبی کو پائے تو کیا اسے قتل کردے ؟ ایسی صورت میں ردعمل کے طور پر تو اس عورت کے وارث اس کو قتل کردیں گے۔ پھر اسے کیا کرنا چاہیے ؟ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تمہارے بارے میں یہ حکم نازل ہوا ہے ‘ تم جاؤ اور اپنی بیوی کو لے آؤ۔ سہل (رض) بیان کرتے ہیں کہ پھر میاں بیوی نے مسجد میں لعان کیا میں لوگوں کے ساتھ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر تھا۔ جب وہ لعان سے فارغ ہوئے تو عویمر نے کہا : اگر میں اس کو بیوی بنا کر رکھوں ‘ تو میں جھوٹا ہوں اس نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم دینے سے پہلے ابن شہاب کہتے ہیں اس وقت سے لعان کرنے والوں کے لیے یہی طریقہ جاری ہوا۔ [ رواہ البخاری : باب اللِّعَانِ وَمَنْ طَلَّقَ بَعْدَ اللِّعَانِ ] اس کے بعدرسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا انتظار کرو ! اگر بچہ سیاہ رنگ کا ہو ‘ اس کی آنکھیں بڑی بڑی اور گہری سیاہ ہوں اس کے سرین بڑے اور پنڈلیاں موٹی ہوئیں ‘ تو عویمر سچا ہے اور اگر بچہ سرخ رنگ کا ہوا گویا کہ وہ کچھیرا ہے تو میرا خیال ہے کہ پھر عویمر جھوٹا ہے۔ جب بچے کو اس کی ماں نے جنا تو بچہ انہیں اوصاف پر پیدا ہوا جن پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عویمر کو سچاقرار دیا تھا۔ اس وجہ سے بچہ باپ کی بجائے اپنی ماں کی نسبت سے بلایا جاتا تھا۔ “ لعان کے بعد فریقین میں مستقل جدائی ہوجائے گی۔ بچہ اپنی ماں کی طرف منسوب ہوگا بچہ اور ماں ایک دوسرے کے وارث ہوں گے۔ لعان کے ذریعے جدائی ہونے کے بعد خاوند مہر کا مطالبہ نہیں کرسکتا۔ مسائل ١۔ خاوند کے پاس اگر چار گواہ نہ ہوں تو اسے چار قسمیں اٹھانی ہونگی کہ وہ سچا ہے۔ اور پانچویں قسم اس طرح ہوگی کہ جھوٹا ہونے کی صورت میں اس پر اللہ کی لعنت ہو۔ ٢۔ عورت کی چار قسمیں اٹھانے کی وجہ سے کہ اس کا شوہر جھوٹا ہے عورت سزا سے بچ جائے گی۔ ٣۔ عورت کو پانچویں قسم اٹھانی ہوگی کہ جھوٹی ہونے کی صورت میں اس پر اللہ کا غضب ہو۔ ٤۔ لعان کے بعد میاں، بیوی ہمیشہ کے لیے جدا ہوجائیں گے۔ ٥۔ اللہ اپنے بندوں پر فضل فرمانے والا ہے۔ ٦۔ اللہ تعالیٰ توبہ قبول کرنے والا اور حکمت والا ہے۔ تفسیر بالقرآن میاں، بیوی کی علیحد گی کی صورتیں : ١۔ حدود کو قائم نہ رکھ سکیں۔ ( البقرۃ : ٢٢٩) ٢۔ جب خاوند بیوی کی نافرمانی سے خوف کھائے۔ ( النساء : ٣٤) ٣۔ طلاق رجعی کے بعد ان کی مدت پوری ہوجائے تو ان کے درمیان علٰیحدگی ہوگی۔ ( البقرۃ : ٢٣٠)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

والذین یرمون۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وان اللہ تواب حکیم ) (٦ تا ١٠) ” “۔ ان آیات میں حد قذف کے قانون میں میاں بیوی کے لیے قدرے سہولت پیدا کی گئی ہے اور یہ سہولت میاں بیوی کینازک تعلقات کے لیے زیادہ مناسب ہے۔ اگر خاوند کو یہ معلوم ہوجائے کہ اس کی بیو نے زنا کا ارتکاب کیا ہے اور اس بات پر گواہ صرف وہ خود ہو تو اس ص... ورت میں طریق کار یہ ہوگا کہ وہ چار بار قسم اٹھا کر یہ کہے گا کہ اس کا دعویٰ درست ہے یعنی الزام زنا اور پانچویں مرتبہ یہ کہے گا کہ مجھ پر اللہ کی لعنت ہو اگر میں جھوٹا ہوں۔ اور اس شہادت کو شہادات اس لیے کہا گیا ہے کہ یہ ایک ہی گواہ کی زیادہ شہادتیں ہیں۔ اگر خاوند نے ایسا کیا تو وہ مہر ادا کرے گا اور عورت پر طلاق بائن واقع ہوجائے گی۔ اور اس پر حد زنا یعنی رجم جاری ہوگی۔ ہاں اگر عورت اپنے اوپر سے اس سزا کو معاف کرانا چاہتی ہے تو وہ سابقہ شہادت کے بالمقابل چار مرتبہ حلف اٹھا کر کہے کہ الزام لگانے والا کا ۔۔۔ ہے اور پانچویں مرتبہ وہ حلف اٹھا کر کہے کہ مجھ پر اللہ کا غضب ہو ‘ اگر میں جھوٹ بولوں۔ اس طرح اس پر سے حد ساقط ہوجائے گی۔ اور لعان کے ذریعے وہ اپنے خاوند سے جدا ہوجائے گی۔ اس کے بیٹے کا نسب والد کے ساتھ لاحق نہ ہوگا اگر وہ حاملہ ہو بلکہ بیٹے کی نسبت ماں کی طرف ہوگی اور اس قسم کے بیٹے پر دلدالزنا کا الزام موجب حد قذف ہوگا۔ اس پر یہ تعقیب اور تبصرہ آتا ہے۔ (ولولا۔۔۔۔۔۔۔۔ تواب حکیم) (٢٤ : ١٠) ” تم پر اللہ کا فضل اور رحم نہ ہوتا اور یہ بات نہ ہوتی کہ اللہ بڑا التفات فرمانے والا اور حکیم ہے تو (بیویوں پر الزام کا معاملہ تمہیں بڑی پیچیدگی میں ڈال دیتا) ۔ ہیاں اللہ نے بیان نہیں فرمایا کہ اگر اللہ کا فضل نہ ہوتا تو کیا ہوتا ؟ اللہ نے مجمل اس لیے چھوڑ دیا کہ لوگ اس سے ڈرتے رہیں۔ آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کوئی بڑا ہی شرہوتا لیکن اللہ نے اسے دفع کردیا۔ اس سلسلے میں بعض صحیح احادیث میں اس قانون سازی کا شان نزول وارد ہے۔ امام احمد نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت فرمائی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی “۔ (والذین۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ابدا) (٢٠٤ : ٤) ” اور جو لوگ پاک دامن عورتوں پر تہمت لگائیں ‘ پھر چار گواہ لے کر نہ آئیں ‘ ان کو اسی (٨٠) کوڑے مارو اور ان کی شہادت کبھی قبول نہ کرو۔ تو سعد ابن عبادہ (رض) جو انصار کے سردار تھے ‘ نے کہا کیا یہ آیت اسی طرح نازل ہوئی ہے ؟ اس پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کہا : اے گروہ انصار ‘ تم نہیں سنتے تمہارا سردار کیا کہہ رہا ہے ؟ تو انہوں نے کہا ‘ اے رسول خدا اس شخص کو ملامت نہ کریں۔ یہ نہایت ہی غیور آدمی ہے۔ اس نے کبھی بھی کنواری عورت کے سوا کسی عورت سے نکاح نہیں کیا۔ اور اس نے جب کسی عورت کو طلاق دی تو کسی شخص کو جرأت نہیں ہوئی کہ اس کے ساتھ نکاح کرلے کیونکہ وہ اس کی غیرت سے ڈرتا۔ اس پر سعد (رض) نے کہا اے رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) واقعہ یہ ہے کہ میں جانتا ہوں کہ یہ حق ہے اور یہ اللہ کی جانب سے ہے لیکن مجھے تعجب اس پر ہے کہ میری بیوی کی ران پر ایک شخص ران رکھ دے اور مجھے اجازت نہ ہو کہ میں اسے چھیڑوں اور نہ میں اسے اپنی جگہ سے ہلائوں یہاں تک کہ جب تک کہ میں چار گواہ تلاش کر کے نہ لائوں۔ خدا کی قسم جب تک میں چار گواہ لائوں گا تو وہ اپنا کام کر کے چلا گیا ہوگا۔ کہتے ہیں کہ ٹتھوڑا ہی وقت گزرا تھا کہ ہلال ابن امیہ آگیا۔ یہ اپنی اراضی سے کام کر کے عشاء کے وقت لوٹا۔ اس نے اپنی اہلیہ کے پاس ایک شخص کو دیکھا۔ اپنی آنکھوں سے اس نے دیکھا اور اپنے کانوں سے اس نے سنا تو اس نے اس شخص کو نہ چھیڑا۔ صبح ہوتے ہی وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور کہا حضور میں رات کو عشاء کے وقت اپنے گھر آیا۔ میں نے اپنی اہلیہ کے پاس ایک شخص کو دیکھا۔ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اپنے کانوں کے ساتھ سنا۔ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس شخص کی اس اطلاع کو بہت ہی ناپسند فرمایا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر یہ بات بہت ناگوار گزری لیکن انصار اس پر جمع ہوگئے اور انہوں نے کہا : سعد ابن عبادہ نے جو کچھ کہا ہے وہ ہمارے لیے بڑی آزمائش تھی۔ اب نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہلال ابن امیہ کو کوڑے لگائیں اور لوگوں کے اندر ان کی شہادت ہمیشہ کے لیے غیر مقبول ہوجائے۔ اس پر ہلال ابن امیہ نے کہا : خدا کی قسم مجھے امید ہے کہ اللہ اس سے نکلنے کی کوئی راہ ضرور نکالے گا۔ ہلال نے حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ رسول خدا میں جانتا ہوں کہ میری اس بات سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کس قدر ناگواری کی حالت آگئی ہے لیکن اللہ جانتا ہے کہ میں سچاہوں۔ خدا کی قسم رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ارادہ کر ہی رہے تھے کہ ہلال ابن امیہ پر حد قذف نافذ کرنے کا حکم دیں کہ اچانک وحی آگئی۔ اور جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی آتی تھی تو صحابہ کرام فوراً سمجھ لیتے تھے کہ نزول وحی شروع ہے۔ تمام صحابہ (رض) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے علیحدہ ہوجاتے تھے یہاں تک کہ نزول وحی کا عمل مکمل ہوجاتا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (والذین یرمون۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شھدت باللہ) (٢٤ : ٧) ” اور جو لوگ اپنی بیویوں پر الزام لگائیں اور ان کے پاس خود ان کے اپنے سوا دوسرے کوئی گواہ نہ ہوں تو ان میں سے ایک شخص کی شہادت (یہ ہے کہ وہ ) چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر گواہی دے کہ وہ (اپنے الزام ) میں سچا ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر سے حالت وحی دور ہوگئی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہلال ! مبارک ہو۔ اللہ نے تیرے لیے آسانی پیدا کردی ہے اور اس مشکل سے نکلنے کی راہ نکالی ہے۔ تو ہلال نے کہا میں امید کررہا تھا کہ اللہ میرے لیے کوئی راہ نکالے گا۔ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم دیا کہ اس عورت کو بلایا جائے۔ وہ آگئی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیات دونوں کو پڑھ کر سنائیں۔ ان کو نصیحت کی اور ان کو بتایا کہ دنیا کا عذاب آخرت کی سزا سے بہت ہی تھوڑا ہے تو ہلال نے کہا رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کی قسم میں نے اس کے بارے میں سچ کہا ہے اور اس عورت نے جواب میں کہا۔ یہ جھوٹ کہتا ہے۔ اس پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ان دونوں کے درمیان لعان کرادو۔ تو ہلال کو کہا گیا تم چار بار شہادت دو کہ تم سچ کہتے ہو۔ جب پانچویں بار شہادت دینے لگا تو اسے کہا گیا : اللہ سے ڈرو ‘ دنیا کا عذاب آخرت کے عذاب سے ہلکا ہے۔ اور یہ شہادت جو فریق مخالف پر سزا واجب کرنے والی ہے ‘ تیرے لیے موجب عذاب ہوگی۔ تو ہلال نے کہا خدا کی قسم اس کے بارے میں مجھے اللہ ہر گز عذاب نہیں دے گا۔ جس طرح اس نے مجھے کوڑوں کی سز نہیں دی تو پانچویں مرتبہ ہلال نے شہادت دی کہ اگر وہ جھوٹا ہے تو اس پر اللہ کی لعنت ہو۔ اس کے بعد عورت سے کہا گیا کہ تم چار شہادتیں دو کہ وہ جھوٹا ہے اور پانچویں مرتبہ اس سے کہا گیا خدا سے ڈرو اور دنیا کا عذاب آخرت کے عذاب سے بہت ہی ہلکا ہے اور یہ پانچویں بار عذاب کو واجب کرنے والی ہے اور یہ تم پر عذاب کو واجب کردے گی۔ وہ کچھ دیر کے لیے ہچکچائی اور ارادہ کرلیا کہ اعتراف کرلے۔ اس کے بعد اس نے کہا میں اپنی قوم کو شرمندہ نہیں کروں گی۔ چناچہ اس نے پانچویں مرتبہ شہادت دی کہ اس پر اللہ کا غضب ہوگا۔ اگر وہ سچا ہو۔ رسول اللہ نے دونوں کے درمیان تفریق کردی اور یہ فیصلہ کیا کہ اس کے بچے کو اباپ کی طرف منسوب نہ کیا جائے گا۔ نہ اس کے بچے پر تہمت لگائی جائے گی۔ جس نے اس کے بچے کو دلد الزنا کہا ‘ اس پر حد جاری ہوگی۔ یہ بھی حکم دیا کہ اس عورت کے لیے خاوند کے ذمہ رہائش کی جگہ فراہم کرنا لازم نہ ہوگا نہ خوراک لازم ہوگی۔ کیونکہ ان دونوں کے درمیان بغیر طلاق کے تفریق کردی گئی ہے۔ اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اگر اس کا بچو قدرے سرخ بالوں والا ‘ دبلے چوتڑ والا اور پتلی ٹانگوں والا ہوا تو وہ ہلال کا بچہ ہوگا اور اگر گندم گوں رنگ لیچدار بالوں والا ‘ موٹے اعضا والا ‘ موٹی پنڈلیوں والا ہوا ‘ بھرے ہوئے چوتڑ والا ہوا تو پھر یہ اس شخص کا بیٹا ہوگا جس کے ساتھ وہ بد نام ہوئی۔ تو جب اس کا بچو پیدا ہوا تو وہ کدرے لیچدار بالوں والا ‘ موٹے اعضا والا اور موٹی ٹانگوں والا اور بھرے ہوئے چوتڑ والا تھا۔ اس پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اگر ایمان نہ ہوتا تو میں اس عورت کے ساتھ دیکھ لیتا “۔ یہ قانون لعان تھا اور یہ ایک عملی ضرورت کے تحت نازل ہوا ۔ اس نے مسلمانوں کے لیے درپیش ایک مشکل مسئلے کو حل کردیا۔ یہ مسئلہ اس قدر مشکل تھا کہ خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کا کوئی حل نظر نہ آتا تھا۔ جیسا کہ روایت بخاری میں آتا ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہلال ابن امیہ سے کہا کہ یا تو گواہ لائو اور یا تمہاری پیٹھ پر حد جاری ہوگی۔ اور ہلال یہی کہتے رہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک شخص دیکھے کہ اس کی بیوی پر ایک شخص چڑھا ہوا ہے کیا وہ جائے گا کہ گواہ تلاش کرے۔ یہاں سوال کرنے والا یہ سوال کرسکتا ہے کہ کیا اللہ تعالیٰ کو علم نہ تھا کہ حد قذف کے عام قانون کے بعد اس قسم کا مسئلہ پیدا ہوگا تو یہ استثناء اللہ نے پہلے کیوں نہ نازل کردی اور کیوں اللہ تعالیٰ نے ایسی مشکل پیدا ہونے دی ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ بیشک اللہ تعالیٰ جانتا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے تشریح کے لیے یہ کمت وضع کی تھی کہ قانون اس وقت نازل ہو جب لوگوں کے اندر اس کی ضرورت کا احساس پیدا ہوجائے تاکہ لوگ اسے نہایت ہی بےتابی کے ساتھ قبول کریں۔ اور ان کو اس قانون کے اندر پائے جانے والی حکمت کا اچھی طرح علم ہوجائے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے بعد یہ تبصرہ آیا۔ (ولولا۔۔۔۔۔۔۔ حکیم) (٢٤ : ١٠) ” اگر اللہ کا فضل و رحمت نہ ہوتی اور یہ بات نہ ہوتی کہ اللہ بہت ہی التفات کرنے والا اور رحیم ہے تو۔۔۔ “ اب ذرا اس واقعہ پر غور کیجئے ۔ دیکھئے کہ اسلام کس طرح کام کررہا تھا اور یہ کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تربیت کس طرح کام کررہی تھی اور کس قدر موثر تھی اور اس قرآن کے ذریعے کس طرح ایک بالکل نئی سوسائٹی کو تعمیر کیا جارہا تھا۔ اسلام نے عربوں جیسی غیور قوم کی کس طرح تربیت کردی تھی۔ کس طرح انکو بدل کر رکھ دیا۔ یہ لوگ اس قدر غیور اور جذباتی تھے کہ قانون حد قذف نازل ہوگیا۔ ان جذباتی لوگوں کے لیے یہنہایت ہی مشکل قانون ہے وہ تو مشتعل ہوتے ہی عظیم سے عظیم کام کر گزرنے والے تھے۔ ان پر یہ نہایت ہی شاق گزرتا ہے۔ اس قدر شاق کہ حضرت سعد ابن عبادہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھتے ہیں کہ آیا فی الواقع یہ قانون اسی طرح نازل ہوا ہے۔ وہ سوال کرتے ہیں لیکن ان کو معلوم ہے کہ قانون تو نازل ہوگیا ہے۔ اس سوال سے دراصل وہ اس مشکل کا احساس کرتے ہیں کہ اگر یہ صورت حالات ان کے اپنے گھر میں پیش آجائے تو وہ اس کس طرح برداشت کریں گے۔ وہ اس تلخ حقیقت کا اظہار یوں کرتے ہیں کہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں جانتا ہوں کہ یہ حق ہے اور یہ اللہ کی جانب سے ہے لیکن مجھے اس بات پر تعجب ہوتا ہے کہ اگر میں ایک شخص کو دیکھوں کہ اس نے (مکاعض کی ران کے ساتھ ران ملا دی ہے اور مجھے یہ اجازت نہ ہو کہ اسے پریشان کروں یا اسے اپنی جگہ سے ہٹائوں جب تک میں چار گواہ نہ لائوں۔ خدا کی قسم میں چار گواہ لائوں گا مگر اس نے اپنا کام پورا کرلیا ہوگا۔ یہ تو تھا سعد ابن عبادہ کا نظریاتی خیال اور سوچ۔ لیکن ایک متعین شخص اپنے کانوں اور اپنی آنکھوں کے ساتھ دیکھ رہا ہے کہ اس کی بیوی کے ساتھ یہ بد کاریہورہی ہے اور وہ رک گیا ہے بلکہ قرآن نے اسے روک دیا ہے۔ یہ شخص اپنے جذبات ‘ جذبہ انتقام ‘ سخت عربی غیرت اور خون کے اندر پیدا ہونے والے فوری جوش اور اعصاب کی ناقابل کنٹرول حرکت کو قابو میں لاتا ہے۔ اپنے اوپر ناقابل شکست کنٹرول کرتا ہے جس کا کوئی عربی معاشرے میں تصور بھی نہیں کرسکتا۔ یہ بےبس ہو کر آتا ہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم کا انتظار کرتا ہے۔ اگر چہ اس کے لیے یہ مسئلہ نہایت ہی شاق گزر رہا ہے لیکن قرآن کریم نے ان لوگوں کی ایسی تربیت کردی ہے کہ یہ شخص جذبات کے اس طوفان کو پوری طرح کنٹرول کرتا ہے تاکہ حکم وہی ہو جو اللہ کی طرف سے آئے۔ اس کے نفس میں اور اس کی ذات کے تمام معاملات میں۔ یہ تربیت کیسے ممکن ہوئی ؟ یہ اس طرح ہوئی کہ ان کو یہ پورا یقین تھا کہ اللہ ان کے ساتھ ہے اور یہ کہ وہ لوگ اللہ کی نگرانی اور حفاظت میں ہیں۔ اللہ ان کی رعایت کرتا ہے اور ان کو ایسی مصیبت میں نہیں ڈالتا جسے وہ برداشت نہ کرسکیں اور یہ کہ اللہ ان کو ایسی مشکلات میں نہیں چھوڑتا کہ وہ ان کے لیے ناقابل برداشت ہوں۔ اللہ کبھی بھی انسانوں پر ظلم نہیں کرتا۔ یہ لوگ ہمیشہ اللہ کے زیر سایہ رہتے تھے۔ وہ اللہ تعالیٰ کے رحم وکرم کی فضا میں سانس لے رہے تھے۔ وہ ہر وقت اللہ کی طرف اس طرح دیکھ رہے تھے جس طرح ایک بچہ اپنے رحیم و کریم باپ کی طرف دیکھتا ہے۔ ہلال ابن امیہ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے اور کانوں سے سن رہا ہے۔ یہ اکیلا ہے وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے شکایت کرتا ہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قانون میں کوئی صورت ماسواء نفاذ حد قذف کے اور نہیں پاتے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اعلان بھی کردیتے ہیں کہ شہادت یا حد ہے اور تمہاری پیٹھ پر ہے لیکن ہلال ابن امیہ کو یقین ہے کہ اللہ اسے ایسے حالات میں بےسہارا نہیں چھوڑے گا جبکہ وہ ہے بھی سچا۔ چناچہ اللہ کی طرف سے یہ استثناء آجاتا ہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہلال ابن امیہ کو خوشخبری دیتے ہیں اور وہ اپنے اس اطمینان کو پھر دہراتے ہیں کہ مجے رب عزوجل سے یہی امید تھی۔ ان لوگوں کو پورا پورا اطمینان تھا کہ وہ اللہ کی نگرانی میں ہیں اور اللہ دیکھ رہا ہے اور یہ کہ وہ خود اپنے اختیار میں چھوڑ نہیں دیئے گئے کہ معاملات کو خود طے کریں۔ وہ تو اللہ کے سامنے اس کے دربار میں ہیں۔ یہ ہے حقیقی ایمان ‘ اطاعت اور تسلیم ورضا جو اصحاب محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان تھی۔ اب سیاق کلام حد قذف کے قانون کے درمیان سے آگے بڑھتا ہے اور جرم قذف کے گھنائو نے پن کی ایک اور جھلک دکھائی جاتی ہے۔ اس کا تعلق حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھرانے سے ہے۔ خود حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عزت اس میں دائو پر لگی ہوئی ہے۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے مکرم ترین بندے ہیں۔ پھر اس واقعہ میں حضرت صدیق (رض) کی عزت بھی دائو پر لگی ہوئی ہے جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھیوں میں سے مکرم ترین انسان ہیں۔ پھر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ایک دوسرے ساتھی صفوان ابن المعطل (رض) کی عزت کا بھی مسئلہ ہے۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خود شہادت دیتے ہیں کہ صفوان کے بارے میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھلائی کے سوا کچھ نہیں جانتے۔ یہ واقعہ ایسا ہے جس میں مدینہ کے اہل اسلام ایک ماہ تک بےحد پریشانی میں مبتلا رہے۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

جو لوگ اپنی بیویوں کی تہمت لگائیں ان کے لیے لعان کا حکم کوئی مرد عورت کو زنا کی تہمت لگا دے اور اپنی بات کے سچا ثابت کرنے کے لیے چار گواہ پیش نہ کرسکے تو اس تہمت لگانے والے پر حد قذف جاری ہوگی یعنی اسے اسی کوڑے لگائے جائیں گے (جس کی تفصیل اوپر گزری) لیکن اگر کوئی مرد اپنی بیوی کے بارے میں یوں کہے ک... ہ اس نے زنا کیا ہے اور عورت اس کو جھٹلائے اور شوہر کے پاس چار گواہ نہیں ہیں تو گواہ نہ ہونے کی وجہ سے شوہر کو حدقذف نہیں لگائی جائے گی بلکہ امیر المومنین یا قاضی شوہر سے کہے گا کہ تو لعان کر یا یہ اقرار کر کہ تو نے جھوٹی تہمت لگائی ہے اگر وہ دونوں میں سے کسی بات پر راضی نہ ہو تو قاضی اسے بند کر دے گا۔ یہاں تک کہ لعان کرنے پر راضی ہوجائے یا یوں کہے کہ میں نے جھوٹی تہمت لگائی ہے اگر اس دوسری بات کا اقرار کرے تو پھر اسے حد قذف لگائی جائے گی، اگر وہ اپنے نفس کو نہیں جھٹلاتا اور اسے برابر اس بات پر اصرار ہے کہ میری بیوی نے زنا کیا ہے تو قاضی دونوں کے درمیان لعان کرنے کا حکم دے گا۔ لعان کا طریقہ : لعان کا طریقہ یہ ہے کہ مرد کھڑا ہوگا اور چار مرتبہ یوں کہے گا اشھد باللّٰہ انی لمن الصادقین فما رمیت ھذا من الزنا (میں اللہ کو گواہ بنا کر قسم کھاتا ہوں کہ میں اس عورت کے بارے میں جو کہہ رہا ہوں کہ اس نے زنا کیا ہے میں اس بات میں سچا ہوں) یا پھر پانچویں مرتبہ یوں کہے لعنت اللہ علیہ ان کان من الکذبین فیما رمی ھذا من الزنا (اس عورت کے بارے میں جو میں نے کہا ہے کہ اس نے زنا کیا اس بارے میں اگر میں جھوٹا ہوں تو مجھ پر اللہ کی لعنت ہو) پانچویں مرتبہ جب لفظ ھذہ (اس عورت) کے الفاظ ادا کرے تو ہر مرتبہ عورت کی طرف اشارہ کرے جب مرد پانچوں مرتبہ مذکورہ الفاظ کہہ چکے تو اس کے بعد عورت چار مرتبہ کہے اشھد باللہ انہ لمن الکاذبین فیھا رمانی بہ من الزنا (میں اللہ کو گواہ بنا کر قسم کھاتی ہوں کہ اس مرد نے جو مجھے زنا کی تہمت لگائی ہے اس بارے میں یہ جھوٹا ہے) پھر پانچوں مرتبہ یوں کہے ان غضب اللہ علیھا ان کان من الصادقین فیھا رمانی بہ من الزنا (مجھ پر اللہ کا غضب نازل ہو اگر یہ اپنی اس بات میں سچا ہو جو اس نے میری طرف زنا کی نسبت کی ہے) ۔ جب دونوں لعان کرلیں تو اب قاضی ان دونوں کے درمیان تفریق کر دے گا۔ اور یہ تفریق کرنا طلاق بائن کے حکم میں ہوگا۔ اور اگر لعان اس لیے تھا کہ نومولودہ بچہ کے بارے میں شوہر نے یوں کہا تھا کہ یہ میرا بچہ نہیں ہے تو لعان کے بعد تفریق کرنے کے ساتھ ساتھ قاضی اس بچہ کا نسب اس مرد سے ختم کر دے گا اور یہ حکم نافذ کر دے گا کہ یہ بچہ اپنی ماں کا ہے اس عورت کے شوہر کا نہیں ہے۔ لعان کرنے کے بعد اگر شوہر اپنی تکذیب کر دے یعنی یوں کہہ دے کہ میں نے جھوٹی تہمت لگائی تھی تو پھر قاضی اسے حد قذف یعنی اسی کوڑے لگا دے گا۔ حدیث کی کتابوں میں عویمر عجلانی اور ھلال بن امیہ (رض) کے اپنی اپنی بیوی سے لعان کرنے کا تذکرہ ملتا ہے صحیح بخاری ص ٧٩٩ وص ١٨٠٠ صحیح بخاری کتاب التفسیر ص ٦٩٥ میں حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ ھلال بن امیہ نے جو اپنی بیوی کے بارے میں یوں کہا کہ اس نے فلاں شخص سے زنا کیا ہے تو آیات لعان (وَالَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ اَزْوَاجَہُمْ ) (الایات) نازل ہوئیں۔ لعان کی کچھ شرائط ہیں جو فقہ کی کتابوں میں لکھی ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ بیوی نا بالغہ نہ ہو دیوانی نہ ہو اور شوہر نا بالغ اور دیوانہ نہ ہو اور اگر گونگا شوہر اشاروں سے اپنی بیوی کو تہمت لگا دے تو اس کی وجہ سے قاضی لعان کا حکم نہیں دے گا وفیہ شرائط آخر۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

7:۔ ” والذین یرمون ازواجھم الخ “ یہ چوتھا حکم ہے۔ پہلے اجنبی پاک دامن عورتوں پر تہمت لگانے کا حکم بیان کیا گیا اب اس کی مناسبت سے اپنی بیویوں پر تہمت زنا لگانے کا حکم بیان کیا جاتا ہے لما ذکر حکم قذف الاجنبیات بین حکم قذف الزوجات (مدارک ج 3 ص 102) ۔ اگر کوئی شخص اپنی بیوی پر تہمت زنا لگا دے اور گواہ...  پیش نہ کرسکے تو اس پر حد قذف نہیں بلکہ ان دونوں میاں بیوی کے درمیان لعان ہوگا یعنی دونوں میاں بیوی چار چار بار قسم کھا کر اپنی سچائی کی گواہی دیں اور پانچویں بار اپنے اوپر بد دعا کریں کہ وہ اگر جھوٹے ہوں تو خدا ان پر لعنت کرے۔ ” فشھادۃ احدھم “ یہ تہمت لگانے والے کیلئے چار شہادتوں کا طریقہ ہے کہ وہ چار بار قسم کھا کر شہادت دے کہ وہ تہمت میں سچا ہے۔ والخامسۃ الخ اور پانچویں بار یوں کہے کہ اگر وہ جھوٹا ہو تو اس پر خدا کی لعنت۔ اگر خاوند اس طرح لعان کرے تو اس پر حد قذف نہیں ہوگی۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(6) اور جو لوگ اپنی بیویوں پر زنا کی تہمت لگائیں اور ان کے پاس سوائے اپنی ذات کے اور کوئی گواہ نہ ہو تو ایسے لوگوں کی گواہی یہی ہے کہ وہ چار بار اللہ کی قسم کھاکر یہ کہے کہ بیشک وہ اپنے دعوے میں سچا ہے۔