Surat un Noor

Surah: 24

Verse: 62

سورة النور

اِنَّمَا الۡمُؤۡمِنُوۡنَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ اِذَا کَانُوۡا مَعَہٗ عَلٰۤی اَمۡرٍ جَامِعٍ لَّمۡ یَذۡہَبُوۡا حَتّٰی یَسۡتَاۡذِنُوۡہُ ؕ اِنَّ الَّذِیۡنَ یَسۡتَاۡذِنُوۡنَکَ اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ ۚ فَاِذَا اسۡتَاۡذَنُوۡکَ لِبَعۡضِ شَاۡنِہِمۡ فَاۡذَنۡ لِّمَنۡ شِئۡتَ مِنۡہُمۡ وَ اسۡتَغۡفِرۡ لَہُمُ اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۶۲﴾

The believers are only those who believe in Allah and His Messenger and, when they are [meeting] with him for a matter of common interest, do not depart until they have asked his permission. Indeed, those who ask your permission, [O Muhammad] - those are the ones who believe in Allah and His Messenger. So when they ask your permission for something of their affairs, then give permission to whom you will among them and ask forgiveness for them of Allah . Indeed, Allah is Forgiving and Merciful.

با ایمان لوگ تو وہی ہیں جو اللہ تعالٰی پر اور اس کے رسول پر یقین رکھتے ہیں اور جب ایسے معاملہ میں جس میں لوگوں کے جمع ہونے کی ضرورت ہوتی ہے نبی کے ساتھ ہوتے ہیں توجب تک آپ سے اجازت نہ لیں کہیں نہیں جاتے ۔ جو لوگ ایسے موقع پر آپ سے اجازت لے لیتے ہیں حقیقت میں یہی ہیں جو اللہ تعالٰی پر اور اس کے رسول پر ایمان لا چکے ہیں پس جب ایسے لوگ آپ سے اپنے کسی کام کے لئے اجازت طلب کریں تو آپ ان میں سے جسے چاہیں اجازت دے دیں اور ان کے لئے اللہ تعالٰی سے بخشش کی دعا مانگیں ، بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Asking Permission to leave when They are doing something together Allah says: إِنَّمَا الْمُوْمِنُونَ الَّذِينَ امَنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَإِذَا كَانُوا مَعَهُ عَلَى أَمْرٍ جَامِعٍ لَمْ يَذْهَبُوا حَتَّى يَسْتَأْذِنُوهُ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَأْذِنُونَكَ أُوْلَيِكَ الَّذِينَ يُوْمِنُونَ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ فَإِذَا اسْتَأْذَنُوكَ لِبَعْضِ شَأْنِهِمْ فَأْذَن لِّمَن شِيْتَ مِنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمُ اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ The believers are only those who believe in Allah and His Messenger; and when they are with him on some common matter, they go not away until they have asked his permission. Verily, those who ask your permission, those are they who (really) believe in Allah and His Messenger. So if they ask your permission for some affairs of theirs, give permission to whom you will of them, and ask Allah for their forgiveness. Truly, Allah is Oft-Forgiving, Most Merciful. This is another matter of etiquette to which Allah has guided His believing servants. Just as He commanded them to seek permission when entering, He also commanded them to seek permission when leaving, especially when they are doing something together with the Messenger, such as the Friday, `Id, or congregational prayers, or a meeting for the purpose of consultation and so on. Allah commanded them not to leave him in these situations until they had asked his permission. If they did this, then they were of the true believers. Then Allah commanded His Messenger to give permission when someone asked for it, if he wanted to. He said: ... شَأْنِهِمْ فَأْذَن لِّمَن شِيْتَ مِنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمُ اللَّهَ ... give permission to whom you will of them, and ask Allah for their forgiveness. Abu Dawud reported that Abu Hurayrah said, "The Messenger of Allah said: إِذَا انْتَهَى أَحَدُكُمْ إِلَى الْمَجْلِسِ فَلْيُسَلِّمْ فَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَقُومَ فَلْيُسَلِّمْ فَلَيْسَتِ الاُْولَى بِأَحَقَّ مِنَ الاْخِرَةِ When any of you joins a gathering, let him say Salam, and when he wants to leave, let him say Salam. The former is not more important than the latter. This was also recorded by At-Tirmidhi and An-Nasa'i; At-Tirmidhi said: "It is a Hasan Hadith."

رخصت پر بھی اجازت مانگو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ایک ادب اور بھی سکھاتا ہے کہ جیسے آتے ہوئے اجازت مانگ کر آتے ہو ایسے جانے کے وقت بھی میرے نبی سے اجازت مانگ کر جاؤ ۔ خصوصا ایسے وقت جب کہ مجمع ہو اور کسی ضروری امر پر مجلس ہوئی ہو مثلا نماز جمعہ ہے یا نماز عید ہے یا جماعت ہے یا کوئی مجلس شوری ہم تو ایسے موقعوں پر جب تک حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت نہ لے لو ہرگز ادھر ادھر نہ جاؤ مومن کامل کی ایک نشانی یہ بھی ہے ۔ پھر اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا کہ جب یہ اپنے کسی ضروری کام کے لئے آپ سے اجازت چاہیں تو آپ ان میں سے جسم چاہیں اجازت دے دیا کریں اور ان کے لئے طلب بخشش کی دعائیں بھی کرتے رہیں ۔ ابو داؤد وغیرہ میں ہے جب تم میں سے کوئی کسی مجلس میں جائے تو اہل مجلس کو سلام کر لیا کرے اور جب وہاں سے آنا چاہے تو بھی سلام کر لیاکرے آخری دفعہ کا سلام پہلی مرتبہ کے سلام سے کچھ کم نہیں ہے ۔ یہ حدیث ترمذی میں بھی ہے اور امام صاحب نے اسے حسن فرمایا ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

621یعنی جمعہ وعیدین کے اجتماعات میں یا داخلی و بیرونی مسئلے پر مشاورت کے لئے بلائے گئے اجلاس میں اہل ایمان تو حاضر ہوتے ہیں، اسی طرح اگر وہ شرکت سے معذور ہوتے ہیں تو اجازت طلب کرتے ہیں۔ جس کا مطلب دوسرے لفظوں میں یہ ہوا کہ منافقین ایسے اجتماعات میں شرکت سے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اجازت مانگنے سے گریز کرتے ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٩٩] یعنی ایسے امور جن کا تعلق سب مسلمانوں سے مشترک ہو۔ جیسے جہاد یا مجلس مشاورت، یا کوئی مشترکہ مفادات کے لئے اجتماع ہو۔ خواہ ایسی میٹنگ جنگ یا حالات جنگ سے تعلق رکھتی ہو یا حالت امن سے، مومنوں کا یہ کام نہیں کہ آپ سے اجازت لئے بغیر وہاں سے چل دیں۔ ہاں اگر انھیں کسی ضروری کام کی بنا پر اس مجلس و اجتماع کے اختتام سے پہلے واپس آنا ضروری ہو تو وہ اس سے رخصت ہونے کی اجازت طلب کرتے ہیں۔ اجازت لئے بغیر وہاں سے چلے نہیں آتے۔ اگر وہ اپنی کوئی ضرورت آپ سے بیان کریں۔ تو انھیں اجازت دینا آپ کی صوابدیدی پر منحصر ہے اور اگر یہ سمجھیں کہ اس کا ذاتی کام اس اجتماعی مفاد کے مقابلہ میں کچھ اہمیت نہیں رکھتا۔ تو بیشک آپ انھیں اجازت نہ دیں۔ اور اگر آپ انھیں اجازت دے دیں تو ان کے لئے دعائے مغفرت بھی کیجئے۔ کیونکہ اپنی کسی ذاتی غرض کی خاطر اجتماعی معاملات اور آپ کی صحبت سے محروم رہنما حقیقتاً دنیا کو دین پر ترجیح دینے کے مترادف ہے۔ لہذا اگر کسی مخلص مومن کو اس کی التجا کی بنا پر آپ اجازت دے بھی دیں تو اس کے حق میں آپ کے استغفار کی برکت سے اس تقصیر کا تدارک ہوسکے گا۔ ضمناً اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ کسی واقعی ضرورت کے بغیر ایسے اجتماعی مفاد کی مجلس سے اجازت طلب کرنا قطعاً ناجائز ہے۔ علاوہ ازیں یہ حکم آپ کی ذات یا آپ کی زندگی تک ہی محدود نہیں بلکہ آپ کے بعد آپ کے خلفائے راشدین یا کسی بھی اسلامی حکومت کے ایسے مشترکہ مفاد کی مجلس سے بلا اجازت چلے آنا آداب مجلس کے ہی خلاف ہے اور شرعاً ناجائز بھی ہے مجلس کو چھوڑ کرجانے کا جواز صرف اس صورت میں ہے کہ فی الحقیقت کوئی ضرورت لاحق ہو۔ جس کی بنا پر میر مجلس سے رخصت ہونے کی اجازت حاصل کی جائے۔ اور اگر میر مجلس اس کو اجازت دینے یا اس کے ذاتی کام کے مقابلہ میں اس کے شریک مجلس رہنے کو زیادہ اہم سمجھتا ہو اور وہ اجازت نہ دے تو کسی مومن کو اس سے کچھ شکایت نہیں ہونا چاہئے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا باللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ ۔۔ : اس سے پہلے گھروں میں داخل ہوتے وقت اجازت طلب کرنے کا حکم دیا تھا، اب نکلتے وقت اجازت طلب کرنے کا حکم دیا، خصوصاً جب کسی اہم کام کے لیے اکٹھا کیا گیا ہو، مثلاً کسی کام کے بارے میں مشورہ ہو، یا جہاد کے لیے جمع کیا گیا ہو، یا نصیحت کے لیے جمع کیا گیا ہو، یا جیسا کہ خندق کھودنے کے لیے مسلمان اکٹھے ہوئے تھے، ایسے موقعوں پر منافقین جان بچانے کے لیے بلا اجازت نکل جاتے تھے، جیسا کہ اس کے بعد والی آیت میں فرمایا : (قَدْ يَعْلَمُ اللّٰهُ الَّذِيْنَ يَتَسَلَّـلُوْنَ مِنْكُمْ لِوَاذًا ) [ النور : ٦٣ ] ” بیشک اللہ ان لوگوں کو جانتا ہے جو تم میں سے ایک دوسرے کی آڑ لیتے ہوئے کھسک جاتے ہیں۔ “ اور دوسری جگہ فرمایا : (وَاِذَا مَآ اُنْزِلَتْ سُوْرَةٌ نَّظَرَ بَعْضُھُمْ اِلٰى بَعْضٍ ۭ هَلْ يَرٰىكُمْ مِّنْ اَحَدٍ ثُمَّ انْصَرَفُوْا ۭ صَرَفَ اللّٰهُ قُلُوْبَھُمْ بِاَنَّھُمْ قَوْمٌ لَّا يَفْقَهُوْنَ ) [ التوبۃ : ١٢٧ ] ” اور جب بھی کوئی سورت نازل کی جاتی ہے تو ان کا بعض بعض کی طرف دیکھتا ہے کہ کیا تمہیں کوئی دیکھ رہا ہے ؟ پھر واپس پلٹ جاتے ہیں۔ اللہ نے ان کے دل پھیر دیے ہیں، اس لیے کہ وہ ایسے لوگ ہیں جو نہیں سمجھتے۔ “ بعض اہل علم نے فرمایا کہ یہاں منافقین کی صریح الفاظ میں مذمت کے بجائے اجازت لے کر جانے والے مسلمانوں کی تعریف کرکے فرمایا کہ مومن صرف یہ ہیں اور یہ بات اسی آیت میں دو دفعہ بیان فرمائی، ایک ” اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ۔۔ “ اور دوسری ”ۭاِنَّ الَّذِيْنَ يَسْتَاْذِنُوْنَكَ اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ باللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ “ اس سے ظاہر ہے کہ ایسے موقع پر اجازت کے بغیر کھسک جانے والوں میں کامل ایمان نہیں، یا وہ ایمان سے بالکل ہی فارغ ہیں۔ مگر یہ بات صراحت کے بجائے کنائے سے بیان فرمائی، گویا منافقین اس قابل نہیں کہ ان کا نام مذمت کے لیے بھی لیا جائے۔ فَاِذَا اسْتَاْذَنُوْكَ لِبَعْضِ شَاْنِهِمْ فَاْذَنْ لِّمَنْ شِئْتَ مِنْهُمْ : اس سے معلوم ہوا کہ اجازت بلاوجہ نہیں بلکہ اپنے کسی اہم کام کے لیے مانگنی چاہیے اور یہ بھی کہ امیر کو اختیار ہے کہ جسے چاہے اجازت دے اور جسے چاہے نہ دے، کیونکہ وہ بہتر جانتا ہے کہ مجلس کی اہمیت کے پیش نظر کسے اجازت دینے کی گنجائش ہے۔ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمُ اللّٰهَ : اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ عذر کی بنا پر اگرچہ اجازت لے کر جانا جائز ہے مگر پھر بھی اچھا نہیں ہے، کیونکہ یہ دنیا کے کام کو دین پر مقدم رکھنا ہے، اس لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایسے لوگوں کے لیے مغفرت کی دعا کرنے کا حکم دیا ہے۔ (وحیدی) 3 یہ آیت امت کی مصلحت کے لیے جماعتی نظم کی بنیاد ہے، کیونکہ سنت یہ ہے کہ ہر اجتماع کے لیے (چھوٹا ہو یا بڑا) ایک امیر ہو۔ ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( إِذَا کَانَ ثَلَاثَۃٌ فِيْ سَفَرٍ فَلْیُؤَمِّرُوْا أَحَدَھُمْ ) [ أبوداوٗد، الجہاد، باب في القوم یسافرون۔۔ : ٢٦٠٩، قال الألباني حسن صحیح ] ” جب سفر میں تین (٣) آدمی ہوں تو وہ اپنے میں سے ایک کو امیر بنالیں۔ “ یہ امیر ان مسلمانوں کے لیے ولی الامر کا قائم مقام ہوگا اور اس کی حیثیت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جانشین کی ہوگی، اس لیے اس کے اجتماع سے اس کی اجازت کے بغیر جانا جائز نہیں، کیونکہ اگر ہر شخص کو اپنی مرضی سے کھسک جانے کی اجازت ہے تو کوئی اجتماع بکھرنے سے نہیں بچے گا۔ اسی طرح جب امیر کسی دینی، سیاسی یا جہادی ضرورت کے لیے مجلس بلائے تو طے شدہ مقام اور وقت سے اجازت یا صحیح عذر کے بغیر پیچھے رہنا جائز نہیں۔ (ابن عاشور)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary Some etiquettes and injunctions in regard to meetings with the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) & in particular, and in the society in general The above verses contain two injunctions. The first injunction is that when the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) call people for the meeting in connection with jihad or any other religious matter, the demand of the faith is that all should attend and must not leave the meeting without his permission. If there is an emergency, permission may be sought from the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، who was advised that unless there is special need and requirement, permission may be granted on such requests. In the same connection those hypocrites are condemned who would come to attend the meeting only to fulfill the obligation of faith, but would quietly sneak out under the cover of some other person. This verse was revealed at the time of the battle of Ahzab, when the Arab disbelievers and other groups joined together and suddenly attacked Madinah. After consultations with the companions, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) consented to dig up a trench to defend against the attack. For this reason this battle is also known as &the battle of trench (Khandaq) &. This battle was fought in Shawwal 5th Hijra. (Qurtubi) Baihaqi and Ibn Ishaq have reported that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) himself had taken part in the digging of the trench. But the hypocrites used to come late in the first place, and after doing a little bit of work just to show their presence, would sneak away quietly. As against this all the believers were putting in their best, and in case of any need or emergency would take permission from the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) before leaving the work. At that point this verse was revealed. (Mazhari) A question and its answer It appears from this verse that it is forbidden to get up and leave from the presence of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) without seeking his permission. But there are several incidents when companions used to leave his meeting when they wished and would not deem it necessary to take his permission. The answer to this point is that the injunction mentioned in the present verse is not an injunction for ordinary meetings, but it is meant for specific gatherings, which the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) might have called for some need, as was the case at the time of battle of the trench. The phrase ) عَلَىٰ أَمْرٍ‌ جَامِعٍ (for a collective matter - 62) is itself pointing toward this exclusivity. What does أَمْرٍ‌ جَامِعٍ (collective matter) mean? There are different views on this point. The most evident explanation is that this phrase is used for such acts for which the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) felt necessary to collect the people, as he regarded it important to collect the people for digging the trench on the occasion of battle of Ahzab. (Qurtubi - Mazhari) Is this injunction exclusive to meetings of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) or is general? Since this injunction is issued for a religious and Islamic need, all the jurists agree that it is not exclusive to meetings of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . The same injunction would apply to any Imam or ruler of the Muslims who is in control of the government, if he called up a meeting. It is obligatory to attend the meetings called up by the rulers and it is not lawful to leave it without permission. (Qurtubi - Mazhari – Bayan ul-Quran) This is but obvious that this injunction has greater stress and emphasis for meetings called up by the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، and its opposition is open callousness. As for the common meetings and gatherings (not convened by a ruler), acting upon this injunction is surely preferable and commendable from the point of view of Islamic social etiquette. When Muslims are gathered in a meeting for deliberation or action on a collective issue, one should Ie:av ( the meeting only after taking permission from the presiding person. The second injunction The second injunction is given in the last verse:

خلاصہ تفسیر بس مسلمان تو وہی ہیں جو اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان رکھتے ہیں اور جب رسول کے پاس کسی ایسے کام پر جمع ہوتے ہیں جس کے لئے مجمع کیا گیا ہے (اور اتفاقاً وہاں سے کہیں جانے کی ضرورت پڑتی ہے) تو جب تک آپ سے اجازت نہ لیں ( اور آپ اس پر اجازت نہ دیدیں مجلس سے اٹھ کر) نہیں جاتے (اے پیغمبر) جو لوگ آپ سے (ایسے مواقع پر) اجازت لیتے ہیں بس وہی اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان رکھتے ہیں (آگے ایسے لوگوں کو اجازت دینے کا بیان ہے) تو جب یہ اہل ایمان لوگ (ایسے مواقع پر) اپنے کسی کام کے لئے آپ سے (جانے کی) اجازت طلب کریں تو ان میں آپ جس کے لئے (مناسب سمجھیں اور اجازت دینا) چاہیں اجازت دے دیاکریں ( اور جس کو مناسب نہ سمجھیں اجازت نہ دیں کیونکہ یہ ہوسکتا ہے کہ اجازت طلب کرنے والے اس کام کو ضروری سمجھتے ہوں جس کے لئے اجازت طلب کر رہے ہیں اور وہ واقع میں ضروری نہ ہو یا ضروری بھی ہو مگر اس کے جانے سے اس سے بڑا کوئی ضرر پیدا ہونے کا خطرہ ہو اس لئے اجازت و عدم اجازت کا فیصلہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا) اور (اجازت دے کر بھی) آپ ان کے لئے اللہ تعالیٰ سے مغفرت کی دعا کیا کیجئے ( کیونکہ ان کا یہ رخصت چاہنا اگرچہ قومی عذر ہی کی وجہ سے ہو مگر اس میں دنیا کو دین پر مقدم رکھنے کی صورت تو لازم آتی ہے جس میں ایک کوتاہی کا شائبہ ہے اس کے لئے آپ کی دعا مغفرت درکار ہے۔ دوسرے یہ بھی ممکن ہے کہ اجازت چاہنے والے نے جس عذر و ضرورت کو قومی سمجھ کر اجازت لی ہے اس میں اس سے خطاء اجتہادی ہوگئی ہو کہ غیر ضروری کو ضروری سمجھ لیا اور یہ خطاء اجتہادی ایسی ہو کہ ذرا غور و تامل سے رفع ہو سکتی ہو تو ایسی صورت میں غور و فکر کی کمی بھی ایک کوتاہی ہے اس سے استغفار کی ضرورت ہوئی) بلاشبہ اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے (چونکہ ان کی نیت اچھی تھی اس لئے ایسے وقائق پر مواخذہ نہیں فرماتا۔ ) تم لوگ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بلانے کو (جب وہ کسی اسلامی ضرورت کے لئے تم کو جمع کریں) ایسا (معمولی بلانا) مت سمجھو جیسا تم میں ایک دوسرے کو بلا لیتا ہے کہ چاہے آیا یا نہ آیا پھر آ کر بھی جب تک چاہا بیٹھا جب چاہا اٹھ کر بےاجازت چل دیا۔ رسول کا بلانا ایسا نہیں بلکہ ان کے اس حکم کی تعمیل واجب ہے اور بےاجازت واپس جانا حرام اور اگر کوئی بلا اجازت چلا گیا تو یہ ممکن ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کا جانا مخفی رہ جاوے لیکن یہ یاد رکھو کہ) اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو (خوب) جانتا ہے جو (دوسرے کی) آڑ میں ہو کر تم میں سے (مجلس نبوی سے) کھسک جاتے ہیں تو جو لوگ اللہ کے حکم کی (جو بواسطہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پہنچا ہے) مخالفت کرتے ہیں ان کو اس سے ڈرنا چاہئے کہ ان پر (دنیا میں) کوئی آفت آن پڑے یا ان پر (آخرت میں) کوئی درد ناک عذاب نازل ہوجاوے (اور یہ بھی ممکن ہے کہ دنیا آخرت دونوں میں عذاب ہو اور یہ بھی) یاد رکھو کہ جو کچھ آسمانوں میں اور زمین میں ہے سب خدا ہی کا ہے اللہ تعالیٰ اس حالت کو بھی جانتا ہے جس پر تم (اب) ہو اور اس دن کو بھی جس میں سب اس کے پاس (دوبارہ زندہ کر کے) لائے جاویں گے تو وہ ان کو سب جتلا دے گا جو کچھ انہوں نے کیا تھا (اور تمہاری موجودہ حالت اور روز قیامت ہی کی کچھ تخصیص نہیں) اللہ تعالیٰ (تو) سب کچھ جانتا ہے۔ معارف ومسائل نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مجلس کے خصوصاً اور عام معاشرت کے بعض آداب و احکام : آیات مذکور میں دو حکم دیئے گئے ہیں۔ پہلا یہ کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کو کسی دینی جہاد وغیرہ کے لئے جمع کریں تو مقتضائے ایمان یہ ہے کہ سب جمع ہوجاویں اور پھر آپ کی مجلس سے بغیر آپ کی اجازت کے نہ جائیں۔ کوئی ضرورت پیش آئے تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اجازت حاصل کرلیں اور اس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ ہدایت ہے کہ کوئی خاص حرج اور ضرورت نہ ہو تو اجازت دے دیاکریں۔ اسی ضمن میں ان منافقین کی مذمت ہے جو اس تقاضائے ایمان کے خلاف بدنامی سے بچنے کے لئے حاضر تو ہوجاتے ہیں مگر پھر کسی کی آڑ لے کر چپکے سے کھسک جاتے ہیں۔ یہ آیت غزوہ احزاب کے موقع پر نازل ہوئی ہے جبکہ مشرکین عرب اور دوسری جماعتوں کے متحدہ محاذ نے یکبارگی مدینہ پر حملہ کیا تھا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بمشورہ صحابہ ان کے حملے سے بچاؤ کے لئے خندق کھودی تھی اسی لئے اس جہاد کو غزوہ خندق بھی کہا جاتا ہے یہ غزوہ شوال ٠٥ ہجری میں ہوا ہے (قرطبی) بیہقی اور ابن اسحاق کی روایت میں ہے کہ اس وقت رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بذات خود اور تمام صحابہ خندق کھودنے میں مصروف کار تھے مگر منافقین اول تو آنے میں سستی کرتے اور پھر آ کر بھی معمولی سا کام دکھانے کو کرلیتے اور پھر چپکے سے غائب ہوجاتے تھے اس کے خلاف مومنین سب کے سب محنت کے ساتھ لگے رہتے اور کوئی مجبوری اور ضرورت پیش آتی تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اجازت لے کر جاتے تھے اس پر یہ آیت نازل ہوئی (مظہری) ایک سوال و جواب : اس آیت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مجلس سے بغیر آپ کی اجازت کے چلا جانا حرام ہے حالانکہ صحابہ کرام کے بیشمار واقعات ہیں جن میں وہ آپ کی مجلس میں ہوتے اور پھر جب چاہتے چلے جاتے تھے اجازت لینا ضروری نہ سمجھتے تھے۔ جواب یہ ہے کہ یہ عام مجلسوں کا حکم نہیں بلکہ اس وقت کا ہے جبکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو کسی ضرورت سے جمع کیا ہو جیسا کہ واقعہ خندق میں ہوا تھا اس تخصیص کی طرف خود آیت کے لفظ عَلٰٓي اَمْرٍ جَامِعٍ میں اشارہ موجود ہے۔ امر جامع سے کیا مراد ہے : اس میں اقوال مختلف ہیں مگر واضح بات یہ ہے کہ امر جامع سے مراد وہ کام ہے جس کے لئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کو جمع کرنا ضروری سمجھیں اور کسی خاص کام کے لئے جمع فرما دیں جیسے غزوہ احزاب میں خندق کھودنے کا کام تھا (قرطبی۔ مظہری) یہ حکم آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مجلس کے ساتھ مخصوص ہے یا عام : باتفاق فقہاء چونکہ یہ حکم ایک دینی اور اسلامی ضرورت کے لئے جاری کیا گیا ہے اور ایسی ضرورتیں ہر زمانے میں ہو سکتی ہیں اس لئے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مجلس کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ مسلمانوں کے ہر امام و امیر جس کے قبضہ میں زمام حکومت ہو اس کا اور اس کی ایسی مجلس کا بھی یہی حکم ہے کہ وہ سب کو جمع ہونے کا حکم دیں تو اس کی تعمیل واجب اور واپس جانا بغیر اجازت ناجائز ہے (قرطبی، مظہری، بیان القرآن) اور یہ ظاہر ہے کہ خود آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مجلس کے لئے یہ حکم زیادہ موکد اور اس کی مخالفت کھلی شقاوت ہے جیسے منفاقین سے صادر ہوئی اور اسلامی آداب معاشرت کے لحاظ سے یہ حکم باہمی اجتماعات اور عام مجلسوں کے لئے بھی کم از کم مستحب اور مستحسن ضرور ہے کہ جب مسلمان کسی مجلس میں کسی اجتماعی معاملہ میں غور کرنے یا عمل کرنے کے لئے جمع ہوئے ہوں تو جب جانا ہو میر مجلس سے اجازت لے کر جائیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِاللہِ وَرَسُوْلِہٖ وَاِذَا كَانُوْا مَعَہٗ عَلٰٓي اَمْرٍ جَامِعٍ لَّمْ يَذْہَبُوْا حَتّٰى يَسْتَاْذِنُوْہُ ۭ اِنَّ الَّذِيْنَ يَسْتَاْذِنُوْنَكَ اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَرَسُوْلِہٖ ۚ فَاِذَا اسْتَاْذَنُوْكَ لِبَعْضِ شَاْنِہِمْ فَاْذَنْ لِّمَنْ شِئْتَ مِنْہُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَہُمُ اللہَ ٠ۭ اِنَّ اللہَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۝ ٦٢ أیمان يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ( ا م ن ) الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ { وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ } ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ الله الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم/ 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، ( ا ل ہ ) اللہ (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ { هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا } ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ أمر الأَمْرُ : الشأن، وجمعه أُمُور، ومصدر أمرته : إذا کلّفته أن يفعل شيئا، وهو لفظ عام للأفعال والأقوال کلها، وعلی ذلک قوله تعالی: إِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ [هود/ 123] ( ا م ر ) الامر ( اسم ) کے معنی شان یعنی حالت کے ہیں ۔ اس کی جمع امور ہے اور امرتہ ( ن ) کا مصدر بھی امر آتا ہے جس کے معنی حکم دینا کے ہیں امر کا لفظ جملہ اقوال وافعال کے لئے عام ہے ۔ چناچہ آیات :۔ { وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ } ( سورة هود 123) اور تمام امور کا رجوع اسی طرف ہے جمع الجَمْع : ضمّ الشیء بتقریب بعضه من بعض، يقال : جَمَعْتُهُ فَاجْتَمَعَ ، وقال عزّ وجل : وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ [ القیامة/ 9] ، وَجَمَعَ فَأَوْعى [ المعارج/ 18] ، جَمَعَ مالًا وَعَدَّدَهُ [ الهمزة/ 2] ، ( ج م ع ) الجمع ( ف ) کے معنی ہیں متفرق چیزوں کو ایک دوسرے کے قریب لاکر ملا دینا ۔ محاورہ ہے : ۔ چناچہ وہ اکٹھا ہوگیا ۔ قرآن میں ہے ۔ وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ [ القیامة/ 9] اور سورج اور چاند جمع کردیئے جائیں گے ۔ ( مال ) جمع کیا اور بند رکھا ۔ جَمَعَ مالًا وَعَدَّدَهُ [ الهمزة/ 2] مال جمع کرتا ہے اور اس کو گن گن کر رکھتا ہے ذهب الذَّهَبُ معروف، وربما قيل ذَهَبَةٌ ، ويستعمل ذلک في الأعيان والمعاني، قال اللہ تعالی: وَقالَ إِنِّي ذاهِبٌ إِلى رَبِّي[ الصافات/ 99] ، ( ذ ھ ب ) الذھب ذھب ( ف) بالشیء واذھبتہ لے جانا ۔ یہ اعیان ومعانی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : إِنِّي ذاهِبٌ إِلى رَبِّي[ الصافات/ 99] کہ میں اپنے پروردگار کی طرف جانے والا ہوں ۔ استئذان : طلب الإذن، قال تعالی: إِنَّما يَسْتَأْذِنُكَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ [ التوبة/ 45] ، فَإِذَا اسْتَأْذَنُوكَ [ النور/ 62] . الاستئذن کے معنی اجازت طلب کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ { إِنَّمَا يَسْتَأْذِنُكَ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِاللهِ } ( سورة التوبة 45) اجازت دہی لوگ مانگتے ہیں جو خدا پر اور پچھلے دن پر ایمان نہیں رکھتے ۔ { فَإِذَا اسْتَأْذَنُوكَ } ( سورة النور 62) سو جب یہ لوگ تم سے کسی کام کے لئے ) اجازت مانگا کریں ۔ بعض بَعْضُ الشیء : جزء منه، ويقال ذلک بمراعاة كلّ ، ولذلک يقابل به كلّ ، فيقال : بعضه وكلّه، وجمعه أَبْعَاض . قال عزّ وجلّ : بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة/ 36] ( ب ع ض ) بعض الشئی ہر چیز کے کچھ حصہ کو کہتے ہیں اور یہ کل کے اعتبار سے بولا جاتا ہے اسلئے کل کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے جیسے : بعضہ وکلہ اس کی جمع ابعاض آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة/ 36] تم ایک دوسرے کے دشمن ہو ۔ شأن الشَّأْنُ : الحال والأمر الذي يتّفق ويصلح، ولا يقال إلّا فيما يعظم من الأحوال والأمور . قال اللہ تعالی: كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ [ الرحمن/ 29] ، وشَأْنُ الرّأس جمعه : شَئُونٌ ، وهو الوصلة بين متقابلاته التي بها قوام الإنسان . ( ش ء ن ) شان کے معنی حالت اور اس اتفاقی معاملہ کے ہیں جو کسی کے مناسب حال ہو ۔ اسکا اطلاق صرف اہم امور اور حالات پر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ [ الرحمن/ 29] ہر روز کام میں مصروف رہتا ہے شان الراس کھوپڑی کی چھوٹی چھوٹی ہڈیوں کے ملنے کی جگہ جس سے انسان کا قوام ہے اسکی جمع شؤون آتی ہے ۔ شاء الشَّيْءُ قيل : هو الذي يصحّ أن يعلم ويخبر عنه، وعند کثير من المتکلّمين هو اسم مشترک المعنی إذ استعمل في اللہ وفي غيره، ويقع علی الموجود والمعدوم . وعند بعضهم : الشَّيْءُ عبارة عن الموجود «2» ، وأصله : مصدر شَاءَ ، وإذا وصف به تعالیٰ فمعناه : شَاءَ ، وإذا وصف به غيره فمعناه الْمَشِيءُ ، وعلی الثاني قوله تعالی: قُلِ اللَّهُ خالِقُ كُلِّ شَيْءٍ [ الرعد/ 16] ، فهذا علی العموم بلا مثنويّة إذ کان الشیء هاهنا مصدرا في معنی المفعول . وقوله : قُلْ أَيُّ شَيْءٍ أَكْبَرُ شَهادَةً [ الأنعام/ 19] ، فهو بمعنی الفاعل کقوله : فَتَبارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخالِقِينَ [ المؤمنون/ 14] . والْمَشِيئَةُ عند أكثر المتکلّمين كالإرادة سواء، وعند بعضهم : المشيئة في الأصل : إيجاد الشیء وإصابته، وإن کان قد يستعمل في التّعارف موضع الإرادة، فالمشيئة من اللہ تعالیٰ هي الإيجاد، ومن الناس هي الإصابة، قال : والمشيئة من اللہ تقتضي وجود الشیء، ولذلک قيل : ( ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن) «3» ، والإرادة منه لا تقتضي وجود المراد لا محالة، ألا تری أنه قال : يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة/ 185] ، وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر/ 31] ، ومعلوم أنه قد يحصل العسر والتّظالم فيما بين الناس، قالوا : ومن الفرق بينهما أنّ إرادة الإنسان قد تحصل من غير أن تتقدّمها إرادة الله، فإنّ الإنسان قد يريد أن لا يموت، ويأبى اللہ ذلك، ومشيئته لا تکون إلّا بعد مشيئته لقوله : وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان/ 30] ، روي أنّه لما نزل قوله : لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير/ 28] ، قال الکفّار : الأمر إلينا إن شئنا استقمنا، وإن شئنا لم نستقم، فأنزل اللہ تعالیٰ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ «1» ، وقال بعضهم : لولا أن الأمور کلّها موقوفة علی مشيئة اللہ تعالی، وأنّ أفعالنا معلّقة بها وموقوفة عليها لما أجمع الناس علی تعلیق الاستثناء به في جمیع أفعالنا نحو : سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِينَ [ الصافات/ 102] ، سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ صابِراً [ الكهف/ 69] ، يَأْتِيكُمْ بِهِ اللَّهُ إِنْ شاءَ [هود/ 33] ، ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شاءَ اللَّهُ [يوسف/ 69] ، قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا إِلَّا ما شاء اللَّهُ [ الأعراف/ 188] ، وَما يَكُونُ لَنا أَنْ نَعُودَ فِيها إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ رَبُّنا [ الأعراف/ 89] ، وَلا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فاعِلٌ ذلِكَ غَداً إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الكهف/ 24] . ( ش ی ء ) الشیئ بعض کے نزدیک شی وہ ہوتی ہے جس کا علم ہوسکے اور اس کے متعلق خبر دی جاسکے اور اکثر متکلمین کے نزدیک یہ اسم مشترک ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے ما سوی پر بھی بولا جاتا ہے ۔ اور موجودات اور معدومات سب کو شے کہہ دیتے ہیں ، بعض نے کہا ہے کہ شے صرف موجود چیز کو کہتے ہیں ۔ یہ اصل میں شاء کا مصدر ہے اور جب اللہ تعالیٰ کے متعلق شے کا لفظ استعمال ہو تو یہ بمعنی شاء یعنی اسم فاعل کے ہوتا ہے ۔ اور غیر اللہ پر بولا جائے تو مشیء ( اسم مفعول ) کے معنی میں ہوتا ہے ۔ پس آیت کریمہ : ۔ قُلِ اللَّهُ خالِقُ كُلِّ شَيْءٍ [ الرعد/ 16] خدا ہی ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے ۔ میں لفظ شی چونکہ دوسرے معنی ( اسم مفعول ) میں استعمال ہوا ہے اس لئے یہ عموم پر محمول ہوگا اور اس سے کسی قسم کا استثناء نہیں کیا جائیگا کیونکہ شی مصدر بمعنی المفعول ہے مگر آیت کریمہ : ۔/ قُلْ أَيُّ شَيْءٍ أَكْبَرُ شَهادَةً [ الأنعام/ 19] ان سے پوچھو کہ سب سے بڑھ کر ( قرین انصاف ) کس کی شہادت ہے میں شے بمعنی اسم فاعل ہے اور اللہ تعالیٰ کو اکبر شھادۃ کہنا ایسے ہی ہے جیسا کہ دوسری ایت ۔ فَتَبارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخالِقِينَ [ المؤمنون/ 14] ( تو خدا جو سب سے بہتر بنانے والا بڑا بابرکت ہے ) میں ذات باری تعالیٰ کو احسن الخالقین کہا گیا ہے ۔ المشیئۃ اکثر متکلمین کے نزدیک مشیئت اور ارادہ ایک ہی صفت کے دو نام ہیں لیکن بعض کے نزدیک دونوں میں فرق سے ( 1 ) مشیئت کے اصل معنی کسی چیز کی ایجاد یا کسی چیز کو پا لینے کے ہیں ۔ اگرچہ عرف میں مشیئت ارادہ کی جگہ استعمال ہوتا ہے پس اللہ تعالیٰ کی مشیئت کے معنی اشیاء کو موجود کرنے کے ہیں اور لوگوں کی مشیئت کے معنی کسی چیز کو پالینے کے ہیں پھر اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کو چاہنا چونکہ اس کے وجود کو مقتضی ہوتا ہے اسی بنا پر کہا گیا ہے ۔ ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن کہ جو اللہ تعالیٰ چاہے وہی ہوتا ہے اور جو نہ چاہے نہیں ہوتا ۔ ہاں اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کا ارادہ کرنا اس کے حتمی وجود کو نہیں چاہتا چناچہ قرآن میں ہے : ۔ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة/ 185] خدا تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا ۔ وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر/ 31] اور خدا تو بندوں پر ظلم کرنا نہیں چاہتا ۔ کیونکہ یہ واقعہ ہے کہ لوگوں میں عسرۃ اور ظلم پائے جاتے ہیں ۔ ( 2 ) اور ارادہ میں دوسرا فرق یہ ہے کہ انسان کا ارادہ تو اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے بغیر ہوسکتا ہے مثلا انسان چاہتا ہے کہ اسے موت نہ آئے لیکن اللہ تعالیٰ اس کو مار لیتا ہے ۔ لیکن مشیئت انسانی مشئیت الہیٰ کے بغیروجود ہیں نہیں آسکتی جیسے فرمایا : ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان/ 30] اور تم کچھ بھی نہیں چاہتے مگر وہی جو خدائے رب العلمین چاہے ایک روایت ہے کہ جب آیت : ۔ لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير/ 28] یعنی اس کے لئے جو تم میں سے سیدھی چال چلنا چاہے ۔ نازل ہوئی تو کفار نے کہا ہے یہ معاملہ تو ہمارے اختیار میں ہے کہ ہم چاہیں تو استقامت اختیار کریں اور چاہیں تو انکار کردیں اس پر آیت کریمہ ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ «1» نازل ہوئی ۔ بعض نے کہا ہے کہ اگر تمام امور اللہ تعالیٰ کی مشیئت پر موقوف نہ ہوتے اور ہمارے افعال اس پر معلق اور منحصر نہ ہوتے تو لوگ تمام افعال انسانیہ میں انشاء اللہ کے ذریعہ اشتشناء کی تعلیق پر متفق نہیں ہوسکتے تھے ۔ قرآن میں ہے : ۔ سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّه مِنَ الصَّابِرِينَ [ الصافات/ 102] خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابروں میں پائے گا ۔ سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ صابِراً [ الكهف/ 69] خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابر پائیں گے ۔ يَأْتِيكُمْ بِهِ اللَّهُ إِنْ شاءَ [هود/ 33] اگر اس کو خدا چاہے گا تو نازل کریگا ۔ ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شاءَ اللَّهُ [يوسف/ 69] مصر میں داخل ہوجائیے خدا نے چاہا تو ۔۔۔۔۔۔۔ قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا إِلَّا ما شاء اللَّهُ [ الأعراف/ 188] کہدو کہ میں اپنے فائدے اور نقصان کا کچھ بھی اختیار نہیں رکھتا مگر جو خدا چاہے وما يَكُونُ لَنا أَنْ نَعُودَ فِيها إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّہُ رَبُّنا [ الأعراف/ 89] ہمیں شایان نہیں کہ ہم اس میں لوٹ جائیں ہاں خدا جو ہمارا پروردگار ہے وہ چاہے تو ( ہم مجبور ہیں ) ۔ وَلا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فاعِلٌ ذلِكَ غَداً إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الكهف/ 24] اور کسی کام کی نسبت نہ کہنا کہ میں اسے کل کروں گا مگر ان شاء اللہ کہہ کر یعنی اگر خدا چاہے ۔ استغفار الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، والاسْتِغْفَارُ : طلب ذلک بالمقال والفعال، وقوله : اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كانَ غَفَّاراً [ نوح/ 10] ( غ ف ر ) الغفر ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اور استغفار کے معنی قول اور عمل سے مغفرت طلب کرنے کے ہیں لہذا آیت کریمہ : ۔ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كانَ غَفَّاراً [ نوح/ 10] اپنے پروردگار سے معافی مانگو کہ بڑا معاف کر نیوالا ہے ۔ غفر الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] ( غ ف ر ) الغفر ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔ رحم والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» ( ر ح م ) الرحم ۔ الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ،

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

اجتماچ سے بغیر اجازت جانا درست نہیں قول باری ہے (واذا کانوا معہ علی امر جامع لم یذھبوا حتی یستاذنوہ ) اور جب کسی اجتماع کام کے موقعہ پر رسول کے ساتھ ہوں تو اس سے اجازت لیے بغیر نہ جائیں۔ حسن اور سعید بن جبیر نے کہا ہے کہ امر جامع سے مراد جہاد ہے۔ عطاء کا قول ہے کہ اس سے ہر اجتماعی کام مراد ہے مکحول کا قول ہے کہ اس سے جمعہ اور قتال مراد ہیں۔ زہری کا قول ہے کہ جمعہ مراد ہے۔ قتادہ کا قول ہے کہ ہر ایسا کام جو اللہ کی طاعت کے سلسلے میں کیا جارہا ہو۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ عموم لفظ کی بنا پر تمام توجیہات مراد ہوسکتی ہیں۔ سعید نے پتادہ سے اس آیت کی تفسیر میں روایت کی ہے کہ اللہ نے پہلے سورة براء ۃ میں یہ آیت نازل فرمائی تھی (عفا اللہ عنک لم اذنت لھم) اللہ تعالیٰ تمہیں معاف کرے تم نے انہیں اجازت کیوں دی، پھر الہل تعالیٰ نے اس صورت میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کی رخصت دے دی اور فرمایا (فاذنہ لمن شئت منھم) ان میں سے آپ جسے چاہیں جانے کی اجازت دے دیں، اس طرح اس آیت نے سورة براء ۃ کی آیت کو منسوخ کردیا۔ ایک قول کے مطابق جمعہ کے دوران اگر کسی کو حدث لاحق ہوجائے تو اسے وضو کے لئے جانے کی خاطراجازت لینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اجازت طلب کرنے کی بات ایک بےمعنی سی بات ہے ، جب امام کے لئے اسے وضو کرنے سے روکنا جائز نہیں ہے تو اس سے وضو کے لئے اجازت طلب کرنے کے کوئی معنی نہیں ہیں اجازت تو وہاں لی جاتی ہے جہاں امام کو اس کی معنویت اور مدد کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ ضرورت دو صورتوں میں پیش آتی ہے، قتال کی صورت میں یا باہمی مشاورت کی صورت میں۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٦٢) سچے ایماندار تو وہی ہیں جو ظاہر و باطن کے ساتھ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتے ہیں اور جب رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ جمعہ کی نماز کے لیے ہوتے ہیں یا آپ کے ساتھ کسی جہاد پر ہوتے ہیں تو جب تک آپ سے اجازت نہ لے لیں تو جمعہ یا جہاد سے واپس نہیں جاتے، اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو لوگ آپ سے ایسے موقع پر اجازت لیتے ہیں بس وہی اللہ پر اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان رکھتے ہیں۔ حضرت عمر فاروق (رض) کو غزوہ تبوک میں ایک ضروری کام کے لیے آپ سے جانے کی اجازت طلب کریں تو ان میں سے آپ جس کو چاہیں اجازت دے دیا کریں اور اجازت دینے کے بعد بھی آپ ان کے لیے مغفرت کی دعا کیجیے بیشک اللہ تعالیٰ تائب کو بخشنے والا اور اس پر بڑا مہربان ہے۔ شان نزول : ( آیت ) ”۔ انما المؤمنون الذین امنوا “۔ (الخ) ابن اسحاق (رح) نے اور بیہقی (رح) نے دلائل میں عروہ اور محمد بن کعب قرضی سے روایت کیا ہے کہ احزاب کے سال جس وقت قریش مقابلہ کے لیے آئے تو انہوں نے مدینہ منورہ کے قریب مجمع الاسیال میں پڑاؤ ڈالا اور ان کا سپہ سالار ابوسفیان تھا، ادھر سے قبیلہ غطفان آیا اور اس نے احد پہاڑ کے کنارے پر پڑاؤ کیا، رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس چیز کی اطلاع ہوئی تو آپ نے مدینہ منورہ کے باہر خندق کھودنے کا حکم دیا چناچہ آپ نے اور صحابہ کرام (رض) نے خندق کھودنی شروع کی چناچہ منافقین نے ٹال مٹول شروع کردی آتے اور معمولی ساکام کرکے بغیر آپ کی اجازت کے اس طریقہ پر کہ آپ کو معلوم نہ ہو سکے اپنے گھروں کی طرف چلے جاتے تھے اور مسلمانوں میں سے جب کسی آدمی کو بہت ضروری کام پیش آجاتا تو اپنے اس کام کا رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے تذکرہ کرتا اور اپنے کام کے پورا کرنے کی آپ سے اجازت طلب کرتا، چناچہ اس کو اجازت دے دی جاتی جب وہ اپنے کام سے فارغ ہوجاتا تو پھر فورا واپس آجا تا تھا تو ایسے مومنین کی تعریف میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی ہے کہ سچے مومن تو وہی ہیں جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آخری رکوع جو صرف تین آیات پر مشتمل ہے ‘ اس میں خالص جماعتی زندگی سے متعلق احکام ہیں۔ (وَاِذَا کَانُوْا مَعَہٗ عَلٰٓی اَمْرٍ جَامِعٍ لَّمْ یَذْہَبُوْا حَتّٰی یَسْتَاْذِنُوْہُ ط) ” نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد یہی حکم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جانشینوں اور اسلامی نظم جماعت کے امراء کے لیے ہے۔ اس حکم کے تحت کسی جماعت کے تمام ارکان کو ایک نظم (discipline) کا پابند کردیا گیا ہے۔ اگر ایسا نظم و ضبط اس جماعت کے اندر نہیں ہوگا تو کسی کام یا مہم پر جاتے ہوئے کوئی شخص ادھر کھسک جائے گا ‘ کوئی اْدھر چلا جائے گا۔ ایسی صورت حال میں کوئی بھی اجتماعی کام پایہ تکمیل کو نہیں پہنچ سکتا۔ چناچہ اس حکم کے تحت لازمی قرار دے دیا گیا کہ کسی مجبوری یا عذر وغیرہ کی صورت میں اگر کوئی رخصت چاہتا ہو تو موقع پر موجود امیر سے باقاعدہ اجازت لے کر جائے۔ (فَاِذَا اسْتَاْذَنُوْکَ لِبَعْضِ شَاْنِہِمْ فَاْذَنْ لِّمَنْ شِءْتَ مِنْہُمْ ) ” رخصت دینے کا اختیار تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی کے پاس ہے۔ یعنی اسلامی نظم جماعت کے لیے یہ اصول دے دیا گیا کہ اجتماعی معاملات میں رخصت دینے کا اختیار امیر کے پاس ہے۔ چناچہ امیر یا کمانڈر اپنے مشن کی ضرورت اور درپیش صورت حال کو دیکھتے ہوئے اگر مناسب سمجھے تو رخصت مانگنے والے کو اجازت دے دے اور اگر مناسب نہ سمجھے تو اجازت نہ دے۔ چناچہ کوئی بھی ماتحت یا مامور شخص اجازت مانگنے کے بعد رخصت کو اپنا لازمی استحقاق نہ سمجھے۔ (وَاسْتَغْفِرْ لَہُمُ اللّٰہَ ط) ” اس لیے کہ وہ اجتماعی کام جس کے لیے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اہل ایمان کی جماعت کو ساتھ لے کر نکلے ہیں ‘ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ذاتی کام نہیں بلکہ دین کا کام ہے۔ اب اگر اس دین کے کام سے کوئی شخص رخصت طلب کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے اپنے ذاتی کام کو دین کے کام پر ترجیح دی ہے اور ذاتی کام کے مقابلے میں دین کے کام کو کم اہم سمجھا ہے۔ بظاہر یہ ایک بہت سنجیدہ معاملہ اور نازک صورت حال ہے ‘ اس لیے فرمایا جا رہا ہے کہ ایسے لوگوں کے لیے اللہ سے مغفرت کی دعا کریں۔ (اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ) ” یہاں یہ نکتہ نوٹ کیجیے کہ یہی مضمون سورة التوبہ میں بھی آیا ہے ‘ لیکن وہاں اس کی نوعیت بالکل مختلف ہے۔ اس فرق کو یوں سمجھئے کہ سورة النور ٦ ہجری میں نازل ہوئی تھی ‘ جبکہ سورة التوبہ ٩ ہجری میں۔ اسلامی تحریک لمحہ بہ لمحہ اپنے ہدف کی طرف آگے بڑھ رہی تھی۔ حالات بتدریج تبدیل ہو رہے تھے اور حالات کے بدلنے سے تقاضے بھی بدلتے رہتے تھے۔ چناچہ یہاں (٦ ہجری) فرمایا جا رہا ہے کہ جو لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے باقاعدہ اجازت طلب کرتے ہیں وہ واقعی ایمان والے ہیں ‘ جبکہ تین سال بعد سورة التوبہ میں غزوۂ تبوک کے موقع پر فرمایا گیا کہ جو ایمان رکھتے ہیں وہ اجازت لیتے ہی نہیں۔ دراصل وہ ایمرجنسی کا موقع تھا اور اس موقع پر غزوۂ تبوک کے لیے نکلنا ہر مسلمان کے لیے لازم کردیا گیا تھا۔ ایسے موقع پر کسی شخص کا رخصت طلب کرنا ہی اس بات کی علامت تھی کہ وہ شخص منافق ہے۔ چناچہ وہاں (سورۃ التوبہ میں) رخصت دینے سے منع فرمایا گیا : (عَفَا اللّٰہُ عَنْکَج لِمَ اَذِنْتَ لَہُمْ ) (آیت ٤٣) ” اللہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو معاف فرمائے (یا اللہ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو معاف فرما دیا) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایسے لوگوں کو کیوں اجازت دے دی ؟ “ اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اجازت نہ بھی دیتے تو یہ لوگ پھر بھی نہ جاتے لیکن اس سے ان کے نفاق کا پردہ تو چاک ہوجاتا ! اس کے برعکس یہاں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اختیار دیا جا رہا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جسے چاہیں رخصت دے دیں۔ اس مضمون کو ایک دوسرے زاویے سے دیکھیں تو ایسے مواقع پر کسی اسلامی جماعت کے افراد کے درمیان ہمیں تین سطحوں پر درجہ بندی ہوتی نظر آتی ہے۔ پہلا درجہ ان ارکان کا ہے جو اپنے آپ کو دین کے کام کے لیے ہمہ تن وقف کرچکے ہیں۔ ان کے لیے دنیا کا کوئی کام اس کام سے زیادہ اہم اور ضروری نہیں ہے۔ لہٰذا ان کے رخصت لینے کا کوئی موقع ومحل ہے ہی نہیں۔ اس سے نچلا درجہ ان ارکان کا ہے جو ایسے مواقع پر کسی ذاتی مجبوری اور ضرورت کے تحت باقاعدہ اجازت لے کر رخصت لیتے ہیں ‘ جبکہ اس سے نچلے درجے پر وہ لوگ ہیں جو اجازت کے بغیر ہی کھسک جاتے ہیں۔ گویا ان کا دین کے اس کام سے کوئی تعلق ہی نہیں تھا۔ اس درجہ بندی میں اوپر والے زینے کے اعتبار سے اگرچہ درمیان والا زینہ کم تر درجے میں ہے لیکن نچلے زینے کے مقابلے میں بہر حال وہ بھی بہتر ہے ۔ یہ بات ہمارے مشاہدے میں ہے کہ اسلامی جماعتوں کے اجتماعات کے موقع پر بعض رفقاء نہ تو اجتماع میں شامل ہوتے ہیں اور نہ ہی اپنے نظم سے رخصت لیتے ہیں۔ نہ وہ پہلے بتاتے ہیں نہ ہی بعد میں معذرت کرتے ہیں۔ گویا انہیں کوئی احساس ہی نہیں ‘ نہ نظم کی پابندی کا اور نہ اپنی ذمہ داری کا۔ ان سے وہ رفقاء یقیناً بہتر ہیں جو اپنا عذر پیش کر کے اپنے امیر سے باقاعدہ رخصت لیتے ہیں۔ لیکن ان سب درجات میں سب سے اونچا درجہ بہرحال یہی ہے کہ دین کے کام کے مقابلے میں دنیا کے کسی کام کو ترجیح نہ دی جائے۔ اس درجے پر فائز لوگوں کے ذاتی کام اللہ کے ذمہ ہوتے ہیں۔ وہ اپنے کاموں کو پس پشت ڈال کر اللہ کے کام کے لیے نکلتے ہیں تو ان کے کاموں کو اللہ خود سنوارتا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

97. These are the final instructions being given to tighten the discipline of the Muslim community and make it more organized than before. 98. This commandment is also applicable in respect of the successors of the Prophet (peace be upon him) after him and other leaders of the Muslims. When the Muslims are called upon to get together for a common cause, whether relating to war or peace, it is not permissible for them to retreat or disperse without due permission of the leader. 99. This contains a warning that it is absolutely unlawful to ask permission without any genuine need. 100. That is, it depends upon the Prophet or his successor after him to grant or not to grant permission even in case of a genuine need. If he deems the collective cause to be more important than the individual need of the person, he may refuse permission, and a believer will not mind it. 101. This again contains a warning: If in asking permission there is even a tinge of excuse making, or of placing individual interests above collective interests, it would be a sin. Therefore the Prophet or his successor should also pray for the forgiveness of the one whom he gives permission.

سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :97 یہ آخری ہدایات ہیں جو مسلمانوں کی جماعت کانظم و ضبط پہلے سے زیادہ کَس دینے کے لیے دی جا رہی ہیں ۔ سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :98 یہی حکم نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد آپ کے جانشینوں اور اسلامی نظام جماعت کے امراء کا بھی ہے ۔ جب کسی اجتماعی مقصد کے لیے مسلمانوں کو جمع کیا جائے ، قطع نظر اس سے کہ جنگ کا موقع ہو یا حالت امن کا ، بہرحال ان کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ امیر کی اجازت کے بغیر واپس چلے جائیں یا منتشر ہو جائیں ۔ سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :99 اس میں یہ تنبیہ ہے کہ کسی واقعی ضرورت کے بغیر اجازت طلب کرنا تو سرے سے ہی نا جائز ہے ۔ جواز کا پہلو صرف اس صورت میں نکلتا ہے جبکہ جانے کے لیے کوئی حقیقی ضرورت لاحق ہو ۔ سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :100 یعنی ضرورت بیان کرنے پر بھی اجازت دینا یا نہ دینا رسول کی ، اور رسول کے بعد امیر جماعت کی مرضی پر موقوف ہے اگر وہ سمجھتا ہو کہ اجتماعی ضرورت اس شخص کی انفرادی ضرورت کی بہ نسبت زیادہ اہم ہے تو وہ پورا حق رکھتا ہے کہ اجازت نہ دے ، اور اس صورت میں ایک مومن کو اس سے کوئی شکایت نہیں ہونی چاہیے ۔ سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :101 اس میں پھر تنبیہ ہے کہ اجازت طلب کرنے میں اگر ذرا سی بہانہ بازی کا بھی دخل ہو ، یا اجتماعی ضروریات پر انفرادی ضروریات کو مقدم رکھنے کا جذبہ کار فرما ہو تو یہ ایک گناہ ہے ۔ لہٰذا رسول اور اس کے جانشین کو صرف اجازت دینے ہی پر اکتفا نہ کرنا چاہیے بلکہ جسے بھی اجازت دے ، ساتھ کے ساتھ یہ بھی کہہ دے کہ خدا تمہیں معاف کرے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

47: یہ آیت غزوہ احزاب کے موقع پر نازل ہوئی تھی، اس وقت عرب کے کئی قبیلوں نے مل کر مدینہ منوَّرہ پر چڑھائی کی تھی، اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے شہر کے دفاع کے لئے مدینہ منوَّرہ کے گرد ایک خندق کھودنے کے لئے تمام مسلمانوں کو جمع کیا تھا۔ سارے مسلمان خندق کھودنے میں مصروف تھے، اور اگر کسی کو اپنے کسی کام سے جانا ہوتا تو آپ سے اجازت لے کر جاتا تھا۔ لیکن منافق لوگ اوّل تو اس کام کے لئے آنے میں سستی کرتے تھے، اور اگر آجاتے تو کبھی کسی بہانے سے اٹھ کر چلے جاتے، اور کبھی بلا اجازت ہی چپکے سے روانہ ہوجاتے۔ اِس آیت میں ان کی مذمت اور اُن مخلص مسلمانوں کی تعریف کی گئی ہے جو بلا اجازت نہیں جاتے تھے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٦٢:۔ سورة آل عمران اور سورة النساء میں صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے جابر بن عبداللہ اور زید بن ثابت کی ١ ؎ روایتیں گزر چکی ہیں کہ عبداللہ بن ابی منافقوں کا سردار بغیر پروانگی اللہ کے رسول کی احد کی لڑائی کے وقت میدان جنگ میں سے مدینہ چلا آیا اور اپنے ساتھ تین سو آدمیوں کو بھی پلٹا لایا ‘ سورة الاحزاب میں آوے گا کہ بہت سے منافق جھوٹے عذر کر کے احزاب یعنی خندق کی لڑائی سے جان بچا گئے ‘ ان قصوں کو آیت کے ساتھ ملانے سے یہ مطلب ہوا کہ پکے مسلمانوں کی عادت منافقوں کی سی نہیں ہے بلکہ پکے مسلمان کسی جتھے کے کام کی ضرورت کے وقت جب اللہ کے رسول کی محفل میں جمع ہوتے ہیں تو اللہ کے رسول کی پروانگی کو اپنی ضرورتوں سے مقدم گنتے ہیں ‘ پھر فرمایا ‘ یہ لوگ سچے عذر کے سبب سے پروانگی مانگتے ہیں ‘ اس واسطے جب یہ لوگ پروانگی مانگیں تو اے رسول اللہ کے تم ان میں سے جن کو چاہو ‘ پروانگی دے کر ان کی غیر حاضری کی معافی کے لیے اللہ کی جناب میں دعا کرو ‘ اللہ بخشنے والا مہربان ہے اپنی مہربانی سے تمہاری دعا قبول کرلے گا ‘ صحیح بخاری میں انس بن مالک سے روایت ٢ ؎ ہے ‘ جس میں تبوک کی لڑائی سے پلٹتے وقت اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ‘ بہت سے لوگ جو سچے عذروں کے سبب سے اس سفر میں گھر بیٹھے رہے ‘ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے ان کو اتنا ہی اجر ملے گا جتنا اجر سفر کرنے والوں کو ملنے والا ہے ‘ اس حدیث سے یہ مطلب اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے کہ جتھے کی ضرورت کے وقت سچے عذر والوں کی غیر حاضری بھی معاف ہے اور اللہ تعالیٰ اپنی مہربانی اور رحمت سے ان کا اجر بھی ضائع نہیں فرماتا۔ (١ ؎ ٣٦٥‘ جلد اول تفسیر ہذا ) (٢ ؎ صحیح بخاری مع الفتح ٩٧ ج ٤ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(24:62) واذا کانوا معہ علی امرجامعمعطوف ہے اور اس کا عطف امنوا پر ہے آیت میں المومنون کی تعریف یوں کی گئی ہے (1) الذین امنوا باللہ ورسولہ (جو ایمان رکھتے ہیں اللہ اور اس کے رسول پر۔ (2) واذا کانوا معہ علی امر جامع لم یذھبوا حتی یستاذنوہ (اور جب وہ کسی امر اجتماعی وعظیم کے لئے آپ کے ساتھ ہوں تو جب تک آپ سے اجازت نہیں لے لیتے جاتے نہیں ہیں۔ امر جامع۔ اجتماعی کام (مودودی) نہایت اہم امر (محمد علی) اہم مشورت کے مواقع جہاں اجتماع و اہتمام کی ضرورت پڑتی ہے (تفسیر کبیر بحوالہ الماجدی) وہ معاملات جن میں خطاب عام کی ضرورت پڑے۔ (ایضا) مثل جمع وعیدین (مدارک التنزیل) ۔ لبعض شانہم۔ اپنے کسی کام کے لئے۔ شان دھندا ۔ فکر۔ حال۔ اہم معاملہ، حالت۔ مثلاً وما تکون فی شان (10:61) اور آپ جس حالت میں بھی ہوں۔ اور کل یوم ھو فی شان (55:29) ہر وقت وہ کسی نہ کسی کام میں رہتا ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

5 ۔ جماعتی نظم میں اس کی بڑی اہمیت ہے۔ اب بھی مسلمانوں کو اس کا التزام کرنا چاہیے۔ (شوکانی) 6 ۔ اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ عذر کی بنا پر اگرچہ اجازت لے کر جانا جائز ہے مگر پھر بھی اچھا نہیں ہے کیونکہ یہ دنیا کی ضرورت کو دین پر مقدم رکھنا ہے۔ اس لئے آنحضرت کو ایسے لوگوں کے لئے مغفرت کی دعا کرنے کا حکم دیا ہے۔ کذا فی الوحیدی (شوکانی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

(رکوع نمبر ٩) اسرارومعارف یقینا ایماندار وہی لوگ ہیں جو ہر اہم بات پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوجاتے ہیں یا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد کی تعمیل کے لیے جمع ہوجاتے ہیں اور کتنی بھی مجبوری ہو نہ غیر حاضر ہوتے ہیں اور نہ بغیر اجازت واپس جاتے ہیں ۔ (امیر اور شیخ کا منصب) یہی منصب اسلامی امیر یا شیخ کا ہے کہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت اور اسلام پر عمل یا اس کی ضرورت ہی کے لیے طلب کرتا ہے تو مومن کبھی ارادۃ کوتاہی نہیں کرتا اگر بہت زیادہ مجبوری ہو تو حاضر ہو کر اجازت طلب کرتے ہیں اور جو بلانے پر حاضر ہوجاتے ہیں تب اپنی مجبوری کا اظہار کرکے اجازت چاہتے ہیں ، ایسے لوگ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ایمان رکھنے والے ہیں ہاں کسی بہت بڑی مجبوری کے باعث ہی تو اجازت کے طالب ہیں کہ حاضر ہی نہ ہونا ایمان اور مومن کی شان کے خلاف ہے پھر اپنی مجبوری کے اظہار کا اسے حق ہے مگر اجازت دینے یا نہ دینے کا اختیار رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہے لہذا آپ چاہیں تو انہیں رخصت دیں یا نہ دیں کہ بہرحال آپ کے ارشاد کی تعمیل سب کاموں سے زیادہ اہم ہے لہذا آپ کے حکم کی بجاآوری تھی بھلا اس میں کوئی مجبوری آئے ہی کیوں اور جس قدر بھی نقصان ہو برداشت ہی کیا جائے لیکن اگر کوئی برداشت نہ کرسکا اجازت کا طالب ہو آپ نے اجازت فرما دی تو اب اس کے حق میں اللہ سے بخشش بھی طلب کیجئے کہ اللہ کریم بخشش دینے والے اور رحم فرمانے والے ہیں ۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بلانے کو عام نہ سمجھا جائے جیسا کہ لوگ آپس میں ایک دوسرے کو بلاتے رہتے ہیں پتہ چلا فلاں نے بلایا ہے ہوسکا تو چلے گئے ورنہ کہہ دیا کہ فارغ نہیں ہوں بلکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگر طلب فرمائیں تو جانا فرض ہوگا اور بغیر اجازت وہاں سے واپسی حرام ہوگی اور حضرت ابن عباس (رض) کی تفسیر کے مطابق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس طرح نہ پکارا جائے جس طرح آپس میں ایک دوسرے کو بےتکلفی سے پکارا جاتا ہے کہ اے فلاں ایسے ہی یا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بلکہ ادب واحترام سے یا رسول اللہ ! یا نبی اللہ جیسے القابات سے پکارا جائے اور جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) طلب فرماتے ہیں تو کوئی کھسک لے اور اپنا غیر حاضر ہونا ظاہر بھی نہ ہونے دے یعنی اعلانیہ نافرمانی نہ کرے بلکہ چھپ کر کرے تو وہ اللہ سے تو نہیں چھپ سکتا ہو جو منافقین کا انداز تھا تو اسے اللہ کی گرفت سے ڈرنا چاہیے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نافرمانی اور مخالفت کرکے کسی بڑی آزمائش کی لپیٹ میں نہ آجائے یا اللہ ایسے لوگوں پر اللہ کا عذاب نازل ہو تو بہت ہی درد ناک عذاب ، افسوس کہ آج کا مسلم معاشرہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے احکام کی نہ صرف کھلی خلاف ورزی کررہا ہے ۔ (مسلمان اور اطاعت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے غفلت کا نتیجہ) بلکہ انہیں ناقابل عمل کہتا ہے اور تہذیب مغرب کے دلدادہ نام نہاد دانشور اسے یہی درس دیتے ہیں جس کا نتیجہ ظاہر ہے کہ سارے عالم میں جبکہ دو سو کروڑ یا دوارب مسلمان بستے ہیں کسی بستی پر بھی اسلام بطور قانون نافذ نہیں اور سارے جہاں میں مسلمان یا فتنہ کی زد میں ہیں یا ان پر اللہ جل جلالہ کا عذاب وارد ہے کہ کفار کے ہاتھوں ذلیل بھی ہو رہے ہیں اور قتل بھی اور اس کا واحد علاج آج بھی یہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت میں واپس آجائیں ، اس لیے آسمان و زمین یا کائنات کا سب کچھ اللہ کے دست قدرت میں ہے اور اس نے سارے نظام کو اس روش پر درست کردیا ہے لہذا جب بھی نافرمانی کا ارتکاب ہوگا نزول فتنہ یا عذاب کا باعث بن جائیگا اور وہ تمہارے ہر حال سے خوب واقف بھی ہے ، تمہاری خواہشات وآرزوؤں کو جانتا ہے یہ مصیبت تو دنیا میں ہے جب تم لوگ میدان حشر میں یا موت کے بعد اس کی بارگاہ میں جاؤ گے تب تمہارے اعمال پر بات ہوگی اور تب حقیقی عذاب کا سامنا ہوگا ۔ ” اعاذنا اللہ منھا اور اللہ سے کسی کی کوئی بات چھپی ہوئی نہیں ۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن : آیت نمبر 62 تا 64 : امر جامع (اہم کام۔ اکٹھا کرنے والے کام) ‘ شأ ن (کام) ‘ دعاء الرسول (رسول کابلانا) یتسللون (تسلل) کھسک جاتے ہیں۔ چلے جاتے ہیں۔ لواذ (ایک دوسرے کے پیچھے چھپنا۔ آڑلینا۔ پناہ لینا ‘ (الا) سنو۔ غور سے سنو ‘ ینبیٔ(وہ بتادے گا۔ اگاہ کردے گا) ۔ تشریح : آیت نمبر 62 تا 64 : جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے کوئی اہم ‘ ضروری اور اجتماعی مسئلہ درپیش ہوتا تو آپ مشورے کے لئے صحابہ کرام (رض) کو جمع فرماتے اور مشورے کے بعد کوئی فیصلہ فرمایا کرتے تھے اور صحابہ کرام (رض) کو یہ بتاتے تھے کہ فلاں کام کو اس طرح کرو۔ ادب یہ سکھایا گیا کہ جب لوگوں کو بلایا جائے تو وہ حاضر ہوجائیں اور اس وقت تک اسمحفل میں شریک رہیں جب تک بات مکمل نہ ہوجائے۔ اگر کسی شدید ضرورت کیوجہ سے جانا ہی پڑجائے تو اجازت لے کرجانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن اجتماعی اور ملت کی ضروریات کے سامنے اپنی نجی اور ذاتی ضروریات کو ترجیح نہیں دینی چاہیے۔ کچھ ایسے منافق بھی موجود تھے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بلانے پر آجاتے تھے لیکن وہ موقع پا کر کسی کی آڑ لے کر بغیر اجازت کھسک لیتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کے طرز عمل اور روش زندگی کو سخت ناپسند کرتے ہوئے فرمایا کہ ایسے لوگ اللہ کی ناراضگی ‘ رسول کی نافرمانی اور اجتماعی ضروریات سے فرار کا جو راستہ اختیار کر رہے ہیں وہ کسی بڑی آزمائش اور اللہ کی طرف سے کسی درد ناک عذاب کا سبب بن سکتا ہے۔ ان ہی باتوں کو اللہ تعالیٰ نے زیر مطالعہ آیات میں ارشاد فرمایا ہے۔ فرمایا کہ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لاچکے ہیں جب ان کو کوئی اجتماعی مہم درپیش ہو تو اطاعت رسول کا تقاضا یہ ہے کہ جب بھیان کو بلایا جائے وہ اسی وقت حاضر ہوجائیں اور اس محفل سے اس وقت تک نہ جائیں جب تک اجازت نہ دیدی جائے۔ کیونکہ اپنی خواہش اور ذاتی ضروریات کا سہارا لے کر اٹھ جانا اول تو تہذیب ‘ شائستگی اور آداب محفل کے خلاف ہے لیکن اگر واقعی کوئی فوری اور شدید ضرورت ہو اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مناسب سمجھ کر ان کو جانے کی اجازت دیدیں تو اگر چہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن نافرمانی کی ایک شکل تو ہے اس لئے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمادیا گیا کہ آپ ان کے لئے بخشش کی دعا کرتے رہیں۔ اللہ بخشنے والا اور نہایت مہربان ہے۔ ان آیات میں امت کو ایک ادب یہ بھی سکھایا گیا ہے کہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ادب و احترام کا ہمیشہ خیال رکھیں کیونکہ ان کا کسی محفل میں بلانا اور ذمہ داروں کو طلب کرنا عام لوگوں یا حکمرانوں کا بلانا یا طلب کرنا نہیں ہے۔ بلکہ آپ کی اطاعت وفرماں برداری ہی دین کی بنیاد ہے۔ فرمایا کہ وہ لوگ جو کسی کی آڑ میں یا بہانہ بنا کر آپکی محفل سے کھسک لیتے ہیں یا آپ کی مخالفت کرتے ہیں انہیں اس بات کا خوف رکھنا چاہیے کہ کہیں وہ کسی بڑی مصیبت یا آزمائش میں پڑ کر اللہ کے شدید عذاب کا شکار نہ ہوجائیں۔ کیونکہ اللہ کسی طاقت ور کے سامنے عاجز اور بےبس نہیں ہے بلکہ زمین و آسمان اور کائنات کی ہر چیز اسی کی ملکیت ہے۔ اس سے کوئی بات پوشیدہ نہیں ہے۔ وہ ہر چیز سے پوری طرح واقف ہے۔ جب دنیا کے تمام انسان اللہ کی طرف لوٹ جائیں گے تو وہ ہر ایک کا کچا چٹھا کھول کر اس کے سامنے رکھ دے گا اور ہر ایک کو اس کے اچھے یا برے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیاجائے گا۔ ان آیات سے متعلق چند باتیں اور ان کی تفصیل دراصل مومن وہی لوگ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہر حکم کو دل و جان سے تسلیم کرتے ہوئے انہیں جب بھی کسی اجتماعی کام کے لئے بلایا جاتا ہے تو وہ اسی وقت حاضر ہوجاتے ہیں اپنے نجی اور ذاتی کاموں کو ملت کے اجتماعی کاموں پر قربان کرنے کا عظیم جذبہ رکھتے ہوں۔ (2) اور جب محفل میں حاضر ہوجائیں تو پوری دلچسپی اور دل جمعی سے کام لیتے ہوئے اس اجتماعی کام کو پوری پوری اہمیت دیتے ہیں اور اس میں بڑھ چڑھکر حصہ لیتے ہیں۔ منافقین کی طرح محض خانہ پری یا دکھاوے کی حاضری نہ لگوائیں کہ جہاں موقع ملا کسی کی آڑ لے کر یا کوئی بہانہ بنا کر کھسک لئے۔ البتہ اگر واقعی کوئی شدید یا اچانک ضرورت ہے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اجازت لے کر جاسکتے ہیں۔ لیکن اجتماعی کام کی اہمیت اتنی زیادہ ہے فرمایا کہ اگر چہ وہ اجازت لے کر جارہے ہیں مگر ظاہری طور پر یہ بھی نافرمانی کشل ہے اس لئے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا گیا ہے کہ آپ ایسے صاحبان ایمان کے لئے بھی دعائے مغفرت فرمائیں تاکہ اللہ ان کی اس بات پر ان کی بخشش فرمادے۔ (3) اہل ایمان سے فرمایا گیا کہ اے مومنو ! تم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بلانے یا طلب کرنے کو آپس میں ایک دوسرے جیسا بلانا مت سمجھو کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بلانا درحقیقت ایک حکم کا درجہ رکھتا ہے اور اللہ و رسول کی اطاعت کرنے والے ہر وقت اس کا خیال رکھت ہیں کہ ان سے کوئی ایسا کام سرزد نہ ہوجائے جس سے اللہ و رسول کی اطاعت و فرماں برداری میں ذرا بھی فرق آجائے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ادب و احترام ایمان اور عمل صالح کی بنیاد ہے۔ (4) آداب محفل میں سے اس بات کا ہمیشہ خیال رکھا جائے کہ اجتماعی کاموں میں بےدلی سے شرکت یا مخالفت برائے مخالفت کا طرز عمل اختیار نہ کیا جائے بلکہ محفل میں ہر طرح اللہ و رسول کی اطاعت کا حق ادا کیا جائے۔ جو اس فکر میں رہتے ہیں کہ موقع ملے تو اس محفل سے جان چھڑائی جائے۔ فرمایا کہ یہ طرز عمل منافقین کا ہوسکتا ہے لیکن صاحبان ایمان کا نہیں۔ جو لوگ ایسا کریں گے وہ کسی بڑی آزمائش یا اللہ کے غضب کا شکار ہو سکتے ہیں۔ (5) آخر میں فرمایا کہ زمین و آسمان کی ملکیت اللہ ہی کی ہے۔ وہ بندوں کے ہر حال اور کیفیات سے اچھی طرح واقف ہے۔ جب وہ لوگ قیامت کے دن اللہ کی طرف پلٹ کر جائیں گے تو وہ ان کے کئے ہوئے کاموں کو سامنے رکھ دے گا اور پھر وہ نیکی اور برائی سے کئے گئے کاموں کا بدلہ عطا فرمائے گا۔ اس سے کوئی چیز یا کسی چیز کا انجام پوشیدہ نہیں ہے۔ (6) اب اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دنیاوی حیات کے ساتھ ہمارے درمیان میں نہیں ہیں لہٰذا اب ان کے قائم مقام جو بھی لوگ ہیں اگر وہ کسی اجتماعی کام کے لئے بلائیں تو اس میں شرکت لازمی اور ضروری ہے تاکہ ملت اسلامیہ کے اہم کام صحیح طور پر سرانجام دیئے جاسکیں۔ الحمد للہ سورة النور کی آیات کا ترجمہ اور تشریح تکمیل تک پہنچی واخرو دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ یعنی جب تک آپ سے اجازت نہ لے لیں اور آپ اس پر اجازت نہ دیدیں۔ 3۔ حاصل یہ کہ ایمان بدون استیذان کے نہیں پایا جاتا اور کوئی منافق اجازت نہیں لیتا تھا۔ 4۔ یعنی اس کا فیصلہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رائے مبارک پر مفوض ہے۔ 5۔ کیونکہ استیذان گو کسی قوی عذر کی وجہ سے ہو لیکن تاہم اس میں دنیا کی تقدیم دین پر تو لازم آئی۔ اور اس میں ایک نقص کا شائبہ ہے اس کی تلافی کے لئے استغفار کا امر ہوا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : معاشرتی آداب کے ساتھ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ادب کا تذکرہ۔ مومنوں کی صفت یہ ہے کہ وہ ہر حال میں اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمان پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مومنوں میں سرفہرست صحابہ کرام (رض) ہیں اور صحابہ کرام رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس قدر مؤدب اور تابعدار تھے کہ جب آپ انہیں کسی مشورہ اور کام کے لیے طلب فرماتے تو صحابہ فی الفور آپ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوجاتے اور اس وقت تک آپ کی خدمت میں حاضر رہتے جب تک آپ انہیں جانے کی اجازت عنایت نہ کرتے۔ اگر کسی کو جلدی جانا ہوتا تو وہ کام کی نوعیت اور آپ کے ادب واحترام کا خیال رکھتے ہوئے عاجزی کے ساتھ آپ سے اجازت طلب کرتا۔ آپ کو یہ اختیار دیا گیا آپ جسے چاہیں اجازت عنایت فرمائیں جیسے چاہیں اپنے ہاں روکے رکھیں۔ ایسے باادب اور تابع فرمان ساتھیوں کے بارے میں آپ کو حکم ہوا کہ آپ ان کے لیے بخشش کی دعا کیا کریں یقیناً اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربانی فرمانے والا ہے۔ اس آیت میں صحابہ کرام (رض) کی اطاعت شعاری اور وفاداری کا تذکرہ کرنے کے بعد رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان کے لیے بخشش کی دعا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ سورة توبہ میں یہ بتلایا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعا صحابہ کے لیے نہایت ہی اطمینان کا باعث ہوا کرتی تھی کتنے خوش نصیب تھے۔ وہ لوگ جن کے لیے رب کریم اپنے رسول کو بخشش کی دعا کا حکم دیتا ہے اور پھر آپ کی دعا کی قبولیت کو ان الفاظ کے ساتھ یقینی بنادیا کہ اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا رحم کرنے والا ہے۔ (وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ لَا یُقِیْمُ الرَّجُلُ الرَّجُلَ مِنْ مَّجْلِسِہٖ ثُمَّ یَجْلِسْ فِیْہِ وَلٰکِنْ تَفَسَّحُوْا وَ تَوَسَّعُوْا) [ رواہ البخاری : باب (إِذَا قیلَ لَکُمْ تَفَسَّحُوا فِی الْمَجَالِسِ فَافْسَحُوا یَفْسَحِ اللَّہُ لَکُمْ وَإِذَا قیلَ انْشِزُوا فانْشِزُوا) الآیَۃَ ] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ کوئی شخص بیٹھنے کے لیے کسی دوسرے شخص کو اس کی جگہ سے نہ اٹھائے۔ اس کی بجائے مجلس میں وسعت اختیار کرلیا کرو۔ “ مسائل ١۔ صحابہ کرام (رض) نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مجلس سے اجازت کے بغیر نہیں اٹھا کرتے تھے۔ ٢۔ مجلس کا ادب ہے کہ صاحب مجلس سے اجازت لے کرجایا جائے۔ ٣۔ صاحب امرمشورہ یا کسی کام کے لیے لوگوں کو طلب کرے تو ان کا حاضر ہونا ضروری ہے۔ تفسیر بالقرآن معاشرتی آداب : ١۔ اے ایمان والو ! تم کسی کے گھر میں داخل ہونے سے پہلے اجازت لے لیا کرو۔ (النور : ٢٧) ٢۔ جب تم گھروں میں داخل ہو تم گھر والوں کو سلام کہو۔ (النور : ٦١) ٣۔ اے ایمان والو ! جب تمہیں مجلس میں کھل کر بیٹھنے کے لیے کہا جائے تو کھل کر بیٹھ جایا کرو، اور جب کہا جائے اٹھ کھڑے ہو تو اٹھ جایا کرو۔ (المجادلۃ : ١١)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(انما المئو منون الذین۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ غفور رحیم لاتجعلوا دعآ ئ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ واللہ بکل شیء علیم ) (٦٢ : ٦٤ ابن اسحاق نے اس آیت کی شان نزول میں یہ روایت نقل کی ہے کہ جنگ احزاب کے موقع پر جب قریش تمام اقوام کو جمع کر کے مدینہ پر چڑھا لائے تو حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے دفاع میں مدینہ کے گرد خندق کھودنے کا حکم دیا۔ خندق کھودنے میں خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی کام شروع کیا تاکہ اہل ایمان جوش و خروش سے کام کریں۔ خندق کھودنے کے کام میں مسلمانوں نے خوب جوش و خروش سے کام کیا۔ آپ نے بھی ایک نمونہ اور مثال قائم کی اور انہوں نے بھی مثال قائم کردی۔ بعض منافقین نے اس کام میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں سے پیچھے رہنے اور سست روی اختیار کرنے کا مظاہرہ کیا۔ وہ چھوٹے بڑے کاموں کا بہانہ بنا کر نکل جاتے اور بعض رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اجازت لیے بغیر کھسک جاتے تھے جبکہ مسلمانوں کا عمل یہ تھا کہ جب ان کو کوئی ضروری کام پیش آتا تو وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ذکر کرتے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اجازت دیتے اور وہ شخص کام کر کے جلدی واپس کام پر آجاتا۔ اور یہ رویہ مسلمان زیادہ ثواب کمانے کی غرض سے اختیار کرتے۔ اس موقع پر اللہ نے یہ آیات نازل کیں۔ انما الئو منون سے آخر تک سبب نزول جو بھی ہو ‘ بہر حال ان آیات کے اندر جماعت مسلمہ کے تنظیمی قواعد و آداب کا ذکر کیا گیا ہے اور مسلمانوں کے قائد کے احکام کے سلسلے میں آداب بتائے گئے ہیں۔ اور جب تک کوئی جماعت اپنے امیر کے ساتھ ایسے ہی اصولوں کی گہرے جذبات اور ضمیر کی گہرائیوں سے پابندی نہ کرے گی اس وقت تک جماعت کا نظم و نسق درست نہیں ہو سکتا۔ ان آداب کو جماعت مسلمہ کے اندر ایک پختہ روایت ‘ ایک معمول بہا عادت اور سخت قانون کی طرح جاری ہونا چاہیے۔ اگر ایسا نہ ہوگا تو وہ جماعت نہ ہوگی بلکہ منتشر افراد کا ایک انبوہ ہوگا۔ (واذا۔۔۔۔۔۔۔۔ یستأ ذنوہ) (٢٤ : ٦٢) ” اور جب کسی اجتماعی کام کے موقع پر رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ہوں تو اس کی اجازت کے بغیر نہ جائیں “۔ امر جامع سے مراد وہ امر ہے ‘ جس میں تمام جماعت مسلمہ کا اشتراک ضروری ہو۔ کسی مشاورت کا موقع ہو یا جنگ کا موقع ہو۔ یا عام اجتماعی کاموں کا موقع ہو۔ ایسے مواقع پر اہل ایمان کا فرض ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اجازت لے کر جائیں۔ آپ کے بعد اپنے امام اور اپنے انچارج سے اجازت لے کر جائیں تاکہ مسلمانوں کی زندگی اور ان کے ادارے منظم طریقے سے چل سکیں اور ان میں طوائف الملوکی نہہو اور کوئی بھی کام پورے نظم اور وقار کے ساتھ ہو۔ یہ لوگ جو اس قسم کا ایمان لاتے ہیں ‘ پھر اس قسم کے آداب پر عمل کرتے ہیں اور تحریک کی ڈیوتی سے صرف اس وقت رخصت مانگتے ہیں جب وہ مجبور ہوں۔ اپنے ایمان اور اپنی تربیت کی وجہ سے وہ ڈیوٹی چھوڑ کر نہیں بھاگتے جبکہ امت اور جماعت کو اجتماعی جدوجہد کی سخت ضرورت ہو لیکن قرآن مجید اجازت دینے اور نہ دینے کے فیصلے کا اختیار نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیتا ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد یہ اختیار اب جماعت کے سربراہ کو حاصل ہے کہ وہ اجتماعی کاموں سے کسی کو مستثنیٰ کرتا ہے یا نہیں۔ (فاذا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منھم) (٢٤ : ٦٢) ” پس جب وہ اپنے کسی کام سے اجازت مانگیں تو جسے تم چاہو اجازت دے دیا کرو “۔ اس سے قبل اللہ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ تنبیہ فرمائی تھی کہ کیوں آپ نے ان منافقین کو اجازت دی۔ عفی اللہ عنک لم اذنت لھم حتی یتبین لک الخبیث من الطیب ” اللہ نے تمہیں معاف کردیا کہ کیوں تم نے ان کو اجازت دی تاکہ تم پر یہ امر واضح ہوجاتا کہ خبیث کون ہے ‘ اور پاک کون ہے “۔ یہاں یہ بات نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اختیار تمیزی پر چھوڑ دی گئی ہے کہ آپ کسی کو اختیار دیں یا نہ دیں۔ اس طرح مسلمانوں کے لیے ایک اور آسانی پیدا کردی گئی کیونکہ بعض اوقات نہایت ہی اہم ضروریات لاحق ہوجاتی ہیں اس لیے جماعت کی قیادت کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ موازنہ کرے کہ کسی کیلیے درپیش مہم میں جانا ضروری ہے یا کسی خصوصی ضرورت کے لئے پیچھے رہنا ضروری ہے۔ آخری اختیار قائد کو دے دیا گیا تاکہ وہ حالات کو پیش نظر رکھ کر فیصلہ کرے۔ یہاں بہر حال اس طرف اشارہ کردیا جاتا ہے کہ انفرادی ضرورتوں پر قابو پایا جائے ‘ مسائل کا حل نکالا جائے اور اجتماعی مہم کو ترجیح دی جائے۔ تاہم اگر کوئی شخص اپنی کسی جائز ضرورت کے لیے بھی پیچھے رہتا ہے تو یہ امر جائز ہونے کے باوجود بھی ایک قصور ہے اور اس پر اللہ سے مغفرت طلب کرنا ضروری ہے۔ واستغفر لھم اللہ ان اللہ غفوررحیم (٢٤ : ٦٢) ” اور ایسے لوگوں کے حق میں ‘ اللہ سے دعائے مغفرت کیا کرو ‘ اللہ یقیناً غفورورحیم ہے “۔ یوں ایک مومن کے ضمیر پر پابندی لگائی جاتی ہے کہ وہ اجازت طلب نہ کرے ‘ اگر کوئی بھی صورت نکلے تو وہ اپنے آپ کو عذر طلب کرنے سے بچانے کی کوشش کرے۔ نیز یہاں یہ بھی بتایدا گیا کہ جو لوگ اجازت طلب کرتے ہیں وہ درخواست استیذان نہایت ہی مئو دبانہ الفاظ میں پیش کریں اور عوام الناس کی طرح (یامحمد) یا (ابو القاسم) یا اور عوامی طریقے سے خطاب نہ کریں بلکہ مودبانہ الفاظ یارسول اللہ ‘ یانبی اللہ کے الفاظ سے مخاطب کریں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اہل ایمان رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اجازت لے کر جاتے ہیں درمنثور ص ٦٠ ج ٥ میں لکھا ہے کہ غزوہ احزاب (جسے غزوہ خندق بھی کہتے ہیں) کے موقع پر قریش مکہ ابو سفیان کی قیادت میں مدینہ منورہ کی آبادی کی قریب بئر رومہ کے پاس ٹھہر گئے اور قبیلہ بنی غطفان کے لوگ آئے تو یہ لوگ احد کی طرف آکر ٹھہر گئے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان کی آمد کی خبر ہوگئی۔ اس موقعہ پر خندق پہلے ہی کھو دی جا چکی تھی۔ جس میں مسلمانوں نے خوب خوشی سے حصہ لیا۔ لیکن منافقین اول تو دیر میں آتے تھے اور جب آتے تھے تو تھوڑا بہت کام کردیتے تھے پھر جب جانا ہوتا تو رسول اللہ کے علم اور اجازت کے بغیر چپکے سے کھسک جاتے تھے اور مسلمانوں کا یہ حال تھا کہ جب کوئی ضرورت پیش آتی تھی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اجازت لے کر جاتے تھے پھر جب ضرورت پوری ہوجاتی تھی تو واپس آجاتے تھے۔ اللہ جل شانہٗ نے آیت بالا میں اہل ایمان کی توصیف فرمائی اور منافقین کی دنیا سازی اور بےوفائی کا تذکرہ فرمایا چونکہ منافقین کے دلوں میں ایمان ہی نہیں تھا دنیا سازی اور ریا کاری کے لیے اپنا مومن ہونا ظاہر کرتے تھے اس لیے اس سے ایسی چیزیں ظاہر ہوتی رہتی تھیں جو یہ بتا دیتی تھیں کہ یہ لوگ مومن نہیں ہیں۔ یہ لوگ نماز بھی جھٹ پٹ پڑھتے تھے اور عشاء اور فجر کی نمازوں میں حاضر ہونے سے جان چراتے تھی جو نماز تھی وہ بھی ریا کاری کی نماز تھی، جہاد میں جاتے تھے تو وہاں بھی شرارت کرتے تھے جس کا ذکر سورة توبہ میں گزر چکا ہے جس کا ظاہر باطن ایک نہ ہو وہ کہاں تک ظاہر داری قائم رکھ سکتا ہے کہیں نہ کہیں جا کر یہ بات کھل ہی جاتی ہے کہ یہ دل سے مومن نہیں ہے۔ قال صاحب الروح والتسلل الخروج من البین علی التدریج والخفیۃ وقد للتحقیق و قولہ تعالیٰ لو اذا ای ملاوذۃ بان یستتر بعضھم ببعض حتی یخرج سورة توبہ میں بھی منافقین کی اس حرکت کو بیان فرمایا ہے (وَ اِذَا مَآ اُنْزِلَتْ سُوْرَۃٌ نَّظَرَ بَعْضُھُمْ اِلٰی بَعْضٍ ھَلْ یَرٰیکُمْ مِّنْ اَحَدٍ ثُمَّ انْصَرَفُوْا صَرَفَ اللّٰہُ قُلُوْبَھُمْ بِاَنَّھُمْ قَوْمٌ لَّا یَفْقَھُوْنَ ) (اور جب کوئی سورت نازل ہوتی ہے تو منافقین آپس میں ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں کہ کسی نے دیکھا تو نہیں پھر چلے جاتے ہیں اللہ نے ان کے دلوں کو پھیر دیا اس سبب سے کہ وہ سمجھتے نہیں) ۔ حضرت امام ابو داؤد نے اپنی کتاب مراسیل میں لکھا ہے کہ جب حضرات صحابہ کرام رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوتے اور کسی کو نکسیر پھوٹنے یا کسی ضرورت سے جانا ہوتا تو وہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف انگوٹھے کی پاس والی انگلی سے اشارہ کردیتا تھا آپ بھی ہاتھ کے اشارہ سے اجازت دے دیتے تھے اور منافقین کا یہ حال تھا کہ خطبہ سننا اور مجلس میں بیٹھنا ان کے لیے بھاری کام تھا جب مسلمانوں میں سے کوئی شخص باہر جانے کے لیے آپ سے اجازت طلب کرتا تو منافق یہ کرتے تھے کہ اس مسلمان کی بغل کے پاس کھڑے ہو کر اسے آڑ بنا کر نکل جاتے تھے اس پر اللہ تعالیٰ شانہٗ نے آیت کریمہ (قَدْ یَعْلَمُ اللّٰہُ الَّذِیْنَ یَتَسَلَّلُوْنَ ) (آخر تک) نازل فرمائی شان نزول گو خاص ہو لیکن آیات کا مفہوم عام ہوتا ہے مسلمانوں کی تعریف بھی فرمائی اور اس کے ذیل میں یہ بھی فرما دیا اہل ایمان کا یہ طریقہ ہونا چاہیے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی ضرورت یا کسی مشورہ کے لیے بلائیں تو حاضر ہوجائیں اور اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بلاوے کو ایسا نہ سمجھیں جیسا کہ آپس کے بلاوے کو سمجھتے ہیں (چاہے گئے چاہے نہ گئے) آپ کے بلانے پر فوراً آجائیں اور جب تک آپ مجلس بر خاست نہ کریں جم کر بیٹھے رہیں اگر مجلس کے درمیان سے جانا ہو تو آپ سے اجازت لے کر جائیں۔ منافقوں کی طرح چپکے سے نہ جائیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا کہ جب اہل ایمان آپ سے چلے جانے کی اجازت مانگیں تو آپ جسے چاہیں اجازت دے دیں ضروری نہیں کہ سبھوں کو اجازت دیں ممکن ہے کہ جس ضرورت کے پیش نظر اجازت مانگ رہے ہیں وہ واقعی ضروری نہ ہو یا ضروری تو ہو لیکن مجلس کو چھوڑ کر چلے جانے سے اس سے زیادہ کسی ضرر کا خطرہ ہو اس لیے اجازت دینا نہ دینا آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر چھوڑ دیا گیا۔ ساتھ ہی (وَاسْتَغْفِرْ لَہُمْ اللّٰہَ ) بھی فرمایا کہ آپ ان کے لیے استغفار بھی کریں۔ کیونکہ جس دینی ضرورت کے لیے جمع کیا گیا ہے اسے چھوڑ کر جانا اگرچہ عذر قوی ہی ہو اس میں اپنی ذاتی ضرورت کو دین پر مقدم رکھنے کی ایک صورت نکلتی ہے اس میں اگرچہ گناہ نہ ہو مگر کوتاہی کا شائبہ ضرور ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ جس عذر کو قوی سمجھ کر اجازت لی اسے قوی سمجھنے میں ہی خطاء اجہتادی ہوگئی ہو الہٰذا آپ اجازت دینے کے ساتھ ان کے لیے استغفار بھی کریں۔ (اِِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَحِیْمٌ) (بےشک اللہ بخشنے والا ہے مہربان ہے)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

66:۔ ” انما المومنون الخ “: یہ دوسرے حصے میں مومنین اور منافقین کی صفات کا تقابل ہے ایمان والوں کی صفت یہ ہے کہ وہ مجلس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آداب کی پابندی کرتے ہیں۔ جب وہ کسی اہم کام اور ضروری مقصد کے لیے پیغمبر (علیہ السلام) کے پاس ہوتے ہیں تو آپ سے اجازت لیے بغیر وہاں سے نہیں جاتے اس لیے ایسے مواقع میں جو لوگ آپ سے اجازت لے کر مجلس سے نکلتے ہیں یہی لوگ صحیح معنوں میں مخلص مومن ہیں اس لیے جب کبھی وہ آپ سے اپنے کسی نجی کام کے لیے جانے کی اجازت طلب کریں تو جس کا عذاب آپ معقول جانیں یا جسے مناسب سمجھیں اجازت فرما دیا کریں اور ان کے لیے استغفار بھی کریں کیونکہ نجی کام کے لیے اٹھ کر جانا اپنے اندر دنیا کو دین پر ترجیح دینے کا شائبہ رکھتا ہے تاکہ آپ کے استغفار کی برکت سے اس قصور کی تلافی ہوسکے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(62) سورت کے چوتھے رکوع میں اجازت لیکر کسی کے مکان میں داخل ہونے کا حکم تھا اب بعض حالات میں جاتے وقت اجازت حاصل کرنے کا حکم بیان فرمایا چناچہ ارشاد ہوتا ہے کہ کامل اور مخلص مومن تو بس وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ پر اور اس کے رسول پر ایمان رکھتے ہیں اور جب کبھی رسول کے پاس کسی ایسے اہم کام کے لئے جمع ہوتے ہیں جس کے لئے اجتاع کیا گیا ہے تو جب تک رسول سے اجازت حاصل نہ کرلیں وہاں سے اٹھ کر نہیں جاتے۔ بلاشبہ ! جو لوگ ایسے اجتماع میں آپ سے اجازت طلب کرتے ہیں تو وہی لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ پر اور اس کے رسول پر ایمان رکھت ہیں پس اے پیغمبر جب یہ لوگ اپنے کسی کام کے لئے آپ سے جانے کی اجازت طلب کیا کریں تو آپ ان میں سے جس کو چاہیں جانے کی اجازت دے دیا کیجئے اور ان کے لئے اللہ تعالیٰ سے مغفرت اور بخشش کی دعا کردیا کیجئے، بلاشبہ اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے چونکہ اوپر کی آیات میں اکثر احکام کا ذکر تھا اس آیت میں احکام کی تعمیل کرنے پر تاکید فرمائی کہ جب پیغمبر کسی موقعہ پر مسلمانوں کو جمع کرے تو رسول کی اجازت کے بددن کوئی شخص مجمع سے اٹھ کر نہ چلا جائے البتہ اجازت لیکر جائے کیونکہ منافقوں کی عام عادت یہ تھی کہ اول تو وہ آتے نہ تھے اور آتے تو چپکے سے کھسک جاتے تھے یہ بات مخلصین اور منافقین کے فرق کے لئے فرمائی جس کام کے لئے جمع ہونا ہے وہ کوئی مشورہ ہو یا جہاد کے لئے اجتماع ہو یا جمعہ اور عیدین وغیرہ ہو ان اجتماعات میں سے بدون استیذان کے کسی مخلص مومن کو جانا نہیں چاہئے آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ ایمان اور استیذان میں تلازم ہے جو مومن ہے وہ اجازت حاصل کرتا ہے اور جو اجازت حاصل کرتا ہے وہ مومن ہے پھر اجازت دینے نہ دینے کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رائے پر مفوض فرمایا کہ جس کو آپ چاہیں اجازت دے دیا کریں اور اس کے لئے استغفار کردیا کریں کیونکہ خواہ کسی عذر سے جاتا ہو اس اجازت سے دنیا کی دین پر تقدیم لازم آتی ہے اس لئے استغفار اور بخشش طلب کرنے کا حکم دیا کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اجازت لیکر جانے والے کے لئے بخشش کی دعا کردیا کریں اس حکم کے بعد صحابہ کی یہ حالت تھی کہ جمعہ کے دن اگر کسی کو خطبے میں کوئی ضرورت پیش آجاتی تو وہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے کھڑا ہوجاتا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سمجھ لیا کرتے تھے اور اشارے سے جانے یا نہ جانے کا حکم دے دیا کرتے تھے۔ غزوہ تبوک کے موقع پر حضر ت عمر (رض) کے ساتھ نکلے تو کوئی کام یاد آگیا تو حضر ت عمر (رض) نے مکان تک جانے کی اجازت طلب کی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ارجع فلست بمنافق یعنی عمر تو شوق سے گھر آئو تم منافق نہ ہو آگے پیغمبر کے بلانے کی اہمیت کا ذکر ہے۔