Surat un Noor

Surah: 24

Verse: 64

سورة النور

اَلَاۤ اِنَّ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ قَدۡ یَعۡلَمُ مَاۤ اَنۡتُمۡ عَلَیۡہِ ؕ وَ یَوۡمَ یُرۡجَعُوۡنَ اِلَیۡہِ فَیُنَبِّئُہُمۡ بِمَا عَمِلُوۡا ؕ وَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمٌ ﴿٪۶۴﴾  15

Unquestionably, to Allah belongs whatever is in the heavens and earth. Already He knows that upon which you [stand] and [knows] the Day when they will be returned to Him and He will inform them of what they have done. And Allah is Knowing of all things.

آگاہ ہو جاؤ کہ آسمان و زمین میں جو کچھ ہے سب اللہ تعالٰی ہی کا ہے ۔ جس روش پر تم ہو وہ اسے بخوبی جانتا ہے اور جس دن یہ سب اس کی طرف لوٹائے جائیں گے اس دن ان کو ان کے کئے سے وہ خبردار کر دے گا ۔ اللہ تعالٰی سب کچھ جاننے والا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah knows your Condition Allah says: أَلاَ إِنَّ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالاَْرْضِ ... Certainly, to Allah belongs all that is in the heavens and the earth. Allah tells us that He is the Sovereign of the heavens and the earth, and He knows the seen and the unseen. He knows what His servants do in secret and in the open. So He says: ... قَدْ يَعْلَمُ مَا أَنتُمْ عَلَيْهِ ... Indeed, He knows your condition, He knows and it is visible to Him, and not one iota is hidden from him. This is like the Ayah: وَتَوَكَّلْ عَلَى الْعَزِيزِ الرَّحِيمِ الَّذِي يَرَاكَ حِينَ تَقُومُ وَتَقَلُّبَكَ فِي السَّاجِدِينَ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ And put your trust in the All-Mighty, the Most Merciful, Who sees you when you stand up. And your movements among those who fall prostrate. Verily, He, only He, is the All-Hearer, the All-Knower. (26:217-220) وَمَا تَكُونُ فِى شَأْنٍ وَمَا تَتْلُواْ مِنْهُ مِن قُرْءَانٍ وَلاَ تَعْمَلُونَ مِنْ عَمَلٍ إِلاَّ كُنَّا عَلَيْكُمْ شُهُودًا إِذْ تُفِيضُونَ فِيهِ وَمَا يَعْزُبُ عَن رَّبِّكَ مِن مِّثْقَالِ ذَرَّةٍ فِي الاٌّرْضِ وَلاَ فِى السَّمَأءِ وَلاَ أَصْغَرَ مِن ذَلِكَ وَلا أَكْبَرَ إِلاَّ فِى كِتَابٍ مُّبِينٍ Neither you do any deed nor recite any portion of the Qur'an, nor you do any deed but We are Witness thereof when you are doing it. And nothing is hidden from your Lord; (even) the weight of a speck of dust on the earth or in the heaven. Not what is less than that or what is greater than that but is in a Clear Record. (10:61) أَفَمَنْ هُوَ قَأيِمٌ عَلَى كُلِّ نَفْسٍ بِمَا كَسَبَتْ Is then He Who takes charge of every person and knows all that he has earned. (13: 33) He sees all that His servants do, good and evil alike. And Allah says: أَلا حِينَ يَسْتَغْشُونَ ثِيَابَهُمْ يَعْلَمُ مَا يُسِرُّونَ وَمَا يُعْلِنُونَ Surely, even when they cover themselves with their garments, He knows what they conceal and what they reveal. (11:5) سَوَاءٌ مِّنْكُمْ مَّنْ أَسَرَّ الْقَوْلَ وَمَنْ جَهَرَ بِهِ It is the same (to Him) whether any of you conceals his speech or declares it openly). (13:10) وَمَا مِن دَابَّةٍ فِي الاٌّرْضِ إِلاَّ عَلَى اللَّهِ رِزْقُهَا وَيَعْلَمُ مُسْتَقَرَّهَا وَمُسْتَوْدَعَهَا كُلٌّ فِى كِتَابٍ مُّبِينٍ And no moving creature is there on earth but its provision is due from Allah. And He knows its dwelling place and its deposit. All is in a Clear Book. (11:6) وَعِندَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لاَ يَعْلَمُهَأ إِلاَّ هُوَ وَيَعْلَمُ مَا فِى الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَمَا تَسْقُطُ مِن وَرَقَةٍ إِلاَّ يَعْلَمُهَا وَلاَ حَبَّةٍ فِى ظُلُمَـتِ الاٌّرْضِ وَلاَ رَطْبٍ وَلاَ يَابِسٍ إِلاَّ فِى كِتَـبٍ مُّبِينٍ And with Him are the keys of the Unseen, none knows them but He. And He knows whatever there is in the land and in the sea; not a leaf falls, but He knows it. There is not a grain in the darkness of the earth nor anything fresh or dry, but is written in a Clear Record. (6:59) And there are many Ayat and Hadiths which say similar things. ... وَيَوْمَ يُرْجَعُونَ إِلَيْهِ ... the Day when they will be brought back to Him, means, the day when all creatures will be brought back to Allah, which is the Day of Resurrection. ... فَيُنَبِّيُهُم بِمَا عَمِلُوا ... then He will inform them of what they did. means, He will tell them everything they did in this life, major and minor, significant and insignificant. As Allah says: يُنَبَّأُ الاِنسَـنُ يَوْمَيِذِ بِمَا قَدَّمَ وَأَخَّرَ On that Day man will be informed of what he sent forward (of deeds), and what he left behind. (75:13) وَوُضِعَ الْكِتَـبُ فَتَرَى الْمُجْرِمِينَ مُشْفِقِينَ مِمَّا فِيهِ وَيَقُولُونَ يوَيْلَتَنَا مَا لِهَـذَا الْكِتَـبِ لاَ يُغَادِرُ صَغِيرَةً وَلاَ كَبِيرَةً إِلاَّ أَحْصَاهَا وَوَجَدُواْ مَا عَمِلُواْ حَاضِرًا وَلاَ يَظْلِمُ رَبُّكَ أَحَدًا And the Book will be placed, and you will see the criminals, fearful of that which is therein. They will say: "Woe to us! What sort of Book is this that leaves neither a small thing nor a big thing, but has recorded it with numbers!" And they will find all that they did, placed before them, and your Lord treats no one with injustice. (18:49) Allah says here: ... وَيَوْمَ يُرْجَعُونَ إِلَيْهِ فَيُنَبِّيُهُم بِمَا عَمِلُوا وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ the Day when they will be brought back to Him, then He will inform them of what they did. And Allah is All-Knower of everything. Praise be to Allah, the Lord of all that exists, and we ask Him to help us achieve perfection. The end of the Tafsir of Surah Al-Nur. All praise and thanks are due to Allah.

ہر ایک اس کے علم میں ہے مالک زمین وآسمان عالم غیب وحاضر بندوں کے چھپے کھلے اعمال کا جاننے والا ہی ہے ۔ قد یعلم میں قد تحقیق کے لئے ہے جیسے اس سے پہلے کی آیت ( قَدْ يَعْلَمُ اللّٰهُ الَّذِيْنَ يَتَسَلَّـلُوْنَ مِنْكُمْ لِوَاذًا 63؀ ) 24- النور:63 ) میں ۔ اور جیسے آیت ( قَدْ يَعْلَمُ اللّٰهُ الْمُعَوِّقِيْنَ مِنْكُمْ وَالْقَاۗىِٕلِيْنَ لِاِخْوَانِهِمْ هَلُمَّ اِلَيْنَا ۚ وَلَا يَاْتُوْنَ الْبَاْسَ اِلَّا قَلِيْلًا 18۝ۙ ) 33- الأحزاب:18 ) میں ۔ اور جیسے آیت ( قَدْ سَمِعَ اللّٰهُ Ǻ۝ ) 58- المجادلة:1 ) میں اور جیسے آیت ( قَدْ نَعْلَمُ اِنَّهٗ لَيَحْزُنُكَ الَّذِيْ يَقُوْلُوْنَ فَاِنَّهُمْ لَا يُكَذِّبُوْنَكَ وَلٰكِنَّ الظّٰلِمِيْنَ بِاٰيٰتِ اللّٰهِ يَجْحَدُوْنَ 33؀ ) 6- الانعام:33 ) میں اور جیسے قدنری میں ۔ اور جیسے موذن کہتا ہے قدقامت الصلوۃ تو فرماتا ہے کہ جس حال پر تم جن اعمال وعقائد کے تم ہو اللہ پر خوب روشن ہے ۔ آسمان وزمین کا ایک ذرہ بھی اللہ پر پوشیدہ نہیں ۔ جو عمل تم کرو جو حالت تمہاری ہو اس اللہ پر عیاں ہے ۔ کوئی ذرہ اس سے چھپا ہوا نہیں ۔ ہر چھوٹی بڑی چیز کتاب مبین میں محفوظ ہے ۔ بندوں کے تمام خیروشر کا وہ عالم ہے کپڑوں میں ڈھک جاؤ چھپ لک کر کچھ کرو ہر پوشیدہ اور ہر ظاہر اس پر یکساں ہے ۔ سرگوشیاں اور بلند آواز کی باتیں اس کے کانوں میں ہیں تمام جانداروں کا روزی رساں وہی ہے ہر ایک جاندار کے ہر حال کو جاننے والا وہی ہے اور سب کچھ لوح محفوظ میں پہلے سے درج ہے ۔ غیب کی کنجیاں اسی کے پاس ہیں جہنیں اس کے سوا کوئی اور نہیں جانتا ۔ خشکی تری کی ہر ہر چیز کو وہ جانتا ہے ۔ کسی پتے کا جھڑنا اس کے علم سے باہر نہیں زمین کی اندھیریوں کے اندر کا دانہ اور کوئی تر وخشک چیز ایسی نہیں جو کتاب مبین میں نہ ہو ۔ اور بھی اس مضمون کی بہت سی آیتیں اور حدیثیں ہیں ۔ جب مخلوق اللہ کی طرف لوٹائی جائے گی اس وقت ان کے سامنے ان کی چھوٹی سے چھوٹی نیکی اور بدی پیش کر دی جائے گی ۔ تمام اگلے پچھلے اعمال دیکھ لے گا ۔ اعمال نامہ کو ڈرتا ہوا دیکھے گا اور اپنی پوری سوانح عمری اس میں پاکر حیرت زدہ ہو کر کہے گا کہ یہ کیسی کتاب ہے جس نے بڑی تو بڑی کوئی چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی نہیں چھوڑی جو جس نے کیا تھا وہ وہاں پائے گا ۔ تیرے رب کی ذات ظلم سے پاک ہے ۔ آخر میں فرمایا اللہ بڑا ہی دانا ہے ہر چیز اس کے علم میں ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

641خلق کے اعتبار سے بھی، ملک کے اعتبار سے بھی اور ماتحتی کے اعتبار سے بھی۔ وہ جس طرح چاہے تصرف کرے اور جس چیز کا چاہے، حکم دے۔ پس اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے معاملے میں اللہ سے ڈرتے رہنا چاہیئے، جس کا تقاضا یہ ہے کہ رسول کے کسی حکم کی مخالفت نہ کی جائے اور جس سے اس نے منع کردیا ہے، اس کا ارتکاب نہ کیا جائے۔ اس لئے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بھیجنے کا مقصد ہی یہی ہے کہ اس کی اطاعت کی جائے۔ 642یہ مخالفین رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تنبیہ ہے کہ جو کچھ حرکات تم کر رہے ہو، یہ نہ سمجھو کہ وہ اللہ سے مخفی رہ سکتی ہیں۔ اس کے علم میں سب کچھ ہے اور وہ اس کے مطابق قیامت والے دن جزا اور سزا دے گا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٠٣] یعنی جو لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مجلس سے کھسک جاتے ہیں یا اسلام اور مسلمانوں کا تمسخر اڑاتے ہیں۔ اور اس کی راہ روکنے کے لئے سازشیں تیار کرتے ہیں۔ ایسے لوگ رسول یا دوسرے مسلمانوں کی نظروں سے تو اوجھل رہ سکتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ تو ان کے اعمال و افعال تو درکنار ان کے دلوں کے خیالات تک سے واقف ہے اور انھیں سزا دینے پر قادر بھی ہے۔ لہذا قیامت کے دن وہ سب کو اپنے حضور اکٹھا کرکے انھیں ان کی کرتوتیں بتلا بھی دے گا اور ان کی سزا بھی دے گا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَلَآ اِنَّ لِلّٰهِ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ : طبری نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں، یاد رکھو، سارے آسمان اور زمین اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہیں اور مملوک کو لائق نہیں کہ اپنے مالک کے حکم کی نافرمانی کرے اور اس کی سزا کا حق دار بنے۔ فرماتے ہیں، لوگو ! اسی طرح تمہارے لیے بھی اپنے رب کے حکم کی جو تمہارا مالک ہے، خلاف ورزی کرنا درست نہیں، سو اس کی اطاعت کرو، اس کے حکم پر عمل کرو اور جب تم اس کے رسول کے ساتھ کسی جامع کام میں حاضر ہو تو اس کی اجازت کے بغیر مت نکلو۔ “ (طبری : ٢٦٤٧٦) قَدْ يَعْلَمُ مَآ اَنْتُمْ عَلَيْهِ : یعنی تم جس روش پر قائم ہو، وہ اچھی ہے یا بری، اللہ تعالیٰ یقیناً اسے جانتا ہے۔ وَيَوْمَ يُرْجَعُوْنَ اِلَيْهِ ۔۔ : خبر دینے سے مراد ان کے اعمال کی جزا دینا ہے۔ منافقین کا خطاب کے بعد غائب کے صیغے سے ذکر التفات ہے، جس سے ناراضی کا اظہار ہو رہا ہے۔ وَاللّٰهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ : یہ ” قَدْ يَعْلَمُ مَآ اَنْتُمْ عَلَيْهِ “ کے مضمون کی تکمیل ہے، پہلے صرف منافقین کے احوال جاننے کا ذکر فرمایا، اب فرمایا، وہ صرف تمہارے احوال ہی نہیں بلکہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَلَآ اِنَّ لِلہِ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝ ٠ ۭ قَدْ يَعْلَمُ مَآ اَنْتُمْ عَلَيْہِ۝ ٠ ۭ وَيَوْمَ يُرْجَعُوْنَ اِلَيْہِ فَيُنَبِّئُہُمْ بِمَا عَمِلُوْا۝ ٠ۭ وَاللہُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ۝ ٦٤ۧ الله الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم/ 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، ( ا ل ہ ) اللہ (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ { هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا } ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ سما سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه، قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] ، ( س م و ) سماء ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ أرض الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن «4» ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . ( ا رض ) الارض ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ علم العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، ( ع ل م ) العلم کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا رجع الرُّجُوعُ : العود إلى ما کان منه البدء، أو تقدیر البدء مکانا کان أو فعلا، أو قولا، وبذاته کان رجوعه، أو بجزء من أجزائه، أو بفعل من أفعاله . فَالرُّجُوعُ : العود، ( ر ج ع ) الرجوع اس کے اصل معنی کسی چیز کے اپنے میدا حقیقی یا تقدیر ی کی طرف لوٹنے کے ہیں خواہ وہ کوئی مکان ہو یا فعل ہو یا قول اور خواہ وہ رجوع بذاتہ ہو یا باعتبار جز کے اور یا باعتبار فعل کے ہو الغرض رجوع کے معنی عود کرنے اور لوٹنے کے ہیں اور رجع کے معنی لوٹا نے کے نبأ خبر ذو فائدة عظیمة يحصل به علم أو غَلَبَة ظنّ ، ولا يقال للخبر في الأصل نَبَأٌ حتی يتضمّن هذه الأشياء الثّلاثة، وحقّ الخبر الذي يقال فيه نَبَأٌ أن يتعرّى عن الکذب، کالتّواتر، وخبر اللہ تعالی، وخبر النبيّ عليه الصلاة والسلام، ولتضمُّن النَّبَإِ معنی الخبر قال اللہ تعالی: قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص/ 67 68] ، ( ن ب ء ) النبا ء کے معنی خیر مفید کے ہیں جو علم یا غلبہ ظن کا فائدہ دے اور حقیقی منعی کے لحاظ سے کسی خبر تک اس میں تین چیزیں موجود نہ ہوں ۔ یعنی نہایت مفید ہونا اور اس سے علم یا غلبہ ظن کا حاصل ہونا اور نبا صرف اس خبر کو کہا جاتا ہے جس میں کذب کا احتمال نہ ہو ۔ جیسے خبر متواتر خبر الہیٰ اور خبر نبوی جیسے فرمایا : ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص/ 67 68] کہہ دو کہ یہ ایک بڑی ( ہولناک چیز کی ) خبر ہے جس کو تم دھیان میں نہیں لاتے عمل العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] ( ع م ل ) العمل ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے شيء الشَّيْءُ قيل : هو الذي يصحّ أن يعلم ويخبر عنه، وعند کثير من المتکلّمين هو اسم مشترک المعنی إذ استعمل في اللہ وفي غيره، ويقع علی الموجود والمعدوم . ( ش ی ء ) الشئی بعض کے نزدیک شی وہ ہوتی ہے جس کا علم ہوسکے اور اس کے متعلق خبر دی جاسکے اور اس کے متعلق خبر دی جا سکے اور اکثر متکلمین کے نزدیک یہ اسم مشترکہ ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے ماسواپر بھی بولا جاتا ہے ۔ اور موجود ات اور معدہ سب کو شے کہہ دیتے ہیں ،

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٦٤) تمام مخلوقات اللہ ہی کی مملکت ہیں اللہ تعالیٰ اس حالت کو بھی جانتا ہے جس پر تم اب ہو یعنی ایمان و کفر تصدیق وتکذیب اخلاص ونفاق اور استقامت وتذبذب وغیرہ اور اللہ تعالیٰ قیامت کے دن کو بھی جانتا ہے جس دن سب اس کے پاس لائے جائیں گے، پھر اللہ تعالیٰ ان سب کو جتا دے گا جو کچھ انہوں نے دنیا میں کیا تھا اور وہ ان کے اعمال سے بخوبی واقف ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦٤ (اَلَآ اِنَّ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِط قَدْ یَعْلَمُ مَآ اَنْتُمْ عَلَیْہِ ط) ” اللہ کو خوب معلوم ہے کہ تم ایمان و یقین کے حوالے سے کس مقام پر کھڑے ہو۔ وہ تمہارے ایمان کی کیفیت ‘ نیت کے اخلاص اور عمل کی تڑپ کو بہت اچھی طرح جانتا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٦٤:۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو اپنے رسول کی مخالفت سے ڈرایا اور فرمایا جو لوگ رسول کے طریقہ اور رسول کی سنت کی مخالفت کرتے ہیں ان کو دین و دنیا کے وبال سے ڈرنا چاہیے ‘ اب یہ خوب جان لینا چاہیے کہ رسول کی مخالفت ایک تو ظاہری ہے جس طرح کافر لوگ کھلم کھلا رسول کی ہدایت کو نہیں مانتے اور دنیا میں گمراہ ہیں اور عاقبت میں اس گمراہی کا عذاب بھگتیں گے اور ایک مخالفت رسول کی منافق لوگوں کی ہے کہ ظاہر میں تو وہ لوگ اپنے آپ کو رسول کا فرمانبردار کہتے ہیں مگر دل سے رسول کے وہ لوگ فرمانبردار نہیں جس وقت قرآن شریعت نازل ہوتا تھا اس وقت تو ایسے لوگوں کا حال وحی کے ذریعہ معلوم ہوجاتا تھا ‘ اب وحی کے بند ہوجانے سے کسی کے دل کا حال تو معلوم نہیں ہوسکتا ‘ ہاں آدمی کے عملوں سے اس کے دل کا حال معلوم ہوسکتا ہے اس لیے جس شخص کے ظاہری عمل رسول کی سنت کے موافق ہوں گے ‘ ظاہری شریعت کے حکم کی رو سے اس کو منافق نہیں کہا جاسکتا ‘ لیکن اگر اس کے وہ عمل خالص نیت سے آخر کا ثواب اور اجر حاصل کرنے کی غرض سے نہ ہوں گے تو ایسے شخص کو ریا کار اور ریا کاری کے سبب سے اس کو اللہ اور رسول کے حکم کی مخالفت کرنے والا شریعت میں ٹھہرایا جاوے گا ‘ اور ریا کاروں کی جو سزا شریعت نے قرار دی ہے ‘ وہ سزا ایسے شخص کو عقبیٰ میں ملے گی اور جو شخص کسی رسم کی پابندی کے سبب سے رسول کی فرمانبرداری کا اقرار کیا ہے ‘ اس کا عمل اس کے اقراء کے مخالف ہے ‘ غرض آیت کے حکم میں ہر طرح کی مخالفت کرنے والے گو داخل ہیں لیکن شیطان انسان کے پیچھے ایسا دشمن لگا ہوا ہے کہ بہت سے برے کاموں کو انسان پر کھلنے نہیں دیتا بلکہ ملمع کر کے بہت سے برے کاموں کو اچھا دکھا دیتا ہے جب شیطان اپنے کام میں لگا ہوا ہے تو ہر شخص نجات عقبیٰ کے طلب گار کو چاہیے کہ وہ اپنے کام میں لگیں اس شخص طالب نجات کا کام کیا ہے ‘ ہر قول وفعل میں فرمانبرداری اور پیروی صاحب وحی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کرے کیونکہ دنیا میں ایک یہی سیدھی سڑک ہے جو منزل مقصود تک پہنچا سکتی ہے ‘ سوائے اس کے اور کئی راستہ شیطان کے دھو کے سے خالی نہیں ہے۔ معتبر سند سے مسند امام احمد ‘ مستدرک حاکم ‘ دارمی اور نسائی میں حضرت عبد اللہ بن مسعود سے روایت ١ ؎ ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک سیدھا خط زمین پر کھینچا اور اس خط کے ادھر ادھر اور بہت سے خط کھینچ کر فرمایا ‘ کہ یہ ایک راستہ اللہ کا ہے اور باقی جتنے راستے ہیں سب پر شیطان بیٹھا ہوا ہے اور ان راستوں کی طرف وہ لوگوں کو بلاتا اور رغبت دلاتا ہے ‘ پھر آپ نے سورة انعام کی وہ آیت پڑھی ‘ جس کا حاصل یہ ہے کہ شریعت پر قائم رہنے اور فرمانبرداری رسول کی بجا لانے کا عہد جن لوگوں نے اللہ تعالیٰ سے کیا ہے ‘ لوگوں کو چاہیے کہ اس عہد کو پورا کریں اور یہی راہ راست اور سیدھی سڑک ہے ‘ اسی کو سب لوگ اختیار کریں ‘ سوا اس کی دنیا میں جتنے راستے ہیں ‘ وہ سب سیدھے راستہ سے ڈگانے والے ہیں ‘ ترمذی میں حضرت عبداللہ بن مسعود کا قول ہے ‘ کہ جس شخص کو اللہ کے رسول کی مہری سند نجات کی دینی منظور ہو ‘ وہ سورة انعام کی ان آیتوں کو دیکھ لیوے ‘ حاصل مطلب ان آیتوں کا یہ ہے کہ جو لوگ اللہ کے رسول کی پروانگی کے بغیر لشکر اسلام یا جماعت وعید کا ساتھ چھوڑ دیتے ہیں ‘ ان کو دنیا کی کسی آفت یا عقبیٰ کے عذاب سے ڈرتے رہنا چاہئے ‘ پھر فرمایا جو کچھ آسمان و زمین میں ہے ‘ وہ سب اللہ کا پیدا کیا ہوا ہے ‘ اس لیے آسمان و زمین کی کوئی چیز اس کے علم سے باہر نہیں ہے ‘ ان منافقوں کی کیا ہستی ہے جو یہ اللہ سے اپنی دغابازیوں کو چھپا سکیں گے ‘ اگرچہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے روبرو بھی دغا بازی سے اپنی بداعمالی کا انکار کریں گے لیکن اللہ تعالیٰ ان کے منہ پر خاموشی کی مہر لگا کر ان کے ہاتھ ‘ پیروں سے گواہی دلوا کر ان کو دوزخی ٹھہراوے گا ‘ صحیح مسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ (رض) کی حدیث کئی جگہ گزر چکی ٢ ؎ ہے ‘ کہ قیامت کے دن منافق لوگ دغابازی کی راہ سے جب اللہ تعالیٰ کے روبرو اپنے گناہوں کا انکار کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان کے منہ پر خاموشی کی مہر لگا کر ان کے ہاتھ پیروں سے گواہی ادا کرا دے گا ‘ جس سے ان لوگوں کی دغا بازی کچھ کام نہ آوے گی ‘ کیونکہ اس گواہی سے ان کی تمام عمر کی بداعمالی اچھی طرح ثابت ہو کر آخر کو یہ لوگ دوزخی قرار پاویں گے ‘ آخری آیت میں یہ جو فرمایا کہ قیامت کے دن جب یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے روبرو کھڑے ہوں گے تو اللہ تعالیٰ ان کی تمام عمر کی بداعمالی انہیں جتلادے گا ‘ اس حدیث سے اس کا مطلب اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے جس کا حاصل یہ ہے ‘ کہ اس جتلانے پر ان میں کے جو لوگ دغا بازی کر کے اپنے گناہوں کے منکر ہوجاویں گے ‘ تو پھر ان کے ہاتھ ‘ پیروں سے گواہی دلائی جاکر ان کو دوزخی قرار دیا جاوے گا۔ (١ ؎ مشکوٰۃ مع تنیقح الرواۃ ص ٤٠ باب الا عتصام بالکتاب والسنۃ ) (٢ ؎ مثلا ص ٣٣٣۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(24:64) ما انتم علیہ۔ جس (حالت) پر تم (اب) ہو۔ یعنی طاعت و معصیت وغیرہ کی جس حالت میں تم ہو۔ کیونکہ وہ علیم بذات الصدور ہے۔ اللطیف الخبیر ہے۔ ینبئہم۔ مضارع واحد مذکر غائب ہم ضمیر مفعول جمع مذکر غائب تنیئۃ (تفعیل) مصدر وہ بتادے گا۔ وہ خبر دے دے گا ان کو۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

1 ۔ یہاں لفظ ’ او ‘ منح الخلو کے لئے ہے پھر جب صرف ایک معاملہ میں رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عدم اطاعت پر یہ وعید سنائی گئی ہے تو ان لوگوں کو اپنے معاملہ پر ضرور غور کرنا چاہیے جنہوں نے رسول کو سرے سے اطاعت کا مستحق ہی نہیں سمجھا بلکہ دوسروں کو بھی اس سے بےنیاز ہونے کی دعوت دیتے ہیں۔ 2 ۔ حضرت عقبہ (رض) بن عامر کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی آنکھوں پر انگلیاں رکھے ہوئے سورة نور کی یہ آخری آیت پڑھ رہے تھے اور فرما رہے تھے بکل شیء بصیر : واقعی تو ہر چیز کو دیکھتا اور جانتا ہے۔ (شوکانی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

” اُخْرِجْ اَلِیْنَا یَامحَمَّدُ “ اے محمد باہر آئیں۔ اللہ تعالیٰ کو ان لوگوں کا اس طرح آواز دینا بہت ہی ناگوار گزرا۔ جس پر فرمایا کہ جو لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حجرے سے باہر آواز دے رہے تھے ان کی اکثریت بےعقل ہے دوسری آیت میں فرمایا کہ پیغمبر کو اس طرح آواز نہ دیا کرو جس طرح تم ایک دوسرے کو آواز دیتے ہو اگر تم باز نہ آئے تو تمہارے تمام کے تمام اعمال تباہ کردیے جائیں گے (الحجرات : ٢) جو لوگ فرقہ واریت میں آکر یہ کہتے ہیں کہ ہم نے یا محمد کہنا ہے اور فلاں نے جلتے رہنا ہے یا اس طرح کے الفاظ کہتے ہیں کہ ” یَارَسُوْلَ اللّٰہِ اُنْظُرْ حَالَنَا یَا حَبِیْبَ اللّٰہ اِسْمَعْ قَالَنَا “ ے رسول ہماری طرف دیکھیں اور ہماری بات سنیں انہیں اس بات کی فکر کرنا چاہیے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اس گستاخی کی وجہ سے ان کے اعمال غارت ہوجائیں۔ 2 لَاتَجْعَلُوْ دُعَاء الرَّسُوْلِکادوسرا مفہوم یہ ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کسی کو بلانا ہمارے ایک دوسرے کو بلانے کے برابر نہیں ہوسکتا بلکہ جب بھی آپ کسی کو آواز دیں گویا کہ جسے بلائیں تو اس فوری طور پر حاضر ہونا لازم ہے۔ 3 لَاتَجْعَلُوْ دُعَاء الرَّسُوْلِکا تیسرا مفہوم یہ بھی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعا کو اپنے لیے معمولی دعا نہ سمجھو بلکہ آپ کا کسی کے لیے دعا کرنا اس کے لیے نعمت گراں مایہ ہے۔ جو لوگ اللہ کے رسول کی نافرمانی کرتے ہیں انہیں ڈرنا چاہیے کہ کہیں انہیں سخت ترین آزمائش نہ آجائے یا اذیت ناک عذاب میں مبتلا نہ کر دئیے جائیں۔ (عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خَرَجَ عَلٰٓی أُبَیِّ بْنِ کَعْبٍ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَا أُبَیُّ وَہُوَ یُصَلِّی فَالْتَفَتَ أُبَیٌّ وَلَمْ یُجِبْہُ وَصَلَّی أُبَیٌّ فَخَفَّفَ ثُمَّ انْصَرَفَ إِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقَال السَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَعَلَیْکَ السَّلاَمُ مَا مَنَعَکَ یَا أُبَیُّ أَنْ تُجِیْبَنِیْٓ إِذْ دَعَوْتُکَ فَقَالَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ إِنِّیْ کُنْتُ فِی الصَّلاَۃِ قَالَ أَفَلَمْ تَجِدْ فِیْمَآ أَوْحَی اللّٰہُإِلَیَّ أَنِ (اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰہِ وَلِلرَّسُوْلِ إِذَا دَعَاکُمْ لِمَا یُحْیِیْکُمْ ) قَالَ بَلٰی وَلاآأَعُودُ إِنْ شَآء اللّٰہُ قَالَ تُحِبُّ أَنْ أُعَلِّمَکَ سُورَۃً لَمْ یَنْزِلْ فِی التَّوْرَاۃِ وَلاَ فِی الإِنْجِیْلِ وَلاَ فِی الزَّبُوْرِ وَلاَ فِیْ الْفُرْقَانِ مِثْلُہَا قَالَ نَعَمْ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ کَیْفَ تَقْرَأُ فِی الصَّلاَۃِ قَالَ فَقَرَأَ أُمَّ الْقُرْآنِ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ مَا أُنْزِلَتْ فِی التَّوْرَاۃِ وَلاَ فِی الإِنْجِیْلِ وَلاَ فِی الزَّبُوْرِ وَلاَ فِی الْفُرْقَانِ مِثْلُہَا وَإِنَّہَا سَبْعٌ مِّنَ الْمَثَانِیْ وَالْقُرْآنَ الْعَظِیْمُ الَّذِیْٓ أُعْطِیَتُہٗ ) [ رواہ الترمذی : کتاب فضائل القرآن، باب مَآ جَاءَ فِی فَضْلِ فَاتِحَۃِ الْکِتَابِ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں بیشک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ابی بن کعب کے ہاں تشریف لے گئے۔ آپ نے اسے آواز دی وہ نماز پڑھ رہے تھے۔ ابی (رض) نے التفات فرمایا اور جواب نہ دیا لیکن اپنی نماز کو ہلکا کردیا، پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا۔ تو آپ کو سلام کہا ! رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سلام کا جواب دیا اور فرمایا : ابی ! کس چیز نے تجھے جواب دینے سے روکے رکھا تھا۔ ابی (رض) نے کہا اللہ کے رسول میں نماز ادا کر رہا تھا۔ آپ نے فرمایا کیا تو قرآن مجید میں یہ بات نہیں پاتا کہ اللہ اور اس کے رسول کی پکار کا جواب دو ۔ جب وہ تمہیں بلائیں ایسی چیز کی طرف جو تمہیں زندگی بخشنے والی ہے۔ اس نے کہا کیوں نہیں انشاء اللہ دوبارہ ایسے نہیں کروں گا۔ آپ نے فرمایا کیا تو پسند کرتا ہے کہ میں تجھے ایسی سورة سکھلاؤں جو توراۃ، انجیل، زبور اور قرآن مجید میں نہیں ہے اس نے کہا ضرور ! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دریافت کیا تو نماز میں کیا پڑھتا ہے ابی (رض) نے عرض کیا کہ سورة فاتحہ پڑھتا ہوں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قسم ہے مجھے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے۔ اس جیسی سورة توراۃ، انجیل، زبور اور قرآن مجید میں نازل نہیں ہوئی اور یقیناً یہ سات آیات اور عظیم قرآن ہے جو مجھے عطا کیا گیا ہے۔ “ مسائل ١۔ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دور سے آواز دینا پرلے درجے کی گستاخی ہے۔ ٢۔ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نافرمانی کرنے والوں کو اللہ کے عذاب سے ڈرنا چاہیے۔ ٣۔ زمین و آسمان اور جو کچھ ان میں ہے سب پر اللہ کی بادشاہی ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ انسان کے فکر وعمل کو پوری طرح جانتا ہے۔ تفسیر بالقرآن نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ادب واحترام کا حکم : ١۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دور سے آواز نہ دی جائے۔ (الحجرات : ٤) ٢۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آواز سے اونچی آواز نہ کی جائے۔ (الحجرات : ٢ ) ٣۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے آگے قدم نہ اٹھایا جائے۔ (الحجرات : ١) ٤۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مکمل اتباع کی جائے۔ (محمد : ٣٣) ٥۔ جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دیں اسے لیا جائے جس سے آپ نے منع کیا ہے اسے چھوڑ دیاجائے۔ ( الحشر : ٧)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(الآ ان للہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بکل شیء علیم) (٢٤ : ٦٣) ” “۔ یوں اس سورة کا خاتمہ اس مضمون پر ہوتا ہے کہ اہل ایمان کی نظریں اللہ سے متعلق ہوجاتی ہیں اور ان کو اللہ کے خوف اور خثیت سے ڈرایا جاتا ہے کیونکہ صرف خدا اور خشیت الٰہی اور تقویٰ انسان کو درست رکھنے کی آخری گارنٹی ہے۔ اللہ نے جو احکام اور نواہی دیئے ہیں ان پر عمل کرانے کا یہ آخری نگران ہے جو ہر مومن کے دل میں بیٹھا ہوتا ہے۔ اس سورة میں جو اخلاق ‘ جو آداب اور جو قوانین وضع کیے گیے ہیں اور سب کو اسلامی نظام کا برابر حصہ بنایا گیا ہے ان کا محافظ تقویٰ اور خدا خوفی کو قرار دیا گیا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

آسمان و زمین میں جو کچھ ہے سب اللہ ہی کا ہے، اسے سب کچھ معلوم ہے یہ سورة نور کی آخری آیت ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے اللہ ہی کی مخلوق اور مملوک ہے اسے اختیار ہے کہ جو چاہے حکم دے، کوئی شخص کچھ بھی کرے اللہ تعالیٰ کو سب کا حال معلوم ہے۔ قیامت کے دن حاضر ہونگے تو سب بتادے گا۔ کوئی چیز اور کوئی عمل اس کے علم سے باہر نہیں لہٰذا سب فرماں برداری کریں اور آخرت کے مواخذہ سے بچیں۔ و قد تم تفسیر سورة النور لیلۃ الحادی عشر من جمادی الثانیۃ سنۃ ١٤١٥ ھجریہ والحمد للّٰہ علی الافضال و الانعام والصلوۃ علی رسولہ سید الانام و علی الہ و اصحابہ الذین اتبعوہ فاھتدوا بہ واستناروا بالنور التام و علی من تبعھم باحسان الی یوم القیام

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

69:۔ ” الا ان للہ الخ “ آخر میں دعویٰ توحید کا ذکر کیا گیا جس کی وجہ سے منافقین نے تہمت لگائی تھی یعنی سارے جہان کا مالک، متصرف فی الامور اور عالم الغیب صرف اللہ تعالیٰ ہے اور کوئی نہیں۔ ” للہ ما فی السموت والارض “ یعنی زمین و آسمان میں جو کچھ ہے وہ سب اللہ کا مخلوق و مملوک اور اسی کے زیر تصرف ہے من الموجودات باسرھا خلقا و ملکا و تصرفا ایجادا واعدا ما بدا واعادۃ لا لاحد غیرہ شرکۃ او استقلالا (روح ج 18 ص 228) ۔ 70:۔ ” قد یعلم الخ “ وہ تمہارے تمام موجودہ حالات و کوائف کو بخوبی جانتا ہے تمہارا اخلاص و نفاق بھی اسے معلوم ہے اس لیے قیامت کے دن جب تم سب اس کے پاس جمع ہوگے تو وہ تمہارے اعمال ظاہرہ و باطنہ کی پوری تفصیلات سے تمہیں آگاہ کردے گا کیونکہ وہ ہر چیز کو جانتا ہے اور قیامت کے دن ہر ایک کو اس کے اخلاص و نفاق کے مطابق اس کے اعمال کی جزاء و سزا دے گا۔ یہ منافقین کے لیے تخویف و تہدید ہے قد یعلم ما انتم علیہ ای من مخالفۃ امر اللہ و امر رسولہ وفیہ تہدید و وعید والظاھر انہ خطاب للمنافقین (بحر ج 6 ص 477) ۔ واخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین سورة نور میں آیات توحید اور اس کی خصوصیات 1:۔ ” ان الذین جاء وا بالافک عصبۃ الخ “ (رکوع 2) ۔ نفی علم غیب از نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔ 2:۔ ” اللہ نور السموت والارض الخ “ (رکوع 5) ۔ عالم الغیب اور کارساز صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ 3:۔ ” الم تر ان اللہ یزجی سحابا “ تا ” ان اللہ علی کل شیء قدیر “ (رکوع 6) ۔ نفی شرک فی التصرف۔ 4:۔ ” وعد اللہ الذین اٰمنوا “ تا ” لا یشرکون بی شیئا “ (رکوع 7) ۔ ہر قسم کے شرک سے بچنے والوں کیلئے بشارت دنیوی۔ 5:۔ حد زنا، حد قذف، لعان اور دیگر آداب معاشرت کا بیان۔ 6:۔ مخلصین اور منافقین کے اعمال کا تقابل 7:۔ آداب و حقوق رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔ سورة نور ختم ہوئی

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(64) خبردار ہو آگاہ رہو یا درکھو جو کچھ آسمانوں میں اور زمین میں ہے سب اللہ تعالیٰ ہی کی مملوک ہے اللہ تعالیٰ اس حالت کو بھی خوب جانتا ہے جس پر تم ہو اور اس دن کو بھی خوب جانتا ہے جس دن پر سب لوگ اس کی طرف لوٹائے جائیں گے اور ان سب کی بازگشت اس دن اسی کی طرف ہوگی پھر اللہ تعالیٰ ان کی ان تمام کارروائیوں سے جو وہ کرتے رہتے ہیں ان سب کو آگاہ کردے گا اور اللہ تعالیٰ ہر چیز کو جاننے والا ہے یعنی اوپر کی آیت میں دنیا اور آخرت کی سزا اور تعذیب کی طرف اشارہ تھا اس آخری آیت میں اپنے مالک ہونے اور تمام اشیاء کو خواہ وہ اس عالم سے تعلق رکھتی ہوں خواہ عالم اخروی سے تعلق رکھتی ہوں اس سب کے جاننے کا اظہار فرمایا یعنی دونوں عالم مملوک بھی اور معلوم بھی پھر گناہ گار کا بچکر کہاں جاسکتا ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں حضرت ؐ کے بلانے سے فرض ہوتا تھا حاضر ہونا جس کام کو بلاویں پھر یہ بھی تھا کہ وہاں سے بےحکم چلے نہ جاویں اب بھی یہی چاہئے اپنے سرداروں سے سب کو کرنا 12 تم سورة نور