Blessed be Allah
Allah says while praising Himself:
تَبَارَكَ الَّذِي نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَى عَبْدِهِ لِيَكُونَ لِلْعَالَمِينَ نَذِيرًا
Blessed be He Who sent down (Nazzala) the criterion to His servant that he may be a warner to all nations.
Here Allah praises Himself for the Noble Qur'an He has revealed to His noble Messenger.
This is like the Ayat:
الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِى أَنْزَلَ عَلَى عَبْدِهِ الْكِتَـبَ وَلَمْ يَجْعَل لَّهُ عِوَجَا
قَيِّماً لِّيُنْذِرَ بَأْسًا شَدِيدًا مِّن لَّدُنْهُ وَيُبَشِّرَ الْمُوْمِنِينَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ الصَّـلِحَاتِ
...
All the praises and thanks be to Allah, Who has sent down to His servant the Book, and has not placed therein any crookedness. (He has made it) straight to give warning of a severe punishment from Him, and to give glad tidings to the believers, who do righteous deeds... (18:1-2)
Here Allah says:
تَبَارَكَ
...
Blessed be He.
The verbal form used here implies an ongoing, permanent, eternal blessing.
...
الَّذِي نَزَّلَ الْفُرْقَانَ
...
Who sent down the criterion,
The verb Nazzala is a form which implies something done a great deal and often. This is like the Ayah:
وَالْكِتَـبِ الَّذِى نَزَّلَ عَلَى رَسُولِهِ وَالْكِتَـبِ الَّذِى أَنَزلَ مِن قَبْلُ
And the Book which He (Nazzala) sent down to His Messenger, and the Scripture which He (Anzala) sent down to those before (him). (4:136)
Each of the previous Books was sent down at one time, but the Qur'an was revealed gradually, in stages, Ayat after Ayat, rulings after rulings, Surahs after Surahs. This is more eloquent and indicative of greater care for the one to whom it is revealed, as Allah says later in this Surah:
وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوْلاَ نُزِّلَ عَلَيْهِ الْقُرْانُ جُمْلَةً وَاحِدَةً كَذَلِكَ لِنُثَبِّتَ بِهِ فُوَادَكَ وَرَتَّلْنَاهُ تَرْتِيلً
وَلاَ يَأْتُونَكَ بِمَثَلٍ إِلاَّ جِيْنَاكَ بِالْحَقِّ وَأَحْسَنَ تَفْسِيرًا
And those who disbelieve say: "Why is not the Qur'an revealed to him all at once!" Thus, that We may strengthen your heart thereby. And We have revealed it to you gradually, in stages. And no example or similitude do they bring, but We reveal to you the truth, and the better explanation thereof. (25:32-33)
This Surah was named Al-Furqan, because it is the criterion that decides between truth and falsehood, guidance and misguidance, right and wrong, lawful and unlawful.
...
عَلَى عَبْدِهِ
...
to His servant,
This description is one of praise and commendation, because here Allah is connecting him to Himself, describing him as His servant.
Allah also described him in this manner when referring to the noblest of events, the Night of theIsra', as He said:
سُبْحَانَ الَّذِى أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلً
Glorified be He Who took His servant for a journey by night. (17:1)
Allah also described him in this way when He described how he stood and called to Him:
وَأَنَّهُ لَّمَا قَامَ عَبْدُ اللَّهِ يَدْعُوهُ كَادُواْ يَكُونُونَ عَلَيْهِ لِبَداً
And when the servant of Allah stood up invoking Him in prayer they (the Jinn) just made round him a dense crowd as if sticking one over the other (in order to listen to the Prophet's recitation). (72:19)
This description is also used here when Allah describes how the Book is revealed to him and how the angel comes down to him:
تَبَارَكَ الَّذِي نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَى عَبْدِهِ لِيَكُونَ لِلْعَالَمِينَ نَذِيرًا
Blessed be He Who sent down the criterion to His servant that he may be a warner to all nations.
...
لِيَكُونَ لِلْعَالَمِينَ نَذِيرًا
that he may be a warner to all nations.
means, he alone has been blessed with this great, detailed, clear Book which,
لااَّ يَأْتِيهِ الْبَـطِلُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَلااَ مِنْ خَلْفِهِ تَنزِيلٌ مِّنْ حَكِيمٍ حَمِيدٍ
Falsehood cannot come to it from before it or behind it, (it is) sent down by the All-Wise, Worthy of all praise (Allah). (41:42)
The One Who made it the mighty criterion, singled him out to convey it to those who seek the shade of trees and to those who live on the land (i.e., to all of mankind, nomad and settled alike), as the Prophet said:
بُعِثْتُ إِلَى الاَْحْمَرِ وَالاَْسْوَد
I have been sent to the red and the black.
And he said:
إِنِّي أُعْطِيتُ خَمْسًا لَمْ يُعْطَهُنَّ أَحَدٌ مِنَ الاَْنْبِيَاءِ قَبْلِي
I have been given five things which no Prophet before me was given.
Among them he mentioned:
كَانَ النَّبِيُّ يُبْعَثُ إِلَى قَوْمِهِ خَاصَّةً وَبُعِثْتُ إِلَى النَّاسِ عَامَّة
(Before me) a Prophet was sent only to his own people, but I have been sent to all of mankind.
And Allah says:
قُلْ يَأَيُّهَا النَّاسُ إِنِّى رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا
Say: "O mankind! Verily, I am sent to you all as the Messenger of Allah..." (7:158),
meaning, the One Who has sent me is the Sovereign of the heaven and the earth, who merely says to a thing "Be!" and it is. He is the one who gives life and causes death.
Allah says here:
اللہ تعالیٰ ابن رحمت کا بیان فرماتا ہے تاکہ لوگوں پر اس کی بزرگی عیاں ہوجائے کہ اس نے اس پاک کلام کو اپنے بندے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمایا ہے ۔ سورۃ کہف کے شروع میں بھی اپنی حمد اسی انداز سے بیان کی ہے یہاں اپنی ذات کا بابرکت ہونا بیان فرمایا اور یہی وصف بیان کیا ۔ یہاں لفظ نزل فرمایا جس سے باربار بکثرت اترنا ثابت ہوتا ہے ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( وَالْكِتٰبِ الَّذِيْ نَزَّلَ عَلٰي رَسُوْلِهٖ ١٣٦ ) 4- النسآء:136 ) پس پہلی کتابوں کو لفظ انزل سے اور اس آخر کتاب کو لفظ نزل سے تعبیر فرمانا ہے اسی لئے ہے کہ پہلی کتابیں ایک ساتھ اترتی رہیں اور قرآن کریم تھوڑا تھوڑا کر کے حسب ضرورت اترتا رہا کبھی کچھ آیتیں ، کبھی کچھ سورتیں کبھی کچھ احکام ۔ اس میں ایک بڑی حکمت یہ بھی تھی کہ لوگوں کو اس پر عمل کرنا مشکل نہ ہو اور خوب یاد ہو جائے اور مان لینے کے لئے دل کھل جائے ۔ جیسے کہ اسی سورت میں فرمایا ہے کہ کافروں کا ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ قرآن کریم اس نبی پر ایک ساتھ کیوں نہ اترا ؟ جواب دیا گیا ہے کہ اس طرح اس لئے اترا کہ اس کے ساتھ تیری دل جمعی رہے اور ہم نے ٹھہرا ٹھہرا کر نازل فرمایا ۔ یہ جو بھی بات بنائیں گے ہم اس کا صحیح اور جچا تلا جواب دیں جو خوب مفصل ہوگا ۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں اس آیت میں اس کا نام فرقان رکھا ۔ اس لئے کہ یہ حق وباطل میں ہدایت وگمراہی میں فرق کرنے والا ہے اس سے بھلائی برائی میں حلال حرام میں تمیز ہوتی ہے ۔ قرآن کریم کی یہ پاک صفت بیان فرما کر جس پر قرآن اترا ان کی ایک پاک صفت بیان کی گئی ہے کہ وہ خاص اس کی عبادت میں لگے رہنے والے ہیں اس کے مخلص بندے ہیں ۔ یہ وصف سب سے اعلیٰ وصف ہے اسی لئے بڑی بڑی نعمتوں کے بیان کے موقعہ پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی وصف بیان فرمایا گیا ہے ۔ جیسے معراج کے موقعہ پر فرمایا آیت ( سُبْحٰنَ الَّذِيْٓ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِيْ بٰرَكْنَا حَوْلَهٗ لِنُرِيَهٗ مِنْ اٰيٰتِنَا ۭ اِنَّهٗ هُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ Ǻ ) 17- الإسراء:1 ) اور جیسے اپنی خاص عبادت نماز کے موقعہ پر فرمایا آیت ( وَّاَنَّهٗ لَمَّا قَامَ عَبْدُ اللّٰهِ يَدْعُوْهُ كَادُوْا يَكُوْنُوْنَ عَلَيْهِ لِبَدًا 19ۉ ) 72- الجن:19 ) اور جب بندہ اللہ یعنی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کرنے کھڑے ہوتے ہیں یہی وصف قرآن کریم کے اترنے اور آپ کے پاس بزرگ فرشتے کے آنے کے اکرام کے بیان کرنے کے موقعہ پر بیان فرمایا ۔ پھر ارشاد ہوا کہ اس پاک کتاب کا آپ کی طرف اترنا اس لئے ہے کہ آپ تمام جہان کے لئے آگاہ کرنے والے بن جائیں ، ایسی کتاب جو سراسر حکمت وہدایت والی ہے جو مفصل مبین اور محکم ہے جس کے آس پاس بھی باطل پھٹک نہیں سکتا جو حکیم وحمید اللہ کی طرف سے اتاری ہوئی ہے ۔ آپ اس کی تبلیغ دنیا بھر میں کر دیں ہر سرخ وسفید کو ہر دور ونزدیک والے کو اللہ کے عذابوں سے ڈرادیں ، جو بھی آسمان کے نیچے اور زمین کے اوپر ہے اس کی طرف آپ کی رسالت ہے ۔ جیسے کہ خود حضور علیہ السلام کا فرمان ہے میں تمام سرخ وسفید انسانوں کی طرف بھیجا گیا ہوں اور فرمان ہے مجھے پانچ باتیں ایسی دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئی تھیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ ہر نبی اپنی اپنی قوم کی طرف بھیجا جاتا رہا لیکن میں تمام دنیا کی طرف بھیجا گیا ہوں ۔ خود قرآن میں ہے آیت ( قُلْ يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اِنِّىْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَيْكُمْ جَمِيْعَۨا الَّذِيْ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۚ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ يُـحْيٖ وَيُمِيْتُ ١٥٨ ) 7- الاعراف:158 ) اے نبی اعلان کر دو کہ اے دنیا کے لوگو میں تم سب کی طرف اللہ کا پیغمبر ہوں ۔ پھر فرمایا کہ مجھے رسول بنا کر بھیجنے والا مجھ پر یہ پاک کتاب اتارنے والا وہ اللہ ہے جو آسمان وزمین کا تنہا مالک ہے جو جس کام کو کرنا چاہے اسے کہہ دیتا ہے کہ ہوجاوہ اسی وقت ہو جاتا ہے ۔ وہی مارتا اور جلاتا ہے اس کی کوئی اولاد نہیں نہ اس کا کوئی شریک ہے ہر چیز اس کی مخلوق اور اس کی زیر پرورش ہے ۔ سب کا خالق ، مالک ، رازق ، معبود اور رب وہی ہے ۔ ہر چیز کا اندازہ مقرر کرنے والا اور تدبیر کرنے والا وہی ہے ۔