Surat ul Furqan

Surah: 25

Verse: 1

سورة الفرقان

تَبٰرَکَ الَّذِیۡ نَزَّلَ الۡفُرۡقَانَ عَلٰی عَبۡدِہٖ لِیَکُوۡنَ لِلۡعٰلَمِیۡنَ نَذِیۡرَا ۙ﴿۱﴾

Blessed is He who sent down the Criterion upon His Servant that he may be to the worlds a warner -

بہت بابرکت ہے وہ اللہ تعالٰی جس نے اپنے بندے پر فرقان اتارا تاکہ وہ تمام لوگوں کے لئے آگاہ کرنے والا بن جائے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Blessed be Allah Allah says while praising Himself: تَبَارَكَ الَّذِي نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَى عَبْدِهِ لِيَكُونَ لِلْعَالَمِينَ نَذِيرًا Blessed be He Who sent down (Nazzala) the criterion to His servant that he may be a warner to all nations. Here Allah praises Himself for the Noble Qur'an He has revealed to His noble Messenger. This is like the Ayat: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِى أَنْزَلَ عَلَى عَبْدِهِ الْكِتَـبَ وَلَمْ يَجْعَل لَّهُ عِوَجَا قَيِّماً لِّيُنْذِرَ بَأْسًا شَدِيدًا مِّن لَّدُنْهُ وَيُبَشِّرَ الْمُوْمِنِينَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ الصَّـلِحَاتِ ... All the praises and thanks be to Allah, Who has sent down to His servant the Book, and has not placed therein any crookedness. (He has made it) straight to give warning of a severe punishment from Him, and to give glad tidings to the believers, who do righteous deeds... (18:1-2) Here Allah says: تَبَارَكَ ... Blessed be He. The verbal form used here implies an ongoing, permanent, eternal blessing. ... الَّذِي نَزَّلَ الْفُرْقَانَ ... Who sent down the criterion, The verb Nazzala is a form which implies something done a great deal and often. This is like the Ayah: وَالْكِتَـبِ الَّذِى نَزَّلَ عَلَى رَسُولِهِ وَالْكِتَـبِ الَّذِى أَنَزلَ مِن قَبْلُ And the Book which He (Nazzala) sent down to His Messenger, and the Scripture which He (Anzala) sent down to those before (him). (4:136) Each of the previous Books was sent down at one time, but the Qur'an was revealed gradually, in stages, Ayat after Ayat, rulings after rulings, Surahs after Surahs. This is more eloquent and indicative of greater care for the one to whom it is revealed, as Allah says later in this Surah: وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوْلاَ نُزِّلَ عَلَيْهِ الْقُرْانُ جُمْلَةً وَاحِدَةً كَذَلِكَ لِنُثَبِّتَ بِهِ فُوَادَكَ وَرَتَّلْنَاهُ تَرْتِيلً وَلاَ يَأْتُونَكَ بِمَثَلٍ إِلاَّ جِيْنَاكَ بِالْحَقِّ وَأَحْسَنَ تَفْسِيرًا And those who disbelieve say: "Why is not the Qur'an revealed to him all at once!" Thus, that We may strengthen your heart thereby. And We have revealed it to you gradually, in stages. And no example or similitude do they bring, but We reveal to you the truth, and the better explanation thereof. (25:32-33) This Surah was named Al-Furqan, because it is the criterion that decides between truth and falsehood, guidance and misguidance, right and wrong, lawful and unlawful. ... عَلَى عَبْدِهِ ... to His servant, This description is one of praise and commendation, because here Allah is connecting him to Himself, describing him as His servant. Allah also described him in this manner when referring to the noblest of events, the Night of theIsra', as He said: سُبْحَانَ الَّذِى أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلً Glorified be He Who took His servant for a journey by night. (17:1) Allah also described him in this way when He described how he stood and called to Him: وَأَنَّهُ لَّمَا قَامَ عَبْدُ اللَّهِ يَدْعُوهُ كَادُواْ يَكُونُونَ عَلَيْهِ لِبَداً And when the servant of Allah stood up invoking Him in prayer they (the Jinn) just made round him a dense crowd as if sticking one over the other (in order to listen to the Prophet's recitation). (72:19) This description is also used here when Allah describes how the Book is revealed to him and how the angel comes down to him: تَبَارَكَ الَّذِي نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَى عَبْدِهِ لِيَكُونَ لِلْعَالَمِينَ نَذِيرًا Blessed be He Who sent down the criterion to His servant that he may be a warner to all nations. ... لِيَكُونَ لِلْعَالَمِينَ نَذِيرًا that he may be a warner to all nations. means, he alone has been blessed with this great, detailed, clear Book which, لااَّ يَأْتِيهِ الْبَـطِلُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَلااَ مِنْ خَلْفِهِ تَنزِيلٌ مِّنْ حَكِيمٍ حَمِيدٍ Falsehood cannot come to it from before it or behind it, (it is) sent down by the All-Wise, Worthy of all praise (Allah). (41:42) The One Who made it the mighty criterion, singled him out to convey it to those who seek the shade of trees and to those who live on the land (i.e., to all of mankind, nomad and settled alike), as the Prophet said: بُعِثْتُ إِلَى الاَْحْمَرِ وَالاَْسْوَد I have been sent to the red and the black. And he said: إِنِّي أُعْطِيتُ خَمْسًا لَمْ يُعْطَهُنَّ أَحَدٌ مِنَ الاَْنْبِيَاءِ قَبْلِي I have been given five things which no Prophet before me was given. Among them he mentioned: كَانَ النَّبِيُّ يُبْعَثُ إِلَى قَوْمِهِ خَاصَّةً وَبُعِثْتُ إِلَى النَّاسِ عَامَّة (Before me) a Prophet was sent only to his own people, but I have been sent to all of mankind. And Allah says: قُلْ يَأَيُّهَا النَّاسُ إِنِّى رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا Say: "O mankind! Verily, I am sent to you all as the Messenger of Allah..." (7:158), meaning, the One Who has sent me is the Sovereign of the heaven and the earth, who merely says to a thing "Be!" and it is. He is the one who gives life and causes death. Allah says here:

اللہ تعالیٰ ابن رحمت کا بیان فرماتا ہے تاکہ لوگوں پر اس کی بزرگی عیاں ہوجائے کہ اس نے اس پاک کلام کو اپنے بندے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمایا ہے ۔ سورۃ کہف کے شروع میں بھی اپنی حمد اسی انداز سے بیان کی ہے یہاں اپنی ذات کا بابرکت ہونا بیان فرمایا اور یہی وصف بیان کیا ۔ یہاں لفظ نزل فرمایا جس سے باربار بکثرت اترنا ثابت ہوتا ہے ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( وَالْكِتٰبِ الَّذِيْ نَزَّلَ عَلٰي رَسُوْلِهٖ ١٣٦؁ ) 4- النسآء:136 ) پس پہلی کتابوں کو لفظ انزل سے اور اس آخر کتاب کو لفظ نزل سے تعبیر فرمانا ہے اسی لئے ہے کہ پہلی کتابیں ایک ساتھ اترتی رہیں اور قرآن کریم تھوڑا تھوڑا کر کے حسب ضرورت اترتا رہا کبھی کچھ آیتیں ، کبھی کچھ سورتیں کبھی کچھ احکام ۔ اس میں ایک بڑی حکمت یہ بھی تھی کہ لوگوں کو اس پر عمل کرنا مشکل نہ ہو اور خوب یاد ہو جائے اور مان لینے کے لئے دل کھل جائے ۔ جیسے کہ اسی سورت میں فرمایا ہے کہ کافروں کا ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ قرآن کریم اس نبی پر ایک ساتھ کیوں نہ اترا ؟ جواب دیا گیا ہے کہ اس طرح اس لئے اترا کہ اس کے ساتھ تیری دل جمعی رہے اور ہم نے ٹھہرا ٹھہرا کر نازل فرمایا ۔ یہ جو بھی بات بنائیں گے ہم اس کا صحیح اور جچا تلا جواب دیں جو خوب مفصل ہوگا ۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں اس آیت میں اس کا نام فرقان رکھا ۔ اس لئے کہ یہ حق وباطل میں ہدایت وگمراہی میں فرق کرنے والا ہے اس سے بھلائی برائی میں حلال حرام میں تمیز ہوتی ہے ۔ قرآن کریم کی یہ پاک صفت بیان فرما کر جس پر قرآن اترا ان کی ایک پاک صفت بیان کی گئی ہے کہ وہ خاص اس کی عبادت میں لگے رہنے والے ہیں اس کے مخلص بندے ہیں ۔ یہ وصف سب سے اعلیٰ وصف ہے اسی لئے بڑی بڑی نعمتوں کے بیان کے موقعہ پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی وصف بیان فرمایا گیا ہے ۔ جیسے معراج کے موقعہ پر فرمایا آیت ( سُبْحٰنَ الَّذِيْٓ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِيْ بٰرَكْنَا حَوْلَهٗ لِنُرِيَهٗ مِنْ اٰيٰتِنَا ۭ اِنَّهٗ هُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ Ǻ۝ ) 17- الإسراء:1 ) اور جیسے اپنی خاص عبادت نماز کے موقعہ پر فرمایا آیت ( وَّاَنَّهٗ لَمَّا قَامَ عَبْدُ اللّٰهِ يَدْعُوْهُ كَادُوْا يَكُوْنُوْنَ عَلَيْهِ لِبَدًا 19؀ۉ ) 72- الجن:19 ) اور جب بندہ اللہ یعنی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کرنے کھڑے ہوتے ہیں یہی وصف قرآن کریم کے اترنے اور آپ کے پاس بزرگ فرشتے کے آنے کے اکرام کے بیان کرنے کے موقعہ پر بیان فرمایا ۔ پھر ارشاد ہوا کہ اس پاک کتاب کا آپ کی طرف اترنا اس لئے ہے کہ آپ تمام جہان کے لئے آگاہ کرنے والے بن جائیں ، ایسی کتاب جو سراسر حکمت وہدایت والی ہے جو مفصل مبین اور محکم ہے جس کے آس پاس بھی باطل پھٹک نہیں سکتا جو حکیم وحمید اللہ کی طرف سے اتاری ہوئی ہے ۔ آپ اس کی تبلیغ دنیا بھر میں کر دیں ہر سرخ وسفید کو ہر دور ونزدیک والے کو اللہ کے عذابوں سے ڈرادیں ، جو بھی آسمان کے نیچے اور زمین کے اوپر ہے اس کی طرف آپ کی رسالت ہے ۔ جیسے کہ خود حضور علیہ السلام کا فرمان ہے میں تمام سرخ وسفید انسانوں کی طرف بھیجا گیا ہوں اور فرمان ہے مجھے پانچ باتیں ایسی دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئی تھیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ ہر نبی اپنی اپنی قوم کی طرف بھیجا جاتا رہا لیکن میں تمام دنیا کی طرف بھیجا گیا ہوں ۔ خود قرآن میں ہے آیت ( قُلْ يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اِنِّىْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَيْكُمْ جَمِيْعَۨا الَّذِيْ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۚ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ يُـحْيٖ وَيُمِيْتُ ١٥٨؁ ) 7- الاعراف:158 ) اے نبی اعلان کر دو کہ اے دنیا کے لوگو میں تم سب کی طرف اللہ کا پیغمبر ہوں ۔ پھر فرمایا کہ مجھے رسول بنا کر بھیجنے والا مجھ پر یہ پاک کتاب اتارنے والا وہ اللہ ہے جو آسمان وزمین کا تنہا مالک ہے جو جس کام کو کرنا چاہے اسے کہہ دیتا ہے کہ ہوجاوہ اسی وقت ہو جاتا ہے ۔ وہی مارتا اور جلاتا ہے اس کی کوئی اولاد نہیں نہ اس کا کوئی شریک ہے ہر چیز اس کی مخلوق اور اس کی زیر پرورش ہے ۔ سب کا خالق ، مالک ، رازق ، معبود اور رب وہی ہے ۔ ہر چیز کا اندازہ مقرر کرنے والا اور تدبیر کرنے والا وہی ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

11فرقان کے معنی ہیں حق و باطل، توحید و شرک اور عدل و ظلم کے درمیان کا فرق کرنے والا، اس قرآن نے کھول کر ان امور کی وضاحت کردی ہے، اس لئے اسے فرقان سے تعبیر کیا۔ 12اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت عالم گیر ہے اور آپ تمام انسانوں اور جنوں کے لئے ہادی و رہنما بنا کر بھیجے گئے ہیں، جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا ( قُلْ يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اِنِّىْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَيْكُمْ جَمِيْعاً ) 7 ۔ الاعراف :158) (صحیح مسلم) ' پہلے نبی کسی ایک قوم کی طرف مبعوث ہوتا تھا اور میں تمام لوگوں کی طرف نبی بنا کر بھیجا گیا ہوں ' رسالت و نبوت کے بعد، توحید کا بیان کیا جا رہا ہے۔ یہاں اللہ کی چار صفات بیان کی گئی ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١] تبارک کا وہ مادہ ب ر ک ہے۔ اسی سے لفظ برکت ہے اور کسی چیز سے زیادہ سے زیادہ متوقع یا غیر متوقع فوائد حاصل ہوجانے کا نام برکت ہے۔ اور بابرکت وہ ذات ہے جو دوسروں کو زیادہ سے زیادہ متوقع اور غیر متوقع فوائد پہنچانے والی ہو۔ علاوہ ازیں تبارک کے لفظ میں تمہیدی اور تقدس کا مفہوم بھی پایا جاتا ہے اور یہ لفظ اللہ کی ذات کے ساتھ مخصوص ہے۔ [ ٢] اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بہت سے مقامات پر اپنے پیارے رسول کے لئے عبد کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پہلی امتوں نے بھی اپنے رسول کی شان میں عقیدت مندی کی بنا پر غلو کیا تھا اور انھیں ان کے حقیقی مقام سے اٹھا کر اللہ کے ساتھ جا ملایا تھا۔ یہود نے کہا کہ عزیر کے جسم میں اللہ تعالیٰ نے حلول کیا ہے اور وہ اللہ کے اوتار تھے، ہندوؤں میں بھی اوتار یا حلول کا عقیدہ بکثرت پایا جاتا ہے اور نصاریٰ نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا بھی کہا بلکہ اس سے بڑھ کر اللہ ہی بنادیا۔ اسی لئے آپ نے واضح الفاظ میں اپنی امت کو تنبیہ فرمائی کہ && مجھے میری حد سے ایسے نہ بڑھانا چڑھانا جیسے نصاریٰ نے عیسیٰ ابن مریم کو چڑھا دیا میں تو اللہ کا بندہ ہوں لہذا تم یوں کہو اللہ کا بندہ اور اس کا رسول && (بخاری، کتاب بدوالخلق۔ باب واذکر فی الکتاب مریم) لیکن افسوس ہے کہ آپ کی اس تنبیہ کے باوجود مسلمانوں نے بھی وہی کچھ کیا جو پہلی امتیں کرتی رہیں۔ مسلمانوں کے طبقہ نے آپ کو نور من نور اژ قرار دیا۔ اور کچھ لوگوں نے یوں کہا : وہی جو مستوی عرش تھا خدا ہو کر اتر پڑا ہے مدینہ میں مصطفٰے ہو کر یہود و نصاریٰ نے تو اس حلول کے عقیدہ کو انبیاء تک محدود رکھا تھا مگر مسلمانوں نے یہ کمال دکھایا کہ انبیاء کے علاوہ دوسرے بزرگوں میں بھی اللہ کے حلول کا عیقدہ اپنا لیا۔ اسی طرح کا ایک دوسرا شعر : اپنا اللہ میاں نے ہند میں نام رکھ لیا خواجہ غریب نواز بھی اسی عقیدہ حلول کی وضاحت کر رہا ہے۔ اسلام میں اس عقیدہ کو داخل کرنے والا ایک یہودی عبداللہ بن سبا تھا۔ یہ یمن کے شہر شنعاء کا رہنے والا اور نہایت ذہین و فطین آدمی تھا۔ جب اس نے یہ معلوم کرلیا کہ عملی میدان میں مسلمانوں سے انتقام لینے کی یہودیوں میں سکت باقی نہیں رہ گئی تو اس نے فریب کاری کے طور پر اسلام قبول کیا اور درویشی کا لبادہ اوڑھ کر زہدوتقویٰ کے روپ میں سامنے آتا۔ یہ حضرت عمر (رض) کے زمانہ میں مسلمان ہوا اور حالات کے دھارے کا انتظار کرتا رہا۔ اس کی یہ سازشی تحریک انتہائی خفیہ طور پر مکہ اور مدینہ سے اور دوسرے علاقوں مثلاً کوفہ، بصرہ اور مصر میں اپنا کام کر رہی تھی۔ بالاخر اسی یہود کے حامیوں نے حضرت عثمان (رض) پر مختلف الزامات عائد کئے اور موقعہ پاکر غنڈہ گردی کرکے ٣٥ ھ میں انھیں شہید کردیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون اسلام کے جسم پر اس نے دو طرح کے وار کئے اور اپنی سازش کی کامیابی کے لئے حضرت علی (رض) کو بطور ہیرو منتخب کیا۔ اس کا پہلا وار یہ تھا کہ نو مسلم عجمی لوگوں کو یہ تاثر دیا کہ رسول اکرم سے قرابتداری کی بنا پر خلافت کے اصل حقدار حضرت علی (رض) تھے اور پہلے تین خلیفوں نے ان کا حق غصب کیا ہے۔ نئے مسلمان ابھی اسلامی تعلیمات سے پوری طرح آگاہ نہیں تھے، دنیا کے عام دستور وراثت و نیابت کے مطابق اس کی چال میں آگئے۔ اور دوسرا وار دین طریقت کو اسلام میں داخل کرنا تھا۔ وہ خود درویشی کے روپ میں سامنے آیا تھا۔ لہذا ظاہر اور باطن کی تفریق کرکے اور شریعت و طریقت کے رموز بتلا کر ان نو مسلموں میں دین طریقت کے ملحدانہ اور کافرانہ نظریات داخل کردیئے اور بتلایا کہ حضرت علی (رض) اللہ کی ذات کا مظہر ہیں اور اللہ ان کے بدن میں حلول کر گیا ہے۔ گویا اسلام میں حضرت علی (رض) وہ پہلے شخص ہیں جن کے متعلق حلول کا عقیدہ اپنایا گیا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق حلول کا عقیدہ تو بہت زمانہ بعد کی پیداوار ہے۔ عبداللہ بن سبا نے خود ایک دفعہ کوفہ میں حضرت علی (رض) کو مخاطب کرکے رمز و کتایہ کی سبان میں کہا انت ھو یعنی && تو وہی ہے && تو حضرت علی (رض) اس کے نظریہ کو بھانپ گئے اور اسے سخت سرزنش کی اور بعد میں اسے سزا دینے کے لئے بلابھیجا تو معلوم ہوا کہ وہ کوفہ سے راہ فرار اختیار کرچکا ہے۔ بہرحال اس نے اپنے معتقدین کی ایک جماعت تیار کرلی تھی۔ ایک دفعہ یہ لوگ علی الاعلان بازار میں کھڑے ہو کر اپنے اسی عقیدہ کا پرچار کر رہے تھے کہ حضرت علی (رض) کے غلام قنبر نے یہ باتیں سنیں تو حضرت علی (رض) کو جاکر اطلاع دی کہ کچھ لوگ آپ کو اللہ کہہ رہے ہیں۔ اور آپ میں خدائی صفات مانتے ہیں۔ آپ نے ان کو بلایا اور قوم زط کے ستر اشخاص تھے آپ نے ان سے پوچھا && تم کیا کہتے ہو ؟ && انہوں نے کہا کہ آپ ہمارے رب ہیں اور خالق اور رازق ہیں && آپ نے فرمایا : && تم پر افسوس ! میں تو تم ہی جیسا ایک بندہ ہوں اور تمہاری طرح کھانے پینے کا محتاج ہوں۔ اگر اللہ کی اطاعت کروں گا تو مجھے اجر دے گا اور نافرمانی کروں گا تو سزا دے گا۔ لہذا تم اللہ سے ڈر جاؤ اور اس عقیدہ کو چھوڑ دو && دوسرے دن قنبر نے پھر حضرت علی (رض) کو بتلایا کہ وہ لوگ پھر وہی کچھ کہہ رہے ہیں۔ آپ نے دوبارہ انھیں بلایا اور تنبیہ کی۔ لیکن پھر بھی یہ لوگ باز نہ آئے۔ تیسرے دن آپ نے انھیں بلا کر یہ دھمکی بھی دی کہ اگر تم نے پھر یہی بات کہی تو میں تم کو نہایت بڑی سزا دوں گا۔ مگر اس جماعت کا سرغنہ عبداللہ بن سبا تو ایک خاص مشن کے تحت یہ تحریک چلارہا تھا۔ لہذا یہلوگ اپنی بات پر اڑے رہے۔ آپ نے ایک گڑھا کھدوایا جس میں آگ جلائی گئی اور ان سے کہا۔ && دیکھو آب بھی باز آجاؤ۔ ورنہ اس گڑھے میں پھینک دوں گا مگر وہ اپنے عقیدہ پر قائم رہے تو حضرت علی (رض) کے حکم سے آگ میں پھینک دیئے گئے && (فتح الباری۔ ج ١٢، ص ٢٤٨) امام بخاری نے یہ حدیث مختصراً کتاب استثبابہ نالمرتدین میں درج فرمائی ہے اور ان حلولیوں کے لئے && زنادقژ && کا لفظ استعمال کیا ہے اور یہ بھی صراحت کی ہے کہ حضرت ابن عباس (رض) کہتے تھے کہ اگر میں حاکم ہوتا تو ان کو جلانے کے بجائے ان کے قتل پر اکتفا کرتا۔ حلول کا عقیدہ رکھنے والے وہ لوگ جو بچ رہے تھے اپنے عقیدہ میں اور بھی سخت ہوگئے۔ ان کی دلیل یہ تھی کہ آگ اور پانی سے عذاب دینا صرف اللہ کو سزاوار ہے اور حضرت علی (رض) نے بھی چونکہ آگ سے جلایا ہے لہذا وہ عین اللہ ہیں۔ وہ زبان سے یہ کہتے تھے کہ لا لعذب بالنار الا رب النار && یعنی آگ کا رب بھی آگ سے سزا دیتا ہے && عبداللہ بن سبا کا یہ عقیدہ اس کے پیروکار نصیریہ، کیسانیہ، قرمطیہ اور باطنیہ سے ہوتا ہوا صوفیاء کے اندر داخل ہوگیا حسین بن منصور حلاج) م ٣٠٩ ھ ( اس عقیدہ کا علمبردار اعلیٰ تسلیم کیا جاتا ہے اور اسلام میں یہی وہ پہلا شخص ہے جس نے خود اپنی ذات کے متعلق کھل کر یہ دعویٰ کیا کہ اللہ اس کے اندر حلول کر گیا ہے۔ گویا اس سے پہلے بھی کچھ صوفیاء اس عقیدہ کے حامی اور اسے اپنے سینوں میں چھپائے رکھتے تھے، مگر عقیدہ کو شہرت دوم حلاج ہی کی ذات سے ہوئی۔ وہخود اناالحق کا دعویٰ کرا تھا سمجھانے کے باوجود جب وہ اپنے عقیدہ پر مصر رہا تو خلیفہ بغداد المقتدر باللہ نے علماء سے فتویٰ لینے کے بعد ٢٤ ذی قعدہ ٣٠٩ ھ (٩١٤ ئ ( کو بغداد میں قتل کردیا اور اس && خدا && کی لاش کو جلا کر دریا میں پھینک دیا گیا اور اس کی خدائی اپنے آپ کو بھی موت اور لاش سے جلنے کے عذاب سے بچا نہ سکی۔ مگر حیرت تو اس بات پر ہے کہ حسین بن منصور کے اتنے شدید جرم کے صوفیاء کی اکثرت نے اس کے حق پر ہونے کی حمایت کی لہذا حلول کا عقیدہ آج تک مسلمانوں میں مثوارت چلا آرہا ہے۔ چناچہ امام اہل سنت رضا خان بریلوی فرماتے ہیں : سوال : حضرت منصور، تبریز اور سرمد نے ایسے الفاظ کہے جن سے خدائی ثابت ہے) یعنی یہ تینوں حضرات خدائی کے دعویدار تھے ( لیکن وہ ولی اللہ گنے جاتے ہیں۔ جبکہ فرعون، شداد، ہامان، اور نمرود نے یہی دعویٰ کیا تھا تو وہ دائمی جہنمی ہیں اس کی کیا وجہ ہے ؟ جواب : ان کافروں نے خود کہا اور ملعون ہوئے اور انہوں نے) یعنی منصور، تبریز اور سرمد نے (خود نہ کہا۔ اس نے کہا جسے کہنا شایاں ہے۔ اور آواز بھی انہی سے مسموع ہوئی۔ جیسے حضرت موسیٰ نے درخت سے سنا۔ انی انا اژ میں ہو رب اللہ سارے جہان کا، درخت نے کہا تھا۔۔۔ بلکہ اللہ نے۔ یونہی یہ حضرات اس وقت شجر موسیٰ ہوتے ہیں && ( احکام شریعت ص ٩٣) اس جواب میں نشان زدہ الفاظ پر اور اس کی دلیل پر غور فرمائے اور دیکھئے کہ امام اہل سنت عقیدہ حلول کی کس قسم کے اسرار و رموز سے وکالت فرما رہے ہیں۔ فرعون، شداد، نمرود اور ہامان وغیرہ کو اللہ نے جہنمی قرار دیا اور اس کی اطلاع قرآن میں دی ہے۔ حلاج و سرمد وعیرہ کو ولی تو آپ لوگ کہتے ہیں۔ عامہ نالمسلمین اور علماء نے تو منصور کو زندیق اور کافر قرار دے کر اس کے قتل کا فتویٰ صادر کیا تھا اور باقی دو کا انجام اللہ کے سپرد کرتے ہیں۔ ایک دوسرے مقام پر یہی امام اہل سنت فرماتے ہیں کہ حضور پرنور سیدنا غوث اعظم حضور اقدس و انور سید عالم کے وارث کامل و نائب تام آئینہ ذات ہیں کہ حضور پر نور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مع اپنی جمیع صفات جمال و جلال و کمال و افضال کے ان میں متجلی ہیں۔ جس طرح ذات عزت احدیت مع جملہ صفات و نعوت و جلالت آئینہ محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں تجلی فرما ہے && ) فتاویٰ افریقہ ص ١٠١) گویا امام صاحب کے اس ارشاد نے واضح طور پر بتلا دیا کہ اللہ کی ذات رسول اللہ کی ذات میں جلوہ گر ہے۔ اسی طرح غوث اعظم میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات جلوہ گر ہے یہ ہے حلول کا وہ نظریہ جسے صوفیاء کے ہی ایک طبقہ نے گمراہ کن نظریہ قرار دیا ہے۔ کیونکہ یہ شرک فی الصفات کے علاوہ شرک فی الذات کی بھی واضح دلیل ہے۔ اسی باطل نظریہ کے رو میں اللہ نے سورة نساء میں فرمایا : (قُلْ يٰٓاَهْلَ الْكِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِيْ دِيْنِكُمْ غَيْرَ الْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعُوْٓا اَهْوَاۗءَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوْا مِنْ قَبْلُ وَاَضَلُّوْا كَثِيْرًا وَّضَلُّوْا عَنْ سَوَاۗءِ السَّبِيْلِ 77؀ ) 5 ۔ المآئدہ :77) اے اہل کتاب اپنے دین میں علو نہ کرو اور وہی بات کہو جو حق ہو && اور سورة مائدہ میں فرمایا : (قُلْ يٰٓاَهْلَ الْكِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِيْ دِيْنِكُمْ غَيْرَ الْحَقِّ ( && اے اہل کتاب اپنے دین میں ناحق غلو نہ کرو && ٣۔ فرقان مبالغہ کا صیغہ ہے۔ یعنی حق و باطل کو یا کفر اور ایمان کو بالکل الگ الگ کرکے دکھلانے والا۔ اور اس سے مراد قرآن ہے۔ جس نے ایمان اور اس کے مقابلہ میں کفر و شرک اور نفاق کی ایک ایک خصلت کو یوں واضح کرکے بتلا دیا ہے کہ کچھ ابہام باقی نہیں رہتا۔ اور بعض علماء نے فرقان سے مراد حلت و حرمت کے احکام کو جدا جدا کرکے واضح طور پر بتلانے والا لیا ہے۔ اور یوم الفرقان سے مراد غزوہ بدر کا دن ہے جو حق و باطل کے درمیان ایک فیصلہ کن جنگ ثابت ہوئی۔ ٤۔ لیکون کی ضمیر عبدہ کی طرف بھی راجع قرار دی جاسکتی ہے اور فرقان یعنی قرآن کی طرف بھی اور صاحب قرآن کی طرف بھی۔ کیونکہ قرآن اور صاحب قرآن دونوں کی دعوت ایک ہی ہے۔ قرآن مراد لینے کی صورت میں مفہوم یہ ہوگا کہ قرآن سب لوگوں کے لئے تاقیامت کتاب ہدایت ہے اور صاحب قرآن مراد لینے کی صورت میں مفہوم یہ ہوگا کہ آپ تاقیامت تمام تر لوگوں کے لئے اللہ کے رسول ہیں۔ اور قرآن ہو یا صاحب قرآن دونوں کا مقصد یہ ہے کہ لوگوں کو ان کے برے اعمال کے برے انجام سے خبردار کیا جائے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

تَبٰرَكَ الَّذِيْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ ۔۔ : اللہ تعالیٰ نے اس سورت میں سب سے پہلے توحید پر کلام فرمایا، کیونکہ وہ سب سے پہلے اور سب سے اہم ہے، پھر نبوت پر، کیونکہ وہ رب اور بندے کے درمیان واسطہ ہے، پھر قیامت پر، کیونکہ وہ خاتمہ ہے۔ (شوکانی) ” تَبٰرَكَ “ ” بَرَکَۃٌ“ سے باب تفاعل ہے، ” بَرَکَۃٌ“ کا اشتقاق ” بِرْکَۃٌ“ (حوض) سے ہے کہ اس میں بہت زیادہ پانی ہوتا ہے، یا ” بَرَکَ الإِْبِلُ “ سے ہے، جس کا معنی اونٹ کا بیٹھنا ہے۔ باب تفاعل میں مبالغہ پایا جاتا ہے، اسی مناسبت سے اس کا ترجمہ ” بہت برکت والا ہے “ کیا گیا ہے۔ برکت سے مراد خیر میں زیادہ ہونا، بڑھا ہوا ہونا، دائمی خیر والا ہونا ہے۔ یعنی وہ خیر اور بھلائی میں ساری کائنات سے بےانتہا بڑھا ہوا ہے۔ بلندی، بڑائی، احسان، غرض ہر لحاظ سے اس کی ذات بیحد و حساب خوبیوں اور بھلائیوں کی جامع ہے۔ یاد رہے ” تَبٰرَكَ “ کا لفظ اللہ تعالیٰ ہی کے لیے آتا ہے، کسی اور میں یہ خوبی نہیں۔ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ : ” نَزَّلَ “ میں تکرار کا معنی پایا جاتا ہے، یعنی تھوڑا تھوڑا کرکے نازل فرمایا۔ اس کی حکمت آگے آیت (٣٢) میں آرہی ہے۔ قرآن کو ” الْفُرْقَانَ “ کہا ہے، یعنی یہ اپنے احکام کے ذریعے سے حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والا ہے اور اسی لفظ کی بنا پر اس سورت کا نام ” الفرقان “ رکھا گیا ہے۔ عَلٰي عَبْدِهٖ : دیکھیے سورة بنی اسرائیل کی پہلی آیت کی تفسیر۔ لِيَكُوْنَ لِلْعٰلَمِيْنَ نَذِيْرَۨا : اس میں آپ پر قرآن نازل کرنے کی حکمت بیان فرمائی ہے۔ سارے جہانوں سے مراد قیامت تک تمام جن و انس ہیں، اس لیے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت ان سب کے لیے ہے، کوئی دوسرا رسول دنیا میں ایسا نہیں آیا۔ یہ مضمون قرآن مجید میں کئی مقامات پر بیان ہوا ہے۔ دیکھیے سورة اعراف (١٥٨) ، انعام (١٩) ، سبا (٢٨) اور احزاب (٤٠) عرب اور اہل کتاب کی صراحت کے لیے دیکھیے آل عمران (٢٠) جابر بن عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( أُعْطِیْتُ خَمْسًا لَمْ یُعْطَھُنَّ أَحَدٌ مِنَ الْأَنْبِیَاءِ قَبْلِیْ ۔۔ وَ کَان النَّبِيُّ یُبْعَثُ إِلٰی قَوْمِہِ خَاصَّۃً وَ بُعِثْتُ إِلَی النَّاسِ کَافَّۃً ) [ بخاري، الصلاۃ، باب قول النبي (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) : جعلت لي الأرض ۔۔ : ٤٣٨ ] ” مجھے پانچ چیزیں عطا کی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے انبیاء میں سے کسی کو نہیں دی گئیں۔۔ (ان میں سے ایک یہ ہے کہ) پہلے نبی خاص اپنی قوم کی طرف بھیجا جاتا تھا جبکہ مجھے تمام لوگوں کی طرف مبعوث کیا گیا۔ “ 3 یہاں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صرف ” نذیر “ ہونے کا ذکر فرمایا، کیونکہ آگے کفار کے اقوال و احوال اور ان کے انجام کا ذکر ہے، اس کے مناسب ڈرانا ہی ہے۔ نذارت و بشارت دونوں کا اکٹھا ذکر آگے آ رہا ہے، فرمایا : (وَمَآ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا مُبَشِّرًا وَّنَذِيْرًا) [ الفرقان : ٥٦ ] ” اور ہم نے تجھے نہیں بھیجا مگر خوش خبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Special features of the Surah There is consensus among the commentators that this Surah was revealed in Makkah. However, Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) and Qatadah (رض) contend that three of its verses are Madani and rest of the Surah is Makkan. Yet Qurtubi and a few others maintain that the Surah itself is Madani and only a few verses are Makkan. The gist of the subject matter of the Surah is to describe and define the greatness of the Holy Qur&an and the truth of the prophethood of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، to which there were doubts expressed by the unbelievers. The Surah contains answers to their objections. Commentary تَبَارَ‌كَ (25:1) is derived from بَرَکَہ ، meaning abundance of a good thing. Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) ` e& & has explained that the meaning of the first verse is that all blessings are from Allah alone. فُرْ‌قَانَ (Furgan, translated above as &criterion& )is a title of the Qur&an and its meaning is to distinguish. The Holy Qur&an by its very nature distinguishes between right and wrong, and differentiates, through miracles between the right people and the wrong ones, hence it is called as Furqan. لِلْعَالَمِينَ (warner to the worlds - 25:1). This proves that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) prophethood was for the entire universe and not just for a certain community or time, as was the case with other prophets. In a Hadith recorded in Sahih Muslim, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has pointed out six special features about his prophethood. One of the special features is the universality of his prophethood i.e. it is for all ages and all people.

خلاصہ تفسیر بڑی عالی شان ذات ہے جس نے یہ فیصلہ کی کتاب (یعنی قرآن) اپنے خاص بندے (محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل فرمائی تاکہ وہ تمام دنیا جہاں والوں کے لئے (ایمان نہ لانے کی صورت میں عذاب الٰہی سے) ڈرانے والا ہو، ایسی ذات جس کے لئے آسمانوں اور زمین کی حکومت حاصل ہے اور اس نے کسی کو (اپنی) اولاد قرار نہیں دیا اور نہ کوئی اس کا شریک ہے حکومت میں اور اس نے ہر چیز کو پیدا کیا پھر سب کا الگ الگ انداز رکھا (کہ کسی چیز کے آثار و خواص کچھ ہیں کسی کے کچھ ہیں) اور ان مشرکین نے خدا کو چھوڑ کر اور ایسے معبود قرار دے لئے ہیں جو (کسی طرح معبود ہونے کے قابل نہیں کیونکہ وہ) کسی چیز کے خالق نہیں اور بلکہ وہ مخلوق ہیں اور خود اپنے لئے نہ کسی نقصان ( کے رفع کرنے) کا اختیار رکھتے ہیں اور نہ کسی نفع (کے حاصل کرنے) کا اور نہ کسی کے مرنے کا اختیار رکھتے ہیں (کہ کسی جاندار کی جان نکال سکیں) اور نہ کسی کے جینے کا ( اختیار رکھتے ہیں کہ کسی بےجان میں جان ڈال دیں) اور نہ کسی کو (قیامت میں) دوبارہ زندہ کرنے کا (اختیار رکھتے ہیں۔ اور جو شخص ان چیزوں پر قدرت نہیں رکھتا وہ معبود نہیں ہوسکتا) معارف وسائل خصوصیات سورت یہ پوری سورت جمہور مفسرین کے نزدیک مکی ہے۔ حضرت ابن عباس و قتادہ نے تین آیتوں کے متعلق بیان فرمایا کہ یہ مکی نہیں مدنی ہیں۔ باقی سورت مکی ہے اور بعض حضرات نے یہ بھی کہا ہے کہ یہ سورت مدنی ہے اور اس میں کچھ آیات مکی ہیں (قرطبی) اور خلاصہ اس سورت کے مضامین کا قرآن کریم کی عظمت اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت و رسالت کی حقانیت کا بیان اور دشمنوں کی طرف سے اس پر جو اعتراضات تھے ان کا جواب ہے۔ تَبٰرَكَ ، برکت سے مشتق ہے۔ برکت کے معنے خیر کی کثرت کے ہیں۔ ابن عباس نے فرمایا کہ معنی آیت کے یہ ہیں کہ ہر خیر و برکت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ فُرْقَانَ ، قرآن کریم کا لقب ہے لغوی معنی اس کے تمیز اور فرق کرنے کے ہیں۔ قرآن چونکہ اپنے واضح ارشادات کے ذریعہ حق و باطل میں تمیز اور فرق بتلاتا ہے اور معجزہ کے ذریعہ اہل حق و اہل باطل میں امتیاز کردیتا ہے اس لئے اس کو فرقان کہا جاتا ہے۔ لِلْعٰلَمِيْنَ ، اس سے ثابت ہوا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت و نبوت سارے عالم کے لئے ہے بخلاف پچھلے انبیاء کے ان کی نبوت و رسالت کسی مخصوص جماعت یا مخصوص مقام کے لئے ہوتی تھی۔ صحیح مسلم کی حدیث میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو اپنے چھ خصوصی فضائل کا ذکر فرمایا ہے ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آپ کی بعثت سارے جہان کے لئے عام ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ۝ تَبٰرَكَ الَّذِيْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰي عَبْدِہٖ لِيَكُوْنَ لِلْعٰلَمِيْنَ نَذِيْرَۨا۝ برك أصل البَرْك صدر البعیر وإن استعمل في غيره، ويقال له : بركة، وبَرَكَ البعیر : ألقی بركه، واعتبر منه معنی اللزوم، فقیل : ابْتَرَكُوا في الحرب، أي : ثبتوا ولازموا موضع الحرب، وبَرَاكَاء الحرب وبَرُوكَاؤُها للمکان الذي يلزمه الأبطال، وابْتَرَكَتِ الدابة : وقفت وقوفا کالبروک، وسمّي محبس الماء بِرْكَة، والبَرَكَةُ : ثبوت الخیر الإلهي في الشیء . قال تعالی: لَفَتَحْنا عَلَيْهِمْ بَرَكاتٍ مِنَ السَّماءِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف/ 96] ( ب رک ) البرک اصل میں البرک کے معنی اونٹ کے سینہ کے ہیں ( جس پر وہ جم کر بیٹھ جاتا ہے ) گو یہ دوسروں کے متعلق بھی استعمال ہوتا ہے اور اس کے سینہ کو برکۃ کہا جاتا ہے ۔ برک البعیر کے معنی ہیں اونٹ اپنے گھٹنے رکھ کر بیٹھ گیا پھر اس سے معنی لزوم کا اعتبار کر کے ابترکوا ا فی الحرب کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی میدان جنگ میں ثابت قدم رہنے اور جم کر لڑنے کے ہیں براکاء الحرب الحرب وبروکاءھا سخت کا ر زار جہاں بہ اور ہی ثابت قدم رہ سکتے ہوں ۔ ابترکت الدبۃ چو پائے کا جم کر کھڑا ہوجانا برکۃ حوض پانی جمع کرنے کی جگہ ۔ البرکۃ کے معنی کسی شے میں خیر الہٰی ثابت ہونا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ لَفَتَحْنا عَلَيْهِمْ بَرَكاتٍ مِنَ السَّماءِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف/ 96] تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکات ( کے دروازے ) کھول دیتے ۔ یہاں برکات سے مراد بارش کا پانی ہے اور چونکہ بارش کے پانی میں اس طرح خیر ثابت ہوتی ہے جس طرح کہ حوض میں پانی ٹہر جاتا ہے اس لئے بارش کو برکات سے تعبیر کیا ہے ۔ نزل النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ. يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] ( ن ز ل ) النزول ( ض ) اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا فُرْقَانُ والفُرْقَانُ أبلغ من الفرق، لأنه يستعمل في الفرق بين الحقّ والباطل، وتقدیره کتقدیر : رجل قنعان : يقنع به في الحکم، وهو اسم لا مصدر فيما قيل، والفرق يستعمل في ذلک وفي غيره، وقوله : يَوْمَ الْفُرْقانِ [ الأنفال/ 41] ، أي : الیوم الذي يفرق فيه بين الحقّ والباطل، والحجّة والشّبهة، وقوله : يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تَتَّقُوا اللَّهَ يَجْعَلْ لَكُمْ فُرْقاناً [ الأنفال/ 29] ، أي : نورا وتوفیقا علی قلوبکم يفرق به بين الحق والباطل «1» ، فکان الفرقان هاهنا کالسّكينة والرّوح في غيره، وقوله : وَما أَنْزَلْنا عَلى عَبْدِنا يَوْمَ الْفُرْقانِ [ الأنفال/ 41] ، قيل : أريد به يوم بدر فإنّه أوّل يوم فُرِقَ فيه بين الحقّ والباطل، والفُرْقَانُ : کلام اللہ تعالی، لفرقه بين الحقّ والباطل في الاعتقاد، والصّدق والکذب في المقال، والصالح والطّالح في الأعمال، وذلک في القرآن والتوراة والإنجیل، قال : وَإِذْ آتَيْنا مُوسَى الْكِتابَ وَالْفُرْقانَ [ البقرة/ 53] ، وَلَقَدْ آتَيْنا مُوسی وَهارُونَ الْفُرْقانَ [ الأنبیاء/ 48] ، تَبارَكَ الَّذِي نَزَّلَ الْفُرْقانَ [ الفرقان/ 1] ، شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدىً لِلنَّاسِ وَبَيِّناتٍ مِنَ الْهُدى وَالْفُرْقانِ [ البقرة/ 185] . الفرقان یہ فرق سے ابلغ ہے کیونکہ یہ حق اور باطل کو الگ الگ کردینا کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور یہ رجل وقنعان ( یعنی وہ آدمی جس کے حکم پر قناعت کی جائے ) کی طرح اسم صفت ہے مصدر نہیں ہے اور فرق کا لفظ عام ہے جو حق کو باطل سے الگ کرنے کے لئے بھی آتا ہے اور دوسری چیزوں کے متعلق بھی استعمال ہوتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تَتَّقُوا اللَّهَ يَجْعَلْ لَكُمْ فُرْقاناً [ الأنفال/ 29] مومنوں اگر تم خدا سے ڈرو گے تو وہ تمہارے لئے امر فارق پیدا کر دیگا ( یعنی تم کو ممتاز کر دے گا ۔ میں فر قان سے مراد یہ ہے کہ وہ تمہارے دلوں کے اندر نور اور توفیق پیدا کر دیگا جس کے ذریعہ تم حق و باطل میں امتیاز کرسکو گے تو گویا یہاں فرقان کا لفظ ایسے ہی ہے جیسا کہ دوسری جگہ سکینۃ اور روح کے الفاظ ہیں اور قرآن نے یوم الفرقان اس دن کو کہا ہے جس روز کہ حق و باطل اور صحیح وغلط کے مابین فرق اور امتیاز ظاہر ہوا چناچہ آیت : ۔ وَما أَنْزَلْنا عَلى عَبْدِنا يَوْمَ الْفُرْقانِ [ الأنفال/ 41] اور اس ( نصرت ) پر ایمان رکھتے ہو جو ( حق و باطل میں ) فرق کرنے کے دن نازل فرمائی ۔ میں یوم الفرقان سے جنگ بدر کا دن مراد ہے کیونکہ وہ ( تاریخ اسلام میں ) پہلا دن ہے جس میں حق و باطل میں کھلا کھلا امتیاز ہوگیا تھا ۔ اور کلام الہی ( وحی ) بھی فرقان ہوتی ہے کیونکہ وہ حق اور باطل عقائد میں فرق کردیتی ہے سچی اور جھوٹی باتوں اور اچھے برے اعمال کو بالکل الگ الگ بیان کردیتی ہے اس لئے قرآن کریم تورات اور انجیل کو فرقان سے تعبیر فرما گیا ہے چناچہ توراۃ کے متعلق فرمایا : ۔ وَلَقَدْ آتَيْنا مُوسی وَهارُونَ الْفُرْقانَ [ الأنبیاء/ 48] اور ہم نے موسیٰ اور ہارون هْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدىً لِلنَّاسِ وَبَيِّناتٍ مِنَ الْهُدى وَالْفُرْقانِ [ البقرة/ 185] (علیہ السلام) کو ہدایت اور گمراہی میں ) فرق کردینے والی ۔ ،۔۔ عطا کی ۔ تَبارَكَ الَّذِي نَزَّلَ الْفُرْقانَ [ الفرقان/ 1] وہ خدائے عزوجل بہت ہی بابرکت ہے جس نے اپنے بندے پر قرآن نازل فرمایا : ۔ وَإِذْ آتَيْنا مُوسَى الْكِتابَ وَالْفُرْقانَ [ البقرة/ 53] اور جب ہم نے موسیٰ کو کتاب اور معجزے عنایت کئے ۔ وَلَقَدْ آتَيْنا مُوسی وَهارُونَ الْفُرْقانَ [ الأنبیاء/ 48] اور ہم نے موسیٰ اور ہارون کو معجزے دیئے روزوں کا مہینہ رمضان کا مہینہ ہے جس میں قرآن ( اول اول ) نازل ہوا جو لوگوں کا رہنما ہے اور جس میں ہدایت کی کھلی نشانیاں ہیں اور حق و باطل کو ) الگ الگ کرنے والا ہے عبد العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] . ( ع ب د ) العبودیۃ کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ عالَمُ والعالَمُ : اسم للفلک وما يحويه من الجواهر والأعراض، وهو في الأصل اسم لما يعلم به کالطابع والخاتم لما يطبع به ويختم به، وجعل بناؤه علی هذه الصّيغة لکونه کا لآلة، والعَالَمُ آلة في الدّلالة علی صانعه، ولهذا أحالنا تعالیٰ عليه في معرفة وحدانيّته، فقال : أَوَلَمْ يَنْظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف/ 185] ، وأمّا جمعه فلأنّ من کلّ نوع من هذه قد يسمّى عالما، فيقال : عالم الإنسان، وعالم الماء، وعالم النّار، وأيضا قد روي : (إنّ لله بضعة عشر ألف عالم) «1» ، وأمّا جمعه جمع السّلامة فلکون النّاس في جملتهم، والإنسان إذا شارک غيره في اللّفظ غلب حكمه، وقیل : إنما جمع هذا الجمع لأنه عني به أصناف الخلائق من الملائكة والجنّ والإنس دون غيرها . وقد روي هذا عن ابن عبّاس «2» . وقال جعفر بن محمد : عني به النّاس وجعل کلّ واحد منهم عالما «3» ، وقال «4» : العَالَمُ عالمان الکبير وهو الفلک بما فيه، والصّغير وهو الإنسان لأنه مخلوق علی هيئة العالم، وقد أوجد اللہ تعالیٰ فيه كلّ ما هو موجود في العالم الکبير، قال تعالی: الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعالَمِينَ [ الفاتحة/ 1] ، وقوله تعالی: وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعالَمِينَ [ البقرة/ 47] ، قيل : أراد عالمي زمانهم . وقیل : أراد فضلاء زمانهم الذین يجري كلّ واحد منهم مجری كلّ عالم لما أعطاهم ومكّنهم منه، وتسمیتهم بذلک کتسمية إبراهيم عليه السلام بأمّة في قوله : إِنَّ إِبْراهِيمَ كانَ أُمَّةً [ النحل/ 120] ، وقوله : أَوَلَمْ نَنْهَكَ عَنِ الْعالَمِينَ [ الحجر/ 70] . العالم فلک الافلاک اور جن جواہر واعراض پر حاوی ہے سب کو العالم کہا جاتا ہے دراصل یہ فاعل کے وزن پر ہے جو اسم آلہ کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے طابع بہ ۔ مایطبع بہ خاتم مایختم بہ وغیرہ اسی طرح عالم بھی ہے جس کے معنی ہیں ماعلم بہ یعنی وہ چیز جس کے ذریعہ کسی شے کا علم حاصل کیا جائے اور کائنات کے ذریعہ بھی چونکہ خدا کا علم حاصل ہوتا ہے اس لئے جملہ کائنات العالم کہلاتی ہے یہی وجہ ہے کہ قرآن نے ذات باری تعالیٰ کی وحدانیت کی معرفت کے سلسلہ میں کائنات پر غور کرنے کا حکم دیا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ أَوَلَمْ يَنْظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف/ 185] کیا انہوں نے اسمان اور زمین گی بادشاہت پر غور نہیں کیا ۔ اور العالم کی جمع ( العالمون ) اس لئے بناتے ہیں کہ کائنات کی ہر نوع اپنی جگہ ایک مستقلی عالم عالم کی حیثیت رکھتی ہے مثلا عالم الاانسان؛عالم الماء وعالمالناروغیرہ نیز ایک روایت میں ہے ۔ ان اللہ بضعتہ عشر الف عالم کہ اللہ تعالیٰ نے دس ہزار سے کچھ اوپر عالم پیدا کئے ہیں باقی رہا یہ سوال کہ ( واؤنون کے ساتھ ) اسے جمع سلامت کے وزن پر کیوں لایا گیا ہے ( جو ذدی العقول کے ساتھ مختص ہے ) تو اس کا جواب یہ ہے کہ عالم میں چونکہ انسان بھی شامل ہیں اس لئے اس کی جمع جمع سلامت لائی گئی ہے کیونکہ جب کسی لفظ میں انسان کے ساتھ دوسری مخلوق بھی شامل ہو تو تغلیبا اس کی جمع واؤنون کے ساتھ بنالیتے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ چونکہ لفظ عالم سے خلائق کی خاص قسم یعنی فرشتے جن اور انسان ہی مراد ہیں جیسا کہ حضرت ابن عباس سے مروی ہے ۔ اس لئے اس کی جمع واؤنون کے ساتھ لائی گئی ہے امام جعفر بن محمد کا قول ہے کہ عالیمین سے صرف انسان مراد ہیں اور ہر فرد بشر کو ایک عالم قرار دے کر اسے جمع لایا گیا ہے ۔ نیز انہوں نے کہا ہے کہ عالم دو قسم پر ہے ( 1 ) العالم الکبیر بمعنی فلک دمافیہ ( 2 ) العالم اصغیر یعنی انسان کیونکہ انسان کی تخلیق بھی ایک مستقل عالم کی حیثیت سے کی گئی ہے اور اس کے اندر قدرت کے وہ دلائل موجود ہیں جا عالم کبیر میں پائے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَوَلَمْ نَنْهَكَ عَنِ الْعالَمِينَ [ الحجر/ 70] کیا ہم نے تم کو سارے جہاں ( کی حمایت وطر فداری سے ) منع نہیں کیا الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعالَمِينَ [ الفاتحة/ 1] سب تعریف خدا ہی کو سزا وار ہے جو تمام مخلوقات کو پروردگار ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعالَمِينَ [ البقرة/ 47] کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ تم یعنی بنی اسرائیل کو ان کی ہمعصراز قوام پر فضیلت دی اور بعض نے اس دور کے فضلا مراد لئے ہیں جن میں سے ہر ایک نواز شات الہٰی کی بدولت بمنزلہ ایک عالم کے تھا اور ان کو عالم سے موسم کرنا ایسے ہی ہے جیسا کہ آیت کریمہ : إِنَّ إِبْراهِيمَ كانَ أُمَّةً [ النحل/ 120] بیشک حضرت ابراہیم ایک امہ تھے میں حضرت ابراہیم کو امۃ کہا ہے ۔ النذیر والنَّذِيرُ : المنذر، ويقع علی كلّ شيء فيه إنذار، إنسانا کان أو غيره . إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ نوح/ 2] ( ن ذ ر ) النذیر النذیر کے معنی منذر یعنی ڈرانے والا ہیں ۔ اور اس کا اطلاق ہر اس چیز پر ہوتا ہے جس میں خوف پایا جائے خواہ وہ انسان ہو یا کوئی اور چیز چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُبِينٌ [ الأحقاف/ 9] اور میرا کام تو علانیہ ہدایت کرنا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١) بڑی برکتوں والی یا یہ کہ بڑی عالی شان شریک اور اولاد سے پاک ذات ہے جس نے قرآن کریم بذریعہ جبریل امین (علیہ السلام) رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل فرمایا تاکہ آپ بذریعہ قرآن کریم تمام جن وانس کو عذاب الہی سے ڈرانے والے رسول ہوں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١ (تَبٰرَکَ الَّذِیْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰی عَبْدِہٖ ) ” یہ تیسری سورت ہے جس کے مطلع (پہلی آیت ) میں محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ذکر ” عبد “ کی نسبت سے آیا ہے۔ اس سلسلے میں پہلی دو سورتیں سورة بنی اسرائیل اور سورة الکہف ہیں۔ سورة بنی اسرائیل کی پہلی آیت میں فرمایا : (سُبْحٰنَ الَّذِیْٓ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ ۔۔ ) ۔ اس کے بعد سورة الکہف کا آغاز اس طرح ہوا : (اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْٓ اَنْزَلَ عَلٰی عَبْدِہِ الْکِتٰبَ ۔۔ ) ۔ ” الفرقان “ سے مراد حق و باطل میں امتیاز کردینے والی کتاب یعنی قرآن حکیم ہے۔ (لِیَکُوْنَ لِلْعٰلَمِیْنَ نَذِیْرَا ) ” یعنی اس قرآن کے ذریعے سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت تا قیام قیامت جاری وساری رہے گی۔ جس تک یہ قرآن پہنچ گیا ‘ اس تک گویا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انذار پہنچ گیا۔ سورة الانعام کی آیت ١٩ میں یہ مضمون اس طرح بیان ہوا ہے : (وَاُوْحِیَ اِلَیَّ ہٰذَا الْقُرْاٰنُ لِاُنْذِرَکُمْ بِہٖ وَمَنْم بَلَغَ ط) ” اور میری طرف یہ قرآن وحی کیا گیا ہے تاکہ میں خبردار کر دوں تمہیں اس کے ذریعے سے اور اس کو بھی جس تک یہ پہنچ جائے “۔ چناچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد قرآن کے پیغام کو پھیلانا اور اس کے ذریعے سے انذار کے سلسلے کو تاقیام قیامت جاری وساری رکھنا امت کی ذمہ داری ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

1 The Arabic word tabaraka is very comprehensive, and cannot be understood fully and completely by "highly blessed", not even by a sentence. However, its meanings may be grasped by keeping in view the remaining portion of vv. 1-2. Here it has been used to convey the following meanings: (1) He is the most Beneficent: that is why He has bestowed the great blessing of Al-Furqan by degrees on His servant so that he may admonish all mankind. (2)He is the most Exalted and Great: for the Sovereignty of the heavens and the earth belongs to Him. (3) He is the most Holy, Pure and Perfect: He is free from every tinge of shirk and has neither a partner in His Godhead, nor needs a son to succeed Him; for He is Ever-Lasting. (4) He is the Highest and the Most Supreme in rank: the Kingdom and the Dominion wholly and solely belong to Him, and there is none who has any share in His Authority and Powers. (5) He is the sole Creator of the universe and has created each and everything in it and predetermined its destiny. For further details, see E.N. 14 of AIMu'minun and E.N. 19 of AI-Furgan. 2 Al-Furgan: The Criterion. The Qur'an has been called AI-Furgan because it is the Criterion for judging right and wrong virtue and vice, truth and falsehood. 3 The word nazzala implies revelation of the Qur'an piecemeal by degrees. The wisdom of this introductory remark will be explained in the study of verse 32, where the objection of the disbelievers of Makkah -as to why the Qur'an has not been sent down all at once-has been dealt with 4 ..... warner to all mankind": To warn all mankind of the evil consequences of their heedlessness and deviation. The warner may be AI-Furgan or the Holy Prophet to whom it was revealed. In fact, both were the warners because they were both sent for one and the same purpose. The message of the Qur'an and Prophethood of Muhammad (Allah's peace and blessings be upon him) were not meant for any particular country but for the whole world; and not for their own time, but for alI times to come. This has been stated at several places in the Qur'an; for instance: "O Muhammad, say, O mankind, I am a Messenger to aII of you from Allah ....." (Al-A`raf: 158); "..... and this Qur'an has been revealed to me so that I should thereby warn you aII and whom it may reach." (AlAn'am: 19); "We have sent you only as a bearer of good news and as a warner to all mankind." (Saba: 28); and "We have sent you as a mercy to all mankind." (AIAnbiya': 107) The Holy Prophet himself has stated this clearly in the Hadith; for instance, he said: "I have been sent to aII men-the red and the black." "Before me a Prophet was sent only to his own people, but 1 have been sent to all mankind." (Bukhari, Muslim). "I have been sent to all mankind, and I am the Last of the Prophets." (Muslim).

سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :1 اصل میں لفظ تَبَارَکَ استعمال ہوا ہے جس کا پورا مفہوم کسی ایک لفظ تو درکنار ایک فقرے میں بھی ادا ہونا مشکل ہے ۔ اس کا مادہ ب ر ک ہے جس سے دو مصدر بَرَکَۃ اور بُرُوک نکلے ہیں ۔ بَرَکۃ میں افزونی ، فراوانی ، کثرت اور زیادتی کا تصور ہے اور بُرُوک میں ثبات ، بقاء اور لزوم کا تصور ۔ پھر جب اس مصدر سے تَبَارَکَ کا صیغہ بنایا جاتا ہے تو باب تفاعُل کی خصوصیت ، مبالغہ اور اظہار کمال ، اس میں اور شامل ہو جاتی ہے اور اس کا مفہوم انتہائی فراوانی ، بڑھتی اور چڑھتی افزونی ، اور کمال درجے کی پائیداری ہو جاتا ہے ۔ یہ لفظ مختلف مواقع پر مختلف حیثیتوں سے کسی چیز کی فراوانی کے لیے ، یا اس کے ثبات و دوام کی کیفیت بیان کرنے کے لیے بولا جاتا ہے ۔ مثلاً کبھی اس سے مراد بلندی میں بہت بڑھ جانا ہوتا ہے ۔ جیسے کہتے ہیں تبارکت النخلۃ یعنی فلاں کھجور کا درخت بہت اونچا ہو گیا ۔ اِصْمَعِی کہتا ہے کہ ایک بدو ایک اونچے ٹیلے پر چڑھ گیا اور اپنے ساتھیوں سے کہنے لگا تَبَارَکْتُ عَلَیْکُمْ ۔ میں تم سے اونچا ہو گیا ہوں ۔ کبھی اسے عظمت اور بزرگی میں بڑھ جانے کے لیے بولتے ہیں ۔ کبھی اس کو فیض رسانی اور خیر اور بھلائی میں بڑھے ہوئے ہونے کے لیے استعمال کرتے ہیں ۔ کبھی اس سے پاکیزگی و تقدس کا کمال مراد ہوتا ہے ۔ اور یہی کیفیت اس کے معنی ثبوت و لزوم کی بھی ہے ۔ موقع و محل اور سیاق و سباق بتا دیتا ہے کہ کس جگہ اس لفظ کا استعمال کس غرض کے لیے کیا گیا ہے ۔ یہاں جو مضمون آگے چل کر بیان ہو رہا ہے اس کو نگاہ میں رکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس جگہ اللہ تعالیٰ کے لیے تَبَارَکَ ایک معنی میں نہیں ، بہت سے معنوں میں استعمال ہوا ہے : 1: بڑا محسن اور نہایت با خیر ، اس لیے کہ اس نے اپنے بندے کو فرقان کی عظیم الشان نعمت سے نواز کر دنیا بھر کو خبردار کرنے کا انتظام فرمایا ۔ 2 : نہایت بزرگ و با عظمت ، اس لیے کہ زمین و آسمان کی بادشاہی اسی کی ہے ۔ 3 : نہایت مقدس و منزَّہ ، اس لیے کہ اس کی ذات ہر شائبۂ شرک سے پاک ہے ۔ نہ اس کا کوئی ہم جنس کہ ذات خداوندی میں اس کا نظیر و مثیل ہو ، اور نہ اس کے لیے فنا و تغیر کہ اسے جا نشینی کے لیے بیٹے کی حاجت ہو ۔ 4 : نہایت بلند و برتر ، اس لیے کہ بادشاہی ساری کی ساری اسی کی ہے اور کسی دوسرے کا یہ مرتبہ نہیں کہ اس کے اختیارات میں اس کا شریک ہو سکے ۔ 5 : کمال قدرت کے اعتبار سے برتر ، اس لیے کہ وہ کائنات کی ہر چیز کو پیدا کرنے والا اور ہر شے کی تقدیر مقرر کرنے والا ہے ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد سوم ، المومنون ، حاشیہ 14 ۔ الفرقان ، حاشیہ 19 ) ۔ سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :2 یعنی قرآن مجید ۔ فرقان مصدر ہے مادہ ف ر ق سے ، جس کے معنی ہیں دو چیزوں کو الگ کرنا ، یا ایک ہی چیز کے اجزاء کا الگ الگ ہونا ۔ قرآن مجید کے لیے اس لفظ کا استعمال یا تو فارِق کے معنی میں ہوا ہے ، یا مفروق کے معنی میں یا پھر اس سے مقصود مبالغہ ہے ، یعنی فرق کرنے کے معاملے میں اس کا کمال اتنا بڑھا ہوا ہے کہ گویا وہ خود ہی فرق ہے ۔ اگر اسے پہلے اور تیسرے معنی میں لیا جائے تو اس کا صحیح ترجمہ کسوٹی ، اور فیصلہ کن چیز ، اور معیار فیصلہ ( Criterion ) کے ہوں گے ۔ اور اگر دوسرے معنی میں لیا جائے تو اس کا مطلب الگ الگ اجزاء پر مشتمل ، اور الگ الگ اوقات میں آنے والے اجزاء پر ، مشتمل ، چیز کے ہوں گے ، قرآن مجید کو ان دونوں ہی اعتبارات سے الفرقان کہا گیا ہے ۔ سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :3 اصل میں لفظ نَزَّلَ استعمال ہوا ہے جس کے معنی ہیں بتدریج ، تھوڑا تھوڑا کرکے نازل کرنا ۔ اس تمہیدی مضمون کی مناسبت آگے چل کر آیت 32 ( رکوع3 ) کے مطالعہ سے معلوم ہوگی جہاں کفار مکہ کے اس اعتراض پر گفتگو کی گئی ہے کہ یہ قرآن پورا کا پورا ایک ہی وقت میں کیوں نہ اتار دیا گیا ؟ سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :4 یعنی خبردار کرنے والا ، متنبہ کرنے والا ، غفلت اور گمراہی کے برے نتائج سے ڈرانے والا ۔ اس سے مراد فرقان بھی ہو سکتا ہے ، اور وہ بندہ بھی جس پر فرقان نازل کیا گیا ۔ الفاظ ایسے جامع ہیں کہ دونوں ہی مراد ہو سکتے ہیں ، اور حقیقت کے اعتبار سے چونکہ دونوں ایک ہیں ، اور ایک ہی کام کے لیے بھیجے گئے ہیں ، اس لیے کہنا چاہیے کہ دونوں ہی مراد ہیں ۔ پھر یہ جو فرمایا کہ سارے جہان والوں کے لیے نذیر ہو ، تو اس سے معلوم ہوا کہ قرآن کی دعوت اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کسی ایک ملک کے لیے نہیں ، پوری دنیا کے لیے ہے ، اور اپنے ہی زمانے کے لیے نہیں ، آنے والے تمام زمانوں کے لیے ہے ۔ یہ مضمون متعدد مقامات پر قرآن مجید میں بیان ہوا ہے ۔ مثلاً فرمایا : یٰٓاَ یُّھَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعاً ، اے انسانو! میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں ( الاعراف ، آیت 158 ) ۔ وَ اُوْحِیَ اِلَیَّ ھٰذَا الْقُرْاٰنُ لِاُنْذِرَکُمْ بِہ وَمَنْ بَلَغَ ، میری طرف یہ قرآن بھیجا گیا ہے تاکہ اس کے ذریعہ سے میں تم کو خبردار کروں اور جس جس کو بھی یہ پہنچے ( الانعام آیت 19 ) وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا کَآفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیْراً وَّ نَذِیْراً ، ہم نے تم کو سارے ہی انسانوں کے لیے بشارت دینے والا اور خبردار کرنے والا بنا کر بھیجا ہے ( سبا آیت 28 ) وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ ِالَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ ، اور ہم نے تم کو تمام دنیا والوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے ( الانبیاء ، آیت 107 ) اور اسی مضمون کو خوب کھول کھول کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے احادیث میں بار بار بیان فرمایا ہے کہ بُعثت الی الاحمر و الاسود ، میں کالے اور گورے سب کی طرف بھیجا گیا ہوں ۔ اور کان النبی یبعث الیٰ قومہ خاصۃ و بعثت الی الناس عامۃ ، پہلے ایک نبی خاص طور پر اپنی ہی قوم کی طرف بھیجا جاتا تھا ، اور میں عام طور پر تمام انسانوں کی طرف بھیجا گیا ہوں ( بخاری و مسلم ) اور و ارسلت الی الخلق کافۃ و خُتِم بی النبیون ، میں ساری خلقت کی طرف بھیجا گیا ہوں اور ختم کر دیے گئے میری آمد پر انبیاء ( مسلم ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١۔ ٣:۔ اگرچہ بعض سلف نے اس سورت کی ان تین آیتوں کو مدنی کہا ہے ‘ جس کا ذکر آگے آوے گا لیکن اس سورة کا شروع کا حصہ مکی ہے اور اس تفسیر میں یہ ایک جگہ بیان کردیا گیا ہے کہ جس سورت کا شروع کا حصہ مکی ہو ‘ وہ سورت مکی کہلاتی ہے ‘ اس سورت کی قرأت کے باب میں حضرت عمر (رض) اور ہشام بن حکیم کا قصہ ہے جس کا ذکر صحیح بخاری اور مسلم کی حضرت عمر (رض) کو نئے معلوم ہوئے ‘ اس پر حضرت عمر (رض) ہشام بن حکیم کو اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس لے گئے۔ آپ نے حضرت عمر (رض) اور ہشام بن حکیم دونوں سے یہ سورت پڑھوا کر سنی اور فرمایا ‘ دونوں قراءتیں صحیح ہیں کیونکہ قرآن شریف کے جن لفظوں کو ایک طرح سے لے کر سات طرح تک پڑھے جانے کا حکم ہے ‘ تم دونوں کی قراءتیں اس کے موافق ہیں ‘ ان ساتوں قرائتوں کا ذکر اس تفسیر کے دیباچہ ٢ ؎ میں صحیح بخاری ومسلم ‘ ترمذی وغیرہ کی روایتوں کے حوالہ سے تفصیل وار کردیا گیا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ ہجرت سے پہلے فقط قریش کی بول چال کے موافق قرآن شریف نازل ہوتا رہا ‘ ہجرت کے بعد جب ایسے قبیلوں کے لوگ دائرہ اسلام میں داخل ہوئے جن کی زبان پر قریش کی بول چال کے لفظ مشکل سے چڑھتے تھے ‘ اس مشکل کے آسان ہوجانے کے لیے سات طرح کے مختلف محاوروں میں قرآن شریف کے بعضے لفظوں کا پڑھا جانا جائز ہوگا ‘ جبرئیل (علیہ السلام) ان ساتوں محاوروں میں دور کیا کرتے تھے اور جو صحابہ اس دور کے وقت موجود ہوتے ‘ وہ ساتوں قرائتوں کے لفظوں کو جبرئیل (علیہ السلام) سے سن کر یاد کرلیا کرتے تھے ‘ اور باقی کے صحابہ کو پھر وہ لفظ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بتلانے سے معلوم ہوجایا کرتے تھے ‘ جبرئیل (علیہ السلام) کے جس دور میں ہشام بن حکیم نے وہ نئے لفظ سنے ‘ اس دور میں حضرت عمر (رض) موجود نہیں تھے ‘ اس واسطے ان کا اور ہشام بن حکیم کا جھگڑا ہوا اور پھر اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سمجھانے سے حضرت عمر (رض) کی تسلی ہوگئی ‘ یہ ہشام بن حکیم صحابی کے بیٹے اور مشہور صحابہ میں ہیں صحیحین میں سوائے اس قصہ کے اور کہیں ان ہشام بن حکیم کا ذکر نہیں ہے حاصل مطلب ان آیتوں کا یہ ہے کہ اس کی آسمان و زمین میں بڑی برکت ہے جس نے حق اور ناحق میں فرق بتادینے کے لیے قرآن اپنے بندے اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اس لیے تھوڑا تھوڑا کر کے حسب ضرورت نازل فرمایا کہ اللہ کے رسول لوگوں کو اس بات سے ڈراویں کہ جو کوئی اللہ کے حکم کو نہ مانے گا وہ عذاب الٰہی میں گرفتار ہوگا ‘ پھر فرمایا اللہ تعالیٰ کی حکومت سے آسمان و زمین میں کوئی جگہ خالی نہیں ہے ‘ اس واسطے اس کے عذاب سے کہیں کوئی بچ نہیں سکتا ‘ پھر فرمایا جب اللہ تعالیٰ نے تمام عالم کو اپنی حکمت کے اندازہ کے موافق اس طرح پیدا کیا کہ اس میں کوئی اس کا شریک نہیں ہے تو جو لوگ اللہ کو صاحب اولاد یا اس کو حکومت میں دوسروں کو شریک ٹھہراتے ہیں وہ بڑی غلطی پر ہیں کیونکہ جن کو یہ مشرک اللہ کا شریک ٹھہراتے ہیں انہوں نے اللہ کی مخلوقات سے کسی چیز کو پیدا نہیں کیا بلکہ وہ خود اللہ تعالیٰ کی مخلوقات میں داخل ہیں اس واسطے اللہ تعالیٰ کے کسی کارخانے میں ان کو کچھ دخل نہیں ہے ‘ ہر ایک کا نقصان نفع ‘ ہر ایک کی موت زندگی ‘ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کرنا ‘ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے ‘ مکہ کے قحط کے وقت ان مشرکوں کو اپنے بتوں کی بےبسی کا اچھی طرح تجربہ ہوچکا ہے اس پر بھی اب یہ لوگ شرک سے باز نہیں آتے ‘ اس کا سبب یہی ہے کہ اللہ کے علم غیب میں یہ لوگ دوزخی ٹھہر چکے ہیں ‘ اس واسطے ان کو بڑے کام اچھے نظر آتے ہیں ‘ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے حضرت علی (رض) کی حدیث کئی جگہ گزر چکی ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے علم غیب میں دوزخی ٹھہر چکے ہیں ان کو ویسے ہی کام اچھے اور آسان معلوم ہوتے ہیں ‘ صحیح بخاری کے حوالہ سے عبداللہ بن مسعود (رض) کی وہ حدیث بھی کئی جگہ گزر چکی ہے جس میں مکہ کے قحط کا ذکر ہے ‘ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے کے جو لوگ منکر ہیں ‘ یہ ان کی بڑی نادانی ہے کیونکہ یہ لوگ دنیا کے جتنے کام کرتے ہیں ان کا نتیجہ پہلے سوچ لیتے ہیں ‘ اسی طرح اللہ تعالیٰ کے انتظام میں دنیا کے پیدا کرنے کا یہ نتیجہ قرار پاچکا ہے کہ تمام دنیا کے فنا اور ختم ہوجانے کے بعد جزا وسزا کے لیے دوسرا جہان قائم کیا جاوے تاکہ دنیا کا پیدا کیا جانا بےٹھکانہ نہ رہے کیونکہ بےٹھکانے کام اللہ تعالیٰ کی شان سے بہت بعید ہیں۔ (٢ ؎ ص ٢١٧٢٠ و ٢٥‘ ٢٦ جلد اول۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(25:1) تبارک۔ وہ بہت برکت والا ہے۔ وہ بڑی برکت والا ہے تبارک (تفاعل) سے۔ ماضی کا صیغہ واحد مذکر غائب۔ یہ صرف ماضی کا صیغہ مستعمل ہے اور وہ بھی صرف اللہ کے لئے اس کی گردان نہیں آتی۔ الفرقان۔ الفرق سے ہے جو الگ الگ ہونے کے معنی میں آتا ہے الفرق اور الفلق کے قریب قریب ایک ہی معنی ہیں۔ لیکن معنی انشقاق یعنی پھٹ جانا کے لحاظ سے فلق کا لفظ بولا جاتا ہے اور معنی انفصال یعنی الگ الگ ہونے کے لحاظ سے فرق آتا ہے مثلاً فانفلق فکان کل فرق کا طور العظیم (26:63) تو دریا پھٹ گیا اور ہر ایک ٹکڑ ایوں ہوگیا (کہ) گویا بڑا پہاڑ ہے۔ دیکھو فرقہ (گروہ) فریق (جماعت ) تفریق (قاعدہ ریاضی) فرق (مانگ سر کے بالوں میں) سب الگ الگ ہونے کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ الفرقان۔ فرق یفرق (نصر) فرق یفرق (ضرب) کا مصدر بھی ہے ۔ یعنی الگ الگ کرنا اور صیغہ صفت بھی مستعمل ہے۔ یعنی الگ الگ کردینے والی چیز حق کو باطل سے ۔ نور کو ظلمت سے صبح کو رات سے (وغیرہ وغیرہ) ۔ قرآن حکیم میں یہ لفظ قرآن کے لئے۔ تورات کے لئے (کہ دونوں آسمانی کتابیں حق و باطل کو واضح طور پر الگ الگ کردینے والی ہیں) (2) دلیل وحجت کے لئے (کہ یہ اصل کو لغو سے ممیز کرتی ہے ) کے لئے استعمال ہوا ہے۔ (3) جنگ بدر کے دن کے لئے بھی استعمال ہوا ہے۔ کیونکہ وہ تاریخ اسلام میں پہلا دن ہے جس میں حق و باطل میں کھلا امتیاز ہوگیا تھا۔ اور آیت ہذا میں الفرقان۔ القران کے لئے آیا ہے۔ عبدہ کا اشارہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف ہے۔ لیکون۔ میں لام تعلیل کے لئے ہے اور نزل سے متعلق ہے یکون میں ضمیر فاعل کا مرجع عبدہ ہے یا الفرقان ہے۔ عالمین (سارے) جہان۔ (تمام) عالم۔ اللہ تعالیٰ کی ذات کے سوا سب مخلوق کو عالم کہتے ہیں۔ بعض کے نزدیک اس سے مراد فرشتے ، جن اور انسان ہیں اور ان کے علاوہ دیگر مخلوق نہیں اور بعض کے نزدیک صرف انسان ہیں نذیرا۔ صفت مشبہ کا صیغہ بمعنی منذرا۔ ڈرانے والا۔ یعنی نافرمانوں کو اللہ کے عذاب سے ڈرانے والا منصوب بوجہ خبر کے ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

4 ۔ قرآن کو ” الفرقان “ فرمایا ہے یعنی اپنے احکام کے ذریعہ حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والا، اور اسی کلمہ کی بنا پر اس سورة کا نام سورة الفرقان رکھا گیا ہے۔ 5 ۔ سارے جہان سے مراد قیامت تک کے تمام جن و انس ہیں اس لئے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت ان سب کے لئے تھی۔ کوئی دوسرا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دنیا میں ایسا نہیں آیا۔ حدیث میں ہے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مجھے پانچ چیزوں میں تمام انبیاء پر فضیلت دی گئی ہے جن میں سے ایک یہ بات ہے کہ پہلے نبی ( علیہ السلام) کسی خاص قوم کی طرف مبعوث ہوئے اور مجھے اللہ تعالیٰ نے سب لوگوں کے لئے نبی بنا کر بھیجا۔ (ابن کثیر، شوکانی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

سورة الفرقان : (رکوع نمبر ١) اسرارومعارف یہ سورة بھی مکی سورتوں میں سے ہے اور اسی مضمون کو آگے بڑھاتی ہے جو سورة نور میں زیر بحث ہے ۔ (آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت سب جہانوں کے لیے) اللہ کریم بہت ہی برکت والے اور خیر کے مالک ہیں جنہوں نے اپنے بندے حضرت محمد رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایسی کتاب نازل فرمائی جس نے حق کو حق اور باطل کو باطل قرار دے کر دونوں میں حد فاصل قائم کردی اور تمام جہانوں کو ان کے غلط کاموں کے خطرناک انجام سے اللہ جل جلالہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بروقت مطلع فرما دیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت نہ صرف سارے جہان کے لیے ہے بلکہ سب جہانوں کے لیے ہے ، ہاں مکلف مخلوق یعنی انسان اور جن اطاعت احکام کے مکلف ہیں اور ساری مخلوق بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا وہی ادب واحترام کرتی ہے جو ایک امتی کو اپنے نبی کا کرنا ضروری ہے ، گذشتہ سورت میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نافرمانی پر عذاب اور فتنہ کی وعید تھی یہاں یہ سمجھا دیا گیا کہ انسان تو ویسے مکلف ہے پھر مسلمان نے کلمہ پڑھ کر اطاعت کا وعدہ بھی کرلیا اب وہ اطاعت نہ کرے تو کیسے بچ سکے گا جبکہ اللہ جل جلالہ کی ساری مخلوق کے لیے آپ کی نبوت ہے جو بھی اور جب بھی نافرمانی کرے گا عذاب اور گرفت میں آجائے گا ، کفار ایمان نہ لائے تو ہمیشہ کے لیے دوزخ ان کے حصے میں آیا مومن اطاعت نہ کرے گا تو ذلیل ہوگا ، یہ نزول کتاب یہ عظمت ومقام کی عطا یہ فطری ضابطے سب کچھ اس اللہ کے بنائے ہوئے ہیں جن کے قبضہ قدرت میں آسمانوں زمینوں یعنی سب جہانوں کی سلطنت واختیار ہے ایسا کامل اختیار کہ ہر چیز کو خود اس نے بنایا اور کار گاہ حیات میں اسے کیا ، کب اور کیسے کرنا ہے یہ فطری قوانین اور اندازے اسی نے مقرر فرمائے جس کی کوئی اولاد نہیں کہ اس کے احکام میں مداخلت کرسکے نہ کوئی اس کا شریک اور ہمسر ہے جو بات کرنے کی جرات کرے لہذا اس کے بنائے ہوئے ضابطے اٹل اور مضبوط ہیں اور جو لوگ اسے چھوڑ کر دوسروں کی عبادت اختیار کرتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ اس کے علاوہ یہ دوسرے ان کی حاجات پوری کریں گے وہ اتنا نہیں دیکھتے کہ اس کی ذات کے علاوہ تو ہر وجود خود مخلوق ہے خود کسی کا بنا ہوا ہے اور اس کے سارے کمال کسی کے بنائے ہوئے ہیں لہذا وہ کچھ بھی بنانے اور پیدا کرنے کا فیصلہ کرنے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتا بلکہ اللہ نے اس کی فطرت میں جو رکھ دیا ہے وہی کرتا رہتا ہے سورج ، چاند ، ستارے ، پتھر ، درخت دریا ، سب کا یہی حال ہے اور نہ تو موت ہی ان کے اختیار میں ہے نہ زندگی دینے میں ان کو دخل اور نہ ہی قیام قیامت میں ان کا کوئی بس چل سکتا ہے بلکہ سارا نظام اللہ کا ترتیب دیا ہوا ہے اور ہر شے اسی پر گامزن ہے مگر ان کفار کو اللہ جل جلالہ کی کتاب کا بھی یقین تو آئے یہ تو اسی سے محروم ہیں اور کہتے ہیں یہ محض باتوں کا طومار ہے جو کچھ تو اگلے لوگوں کی سنی سنائی ہیں اور کچھ خود جوڑ کر اور دوسروں کی مدد سے بنا کر جمع کرلی جاتی ہیں اور صبح وشام انہی کو دہرایا جاتا ہے ، ذرا دیکھ اے مخاطب یہ کس قدر بےانصافی کی بات اور کتنا بڑا جھوٹ ہے یہ کہتے ہیں کہ قصے کہانیاں ہیں اور اپنے خدام سے لکھوا کر ان کی تکرار کی جا رہی ہے انہیں کہئے کہ اس کلام کی باریکیاں اور تخلیق کے راز حکمت و دانائی کی باتیں ، اقوام عالم کے مسائل کا حل ، انسانی ضرورتوں کی تعین اور اس کی تکمیل کے خوبصورت انداز ، اعمال میں انکا اثر معاشرے اور ماحول پر ان کا اخروی نتیجہ بھلا یہ سب قصے کہانیاں ہیں یا اس اللہ کے نازل کردہ ہیں جو آسمانوں اور زمین کے تمام رازوں سے باخبر ہے اور بہت بڑا بخشنے والا اور بہت بڑا رحم کرنے والا ہے کہ اس کتاب کے نزول بھی اس کی بخشش اور رحم کا ایک انداز ہے ، اس طرف سے لاجواب ہو کر کہتے ہیں بھلا یہ کیسا رسول ہے کہ عام انسانوں کی طرح کھاتا پیتا اور کاروبار کرتا ہے اور کسب معاش کے معروف ذرائع اختیار کرتا ہے اگر رسول ہوتا تو اس کے ساتھ ایک فرشتہ پھرا کرتا جو لوگوں سے اس کی بات منواتا اور لوگوں پر اس کا رعب جماتا جیسے بادشاہوں کے امراء کے ساتھ گارد ہوتی ہے یا جیسے ان کے پاس دولت کے انبار ہوتے ہیں ان کے پاس بھی بہت بڑا خزانہ ہوتا ۔ ان کے بہت سے باغات وغیرہ ہوتے کہ یہ فکر معاش سے آزاد ہوتے اور پھر ظالم یہ کہتے ہیں کہ جب اس طرح کی کوئی چیز ان کے ساتھ نہیں تو پھر شاید ان پر کسی نے جادو کردیا ہے اور یہ اپنے کو نبی کہتے پھرتے ہیں ان کی بات نہ مانی جائے فرمایا یہ جاہل تو منصب نبوت اور اس کی عظمت نیز اس کی نشانیوں اور دلائل تک سے بےبہرہ ہیں بھلا دیکھیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان میں کیسی گستاخی کرتے ہیں اور کیا مثالیں دیتے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ گمراہ ہوچکے ہیں اور ایسے بھٹک گئے ہیں کہ انہیں اب سیدھا راستہ نہیں مل پاتا۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن : آیت نمبر 1 تا 6 : (تبارک) برکت والا۔ خود بخود بڑھنے والا ‘(الفرقان) حق و باطل میں فرق کرنے والا ‘(الملک) سلطنت۔ حکومت ‘ (قدر) اس نے اندازہ ٹھرایا ‘ (تقدیر) اندازہ متوازن ہونا ‘ (یخلقون) وہ پیدا کئے گئے ہیں۔ (ضر) نقصان ‘(نشور) دوبارہ زندہ ہو کر اٹھنا ‘ (افک) جھوٹ۔ بےبنیاد بات ‘(افتری) اس نے گھڑ لیا ‘ (اعان) اس نے مدد کی ‘(زور) جھوٹ۔ غلط بات ‘(تملی) پڑھی اور رٹی جاتی ہیں ‘( السر) بھید۔ چھپی باتیں۔ تشریح : آیت نمبر 1 تا 6 : دنیا اور آخرت میں وہی افراد اور قومیں کامیاب و بامراد ہوتی ہیں جو اللہ کی ذات وصفات کو مان کر اس کے بھیجے ہوئے نبیوں اور رسولوں کی مکمل اطاعت و فرماں برداری کرتی ہیں۔ لیکن جنہوں نے اللہ کی ذات وصفات میں شرک کیا اور اس کی بھیجی ہوئی تعلیمات ‘ اس کے نبیوں اور رسولوں کو جھٹلایا ‘ ان کا مذاق اڑایا اور اہل ایمان کے راستے کو روکنے کی کوشش کی اور بےحقیقت چیزوں اور بتوں کو معبود بنایا ان کی دینا بھی برباد ہوئی اور آخرت بھی۔ چناچہ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ اللہ وہ بابرکت ذات ہے جو تمام بھلائیوں ‘ خوبیوں اور قدرت و طاقت اور عظمتوں والی ذات ہے۔ اس نے اپنے فضل وکرم سے اپنے محبوب بندے حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وہ عظیم کتاب (قرآن مجیدض نازل فرمائی ہے جس نے حق و باطل ‘ سچ اور جھوٹ ‘ اچھے اور برے کو واضح طریقے پر بیان کر کے اس کے اچھے اور برے انجام کو بیان فرمادیا ہے تا دنیا بھر کو ان کے برے اور بدترین انجام سے ڈرایا جاسکے۔ اللہ کے نور ہدایت سے یہ دنیا روشن و منو رہے۔ وہ اپنی قدرت کاملہ سے اس پوری کائنات کو اس طرح چلا رہا ہے کہ وہ اس کے چلانے میں دنیا کے کسی بھی شخص یا اسباب کا محتاج نہیں ہے ‘ نہ کوئی اس کے کام میں شریک ہے نہوہ اولاد یا بیوی کا محتاج ہے۔ وہ ساری مخلوق کو ایک خاص انداز اور مقدار کیساتھ رزق پہنچا رہا ہے۔ اس نے ہر چیز کو ایسا ماپ تول کر بنایا ہے کہ اس کی تقدیر اور اندازے سے کوئی چیزباہر نہیں نکل سکتی۔ لیکن وہ کتنے بد نصیب لوگ ہیں جنہوں نے اللہ کو چھوڑ کر چاند ‘ سورج ‘ ستاروں ‘ پانی ‘ ہوا ‘ آگ اور مٹی کو اور ‘ پتھر ‘ لکڑی سے بنائے گئے بےجان بتوں کو اپنا معبود سمجھ رکھا ہے اور ان سے اپنی مرادوں کے پورا ہونے کی توقع لگائے بیٹھے ہیں۔ غور کرنے کی یہ بات ہے کہ جو اپنے پیدا ہونے میں بھی انسانی ہاھتوں کے محتاج ہیں وہ دنیا کے ایک معمولی سیذریکو پیدا کرنے کی بھی اہلیت و صلاحیت نہیں رکھتے۔ جو اپنے نفع نقصان کے بھی مالک نہیں ہیں۔ جن کے ہاتھ میں کسی کی زندگی یا موت کا اختیار نہیں ہے۔ نہ یہ دنیا میں کسی کے کام آئیں گے اور نہ آخرت میں وہ دنیا اور آخرت میں کسی کے نفع نقصان اور اچھے برے کے مالک کیسے ہوسکتے ہیں۔ ایسے لوگ نہ صرف ان بےحقیقت چیزوں سے امید لگائے زندگی گذار رہے ہیں بلکہ وہ حق و صداقت کی ہر بات کو جھٹلاتے جھٹلاتے قرآن کریم جیسی سچائی کو جھٹلانے سے بھی باز نہیں آتے۔ قرآن کریم جسکی ایک آیت بنا کر لانے سے عرب کے بڑے بڑے فصیح وبلیغ ادیب و شاعر۔ وہ جن کو اپنی زبان دانی پر اتنا فخر و غرور تھا کہ اپنے سوا سب کو ” عجم “ یعنی گونگا کہا کرتے تھے کہ ساری دنیا مل کر بھی قرآن جیسی ایک سورت یا ایک آیت بنا کر نہیں لاسکتی۔ اس حقیقت کی موجودگی میں کفارو منافقین کا یہ کہنا کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چند عجمی غلاموں سے سن کر یا پڑھ کر نعوذ باللہ خود ہی قرآن کی آیات وگھڑ لیا ہے۔ اور اسکلام کو اللہ کی طرف سے منسوب کردیا ہے کائنات کا سب سے بڑاجھوٹ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ یہ کلام اس علیم وخبیر ذات کی طرف سے نازل کیا گیا ہے جو زمین اور آسمانوں کے تمام بھیدوں سے واقف ہے۔ وہ قرآن مجید جس کی عظمت ‘ بلندی مضامین اور الفاظ کی شان و شوکت کو کوئی نہیں پہنچ سکتا وہ اس قدر معمولی کلام نہیں ہے کہ جسے کچھ عجمی پڑھے لکھے غلام اپنی طرف سے پیش کرتے اور سارے عرب کے شاعر وادیب اس کلام کے سامنے عاجزو بےبس ہو کر رہ جاتے۔ ایسی بات کہنا اتنی بڑی گستاخی ‘ جہالت اور نادانی ہے کہ اس پر اللہ کا غضب نازل ہو سکتا تھا لیکن اللہ کی ہر صفت پر صفت رحمت غالب ہے اس لئے وہ ایسے گستاخوں کو اچھی طرح موقع دینا چاہتا ہے کہ وہ اس بات پر خوب غور و فکر کرلیں تاکہ ان کی عاقبت خراب نہ ہو۔ ان آیات میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ جھوٹ اور فریب کا چشمہ لگا کر جھوٹی زندگی گذارنے والے لوگ اس سے آگے سوچ ہی نہیں سکتے حالانکہ اگر وہ کفار و مشرکین ذرا بھی غور وفکر سے کام لیتے تو قرآن مجیدعلم و حکمت اور عقل و بصیرت سے بھر وپر خزانہ نظر آتا جوان لوگوں کے لئے ہے جنہیں آخرت کی ابدی راحتیں مطلوب ومحبوب ہیں۔ اللہ کا یہ وعدہ ہے کہ جو بھی اس قرآن کریم اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان نبوت کی مکمل اطاعت کرے گا اس کو جنت کی ابدی راحتیں عطا کی جائیں گی۔ لیکن اگر جھوٹ ‘ فریب اور شک و شبہ میں زندگی گذاردی جائے گی تو ایسے لوگوں کی دنیا کے ساتھ آخرت بھی برباد ہوکر رہ جائے گی۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن اس سورة مبارکہ کی ابتدا ” تَبَارَکَ الَّذِیْ “ “ کے الفاظ سے ہوتی ہے جس میں جلال کے ساتھ کمال بھی پایا جاتا ہے۔ تَبَارَکَ سُپرڈگری کا صیغہ ہے۔ جس کا معنٰی ہے ہر اعتبار سے بلندوبالا ذات جو لوگوں کی دعاؤں اور امیدوں سے بڑھ کر فائدہ پہنچانے والی ہے۔ سورة کی ابتدا میں قرآن مجید کے لیے دو الفاظ استعمال کیے گئے ہیں یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اور دلائل اور برھان کے حوالے سے حق اور باطل، کھرے اور کھوٹے میں تمیز کردینے والی کتاب ہے۔ اسے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات اطہر پر نازل فرمایا تاکہ آپ مجرموں کو ان کے برے انجام سے ڈرائیں۔ قرآن مجید میں نبی آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا تعارف کرواتے ہوئے کئی بار یہ حقیقت واضح کی ہے کہ آپ کی نبوت کا دو لفظی پیغام یہ ہے کہ آپ حقیقی ایمان اور صالح کردار رکھنے والوں کو خوشخبری دینے والے ہیں کفار، مشرکین اور جرائم پیشہ لوگوں کو ان کے انجام سے ڈرانے والے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی قرآن مجید نے یہ حقیقت بھی بارہا دفعہ بتلائی ہے کہ آپ کی نبوت کسی خاص دور، مخصوص قوم اور قبیلہ کے لیے نہیں بلکہ آپ قیامت تک کے لیے رسول بنائے گئے ہیں جس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ آپ کا پیغام پوری دنیا میں پہنچے گا۔ (عَنْ أَبِی ذَرٍّ قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أُعْطِیْتُ خَمْسًا لَمْ یُعْطَہُنَّ أَحَدٌ قَبْلِی بُعِثْتُ إِلَی الْأَحْمَرِ وَالْأَسْوَدِ وَجُعِلَتْ لِیَ الْأَرْضُ طَہُورًا وَمَسْجِدًا وَأُحِلَّتْ لِیَ الْغَنَاءِمُ وَلَمْ تَحِلَّ لِأَحَدٍ قَبْلِی وَنُصِرْتُ بالرُّعْبِ فَیُرْعَبُ الْعَدُوُّ وَہُوَ مِنِّی مَسِیْرَۃَ شَہْرٍ وَقِیلَ لِیْ سَلْ تُعْطَہْ وَاخْتَبَأْتُ دَعْوَتِیْ شَفَاعَۃً لِأُمَّتِی فَہِیَ نَاءِلَۃٌ مِنْکُمْ إِنْ شَاء اللّٰہُ تَعَالَی مَنْ لَّمْ یُشْرِکْ باللّٰہِ شَیْءًا قَالَ الْأَعْمَشُ فَکَانَ مُجَاہِدٌ یَرٰی أَنَّ الْأَحْمَرَ الْإِنْسُ وَالْأَسْوَدَ الْجِنُّ ) [ رواہ احمد : مسند ابی ذر ] ” حضرت ابوذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ مجھے پانچ ایسی چیزیں عنایت کی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو عطا نہیں کی گئیں۔ ١۔ مجھے اللہ تعالیٰ نے ہر کالے اور گورے کے لیے رسول بنایا ہے۔ ٢۔ میرے لیے ساری زمین سجدہ گاہ بنادی گئی ہے۔ ٣۔ میرے لیے مال غنیمت حلال کیا گیا ہے جبکہ مجھ سے پہلے کسی رسول کے لیے حلال نہیں تھا۔ ٤۔ میری رعب کے ذریعے مدد فرمائی گئی ہے اس وجہ سے دشمن ایک مہینہ کی مسافت پر ہونے کے باوجود مجھ سے لرزاں رہتا ہے۔ ٥۔ مجھے قیامت کے دن کہا جائے گا مانگ عطا کیا جائے گا اور تیری امت کے حق میں تیری شفاعت قبول کی جائے گی۔ جس نے اللہ کے ساتھ شرک نہ کیا ہوگا اس کو میری شفاعت فائدہ دے گی۔ “ (لَیَبْلُغَنَّ ھٰذَا الْأَمْرُ مَا بَلَغَ اللَّیْلُ وَالنَّھَارُوَلَایَتْرُکُ اللّٰہُ بَیْتَ مَدَرٍ وَّلَا وَبَرٍإِلَّا أَدْخَلَہُ اللّٰہُ ھٰذَا الدِّیْنَ ) [ مسند أحمد : کتاب مسند الشامیین، باب حدیث تمیم الداري ] ” یہ دین ہر صورت وہاں تک پہنچے گا جہاں رات کی تاریکی اور دن کی روشنی پہنچتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر شہر اور بستی کے ہر گھر میں اس دین کو داخل فرما دے گا۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کی ذات ہر اعتبار سے بابرکت ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو اپنے بندے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل فرمایا ہے۔ ٣۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کفار، مشرکین اور مجرمین کو ان کے برے انجام سے ڈرانے کے لیے بھیجے گئے ہیں۔ تفسیر بالقرآن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عالمگیر نبوت کے چند دلائل : ١۔ اے رسول اعلان فرمائیں کہ ” اللہ “ نے مجھے تمام لوگوں کے لیے رسول منتخب فرمایا ہے۔ (الاعراف : ١٥٨) ٢۔ رسول اللہ پوری دنیا کے رسول ہیں۔ (سباء : ٢٨) ٣۔ رسول اللہ مبشر اور نذیر ہیں۔ (الاحزاب : ٤٥) ٤۔ رسول اللہ پوری دنیا کے لیے رحمت عالم ہیں۔ (الانبیاء : ١٠٧) ٥۔ رسول اللہ خاتم النبیین ہیں۔ (الاحزاب : ٤٠)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

تبرک الذی نزل الفرقان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ولا نشورا) (ا : ٣) یہ آغاز ہی صاف صاف ظاہر کردیتا ہے کہ اس سورت کا بڑا محور اور موضوع کیا ہے ؟ یہ کہ یہ کتاب من جانب اللہ نازل شدہ ہے اور یہ کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت تمام انسانوں کے لیے ہے۔ یہ کہ اس دعوت کا بنیادی پیغام یہ ہے کہ اللہ وحدہ لاشریک ہے ‘ اس کا نہ کوئی بیٹا ہے اور نہ کوئی شریک ہے ‘ وہ وحدہ اس پوری کائنات کا مالک ہے ‘ وحدہ مدبر ہے اور اپنی حکمت و تدبیر کے ساتھ اسے چلارہا ہے۔ ان حقائق کے باوجود شرک کرنے والے شرک کرتے ہیں۔ افتراء پر دازی کرنے والے افتراء باندھتے ہیں اور جھگڑنے والے جھگڑتے ہیں اور حد سے بڑھنے والے حدود پار کرتے رہتے ہیں۔ (تبرک الذی۔۔۔۔۔۔۔۔ نذیرا) (٢٥ : ١) ” نہایت متبرک ہے وہ جس نے یہ فرقان ‘ اپنے بندے پر نازل کیا تاکہ سارے جہاں والوں کے لیے خبردار کردینے والا ہو “۔ تبارک ‘ برکت سے باب مفاعلہ ہے یعنی نہایت متبرک ہے۔ یعنی وہ بہت زیادہ فیوض و برکات و الا ہے۔ یہاں اللہ جل شانہ ‘ کا نام لینے کے بجائے اسم موصول سے ذات باری کو الذی نزل الفرقان (٢٥ : ١) لایا گیا ہے ‘ کیونکہ یہاں سورت میں مباحثہ ” صداقت و رسالت “ پر ہے۔ اور اس کے ساتھ ذات باری کا گہرا تعلق ہے نیز نزول قرآن کے ساتھ بھی ذات باری کا تعلق ہے کہ یہ ذات ہی نازل کرنے والی ہے۔ یہاں قرآن مجید کو فرقان اس لیے کہا گیا ہے کہ اس میں جو تعلیمات دی گئی ہیں وہ حق و باطل اور ہدایت و ضلالت کے درمیان بہت ہی واضح فرق کردیتی ہیں بلکہ اس کے ذریعہ اسلامی نظام زندگی اور غیر اسلامی نظام زندگی کے درمیان اور عہد جاہلیت اور عہد اسلام کے درمیان واضح فرق و امتیاز دکھایا گیا ہے اس لیے کہ اسلام انسانی شعور اور انسانی ضمیر کے اندر ایک واضح طریق زندگی بٹھاتا ہے۔ پھر اس طریق زندگی کو انسانی زندگی کے اندر عملاً قائم کرتا ہے۔ اس طرح اس نظام کو اس کتاب و فرقان نے دنیا کے تمام نظاموں سے علیحدہ اور ممتاز کر کے رکھ دیا ہے۔ گویا قرآن فرقان بایں معنی ہے کہ یہ انسانیت کے لیے ایک اہد جدید ہے۔ تصورات و خیالات کے اعتبار سے بھی اور عملی زندگی کے اعتبار سے بھی ہی عہد جدید ‘ عہد قدیم سے جدا اور ممتاز ہے۔ قرآن کریم اس وسیع مفہوم میں بھی فرقان ہے۔ یہ ایک نکتہ افتراق ہے کہ جہاں سے آگے اب انسانیت نے بلوغ حاصل کرلیا اور اس کا زمانہ طفولیت اب ختم ہوے۔ اب وہ دور ختم ہوگیا ہے کہ لوگوں کو مادی معجزات دکھائے جاتے تھے اور حق و باطل کا فرق سمجھا یا جاتا تھا۔ اب تو قاضی عقل کے ذریعہ یہ فرق سمجھایا جائے گا۔ پھر اس سے قبل رسالتوں کا دائرہ محدود اور مقامی ہوتا تھا اور اب یہ رسالت عمومی رنگ اختیار کرگئی ہے۔ لیکون للعلمین نذیرا (٢٥ : ١) ” تاکہ تمام جہاں والوں کے لیے ڈرانے والا ہو “۔ غرض ان تمام معنوں اور دائروں میں یہ کتاب فرقان ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تکریم اور تعظیم کے مقام پر ان کے لیے عہدہ ‘ کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ اس کا بندہ ‘ عبدہ کے لفظ کے ساتھ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعظیم اور تکریم اسراء اور معراج کے اموقعہ پر بھی کی گئی ھی۔ (سبحن الذی اسری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ الی المسجد الاقصی) (١٧ : ١) ” پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے رات کے وقت مسجد حرام مسجد اقصیٰ تک لے گئی “۔ اور سورت جن میں جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو رب کریم کے سامنے کھڑے ہو کر دعا اور مناجات کی حالت میں دکھایا گیا ہے وہاں بھی آپ کے لیے لفظ عبد اللہ استعمال ہوا ہے اور جس طرح یہاں آپ کے لیے تنزیل قرآن کے وقت عبدہ کا لفظ استعمالہوا ہے۔ اسی طرح سورت کہف میں بھی استعمال ہوا ہے۔ الحمد للہ الذی انزل علی عبدہ الکتب ولم یجعل لہ عوجا ” تعریف ہے اس ذات کے لیے جس نے اپنے بندے پر کتاب نازل کی اور اس میں کوئی کجی نہ چھوڑی “۔ ان مقامات پر رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے بندے کا لفظ استعمال کرنا رفعت شان ہے۔ اور آپ کی بہت بڑی تکریم ہے۔ انسان کے لیے اعلیٰ ترین مقام یہ ہے کہ وہ اللہ کا بندہ بن جائے۔ اس لیے یہاں آپ کے لیے بندے کا لفظ استعمال ہوا۔ اس سے آگے مقام الوہیت ہے جو اللہ وحدہ کے ساتھ مخصوص ہے۔ اور اللہ کے ساتھ نہ کوئی شریک ہے اور نہ اللہ کے ساتھ مشارکت کا کوئی شبہ ہو سکتا ہے چاہے نزول قرآن کا مقام ہو ‘ چاہے انسان کو آسمانوں پر لے جایا گیا ہو ‘ چاہے ایک بشر اپنے اعلیٰ مقام معرفت و مناجات میں ہو ‘ ایسے مقامات ہی بعض متعبین انبیائے سابقہ کے لیے مغالطے کا سبب بنے ہیں۔ ایسے ہی مقامات پھسل کر عقیدت مندوں نے بعض انبیاء کو خدا کا بیٹا قرار دینے کے افسانوی عقائد گھڑے یا انہوں نے بندے اور خدا کے درمیان بندگی اور خدائی کے تعلق کے سوا کسی اور قسم کے رابطے کا تصور اپنایا۔ یہی وجہ ہے کہ جب انبیاء کی تکریم اور اعزاز کا مقام آتا ہے تو قرآن کریم میں ان کے لیے بندے کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ تصور یہ دلانا مقصود ہوتا ہے کہ وہ اعلیٰ اور بلند مقام ہے جس تک کوئی بشر ترقی کرسکتا ہے۔ یہاں بتایا جاتا ہے کہ اپنے اس بر گزیدہ بندے پر قرآن نازل کرنے کا مقصد لیکون للعلمین نذیرا (٢٥ : ١) ” تاکہ وہ سارے جہاں کے لیے خبردار کردینے والا ہو “۔ یہ آیات مکی ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ابتداء ہی سے پوری دنیا کے لیے رسول مقرر کردیا گیا تھا۔ بعض مستشرقین نے جو یہ دعویٰ کیا ہے کہ دعوت اسلامی ابتداء میں ایک مقامی دعوت تھی لیکن بعد میں جب اسے عالمی فتوحات حاصل ہوگئیں تو اس نے ایک عالمی تحریک کی شکل اختیار کرلی۔ ان لوگوں کی یہ رائے غلط تھی ‘ یہ دعوت ابتداء ہی سے عالمی تھی۔ اگر قرآن کی تعلیمات پر پوری طرح غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کا مزاج ہی عالمی ہے۔ اس دعوت کو پھیلانے کے لیے اسلام نے جو طریق کار اور جو وسائل اختیار کیے وہ سب کے سب عالمی تھے۔ اور ان تعلیمات کا مقصد ہی یہ تھا کہ پوری انسانیت کو ایک دور سے نکال کر دوسرے دور میں داخل کیا جائے۔ اس کے اندر سے ایک نظام کو ختم کر کے اسے ایک دوسرا نظام دیا جائے اور یہ کام اس کتاب فرقان کے ذریعے کیا جائے جو اللہ نے تمام جہاں کے لوگوں کو انجام بد سے خبردار کرنے کے لیے نازل کی ہے۔ اور اپنے بندے پر نازل کرے تاکہ وہ تمام لوگوں کے لیے خبردار کرنے والے کا کام کرے۔ یہ دعوت تو عالمی تھی لیکن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چونکہ مکہ میں رہنے والے تھے اس لیے ان کا پہلا مقابلہ اہل مکہ ہی سے ہونا تھا۔ اس لیے اس دعوت کا انکار اور مقابلہ اہل مکہ نے کیا تھا۔ غرض وہ ذات بڑی متبرک ہے جس نے اپنے اس عظیم بندے پر یہ کتاب نازل کی جو حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والی ہے اور جو ایک معیار حق ہے۔ (الذی لہ ملک السموات۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تقدیرا) (٢٥ : ٢) ” وہ جو زمین و آسمان کی بادشاہی کا مالک ہے ‘ جس نے کسی کو بیٹا نہیں بنایا ‘ جس کے ساتھ بادشاہی میں کوئی شریک نہیں ہے ‘ جس نے ہر چیز کو پیدا کیا ‘ پھر اس کی تقدیر مقرر کی “۔ یہاں بھی اللہ تعالیٰ کے لیے اسم ذات کے استعمال کے بجائے اسم موصولہ کا استعمال ہوا یعنی الذی مقصد یہ ہے کہ جن صفات کا ذکر کیا جارہا ہے ان کے ساتھ اللہ کا دائمی اور مسلسل تعلق ہے۔ الذی لہ ملک السموت والارض (٢٥ : ٢) ” وہ جو زمین و آسمان کا مالک ہے “۔ زمینو آسمان پر اس کا مکمل کنٹرول ہے۔ یہ اس کے قبضہ میں ہیں۔ وہ ان کے اندر پوری طرح متصرف ہے اور زمین و آسمان کے اندر تمام تغیرات اس کی مرضی اور حکم سے رونما ہوتے ہیں۔ ولم یتخذ ولدا (٢٥ : ٢) ” اس نے کسی کو بیٹا نہیں بنایا “۔ تناسل تو وہ قدرتی قانون ہے جسے اللہ نے اپنی مخلوق کے اندر جاری کیا ہے تاکہ اس کے ذریعہ ” زندگی “ کا تسلسل قائم رہے۔ جہاں تک ذات باری کا تعلق ہے تو وہ جب ہمیشہ باقی ہے اور لازوال ہے تو وہ سلسلہ تناسل کی محتاج ہی نہیں ہے۔ ولم یکن لہ شریک فی الملک (٢٥ : ٢) ” جس کی بادشاہی میں کوئی شریک نہیں ہے “۔ زمین و آسمان کے اندر جس قدر مخلوق ہے اگر اس کا مشاہدہ اور تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اس کا نقشہ کسی ایک ہی خالق نے تخلیق کیا ہے۔ ہر چیز کے اندر ایک ہی ناموس قدرت ہے اور تمام مخلوق کے اندر تصرف اور تغیر بھی ایک ہی ذات کا نظر آتا ہے۔ وخلق کل شیء فقدر ہ تقدیرا (٢٥ : ٢) ” جس نے ہر چیز کو پیدا کیا پھر اس کی ایک تقدیر مقرر کی۔ اس کا ایک حجم اور اس کی ایک شکل مقرر کی۔ اس کے لیے ایک کام اور فرض منصبی متعین کیا۔ اس کا زمان و مکان متعین کیا۔ اور اس کو اس کائنات کے عظیم وجود کے ساتھ ہم آہنگ کیا۔ اس کائنات کے وجود اور انداز کے انداز تخلیق و ترکیب پر جن علماء نے غور کیا ہے اور جو انسان بھی اس پر کبھی غور کرے گا وہ حیران رہ جائے گا۔ جوں جوں تخلیق کائنات کے راز ہائے نہفتہ واشگفتہ ہوں گے اس کو یقین ہوتا جائے گا کہ یہ کائنات از خود بطور انفاق وجود میں نہیں آگئی ہے۔ اس کی ترکیب اس قدر دقیق اور باریک ہے کہ انسان اس کے مظاہر اور اثرات ہی کو معلوم کرنے سے عاجز ہے جبکہ ہم نے ابھی تک اس کائنات کا ایک حقیر پہلو ہی مشاہدہ کیا ہے۔ لیکن جوں جوں ہماری دریافت آگے بڑھتی ہے۔ ہمیں اس کائنات کے اندر نہایت ہی حکیمانہ ضوابط کار فرما نظر آتے ہیں۔ یہ ضوابط اس کائنات کے ساتھ ہم آہنگ ہیں۔ ہمارا علم جس قدر آگے بڑھتا ہے ہمیں یہ آیت اچھی طرح سمجھ آجاتی ہے۔ وخلق کل شیء فقدرہ تقدیرا (٢٥ : ٢) ” اس نے ہر چیز کو پیدا کیا پھر اس کی ایک مکمل تقدیر مقرر کی “۔ مسٹراے کریسی مورسن ‘ صدر سائنس اکیڈمی نیوریارک ‘ اپنی کتاب ” انسان ایکلا نہیں کھڑا ہے “ میں لکھتے ہیں :” اس حقیقت کو دیکھ کر انسان حیرت سے دہشت زدہ ہوجاتا جب وہ اس کائنات کی موجودہ شکل میں منظم کیے جانے پر غور کرتا ہے۔ یہ نہایت ہی حکیمانہ تنظیم ہے۔ اگر زمین کا چھلکا اپنی موجودہ مقدار کے مقابلے میں چند قدم اور زیادہ دیر ہوتا تو اور نباتات کا وجود ہی ختم ہوجاتا “۔ ” اگر ہوا اپنے موجودہ مقام سے ذرا زیادہ اونچی ہوتی تو آج جو لاکھوں شاب ثاقب بالائی فضا می جل جاتے ہیں ‘ ان کی زد اس کرئہ ارضی پر پڑتی کیونکہ ان شابوں کی رفتار ٤٦ میل فی سیکنڈ ہوتی ہے۔ اس طرح یہ جہاں گرتے ‘ وہاں پر اس چیز کو جلا دیتے جو جلنے کے قابل ہوتی اور اگر ان کی رفتار کم ہو کر بندوق کی گولی کی مقدار پر آجائے تو یہ سب زمین پر آکر چپک جاتے اور اس کے خوفناک نتائج نکلتے۔ رہا انسان تو اس کے پاس سے اگر ایک چھوٹا سا شہاب ثاقب گزر جائے جس کی رفتار بندوق کی گولی سے نوے گنازیادہ ہوتی ہے تو صرف اس کے گزرنے کی رفتار کی گرمی سے وہ چھوٹے چھوٹے ڈروں میں بدل جاتے “۔ ” اللہ نے اس ہوا کو ایک خاص مقدار کے مطابق کثیف بنایا ہے اور اس کی اس کثافت سے وہ شعاعیں گزرسکتی ہیں جو فصلوں پر وہی اثرات ڈالتی ہیں ‘ جو جراثیم کو قتل کرتی ہیں اور وٹامن پیدا کرتی ہیں ‘ لیکن یہ شعاعیں انسان کو نقصان نہیں پہنچاتیں الا یہ کہ انسان ان کے اندر ضرورت سے زیادہ رہے۔ یہ بات قابل غور ہے کہ زمین سے ہر وقت زہریلی گیس نکلتی رہتی ہیں لیکن ہوا ان گیسوں سے متاثر ہو کر اس مسلسل آلوگدگی کی وجہ سے بھی اس کی وہ نسبت نہیں بدلتی جو صحت انسانی کے لیے ضروری ہے۔ اور اس توازن کو یہ وسیع سمندر قائم رکھتے ہیں جن کی وجہ سے ہر قسم کی زندگی ‘ غذا ‘ بارش معتدل جائے رہائش اور نباتات کو زندگی حاصل ہوتی ہے اور خود انسان کی زندگی قائم ہے “۔ ” اس ہوا میں اس وقت آکسیجن ٢١ فیصد ہے ‘ اگر یہ بڑھ کر ٥٠ فیصد ہوجائے تو وہ تمام مواد جو اس وقت جلنے کے قابل ہے ‘ سب کا سب آگ پکڑ لے۔ ایک چنگاری جنگلات کو آگ لگا دے اور تمام جنگلات ایک دھماکے سے اڑ جائیں اور اگر ہوا کے اندر آکسیجن کی مقدار ١٠ فیصد ہوجائے یا اور کم ہوجائے تو انسانی زندگی شاید صدیوں بعد اپنے آپ کو اس نسبت کے ساتھ ساتھ ہم آہنگ تو کر ہی دے لیکن انسانی تمدن موجودہ بیشمار چیزوں سے محروم ہوجائے ‘ مثلاً آگ اور دیگر انرجیز ہے “۔ ” ان مخلوقات کی ضابطہ بندی اور ان کے اندر قدرتی توازن بھی نہایت ہی عجیب ہے کہ کوئی حیوان ‘ مخواہ وہ جس قدر عظیم الجثہ اور ہوشیار کیوں نہ ہو ‘ اس کے لیے اس جہاں پر غلبہ حاصل کرنا ممکن نہیں ہے۔ ہاں انسان نے یہ کام کیا کہ اس نے نباتات اور حیوانات کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرکے قدرت کے پیدا کردہ اس توازن کو تبدیل کرنے کی کوشش کی۔ اور انسان کو اس کی اس حرکت کی سخت سزا بھی ملی اس طرح کہ اس توازن کو خراب کرنے کی وجہ سے حیوانات ‘ حشرات اور نباتات کو مختلف بیماریوں کو سامنا کرنا پڑا “۔ ” وجود انسان کے حوالے سے اس توازن کی جو اہمیت ہے اس کی حقیقت درج ذیل واقعہ سے اچھی طرح معلوم ہو سکتی ہے۔ کئی سال ہوئے آسٹریلیا میں ایک قسم کے خاردار خربوزے کی کاشت کی گئی۔ یہ کاشت بطور حفاظتی باڑ کی گئی لیکن یہ فصل اس قدر پھیل گئی کہ اس نے تھوڑے ہی عرصہ میں اس قدر رقبے کو گھیر لیا جو انگلینڈ کے برابر تھا۔ اس نے شہروں کے شہر اجاڑ دیئے اور لوگوں کی فصل تباہ ہوگئی ‘ یہاں تک کہ لوگوں کے لیے فضل بونا مشکل ہوگئی۔ لوگوں نے بہت کوشش کی کہ کسی طرح اس کے پھیلائو پر کنٹرول کیا جائے مگر ممکن ہی نہ ہوا۔ پورے آسٹریلیا کے لیے یہ خطرہ پیدا ہوگیا کہ اس پر خار دار خربوزے کی یہ فضل قابض ہوجائے ‘ کوئی چیز اس کے لیے رکاوٹ نہ تھی “۔ ” علماء حشرات الارض پوری دنیا میں پھیل گئے ‘ تحقیقات شروع کردی یہاں تک کہ انہوں نے ایک کیڑا دریافت کرلیا جس کی خوراک صرف یہ خربوزہ تھا۔ یہ کیڑا بھی اسی تیزی سے پھیل رہا تھا جس تیزی سے یہ خاردار خربوزہ پھیلتا تھا۔ آسٹریلیا میں اس کیڑے کے سامنے بھی کوئی طبعی رکاوٹ نہ تھی ‘ یہ کیڑا اس قدر پھیلا کہ اس نے خار دار خربوزے کو ختم کر کے رکھ دیا۔ جو نہی یہ خربوزہ ختم ہوا اس کیڑے نے بھی ختم ہونا شروع کردیا۔ اس کی نہایت ہی قلیل مقدار باقی رہ گئی۔ یہ گویا قدرت نے اس خربوزے کے پھیلائو کے خلاف باقی رکھی۔ یوں قدرت نے ضابطے اور تواز کو قائم رکھنے کا یہ انتظام کیا “۔ ” سوال یہ ہے کہ ملیریا کے مچھر نے کیوں نہ اس پوری دنیا پر غلبہ پایا کہ ہمارے آباء واجدا اس سے مرجاتے۔ یا اس سے بچائو کی کوئی تدبیر وہ حاصل کرلیتے۔ اسی طرح زرد بخار کے مچھر کے بارے میں بھی یہی کہا جاسکتا ہے ‘ ایک موسم میں تو اس نے اس قدر پیش قدمی کی کہ نیویارک تک پہنچ گیا۔ بحر منجمد میں بھی کئی قسم کے مچھر پائے جاتے ہیں۔ اسی طرح۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کا زیادہ پھیلائو کن اسباب کی وجہ سے نہ ہوا۔ اور یہ اپنے گرم منطقوں تک ہی محدود رہی اور اس طرح اس کی افواج کی زد سے انسان بچ سکا ورنہ کرئہ ارض پر سے انسان کا وجود ہی ختم ہوجاتا۔ انسان طاعون ‘ دوسری مہلک وبائوں ‘ مہلک جراثیم کے بارے میں یہ کہہ سکتا ہے کہ خود انسان کے پاس ان چیزوں سے بچنے کی دوائیں توکل تک نہ تھیں پھر کیسے بچا۔ پھر کل تک تو انسان حفظان صحت کے بنیادی اصولوں سے بھی نا بلد تھا۔ یکا ایسے حالات میں نوع انسان کا باقی رہنا ایک معجزہ نہیں ہے۔ “ ” پھر دیکھئے کہ حشرات الارض کے اس طرح کے پھیپھڑے نہیں ہیں جس طرح کہ انسان کے ہیں۔ یہ حشرات بعض نالیوں کے ذریعے سانس لیتے ہیں جو ان کے جسم میں ہیں۔ جب یہ حشرات ایک حد تک بڑے ہوجاتے ہیں تو ان نالیوں سے اس قدر آکسیجن داخل نہیں ہو سکتی جو ان کے جسم کے لیے کافی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی کیڑا چند انچ سے زیادہ بڑا نہیں ہوتا۔ اسی طرح ان حشرات کے پر بھی زیادہ طویل نہیں ہوتے۔ ان کیڑے مکوڑوں کی تخلیق اور تشکیل کے نظام کی روہی سے وہ یاک مقدار سے زیادہ بڑے نہیں ہوسکتے۔ چناچہ قدر کے نظام نے ان کے پھیلائو کو روک دیا ہے۔ اس طرح اس دنیا کو ان کی زد سے بچا لیا گیا۔ اگر حشرات الارض کے لیے تجدید کا یہ اصول نہ رکھا گیا ہوتا تو اس کرئہ ارض پر انسان کا زندہ رہنا ہی ممکن نہ تھا۔ ذرا فطری انسان کے بارے میں سوچیں کہ اس کے مقابلے میں شیر کے جسم کے برابر سرخ مکھی یا سا کے مقابلے میں شیر کے جسم کے برابر مکڑی آجائے تو کیا انسان ایسی چیزوں کا مقابلہ کرسکتا ہے ؟ “ ” حیوانات کی جسمانی طبیعی ساخت میں بعض دوسرے معجزات بھی ہیں کہ اگر حیوانات کے لیے یہ قدرتی انتظامات نہ ہوتے تو کوئی حیوان بلکہ کوئی پودا اس جہاں میں موجود ہی نہ ہوتا “۔ آئے دن انسانوں پر ایسے انکشافات ہو رہے ہیں جن سے یہ معلوم ہوتا ہے اللہ تعالیٰ نے اپنی اس مخلوق کے اندر نہایت دقیق اور لطیف توازن رکھا ہوا ہے اور کائنات کی تمام مخلوقات کے لیے ایک متعین مقدار اور وزن مقرر ہے۔ جوں جوں انسانی علم آگے بڑھتا ہیانسان اس آیت کے مفہوم کو سمجھنے لگتا ہے۔ وخلق کل شیء فقدرہ تقدیرا (٢٥ : ٢) ” اس نے ہر چیز کو پیدا کیا پھر اس کی ایک تقدیر مقرر کی “۔ لیکن یہ بےحد افسوسناک بات ہے کہ مشرکین اس حقیقت کو پا نہیں رہے۔ (واتخذوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ولانشورا) (٢٥ : ٣) ” لوگوں نے اسے چھوڑ کر ایسے معبود بنا لیے ہیں جو کسی چیز کو پیدا نہیں کرتے بلکہ خود پیدا کیے جاتے ہیں جو خود اپنے لیے کسی نفع یا نقصان کا اختیار نہیں رکھتے ‘ جو نہ مارتے ہیں اور نہ جلا سکتے ہیں اور نہ مرے ہوئے کو پھر اٹھا سکتے ہیں “۔ یوں اللہ تعالیٰ ان کے خود ساختہ خدائوں کو ‘ خدائی کے تمام خصائص سے عاری کردیتا ہے۔ لایخللقون شیئا (٢٥ : ٣) ” وہ کسی چیز کو پیدا نہیں کرتے “۔ جبکہ رب تعالیٰ نے تمام مخلوق کو پیدا کیا ہے۔ وھم یخلقون (٢٥ : ٣) ” وہ خود پیدا کیے ہوئے ہیں “۔ یعنی ان کو خود اللہ نے پیدا کیا ہے ‘ اور ان کو وجود بخشا ہے۔ سب کا خلاق اللہ ہے ‘ چاہے وہ ملائکہ ہوں ‘ جن ہوں ‘ بشر ہوں ‘ درخت ہوں یا پتھر ہوں۔ ولایملکون لانفسھم ضرا ولا نفعا (٢٥ : ٣) ” وہ خود اپنے لیے بھی نفع و نقصان کا اختیار نہیں رکھتے “۔ ان کی بندگی کرنے والوں کا نفع و نقصان تو دور کی بات ہے۔ بعض اوقات یوں ہوتا ہے کہ کوئی اپنے لیے نفع کا اختیار نہیں رکھتا مگر نقصان تو دے سکتا ہے مگر یہ الہہ ایسے ہیں کہ اپنے لیے کسی نقصان کا اختیار بھی نہیں رکھتے۔ اس لیے اس کو نفع سے بھی پہلے لایا گیا ہے۔ یعنی اپنے آپ کو نقصان پہنچانا تو بہت ہی آسان کام ہے لیکن یہ لوگ وہ بھی نہیں پہنچا سکتے۔ اس کے بعد ان خصائص کا ذکر کیا جاتا ہے جو صرف اللہ کی خصوصیات میں سے ہیں۔ لایملکون موتا ولا حیوۃ ولا نشورا (٢٥ : ٣) ” جو نہ مار سکتے ہیں ‘ نہ جلا سکتے ہیں اور نہ مارے ہوئوں کو پھر اٹھا سکتے ہیں “۔ نہ وہ زندہ کو مار سکتے ہیں ‘ نہ زندگی کو پیدا کرسکتے ہیں ‘ اور نہ مردے کو دوبارہ زندگی دے سکتے ہیں ۔ اگر وہ یہ کام نہیں کرسکتے تو پھر وہ کس چیز کے خدا ہیں۔ اور وہ کیا بات ہے جس کی وجہ سے مشرکین نے ان کو خدا بنا رکھا ہے۔ یہ کھلی گمراہی ہے اور اس کے بعد ان سے وہ باتیں بعید ‘ نہیں جو وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف کہتے ہیں۔ کیونکہ جب وہ اللہ کے بارے میں یہ باتیں کرتے ہیں تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں وہ جو کچھ کہتے ہیں وہ ان سے سعبد نہیں ہے۔ کسی انسان کی کیا اس سے بھی کوئی بات قبیح ہو سکتی ہے کہ وہ اللہ پر الزام لگائے ‘ حالانکہ اللہ مالک خالق اور مدبر اور مقدر ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا گیا کہ کون سا گناہ سب سے گھنائو نا ہے تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” یہ کہ تو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرائے حالانکہ اس نے تمہاری تخلیق کی ہے “۔ ان تجعل للہ ندا وھو خلقک (متفق علیہ) مقام الوہیت پر ان کی گستاخی کے ذکر کے بعد اب مقام رسالت پر ان کی دست درازی کا ذکر کیا جاتا ہے اور اس پر ایسی تنقید کی جاتی ہے۔ جس سے ان کے اس اعتراض کا چھوٹا اور پوچ ہونا اچھی طرح ظاہر ہوجاتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اثبات توحید و رسالت، مشرکین کی حماقت اور عناد کا تذکرہ یہاں سے سورة فرقان شروع ہو رہی ہے اوپر پہلے رکوع کا ترجمہ لکھا کیا ہے، اس میں قرآن مجید کی صفت بیان فرمائی ہے اور اس کے ساتھ ہی صاحب قرآن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صفت بھی بیان فرمائی، ارشاد فرمایا کہ وہ ذات بابرکت ہے جس نے اپنے بندہ پر فرمان یعنی فیصلہ کرنے والی کتاب یعنی قرآن نازل فرمایا جو حق اور باطل میں فرق کرنے والا ہے اور واضح طور پر ہدایت اور ضلالت کو متعین کر کے بتانے والا ہے یہ قرآن اپنے بندہ پر اس لیے نازل فرمایا ہے کہ وہ جہانوں کے لیے ڈرانے والا ہوجائے اس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت عامہ کو بیان فرمایا ہے قیامت آنے تک جتنے بھی جنات اور انسان ہیں آپ سب کی طرف مبعوث ہیں آپ کو دین حق دے کر اللہ تعالیٰ نے بھیجا آپ نے حق کی تبلیغ فرمائی قبول کرنے والوں کو بشارتیں دیں اور جو قبول حق سے منکر ہوئے انہیں ڈرایا اور بتایا کہ آخرت میں منکر کا برا انجام ہے جس نے اللہ کے بھیجے ہوئے دین کا انکار کیا اس کے لیے نار جہنم ہے قال الطیبی فی اختصاص النذیر دون البشیر سلوک طریقۃ براعۃ الاستھلال والا یذان بان ھذہ السورۃ مشتملۃ علی ذکر المعاندین الخ۔ (ذکرہ صاحب الروح ج ١٨ ص ٤٣١)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

2:۔ ” تبارک الخ “ یہ دعوی سورت ہے۔ یعنی ہر خیر و برکت اور ہر منفعت اللہ ہی کی جانب سے وہی برکات دہندہ ہے۔ اس کے سوا خیر و برکت کسی کے اختیار و تصرف میں نہیں جاء بکل برکۃ وخیر (خازن ج 5 ص 93) ۔ عن ابن عباس معناہ جاء بکل برکۃ دلیلہ قول الحسن مجیئ البرکۃ من قبلہ (معالم بحاشیہ خازن) ۔ برکات دہندہ چونکہ صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے اور کوئی نہیں اس لیے یہ لفظ (تبارک) غیر اللہ کیلئے استعمال نہیں ہوتا۔ وھذا الفعل لا یسند فی الاغلب الی غیرہ تعالیٰ (روح ج 18 ص 320) ۔ وھی کلمۃ تعظیم لہ لا تستعمل الا للہ وحدہ (مدارک ج 3 ص 121) ۔ 3:۔ ” الذی نزل الخ “ یہ دعوی سورت پر پہلی عقلی دلیل ہے۔ موصول مع صلہ ما قبل کے لیے معرض علت میں ہیں۔ ” الفرقان “ مراد قرآن ہے کیونکہ قرآن حق و باطل، توحید و شرک اور حلال و حرام کو واضح کرتا اور ایک کو دوسرے سے جدا کرتا ہے سماہ ھھنا الفرقان لانہ یفرق بین الھق والباطل والھدی والضلال والغی والرشاد والحلال والحرام (ابن کثیر ج 3 ص 308) ۔ ” لیکون للعلمین نذیرا “۔ اللہ نے اپے بندے پر یہ فرقان نازل کیا تاکہ وہ لوگوں کو ڈرائے کہ اللہ تعالیٰ تم سے حساب لے گا اور مجرموں کو سزا دے گا جب حساب لینا اور سزا دینا اسی کا کام ہے تو بلا شبہ برکات دہندہ بھی وہی ہے اور کوئی نہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(1) بڑی عالیشان اور بابرکت ذات ہے اس کی جس نے اپنے خاص بندے پر فیصلہ کرنے والی کتاب کو نازل فرمایا تاکہ وہ تمام اقوام عالم اور اہل عالم کے لئے ڈرانے والا ہو یعنی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو اس کے خاص بندے ہیں ان پر قرآن کریم جو حق و باطل کو جدا کرنے والا ہے نازل فرمایا تاکہ وہ قرآن کریم یا وہ بندہ جہان والوں کو ڈرانے والا ہو یعنی جو اس قرآن کریم پر ایمان نہ لائے اس کو عذاب الٰہی سے ڈرائیے۔