Surat ul Furqan

Surah: 25

Verse: 11

سورة الفرقان

بَلۡ کَذَّبُوۡا بِالسَّاعَۃِ ۟ وَ اَعۡتَدۡنَا لِمَنۡ کَذَّبَ بِالسَّاعَۃِ سَعِیۡرًا ﴿ۚ۱۱﴾

But they have denied the Hour, and We have prepared for those who deny the Hour a Blaze.

بات یہ ہے کہ یہ لوگ قیامت کو جھوٹ سمجھتے ہیں اور قیامت کے جھٹلانے والوں کے لئے ہم نے بھڑکتی ہوئی آگ تیار کر رکھی ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

بَلْ كَذَّبُوا بِالسَّاعَةِ ... Nay, they deny the Hour, means, they say this in stubborn disbelief, not because they are seeking insight and guidance, but because their disbelief in the Day of Resurrection makes them say what they say. ... وَأَعْتَدْنَا ... And We have prepared, means, `We have made ready,' ... لِمَن كَذَّبَ بِالسَّاعَةِ سَعِيرًا for those who deny the Hour, a flaming Fire. means, an unbearably hot and painful torment in the fire of Hell.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

111قیامت کا جھٹلانا ہی تکذیب رسالت کا بھی باعث ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٥] یعنی اللہ اگر چاہے تو آپ کو ایک باغ کیا، ایسے بیسیوں باغ عطا کرسکتا ہے۔ اسی طرح رہائش کے لئے ایک محل کیا بیسیوں محل بھی عطا کرسکتا ہے۔ اور دوسری جن چیزوں کا یہ نام لیتے ہیں وہ بھی دینے پر قادر ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا پھر یہ لوگ ایمان لے آئیں گے ؟ اور اس سوال کا یقینی جواب یہ ہے کہ یہ لوگ پھر بھی ایمان نہیں لائیں گے۔ بلکہ پھر اور قسم کی باتیں بنانا شروع کردیں گے۔ وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ سرے سے قیامت کے دن پر، دوبارہ جی اٹھنے پر اور اللہ کے سامنے حاضر ہونے پر اور اپنے برے اعمال کی سزا بھگتنے پر یقین ہی نہیں رکھتے۔ پھر یہ لوگ ایسی کٹ جحتیاں نہ کریں تو اور کریں بھی کیا ؟

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

بَلْ كَذَّبُوْا بالسَّاعَةِ ۣ ۔۔ : پچھلی آیت کے ساتھ اس کا تعلق یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ آپ کو اس سے کہیں بہتر چیزیں عطا کر بھی دے تو سوال یہ ہے کہ کیا یہ لوگ ایمان لے آئیں گے ؟ یقینی جواب اس کا یہ ہے کہ یہ لوگ پھر بھی ایمان نہیں لائیں گے، بلکہ پھر اور قسم کی باتیں بنانا شروع کردیں گے۔ وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ سرے سے قیامت کے دن کو، دوبارہ جی اٹھنے کو، اللہ کے سامنے حاضر ہونے کو اور اپنے برے اعمال کی سزا بھگتنے کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں، بلکہ انھوں نے اسے صاف جھٹلا دیا ہے، کیونکہ اس سے انھیں دنیا میں اپنی خواہش پرستی سے دست بردار ہونا پڑتا ہے، پھر اگر یہ لوگ ایسی کٹ حجتیاں نہ کریں تو اور کریں بھی کیا ؟ دیکھیے سورة قیامہ کی آیات (١ تا ٦) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

بَلْ كَذَّبُوْا بِالسَّاعَۃِ۝ ٠ۣ وَاَعْتَدْنَا لِمَنْ كَذَّبَ بِالسَّاعَۃِ سَعِيْرًا۝ ١١ۚ كذب وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی: إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] ، ( ک ذ ب ) الکذب قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے ساعة السَّاعَةُ : جزء من أجزاء الزّمان، ويعبّر به عن القیامة، قال : اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ [ القمر/ 1] ، يَسْئَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ [ الأعراف/ 187] ( س و ع ) الساعۃ ( وقت ) اجزاء زمانہ میں سے ایک جزء کا نام ہے اور الساعۃ بول کر قیامت بھی مراد جاتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ [ القمر/ 1] قیامت قریب آکر پہنچی ۔ يَسْئَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ [ الأعراف/ 187] اے پیغمبر لوگ ) تم سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں ۔ عد ( اعداد) والإِعْدادُ مِنَ العَدِّ كالإسقاء من السَّقْيِ ، فإذا قيل : أَعْدَدْتُ هذا لك، أي : جعلته بحیث تَعُدُّهُ وتتناوله بحسب حاجتک إليه . قال تعالی: وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ [ الأنفال/ 60] ، وقوله : أُولئِكَ أَعْتَدْنا لَهُمْ عَذاباً أَلِيماً [ النساء/ 18] ، وَأَعْتَدْنا لِمَنْ كَذَّبَ [ الفرقان/ 11] ، وقوله : وَأَعْتَدَتْ لَهُنَّ مُتَّكَأً [يوسف/ 31] ، قيل : هو منه، وقوله : فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ [ البقرة/ 184] ، أي : عدد ما قد فاته، وقوله : وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ [ البقرة/ 185] ، أي : عِدَّةَ الشّهر، وقوله : أَيَّاماً مَعْدُوداتٍ [ البقرة/ 184] ، فإشارة إلى شهر رمضان . وقوله : وَاذْكُرُوا اللَّهَ فِي أَيَّامٍ مَعْدُوداتٍ [ البقرة/ 203] ، فهي ثلاثة أيّام بعد النّحر، والمعلومات عشر ذي الحجّة . وعند بعض الفقهاء : المَعْدُودَاتُ يومُ النّحر ويومان بعده «1» ، فعلی هذا يوم النّحر يكون من المَعْدُودَاتِ والمعلومات، والعِدَادُ : الوقت الذي يُعَدُّ لمعاودة الوجع، وقال عليه الصلاة والسلام :«ما زالت أكلة خيبر تُعَادُّنِي» «2» وعِدَّانُ الشیءِ : عهده وزمانه . ( ع د د ) العدد الاعداد تیار کرنا مہیا کرنا یہ عد سے ہے جیسے سقی سے اسقاء اور اعددت ھذا لک کے منعی ہیں کہ یہ چیز میں نے تمہارے لئے تیار کردی ہے کہ تم اسے شمار کرسکتے ہو اور جس قدر چاہو اس سے حسب ضرورت لے سکتے ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ [ الأنفال/ 60] اور جہاں تک ہوسکے ( فوج کی جمیعت سے ) ان کے ( مقابلے کے لئے مستعد رہو ۔ اور جو ) کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے ۔ اور اس نے ان کے لئے باغات تیار کئے ہیں ۔ أُولئِكَ أَعْتَدْنا لَهُمْ عَذاباً أَلِيماً [ النساء/ 18] ایسے لوگوں کے لئے ہم نے عذاب الیم تیار کر رکھا ہے وَأَعْتَدْنا لِمَنْ كَذَّبَ [ الفرقان/ 11] اور ہم نے جھٹلا نے والوں کے لئے دوزخ تیار کر رکھی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَأَعْتَدَتْ لَهُنَّ مُتَّكَأً [يوسف/ 31] اور ان کے لئے ایک محفل مرتب کی ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ اعتدت بھی اسی ( عد ) سے ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ [ البقرة/ 185] تم روزوں کا شمار پورا کرلو ۔ کے معنی یہ ہیں کہ تم ماہ رمضان کی گنتی پوری کرلو ۔ أَيَّاماً مَعْدُوداتٍ [ البقرة/ 184] گنتی کے چند روز میں ماہ رمضان کی طرف اشارہ ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَاذْكُرُوا اللَّهَ فِي أَيَّامٍ مَعْدُوداتٍ [ البقرة/ 203] اور گنتی کے دنوں میں خدا کو یاد کرو ۔ میں سے عید قربان کے بعد کے تین دن مراد ہیں اور معلومات سے ذوالحجہ کے دس دن بعض فقہاء نے کہا ہے کہ ایام معدودۃ سے یوم النحر اور اس کے بعد کے دو دن مراد ہیں اس صورت میں یوم النحر بھی ان تین دنوں میں شامل ہوگا ۔ العداد اس مقرر وقت کو کہتے ہیں جس میں بیماری کا دورہ پڑتا ہو ۔ آنحضرت نے فرمایا مازالت امۃ خیبر تعادنی کہ خیبر کے دن جو مسموم کھانا میں نے کھایا تھا اس کی زہر بار بار عود کرتی رہی ہے عد ان الشئی کے معنی کسی چیز کے موسم یا زمانہ کے ہیں سعر السِّعْرُ : التهاب النار، وقد سَعَرْتُهَا، وسَعَّرْتُهَا، وأَسْعَرْتُهَا، والْمِسْعَرُ : الخشب الذي يُسْعَرُ به، واسْتَعَرَ الحرب، واللّصوص، نحو : اشتعل، وناقة مَسْعُورَةٌ ، نحو : موقدة، ومهيّجة . السُّعَارُ : حرّ النار، وسَعُرَ الرّجل : أصابه حرّ ، قال تعالی: وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيراً [ النساء/ 10] ، وقال تعالی: وَإِذَا الْجَحِيمُ سُعِّرَتْ [ التکوير/ 12] ، وقرئ بالتخفیف «2» ، وقوله : عَذابَ السَّعِيرِ [ الملک/ 5] ، أي : حمیم، فهو فعیل في معنی مفعول، وقال تعالی: إِنَّ الْمُجْرِمِينَ فِي ضَلالٍ وَسُعُرٍ [ القمر/ 47] ، والسِّعْرُ في السّوق، تشبيها بِاسْتِعَارِ النار . ( س ع ر ) السعر کے معنی آگ بھڑکنے کے ہیں ۔ اور سعرت النار وسعر تھا کے معنی آگ بھڑکانے کے ۔ مجازا لڑائی وغیرہ بھڑکانے کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے : ۔ استعر الحرب لڑائی بھڑک اٹھی ۔ استعر اللصوص ڈاکو بھڑک اٹھے ۔ یہ اشتعل کے ہم معنی ہے اور ناقۃ مسعورۃ کے معنی دیوانی اونٹنی کے ہیں جیسے : ۔ موقدۃ ومھیجۃ کا لفظ اس معنی میں بولا جاتا ہے ۔ المسعر ۔ آگ بھڑکانے کی لکڑی ( کہرنی ) لڑائی بھڑکانے والا ۔ السعار آگ کی تپش کو کہتے ہیں اور سعر الرجل کے معنی آگ یا گرم ہوا سے جھلس جانے کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيراً [ النساء/ 10] اور دوزخ میں ڈالے جائیں گے ۔ وَإِذَا الْجَحِيمُ سُعِّرَتْ [ التکوير/ 12] اور جب دوزخ ( کی آگ ) بھڑکائی جائے گی ۔ عَذابَ السَّعِيرِ [ الملک/ 5] دہکتی آگ کا عذاب تیار کر رکھا ہے ۔ تو یہاں سعیر بمعنی مسعور ہے ۔ نیز قران میں ہے : ۔ إِنَّ الْمُجْرِمِينَ فِي ضَلالٍ وَسُعُرٍ [ القمر/ 47] بیشک گنہگار لوگ گمراہی اور دیوانگی میں ( مبتلا ہیں ) السعر کے معنی مروجہ نرخ کے ہیں اور یہ استعار ہ النار ( آگ کا بھڑکنا ) کے ساتھ تشبیہ کے طور پر بولا گیا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١١) بلکہ یہ لوگ تو قیامت کے قائم ہونے کو جھوٹ سمجھ رہے ہیں اور ہم نے ایسے شخص کی سزا کے لیے جو قیامت کو جھوٹ سمجھے دوزخ کی آگ تیار کر رکھی ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

20 The word As-Sa'at, meaning the Time or the Hour, has been used in the Qur'an as a term for the promised Hour of Resurrection, when all human beings of all ages will be raised from the dead and gathered together before AIIah Almighty to account for their beliefs and deeds, right or wrong, and rewarded or punished accordingly. ' 21 That is, "The objections they are raising are not due to the reason that they doubt the authenticity of the Qur'an on some rational ground, or that they do not believe in you for the reason that you eat food and walk about in the streets like the common people, or that they did not accept your Message of Truth only because you were not escorted by an angel, or were not given a treasure. But the real reason why they are putting forward alI sorts of absurd arguments to reject your Message, is that they do not believe in the life-after-death, and this denial has made them free from alI moral obligations. For when one denies the life-afterdeath, there remains no need for him to consider and decide what is true or false, or what is right or wrong, etc. Their argument is like this: 'There is going to be no life after this one on the earth when we will be called to account for our deeds before God. Death will be the end of everything, and it will therefore make no difference whether one was a worshipper of God or a disbeliever or a mushrik or an atheist When the ultimate end is to become one with the dust, there is no need of judging what is right and what is wrong except by the criterion of "success" and "failure" in this life'. Those who deny the Hereafter also see that worldly success or failure does not entirely depend upon one's faith or conduct; nay, they very often see that the righteous and the wicked persons meet with the same end irrespective of their faith for which there is no ordained punishment or reward in this life; one righteous person may be living a life of hardship while another enjoying all the good things of life; one wicked person may be suffering for his misdeeds while the other enjoying a life of pleasure and plenty. As such, as far as the worldly consequences of adopting a particular moral attitude are concerned, the disbelievers in the Hereafter cannot be satisfied whether it is right or wrong. In view of this, those who deny the Hereafter, do not see any need to consider an invitation to faith and morality even if it is presented in a most forceful way."

سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :20 اصل میں لفظ السّاعۃ استعمال ہوا ہے ۔ ساعت کے معنی گھڑی اور وقت کے ہیں اور ال اس پر عہد کا ہے ، یعنی وہ مخصوص گھڑی جو آنے والی ہے ، جس کے متعلق ہم پہلے تم کو خبر دے چکے ہیں ۔ قرآن مجید میں جگہ جگہ یہ لفظ ایک اصطلاح کے طور پر اس وقت خاص کے لیے بولا گیا ہے جبکہ قیامت قائم ہو گی ، تمام اولین و آخرین از سرنو زندہ کر کے اٹھائے جائیں گے ، سب کو اکٹھا کر کے اللہ تعالیٰ حساب لے گا ، اور ہر ایک کو اس کے عقیدہ و عمل کے لحاظ سے جزا یا سزا دے گا ۔ سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :21 یعنی جو باتیں یہ کر رہے ہیں ان کی وجہ یہ نہیں ہے کہ ان کو واقعی کسی قابل لحاظ بنیاد پر قرآن کے جعلی کلام ہونے کا شبہ ہے ، یا ان کو درحقیقت یہ گمان ہے کہ جن آزاد کردہ غلاموں کے یہ نام لیتے ہیں وہی تم کو سکھاتے پڑھاتے ہیں ، یا انہیں تمہاری رسالت پر ایمان لانے سے بس اس چیز نے روک رکھا ہے کہ تم کھانا کھاتے اور بازاروں میں چلتے پھرتے ہو ، یا وہ تمہاری تعلیم حق کو مان لینے کے لیے تیار تھے مگر صرف اس لیے رک گئے کہ نہ کوئی فرشتہ تمہاری اردلی میں تھا اور نہ تمہارے لیے کوئی خزانہ اتارا گیا تھا ۔ اصل وجہ ان میں سے کوئی بھی نہیں ہے بلکہ آخرت کا انکار ہے جس نے ان کو حق اور باطل کے معاملے میں بالکل غیر سنجیدہ بنا دیا ہے ۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ وہ سرے سے کسی غور و فکر اور تحقیق و جستجو کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے ، اور تمہاری معقول دعوت کو رد کرنے کے لیے ایسی ایسی مضحکہ انگیز حجتیں پیش کرنے لگتے ہیں ۔ ان کے ذہن اس تخیل سے خالی ہیں کہ اس زندگی کے بعد کوئی اور زندگی بھی ہے جس میں انہیں خدا کے سامنے جا کر اپنے اعمال کا حساب دینا ہو گا ۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اس چار دن کی زندگی کے بعد مر کر سب کو مٹی ہو جانا ہے ۔ بت پرست بھی مٹی ہو جائے گا اور خدا پرست بھی اور منکر خدا بھی ۔ نتیجہ کسی چیز کا بھی کچھ نہیں نکلنا ہے ۔ پھر کیا فرق پڑ جاتا ہے ۔ مشرک ہو کر مرنے اور موحد یا ملحد ہو کر مرنے میں ۔ صحیح اور غلط کے امتیاز کی اگر ان کے نزدیک کوئی ضرورت ہے تو اس دنیا کی کامیابی و ناکامی کے لحاظ سے ہے ۔ اور یہاں وہ دیکھتے ہیں کہ کسی عقیدے یا اخلاقی اصول کا بھی کوئی متعین نتیجہ نہیں ہے جو پوری یکسانی کے ساتھ ہر شخص اور ہر رویے کے معاملے میں نکلتا ہو ۔ دہریے آتش پرست ، عیسائی ، موسائی ، ستارہ پرست ، بت پرست ، سب اچھے اور برے دونوں ہی طرح کے حالات سے دوچار ہوتے ہیں ۔ کوئی ایک عقیدہ نہیں جس کے متعلق تجربہ بتاتا ہو کہ اسے اختیار کرنے والا ، یا رد کر دینے والا اس دنیا میں لازماً خوش حال یا لازماً بد حال رہتا ہو ۔ بد کار اور نیکو کار بھی یہاں ہمیشہ اپنے اعمال کا ایک ہی مقرر نتیجہ نہیں دیکھتے ۔ ایک بد کار مزے کر رہا ہے اور دوسرا سزا پا رہا ہے ۔ ایک نیکو کار مصیبت جھیل رہا ہے تو دوسرا معزز و محترم بنا ہوا ہے ۔ لہٰذا دنیوی نتائج کے اعتبار سے کسی مخصوص اخلاقی رویے کے متعلق بھی منکرین آخرت اس بات پر مطمئن نہیں ہو سکتے کہ وہ خیر ہے یا شر ہے ۔ اس صورت حال میں جب کوئی شخص ان کو ایک عقیدے اور ایک اخلاقی ضابطے کی طرف دعوت دیتا ہے تو خواہ وہ کیسے ہی سنجیدہ اور معقول دلائل کے ساتھ اپنی دعوت پیش کرے ، ایک منکر آخرت کبھی سنجیدگی کے ساتھ اس پر غور نہیں کرے گا بلکہ طفلانہ اعتراضات کر کے اسے ٹال دے گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

2: یعنی یہ لوگ جو باتیں بنا رہے ہیں، ان کی اصل وجہ یہ نہیں ہے کہ یہ حق کے طلب گار ہیں، اور ان کے شبہات دور ہوجائیں تو یہ ایمان لے آئیں، بلکہ اصل وجہ ان کی بے فکری ہے، چونکہ ان کو قیامت اور اخرت پر ایمان نہیں ہہے، اس لیے ان کو بے ہودہ اعتراضات کرتے ہوئے کوئی خوف نہیں ہوتا کہ آخرت میں ان پر سزا بھی مل سکتی ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١١۔ ١٣:۔ مشرکین مکہ اللہ کے رسول کی تنگدستی پر طعن جو کرتے تھے ‘ اوپر اس کا ذکر فرما کر ان آیتوں میں فرمایا ‘ ان لوگوں کی یہ طعن کی باتیں معجزہ کی خواہش کے طور پر نہیں بلکہ مرنے کے بعد پھر دوبارہ زندہ ہونے اور حساب کتاب کے لیے اللہ تعالیٰ کے روبرو کھڑے ہونے کے یہ لوگ منکر ہیں ‘ اس لیے عقبیٰ کی بہتری کو یہ لوگ طعن اور مسخراپن کی باتوں میں اڑا دیتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ نے بھی ایسے لوگوں کے لیے دوزخ کی آگ کو خوب دہکا کر تیار کر رکھا ہے ‘ صحیح سند سے ترمذی میں ابوہریرہ (رض) ١ ؎ سے روایت ہے ‘ کہ دوزخ کی آگ میں اللہ تعالیٰ نے ایک طرح کی بینائی کی قوت پیدا کی ہے جس سے وہ مشرکوں ‘ ظالموں ‘ مصوروں کو دیکھ کر قیامت کے دین پہچان لے گی ‘ آیتوں میں یہ جو ذکر ہے کہ دوزخ کی آگ گنہگاروں کو دیکھتے ہی جھنجھلانا اور چلانا شروع کر دیوے گی ‘ اس حدیث سے دوزخ کے دن گنہگاروں کو دیکھتے ہی پہچان لے گی ‘ یہ دوزخ کا جھنجھلانا اس وقت ہوگا جس وقت اس کو ستر ہزار نکیلیں لگا کر محشر کے میدان میں لایا جائیگا جس کا ذکر عبداللہ بن مسعود کی صحیح مسلم کی روایت ٢ ؎ میں ہے ‘ سورة الحاقہ میں آوے گا کہ ایسے لوگوں کے گلے میں طوق ڈالا جاوے گا اور ستر گز کی ایک زنجیر میں ان کی جماعت کو جکڑا جا کر دوزخ میں جھونک دیا جائے گا ‘ اس سے مَکَانًا ضَیِّقًا کا مطلب اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ زنجیر میں جکڑ دیئے جانے کے سبب سے ایسے لوگوں کی جماعت کی جماعت دوزخ کی تھوڑی سی جگہ میں پڑی رہے گی ‘ پھر فرمایا دوزخ کے عذاب کی تکلیف سے ایسے لوگ بہت کچھ چلاویں گے اور پچتاویں گے مگر بےوقت کا چلانا اور پچھتانا ان کے کچھ کام نہ آوے گا ‘ صحیح بخاری کے حوالہ سے ابوہریرہ (رض) کی روایت سے حدیث قدسی کئی جگہ گزر چکی ہے ‘ جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا جب سب کی آنکھوں کے سامنے اللہ تعالیٰ نے اس جہاں کو پیدا کردیا تو جو لوگ دوبارہ پیدا کئے جانے کے منکر ہیں وہ بڑے نادان ہیں کیونکہ معمولی عقل کا آدمی بھی اس بات کو اچھی طرح سمجھ سکتا ہے ‘ کہ جو کام ایک دفعہ کیا جا چکا ‘ اس کے پھر دوبارہ کئے جانے کا انکار خلاف عقل ہے آیتوں میں جن منکرین حشر کا ذکر ہے۔ اس حدیث سے ان لوگوں کی نادانی کا حال اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے۔ (١ ؎ مشکوٰۃ ص ٣٨٦ باب التصاویر ) (٢ ؎ مشکوٰۃ باب صنقہ النار رواہلہا )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(25:11) بل کذبوا بالساعۃ۔ بل حرف اضراب (روگردانی کرنا) ہے مگر صرف اس صورت میں جبکہ اس کے بعد کوئی جملہ آئے۔ کبھی اضراب سے اس کے ماقبل کا ابطال ہوتا ہے اور کبھی اضراب کے معنی ایک غرض سے دوسری غرض کی طرف منتقل ہونا ہے (تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو 2:135 ۔ الاتقان جلد اول نوع چہلم) یہاں ایک غرض سے دوسری غرض کی طرف منتقلی کے معنی میں آیا ہے یعنی بل اضراب انتقالی کے لئے ہے۔ ای انتقال الی حکایۃ نوع اخر من ابا طیلہم متعلق بامر المعادو ماقبل کان متعلقا بامرالتوحید وامر النبوۃ۔ یہ ان کے باطل امور کی دوسری حکایت ہے جس کا تعلق آخرت کی زندگی سے ہے اور جو اس سے قبل تھا وہ امر توحید اور امر نبوت سے متعلق تھا۔ بل کذبوا بالساعۃ۔ بلکہ یہ لوگ تو قیامت کے منکر ہیں۔ سعیرا۔ دھکتی ہوئی آگ۔ دوزخ۔ سعر سے جس کے معنی آگ بھڑکانے کے ہیں۔ بروزن فعیل بمعنی مفعول۔ سعیر مذکر ہے لیکن یہاں نار کے معنی میں آیا ہے اور اسی رعایت سے اگلی آیت میں صیغہ مؤنث لایا گیا ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

10 ۔ اسی لئے بےخوفوں کی طرح جو منہ میں آتا ہے بک دیتے ہیں۔ ( ابن کثیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ اس لئے فکر انجام نہیں ہے، اور جو جی میں آتا ہے کرلیتے ہیں، بک دیتے ہیں۔ 3۔ کیونکہ قیامت کی تکذیب سے اللہ و رسول کی تکذیب لازم آتی ہے، جو اصل سبب ہے دوزخ میں جانے کا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : کفار کے مطالبہ کا دوسرا جواب۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے کفار اس لیے مطالبات پیش کرتے تھے کہ آپ کو الجھایا اور لوگوں کے سامنے لاجواب کیا جائے۔ ان کے مطالبے کی حقیقت یوں بیان کی گئی ہے کہ اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے مطالبات اور اعتراضات کا یہ مقصد نہیں کہ وہ آپ پر ایمان لانا چاہتے ہیں۔ ہرگز نہیں بلکہ ان کا مقصد یہ ہے کہ وہ آپ کو الجھائیں اور آپ کو لوگوں کے سامنے لا جواب کریں انہوں نے یہ وطیرہ اس لیے اختیار کر رکھا ہے کہ یہ قیامت کو جھٹلا تے ہیں اگر ان کا قیامت پر ایمان ہوتا تو آپ نے جس قدر ان کو سمجھایا ہے یہ آپ پر ایمان لے آتے۔ اب تو ان کے مطالبے کا یہی جواب ہے کہ جس شخص نے قیامت کو جھٹلایا اس کے لئے بھڑکتی ہوئی آگ ہے۔ ایسے لوگوں کو آگ دور سے دیکھے گی تو ان کو دیکھ کر آگ کے طیش اور جوش میں اضافہ ہوجائے گا جس وجہ سے آگ سے آوازیں نکلیں گی جو گدھے کی آواز کی مانند ہوں گی جہنم کی آگ کے لیے زَفِیْرًا کا لفظ استعمال کیا ہے زفیراً گدھے کی وہ آواز ہے کہ جب گدھا ہنہنانا ختم کرتا ہے تو اس کے سینے کی آواز بھی اس کے گلے کی آواز کے ساتھ شامل ہوتی ہے جو بڑی مکروہ اور خوفناک ہوتی ہے۔ جہنمی جہنم میں ڈالے جائیں گے تو انہیں آگ کی زنجیروں کے ساتھ جکڑ کر جہنم کی تنگ وادیوں سے گزارا جائے گا۔ جس سے گزرتے ہوئے ان کی ہڈیاں چکنا چور ہوجائیں گی جس کی وجہ سے وہ موت کو آواز پر آواز دینگے۔ ان کی حالت دیکھ کر جہنم کے فرشتے جھڑکیاں دیتے ہوئے انہیں کہیں گے کہ آج ایک موت نہیں بہت سی موتوں اور ہلاکتوں کو پکارو تمہیں کبھی موت نہیں آئے گی اب تم نے ہمیشہ اسی حالت میں رہنا اور چلاّنا ہے۔ مسائل ١۔ جہنمیوں کو دیکھ کر جہنم کی آگ میں جوش پیدا ہوجائے گا۔ ٢۔ جہنم کی آگ سے خوفناک قسم کی آوازیں نکلیں گی۔ ٣۔ جہنمیوں کو آگ کی زنجیروں میں جکڑ کر جہنم کی تنگ وادیوں میں گھسیٹا جائے گا۔ ٤۔ جہنمی موت کو آواز دیں گے لیکن انہیں کبھی موت نہیں آئے گی۔ تفسیر بالقرآن جہنمیوں کی آہ زاریاں : ١۔ اے ہمارے رب ہمیں تھوڑی دیر کے لیے مہلت دے ہم تیری دعوت کو قبول اور تیرے رسول کی بات کو تسلیم کریں گے۔ (ابراہیم : ٤٤) ٢۔ جہنمی کہیں گے اے اللہ ہم نے دیکھ لیا اور سن لیا اب ہم کو واپس لوٹا دے۔ (السجدۃ : ١٢) ٣۔ اے ہمارے پروردگار ہمیں یہاں سے نکال ہم پہلے سے نیک عمل کریں گے۔ (الفاطر : ٣٧) ٤۔ اے ہمارے رب ! ہمیں یہاں سے نکال اگر دوبارہ ایسا کریں تو بڑے ظالم ہوں گے۔ (المومنون : ١٠٧)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(بل کذبوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سعیرا) (١١) اذاراتھم من۔۔۔۔ وعدا مسولا ـ یعنی وہ کفر اور ضلالت کی حدوں کو پار کرکے اس مقام پر پہنچ گئے ہیں کہ وہ قیامت کا انکار کر رہے ہیں۔ قرآن کا انداز تعبیر ” بل “ کا لفظ استعمال کر کے ان کی گمراہی یوں مجسم کرتا ہے کہ وہ اس راہ پر بہت دور چلے گئے ہیں یعنی پہلی باتوں کو چھوڑو ‘ انہوں نے تو قیامت کا انکار کردیا ہے۔ اس کے بعد یہ انکشاف کیا جاتا ہے کہ ان فتنہ پر دازون کے لیے کس قدر خوفناک عذاب تیار کیا گیا ہے۔ یہ آگ ہے جو حاضر ہے ‘ دہکائی ہوئی ہے۔ واعتدنا۔۔۔۔ سعیرا (٢٥ : ١١) ” اور جو اس گھڑی کو جھٹلائے ‘ اس کے لیے ہم نے بڑھکتی ہوئی آگ تیار کر رکھی ہے “۔ یہاں قرآن کریم مجسم اور مشخص انداز میں آگ کو پیش کرتا ہے۔ تجسیم اور تشخیص قرآن مجید کا وہ انداز ہے جس میں ایسی اشیاء ایسے معافی اور ایسے مفہومات کو زندہ شخص کے انداز میں پیش کرتا ہے جن کے لیے زندہ ہونا ممکن نہیں ہے۔ چناچہ قرآن مجید مفاہیم و مناظر کو زندہ اشخاص کی شکل میں اس طرح پیش کرتا ہے کہ کلام کے اند اعلیٰ درجے کا اعجاز پیدا ہوجاتا ہے۔ ذرا سوچئے۔ ہم دہکتی ہوئی آگ کے سامنے کھڑے ہیں۔ یہ آگ ہمارے سامنے ایک زندہ غضبناک شخص کا روپ اختیار کرتی ہے کہ یہ دور سے ان مکذبین کو دیکھتی ہے۔ دیکھتے ہی یہ آگ غیض و غضب میں مبتلا ہوجاتی ہے اور یہ لوگ دور سے اس کے اظہار غضب اور سخت کلامی کو پالیتے ہیں گویا وہ دور ہی سے ان پر حملہ آور ہونے کے لیے جوش دکھاتی ہے۔ اور جوش انتقام میں آپے سے باہر ہو رہی ہے حالانکہ یہ لوگ ابھی تک راستے میں ہوتے ہیں ‘ پہنچے نہیں ہوتے۔ غرض یہ ایک نہایت ہی جھنجھوڑنے والا منظر ہے جسے دیکھنے والوں کی ٹانگوں پر کپکپی طاری ہوجاتی ہے۔ دیکھئے اب یہ پہنچ گئی اپنی منزل تک۔ اب یہ لوگ کھلے نہیں چھوڑے جاتے کہ ہاتھ پائوں سے یہ آگ کے ساتھ مقابلہ کریں اور آگ انہیں شکست دے دے۔ یہ اس سے بچنے کی کوشش کریں۔ اور وہ انہیں پکڑلے۔ بلکہ انہیں پکڑ کر اس میں پھینک دیا جاتا ہے ، اس حال میں کہ ان کے ہاتھ پائوں زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں اور ان کو آگ کے کھلے ہال میں بھی نہیں پھینک دیا جاتا بلکہ دوزخ کی آگ کے ایک نہایت ہی تنگ مقام پر ان کو اندر کردیا جاتا ہے۔ جس میں یہ بمشکل سماتے ہیں ‘ اس سے نکلنے کی کوئی راہ نہیں ہے۔ اب یہ لوگ اس آگ سے رہائی پانے کے بارے میں بےحد مایوس ہوگئے ہیں۔ نہایت یہ کرب میں ہیں۔ اب مایوس ہو کر یہ صرف ہلاکت اور موت کی دعا کرتے ہیں۔ واذا القو۔۔۔۔۔ ھنالک ثبورا (٢٥ : ١٣) ” اور جب یہ اس میں تنگ جگہ ٹھونسے جائیں گے تو اپنی موت کو پکارنے لگیں گے “۔ لیکن اب جہنم میں موت تو نہ پوری ہونے والی آرزو ہے۔ جبکہ یہ لوگ اس عذاب سے صرف موت کے ذریعہ ہی خلاصی پا سکتے ہیں کیونکہ یہ دردوکرب ناقابل برداشت ہے لیکن ان کو ان کی اس درخواست اور اس تمنا کا جواب بھی استہزاء اور مذاق کے ساتھ دیا جاتا ہے۔ جس طرح وہ رسولوں کے ساتھ مذاق کرتے تھے۔ یہ ایک تلخ مذاق ہے۔ لاتدعوا۔۔۔۔۔ ثبورا کثیرا (٢٥ : ١٤) ” آج ایک موت کو نہیں بہت سی موتوں کو پکارو “۔ کیونکہ ایک بار کی ہلاکت تو تمہیں کوئی فائدہ نہ دے گی۔ نہ ایک بار کی موت تمہارے لیے کافی ہے۔ تم بار بار مرو گے اور بار بار زندہ ہو گے۔ ان کے اس حال کو پیش کرنے کے بعد اب ان کے بالمقابل متقین مومنین کے انجام کی ایک جھلک بھی دکھائی جاتی ہے ‘ جو اللہ سے ڈرتے تھے جو اللہ کے سامنے حاضر ہونے کی امید رکھتے تھے اور قیامت پر ان کا پختہ ایمان تھا۔ یہ انجام بھی ان کفار کو خطاب کرتے ہوئے نہایت ہی طنزیہ انداز میں پیش کیا جاتا ہے۔ قل اذلک۔۔۔۔۔۔ ومصیرا (٢٥ : ١٥) لھم فیھا۔۔۔۔ مسئولا (٢٥ : ١٦) ” ان سے پوچھو یہ انجام اچھا ہے یا وہ ابدی جنت جس کا وعدہ خدا ترس پرہیز گاروں سے کیا گیا ہے ‘ جو ان کے عمل کی جزا اور ان کے سفر کی آخری منزل ہوگی ‘ جس میں ان کی ہر خواہش پوری ہوگی ‘ جس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے ‘ جس کا عطا کرنا تمہارے رب کے ذمے ایک واجب الادا وعدہ ہے “۔ یہ شرمسار کنندہ عذاب بہتر ہے یا وہ باغات دائمی بہتر ہیں جو اللہ نے متقین کے لیے تیار کر رکھے ہیں۔ اللہ نے متقین کو یہ حق دیا ہے کہ یہ اس کا مطالبہ کریں۔ اور یہ طلب کریں کہ اے اللہ اپنا وعدہ پورا کیجئے اور اللہ وعدہ خلافی کرنے والا تو ہے نہیں۔ پھر یہ بھی ان کو اختیار دیا گیا ہے کہ جو چاہیں وہاں طلب کریں۔ کیا ان دونوں مقامات کے درمیان موازنہ کرنے کی بھی کوئی بات ہے کہ ان سے موازنے کے لیے کہا جارہا ہے۔ دراصل یہ ان کے ساتھ نہایت یہ تلخ مذاق ہے اور یہ ان کے اس مذاق کا جواب ہے جو وہ یہاں اس رسول مقبول سے کرتے تھے۔ اب آخرت کا ایک دوسرا منظر جس کی تکذیب کرنے والے تکذیب کرتے تھے۔ یہ مشرکین کا اجتماع ہے ان کے ساتھ ان کے شرکاء بھی موجود ہیں جن کو یہ لوگ الہٰ اور شفیع سمجھتے تھے۔ یہ سب اللہ کے سامنے کھڑے اپنی اپنی جوابدہی کر رہے ہیں۔ سوال ہو رہے ہیں اور وہ جواب دے رہے ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

قیامت کے دن کافروں پر دوزخ کا غیظ و غضب، دوزخ کی تنگ جگہوں میں ڈالا جانا، اہل جنت کا جنت میں داخل ہونا اور ہمیشہ ہمیشہ جی چاہی زندگی میں رہنا مشرکین جو طرح طرح سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تکذیب کرتے تھے جس میں فرمائشی معجزات کا طلب کرنا بھی تھا اور یہ کہنا بھی تھا کہ آپ کی طرف خزانہ کیوں نہ ڈالا گیا اور آپ کے پاس کوئی باغ کیوں نہیں ہے جس میں سے آپ کھاتے پیتے، اس کے جواب میں فرمایا کہ اللہ پاک جو کثیر البرکات اور کثیر الخیرات ہے وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ اگر وہ چاہے تو آپ کو اس سے بہتر عطا فرما دے گا جن کا انہوں نے تذکرہ کیا ہے وہ چاہے تو آپ کو ایسے باغ عطا فرما دے جن کے نیچ نہریں جاری ہوں اور آپ کو محل عطا فرما دے لیکن وہ کسی کا پابند نہیں ہے کہ لوگوں کو اعتراضات کی وجہ سے کسی کو اموال عطا فرمائے وہ جو چاہتا ہے اپنی حکمت کے مطابق دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے اس کو دیتا ہے اس کے بعد معاندین کی ایک اور تکذیب کا ذکر فرمایا (بَلْ کَذَّبُوْا بالسَّاعَۃِ ) یعنی یہ لوگ نہ صرف آپ کی رسالت کے منکر ہیں بلکہ وقوع قیامت کے بھی منکر ہیں۔ اور یہ جو شبہات پیش کرتے ہیں ان کا سبب یہ ہے کہ ان کو آخرت کی فکر نہیں ہے آخرت کی بےفکری نے ان کو شرارت نفس پر آمادہ کر رکھا ہے جس کی وجہ سے طلب حق سے بعید ہو رہے ہیں آیت کے شروع میں جو لفظ بل لایا گیا ہے اس سے یہ مضمون واضح ہو رہا ہے (وَاَعْتَدْنَا لِمَنْ کَذَّبَ بالسَّاعَۃِ سَعِیْرًا) (اور جو شخص قیامت کو جھٹلائے ہم نے اس کے لیے دھکتی ہوئی آگ کا عذاب تیار کیا ہے) ۔ قیامت کے دن جب یہ لوگ حاضر ہوں گے تو دوزخ سے ابھی دورہی ہوں گے کہ دوزخ چیخے گی اور چلائے گی اس کی ہیبت ناک غصہ بھری آواز سنیں گے دوزخ کو اللہ تعالیٰ کے مبغوض لوگوں پر غصہ آئے گا اور اس کا یہ غیظ و غضب اس کی کڑی اور سخت آواز سے ظاہر ہوگا جیسے کوئی اونٹ کسی کی دشمنی میں بپھر جائے اور اس کا بدلہ لینے میں آواز نکالے اور جیسے ہی موقع ملے تو کچا چبا کر بھر تہ بنا دے۔ اول تو مکذبین اور معاندین کو دوزخ کا غیظ و غضب ہی پریشان کر دے گا جب اس میں ڈالے جائیں گے تو تنگ مکان میں پھینک دیئے جائیں گے۔ دوزخ اگرچہ بڑی جگہ ہے لیکن عذاب کے لیے دوزخیوں کو تنگ جگہوں میں رکھا جائے گا بعض روایات میں خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کی تفسیر منقول ہے کہ جس طرح دیوار میں کیل گاڑھی جاتی ہے اسی طرح دوزخیوں کو دوزخ میں ٹھونس دیا جائے گا (ذکرہ ابن کثیر ص ٣١١ ج ٣) دوزخ میں ڈالے جانے والوں کی صفت (مقرنین) بیان فرمائی جس کا مطلب یہ ہے کہ ان کا ہاتھ پاؤں بیڑیوں میں جکڑے ہوئے ہوں گے۔ سورة سبا میں فرمایا ہے (وَ جَعَلْنَا الْاَغْلٰلَ فِیْٓ اَعْنَاقِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا ھَلْ یُجْزَوْنَ اِلَّا مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْن) (اور ہم کافروں کی گردنوں میں طوق ڈال دیں گے ان کو انہی اعمال کی سزا دی جائے گی جو وہ کرتے تھے) جب کفار دوزخ میں ڈال دیئے جائیں گے اور وہاں کا عذاب چکھیں گے تو ہلاکت کو پکاریں گے یعنی موت کو پکاریں گے اور یہ آرزو کریں گے کہ کاش موت آجاتی اور اس عذاب سے چھٹکارا ملتا ان سے کہا جائے گا۔ (لاَ تَدْعُوا الْیَوْمَ ثُبُوْرًا وَّاحِدًا وَّادْعُوْا ثُبُوْرًا کَثِیْرًا) (آج ایک موت کو نہ پکارو بلکہ بہت سی موتوں کو پکارو) یعنی یہ آرزو بےکار ہے کہ موت آجائے تو عذاب سے چھٹکارا ہوجائے ایک موت نہیں بلکہ بہت کثیر تعداد میں موتوں کو پکارو بہر حال موت آنے والی نہیں ہے اسی عذاب میں ہمیشہ ہمیشہ رہو گے سورة فاطر میں فرمایا (لَا یُقْضٰی عَلَیْھِمْ فَیَمُوْتُوْا وَ لَا یُخَفَّفُ عَنْھُمْ مِّنْ عَذَابِھَا کَذٰلِکَ نَجْزِیْ کُلَّ کَفُوْرٍ ) (نہ ان کو قضا آئے گی کہ مر ہی جائیں اور نہ ان سے دوزخ کا عذاب ہلکا کیا جائے گا ہم ہر کافر کو ایسی ہی سزا دیں گے) ۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(11) ان کا منشاء حق کی تحقیق نہیں ہے بلکہ یہ قیامت کے منکر ہیں اور وقوع قیامت کے جھوٹ سمجھتے ہیں اور جو لوگ قیامت کی تکذیب کرتے اور قیامت کو جھٹلاتے ہیں ہم نے ان کیلئے بھڑکتی ہوئی آگ یعنی دوزخ تیار کر رکھی ہے یعنی قیامت کو جھٹلانا اور قیامت کا انکار کرنا یا جہنمی ہونے کا موجب ہے ان کا منشاء صرف یہ ہے کہ وقوع قیامت کی تکذیب کی جائے آگے دوزخ اور اس کے عذاب کی مزید تفصیل ہے۔