Surat ul Furqan

Surah: 25

Verse: 14

سورة الفرقان

لَا تَدۡعُوا الۡیَوۡمَ ثُبُوۡرًا وَّاحِدًا وَّ ادۡعُوۡا ثُبُوۡرًا کَثِیۡرًا ﴿۱۴﴾

[They will be told], "Do not cry this Day for one destruction but cry for much destruction."

۔ ( ان سے کہا جائے گا ) آج ایک ہی موت کو نہ پکارو بلکہ بہت سی اموات کو پکارو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Exclaim not today for one destruction, but exclaim for many destructions.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

141یعنی جہنمی جب جہنم کے عذاب سے تنگ آ کر آرزو کریں گے کہ کاش انھیں موت آجائے، وہ فنا کے گھاٹ اتر جائیں۔ تو ان سے کہا جائے گا کہ اب ایک موت نہیں کئی موتوں کو پکارو۔ مطلب یہ ہے کہ اب تمہاری قسمت میں ہمیشہ کے لئے انواع و اقسام کے عذاب ہیں یعنی موتیں ہی موتیں ہیں، تم کہاں تک موت کا مطالبہ کرو گے

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٨] یعنی آج ایک موت کے لئے کیا چیخ و پکار کرتے ہو۔ سینکڑوں موتیں مانگو، تب بھی تمہارا یہ پکارنا لاحاصل ہے۔ وہ آرزو تو کریں گے کہ ایک بار مریں تو چھٹکارا حاصل ہوجائے۔ دن میں ہزار بار مرنے سے جو بری حالت ہو رہی ہے ہے اسے نجات پاجائیں گے مگر یہ پکار بالکل بےسود ہوگی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

لَا تَدْعُوا الْيَوْمَ ثُبُوْرًا وَّاحِدًا ۔۔ : یعنی انھیں یہ جواب دیا جائے گا۔ دیکھیے سورة زخرف (٧٧) اور مومن (٤٩، ٥٠) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

لَا تَدْعُوا الْيَوْمَ ثُبُوْرًا وَّاحِدًا وَّادْعُوْا ثُبُوْرًا كَثِيْرًا۝ ١٤ ثبر الثُّبُور : الهلاک والفساد، المُثَابِر علی الإتيان، أي : المواظب، من قولهم : ثَابَرْتُ. قال تعالی: دَعَوْا هُنالِكَ ثُبُوراً لا تَدْعُوا الْيَوْمَ ثُبُوراً واحِداً وَادْعُوا ثُبُوراً كَثِيراً [ الفرقان/ 13- 14] ، وقوله تعالی: وَإِنِّي لَأَظُنُّكَ يا فِرْعَوْنُ مَثْبُوراً [ الإسراء/ 102] ، قال ابن عباس رضي اللہ عنه : يعني ناقص العقل «1» . ونقصان العقل أعظم هلك . وثبیر جبل بمكة . ( ث ب ر ) الثبور ( مصدر ن ) کے معنی ہلاک ہونے یا ( زخم کے ) خراب ہونے کے ہیں اور المنابر کسی کام کو مسلسل کرنے والا ) سے ( اسم فاعل کا صیغہ ) ہے ۔ جس کے معنی کسی کام کو مسلسل کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ : ۔ دَعَوْا هُنالِكَ ثُبُوراً لا تَدْعُوا الْيَوْمَ ثُبُوراً واحِداً وَادْعُوا ثُبُوراً كَثِيراً [ الفرقان/ 13- 14] تو وہاں ہلاکت کو پکاریں گے آج ایک ہی ہلاکت کو نہ پکارو سی ہلاکتوں کو پکارو ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَإِنِّي لَأَظُنُّكَ يا فِرْعَوْنُ مَثْبُوراً [ الإسراء/ 102] اے فرعون میں خیال کرتا ہوں کہ تم ہلاک ہوجاؤ گے ۔ میں ابن عباس نے مثبورا کے معنی ناقص العقل کئے ہیں کیونکہ نقصان عقل سب سے بڑی ہلاکت ہے ۔ ثبیر ۔ مکہ کی ایک پہاڑی کا نام

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٤) اللہ تعالیٰ ان سے فرمائے گا کہ اپنی ان لامتناہی مصیبتوں کی وجہ سے ایک موت کو نہ پکارو بلکہ بہت ہی موتوں کو پکارو۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٤ (لَا تَدْعُوا الْیَوْمَ ثُبُوْرًا وَّاحِدًا وَّادْعُوْا ثُبُوْرًا کَثِیْرًا) اب تم موت کو پکارتے رہو ‘ اس کے لیے مسلسل دعائیں مانگتے رہو ‘ مگر تمہاری ان دعاؤں سے تمہیں موت آئے گی نہیں۔ اب تو تمہیں مسلسل زندہ رہنا اور عذاب کی تکلیف کو جھیلنا ہوگا۔ اس عذاب کی شدت میں نہ تو کوئی تخفیف کی جائے گی اور نہ ہی موت آکر تمہیں اس سے چھٹکارا دلائے گی۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

3: یہ ترجمہ مشہور مفسر ابو السعود (رض) کی تفسیر پر مبنی ہے جسے علامہ آلوسی نے بھی نقل فرمایا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ عذاب کی جس شدت سے گھبرا کر تم موت کو پکار رہے ہو، وہ تو آنے والی نہیں ہے، بلکہ تمہیں بار بار نت نئے عذاب سے سابقہ پڑے گا، اور ہر مرتبہ تمہیں اس کی شدت سے گھبرا کر موت کو پکارنا پڑے گا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٤:۔ قیامت کے دن اہل دوزخ پر طرح طرح کی سختیاں گریں گی ‘ ان سختیوں سے یہ بھی ایک سختی ہے ‘ جس کا ذکر اس آیت میں ہے ‘ صحیح سند سے بعث ونشور بیہقی میں انس بن مالک کی روایت ٣ ؎ ہے جو حدیث ہے ‘ اس میں اس آیت کی تفسیر جو آئی ہے ‘ حاصل اس کا یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ‘ دوزخ میں داخل ہونے سے پہلے شیطان کو کھڑا کیا جائے گا اور اس کے تمام شیاطین اور سارے اس کے پیرو اس کے پیچھے کھڑے کیے جائیں گے اور ان سب سے پہلے شیطان کو ایک آگ کا لباس پہنایا جاوے گا اور پھر سب اس کے ساتھیوں کو بھی آگ کا لباس پہنایا جاوے گا ‘ اس وقت شیطان اور اس کے ساتھی اپنی ہلاکت کی حالت پر افسوس کریں گے اور کہیں گے کہ ہائے افسوس ہم ہلاک ہوگئے ‘ ان کے جواب میں خدا تعالیٰ فرمائے گا کہ ایک ہلاکت کو کیا جھیلتے ہو ‘ ابھی تو تمہیں طرح طرح کی ہلاکت بھگتنی اور طرح طرح کے عذاب دوزخ کی مصیبت جھیلنی پڑے گی ‘ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے انس بن مالک کی حدیث کئی جگہ گزر چکی ہے جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ‘ دوزخ کے عذاب کا جو کچھ حال مجھ کو معلوم ہے اگر وہ حال پورے طور پر لوگوں کو معلوم ہوجاوے تو لوگ دنیا کے سب کام چھوڑ کر ہر وقت روتے رہیں ‘ اس حدیث سے یہ مطلب اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے کہ آگ کا لباس پہنائے جانے کے بعد دوزخ کے طرح طرح کے عذاب کی مصیبت جو شیطان اور اس کے ساتھیوں کو بھگتنی پڑے گی وہ بیان سے باہر ہے کیونکہ دنیا کا انتظام قائم رہنے کی غرض سے اس مصیبت کا حال اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے امت کے لوگوں کو نہیں جتلایا۔ (٣ ؎ تفسیر الدر المنثور ص ٦٤ ج ٥ و تفسیر ابن کثیر ص ٣١١ بحوالہ مسند امام احمد )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(25:14) لا تدعوا۔ فعل نہی جمع مذکر حاضر۔ تم نہ پکارو۔ الیوم۔ آج۔ آج کے دن۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

1 ۔ یعنی موت کو ایک بار کیا ہزاروں مرتبہ پکارو، مگر وہ آئے گی نہیں۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(14) موت کے پارنے پر کہاجائے گا کہ تم آج ایک موت کو نہ پکارو بلکہ بہت سی موتوں کو پکارتے اور بلاتے رہو یعنی جب ان کے ہاتھ پائوں زنجیروں سے باندھ کر ان کو کسی تنگ جگہ میں ڈال دیاجائے گا تو وہاں موت کو پکاریں گے جیسا کہ مصیبت کے وقت ہر انسان موت کو پکارتا ہے اور چونکہ وہاں کی مصیبت لا متناہی ہے اس لئے کہاجائیگا کہ آج ایک بار موت کو نہ پکارو بلکہ بار بار موت ہی کو پکارتے رہو۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی ایک بارمریں توچھوٹ جاویں دن میں ہزار بار مرنے سے بدتر حال ہوتا ہے 12 اب آگے اہل حق کے ساتھ جو سلوک ہوگا اس کا بیان ہے اور مقابلے میں ان سے دریافت کیا گیا ہے کہ حق کو قبول کرنے کی بات بہتر ہے یا حق کو جھٹلانے کا انجام بہتر ہے۔