Surat ul Furqan

Surah: 25

Verse: 41

سورة الفرقان

وَ اِذَا رَاَوۡکَ اِنۡ یَّتَّخِذُوۡنَکَ اِلَّا ہُزُوًا ؕ اَہٰذَا الَّذِیۡ بَعَثَ اللّٰہُ رَسُوۡلًا ﴿۴۱﴾

And when they see you, [O Muhammad], they take you not except in ridicule, [saying], "Is this the one whom Allah has sent as a messenger?

اور تمہیں جب کبھی دیکھتے ہیں تو تم سے مسخر پن کرنے لگتے ہیں ۔ کہ کیا یہی وہ شخص ہیں جنہیں اللہ تعالٰی نے رسول بنا کر بھیجا ہے

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

How the Disbelievers mocked the Messenger Allah tells: وَإِذَا رَأَوْكَ إِن يَتَّخِذُونَكَ إِلاَّ هُزُوًا أَهَذَا الَّذِي بَعَثَ اللَّهُ رَسُولاًإ And when they see you, they treat you only in mockery (saying): "Is this the one whom Allah has sent as a Messenger!" Allah tells us how the disbelievers mocked the Messenger when they saw him. This is like the Ayah, وَإِذَا رَاكَ الَّذِينَ كَفَرُواْ إِن يَتَّخِذُونَكَ إِلاَّ هُزُواً And when the disbelievers see you, they take you not except for mockery, (21:36) which means that they tried to find faults and shortcomings in him. Here Allah says: وَإِذَا رَأَوْكَ إِن يَتَّخِذُونَكَ إِلاَّ هُزُوًا أَهَذَا الَّذِي بَعَثَ اللَّهُ رَسُولاًإ And when they see you, they treat you only in mockery (saying): "Is this the one whom Allah has sent as a Messenger!" i.e., they said this by way of belittling and trying to undermine him, so Allah put them in their place, and said: وَلَقَدِ اسْتُهْزِىءَ بِرُسُلٍ مِّن قَبْلِكَ And indeed Messengers before you were mocked at. (6:10)

انبیاء کا مذاق کافر لوگ اللہ کے برتر و بہتر پیغمبر حضرت احمد مجتبیٰ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر ہنسی مذاق اڑاتے تھے ، عیب جوئی کرتے تھے اور آپ میں نقصان بتاتے تھے ۔ یہی حالت ہر زمانے کے کفار کی اپنے نبیوں کے ساتھ رہی ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( وَلَقَدِ اسْتُهْزِئَ بِرُسُلٍ مِّنْ قَبْلِكَ فَحَاقَ بِالَّذِيْنَ سَخِرُوْا مِنْهُمْ مَّا كَانُوْا بِهٖ يَسْتَهْزِءُوْنَ 10 ؀ۧ ) 6- الانعام:10 ) تجھ سے پہلے کے رسولوں کا بھی مذاق اڑایا گیا ۔ کہنے لگے وہ تو کہئے کہ ہم جمے رہے ورنہ اس رسول نے ہمیں بہکانے میں کوئی کمی نہ رکھی تھی ۔ اچھا انہیں عنقریب معلوم ہوجائے گا کہ ہدایت پر یہ کہاں تک تھے؟ عذاب کو دیکھتے ہی آنکھیں کھل جائیں گی ۔ اصل یہ ہے کہ ان لوگوں نے خواہش پرستی شروع کر رکھی ہے نفس وشیطان جس چیز کو اچھا ظاہر کرتا ہے یہ بھی اسے اچھی سمجھنے لگتے ہیں ۔ بھلا ان کا ذمہ دار تو کیسے ٹھہر سکتا ہے؟ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ جاہلیت میں عرب کی یہ حالت تھی کہ جہاں کسی سفید گول مول پتھر کو دیکھا اسی کے سامنے جھکنے اور سجدے کرنے لگے ۔ اس سے اچھا کوئی نظر پڑگیا تو اس کے سامنے جھک گئے ۔ اور اول کو چھوڑ دیا ۔ پھر فرماتا ہے یہ تو چوپایوں سے بھی بدتر ہیں نہ انکے کان ہیں نہ دل ہیں چوپائے تو خیر قدرتا آزاد ہیں لیکن یہ جو عبادت کے لئے پیدا کیے گئے تھے یہ ان سے بھی زیادہ بہک گئے بلکہ اللہ کے سوا دوسروں کی عبادت کرنے لگے ۔ اور قیام حجت کے بعد رسولوں کے پہنچ چکنے کے بعد بھی اللہ کی طرف نہیں جھکتے ۔ اس کی توحید اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو نہیں مانتے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

411دوسرے مقام پر اس طرح فرمایا (اَھٰذَا الَّذِيْ يَذْكُرُ اٰلِهَتَكُمْ ) 21 ۔ الانبیاء :36) کیا یہ وہ شخص ہے جو تمہارے معبودوں کا ذکر کرتا ہے ؟ یعنی ان کی بابت کہتا ہے کہ وہ کچھ اختیار نہیں رکھتے۔ اس حقیقت کا اظہار ہی مشرکین کے نزدیک ان کے معبودوں کی توہین تھی۔ جیسے آج بھی قبر پرستوں کو کہا جائے کہ قبروں میں مدفون بزرگ کائنات میں تصرف کرنے کا اختیار نہیں رکھتے تو کہتے ہیں کہ یہ اولیاء اللہ کی شان میں گستاخی کر رہے ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥٣] یہ کفار مکہ ہدایت حاصل کرسکتے ہیں جبکہ ان کا محبوب مشغلہ ہی یہ ہے کہ وہ آپ کو دیکھتے ہیں تو ایک دوسرے کو کہتے ہیں۔ اجی یہ ہی وہ صاحب جو اپنے آپ کو اللہ کا رسول ہونے کا دعویٰ رکھتے ہیں۔ کیا یہی شخص اللہ تعالیٰ کو اپنی ساری مخلوق میں سے رسالت کے لئے پسند آیا تھا ؟ اس کی حیثیت کو دیکھو اور اس کے بلند بانگ دعویٰ دیکھو۔ کیا ہم ہم اتنے ہی عقل کے اندھے ہیں کہ اس کے اس دعویٰ کو درست تسلیم کرلیں ؟

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاِذَا رَاَوْكَ اِنْ يَّتَّخِذُوْنَكَ اِلَّا هُزُوًا : مشرکین رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا جس طرح شدت کے ساتھ انکار کرتے اور آپ کی نبوت اور قرآن پر متعدد اعتراضات کرتے رہتے تھے، اس کے ذکر کے بعد ان کی ایک خاص ایذا کا ذکر فرمایا کہ وہ جب تجھے دیکھتے ہیں تو اپنے مذاق کا نشانہ بنا لیتے ہیں۔ اَھٰذَا الَّذِيْ بَعَثَ اللّٰهُ رَسُوْلًا : ” ھٰذَا “ کا اشارہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تحقیر کے لیے ہے، یعنی کیا یہی وہ شخص ہے جسے اللہ تعالیٰ نے رسول بنا کر بھیجا ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ رسول ہو کیسے گیا، جب کہ یہ ہمارے جیسا بشر ہے، جیسا کہ ایک جگہ ان کا قول ہے : ( اَبَعَثَ اللّٰهُ بَشَرًا رَّسُوْلًا) [ بني إسرائیل : ٩٤ ] ” کیا اللہ نے ایک بشر کو رسول بنا کر بھیج دیا ہے۔ “ پھر دیکھو اگر رسالت کسی بشر کو ملنا ہی تھی تو مکہ اور طائف کے کسی سردار کو ملتی۔ یہ نہ بادشاہ نہ سرمایہ دار، اسے کیسے مل گئی ! ان کا قول نقل کرتے ہوئے فرمایا : (وَقَالُوْا لَوْلَا نُزِّلَ ھٰذَا الْقُرْاٰنُ عَلٰي رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْيَـتَيْنِ عَظِيْمٍ ) [ الزخرف : ٣١ ] ” اور انھوں نے کہا یہ قرآن ان دو بستیوں میں سے کسی بڑے آدمی پر کیوں نازل نہ کیا گیا ؟ “ شیخ عبد الرحمن السعدی نے فرمایا : ” ان کی یہ بات ایسا شخص ہی کرسکتا ہے جو سب سے بڑھ کر جاہل اور گمراہ ہو اور سخت عناد اور دشمنی رکھتا ہو۔ اس کا مقصد اپنے باطل کی ترویج ہو۔ “ دوسری جگہ فرمایا : (وَاِذَا رَاٰكَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اِنْ يَّـتَّخِذُوْنَكَ اِلَّا هُـزُوًا ۭ اَھٰذَا الَّذِيْ يَذْكُرُ اٰلِهَتَكُمْ ۚ وَهُمْ بِذِكْرِ الرَّحْمٰنِ هُمْ كٰفِرُوْنَ ) [ الأنبیاء : ٣٦ ] ” اور جب تجھے وہ لوگ دیکھتے ہیں جنھوں نے کفر کیا تو تجھے مذاق ہی بناتے ہیں، کیا یہی ہے جو تمہارے معبودوں کا ذکر کرتا ہے، اور وہ خود رحمٰن کے ذکر ہی سے منکر ہیں۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِذَا رَاَوْكَ اِنْ يَّتَّخِذُوْنَكَ اِلَّا ہُزُوًا۝ ٠ۭ اَھٰذَا الَّذِيْ بَعَثَ اللہُ رَسُوْلًا۝ ٤١ أخذ ( افتعال، مفاعله) والاتّخاذ افتعال منه، ويعدّى إلى مفعولین ويجري مجری الجعل نحو قوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصاری أَوْلِياءَ [ المائدة/ 51] ، أَمِ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِياءَ [ الشوری/ 9] ، فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا [ المؤمنون/ 110] ، أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ : اتَّخِذُونِي وَأُمِّي إِلهَيْنِ مِنْ دُونِ اللَّهِ [ المائدة/ 116] ، وقوله تعالی: وَلَوْ يُؤاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ [ النحل/ 61] فتخصیص لفظ المؤاخذة تنبيه علی معنی المجازاة والمقابلة لما أخذوه من النعم فلم يقابلوه بالشکر ( اخ ذ) الاخذ الاتخاذ ( افتعال ) ہے اور یہ دو مفعولوں کی طرف متعدی ہوکر جعل کے جاری مجری ہوتا ہے جیسے فرمایا :۔ { لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ } ( سورة المائدة 51) یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ ۔ { وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ } ( سورة الزمر 3) جن لوگوں نے اس کے سوا اور دوست بنائے ۔ { فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا } ( سورة المؤمنون 110) تو تم نے اس تمسخر بنالیا ۔ { أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَهَيْنِ } ( سورة المائدة 116) کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری والدہ کو معبود بنا لو ۔ اور آیت کریمہ : { وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ } ( سورة النحل 61) میں صیغہ مفاعلہ لاکر معنی مجازات اور مقابلہ پر تنبیہ کی ہے جو انعامات خدا کی طرف سے انہیں ملے ان کے مقابلہ میں انہوں نے شکر گذاری سے کام نہیں لیا ۔ هزؤ والاسْتِهْزَاءُ : ارتیاد الْهُزُؤِ وإن کان قد يعبّر به عن تعاطي الهزؤ، کالاستجابة في كونها ارتیادا للإجابة، وإن کان قد يجري مجری الإجابة . قال تعالی: قُلْ أَبِاللَّهِ وَآياتِهِ وَرَسُولِهِ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِؤُنَ [ التوبة/ 65] ( ھ ز ء ) الھزء الا ستھزاء اصل میں طلب ھزع کو کہتے ہیں اگر چہ کبھی اس کے معنی مزاق اڑانا بھی آجاتے ہیں جیسے استجا بۃ کے اصل منعی طلب جواب کے ہیں اور یہ اجابۃ جواب دینا کے معنی میں استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَبِاللَّهِ وَآياتِهِ وَرَسُولِهِ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِؤُنَ [ التوبة/ 65] کہو کیا تم خدا اور اس کی آیتوں اور اس کے رسول سے ہنسی کرتے تھے ۔ بعث أصل البَعْث : إثارة الشیء وتوجيهه، يقال : بَعَثْتُهُ فَانْبَعَثَ ، ويختلف البعث بحسب اختلاف ما علّق به، فَبَعَثْتُ البعیر : أثرته وسيّرته، وقوله عزّ وجل : وَالْمَوْتى يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ [ الأنعام/ 36] ، أي : يخرجهم ويسيرهم إلى القیامة، يَوْمَ يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ جَمِيعاً [ المجادلة/ 6] ، زَعَمَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنْ لَنْ يُبْعَثُوا قُلْ بَلى وَرَبِّي لَتُبْعَثُنَّ [ التغابن/ 7] ، ما خَلْقُكُمْ وَلا بَعْثُكُمْ إِلَّا كَنَفْسٍ واحِدَةٍ [ لقمان/ 28] ، فالبعث ضربان : - بشريّ ، کبعث البعیر، وبعث الإنسان في حاجة . - وإلهي، وذلک ضربان : - أحدهما : إيجاد الأعيان والأجناس والأنواع لا عن ليس «3» ، وذلک يختص به الباري تعالی، ولم يقدر عليه أحد . والثاني : إحياء الموتی، وقد خص بذلک بعض أولیائه، كعيسى صلّى اللہ عليه وسلم وأمثاله، ومنه قوله عزّ وجل : فَهذا يَوْمُ الْبَعْثِ [ الروم/ 56] ، يعني : يوم الحشر، وقوله عزّ وجلّ : فَبَعَثَ اللَّهُ غُراباً يَبْحَثُ فِي الْأَرْضِ [ المائدة/ 31] ، أي : قيّضه، وَلَقَدْ بَعَثْنا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَسُولًا [ النحل/ 36] ، نحو : أَرْسَلْنا رُسُلَنا [ المؤمنون/ 44] ، وقوله تعالی: ثُمَّ بَعَثْناهُمْ لِنَعْلَمَ أَيُّ الْحِزْبَيْنِ أَحْصى لِما لَبِثُوا أَمَداً [ الكهف/ 12] ، وذلک إثارة بلا توجيه إلى مکان، وَيَوْمَ نَبْعَثُ مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيداً [ النحل/ 84] ، قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ [ الأنعام/ 65] ، وقالعزّ وجلّ : فَأَماتَهُ اللَّهُ مِائَةَ عامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ [ البقرة/ 259] ، وعلی هذا قوله عزّ وجلّ : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ وَيَعْلَمُ ما جَرَحْتُمْ بِالنَّهارِ ثُمَّ يَبْعَثُكُمْ فِيهِ [ الأنعام/ 60] ، والنوم من جنس الموت فجعل التوفي فيهما، والبعث منهما سواء، وقوله عزّ وجلّ : وَلكِنْ كَرِهَ اللَّهُ انْبِعاثَهُمْ [ التوبة/ 46] ، أي : توجههم ومضيّهم . ( ب ع ث ) البعث ( ف ) اصل میں بعث کے معنی کسی چیز کو ابھارنے اور کسی طرف بھیجنا کے ہیں اور انبعث در اصل مطاوع ہے بعث کا مگر متعلقات کے لحاظ سے اس کے معنی مختلف ہوتے رہتے ہیں مثلا بعثت البعیر کے معنی اونٹ کو اٹھانے اور آزاد چھوڑ دینا کے ہیں اور مردوں کے متعلق استعمال ہو تو قبروں سے زندہ کرکے محشر کی طرف چلانا مراد ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَالْمَوْتى يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ [ الأنعام/ 36] اور مردوں کو تو خدا ( قیامت ہی کو ) اٹھایا جائے گا ۔ يَوْمَ يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ جَمِيعاً [ المجادلة/ 6] جس دن خدا ان سب کو جلا اٹھائے گا ۔ زَعَمَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنْ لَنْ يُبْعَثُوا قُلْ بَلى وَرَبِّي لَتُبْعَثُنَّ [ التغابن/ 7] جو لوگ کافر ہوئے ان کا اعتقاد ہے کہ وہ ( دوبارہ ) ہرگز نہیں اٹھائے جائیں گے ۔ کہدو کہ ہاں ہاں میرے پروردیگا رکی قسم تم ضرور اٹھائے جاؤگے ۔ ما خَلْقُكُمْ وَلا بَعْثُكُمْ إِلَّا كَنَفْسٍ واحِدَةٍ [ لقمان/ 28] تمہارا پیدا کرنا اور جلا اٹھا نا ایک شخص د کے پیدا کرنے اور جلانے اٹھانے ) کی طرح ہے پس بعث دو قسم پر ہے بعث بشری یعنی جس کا فاعل انسان ہوتا ہے جیسے بعث البعیر ( یعنی اونٹ کو اٹھاکر چلانا ) کسی کو کسی کام کے لئے بھیجنا دوم بعث الہی یعنی جب اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو پھر اس کی بھی دوقسمیں ہیں اول یہ کہ اعیان ، اجناس اور فواع کو عدم سے وجود میں لانا ۔ یہ قسم اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے اور اس پر کبھی کسی دوسرے کو قدرت نہیں بخشی ۔ دوم مردوں کو زندہ کرنا ۔ اس صفت کے ساتھ کبھی کبھی اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کو بھی سرفراز فرمادیتا ہے جیسا کہ حضرت عیسٰی (علیہ السلام) اور ان کے ہم مثل دوسری انبیاء کے متعلق مذکور ہے اور آیت کریمہ : ۔ فَهذا يَوْمُ الْبَعْثِ [ الروم/ 56] اور یہ قیامت ہی کا دن ہے ۔ بھی اسی قبیل سے ہے یعنی یہ حشر کا دن ہے اور آیت کریمہ : ۔ فَبَعَثَ اللَّهُ غُراباً يَبْحَثُ فِي الْأَرْضِ [ المائدة/ 31] اب خدا نے ایک کوا بھیجا جو زمین کو کرید نے لگا ۔ میں بعث بمعنی قیض ہے ۔ یعنی مقرر کردیا اور رسولوں کے متعلق کہا جائے ۔ تو اس کے معنی مبعوث کرنے اور بھیجنے کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَلَقَدْ بَعَثْنا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَسُولًا [ النحل/ 36] اور ہم نے ہر جماعت میں پیغمبر بھیجا ۔ جیسا کہ دوسری آیت میں أَرْسَلْنا رُسُلَنا [ المؤمنون/ 44] فرمایا ہے اور آیت : ۔ ثُمَّ بَعَثْناهُمْ لِنَعْلَمَ أَيُّ الْحِزْبَيْنِ أَحْصى لِما لَبِثُوا أَمَداً [ الكهف/ 12] پھر ان کا جگا اٹھایا تاکہ معلوم کریں کہ جتنی مدت وہ ( غار میں ) رہے دونوں جماعتوں میں سے اس کو مقدار کس کو خوب یاد ہے ۔ میں بعثنا کے معنی صرف ۃ نیند سے ) اٹھانے کے ہیں اور اس میں بھیجنے کا مفہوم شامل نہیں ہے ۔ وَيَوْمَ نَبْعَثُ مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيداً [ النحل/ 84] اور اس دن کو یا د کرو جس دن ہم ہر امت میں سے خود ان پر گواہ کھڑا کریں گے ۔ قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ [ الأنعام/ 65] کہہ و کہ ) اس پر بھی ) قدرت رکھتا ہے کہ تم پر اوپر کی طرف سے ۔۔۔۔۔۔۔۔ عذاب بھیجے ۔ فَأَماتَهُ اللَّهُ مِائَةَ عامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ [ البقرة/ 259] تو خدا نے اس کی روح قبض کرلی ( اور ) سو برس تک ( اس کو مردہ رکھا ) پھر اس کو جلا اٹھایا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ وَيَعْلَمُ ما جَرَحْتُمْ بِالنَّهارِ ثُمَّ يَبْعَثُكُمْ فِيهِ [ الأنعام/ 60] اور وہی تو ہے جو رات کو ( سونے کی حالت میں ) تمہاری روح قبض کرلیتا ہے اور جو کبھی تم دن میں کرتے ہو اس سے خبر رکھتا ہے پھر تمہیں دن کو اٹھادیتا ہے ۔ میں نیند کے متعلق تونی اور دن کو اٹھنے کے متعلق بعث کا لفظ استعمال کیا ہے کیونکہ نیند بھی ایک طرح کی موت سے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَلكِنْ كَرِهَ اللَّهُ انْبِعاثَهُمْ [ التوبة/ 46] لیکن خدا نے ان کا اٹھنا ( اور نکلنا ) پسند نہ کیا ۔ میں انبعاث کے معنی جانے کے ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤١) اور جب کفار مکہ آپ کو دیکھتے ہیں تو آپ سے تمسخر کرنے لگتے ہیں اور بطور مذاق کے کہتے ہیں کیا یہی بزرگ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے ہماری طرف رسول بنا کر بھیجا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤١ (وَاِذَا رَاَوْکَ اِنْ یَّتَّخِذُوْنَکَ اِلَّا ہُزُوًا ط) ” قریش مکہ کے ہاں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت کی مخالفت کا یہ بھی ایک طریقہ تھا کہ وہ بات سننے کے لیے کبھی سنجیدہ نہ ہوتے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت کو ہمیشہ مذاق میں اڑا دیتے۔ نہ وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بات کو کبھی سنجیدگی سے سنتے ‘ نہ کبھی اس پر غور کرتے اور نہ ہی اس کا کوئی سنجیدہ جواب دیتے۔ (اَہٰذَا الَّذِیْ بَعَثَ اللّٰہُ رَسُوْلًا ۔ ) ” یہ اور اس طرح کے دوسرے جملوں کے ذریعے وہ لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا تمسخر اڑاتے تھے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(25:41) ان۔ نافیہ ہے۔ ان یتخذونک۔ یتخذون مضارع جمع مذکر غائب ۔ اتخاذ (افتعال) مصدر ک ضمیر مفعول جمع مذکر حاضر۔ وہ تجھے نہیں بناتے ہیں۔ ھزوا ھزء یھزء (فتح) وھزء یھزا (سمع) کا مصدر ہے ۔ کسی سے مسخری کرنا۔ مخول کرنا۔ ٹھٹھا کرنا۔ یہاں اسم مفعول آیا ہے بمعنی وہ جس کا مذاق اڑایا جائے ۔ مادہ ھ ز ء ۔ اور جگہ قرآن مجید میں آیا ہے واذا علم من ایتنا شیئان اتخذھا ھزوا (45:9) اور جب ہماری کچھ آیتیں اسے معلوم ہوتی ہیں تو وہ ان کی ہنسی اڑاتا ہے۔ ان یتخذونک الا ھزوا۔ نہیں بناتے تجھے مگر مرکز تضحیک ۔ یعنی آپ کا مذاق اڑاتے ہیں۔ اھذ الذی : ای قائلین اھذا الذی یہ کہتے ہوئے یا یہ کہہ کر۔ جملہ اھذا الذی بعث اللہ رسولا۔ فاعل یتخذونک سے موضع حال میں ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ یعنی ایسا آدمی رسول نہ ہونا چاہئے، اگر رسالت کوئی چیز ہے تو کوئی رئیس ہونا چاہئے تھا، پس یہ رسول نہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : قیامت کا انکار کرنے والوں کا رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ رویہّ ۔ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عظیم اور پرخلوص جدوجہد کے باوجود مکہ کے ابتدائی دور میں چند لوگوں کے سوا کوئی شخص آپ پر ایمان نہ لایا۔ ایمان لانے والوں میں ایک دو حضرات کو چھوڑ کر باقی حضرات انتہائی غریب تھے اور کچھ ان میں مکہ والوں کے زرخرید غلام تھے۔ ان حالات کے باوجود نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دو ٹوک اور کھلے الفاظ میں اعلان کرتے کہ لوگو ! لا الہ الا اللہ پڑھو اور اس کے تقاضے پورے کرو میں تمہیں معاشی خوشحالی، سیاسی اقتدار کی کامیابی اور دنیا و آخرت کی فلاح کی ضمانت دیتا ہوں۔ اس پر اہل مکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا استہزاء اڑاتے کہ یہ کس قدر ناعاقبت اندیش شخص ہے کہ خود ناکام ہونے کے باوجود لوگوں کو کامیابیوں کی ضمانت دیتا ہے۔ کفار یہ کہہ کر بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مذاق کرتے کہ اللہ تعالیٰ نے واقعی ہی کسی انقلاب کا ارادہ کیا ہے تو وہ انسان کی بجائے کسی مافوق الفطرۃ ہستی کو رسول منتخب کرتا۔ یا یہ حقیقتاً اللہ کا رسول ہوتا تو اسے دنیا کے وسائل سے سرفراز کیا جاتا۔ اس کی باتیں دیوانے کی بھڑ سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتیں۔ مسائل ١۔ قیامت کے منکر انبیاء کرام (علیہ السلام) کو استہزاء کا نشانہ بنایا کرتے تھے۔ تفسیر بالقرآن گمراہ اقوام کا انبیاء کرام کو مذاق کرنا : ١۔ یقیناً رسولوں کے ساتھ اس سے پہلے بھی مذاق کیا گیا ہے۔ (الرعد : ٢٢) ٢۔ کیا تم اللہ، اس کی آیات اور اس کے رسولوں سے مذاق کرتے ہو۔ (التوبہ : ٦٥) ٣۔ نہیں آیا ان کے پاس کوئی رسول مگر انہوں نے اس کا مذاق اڑایا۔ (الحجر : ١١) ٤۔ افسوس ہے لوگوں پر جب بھی ان کے پاس کوئی رسول آیا تو انہوں نے اس کا مذاق اڑایا۔ (یٰس : ٣٠) ٥۔ نہیں آیا ان کے پاس کوئی نبی مگر وہ ان سے مذاق کرتے تھے۔ (الزخرف : ٧)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اس کے بعد قریش مکہ کی سر کشی بیان فرمائی اور وہ یہ کہ یہ لوگ صرف آپ کی تکذیب ہی نہیں کرتے آپ کا مذاق بھی بناتے ہیں اور مسخرہ پن کرتے ہیں اور یوں کہتے ہیں (اَھٰذَا الَّذِیْ بَعَثَ اللّٰہُ رَسُوْلًا) (کیا یہی شخص ہے جسے اللہ نے رسول بنا کر بھیجا ہے) یہ ایسا ہی ہے جیسے قوم ثمود نے حضرت صالح (علیہ السلام) کے بارے میں کہا تھا (ءَاُلْقِیَ الذِّکْرُ عَلَیْہِ مِنْ بَیْنِنَا) (کیا ہمارے درمیان سے صرف اسی شخص پر ذکر نازل کیا گیا) مکذبین اور معاندین کا یہ عجیب سوال رہا کہ فلاں شخص ہی کو نبی کیوں بنایا گیا ؟ دوسرے شخص کو عہدہ کیوں نہیں دیا گیا یہ جہالت اور حماقت کا سوال ہے جس کسی بھی شخص کو رسالت کی ذمہ داری سونپی جائے اس کے بارے میں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ اس کو رسول کیوں بنایا گیا اس طرح سے تو نبوت کا سلسلہ قائم ہی نہ ہوتا سورة انعام میں ان سب کا جواب دے دیا کہ (اَللّٰہُ اَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَہٗ ) (اللہ خوب جاننے والا ہے اس موقع کو جہاں اپنا پیغام بھیجے) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں اللہ تعالیٰ کا نبی ہوں اور معجزات پیش فرما دیئے جن میں بہت بڑا معجزہ قرآن مجید ہے جس کے مقابل بنا کر لانے سے تمام فصحاء بلغاء عاجز رہ گئے ان معجزات کو دیکھیں اور یہ بھی دیکھیں کہ ان کی دعوت کیا ہے وہ شرک چھڑا رہے ہیں توحید کی دعوت دے رہے ہیں موت کے بعد جی اٹھنے اور اعمال کا بدلہ دیئے جانے سے باخبر فرما رہے ہیں ان کی دعوت میں غور فکر کرنا لازم ہے یہ تو کوئی بات نہ ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں کو رسول بنا کر کیوں بھیجا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

29:۔ ” و اذا راوک الخ “ یہ شکوی ہے مشرکین جبحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھتے تو بطور استہزاء کہتے کیا یہی ہے جسے اللہ نے تمہاری طرف رسول بنا کر بھیجا ہے ؟ اگر ہم مستقل مزاجی سے اپنے معبودوں کی عبادت و پکار پر جمے نہ رہتے تو اس نے تو ہمیں گمراہ کردیا تھا اور ہمیں اپنے معبودوں سے ہٹا دیا تھا شکر ہے کہ ہم پکے رہے یعنون انہ کاد یفتنھم عن عبادۃ الاصنام لو لا ان صبروا و تجلدو واستمروا علیھا (ابن کثیر ج 3 ص 319) ۔ وسوف یعلمون الخ “ تخویف اخروی ہے۔ مشرکین دنیا میں اپنے کو ہدایت پر سمجھتے ہیں اور توحید خالص کو گمراہی کا نام دیتے ہیں لیکن جب عذاب میں مبتلا ہوں گے تو انہیں اچھی طرح معلوم ہوجائیگا گمراہ کون ہے اور ہدایت پر کون ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(41) اور اے پیغمبر یہ دین حق کے منکر جب آپ کو کہیں دیکھتے ہیں تو ان کا سوائے اس کے اور کوئی کام اور مشغلہ نہیں ہوتا کہ آپ سے تمسخر کرنے لگتے ہیں اور آپ کا مذاق اڑانا شروع کردیتے ہیں اور کہتے ہیں کیا یہی وہ صاحب ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے رسول بنا کر بھیجا ہے یعنی استہزاء شروع کردیتے ہیں اور باتیں چھانٹنے لگتے ہیں منجملہ مذاق کے یوں کہتے ہیں کیا یہی وہ صاحب ہیں جن کو اللہ نے رسول بنا کر بھیجا ہے اور اللہ نے ان کو اپنا پیغام دیکر بھیجا ہے یعنی یہ رسالت کا اہل نہیں کوئی رئیس اور ذی عزت شخص رسول ہوتا۔