Surat ul Furqan

Surah: 25

Verse: 43

سورة الفرقان

اَرَءَیۡتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰـہَہٗ ہَوٰىہُ ؕ اَفَاَنۡتَ تَکُوۡنُ عَلَیۡہِ وَکِیۡلًا ﴿ۙ۴۳﴾

Have you seen the one who takes as his god his own desire? Then would you be responsible for him?

کیا آپ نے اسے بھی دیکھا جو اپنی خواہش نفس کو اپنا معبود بنائے ہوئے ہے کیا آپ اس کے ذمہ دار ہوسکتے ہیں؟

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

أَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَهَهُ هَوَاهُ ... Have you seen him who has taken as his god his own vain desire! meaning, whatever he admires and sees as good in his own desires becomes his religion and his way. As Allah says: أَفَمَن زُيِّنَ لَهُ سُوءَ عَمَلِهِ فَرَءَاهُ حَسَناً فَإِنَّ اللَّهَ يُضِلُّ مَن يَشَأءُ Is he then, to whom the evil of his deeds is made fair seeming. So that he consider it as good. Verily, Allah sends astray whom he wills. (35:8) ... أَفَأَنتَ تَكُونُ عَلَيْهِ وَكِيلً Would you then be a guardian over him! Ibn Abbas said: "During the Jahiliyyah, a man would worship a white rock for a while, then if he saw another that looked better, he would worship that and leave the first." Then Allah said:

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

431یعنی جو چیز اس کے نفس کو اچھی لگی اسی کو اپنا دین و مذہب بنا لیا کیا ایسے شخص کو تو راہ یاب کرسکتا ہے یا اللہ کے عذاب سے چھڑا سکے گا ؟ اس کو دوسرے مقام پر اس طرح بیان فرمایا کیا وہ شخص جس کے لیے اس کا برا عمل مزین کردیا گیا پس وہ اسے اچھا سمجھتا ہے پس اللہ تعالیٰ ہی جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے راہ یاب پس تو ان پر حسرت و افسوس نہ کر۔ فاطر۔ حضرت ابن عباس (رض) اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں زمانہ جاہلیت میں آدمی ایک عرصے تک سفید پتھر کی عبادت کرتا رہتا جب اسے اس سے اچھا پتھر نظر آجاتا تو وہ پہلے پتھر کو چھوڑ کر دوسرے پتھر کی پوجا شروع کردیتا ابن کثیر۔ مطلب یہ ہے کہ ایسے اشخاص جو عقل وفہم سے اس طرح عاری اور محض خواہش نفس کو اپنا معبود بنائے ہوئے ہیں اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا تو ان کو ہدایت کے راستے پر لگا سکتا ہے ؟ یعنی نہیں لگا سکتا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥٥] یعنی جو شخص اللہ کے بجائے اپنی خواہش نفس کا بندہ یا غلام بن جائے اور اللہ کے احکام کے بجائے اپنی خواہش نفس کی بات ماننے کو ترجیح دے تو ایسے شخص کے راہ راست پر آنے کے امکانات ختم ہوجاتے ہیں، نہ ہی آپ ایسے ہوا پرستوں کو راہ راست پر لانے کی ذمہ داری اٹھا سکتے ہیں۔ قرآن کے اندر بیان ہے جو بات فوراً ذہن میں آتی ہے وہ یہ ہے خواہش نفس کی اتباع بھی شرک کی اقسام میں سے ایک قسم ہے۔ اور خواہش نفس کی اتباع ایک ایسا عام مرض ہے جس میں کافر و مشرک تو درکنار، مومن و مسلم اور عوام و خواص سب ہی تقریباً متبلا ہوتے ہیں۔ مثلاً عام لوگوں کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ شریعت کے احکام میں سے آسان اور ان کے من پسند ہوں ان پر تو عمل کرلیتے ہیں اور جو مشکل ہوں تو طبیعت کو گراں معلوم ہوتے ہوں انھیں چھوڑ دیتے ہیں۔ ایسے لوگ حقیقتاً شریعت کے متبع نہیں ہوتے بلکہ اپنی خواہشات کے متبع ہوتے ہیں اور خواص یا علماء کی اتباع ہوائے نفس یہ ہے کہ وہ اللہ کی آیات کی تاویل کرلیتے جو ان کی۔۔ طبع ہو اور انھیں پسند ہو، بعض غلط استنباط کرکے اور غلط فتوے دے کر دنیا کا مال بٹورتے ہیں۔ پھر جو اور زیادہ ذہین طبع ہوتے ہیں وہ عوام میں کوئی بدعی عقیدہ رائج کرکے عوام کی توجہ کا مرکز بننا چاہتے ہیں اور نئے فرقہ کی بنیاد رکھ دیتے ہیں جس کی تہہ میں حب مال و باہ میں سے کوئی نہ کوئی جذبہ کار فرما ہوتا ہے اور کافر جو انبیاء کی مخالفت پر اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ قرآن کا بھی مفہوم یہ ہوتا ہے کہ انھیں جو مقام معاشرہ میں حاصل ہے وہ ان سے چھن نہ جائے۔ اور مشرکوں کی اتباع خواہش کا تو پوچھنا ہی کیا۔ آج ایک پتھر اچھا معلوم بنا تو اسے پوجنے لگے کل دوسرا اس سے خوبصورت پتھر مل گیا تو پہلے کو چھوڑ کر اس کے آگے سر جھکا دیا۔ یا کسی شخص نے کسی ولی کے مزاد سے متلعق کوئی کرامت یا حاجت روائی کا قصہ بیان کردیا تو اس کے مزاد پر نذریں نیازیں دینا شروع کردیں۔ پھر کسی اس سے بڑے بزرگ کے مزار کے حالات سے متاثر ہوئے تو اپنی ساری نیاز مندیاں ادھر منتقل کردیں۔ غرضیکہ جس طرح انسانوں کی بیشمار اقسام ہیں۔ اسی طرح وہ ان کی خواہش نفس اور اتباع کی بھی بیشمار اقسام ہیں اور رسول بھلا ان ہر طرح کے لوگوں کو راہ راست پر لانے کی ذمہ داری کیسے اٹھا سکتے ہیں ؟

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَرَءَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰـهَهٗ هَوٰىهُ : یہ فطری بات ہے کہ کفار کا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مذاق کا نشانہ بنانا اور اپنے باطل معبودوں کی عبادت پر ڈٹے رہنا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے سخت تکلیف دہ تھا، کیونکہ آپ کی شدید خواہش تھی کہ وہ ایمان لے آئیں، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کے حال پر تعجب دلاتے ہوئے فرمایا : ” کیا تو نے وہ شخص دیکھا جس نے اپنی خواہش ہی اپنا معبود بنا لیا ؟ “ ابوحیان نے فرمایا : ” وَالْمَعْنٰی أَنَّہُ لَمْ یَتَّخِذْ إِلٰھًا إِلَّا ھَوَاہُ “ ” معنی یہ ہے کہ اس نے اپنی خواہش کے سوا کسی کو معبود بنایا ہی نہیں۔ “ زمخشری نے فرمایا : ” جو شخص اپنے دین میں خواہش ہی کا حکم مانے، کوئی بھی کام کرنے یا نہ کرنے میں اسی کے پیچھے چلے تو یہ شخص اپنی خواہش کی عبادت کرنے والا اور اسے اپنا معبود بنانے والا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ شخص جو اپنی خواہش کے سوا کسی اور کو اپنا معبود ہی نہیں سمجھتا آپ اسے ہدایت کی طرف کیسے لاسکتے ہیں ؟ کیا آپ اس کے ذمہ دار ہیں، یا اسے اسلام لانے پر مجبور کرسکتے ہیں اور کہہ سکتے ہیں کہ تمہیں ہر حال میں اسلام قبول کرنا ہوگا، چاہو یا نہ چاہو، جب کہ دین میں (قبول اسلام کے معاملہ میں) زبردستی ہے ہی نہیں، فرمایا : (لَآ اِكْرَاهَ فِي الدِّيْنِ ) [ البقرۃ : ٢٥٦ ] ” دین میں کوئی زبردستی نہیں۔ “ اور فرمایا : (وَمَآ اَنْتَ عَلَيْهِمْ بِجَبَّارٍ ) [ ق : ٤٥ ] ” اور تو ان پر کوئی زبردستی کرنے والا نہیں۔ “ اور فرمایا : (لَسْتَ عَلَيْهِمْ بِمُصَۜيْطِرٍ ) [ الغاشیۃ : ٢٢ ] ” تو ہرگز ان پر کوئی مسلط کیا ہوا نہیں ہے۔ “ (الکشاف) اور دیکھیے سورة جاثیہ (٢٣) اور فاطر (٨) ۔ 3 کوئی شخص اگر نفس کی خواہش پر کوئی گناہ کرلے اور اپنے آپ کو اللہ کا گناہ گار سمجھے تو یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اس نے اپنی خواہش کو اپنا الٰہ بنا لیا۔ ورنہ ہر گناہ شرک ہوگا اور ہر گناہ گار مشرک، جبکہ ایسا نہیں ہے، جیسا کہ فرمایا : (اِنَّ اللّٰهَ لَا يَغْفِرُ اَنْ يُّشْرَكَ بِهٖ ) [ النساء : ٤٨ ] ” بیشک اللہ اس بات کو نہیں بخشے گا کہ اس کا شریک بنایا جائے۔ “ طبری نے اپنی معتبر سند کے ساتھ علی بن ابی طلحہ سے ابن عباس (رض) کا قول نقل فرمایا : ” مراد اس سے کافر ہے جو اللہ تعالیٰ کی ہدایت اور کسی دلیل کے بجائے اپنی خواہش ہی کو اپنا معبود بنا لے۔ “ اَفَاَنْتَ تَكُوْنُ عَلَيْهِ وَكِيْلًا : یعنی آپ اس کی ہدایت کے ذمہ دار نہیں ہیں، آپ کا کام صرف دعوت ہے، جیسا کہ فرمایا : ( فَاِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلٰغُ وَعَلَيْنَا الْحِسَابُ ) [ الرعد : ٤٠ ] ” تو تیرے ذمے صرف پہنچا دینا ہے اور ہمارے ذمے حساب لینا ہے۔ “ اور دیکھیے سورة شوریٰ (٤٨) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Following forbidden things - a type of idolatry أَرَ‌أَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَـٰهَهُ هَوَاهُ (Tell me about the one who has taken his desire as his god - 25:43). The one who practises forbidden things which are against the tenets of Islam to satisfy his personal desires is described in this verse as the worshiper of his own lust. Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) said that the selfish desires are like an idol which is worshipped (by the infidels) and then he recited this verse to prove his point. (Qurtubi)

خلاف شرع خواہشات کی پیروی ایک قسم کی بت پرستی ہے : اَرَءَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰـهَهٗ هَوٰىهُ ، اس آیت میں اس شخص کو جو اسلام و شریعت کے خلاف اپنی خواہشات کا پیرو ہو یہ کہا گیا ہے کہ اس نے اپنی خواہشات کو معبود بنا لیا ہے۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ خلاف شرع خواہشات نفسانی بھی ایک بت ہے جس کی پرستش کی جاتی ہے پھر استدلال میں یہ آیت تلاوت فرمائی۔ (قرطبی)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَرَءَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰـہَہٗ ہَوٰىہُ۝ ٠ۭ اَفَاَنْتَ تَكُوْنُ عَلَيْہِ وَكِيْلًا۝ ٤٣ۙ هوى الْهَوَى: ميل النفس إلى الشهوة . ويقال ذلک للنّفس المائلة إلى الشّهوة، وقیل : سمّي بذلک لأنّه يَهْوِي بصاحبه في الدّنيا إلى كلّ داهية، وفي الآخرة إلى الهَاوِيَةِ ، وَالْهُوِيُّ : سقوط من علو إلى سفل، وقوله عزّ وجلّ : فَأُمُّهُ هاوِيَةٌ [ القارعة/ 9] قيل : هو مثل قولهم : هَوَتْ أمّه أي : ثکلت . وقیل : معناه مقرّه النار، والْهَاوِيَةُ : هي النار، وقیل : وَأَفْئِدَتُهُمْ هَواءٌ [إبراهيم/ 43] أي : خالية کقوله : وَأَصْبَحَ فُؤادُ أُمِّ مُوسی فارِغاً [ القصص/ 10] وقد عظّم اللہ تعالیٰ ذمّ اتّباع الهوى، فقال تعالی: أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلهَهُ هَواهُ [ الجاثية/ 23] ، وَلا تَتَّبِعِ الْهَوى[ ص/ 26] ، وَاتَّبَعَ هَواهُ [ الأعراف/ 176] وقوله : وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْواءَهُمْ [ البقرة/ 120] فإنما قاله بلفظ الجمع تنبيها علی أنّ لكلّ واحد هوى غير هوى الآخر، ثم هوى كلّ واحد لا يتناهى، فإذا اتّباع أهوائهم نهاية الضّلال والحیرة، وقال عزّ وجلّ : وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية/ 18] ، كَالَّذِي اسْتَهْوَتْهُ الشَّياطِينُ [ الأنعام/ 71] أي : حملته علی اتّباع الهوى. ( ھ و ی ) الھوی ( س ) اس کے معنی خواہشات نفسانی کی طرف مائل ہونے کے ہیں اور جو نفساتی خواہشات میں مبتلا ہو اسے بھی ھوی کہدیتے ہیں کیونکہ خواہشات نفسانی انسان کو اس کے شرف ومنزلت سے گرا کر مصائب میں مبتلا کردیتی ہیں اور آخر ت میں اسے ھاویۃ دوزخ میں لے جاکر ڈال دیں گی ۔ الھوی ( ض ) کے معنی اوپر سے نیچے گر نے کے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ فَأُمُّهُ هاوِيَةٌ [ القارعة/ 9] اسکا مرجع ہاویہ ہے : ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہ ھوت انہ کیطرف ایک محاورہ ہے اور بعض کے نزدیک دوزخ کے ایک طبقے کا نام ہے اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ اسکا ٹھکانا جہنم ہے اور بعض نے آیت وَأَفْئِدَتُهُمْ هَواءٌ [إبراهيم/ 43] اور ان کے دل مارے خوف کے ( ہوا ہو رہے ہوں گے ۔ میں ھواء کے معنی خالی یعنی بےقرار کئے ہیں جیسے دوسری جگہ فرمایا : ۔ وَأَصْبَحَ فُؤادُ أُمِّ مُوسی فارِغاً [ القصص/ 10] موسیٰ کی ماں کا دل بےقرار ہوگیا ۔ اور اللہ تعالیٰ نے قرآن میں خواہشات انسانی کی اتباع کی سخت مذمت کی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلهَهُ هَواهُ [ الجاثية/ 23] بھلا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنی خواہش کو معبود بنا رکھا ہے ولا تَتَّبِعِ الْهَوى[ ص/ 26] اور خواہش کی پیروی نہ کرنا ۔ وَاتَّبَعَ هَواهُ [ الأعراف/ 176] اور وہ اپنی خواہش کی پیروی کرتا ہے ۔ اور آیت : ۔ وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْواءَهُمْ [ البقرة/ 120] اگر تم ان کی خواہشوں پر چلو گے ۔ میں اھواء جمع لاکر بات پت تنبیہ کی ہے کہ ان میں سے ہر ایک کی خواہش دوسرے سے مختلف اور جدا ہے اور ایہ ایک کی خواہش غیر متنا ہی ہونے میں اھواء کا حکم رکھتی ہے لہذا ایسی خواہشات کی پیروی کرنا سراسر ضلالت اور اپنے آپ کو درطہ حیرت میں ڈالنے کے مترادف ہے ۔ نیز فرمایا : ۔ وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية/ 18] اور نادانوں کی خواہش کے پیچھے نہ چلنا ۔ وَلا تَتَّبِعُوا أَهْواءَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوا [ المائدة/ 77] اور اس قوم کی خواہشوں پر مت چلو ( جو تم سے پہلے ) گمراہ ہوچکے ہیں ۔ قُلْ لا أَتَّبِعُ أَهْواءَكُمْ قَدْ ضَلَلْتُ [ الأنعام/ 56] ( ان لوگوں سے ) کہدو کہ میں تمہاری خواہشوں پر نہیں چلتا ۔ ایسا کروں میں گمراہ ہوچکا ہوں گا ۔ وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَهُمْ وَقُلْ آمَنْتُ بِما أَنْزَلَ اللَّهُ [ الشوری/ 15] اور ان ( یہود ونصاریٰ کی کو اہشوں پر مت چلو اور ان سے صاف کہدو کہ میرا تو اس پر ایمان ہے ۔ جو خدا نے اتارا ۔ وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص/ 50] اور اس سے زیادہ وہ کون گمراہ ہوگا جو خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے ۔ الھوی ( بفتح الہا ) کے معنی پستی کی طرف اترنے کے ہیں ۔ اور اس کے بالمقابل ھوی ( بھم الہا ) کے معنی بلندی پر چڑھنے کے ہیں ۔ شاعر نے کہا ہے ( الکامل ) ( 457 ) یھوی مکار مھا ھوی الاجمال اس کی تنگ گھائیوں میں صفرہ کیطرح تیز چاہتا ہے ۔ الھواء آسمان و زمین فضا کو کہتے ہیں اور بعض نے آیت : ۔ وَأَفْئِدَتُهُمْ هَواءٌ [إبراهيم/ 43] اور ان کے دل مارے خوف کے ہوا ہور رہے ہوں گے ۔ کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے یعنی بےقرار ہوتے ہیں ھواء کی طرح ہوں گے ۔ تھا ویٰ ( تفاعل ) کے معنی ایک دوسرے کے پیچھے مھروۃ یعنی گڑھے میں گرنے کے ہیں ۔ اھواء اسے فضا میں لے جا کر پیچھے دے مارا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَالْمُؤْتَفِكَةَ أَهْوى [ النجم/ 53] اور اسی نے الٹی بستیوں کو دے پئکا ۔ استھوٰی کے معنی عقل کو لے اڑنے اور پھسلا دینے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ كَالَّذِي اسْتَهْوَتْهُ الشَّياطِينُ [ الأنعام/ 71] جیسے کسی کی شیاطین ( جنات ) نے ۔۔۔۔۔۔۔ بھلا دیا ہو ۔ كان كَانَ «3» : عبارة عمّا مضی من الزمان، وفي كثير من وصف اللہ تعالیٰ تنبئ عن معنی الأزليّة، قال : وَكانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيماً [ الأحزاب/ 40] ، وَكانَ اللَّهُ عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيراً [ الأحزاب/ 27] وما استعمل منه في جنس الشیء متعلّقا بوصف له هو موجود فيه فتنبيه علی أن ذلک الوصف لازم له، قلیل الانفکاک منه . نحو قوله في الإنسان : وَكانَ الْإِنْسانُ كَفُوراً [ الإسراء/ 67] وَكانَ الْإِنْسانُ قَتُوراً [ الإسراء/ 100] ، وَكانَ الْإِنْسانُ أَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلًا [ الكهف/ 54] فذلک تنبيه علی أن ذلک الوصف لازم له قلیل الانفکاک منه، وقوله في وصف الشّيطان : وَكانَ الشَّيْطانُ لِلْإِنْسانِ خَذُولًا [ الفرقان/ 29] ، وَكانَ الشَّيْطانُ لِرَبِّهِ كَفُوراً [ الإسراء/ 27] . وإذا استعمل في الزمان الماضي فقد يجوز أن يكون المستعمل فيه بقي علی حالته كما تقدّم ذكره آنفا، ويجوز أن يكون قد تغيّر نحو : كَانَ فلان کذا ثم صار کذا . ولا فرق بين أن يكون الزمان المستعمل فيه کان قد تقدّم تقدما کثيرا، نحو أن تقول : کان في أوّل ما أوجد اللہ تعالی، وبین أن يكون في زمان قد تقدّم بآن واحد عن الوقت الذي استعملت فيه کان، نحو أن تقول : کان آدم کذا، وبین أن يقال : کان زيد هاهنا، ويكون بينک وبین ذلک الزمان أدنی وقت، ولهذا صحّ أن يقال : كَيْفَ نُكَلِّمُ مَنْ كانَ فِي الْمَهْدِ صَبِيًّا [ مریم/ 29] فأشار بکان أنّ عيسى وحالته التي شاهده عليها قبیل . ولیس قول من قال : هذا إشارة إلى الحال بشیء، لأنّ ذلك إشارة إلى ما تقدّم، لکن إلى زمان يقرب من زمان قولهم هذا . وقوله : كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ [ آل عمران/ 110] فقد قيل : معنی كُنْتُمْ معنی الحال «1» ، ولیس ذلک بشیء بل إنما ذلک إشارة إلى أنّكم کنتم کذلک في تقدیر اللہ تعالیٰ وحكمه، وقوله : وَإِنْ كانَ ذُو عُسْرَةٍ [ البقرة/ 280] فقد قيل : معناه : حصل ووقع، والْكَوْنُ يستعمله بعض الناس في استحالة جو هر إلى ما هو دونه، وكثير من المتکلّمين يستعملونه في معنی الإبداع . وكَيْنُونَةٌ عند بعض النّحويين فعلولة، وأصله : كَوْنُونَةٌ ، وكرهوا الضّمة والواو فقلبوا، وعند سيبويه «2» كَيْوِنُونَةٌ علی وزن فيعلولة، ثم أدغم فصار كَيِّنُونَةً ، ثم حذف فصار كَيْنُونَةً ، کقولهم في ميّت : ميت . وأصل ميّت : ميوت، ولم يقولوا كيّنونة علی الأصل، كما قالوا : ميّت، لثقل لفظها . و «الْمَكَانُ» قيل أصله من : كَانَ يَكُونُ ، فلمّا كثر في کلامهم توهّمت المیم أصليّة فقیل : تمكّن كما قيل في المسکين : تمسکن، واسْتَكانَ فلان : تضرّع وكأنه سکن وترک الدّعة لضراعته . قال تعالی: فَمَا اسْتَكانُوا لِرَبِّهِمْ [ المؤمنون/ 76] . ( ک و ن ) کان ۔ فعل ماضی کے معنی کو ظاہر کرتا ہے پیشتر صفات باری تعا لےٰ کے متعلق استعمال ہو تو ازلیت ( یعنی ہمیشہ سے ہے ) کے معنی دیتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَكانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيماً [ الأحزاب/ 40] اور خدا ہر چیز واقف ہے ۔ وَكانَ اللَّهُ عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيراً [ الأحزاب/ 27] اور خدا ہر چیز پر قادر ہے ۔ اور جب یہ کسی جنس کے ایسے وصف کے متعلق استعمال ہو جو اس میں موجود ہو تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ یہ وصف اس اسم کے ساتھ لازم وملزوم رہتا ہے اور بہت ہی کم اس علیحدہ ہوتا ہے ۔ چناچہ آیات : ۔ وَكانَ الْإِنْسانُ كَفُوراً [ الإسراء/ 67] اور انسان ہے ہی ناشکرا ۔ وَكانَ الْإِنْسانُ قَتُوراً [ الإسراء/ 100] اور انسان دل کا بہت تنگ ہے ۔ وَكانَ الْإِنْسانُ أَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلًا [ الكهف/ 54] اور انسان سب چیزوں سے بڑھ کر جھگڑا لو ہے ، میں تنبیہ کی ہے کہ یہ امور انسان کے اوصاف لازمہ سے ہیں اور شاذ ونا ور ہی اس سے منفک ہوتے ہیں اسی طرح شیطان کے متعلق فرمایا : ۔ كانَ الشَّيْطانُ لِلْإِنْسانِ خَذُولًا[ الفرقان/ 29] اور شیطان انسان کی وقت پر دغا دینے والا ہے ۔ وَكانَ الشَّيْطانُ لِرَبِّهِ كَفُوراً [ الإسراء/ 27] اور شیطان اپنے پروردگار کی نعمتوں کا کفران کرنے والا یعنی نا قدرا ہے ۔ جب یہ فعل زمانہ ماضی کے متعلق استعمال ہو تو اس میں یہ بھی احتمال ہوتا ہے کہ وہ چیز تا حال اپنی پہلی حالت پر قائم ہو اور یہ بھی کہ اس کی وہ حالت متغیر ہوگئی ہو مثلا کان فلان کذا ثم صار کذا ۔ یعنی فلاں پہلے ایسا تھا لیکن اب اس کی حالت تبدیل ہوگئی ہے نیز یہ ماضی بعید کے لئے بھی آتا ہے جیسے کہ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے فلاں چیز پیدا کی تھی اور ماضی قریب کے لئے بھی حتی کہ اگر وہ حالت زمانہ تکلم سے ایک لمحہ بھی پہلے ہوتو اس کے متعلق کان کا لفظ استعمال ہوسکتا ہے لہذا جس طرح کان ادم کذا کہہ سکتے ہیں اسی طرح کان زید ھھنا بھی کہہ سکتے ہیں ۔ اس بنا پر آیت : ۔ كَيْفَ نُكَلِّمُ مَنْ كانَ فِي الْمَهْدِ صَبِيًّا[ مریم/ 29]( وہ بولے کہ ) ہم اس سے کہ گود کا بچہ ہے کیونکہ بات کریں ۔ کے یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ جو ابھی گو د کا بچہ تھا یعنی کم عمر ہے اور یہ بھی کہ جو ابھی گود کا بچہ ہے یعنی ماں کی گود میں ہے لیکن یہاں زمانہ حال مراد لینا بےمعنی ہے اس میں زمانہ قریب ہے جیسے آیت : ۔ كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ [ آل عمران/ 110] جتنی امتیں ہوئیں تم ان سب سے بہتر ہو ۔ میں بھی بعض نے کہا ہے کہ کنتم زمانہ حالپر دلالت کرتا ہے لیکن یہ معنی صحیح نہیں ہیں بلکہ معنی یہ ہیں کہ تم اللہ کے علم اور حکم کے مطابق بہتر تھے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَإِنْ كانَ ذُو عُسْرَةٍ [ البقرة/ 280] اور اگر ( قرض لینے والا ) تنگ دست ہو ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہاں کان کے معنی کسی چیز کا واقع ہوجانا کے ہیں اور یہ فعل تام ہے ۔ یعنی اگر وہ تنگدست ہوجائے ۔ بعض لوگ کہتے ہیں کون کا لفظ کسی جوہر کے اپنے سے پست تر جو میں تبدیل ہونے کے لئے آتا ہے اور اکثر متکلمین اسے معنی ابداع میں استعمال کرتے ہیں بعض علامائے نحو کا خیال ہے کہ کینونۃ کا لفظ اصل میں کو نو نۃ بر وزن فعلولۃ ہے ۔ ثقل کی وجہ سے واؤ سے تبدیل ہوگئی ہے مگر سیبو کے نزدیک یہ اصل میں کیونو نۃ بر وزن فیعلولۃ ہے ۔ واؤ کو یا میں ادغام کرنے سے کینونۃ ہوگیا پھر ایک یاء کو تخفیف کے لئے گرادیا تو کینونۃ بن گیا جیسا کہ میت سے میت بنا لیتے ہیں جو اصل میں میوت ہے ۔ فرق صرف یہ ہے ۔ کہ کینو نۃ ( بتشدید یاء کے ساتھ اکثر استعمال ہوتا ہے المکان ۔ بعض کے نزدیک یہ دراصل کان یکون ( ک و ن ) سے ہے مگر کثرت استعمال کے سبب میم کو اصلی تصور کر کے اس سے تملن وغیرہ مشتقات استعمال ہونے لگے ہیں جیسا کہ مسکین سے تمسکن بنا لیتے ہیں حالانکہ یہ ( ص ک ن ) سے ہے ۔ استکان فلان فلاں نے عاجز ی کا اظہار کیا ۔ گو یا وہ ٹہھر گیا اور ذلت کی وجہ سے سکون وطما نینت کو چھوڑدیا قرآن میں ہے : ۔ فَمَا اسْتَكانُوا لِرَبِّهِمْ [ المؤمنون/ 76] تو بھی انہوں نے خدا کے آگے عاجزی نہ کی ۔ وكيل التَّوْكِيلُ : أن تعتمد علی غيرک وتجعله نائبا عنك، والوَكِيلُ فعیلٌ بمعنی المفعول . قال تعالی: وَكَفى بِاللَّهِ وَكِيلًا[ النساء/ 81] أي : اکتف به أن يتولّى أمرك، ( و ک ل) التوکیل کے معنی کسی پر اعتماد کر کے اسے اپنا نائب مقرر کرنے کے ہیں اور وکیل فعیل بمعنی مفعول کے وزن پر ہے ۔ قرآن میں : ۔ وَكَفى بِاللَّهِ وَكِيلًا[ النساء/ 81] اور خدا ہی کافی کار ساز ہے ۔ یعنی اپنے تمام کام اسی کے سپرد کر دیجئے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤٣) اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ نے اس شخص یعنی نضر بن حارث اور اس کے ساتھیوں کی حالت بھی دیکھی جنہوں نے عبادت کے لیے اپنا اللہ اپنی خواہشات نفسانی کو بنا رکھا ہے تو کیا آپ اس کی اس فساد سے نکالنے میں نگرانی کرسکتے ہیں اس آیت کو آیت جہاد نے منسوخ کردیا یا یہ کہ آپ اس کی عذاب سے نگرانی کرسکتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٣ (اَرَءَ یْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰہَہٗ ہَوٰٹہُ ط) ” یہاں شرک کی ایک بہت اہم قسم بیان ہوئی ہے ‘ جو ہمیں اپنے گریبانوں میں جھانکنے کی دعوت دیتی ہے۔ اس پر بڑے بڑے موحدینّ کو غور کرنا چاہیے کہ دراصل شرک صرف ” یا علی مدد ! “ کا نعرہ لگانے یا قبر پرستی تک ہی محدود نہیں ہے ‘ بلکہ اللہ کے کسی واضح حکم کے مقابلے میں خواہش نفس پر عمل پیرا ہونا بھی شرک کے زمرے میں آتا ہے۔ انسان کو اس کا نفس ہر وقت دنیا سمیٹنے اور زیادہ سے زیادہ مال و دولت جمع کرنے کے حسین خواب دکھاتا ہے۔ وہ حرام کو اپنانے کے لیے ُ پر کشش تو جیہات پیش کرتا ہے۔ مثلاً یہ کہ آج کے بینک کا سود حرام نہیں ہے ‘ پرانے دور میں تو سود کو اس لیے حرام کیا گیا تھا کہ اس کے ذریعے سے غرباء کا استحاصل ہوتا تھا ‘ آج کے بینکنگ نظام پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا ‘ آج تو بینک کی معاونت کے بغیر کوئی کاروبار چل ہی نہیں سکتا ‘ اس لیے بینک کے تعاون سے فلاں کاروبار کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ چناچہ اگر کسی شخص نے اللہ کے احکام کو پس پشت ڈال کر اپنے نفس کی بات مان لی تو گویا وہ اپنے نفس کا بندہ بن گیا۔ اب اس کا نفس ہی اس کا ” مطاع “ ہے اور جو کوئی بھی کسی کا اصل مطاع ہوگا وہی اس کا معبود ہوگا۔ عبادت در اصل مکمل غلامی کا نام ہے۔ جس طرح ایک غلام اپنے آقا کا ہر حکم ماننے کا پابند ہے اسی طرح ایک بندے (عبد) پر بھی لازم ہے کہ وہ اپنے معبود کی مکمل فرمانبرداری کرے اور اس کے کسی بھی حکم سے سرتابی نہ کرے۔ عبادت کا یہ مفہوم سورة المؤمنون میں درج فرعون کے اس جملے سے اور بھی واضح ہوجاتا ہے : (وَقَوْمُہُمَا لَنَا عٰبِدُوْنَ ) کہ ان دونوں (حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت ہارون ( (علیہ السلام) ) کی قوم ہماری غلام اور اطاعت شعار ہے۔ اب اگر کوئی شخص زبان سے توحید پرستی کا دعویٰ کرے ‘ لَا اِلٰہ الاَّ اللّٰہ کے وظیفے کرے اور چلے ّ کاٹے ‘ لیکن عملاً اطاعت اور فرمانبرداری اپنے نفس کی کرے تو حقیقت میں وہ توحید پرست نہیں بلکہ نفس پرست ہے اور اس کا نفس ہی اصل میں اس کا معبود ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

56 "...the person who makes his lust his god" is the one who becomes the slave of his lusts and desires. As he serves his lust like the one who warships ' his deity, he becomes as much guilty of .shirk as the one who worships an idol. According to a Tradition, related by Hadrat Abu Hurairah, the Holy Prophet said, "Of all the false gods being worshipped and served, instead of Allah, the worst in the sight of Allah is one's own lust." (Tabarani). For further explanation, see E.N. 50 of Al-Kahf, The man who keeps his desires under control, and uses his common sense to make decisions, can be expected to come to the right path by making an appeal to his reason even though he might have been involved in shirk or disbelief; for if. he decides to follow the right way he will remain firm and steadfast on it. On the other hand, the man who is the slave of his own lust, is like a ship without an anchor, who wanders about on any path where his lust leads him. He is least bothered about the distinction between the right and the wrong, the true and the false, and has no desire to choose one against the other. And, if ar alI, such a person is persuaded to accept the message of Guidance, no one can take the responsibility that he will observe any moral laws.

سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :56 خواہش نفس کا خدا بنا لینے سے مراد اس کی بندگی کرنا ہے ، اور یہ بھی حقیقت کے اعتبار سے ویسا ہی شرک ہے جیسا بت کو پوجنا یا کسی مخلوق کو معبود بنانا ۔ حضرت ابو امامہ کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ماتحت ظل السمآء من الٰہ یعبد من دون اللہ تعالیٰ اعظم عند اللہ عزوجل من ھوی یتبع ، اس آسمان کے نیچے اللہ تعالیٰ کے سوا جتنے معبود بھی پوجے جا رہے ہیں ان میں اللہ کے نزدیک بد ترین معبود وہ خواہش نفس ہے جس کی پیروی کی جا رہی ہو ۔ ( طبرانی ) ۔ مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو الکہف ، حاشیہ 50 ۔ جو شخص اپنی خواہش کو عقل کے تابع رکھتا ہو اور عقل سے کام لے کر فیصلہ کرتا ہو کہ اس کے لیے صحیح راہ کون سی ہے اور غلط کونسی ، وہ اگر کسی قسم کے شرک یا کفر میں مبتلا بھی ہو تو اس کو سمجھا کر سیدھی راہ پر لایا جا سکتا ہے ، اور یہ اعتماد بھی کیا جا سکتا ہے کہ جب وہ راہ راست اختیار کرنے کا فیصلہ کر لے گا تو اس پر ثابت قدم رہے گا ۔ لیکن نفس کا بندہ اور خواہشات کا غلام ایک شتر بے مہار ہے ۔ اسے تو اس کی خواہشات جدھر جدھر لے جائیں گی وہ ان کے ساتھ ساتھ بھٹکتا پھرے گا ۔ اس کو سرے سے یہ فکر ہی نہیں ہے کہ صحیح و غلط اور حق و باطل میں تمیز کرے اور ایک کو چھوڑ کر دوسرے کو اختیار کرے ۔ پھر بھلا کون اسے سمجھا کر راستی کا قائل کر سکتا ہے ۔ اور بالفرض اگر وہ بات مان بھی لے تو اسے کسی ضابطہ اخلاق کا پابند بنا دینا تو کسی انسان کے بس میں نہیں ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

15: آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو چونکہ اپنی امت پر بہت شفقت تھی، اس لیے آپ کی یہ خواہش رہتی تھی کہ جو لوگ کفر و شرک پر اڑے ہوئے ہیں وہ کسی طرح ایمان لے آئیں، اور جب وہ ایمان نہیں لاتے تھے تو آپ کو صدمہ ہوتا تھا۔ قرآن کریم نے جا بجا آپ کو تسلی دی ہے کہ آپ کا فریضہ حق بات کو پہنچانے کی حد تک محدود ہے۔ جن لوگوں نے اپنی خواہشات کو خدا بنا رکھا ہے، ان کی کوئی ذمہ داری آپ پر نہیں ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(25:43) ارء یت من اتخذ الہہ ھواہ : ارأیت فعل یا فاعل۔ من اسم موصول اتخذ فعل متعدی بدو مفعول ۔ الہہ مضاف مضاف الیہ۔ مل کر اتخذ کا مفعول اول ھواہ مضاف مضاف الیہ مل کر اتخذ کا مفعول ثانی۔ اتخذ الھہ ھواہ یہ جملہ اسم موصول کا صلہ۔ اسم موصول بمعہ صلہ کے رأیت کا مفعول۔ کیا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنی نفسانی خواہش کو اپنا معبود بنا لیا۔ یعنی جو خواہش نفسانی کی پیروی میں لگ گیا۔ وکیلا۔ نگہبان۔ ذمہ دار۔ افانت تکون علیہ وکیلا۔ کیا تو اس کا ذمہ دار ہے ہمزاہ استفہام انکاری کا ہے۔ مطلب یہ کہ جب تو اس پر نگران مقرر نہیں ہے تو پھر تو نے کیوں اس کی خاطر اپنی جان کو عذاب میں ڈال رکھا ہے۔ اسی مضمون میں آیت شریف ہے : فان اللہ یضل من یشاء ویھدی من یشاء فلا تذھب نفسک علیہم حسرات (35:8) سو اللہ جسے چاہے گمراہ کردیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت بخشتا ہے۔ سو ان پر افسوس کر کے کہیں آپ کی جان نہ جاتی رہے۔ اور فلعلک باخع نفسک علی اثارھم ان لم یؤمنوا بھذا الحدیث اسفا (18:6) سو شاید آپ ان کے (اعراض کئے) پیچھے غم سے اپنی جان دیدیں گے۔ اگر یہ لوگ اسی مضمون (قرآنی) پر ایمان نہ لائے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

2 ۔ اشارہ ہے کہ ان مشرکین کے پاس تقلید اور اتباع ہویٰ کے سوا دوسری کوئی دلیل نہیں ہے۔ (شوانی) اور ” ہویٰ “ ہی سب سے بڑی گمراہی کا سبب بنی ہوئی ہے۔ دنیا میں اللہ کے سوا جتنے خدائوں کی بندگی کی جاتی ہے ان میں سے سب بڑا خدا خواہش نفس ہے جس کی پیروی کی جائے۔ (طبرانی) 3 ۔ یعنی جس کی قسمت میں ہی سعادت و ضلالت لکھی گئی ہو، اس کو اللہ کے سوا کوئی راہ پر نہیں لاسکتا۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

30:۔ ” ارایت من الخ “ ان مشرکین سے قبول حق کی توقع بےسود ہے یہ کسی غلط فہمی میں مبتلا نہیں ہیں بلکہ محض ضد وعناد کی وجہ سے اپنی خواہشات نفسانیہ کی پیروی کر رہے ہیں وہ نفس کے بندے ہیں اور خواہش نفس کو انہوں نے اپنا معبود بنا رکھا ہے یعنی اپنی خواہش سے معبودان باطلہ کو حاجت روا اور برکات دہندہ سمجھ رکھا ہے۔ وہ اپنی مرضی اور خواہش سے جس کو چاہتے ہیں اپنا کارساز اور معبود بنا لیتے ہیں۔ اس سے پہلے ” ان کاد لیضلنا عن الھتنا “ بھی قرینہ ہے کہ مشرکین اپنی خواہش سے جسے چاہتے برکات دہندہ بنا لیتے۔ فالایۃ شاملۃ لمن عبد غیر اللہ تعالیٰ حسب ھواہ ولمن اطاع الھوی فی سائر المعاصی وھو الذی یقتضیہ کلام الحسن (روح ج 19 ص 24) ۔ اسی مفہوم کی ایک آیت سورة جاثیہ (رکوع 3) میں ہے ” افرایت من اتخذ الھہ ھواہ الخ “ یعنی خواہش نفس سے غیر اللہ کو کارساز اور حاجت روا بنا لیا۔ آپ ان پر نگران نہیں ہیں کہ ان کو اس سے باز رکھ سکیں۔ آپ کا کام صرف تبلیغ ہے۔ ” ام تحسب الخ “ اور پھر کیا آپ کا خیال ہے کہ ان میں سے اکثر آپ کی باتیں توجہ سے سنتے اور ان میں غور و فکر کرتے ہیں ؟ نہیں نہیں ! ! وہ تو بےتوجہی، غفلت اور گمراہی میں چوپایوں سے بھی بڑھ کر ہیں، وہ نہ حق بات کو توجہ سے سنتے ہیں، نہ اس میں غور و تدبر کرتے ہیں۔ لانھم لا یلقون الی استماع الھق اذنا ولا الی تبدرہ عقلا و مشبھین بالانعام التیھی مثل فی الغفلۃ والضلالۃ الخ (مدارک ج 3 ص 129) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(43) اے پیغمبر ! آپ نے اس شخص کی حالت کو بھی دیکھا جس نے اپنی نفسانی خواہش کو اپنا معبود بنا رکھا ہے اور اپنی نفسانی خواہش کا پوجنا اختیار کر رکھا ہے تو کیا آپ ایسے ہوا پرست کی نگرانی کرسکتے ہیں یا ایسے شخص کی کوئی ذمہ داری لے سکتے ہیں۔