Surat ul Furqan

Surah: 25

Verse: 49

سورة الفرقان

لِّنُحۡیِۦَ بِہٖ بَلۡدَۃً مَّیۡتًا وَّ نُسۡقِیَہٗ مِمَّا خَلَقۡنَاۤ اَنۡعَامًا وَّ اَنَاسِیَّ کَثِیۡرًا ﴿۴۹﴾

That We may bring to life thereby a dead land and give it as drink to those We created of numerous livestock and men.

تاکہ اس کے ذریعے سے مردہ شہر کو زندہ کر دیں اور اسے ہم اپنی مخلوقات میں سے بہت سے چوپایوں اور انسانوں کو پلاتے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

لِنُحْيِيَ بِهِ بَلْدَةً مَّيْتًا ... That We may give life thereby to a dead land, means, a land that waited a long time for rain. It is devoid of vegetation or anything at all. When the rain comes to it, it becomes alive and its hills are covered with all kinds of colorful flowers, as Allah says: فَإِذَا أَنزَلْنَا عَلَيْهَا الْمَأءَ اهْتَزَّتْ وَرَبَتْ but when We send down water to it, it is stirred to life and growth... (41:39) His saying: ... وَنُسْقِيَهُ مِمَّا خَلَقْنَا أَنْعَامًا وَأَنَاسِيَّ كَثِيرًا and We give to drink thereof many of the cattle and men that We had created. means, so that animals such as cattle can drink from it, and people who are in desperate need of water can drink from it and water their crops and fruits. This is like the Ayah: وَهُوَ الَّذِى يُنَزِّلُ الْغَيْثَ مِن بَعْدِ مَا قَنَطُواْ And He it is Who sends down the rain after they have despaired, (42:28) فَانظُرْ إِلَى ءَاثَـرِ رَحْمَةِ اللَّهِ كَيْفَ يُحْىِ الاٌّرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَأ Look then at the effects of Allah's mercy, how He revives the earth after its death. (30:50) His saying:

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦٢] اگر سمندر کا پانی اپنی اصلی حالت میں کھیتی کو پلایا جائے تو کھیتی مرجھا کر تباہ ہوجائے۔ اور اگر کوئی جاندار پی لے تو اس کی آنتوں کو کاٹ کے رکھ دے یا کم از کم زخمی کرکے رکھ دے۔ لیکن اسی سمندر کے پانی کے بخارات جب بارش میں منتقل ہوتے ہیں تو کیا نباتات، کیا حیوان اور کیا انسان سب کے لئے یہ پانی حیات بخش ثابت ہوتا ہے۔ کھیتیاں لہلانے لگتی ہیں اور جاندار مخلوق بارش ہونے سے پہلے ہواؤں کی آمد پر ہی مسرور ہو کر جھومنے لگتی ہے۔ نباتات سے ہی جاندار مخلوق کو غذا حاصل ہوتی ہے اور اس کے پینے کے لئے اللہ تعالیٰ صاف ستھرا پانی دیتا ہے۔ جمادات کے علاوہ اس کائنات ارضی پر کوئی مخلوق ایسی نہیں جس کی زندگی کی بقا پانی کے بغیر ممکن ہو۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

لِّنُحْيِۦ بِهٖ بَلْدَةً مَّيْتًا وَّنُسْقِيَهٗ ۔۔ : ” اَنَاسِيَّ “ ” أَنْسِيٌّ“ کی جمع ہے، جیسے : ” کُرْسِيٌّ“ کی جمع ” کَرَاسِيُّ “ ہے یا ”إِنْسَانٌ“ کی جمع ہے جو اصل میں ” أَنَاسِیْنُ “ تھا، جیسے : ” ظَرْبَانٌ“ (بلی جیسا ایک جانور) کی جمع ” ظَرَابِيُّ “ ہے، پھر آخری نون کو یاء سے بدل دیا اور یاء کا یاء میں ادغام کردیا۔ ” سَقٰی یَسْقِيْ “ پلانا، ” أَسْقٰی یُسْقِيْ “ پلوانا، پینے کے لیے مہیا کرنا۔ 3 اگر سمندر کا پانی اپنی اصل حالت میں کھیتی کو پلایا جائے تو کھیتی مرجھا کر تباہ ہوجائے اور اگر کوئی جان دار پی لے تو اس کی آنتوں کو کاٹ کے رکھ دے، یا کم از کم زخمی کر دے، لیکن اسی سمندر کے پانی کے بخارات جب بارش میں منتقل ہوتے ہیں تو کیا نباتات، کیا حیوان اور کیا انسان، سب کے لیے یہ پانی حیات بخش ثابت ہوتا ہے، کھیتیاں لہلہانے لگتی ہیں اور جان دار مخلوق بارش ہونے سے پہلے ہواؤں کی آمد ہی پر مسرور ہو کر جھومنے لگتی ہے۔ نباتات ہی سے جان دار مخلوق کو غذا حاصل ہوتی ہے اور اس کے پینے کے لیے اللہ تعالیٰ صاف ستھرا پانی دیتا ہے۔ جمادات کے علاوہ اس کائنات ارضی پر کوئی مخلوق ایسی نہیں جس کی زندگی کی بقا پانی کے بغیر ممکن ہو۔ (کیلانی) 3 ان دو آیات میں بھی اللہ کی توحید، موت کے بعد زندگی کے دلائل اور اللہ کی نعمت کی یاد دہانی تینوں چیزیں موجود ہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

وَنُسْقِيَهُ مِمَّا خَلَقْنَا أَنْعَامًا وَأَنَاسِيَّ كَثِيرً‌ا And give drink to the many cattle and humans We have created - 25:49). The word أَنَاسِيَّ is the plural of إنسِیّ and some linguistics have taken it as a plural of إنسَان (both the words mean &human& ). This verse has described that the rain is a source of irrigation for land, while it serves as a drink for &many cattle and humans&. The point worth consideration here is why the word &many& is used which indicates that some human beings do not benefit from it. This question may be answered by saying that the reference here is to the cattle and human beings living in jungles and deserts who directly use the water of rain. As for the urban people, they normally use the water of wells and canals etc.

وَّنُسْقِيَهٗ مِمَّا خَلَقْنَآ اَنْعَامًا وَّاَنَاسِيَّ كَثِيْرًا، اناسی، انسی کی جمع ہے اور بعض نے فرمایا کہ انسان کی جمع ہے۔ آیت میں یہ بتلایا ہے کہ آسمان سے نازل کردہ پانی سے اللہ تعالیٰ زمین کو بھی سیراب کرتا ہے اور جانوروں کو بھی اور بہت سے انسانوں کو بھی۔ یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ جس طرح جانور سب کے سب اس پانی سے سیراب ہوتے ہیں اسی طرح انسان بھی سبھی اس پانی سے فائدہ اٹھاتے اور سیراب ہوتے ہیں۔ پھر ان میں یہ تخصیص کہ بہت سے انسانوں کو سیراب کیا اس سے تو یہ لازم آتا ہے کہ بہت سے انسان اس سیرابی سے محروم اور الگ ہیں۔ جواب یہ ہے کہ یہاں بہت سے انسانوں سے وہ جنگل کے رہنے والے لوگ مراد ہیں جن کا عموماً گزارہ بارش کے پانی پر ہوتا ہے۔ شہری آبادی والے تو نہروں کے کناروں پر کنوؤں کے قریب آباد ہوتے ہیں بارش کے منتظر نہیں رہتے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

لِّنُحْيِۦ بِہٖ بَلْدَۃً مَّيْتًا وَّنُسْقِيَہٗ مِمَّا خَلَقْنَآ اَنْعَامًا وَّاَنَاسِيَّ كَثِيْرًا۝ ٤٩ حيى الحیاة تستعمل علی أوجه : الأوّل : للقوّة النّامية الموجودة في النّبات والحیوان، ومنه قيل : نبات حَيٌّ ، قال عزّ وجلّ : اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید/ 17] ، الثانية : للقوّة الحسّاسة، وبه سمّي الحیوان حيوانا، قال عزّ وجلّ : وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر/ 22] ، الثالثة : للقوّة العاملة العاقلة، کقوله تعالی: أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] والرابعة : عبارة عن ارتفاع الغمّ ، وعلی هذا قوله عزّ وجلّ : وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] ، أي : هم متلذّذون، لما روي في الأخبار الکثيرة في أرواح الشّهداء والخامسة : الحیاة الأخرويّة الأبديّة، وذلک يتوصّل إليه بالحیاة التي هي العقل والعلم، قال اللہ تعالی: اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال/ 24] والسادسة : الحیاة التي يوصف بها الباري، فإنه إذا قيل فيه تعالی: هو حيّ ، فمعناه : لا يصحّ عليه الموت، ولیس ذلک إلّا لله عزّ وجلّ. ( ح ی ی ) الحیاۃ ) زندگی ، جینا یہ اصل میں حیی ( س ) یحییٰ کا مصدر ہے ) کا استعمال مختلف وجوہ پر ہوتا ہے ۔ ( 1) قوت نامیہ جو حیوانات اور نباتات دونوں میں پائی جاتی ہے ۔ اسی معنی کے لحاظ سے نوبت کو حیہ یعنی زندہ کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید/ 17] جان رکھو کہ خدا ہی زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ ۔ ( 2 ) دوم حیاۃ کے معنی قوت احساس کے آتے ہیں اور اسی قوت کی بناء پر حیوان کو حیوان کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر/ 22] اور زندے اور مردے برابر ہوسکتے ہیں ۔ ( 3 ) قوت عاملہ کا عطا کرنا مراد ہوتا ہے چنانچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ ( 4 ) غم کا دور ہونا مراد ہوتا ہے ۔ اس معنی میں شاعر نے کہا ہے ( خفیف ) جو شخص مرکر راحت کی نیند سوگیا وہ درحقیقت مردہ نہیں ہے حقیقتا مردے بنے ہوئے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے ان کو مرے ہوئے نہ سمجھنا وہ مرے ہوئے نہیں ہیں بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہیں ۔ میں شہداء کو اسی معنی میں احیاء یعنی زندے کہا ہے کیونکہ وہ لذت و راحت میں ہیں جیسا کہ ارواح شہداء کے متعلق بہت سی احادیث مروی ہیں ۔ ( 5 ) حیات سے آخرت کی دائمی زندگی مراد ہوتی ہے ۔ جو کہ علم کی زندگی کے ذریعے حاصل ہوسکتی ہے : قرآن میں ہے : ۔ اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال/ 24] خدا اور اس کے رسول کا حکم قبول کرو جب کہ رسول خدا تمہیں ایسے کام کے لئے بلاتے ہیں جو تم کو زندگی ( جادواں ) بخشتا ہے۔ ( 6 ) وہ حیات جس سے صرف ذات باری تعالیٰ متصف ہوتی ہے ۔ چناچہ جب اللہ تعالیٰ کی صفت میں حی کہا جاتا ہے تو اس سے مراد وہ ذات اقدس ہوئی ہے جس کے متعلق موت کا تصور بھی نہیں ہوسکتا ۔ پھر دنیا اور آخرت کے لحاظ بھی زندگی دو قسم پر ہے یعنی حیات دنیا اور حیات آخرت چناچہ فرمایا : ۔ فَأَمَّا مَنْ طَغى وَآثَرَ الْحَياةَ الدُّنْيا [ النازعات/ 38] تو جس نے سرکشی کی اور دنیا کی زندگی کو مقدم سمجھنا ۔ بلد البَلَد : المکان المحیط المحدود المتأثر باجتماع قطّانه وإقامتهم فيه، وجمعه : بِلَاد وبُلْدَان، قال عزّ وجلّ : لا أُقْسِمُ بِهذَا الْبَلَدِ [ البلد/ 1] ، قيل : يعني به مكة «1» . قال تعالی: بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ [ سبأ/ 15] ، فَأَنْشَرْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ الزخرف/ 11] ، وقال عزّ وجلّ : فَسُقْناهُ إِلى بَلَدٍ مَيِّتٍ [ الأعراف/ 57] ، رَبِّ اجْعَلْ هذا بَلَداً آمِناً [ البقرة/ 126] ، يعني : مكة و تخصیص ذلک في أحد الموضعین وتنکيره في الموضع الآخر له موضع غير هذا الکتاب «2» . وسمیت المفازة بلدا لکونها موطن الوحشیات، والمقبرة بلدا لکونها موطنا للأموات، والبَلْدَة منزل من منازل القمر، والبُلْدَة : البلجة ما بين الحاجبین تشبيها بالبلد لتمدّدها، وسمیت الکركرة بلدة لذلک، وربما استعیر ذلک لصدر الإنسان «1» ، ولاعتبار الأثر قيل : بجلده بَلَدٌ ، أي : أثر، وجمعه : أَبْلَاد، قال الشاعر : وفي النّحور کلوم ذات أبلاد وأَبْلَدَ الرجل : صار ذا بلد، نحو : أنجد وأتهم «3» . وبَلِدَ : لزم البلد . ولمّا کان اللازم لموطنه كثيرا ما يتحيّر إذا حصل في غير موطنه قيل للمتحيّر : بَلُدَ في أمره وأَبْلَدَ وتَبَلَّدَ ، قال الشاعر : لا بدّ للمحزون أن يتبلّدا ولکثرة وجود البلادة فيمن کان جلف البدن قيل : رجل أبلد، عبارة عن عظیم الخلق، وقوله تعالی: وَالْبَلَدُ الطَّيِّبُ يَخْرُجُ نَباتُهُ بِإِذْنِ رَبِّهِ وَالَّذِي خَبُثَ لا يَخْرُجُ إِلَّا نَكِداً [ الأعراف/ 58] ، کنایتان عن النفوس الطاهرة والنجسة فيما قيل «5» . ( ب ل د ) البلد شہر ) وہ مقام جس کی حد بندی کی گئی ہو اور وہاں لوگ آباد ۔ اس کی جمع بلاد اور بلدان آتی ہے اور آیت : ۔ لا أُقْسِمُ بِهذَا الْبَلَدِ [ البلد/ 1] سے مکہ مکرمہ مراد ہے دوسری جگہ فرمایا رَبِّ اجْعَلْ هذا بَلَداً آمِناً [ البقرة/ 126] کہ میرے پروردگار اس شہر کو ( لوگوں کے لئے ) امن کی جگہ بنادے ۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ [ سبأ/ 15] پاکیزہ شہر ہے ۔ فَأَنْشَرْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ الزخرف/ 11] پھر ہم نے اس سے شہر مردہ کو زندہ کردیا ۔ فَسُقْناهُ إِلى بَلَدٍ مَيِّتٍ [ الأعراف/ 57] پھر ہم ان کو ایک بےجان شہر کی طرف چلاتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ رَبِّ اجْعَلْ هذا بَلَداً آمِناً [ البقرة/ 126] پروردگار اس جگہ کو امن کا شہر بنا میں بھی مکہ مکرمہ مراد ہے لیکن ایک مقام پر اسے معرفہ اور دوسرے مقام پر نکرہ لانے میں جو لطافت اور نکتہ ملحوظ ہے اسے ہم دوسری کتاب میں بیان کرینگے اور بلد کے معنی بیابان اور قبرستان بھی آتے ہیں کیونکہ پہلاوحشی جانوروں دوسرا مردوں کا مسکن ہوتا ہی ۔ البلدۃ منازل قمر سے ایک منزل کا نام ہے اور تشبیہ کے طور پر ابرو کے درمیان کی جگہ اور اونٹ کے کے سینہ کو بھی بلدۃ کہا جاتا ہے ۔ کیونکہ یہ بھی شہر کی طرح محدود ہوتے ہیں اور بطور استعارہ انسان کے سینہ پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے اور اثر یعنی نشان کے معنی کے اعتبار سے بجلدہ بلد کا محاورہ استعمال ہوتا ہے یعنی اس کی کھال پر نشان ہے اس کی جمع ابلاد آتی ہے ۔ شاعر نے کہا ہے اور ان کے سینوں پر زخموں کے نشانات ہیں ۔ ابلد الرجل شہر میں چلاجانا جیسا کہ انجد اتھم کے معنی نجد اور تہمامہ میں چلے جانے کے ہیں ۔ بلد الرجل کے معنی شہر میں مقیم ہونے کے ہیں اور کسی مقام پر ہمیشہ رہنے والا اکثر اوقات دوسری جگہ میں جاکر متحیر ہوجاتا ہے اس لئے متجیر آدمی کے متعلق وغیرہ ہا کے محاورات استعمال ہوتے ہیں شاعر نے کہا ہے ( ع ) کہ اند وہ گیں لازما متحیر رہے گا ) ۔ اجد لوگ دام طور پر بلید یعنی کند ذہن ہوتے ہیں اس لئے ہر لئے جیم آدمی کو ابلد کہا جاتا ہے اور آیت کریمہ : وَالْبَلَدُ الطَّيِّبُ يَخْرُجُ نَباتُهُ بِإِذْنِ رَبِّهِ وَالَّذِي خَبُثَ لا يَخْرُجُ إِلَّا نَكِداً [ الأعراف/ 58]( جو زمین پاکیزہ دے ) اس میں سے سبزہ بھی پروردگار کے حکم سے ( نفیس ہی ) نکلتا ہے اور جو خراب ہے ۔ اس میں سے جو کچھ نکلتا ہے ناقص ہوتا ہے ) میں بلد کے طیب اور خبیث ہونے سے کنایہ نفوس کا طیب اور خبیث ہونا مراد ہے ۔ موت أنواع الموت بحسب أنواع الحیاة : فالأوّل : ما هو بإزاء القوَّة النامية الموجودة في الإنسان والحیوانات والنّبات . نحو قوله تعالی: يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم/ 19] ، وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق/ 11] . الثاني : زوال القوّة الحاسَّة . قال : يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا [ مریم/ 23] ، أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم/ 66] . الثالث : زوال القوَّة العاقلة، وهي الجهالة . نحو : أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] ، وإيّاه قصد بقوله : إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل/ 80] . الرابع : الحزن المکدِّر للحیاة، وإيّاه قصد بقوله : وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَ بِمَيِّتٍ [إبراهيم/ 17] . الخامس : المنامُ ، فقیل : النّوم مَوْتٌ خفیف، والموت نوم ثقیل، وعلی هذا النحو سمّاهما اللہ تعالیٰ توفِّيا . فقال : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] ( م و ت ) الموت یہ حیات کی ضد ہے لہذا حیات کی طرح موت کی بھی کئی قسمیں ہیں ۔ اول قوت نامیہ ( جو کہ انسان حیوانات اور نباتات ( سب میں پائی جاتی ہے ) کے زوال کو موت کہتے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم/ 19] زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق/ 11] اور اس پانی سے ہم نے شہر مردہ یعنی زمین افتادہ کو زندہ کیا ۔ دوم حس و شعور کے زائل ہوجانے کو موت کہتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا ۔ يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا[ مریم/ 23] کاش میں اس سے پہلے مر چکتی ۔ أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم/ 66] کہ جب میں مرجاؤں گا تو کیا زندہ کر کے نکالا جاؤں گا ۔ سوم ۔ قوت عاقلہ کا زائل ہوجانا اور اسی کا نام جہالت ہے چناچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل/ 80] کچھ شک نہیں کہ تم مردوں کو بات نہیں سنا سکتے ۔ چہارم ۔ غم جو زندگی کے چشمہ صافی کو مکدر کردیتا ہے چنانچہ آیت کریمہ : ۔ وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَبِمَيِّتٍ [إبراهيم/ 17] اور ہر طرف سے اسے موت آرہی ہوگی ۔ مگر وہ مرنے میں نہیں آئے گا ۔ میں موت سے یہی معنی مراد ہیں ۔ پنجم ۔ موت بمعنی نیند ہوتا ہے اسی لئے کسی نے کہا ہے کہ النوم موت خفیف والموت نوم ثقیل کہ نیند کا نام ہے اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو توفی سے تعبیر فرمایا ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] اور وہی تو ہے جو ارت کو تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے سقی السَّقْيُ والسُّقْيَا : أن يعطيه ما يشرب، والْإِسْقَاءُ : أن يجعل له ذلک حتی يتناوله كيف شاء، فالإسقاء أبلغ من السّقي، لأن الإسقاء هو أن تجعل له ما يسقی منه ويشرب، تقول : أَسْقَيْتُهُ نهرا، قال تعالی: وَسَقاهُمْ رَبُّهُمْ شَراباً طَهُوراً [ الإنسان/ 21] ، وقال : وَسُقُوا ماءً حَمِيماً [ محمد/ 15] ( س ق ی ) السقی والسقیا کے معنی پینے کی چیز دینے کے ہیں اور اسقاء کے معنی پینے کی چیز پیش کردینے کے ہیں تاکہ حسب منشا لے کر پی لے لہذا اسقاء ینسبت سقی کے زیادہ طبغ ہے کیونکہ اسقاء میں مایسقی منھ کے پیش کردینے کا مفہوم پایا جاتا ہے کہ پینے والا جس قد ر چاہے اس سے نوش فرمانے مثلا اسقیتہ نھرا کے معنی یہ ہوں ۔ گے کر میں نے اسے پانی کی نہر پر لے جاکر کھڑا کردیا چناچہ قرآن میں سقی کے متعلق فرمایا : ۔ وسقاھم وَسَقاهُمْ رَبُّهُمْ شَراباً طَهُوراً [ الإنسان/ 21] اور ان کا پروردگار ان کو نہایت پاکیزہ شراب پلائے گا ۔ وَسُقُوا ماءً حَمِيماً [ محمد/ 15] اور ان کو کھولتا ہوا پانی پلایا جائیگا ۔ خلق الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] ، أي : أبدعهما، ( خ ل ق ) الخلق ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے نعم ( جانور) [ والنَّعَمُ مختصٌّ بالإبل ] ، وجمْعُه : أَنْعَامٌ ، [ وتسمیتُهُ بذلک لکون الإبل عندهم أَعْظَمَ نِعْمةٍ ، لكِنِ الأَنْعَامُ تقال للإبل والبقر والغنم، ولا يقال لها أَنْعَامٌ حتی يكون في جملتها الإبل ] «1» . قال : وَجَعَلَ لَكُمْ مِنَ الْفُلْكِ وَالْأَنْعامِ ما تَرْكَبُونَ [ الزخرف/ 12] ، وَمِنَ الْأَنْعامِ حَمُولَةً وَفَرْشاً [ الأنعام/ 142] ، وقوله : فَاخْتَلَطَ بِهِ نَباتُ الْأَرْضِ مِمَّا يَأْكُلُ النَّاسُ وَالْأَنْعامُ [يونس/ 24] فَالْأَنْعَامُ هاهنا عامٌّ في الإبل وغیرها . ( ن ع م ) نعام النعم کا لفظ خاص کر اونٹوں پر بولا جاتا ہے اور اونٹوں کو نعم اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ عرب کے لئے سب سے بڑی نعمت تھے اس کی جمع انعام آتی ہے لیکن انعام کا لفظ بھیڑ بکری اونٹ اور گائے سب پر بولا جاتا ہے مگر ان جانوروں پر انعام کا لفظ اس وقت بولا جاتا ہے ۔ جب اونٹ بھی ان میں شامل ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلَ لَكُمْ مِنَ الْفُلْكِ وَالْأَنْعامِ ما تَرْكَبُونَ [ الزخرف/ 12] اور تمہارے لئے کشتیاں اور چار پائے بنائے ۔ وَمِنَ الْأَنْعامِ حَمُولَةً وَفَرْشاً [ الأنعام/ 142] اور چار پایوں میں بوجھ اٹھا نے والے ( یعنی بڑے بڑے بھی ) پیدا کئے اور زمین سے لگے ہوئے ( یعنی چھوٹے چھوٹے بھی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَاخْتَلَطَ بِهِ نَباتُ الْأَرْضِ مِمَّا يَأْكُلُ النَّاسُ وَالْأَنْعامُ [يونس/ 24] پھر اس کے ساتھ سبزہ جسے آدمی اور جانور کھاتے ہیں ۔ مل کر نکلا ۔ میں انعام کا لفظ عام ہے جو تمام جانوروں کو شامل ہے ۔ نوس النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب، قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] ( ن و س ) الناس ۔ بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ كثر الْكِثْرَةَ والقلّة يستعملان في الكمّيّة المنفصلة كالأعداد قال تعالی: وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة/ 64] ( ک ث ر ) کثرت اور قلت کمیت منفصل یعنی اعداد میں استعمال ہوتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة/ 64] اس سے ان میں سے اکثر کی سر کشی اور کفر اور بڑ ھیگا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٩ (لِّنُحْیِیَ بِہٖ بَلْدَۃً مَّیْتًا وَّنُسْقِیَہٗ مِمَّا خَلَقْنَآ اَنْعَامًا وَّاَنَاسِیَّ کَثِیْرًا ) ” جہاں یہ پانی بہت سی آلودگیوں کو صاف کرتا ہے وہاں یہ جانوروں اور انسانوں کے پینے کے کام بھی آتا ہے۔ میڈیکل سائنس کی نظر سے دیکھا جائے تو انسانی یا حیوانی جسم کے اندر استعمال ہو کر پانی کہیں ختم (consume) نہیں ہوجاتا بلکہ یہاں بھی وہ جسم کے اندرونی نظام کو چلانے اور اس کی صفائی کرنے کا کام کرتا ہے۔ پانی کے ذریعے سے ہی جسم کے اندر خون کی گردش (circulation) ممکن ہوتی ہے اور metabolism کے نتیجے میں پیدا ہونے والے فاضل اور نقصان دہ فضلات کا معدے ‘ گردوں ‘ پھیپھڑوں وغیرہ سے اخراج ممکن ہوتا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

63 This verse also gives proofs of the Doctrine of Tauhid and the Hereafter. Besides, it contains a subtle suggestion that the period of the "drought" of ignorance has been replaced through Allah's mercy by the "blessed rain" of Prophethood, which is showering the life-giving knowledge of Revelation from which many servants of AIlah will certainly benefit, if not all .

سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :63 اس آیت کے بھی وہی تین رخ ہیں جو اوپر والی آیت کے تھے ۔ اس میں توحید کے دلائل بھی ہیں اور آخرت کے دلائل بھی ۔ اور ان دونوں مضمونوں کے ساتھ اس میں یہ لطیف مضمون بھی پوشیدہ ہے کہ جاہلیت کا دور حقیقت میں خشک سالی اور قحط کا دور تھا جس میں انسانیت کی زمین بنجر ہو کر رہ گئی تھی ۔ اب یہ اللہ کا فضل ہے کہ وہ نبوت کا ابر رحمت لے آیا جو علم وحی کا خالص آبِ حیات برسا رہا ہے ، سب نہیں تو بہت سے بندگان خدا تو اس سے فیض یاب ہوں گے ہی ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(25:49) لنحی میں لام تعلیل کی ہے اور صیغہ جمع متکلم منصوب بوجہ عمل لام۔ تاکہ ہم زندہ کریں۔ بہ : میں ہ کا مرجع ماء طھورا ہے۔ بلدۃ میتا۔ موصوف، صفت، مردہ بستی۔ غیر آباد شہر، جہاں کوئی بناتات نہ ہو۔ بلدۃ بمعنی البلد ہے اور اسی وجہ سے میتا مذکر لایا گیا ہے۔ نفسیہ : نسقی۔ مضارع جمع متکلم منصوب۔ کیونکہ نسقی کا عطف لنحی پر ہے۔ ای لنسفیہ۔ اسفاء مصدر ہ ضمیر مفعول جس کا مرجع ماء طھورا ہے۔ تاکہ ہم (وہ پانی) پلائیں یا پینے کے لئے فراہم کریں۔ یا اس سے سیراب کریں۔ مما۔ من۔ ما سے مرکب ہے۔ من تبعیضیہ ہے اور ما اسم موصول۔ انعاما۔ الانعام ۔ مویشی۔ بھیڑ۔ بکری۔ گائے۔ بھینس اور اونٹ یہ نعم کی جمع ہے۔ مویشی کو اس وقت تک انعام نہیں کہا جاسکتا جب تک کہ ان میں اونٹ شامل نہ ہو۔ اناسی۔ یہ یا انسی کی جمع ہے جیسے کرسی کی جمع کر اسی ہے یا یہ انسان کی جمع ہے اور اصل میں اناسین تھا جیسے سرحان کی جمع سراحین اور بستان کی جمع بساتین ہے نون کو ی سے بدلا اور یاء کو یاء میں مدغم کیا۔ انعام و اناسی کو تنویع (مختلف النوع) کی خاطر نکرہ لایا گیا ہے۔ ترجمہ :۔ اور ہم پلائیں یہ پانی اپنی مخلوق میں سے کثیر التعداد اور مویشیوں اور انسانوں کو۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

11 ۔ یعنی یہ خود بھی پاک ہے اور دوسری چیزوں کو پاک کرنے والا بھی ہے اس بنا پر جمہور علما نے اس کے مفہوم کو ” طاہر مطہر “ سے ادا کیا ہے بعض نے ” ظہور “ بمعنی طاہر کیا ہے یعنی جو خود پاک ہو۔ اور ” طہور “ صیغہ آلہ ہے یعنی ما یتطھر بہ کے معنی میں ہے یعنی وہ چیز جس کے ذریعہ پاکیزگی حاصل کی جائے اور یہ صیغہ صفت برائے مبالغہ نہیں ہے۔ کیونکہ ایسا ماننے سے متعدد اشکال (لفظی و معنوی) لازم آتے ہیں۔ (ابن کثیر) 12 ۔ یعنی اکثر جاندار چیزیں اور انسان بارش کا پانی پی کر ہی سیرابی حاصل کرتے ہیں۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(49) تاکہ اس پانی کے ذریعہ سے مراد مواضعات کی زمین کو زندہ کردیں اور مری ہوئی زمین میں جان ڈال دیں اور اپنی مخلوقات میں سے بہت سے چوپایوں اور بہت سے آدمیوں کو اس پانی سے سیراب کریں بلدۃ میتا فرمایا یعنی دیہات میں عام طور سے بارانی زمینیں ہوتی ہیں ان بارانی زمینوں کی موت وحیات پر اس گائوں کی موت وحیات موقوف ہوتی ہے پانی سے چونکہ خشک زمین میں طاقت نمو پیدا ہوجاتی ہے اس لئے خشک زمین کو مردہ اور ہری بھری زمین کو زندہ فرمایا چوپایوں اور انسانوں کے ساتھ کثیر فرمایا شاید اس لئے کہ دریا اور ندیوں کے قریب رہنے والے چوپائے اور آدمی ندیوں کا پانی، پی کر زندگی گزارتے ہیں اور پانی پینے کے لئے بارش کے زیادہ محتاج نہیں ہوتے۔