Surat ul Furqan

Surah: 25

Verse: 56

سورة الفرقان

وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ اِلَّا مُبَشِّرًا وَّ نَذِیۡرًا ﴿۵۶﴾

And We have not sent you, [O Muhammad], except as a bringer of good tidings and a warner.

ہم نے تو آپ کو خوشخبری اور ڈر سنانے والا ( نبی ) بنا کر بھیجا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And We have sent you only as a bearer of good news and a warner. meaning, a bringer of good news to the believers, a warner to the disbelievers; bringing good news of Paradise to those who obey Allah, and bringing warnings of a dreadful punishment for those who go against the commandments of Allah.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦٩] یعنی آپ کا یہ کام نہیں کہ آپ لوگوں کو راہ راست پر لانے کے لئے مجبور کریں۔ نہ ہی یہ کام ہے کہ ایمان نہ لانے والوں کو کچھ سزا دیں اور ایمان لانے والوں کو مالی امداد بہم پہنچائیں۔ بلکہ آپ کی ذمہ داری صرف یہ ہے کہ سب لوگوں کے سامنے اسلام کی دعوت پیش کردیں۔ منکرین حق کو ان کے برے انجام سے ڈرائیں او... ر ایمان لانے والوں کو ان کے اعمال صالحہ کے اجر کی خوشخبری دیں۔ بس آپ کا کام اتنا ہی ہے۔ واضح رہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف ایسا خطاب دراصل کافروں کو دعوت دینے کی حد تک ہے۔ ورنہ جو لوگ ایمان لے آئیں تو ان کے لئے نبی کا کام اتنا ہی نہیں کہ آپ انھیں بھی بس ان کے اعمال صالحہ کی خوشخبری دے دیں۔ بلکہ ان کی تعلیم، ان کی تربیت، اور تزکیہ نفس سب کچھ آپ کی ذمہ داریوں میں شامل ہے اور قرآن کریم نے اس مضمون کو چار مختلف مقامات پر ذکر کیا ہے اور آپ کی مسلمانوں کے لئے چار ذمہ داریاں ہیں۔ مثلاً یہ کہ آپ ان کو قرآن آیات پڑھ کر سنائیں، ان کا تزکیہ نفس کریں۔ انھیں کتاب کی بھی تعلیم دیں اور حکمت بھی۔ ( مزید تشریح کے لئے دیکھئے ٢: ١٢٩، ٢: ١٠١، ٣: ١٦٤)   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَمَآ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا مُبَشِّرًا وَّنَذِيْرًا : اس آیت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے تسلی ہے اور کفار کے لیے تنبیہ، یعنی اگر کافر ایمان نہیں لاتے اور اللہ، اس کے رسول اور اہل ایمان کی دشمنی اور مخالفت سے باز نہیں آتے تو اس کی ذمہ داری آپ پر نہیں، آپ کا کام حق قبول کرنے والوں کو ... بشارت دینا اور اسے ٹھکرانے والے کو ڈرانا ہے اور بس۔ کفار کو سمجھایا جا رہا ہے کہ جس رسول کی دشمنی پر تم کمر باندھے ہوئے ہو وہ تو سر سے پاؤں تک تمہارا خیر خواہ ہے، وہ تمہیں ایمان قبول کرنے پر جنت کی خوش خبری دینے والا اور ایمان سے انکار کرنے پر اللہ کے عذاب سے ڈرانے والا ہے، ایسے خیر خواہ سے دشمنی رکھنا تمہیں زیب دیتا بھی ہے ؟  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَمَآ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا مُبَشِّرًا وَّنَذِيْرًا۝ ٥٦ رسل وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ، ( ر س ل ) الرسل ... اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ بشر واستبشر : إذا وجد ما يبشّره من الفرح، قال تعالی: وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ [ آل عمران/ 170] ، يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ [ آل عمران/ 171] ، وقال تعالی: وَجاءَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَسْتَبْشِرُونَ [ الحجر/ 67] . ويقال للخبر السارّ : البِشارة والبُشْرَى، قال تعالی: هُمُ الْبُشْرى فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَفِي الْآخِرَةِ [يونس/ 64] ، وقال تعالی: لا بُشْرى يَوْمَئِذٍ لِلْمُجْرِمِينَ [ الفرقان/ 22] ، وَلَمَّا جاءَتْ رُسُلُنا إِبْراهِيمَ بِالْبُشْرى [هود/ 69] ، يا بُشْرى هذا غُلامٌ [يوسف/ 19] ، وَما جَعَلَهُ اللَّهُ إِلَّا بُشْرى [ الأنفال/ 10] . ( ب ش ر ) البشر التبشیر کے معنی ہیں اس قسم کی خبر سنانا جسے سن کر چہرہ شدت فرحت سے نمٹما اٹھے ۔ مگر ان کے معافی میں قدر سے فرق پایا جاتا ہے ۔ تبیشتر میں کثرت کے معنی ملحوظ ہوتے ہیں ۔ اور بشرتہ ( مجرد ) عام ہے جو اچھی وبری دونوں قسم کی خبر پر بولا جاتا ہے ۔ اور البشرتہ احمدتہ کی طرح لازم ومتعدی آتا ہے جیسے : بشرتہ فابشر ( یعنی وہ خوش ہوا : اور آیت کریمہ : { إِنَّ اللهَ يُبَشِّرُكِ } ( سورة آل عمران 45) کہ خدا تم کو اپنی طرف سے بشارت دیتا ہے میں ایک قرآت نیز فرمایا : لا تَوْجَلْ إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ عَلِيمٍ قالَ : أَبَشَّرْتُمُونِي عَلى أَنْ مَسَّنِيَ الْكِبَرُ فَبِمَ تُبَشِّرُونَ قالُوا : بَشَّرْناكَ بِالْحَقِّ [ الحجر/ 53- 54] مہمانوں نے کہا ڈریے نہیں ہم آپ کو ایک دانشمند بیٹے کی خوشخبری دیتے ہیں وہ بولے کہ جب بڑھاپے نے آپکڑا تو تم خوشخبری دینے لگے اب کا ہے کی خوشخبری دیتے ہو انہوں نے کہا کہ ہم آپ کو سچی خوشخبری دیتے ہیں ۔ { فَبَشِّرْ عِبَادِ } ( سورة الزمر 17) تو میرے بندوں کو بشارت سنادو ۔ { فَبَشِّرْهُ بِمَغْفِرَةٍ وَأَجْرٍ كَرِيمٍ } ( سورة يس 11) سو اس کو مغفرت کے بشارت سنادو استبشر کے معنی خوش ہونے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ [ آل عمران/ 170] اور جو لوگ ان کے پیچھے رہ گئے ( اور شہید ہوکر ) ان میں شامل ہیں ہوسکے ان کی نسبت خوشیاں منا رہے ہیں ۔ يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ [ آل عمران/ 171] اور خدا کے انعامات اور فضل سے خوش ہورہے ہیں ۔ وَجاءَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَسْتَبْشِرُونَ [ الحجر/ 67] اور اہل شہر ( لوط کے پاس ) خوش خوش ( دورے ) آئے ۔ اور خوش کن خبر کو بشارۃ اور بشرٰی کہا جاتا چناچہ فرمایا : هُمُ الْبُشْرى فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَفِي الْآخِرَةِ [يونس/ 64] ان کے لئے دنیا کی زندگی میں بھی بشارت ہے اور آخرت میں بھی ۔ لا بُشْرى يَوْمَئِذٍ لِلْمُجْرِمِينَ [ الفرقان/ 22] اس دن گنہگاروں کے لئے کوئی خوشی کی بات نہیں ہوگی ۔ وَلَمَّا جاءَتْ رُسُلُنا إِبْراهِيمَ بِالْبُشْرى [هود/ 69] اور جب ہمارے فرشتے ابراہیم کے پاس خوشخبری سے کرآئے ۔ يا بُشْرى هذا غُلامٌ [يوسف/ 19] زہے قسمت یہ تو حسین ) لڑکا ہے ۔ وَما جَعَلَهُ اللَّهُ إِلَّا بُشْرى [ الأنفال/ 10] اس مدد کو تو خدا نے تمہارے لئے رذریعہ بشارت ) بنایا النذیر والنَّذِيرُ : المنذر، ويقع علی كلّ شيء فيه إنذار، إنسانا کان أو غيره . إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ نوح/ 2] ( ن ذ ر ) النذیر النذیر کے معنی منذر یعنی ڈرانے والا ہیں ۔ اور اس کا اطلاق ہر اس چیز پر ہوتا ہے جس میں خوف پایا جائے خواہ وہ انسان ہو یا کوئی اور چیز چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُبِينٌ [ الأحقاف/ 9] اور میرا کام تو علانیہ ہدایت کرنا ہے ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥٦) اور اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم نے آپ کو مکہ والوں کی طرف جنت کی خوشخبری سنانے والا اور دوزخ سے ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٦ (وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا مُبَشِّرًا وَّنَذِیْرًا ) ” تا کہ جو لوگ حق کا راستہ اختیار کرلیں انہیں اللہ کی رحمتوں اور جنت کی نعمتوں کی بشارت دیں : (فَرَوْحٌ وَّرَیْحَانٌلا وَّجَنَّتُ نَعِیْمٍ ) ( الواقعہ) ۔ اور جو لوگ انکار پر مصر رہیں انہیں جہنم کے عذاب سے خبردار کریں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

71 This verse (56) was meant to comfort the Holy Prophet and to warn the disbelievers who opposed him and obstructed his work, as if to say, "Your duty is only to convey the Message of good news to the people and to warn them of the consequences of disbelief: you are not responsible as to whether they accept .your Message or reject it, or to reward the Believers and punish the disbelievers." Such...  words occur in the Qur'an at other places also and are obviously directed to the disbelievers, as if to say, "The Message of the Prophet is meant to reform the people without any tinge of selfishness. As he does not force the people to accept his Message, there is no reason why you should feel offended. If you accept the Message, it will be for your own good, and if you reject it, you will be harming yourselves alone. For after conveying the Message, he is relieved of his duty and responsibility; then the matter will be between you and Us." Although this is a very simple and clear interpretation of verse 56 (and of similar other verses), yet some people erroneously conclude from it that the only duty and responsibility of the Prophet is to convey the Message and nothing else. They forget that the Qur'an has stressed over and over again that the Prophet is not only a giver of good news to the Believers but he is also their teacher, their lawgiver, judge and guide, a purifier of their morals and a model of life for them, and that every word which he utters is law which they have to obey and follow willingly in all walks of life and for all times to come.  Show more

سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :71 یعنی تمہارا کام نہ کسی ایمان لانے والے کو جزا دینا ہے ، نہ کسی انکار کرنے والے کو سزا دینا ۔ تم کسی کو ایمان کی طرف کھینچ لانے اور انکار سے زبردستی روک دینے پر مامور نہیں کیے گئے ہو ۔ تمہاری ذمہ داری اس سے زیادہ کچھ نہیں کہ جو راہ راست قبول کرے اسے انجام نیک کی...  بشارت دے دو ، اور جو اپنی بد راہی پر جما رہے اس کو اللہ کی پکڑ سے ڈرا دو ۔ اس طرح کے ارشادات قرآن مجید میں جہاں بھی آئے ہیں ان کا اصل روئے سخن کفار کی طرف ہے ، اور مقصد دراصل ان کو یہ بتانا ہے کہ نبی ایک بے غرض مصلح ہے جو خلق خدا کی بھلائی کے لیے خدا کا پیغام پہنچاتا ہے اور انہیں ان کے انجام کا نیک و بد بتا دیتا ہے ۔ وہ تمہیں زبردستی تو اس پیغام کے قبول کرنے پر مجور نہیں کرتا کہ تم خواہ مخواہ اس پر بگڑنے اور لڑنے پر تل جاتے ہو ۔ تم مانو گے تو اپنا ہی بھلا کرو گے ، اسے کچھ نہ دے دو گے ۔ نہ مانو گے تو اپنا نقصان کرو گے ، اس کا کچھ نہ بگاڑو گے ۔ وہ پیغام پہنچا کر سبکدوش ہو چکا ، اب تمہارا معاملہ ہم سے ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس بات کو نہ سمجھنے کی وجہ سے بسا اوقات لوگ اس غلط فہمی میں پڑ جاتے ہیں کہ مسلمانوں کے معاملے میں بھی نبی کا کام بس خدا کا پیغام پہنچا دینے اور انجام نیک کا مژدہ سنا دینے تک محدود ہے ۔ حالانکہ قرآن جگہ جگہ اور بار بار تصریح کرتا ہے کہ مسلمانوں کے لیے نبی صرف مبشر ہی نہیں ہے بلکہ معلم اور مزکی اور نمونہ عمل بھی ہے ، حاکم اور قاضی اور امیر مطاع بھی ہے ، اور اس کی زبان سے نکلا ہوا ہر فرمان ان کے حق میں قانون کا حکم رکھتا ہے جس کے آگے ان کو دل کی پوری رضا مندی سے سر تسلیم خم کرنا چاہیے ۔ لہٰذا سخت غلطی کرتا ہے وہ شخص جو : مَا عَلَی الرَّسُوْلِ اِلَّا الْبَلَاغ ۔ اور ۔ مَٓا اَرْسَلْنٰکَ اَلَّا مُبَشِّراً وَّ نَذِیْراً ، اور اسی مضمون کی دوسری آیات کو نبی اور اہل ایمان کے باہمی تعلق پر چسپاں کرتا ہے ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٥٦۔ ٥٧:۔ اوپر کی آیت میں جن لوگوں کا ذکر تھا ‘ جب وہ ہر وقت کی قرآن کی نصیحت کو سن کر شرک سے باز نہیں آتے تھے تو اس سے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بڑا رنج ہوتا تھا ‘ اس لیے فرمایا اے رسول اللہ کے رنج کی کوئی بات نہیں ہے تمہارا کام اتنا ہی ہے کہ شرک سے باز آنے والوں کو عقبیٰ کی بہبودی ک... ی خوشی اور شرک سے باز نہ آنے والوں کو آخرت کے عذاب کا ڈر سنا دو ‘ اس کے بعد اللہ تعالیٰ کے علم غیب میں جو لوگ نیک ٹھہر چکے ہیں ‘ ان کے دل پر ضرور قرآن کی نصیحت کا اثر ہوگا اور جو لوگ اللہ تعالیٰ کے علم غیب میں بد قرار پاچکے ہیں ‘ وہ مرتے دم تک برے کاموں کو اچھا جانتے رہیں گے اور قرآن کی نصیحت کا کچھ اثر ان کے دل پر پیدا نہ ہوگا ‘ پھر فرمایا ان لوگوں سے یہ بھی کہہ دیا جاوے کہ میں اس نصیحت کی کچھ مزدوری تم لوگوں سے نہیں مانگتا تاکہ اس مزدوری کے بار سے تم کو قرآن کی نصیحت کا سننا شاق گزرے ‘ پابند شریعت بن کر عقبیٰ کی بہبودی کی نیت سے کوئی شخص صدقہ و خیرات کرے ‘ وہ اور بات ہے مگر مجھ کو موافق ‘ مخالف کسی سے نصیحت کی مزدوری کا لینا جائز نہیں ہے ‘ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے حضرت علی (رض) حدیث کئی جگہ گزر چکی ہے کہ دنیا کے پیدا کرنے سے پہلے اپنے علم غیب کے نتیجہ کے طور پر اللہ تعالیٰ نے لوح محفوظ میں یہ لکھ لیا ہے کہ دنیا میں پیدا ہونے کے بعد کون شخص جنت میں جانے کے قابل کام کرے گا اور کون دوزخ میں جھونکے جانے کے قابل ‘ اب جس قابل ہر ایک شخص پیدا ہوا ہے ‘ مرتے دم تک ویسے ہی کام اس سے بن آتے ہیں ‘ اس حدیث کے آیتوں کے ساتھ ملانے سے یہ مطلب ہوا کہ مشرکین مکہ میں سے جو لوگ اللہ کے علم غیب میں بد اور دوزخ میں جھونکے جانے کے قابل ٹھہر چکے تھے ‘ اگرچہ ہر وقت ان کو قرآن کی نصیحت سنائی گئی اور یہی جتلایا گیا کہ اس نصیحت پر کوئی مزدوری تم لوگوں سے نہیں مانگی جاتی ‘ لیکن مرتے دم تک وہ شرک سے باز نہ آئے جس جرم کی سزا ہمیں ہمیشہ کے لیے دوزخی قرار پاکر دنیا سے اٹھ گئے۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ ان کے ایمان نہ لانے سے آپ کا کیا نقصان ہے، پھر آپ کیوں غم کریں، اور نہ آپ اس مخالفت کو معلوم کر کے فکر میں پڑیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

وما ارسلنک ……بہ خبیراً (٥٩) یوں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیفریضہ کی حدود کا تعین کردیا جاتا ہے۔ یہ کہ آپ خوشخبری سنانے والے اور انجام بد سے ڈرانے والے ہیں فقط اور مکہ میں آپ کو یہ حکم نہ دیا گیا تھا کہ آپ لوگوں کے ساتھ جنگ کریں ، کیونکہ مکہ میں تبلیغ دین کی پوری آزادی تھی لیکن بعد میں جب...  مسلمان مدینہ کو منتقل ہوئے تو اللہ نے قتال کا حکم دے دیا۔ مکہ میں اللہ نے حکم نہ دیا اور مدینہ میں قتال کا حکم دیا۔ اس کی حقیقی حکمت اللہ ہی جانتا ہے۔ جو کچھ ہم سمجھتے ہیں وہ یہ ہے کہ اس زمانہ میں ان لوگوں کو تربیت دی جا رہی تھی ، جن پر اس نظریہ حیات کا دار و مدار تھا ، جن کے دلوں میں یہ عقیدہ اچھی طرح بیٹھ گیا تھا اور جن کی زندگی اس عقیدے کی ترجمان تھی۔ یہ عقیدہ ان کے طرز عمل اور ان کی طرز زندگی کے اندر بیٹھ گیا تھا تاکہ اس تربیت کے بعد آئندہ جس معاشرے پر اسلامی حکومت قائم ہو یہ لوگ اس معاشرے کے لئے ریڑھ کی ہڈی بن جائیں اور دوسرا سبب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اگر مکہ میں جنگ شروع کردی جاتی تو ان خونی دشمنیوں کی وجہ سے قریش ہمیشہ کے لئے اس عقیدے سے محروم ہوجاتے اور ان کے اور اسلام کے درمیان ایک مستقل خلیج واقع ہوجاتی۔ جبکہ حکمت الٰہی اور تقدیر الٰہی میں مقدر یہ تھا کہ ہجرت کے بعد اور پھر فتح مکہ کے بعد سب کے سب قریش کو اسلام میں داخل ہونا تھا اور پھر ان میں سے جو لوگ نکلنے تھے ، انہیں بعد کے ادوار میں پورے عالم میں اسلام کے پھیلائو کے لئے بنیاد کا کام سر انجام دیتا تھا۔ لیکن مدینہ میں آغاز جہاد کے باوجود رسالت کی اصل ماہیت اور اس کا خلاصہ یہی تھا کہ رسول نے ” انداز وتبشیر “ کا کام کرنا تھا۔ جہاں تک قتال کا تعلق ہے وہ تو اس لئے جائز رکھا گیا ہے کہ دعوت اسلامی اور انداز اور تبشیر کی راہ میں اگر دنیا کے کسی خطے میں کوئی رکاوٹ کھڑی کردی گئی ہے تو اسے دور کردیا جائے۔ اسلام میں جنگ محض اس لئے کی جاتی ہے کہ دعوت و تبلیغ کی راہ میں اگر کوئی رکاوٹ ہے تو اسے دور کردیا جائے۔ لہٰذا یہ آیت کہ وما ارسلنک الا مبشراً و نذیراً (٢٥ : ٥٦) ” اور ہم نے نہیں بھیجا آپ کو مگر صرف مبشر اور نذیر کے طور پر۔ “ جس طرح مکہ میں درست ہے اسی طرح مدینہ کے حالات پر بھی منطبق ہے۔ قل ما اسئلکم علیہ من اجر الامن شآء ان یتخذالی ربہ سبیلاً (٢٥ : ٥٨) ” ان سے کہہ دو کہ ” میں اس کام پر تم سے کوئی اجرت نہیں مانگتا ، میری اجرت بس یہی ہے کہ جس کا جی چاہے وہ اپنے رب کا راستہ اختیار کرلے۔ “ اس لئے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس امر سے کوئی ذاتی فائدہ نہیں ہے کہ لوگ اسلام قبول کرلیں۔ نہ وہ کس سے فیس کے طلبگار ہیں ، نہ نذر و نیاز اور قربانیوں کی آمدن کے رسول طلبگار ہوتے ہیں۔ اسلام میں داخلہ کی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کوئی فیس مقرر نہ کر رکھی تھی۔ بس چند کلمات ایک شخص ادا کرتا اور دل سے ان پر یقین کرتا۔ یہی اسلام تھا کیونکہ اسلام میں کوئی کاہن نہیں ہوتا کہ وہ لوگوں کو مقدس کرنے کی کوئی فیس لیتا ہو۔ نہ وہ اللہ اور لوگوں کے درمیان کوئی دلالل ہوتا ہے جو اپنی دلالی کا کمیشن لیتا ہو۔ اسلام میں دخول کے لئے کوئی رسم ہے ، نہ کوئی راز ہے اور نہ دخول کے وقت کسی کو کوئی خاص رسم ادا کرنی ہوتی ہے۔ اسی سے معلوم ہوا کہ دین اسلام کس قدر سادہ ، قدرتی اور فطری دین ہے۔ بس ایک عقیدہ ہے جو دل میں داخل ہوجائے۔ انسانی دل اور عقیدہ اسلام کے درمیان کوئی رسمی واسطہ نہیں ہے۔ نہ کوئی کاہن ، نہ کوئی پیرو فقیر۔ رسول کا اجر بس یہی ہے کہ دین حق کسی کے دل میں داخل ہوجائے اور کوئی بندہ اپنے حقیقی رب کے قریب ہوجائے۔ الا من شآء ان یتخذ الی ربہ سبیلاً (٢٥ : ٥٨) ” بس یہی اجر ہے کہ جس کا جی چاہے وہ اپنے رب کی طرف راستہ اختیار کرلے۔ “ صرف یہی اجر ہی رسول کا۔ رسول کا پاک دل اور رسول کا پاک شعور صرف اسی اجر پر رضای ہوتا ہے کہ ایک بندہ گم کردہ راہ ، اپنے رب کی طرف راہ پا لے۔ رب راضی ہوجائے اور وہ رب کے طریقے پر چل پڑے اور پوری زندگی میں اپنے مولیٰ کی طرف متوجہ ہوجائے۔ و توکل علی ……بحمدہ (٢٥ : ٥٨) ” اور اے نبی اس خدا پر بھروسہ رکھو جو زندہ ہے اور کبھی مرنے والا نہیں ، اس کے حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرو۔ “ اللہ کے سوا جتنی بھی مخلوق ہے وہ مرنے والی ہے کیونکہ یہ تمام مخلوق رات دن موت کی طرف رواں ہے۔ باقی رہنے والا صرف اللہ ہے وہ ایسا زندہ ہے جو کبھی مرنے والا نہیں ہے۔ اور کسی ایسے زندہ شخص پر بھروسہ کرنا جس نے ایک دن مرنا ہے طویل عمر کے بعد یا قصیر کے بعد ، ایک ایسی ذات پر بھروسہ کرنا ہے جس نے ایک دن گرنا ہے۔ ایک ایسے سایہ کے نیچے آتا ہے جس نے کسی وقت زوال پاتا ہے۔ توکل تو اسی حسی اور زندہ پر کرنا چاہئے جس نے کبھی نہیں مرنا۔ اس کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح اور پاکی بیان کرو۔ حمد اور تعریف بھی صرف اللہ کی کرنا چاہئے جو منعم حقیقی اور وہاب حقیقی ہے اور اے پیغمبر آپ ان کفار کی پرواہ نہ کریں جن پر انذار اور تبشیر کا اثر نہیں ہوتا۔ ان لوگوں کے بارے میں وہ اچھی طرح جانتا ہے۔ وکفی بہ بذنوب عبادہ خبیراً (٢٥ : ٥٨) ” اپنے بندوں کے گناہوں سے بس اسی کا باخبر ہونا کافی ہے۔ “ وہ اللہ اپنے بندوں کے حالات سے خوب باخبر ہے اس لئے جزاء و سزا دے سکتا ہے اور وہ اس کی طاقت بھی رکھتا ہے کہ اس نے زمین آسمان کو پیدا کیا ہے اور وہ مسلسل بادشاہت کی کرسی عرش پر متمکن ہ۔ الذی خلق ……خبیراً (٢٥ : ٥٩) ” وہ جس نے چھ دنوں میں زمین اور آسمانوں کو اور ان ساری چیزوں کو بنا کر رکھ دیا جو آسمانوں اور زمین کے درمیان ہیں ، پھر آپ ہی ” عرش “ پر جلوہ فرما ہوا۔ رحمٰن ہے وہ۔ اس سے پوچھو کہ وہ جاننے والا ہے۔ “ وہ ایام جن میں اللہ نے زمین و آسمان کو پیدا کیا ، وہ ہمارے زمینی دنوں سے مختلف تھے کیونکہ یہ دن تو نظام شمسی کی تشکیل کے بعد شروع ہوئے۔ ینی زمین و آسمانوں کی پیدائش کے بعد جب اللہ نے زمین کا سورج کے اردگرد چکر مقرر کیا اور خود زمین کا اپنے محور کے اردگرد چکر شروع ہوا تو اس کے نتیجے میں ہمارے ایام شروع ہوئے۔ اللہ کی تخلیق تو صرف لفظ کن سے ہوتی ہے یعنی اللہ کا حکم ہوجائے تو ہر چیز ہوجاتی ہے۔ رہے یہ چھ دن تو ان کی حقیقت اور مقدار صرف اللہ جانتا ہے۔ یہ بہت ہی طویل دن ہوں گے اور ان دنوں میں زمین و آسمان مختلف ادوار اور بطوار سے گزر کر موجودہ شکل میں آ کر ن کے ہوں گے۔ رہی یہ بات کہ اللہ رش پر کیسے متمکن ہوا تو اس سے مراد صرف یہ ہے کہ اس کائنات پر اللہ کی حکومت اور اقتدار ہے۔ یہاں لفظ (ثم) سے مراد زمانی ترتیب نہیں ہے۔ ینی یہ کہ پہلے تخلیقہوئی اور بعد میں تمکین علی العرش ہوئی۔ ایسا نہیں ہے۔ یہ ثم یہاں علوشان اور مرتبہ بلند کے معنی میں ہے۔ اللہ کی اس علوشان اور اقتدار عظیم الشان کے بعد پھر اللہ الرحمٰن بھی ہے اور تم نے جو کچھ پوچھنا ہے اس سے پوچھو ، جب تم اس سے پوچھو گے تو ایک نہایت ہی خبردار سے پوچھو گے کہ وہ زمین و آسمان کی ہر چیز کو جانتا ہے۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

37:۔ ” و ما ارسلنک الخ “ یہ سوال مقدر کا جواب ہے۔ مشرکین ازراہِ ضد و مکابرہ کہتے کوئی معجزہ دکھا دو تو ہم مان لیں گے تو فرمایا ہم نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بشیر و نذیر بنا کر بھیجا ہے معجزات لانا ان کے اختیار میں نہیں۔ ہم مصالح کے تحت جب چاہتے اور مناسب سمجھتے ہیں اپنے پیغبر کے ہاتھ پر مع... جزہ ظاہر کردیتے ہیں ” قل ما اسئلکم علیہ من اجر الخ “ آپ یہ بھی فرما دیں کہ آخر میری تبلیغ تمہیں شاق کیوں گذرتی ہے میں تم سے تبلیغ پر کوئی مزدوری یا تنخواہ تو نہیں مانگتا۔ میرا تم سے صرف یہی مطالبہ ہے کہ تم صدق نیت اور رضاء قلب سے توحید کی راہ اختیار کرو اور اللہ کے دین کو قبول کرلو۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(56) اور ہم نے آپ کو صرف خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا بناکر بھیجا ہے یعنی آپ ان منکرین دین حق کی شرارتوں سے متاثر اور غمگین نہ ہوں آپ کا کام صرف اتنا ہے کہ نیکوں کو بشارت دیدیں اور بدکار لوگوں کو خدا تعالیٰ کے عذاب سے ڈرا دیں باقی ان کی مخالفت وغیرہ کی کوئی فکر آپ کو نہ ہونی چاہئے بلکہ ہر کام می... ں اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کیجئے اور اپنا کام کرتے رہیے۔  Show more