Surat ul Furqan

Surah: 25

Verse: 6

سورة الفرقان

قُلۡ اَنۡزَلَہُ الَّذِیۡ یَعۡلَمُ السِّرَّ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ اِنَّہٗ کَانَ غَفُوۡرًا رَّحِیۡمًا ﴿۶﴾

Say, [O Muhammad], "It has been revealed by He who knows [every] secret within the heavens and the earth. Indeed, He is ever Forgiving and Merciful."

کہہ دیجئے کہ اسے تو اس اللہ نے اتارا ہے جو آسمان و زمین کی تمام پوشیدہ باتوں کو جانتا ہے بیشک وہ بڑا ہی بخشنے والا ہے مہربان ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

قُلْ أَنزَلَهُ الَّذِي يَعْلَمُ السِّرَّ فِي السَّمَاوَاتِ وَالاَْرْضِ ... Say: "It has been sent down by Him Who knows the secret of the heavens and the earth." meaning, He has revealed the Qur'an which includes true information about the earlier and later generations, information which concurs with the realities of the past and future. الَّذِي يَعْلَمُ السِّرَّ (Who knows the secret), means, Allah is the One Who knows the unseen in the heavens and on the earth; He knows their secrets just as He knows what is visible therein. ... إِنَّهُ كَانَ غَفُورًا رَّحِيمًا Truly, He is Oft-Forgiving, Most Merciful. This is an invitation to them to repent and turn back to Allah, telling them that His mercy is vast and His patience is immense. Whoever repents to Him, He accepts his repentance. Despite all their lies, immorality, falsehood, disbelief and stubbornness, and saying what they said about the Messenger and the Qur'an, He still invites them to repent and give up their sin, and to come to Islam and true guidance. This is like the Ayat: لَّقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ قَالُواْ إِنَّ اللَّهَ ثَـلِثُ ثَلَـثَةٍ وَمَا مِنْ إِلَـهٍ إِلاَّ إِلَـهٌ وَحِدٌ وَإِن لَّمْ يَنتَهُواْ عَمَّا يَقُولُونَ لَيَمَسَّنَّ الَّذِينَ كَفَرُواْ مِنْهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ أَفَلَ يَتُوبُونَ إِلَى اللَّهِ وَيَسْتَغْفِرُونَهُ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ Surely, disbelievers are those who said: "Allah is the third of the three." But there is no god but One God. And if they cease not from what they say, verily, a painful torment will befall on the disbelievers among them. Will they not turn with repentance to Allah and ask His forgiveness! For Allah is Oft-Forgiving, Most Merciful. (5:73-74) إِنَّ الَّذِينَ فَتَنُواْ الْمُوْمِنِينَ وَالْمُوْمِنَـتِ ثُمَّ لَمْ يَتُوبُواْ فَلَهُمْ عَذَابُ جَهَنَّمَ وَلَهُمْ عَذَابُ الْحَرِيقِ Verily, those who put into trial the believing men and believing women, and then do not turn in repentance, then they will have the torment of Hell, and they will have the punishment of the burning Fire. (85:10) Al-Hasan Al-Basri said: "Look at this kindness and generosity! They killed His friends and He is calling them to repentance and mercy."

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

61یہ ان کے جھوٹ اور افترا کے جواب میں کہا کہ قرآن کو تو دیکھو، اس میں کیا ہے ؟ کیا اس کی کوئی بات غلط اور خلاف واقعہ ہے ؟ یقینا نہیں ہے، بلکہ ہر بات بالکل صحیح اور سچی ہے، اس لئے کہ اس کو اتارنے والی ذات وہ ہے جو آسمان و زمین کی ہر پوشیدہ بات کو جانتا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٩] اس کے بعد اب ایک ہی صورت باقی رہ جاتی ہے کہ یہ قرآن کسی ایسی باخبر اور حکیم ہستی کی طرف نازل شدہ ہو۔ جو ماضی کے حالات سے خوب واقف اور ان یہود و نصاریٰ کی کارستانیوں سے بھی باخبر ہو۔ زمانہ حال کے حالات سے بھی پوری طرح باخبر ہو اور موقع و محل اور احوال و ظروف کے مطابق ایسے احکام نازل کردہ ہو جو سراسر عدل اور حکمت پر مبنی ہوں اور مستقبل میں پیش آنے والے واقعات بھی اس کے سامنے ہوں۔ پھر اس کا انداز خطاب بڑا دل نشین اور اثر کے لحاظ سے دل کی گہرائیوں تک اتر جانے والا ہو۔ اور اس کے مقابلہ میں کلام پیش کرنا ناممکنات سے ہو اور وہ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہی ہوسکتی ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قُلْ اَنْزَلَهُ الَّذِيْ يَعْلَمُ السِّرَّ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ : یہ ان کے جھوٹ اور افترا کے جواب میں فرمایا کہ قرآن کو تو دیکھو اس میں کیا ہے ؟ کیا اس کی کوئی بات غلط اور خلاف واقعہ ہے ؟ یقیناً نہیں ہے، بلکہ ہر بات بالکل سچی اور صحیح ہے، اس لیے کہ اس کو اتارنے والی وہ ذات ہے جس کے پاس زمین و آسمان کی ظاہر باتوں ہی کا نہیں تمام پوشیدہ باتوں کا بھی پورا علم ہے۔ وہ ماضی کو جانتا ہے، حال اور مستقبل کو بھی۔ اس لیے اس کی نازل کردہ کتاب میں گزشتہ زبانوں کی باتیں ہیں، حال کی بھی اور آئندہ زمانے کی بھی اور ان میں سے کوئی بات غلط ثابت ہوئی ہے نہ ہوگی۔ جو شخص آسمانوں اور زمین کے تمام راز نہ جانتا ہو وہ اس جیسی کتاب تو کجا اس جیسی ایک سورت بھی نہیں بنا سکتا، اگر تمہیں اصرار ہے کہ یہ اللہ کا کلام نہیں بلکہ بندے کی تصنیف ہے، تو تم بھی مقابلے میں کوئی سورت لے آؤ۔ اِنَّهٗ كَانَ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا : یہ اس سوال کا جواب ہے کہ جو سب چیزوں کا علم رکھتا ہو وہ ہر چیز پر قادر بھی ہوتا ہے، پھر وہ ان لوگوں کے انکار، تکبر اور استہزا پر فوری گرفت کیوں نہیں کرتا۔ فرمایا وجہ یہ ہے کہ ” اِنَّهٗ كَانَ “ یعنی وہ ہمیشہ سے بندوں کے گناہوں پر بہت پردہ ڈالنے والا ہے، دائمی رحم والا ہے، وہ چاہتا تو اس گستاخی پر انھیں سخت سزا دیتا، مگر وہ غفور و رحیم ہے، اس لیے تم سے درگزر کر رہا ہے۔ اس میں انھیں توبہ وانابت اور اسلام و ہدایت کی طرف پلٹ آنے کی ترغیب ہے۔ شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں : ” یعنی (آسمان و زمین کی چھپی ہوئی باتیں جاننے والے نے) اپنی بخشش اور مہربانی سے ہی اسے اتارا ہے۔ “ (موضح) یعنی اس کی مغفرت و رحمت یہ قرآن اتارنے کا باعث ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary From this point onward the objections raised by infidels and polytheists against the Holy Qur&an and the prophethood of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) are related together with the answers to those objections. The first objection was that the Qur&an was not a revealed book from Allah Ta’ ala, but has been compiled from the old stories and narrations by the Jews and Christians which have been reduced into writing by the Companions of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، since he himself was illiterate and could not write. And because he could not read or write, he would get them read out to him day and night, so that he could remember them by heart, then he would repeat them before people and claim that he had received that revelation from Allah Ta’ ala. The answer to this objection was given by the Holy Qur’ an قُلْ أَنزَلَهُ الَّذِي يَعْلَمُ السِّرَّ‌ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضِ , that is (Say, |"It is sent down by the One who knows the secret in the heavens and the earth - 25:6). The essence of this answer is that the Qur&an itself is an evidence to the fact that it is the Divine message from Him who is Omniscient and who knows fully well all the secrets of the Heavens and the earth. This is why Qur&an is a miraculous Message, and the whole world is challenged to bring out a Surah or even a verse to match it, if its divine origin is refused. This was a challenge to a people - the Arabs - who were well known for their literary proficiency and art of expression, and for whom composition of a piece of literature was not a problem. But they too did not dare to attempt to compose something similar to Qur’ an. Although they were willing to sacrifice all their material wealth for opposing the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) in his mission, so much so that they were willing to sacrifice even their children and their own lives to counter the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) mission and message, but they dared not attempt to compose a passage similar to a Surah of the Qur&an. This is a clear proof of the fact that it is not a work of a human being. Otherwise other people could also have composed passages similar to Qur&an. Therefore, it is definitely the revelation from Allah Ta ala. Apart from the beauty of expression and language, the Book also excels in its meanings. The multifarious subjects it covers can only be dealt by One who knows everything whether hidden or exposed. This subject has been dealt with in detail in the first volume of Ma’ ariful Qur&an.

معارف ومسائل کفار و مشرکین جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت اور قرآن پر اعتراضات کیا کرتے تھے یہاں سے ان کے اعتراضات اور پھر جوابات کا سلسلہ شروع ہو کر کچھ دور تک چلا ہے۔ پہلا اعتراض یہ تھا کہ قرآن کوئی اللہ کی طرف سے نازل کیا ہوا کلام نہیں بلکہ آپ نے اس کو خود ہی جھوٹ گھڑ لیا ہے یا پچھلے لوگوں کے قصے یہود و نصاری وغیرہ سے سن کر اپنے صحابہ سے لکھوا لیتے ہیں اور چونکہ خود امی ہیں، نہ لکھنا جانتے ہیں نہ پڑھنا اس لئے ان لکھے ہوئے قصوں کو صبح شام سنتے رہتے ہیں تاکہ وہ یاد ہوجاویں پھر لوگوں کے سامنے جا کر یہ کہہ دیں کہ یہ اللہ کا کلام ہے۔ اس اعتراض کا جواب قرآن کریم نے یہ دیا قُلْ اَنْزَلَهُ الَّذِيْ يَعْلَمُ السِّرَّ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اس جواب کا حاصل یہ ہے کہ کلام خود اس کا شاہد ہے کہ اس کی نازل کرنے والی وہ ذات پاک حق تعالیٰ کی ہے جو آسمانوں اور زمین کے سب خفیہ رازوں سے واقف و باخبر ہے۔ اسی لئے قرآن کو ایک کلام معجز بنایا اور ساری دنیا کو چیلنج کیا کہ اگر اس کو تم خدا کا کلام نہیں مانتے کسی انسان کا کلام سمجھتے ہو تو تم بھی انسان ہو اس جیسا کلام زیادہ نہیں تو ایک سورة بلکہ ایک آیت ہی بنا کر دکھلا دو ۔ یہ چیلنج جس کا جواب دینا عرب کے فصیح وبلیغ لوگوں کے لئے کچھ بھی مشکل نہیں مگر انہوں نے اس سے راہ فرار اختیار کی۔ کسی کو اتنی جرأت نہیں ہوئی کہ قرآن کی ایک آیت کے مقابلہ میں اس جیسی دوسری آیت لکھ لائے۔ حالانکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت میں اپنا مال و متاع بلکہ اپنی اولاد اور اپنی جان تک خرچ کرنے کو تیار ہوگئے۔ یہ مختصر سی بات نہ کرسکے کہ قرآن کی مثل ایک سورت لکھ لاتے یہ دلیل واضح اس امر کی ہے کہ یہ کلام کسی انسان کا نہیں، ورنہ دوسرے انسان بھی ایسا کلام لکھ سکتے، صرف اللہ تعالیٰ علیم وخبیر ہی کا ہے۔ علاوہ فصاحت و بلاغت کے اس کے تمام معانی و مضامین بھی ایسے علوم پر مشتمل ہیں جو اس ذات کی طرف سے ہوسکتے ہیں جو ہر ظاہر و باطن کا جاننے والا ہے (اس مضمون کی پوری تفصیل سورة بقرہ میں اعجاز قرآن پر مکمل بحث کی صورت میں بیان ہوچکی ہے اس کو معارف القرآن جلد اول میں دیکھ سکتے ہیں)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قُلْ اَنْزَلَہُ الَّذِيْ يَعْلَمُ السِّرَّ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝ ٠ۭ اِنَّہٗ كَانَ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا۝ ٦ نزل النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ. يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] ( ن ز ل ) النزول ( ض ) اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا سرر الْإِسْرَارُ : خلاف الإعلان، قال تعالی: سِرًّا وَعَلانِيَةً [إبراهيم/ 31] ، وقال تعالی: وَيَعْلَمُ ما تُسِرُّونَ وَما تُعْلِنُونَ [ التغابن/ 4] ، وقال تعالی: وَأَسِرُّوا قَوْلَكُمْ أَوِ اجْهَرُوا بِهِ [ الملک/ 13] ، ويستعمل في الأعيان والمعاني، والسِّرُّ هو الحدیث المکتم في النّفس . قال تعالی: يَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفى [ طه/ 7] ، وقال تعالی: أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ سِرَّهُمْ وَنَجْواهُمْ [ التوبة/ 78] ، وسَارَّهُ : إذا أوصاه بأن يسرّه، وتَسَارَّ القومُ ، وقوله : وَأَسَرُّوا النَّدامَةَ [يونس/ 54] ، أي : کتموها ( س ر ر ) الاسرار کسی بات کو چھپانا یہ اعلان کی ضد ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ سِرًّا وَعَلانِيَةً [إبراهيم/ 31] اور پوشیدہ اور ظاہر اور فرمایا : ۔ وَيَعْلَمُ ما تُسِرُّونَ وَما تُعْلِنُونَ [ التغابن/ 4]( کہ ) جو کچھ یہ چھپاتے اور جو کچھ یہ ظاہر کرتے ہیں خدا کو ( سب ) معلوم ہے ۔ وَأَسِرُّوا قَوْلَكُمْ أَوِ اجْهَرُوا بِهِ [ الملک/ 13] اور تم ( لوگ ) بات پوشیدہ کہو یا ظاہر ۔ اور اس کا استعمال اعیال ومعانی دونوں میں ہوتا ہے السر ۔ اس بات کو کہتے ہیں جو دل میں پوشیدہ ہو ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ يَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفى [ طه/ 7] وہ چھپے بھید اور نہایت پوشیدہ بات تک کو جانتا ہے ۔ نیز فرمایا۔ أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ سِرَّهُمْ وَنَجْواهُمْ [ التوبة/ 78] کہ خدا ان کے بھیدوں اور مشوروں تک سے واقف ہے ۔ سارۃ ( مفاعلہ ) کے معنی ہیں کسی بات کو چھپانے کی وصیت کرنا غفر الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] ( غ ف ر ) الغفر ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔ رحم والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» ( ر ح م ) الرحم ۔ الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ،

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٦) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان سے فرما دیجیے کہ قرآن کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تو جبریل امین (علیہ السلام) کے ذریعے اس ذات نے نازل کیا ہے جس کو ہر ایک پوشیدہ بات کی خواہ آسمانوں میں ہو یا زمین میں خبر ہے اور وہ توبہ کرنے والے کی مغفرت فرمانے والا اور جو توبہ پر مرے اس پر رحم کرنے والا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

12 This is the same objection which the modern orientalists have raised against the Qur'an, but strange as it may seem, no contemporary of the Holy Prophet ever raised such an objection against him. Nobody, for instance, ever said that Muhammad (Allah's peace be upon him) as a boy had met Buhairah, the monk, and had attained religious knowledge from him, nor did anybody claim that he had obtained all that information from the Christian monks and Jewish rabbis during the trade journeys in his youth. In fact, they knew that he had never travelled alone but in the caravans and if they said such a thing, it would be refuted by hundreds of their own people from the city. Then, one could ask, if he had gained all that knowledge from Buhairah when he was about 12, and during trade journeys when he was 25, why did he keep it secret from the people till he became 40? whereas he did not leave his country even for a single day, but lived for years among his own people in the same city. That is why the people of Makkah dared not bring such an impudent and baseless charge against him. Their objections related to the time when he claimed to be a Prophet of Allah and not to the time preceding that claim. Their argument was like this: "This man is illiterate and cannot obtain any knowledge through books. He has lived among us for forty years, but we have never heard from him anything that might have shown that he had any acquaintance with what he is preaching; therefore he must have had the help of other people who copied these things from the writings of the ancients for him: he learns these things from them and recites them as Divine Revelations: this is a fraud." So much so that according to some traditions, they named some of his "helpers", who were the people of the Book, were illiterate and lived in Makkah. They were: (1) Addas, a freed slave of Huvaitib bin `Abdul `Uzza(2) Yasar, a freed slave of 'Ala bin AlHadrami, and (3) Jabr, a freed slave of `Amir bin Rabbi`ah . Apparently this is a weighty argument. For there can be no greater proof of the "fraud" of Prophethood than to specify its source. But it looks strange that no argument has been put forward to refute this charge except a mere denial, as if to say, "Your charge is an impudent lie: you are cruel and unjust to bring such a false charge against Our Messenger; for the Qur'an is the Word of Allah Who knows all the secrets in the heavens and the earth. " Had their charge been based on facts, it would not have been rejected with contempt, for in that case the disbelievers would have demanded a detailed and clear answer. But they realized the strength of the arguments and did not make such a demand. Moreover, the fact that the "weighty" argument failed to produce any doubt in the minds of the new Muslims, was a clear proof that it was a lie. The enigma is clearly explained if we keep in view the prevalent circumstances (1) The disbelievers of Makkah did not take any decisive steps to prove their charge, although they could, had there been any truth in their charge. For instance, they could have made raids on the houses of the alleged helpers and on the house of the Holy Prophet himself and taken hold of the whole "material" which was being used in this "fraud", and made it public to expose his Prophethood. And this was not difficult for them because they never hesitated to resort to anything to defeat him, including persecution, as they were not bound by any moral code. (2) The alleged helpers were not strangers. As they lived in Makkah, everyone knew it well how learned they were. The disbelievers themselves knew that they could never have helped to produce a unique and sublime Book like the Qur'an which had the highest literary excellence and merit. That is why none of them challenged the answer to the charge. That is why even those people, who did not know them, considered this frivolous. Then if the alleged helpers were such geniuses, why did they not claim to be prophets themselves? (3) Then, aII the alleged helpers were freed slaves who were attached"to their former masters even after their freedom according to the customs of Arabia; therefore they could not have become willing accomplices of the Holy Prophet in this "fraud" of false prophethood because their former masters could have coerced them to expose it. The only reason for them to help the Holy Prophet in his claim could have been some greed or interest which, under the circumstances, could not even be imagined. Thus, apparently there was no reason why they should have offended those whose protection and patronage they needed and enjoyed, and become accomplices in the "fraud". (4) Above all, all these alleged helpers embraced Islam. Could it be possible that those very persons, who had helped the Holy Prophet to make his "fraud" successful, could have possibly become his devoted followers? Moreover, if, for the sake of argument, it be admitted that they helped him, why was not any of them raised to a prominent rank as a reward of his help? Why were not 'Addas and Yasar and Jabr exalted to the same status as were Abu Bakr and 'Umar and Abu 'Ubaidah? Another odd flung is that if the "fraud" of prophethood was being carried on with the help of the alleged helpers, how could it remain hidden from Zaid bin Harithah, 'AIi bin Abi Talib, Abu Bakr and other people, who were the Holy Prophet's closest and most devoted Companions? Thus the charge was not only frivolous and false, but it was also below the dignity of the Qur'an to give any answer to it. The charge has been cited merely to prove that those people had been so blinded by their opposition to the Truth that they could say anything. 13 "... He is very Forgiving and Merciful" is very meaningful here. It means that Allah is giving full respite to the enemies of the Truth, for He is "Forgiving and Merciful"; otherwise He would have sent down a scourge to annihilate them because of the false charges they were bringing against the Messenger. It also contains an admonition, as if to say, "O unjust people! if even now you give up your enmity and obduracy and accept the Truth, We shall forgive your previous misdeeds.

سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :12 یہ وہی اعتراض ہے جو اس زمانے کے مستشرقین مغرب قرآن مجید کے خلاف پیش کرتے ہیں ۔ لیکن یہ عجیب بات ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم عصر دشمنوں میں سے کسی نے بھی یہ نہیں کہا کہ تم بچپن میں بحیرا راہب سے جب ملے تھے اس وقت یہ سارے مضامین تم نے سیکھ لیے تھے ۔ اور نہ یہ کہا کہ جوانی میں جن تجارتی سفروں کے سلسلے میں تم باہر جایا کرتے تھے اس زمانے میں تم نے عیسائی راہبوں اور یہودی ربّیوں سے یہ معلومات حاصل کی تھیں ۔ اس لیے کہ ان سارے سفروں کا حال ان کو معلوم تھا ۔ یہ سفر اکیلے نہیں ہوئے تھے ، ان کے اپنے قافلوں کے ساتھ ہوئے تھے اور وہ جانتے تھے کہ ان میں کچھ سیکھ آنے کا الزام ہم لگائیں گے تو ہمارے اپنے ہی شہر میں سیکڑوں زبانیں ہم کو جھٹلا دیں گی ۔ اس کے علاوہ مکے کا ہر عام آدمی پوچھے گا کہ اگر یہ معلومات اس شخص کو بارہ تیرہ برس کی عمر ہی میں بحیرا سے حاصل ہو گئی تھیں ، یا 25 برس کی عمر سے ، جبکہ اس نے تجارتی سفر شروع کیے تھے ، حاصل ہونی شروع ہو گئی تھیں ، تو آخر یہ شخص کہیں باہر تو نہیں رہتا تھا ، ہمارے ہی درمیان رہتا بستا تھا ، کیا وجہ ہے کہ چالیس برس کی عمر تک اس کا یہ سارا علم چھپا رہا اور کبھی ایک لفظ بھی اس کی زبان سے ایسا نہ نکلا جو اس علم کی غمازی کرتا ؟ یہی وجہ ہے کہ کفار مکہ نے اتنے سفید جھوٹ کی جرأت نہ کی اور اسے بعد کے زیادہ بے حیا لوگوں کے لیے چھوڑ دیا ۔ وہ جو بات کہتے تھے وہ نبوت سے پہلے کے متعلق نہیں بلکہ دعوائے نبوت کے زمانے کے متعلق تھی ۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ یہ شخص ان پڑھ ہے ۔ خود مطالعہ کر کے نئی معلومات حاصل کر نہیں سکتا ۔ پہلے اس نے کچھ سیکھا نہ تھا ۔ چالیس برس کی عمر تک ان باتوں میں سے کوئی بات بھی نہ جانتا تھا جو آج اس کی زبان سے نکل رہی ہیں ۔ اب آخر یہ معلومات آ کہاں سے رہی ہیں ؟ ان کا سرچشمہ لامحالہ کچھ اگلے لوگوں کی کتابیں ہیں جن کے اقتباسات راتوں کو چپکے چپکے ترجمہ اور نقل کرائے جاتے ہیں ، انہیں کسی سے یہ شخص پڑھوا کر سنتا ہے ، اور پھر انہیں یاد کر کے ہمیں دن کو سناتا ہے ۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سلسلے میں وہ چند آدمیوں کے نام بھی لیتے تھے جو اہل کتاب تھے ، پڑھے لکھے تھے ، اور مکہ میں رہتے تھے ، یعنی عداس ( حُوَیطِب بن عبد العزّیٰ کا آزاد کر دہ غلام ) یَسَار ( علاء بن الحضرمی کا آزاد کردہ غلام ) اور جَبرْ ( عامر بن ربیعہ کا آزاد کردہ غلام ) ۔ بظاہر بڑا وزنی اعتراض معلوم ہوتا ہے ۔ وحی کے دعوے کو رد کرنے کے لیے نبی کے مآخذِ علم کی نشان دہی کر دینے سے بڑھ کر اور کونسا اعتراض وزنی ہو سکتا ہے ۔ مگر آدمی پہلی ہی نظر میں یہ دیکھ کر حیران ہو جاتا ہے کہ جواب میں سے کوئی دلیل پیش نہیں کی گئی ، بلکہ صرف یہ کہہ کر بات ختم کر دی گئی کہ تم صداقت پر ظلم کر رہے ہو ، صریح بے انصافی کی بات کہہ رہے ہو ، سخت جھوٹ کا طوفان اٹھا رہے ہو ، یہ تو اس خدا کا کلام ہے جو آسمان و زمین کا بھید جانتا ہے ۔ کیا یہ حیرت کی بات نہیں کہ سخت مخالفت کے ماحول میں ایسا زوردار اعتراض پیش کیا جائے اور اس کو یوں حقارت سے رد کر دیا جائے ؟ کیا واقعی یہ ایسا ہی پوچ اور بے وزن اعتراض تھا ، کہ اس کے جواب میں بس جھوٹ اور ظلم کہہ دینا کافی تھا ؟ آخر وجہ کیا ہے کہ اس مختصر سے جواب کے بعد نہ عوام نے کسی تفصیلی اور واضح جواب کا مطالبہ کیا ، نہ نئے نئے ایمان لانے والوں کے دلوں میں کوئی شک پیدا ہوا ، اور نہ مخالفین ہی میں سے کسی کو یہ کہنے کی ہمت ہوئی کہ دیکھو ، ہمارے اس وزنی اعتراض کا جواب بن نہیں پڑ رہا ہے اور محض جھوٹ اور ظلم کہہ کر بات ٹالی جا رہی ہے ؟ ۔ اس گتھی کا حل ہمیں اسی ماحول سے مل جاتا ہے جس میں مخالفین اسلام نے یہ اعتراض کیا تھا: پہلی بات یہ تھی کہ مکے کے وہ ظالم سردار جو ایک ایک مسلمان کو مارتے کوٹتے اور تنگ کرتے پھر رہے تھے ، ان کے لیے یہ بات کچھ بھی مشکل نہ تھی کہ جن جن لوگوں کے متعلق وہ کہتے تھے کہ یہ پرانی پرانی کتابوں کے ترجمے کر کر کے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو یاد کرایا کرتے ہیں ، ان کے گھروں پر اور خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر پر چھاپے مارتے اور وہ سارا ذخیرہ برآمد کر کے پبلک کے سامنے لا رکھتے جو ان کے زعم میں اس کام کے لیے فراہم کیا گیا تھا ۔ وہ عین اس وقت چھاپا مار سکتے تھے جبکہ یہ کام کیا جا رہا ہو اور ایک مجمع کو دکھا سکتے تھے کہ لو دیکھو ، یہ نبوت کی تیاریاں ہو رہی ہیں ۔ بلال رضی اللہ عنہ کو تپتی ہوئی ریت پر گھسیٹنے والوں کے لیے ایسا کرنے میں کوئی آئین و ضابطہ مانع نہ تھا ، اور ایسا کر کے وہ ہمیشہ کے لیے نبوت محمدی کے خطرے کو مٹا سکتے تھے ۔ مگر وہ بس زبانی اعتراض ہی کرتے رہے اور ایک دن بھی یہ فیصلہ کن قدم اٹھا کر انہوں نے نہ دکھایا ۔ دوسری بات یہ تھی کہ اس سلسلے میں وہ جن لوگوں کے نام لیتے تھے وہ کہیں باہر کے نہ تھے ، اسی شہر مکہ کے رہنے والے تھے ۔ ان کی قابلیتیں کسی سے چھپی ہوئی نہ تھیں ۔ ہر شخص جو تھوڑی سی عقل بھی رکھتا تھا ، یہ دیکھ سکتا تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم جو چیز پیش کر رہے ہیں وہ کس پائے کی ہے ، کس شان کی زبان ہے ، کس مرتبے کا ادب ہے ، کیا زور کلام ہے ، کیسے بلند خیالات اور مضامین ہیں ، اور وہ کس درجے کے لوگ ہیں جن کے متعلق کہا جاتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ان سے یہ سب کچھ حاصل کر کر کے لا رہے ہیں ۔ اسی وجہ سے کسی نے بھی اس اعتراض کو کوئی وزن نہ دیا ۔ ہر شخص سمجھتا تھا کہ ان باتوں سے بس دل کے جلے پھپھولے پھوڑے جا رہے ہیں اور نہ اس قول میں کسی شبہ کے قابل بھی جان نہیں ہے ۔ جو لوگ ان اشخاص سے واقف نہ تھے وہ بھی آخر اتنی ذرا سی بات تو سوچ سکتے کہ اگر یہ لوگ ایسی ہی قابلیت رکھتے تھے تو آخر انہوں نے خود اپنا چراغ کیوں نہ جلایا ؟ ایک دوسرے شخص کے چراغ کو تیل مہیا کرنے کی انہیں ضرورت کیا پڑی تھی؟ اور وہ بھی چپکے چپکے کہ اس کام کی شہرت کا ذرا سا حصہ بھی ان کو نہ ملے ؟ تیسری بات یہ تھی کہ وہ سب اشخاص ، جن کا اس سلسلے میں نام لیا جا رہا تھا ، بیرونی ممالک سے آئے ہوئے غلام تھے جن کو ان کے مالکوں نے آزاد کر دیا تھا ۔ عرب کی قبائلی زندگی میں کوئی شخص بھی کسی طاقتور قبیلے کی حمایت کے بغیر نہ جی سکتا تھا ۔ آزاد ہو جانے پر بھی غلام اپنے سابق مالکوں کے سِلاء ( سرپرستی ) میں رہتے تھے اور ان کی حمایت ہی معاشرے میں ان کے لیے زندگی کا سہارا ہوتی تھی ۔ اب یہ ظاہر بات تھی کہ اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم ان لوگوں کی بدولت ، معاذ اللہ ، ایک جھوٹی نبوت کی دکان چلا رہے تھے تو یہ لوگ کسی خلوص اور نیک نیتی کے ساتھ تو اس سازش میں آپ کے شریک نہ ہو سکتے تھے ۔ آخر ایسے شخص کے وہ مخلص رفیق کار اور سچے عقیدت مند کیسے ہو سکتے تھے جو رات کو انہی سے کچھ باتیں سیکھتا ہو اور دن کو دنیا ہی کے سامنے یہ کہہ کر پیش کرتا ہو کہ یہ خدا کی طرف سے مجھ پر وحی نازل ہوئی ہے ۔ اس لیے ان کی شرکت کسی لالچ اور کسی غرض ہی کی بنا پر ہو سکتی تھی ۔ مگر کون صاحب عقل و ہوش آدمی یہ باور کر سکتا تھا کہ یہ لوگ خود اپنے سر پرستوں کو ناراض کر کے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے قوم کی دشمنی کے ہدف آدمی کے ساتھ مل جاتے اور اپنے سرپرستوں سے کٹ جانے کے نقصان کو ایسے مصیبت زدہ آدمی سے حاصل ہونے والے کسی فائدے کی امید پر گوارا کر لیتے ؟ پھر یہ بھی سوچنے کی بات تھی کہ انکے سرپرستوں کو یہ موقع تو آخر حاصل ہی تھا کہ مار کوٹ کر ان سے سازش کا اقبال کرا لیں ۔ اس موقع سے انہوں نے کیوں نہ فائدہ اٹھایا اور کیوں نہ ساری قوم کے سامنے خود انہی سے یہ اعتراف کروا لیا کہ ہم سے سیکھ سیکھ کر یہ نبوت کی دکان چمکائی جا رہی ہے ؟ سب سے عجیب بات یہ تھی کہ وہ سب محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر ایمان لائے اور اس ضرب المثل عقیدت میں شامل ہوئے جو صحابہ کرام آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مقدس سے رکھتے تھے ۔ کیا یہ ممکن ہے کہ بناؤٹی اور سازشی نبوت پر خود ہی لوگ ایمان لائیں اور گہری عقیدت کے ساتھ ایمان لائیں جنہوں نے اس کے نانے کی سازش میں خود حصہ لیا ہو؟ اور بالفرض اگر یہ ممکن بھی تھا تو ان لوگوں کو اہل ایمان کی جماعت میں کوئی نمایاں مرتبہ تو ملا ہوتا ۔ یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ نبوت کا کاروبار تو چلے عَدّاس اور یَسار اور جبر کے بل بوتے پر ، اور نبی کے دست بنیں ابوبکر اور عمر اور ابو عبیدہ ۔ اسی طرح یہ بات بھی بڑی تعجب انگیز تھی کہ اگر چند آدمیوں کی مدد سے راتوں کو بیٹھ بیٹھ کر نبوت کے اس کاروبار کا مواد تیار کیا جاتا تھا تو وہ زید بن حارثہ ، علی بن ابی طالب ، ابو بکر صدیق اور دوسرے ان لوگوں سے کس طرح چھپ سکتا تھا جو شب و روز محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ لگے رہتے تھے ؟ اس الزام میں برائے نام بھی شائبہ صداقت ہوتا تو کیسے ممکن تھا کہ یہ لوگ اس قدر خلوص کے ساتھ حضور پر ایمان لاتے اور آپ کی حمایت میں ہر طرح کے خطرات و نقصانات برداشت کرتے؟ یہ وجوہ تھے جن کیبنا پر ہر سننے والے کی نگاہ میں یہ اعتراض آپ ہی بے وزن تھا ۔ اس لیے قرآن میں اس کو کسی وزنی اعتراض کی حیثیت سے ، جواب دینے کی خاطر نقل نہیں کیا گیا ہے ، بلکہ یہ بتانے کی خاطر اس کا ذکر کیا گیا ہے کہ دیکھو ، حق کی دشمنی میں یہ لوگ کیسے اندھے ہو گئے ہیں ، اور کس قدر صریح جھوٹ اور بے انصافی پر اتر آئے ہیں ۔ سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :13 اس جگہ یہ فقرہ بڑا معنی خیز ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ کیا شان ہے خدا کی رحیمی و غفاری کی ، جو لوگ حق کو نیچا دکھانے کے لیے ایسے ایسے جھوٹ کے طوفان اٹھاتے ہیں ان کو بھی وہ مہلت دیتا ہے اور سنتے ہی عذاب کا کوڑا نہیں برسا دیتا ۔ اس تنبیہ کے ساتھ اس میں ایک پہلو تلقین کا بھی ہے کہ ظالمو ، اب بھی اگر اپنے عناد سے باز آ جاؤ اور حق بات کو سیدھے طرح مان لو تو جو کچھ آج تک کرتے رہے ہو وہ سب معاف ہو سکتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(25:6) انزلہ میں ہ ضمیر واحد مذکر غائب کا مرجع القرآن ہے۔ السر۔ چھپی ہوئی بات۔ بھید ۔ راز۔ دل میں جو بات چھپی ہوئی ہو اسے سر کہتے ہیں۔ الاسرار کسی بات کا چھپانا ۔ یہ اعلان کی ضد ہے۔ چناچہ قرآن مجید میں ہے یعلم ما یسرون وما یعلنون (2: 77) جو کچھ وہ چھپاتے ہیں اور جو کچھ ظاہر کرتے ہیں۔ خدا کو (سب) معلوم ہے۔ (25:7) مال ھذا الرسول۔ اصل میں ما لھذا الرسول ہے۔ لام کو خط عربی کی عام وضع سے ہٹ کر ھذا سے الگ لکھا گیا ہے اس میں مشرکین کی طرف سے آپ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں اہانت تصغیر شان اور رسول من اللہ ہونے میں تمسخر اور طنز کا اظہار ہے۔ جیسا کہ وہ کہتے ہوں دیکھو تو کیسا ہے یہ رسول (ہماری طرح کھاتا پیتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے اور کہتا ہے کہ میں اللہ کا فرستادہ ہوں) ۔ قرآن مجید میں سورة الکہف میں ہے مال ھذا الکتب لا یغادر صغیرۃ ولا کبیرۃ (18:49) عجیب ہے یہ کتاب (نامہ اعمال) کہ اس نے نہ کوئی چھوٹا (گناہ) چھوڑا ہے اور نہ کوئی بڑا۔ اسواق۔ سوق کی جمع۔ بازار۔ لولا۔ کیوں نہیں۔ یہاں بطور حرف تخصیص (کسی کو فعل پر سختی سے ابھارنا یا اکسانا۔ اس وقت لولا کے بعد مضارع آنا چاہیے جیسے لولا تستغفرون اللہ (27:46) تم لوگ اللہ سے معافی کیوں نہیں مانگتے خواہ معنا جیسے لولا اخرتنی الی اجل قریب (63: 10) تو نے مجھے کچھ دن اور مہلت کیوں نہ دی۔ پہلی صورت میں تخصیص اس امر کی ہے کہ انہیں معافی مانگنی چاہیے اور دوسری صورت میں یہ کہ تو مجھے مہلت عطا کردیتا ) یہاں لولا کے بعد انزل معنا مضارع کے معنی میں آیا ہے لولا انزل الیہ ملک اس کے پاس کوئی فرشتہ کیوں نہیں بھیجا گیا۔ یعنی چاہیے تو یہ تھا کہ اس کے پاس کوئی فرشتہ بھیجا جاتا۔ فیکون۔ میں ف جواب تحضیض میں ہے۔ تاکہ وہ ہوتا (اس کے ساتھ ڈرانے والا) یکون کا نصب بھی لولا کے جواب کی وجہ سے ہے۔ اس کی مثال لولا اخرتنی الی اجل قریب فاصدق واکن من الصالحین۔ (63:10) تو نے مجھے اور کچھ دن مہلت کیوں نہ دی تاکہ میں خیر خیرات دے لیتا ۔ اور نیک کاروں میں شامل ہوجاتا ۔ نذیرا۔ صفت مشبہ منصوب۔ ڈرانے والا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

2 ۔ یعنی یہ ہے قرآن کی حقیقت جس کا اعتراف تمہارے دل بھی کرتے ہیں مگر ظلم و فریب کی راہ سے قرآن کو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا تصنیف کیا ہوا ہتے رہتے ہو۔ اگر اللہ چاہتا تو اس گستاخی پر تمہیں سخت سزا دیتا مگر وہ غفورو رحیم ہے اس لئے تم سے درگزر کر رہا ہے۔ اس میں ان کو توبہ وانابت اور اسلام و ہدایت کی طرف پلٹ آنے کی ترغیب ہے۔ (ابن کثیر) شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں۔ یعنی اپنی بخشش اور مہر ہی سے یہ اتارا ہے۔ (موضح) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ حاصل جواب یہ ہوا کہ اس کلام کا اعجاز دلیل ہے اس کی کہ کفار کا کہنا اساطیر الاولین غلط ہے، اور اسی سے ثابت ہوگیا کہ وہ لوگ مرتکب ظلم و زور کے ہیں، اگر یہ خود پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کلام مفتری یا مکتسب ہوتا یا قوم آخرین کی اعانت سے تصنیف ہوتا تو معجز کیسے ہوگا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

ان لوگوں کی اس بات کی تردید کرتے ہوئے فرمایا (قُلْ اَنزَلَہُ الَّذِیْ یَعْلَمُ السِّرَّ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ) (آپ فرما دیجیے کہ ان قرآن کو اس ذات پاک نے نازل فرمایا ہے جسے ہر چھپی ہوئی بات کا علم ہے آسمانوں میں ہو یا زمین میں) تم جو خفیہ مشورے کرتے ہو اور آپس میں جو چپکے چپکے یوں کہتے ہوں کہ یہ قرآن محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے پاس سے بنا لیا ہے یا دوسروں سے لکھوا لیا ہے قرآن نازل فرمانے والے کو تمہاری ان سب باتوں کا پتہ ہے وہ تمہیں اس کی سزا دے گا (اِِنَّہٗ کَانَ غَفُوْرًا رَحِیْمًا) (بلاشبہ وہ بخشنے والا ہے مہربان ہے) اس میں یہ بتایا کہ تم نے جو باتیں کہی ہیں یہ کفریہ باتیں ہیں ان کی وجہ سے تم عذاب کے مستحق ہوگئے ہو لیکن جس نے یہ قرآن نازل فرمایا ہے وہ بہت بڑا کریم ہے اگر اپنی کفریہ باتوں سے توبہ کرلو گے اور ایمان لے آؤ گے تو وہ پرانی تمام باتوں کو معاف فرما دے گا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

7:۔” قل انزلہ الخ “ یہ تینوں مذکورہ شکو وں کا جواب ہے نیز دعوی سورت پر چوتھی عقلی دلیل ہے یہ دعوی اور یہ قرآن جو اس دعوی کو بیان کر رہا ہے، کسی بشر کا خود ساختہ نہیں اور قرآن قصے کہانیوں کی کتاب ہے۔ بلکہ یہ قرآن جو دعوی مذکورہ کا حامل ہے اول سے آخر تک اس رب جہاں کا نازل کردہ ہے جو سارے جہان کی تمام پوشیدہ باتوں کو جانتا ہے، وہ ایسا در گذر کرنے والا اور مہربان ہے کہ ایسے معاندین کو بھی مہلت دیتا ہے اور جلدی نہیں پکڑتا یمھلھم ولا یعاجلھم بالعقوبۃ وان اسوجبوھا بمکابرتھم (مدارک ج 3 ص 122) ۔ جب عالم الغیب بھی وہی ہے اور غفور رحیم بھی تو برکات دہندہ بھی وہی ہے اور کوئی نہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(6) اے پیغمبر ! آپ کہہ دیجئے کہ یہ قرآن کریم تو اس نے نازل کیا ہے جو آسمان اور زمین کی تمام پوشیدہ اور چھپی ہوئی چیزوں کو جانتا ہے بلاشبہ اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے ۔ یعنی آپ جو اب میں فرما دیجئے کہ یہ قرآن کریم تو اس اللہ تعالیٰ نے نازل کیا ہے جو آسمان و زمین کے ہر پوشیدہ بھید کو جانتا ہے اور چونکہ اس کا علم سب کو محیط ہے اسی لئے یہ کلام معجز نظام ہے اور اعجاز سے لبریز ہے کسی انسان کا نہ اسقدر علم محیط ہے نہ وہ اعجاز کی اتنی رعایتیں ملحوظ رکھ سکتا ہے لہٰذا کوئی بشر ایسا کلام کر ہی نہیں سکتا ایسے کلام سے جو لوگ سرتابی کریں اور اس کو بشر کا کلام کہیں وہ مستحق سزا ہیں لیکن وہ غفور اور رحیم ہے اس لئے عذاب میں جلدی نہیں کرتا۔