Surat ul Furqan

Surah: 25

Verse: 60

سورة الفرقان

وَ اِذَا قِیۡلَ لَہُمُ اسۡجُدُوۡا لِلرَّحۡمٰنِ قَالُوۡا وَ مَا الرَّحۡمٰنُ ٭ اَنَسۡجُدُ لِمَا تَاۡمُرُنَا وَ زَادَہُمۡ نُفُوۡرًا ﴿٪ٛ۶۰﴾  3

And when it is said to them, "Prostrate to the Most Merciful," they say, "And what is the Most Merciful? Should we prostrate to that which you order us?" And it increases them in aversion.

ان سے جب بھی کہا جاتا ہے کہ رحمان کو سجدہ کرو تو جواب دیتے ہیں رحمان ہے کیا؟ کیا ہم اسے سجدہ کریں جس کا تو ہمیں حکم دے رہا ہے اور اس ( تبلیغ ) نے ان کی نفرت میں مزید اضافہ کر دیا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اسْجُدُوا لِلرَّحْمَنِ قَالُوا وَمَا الرَّحْمَنُ ... And when it is said to them: "Prostrate yourselves to Ar-Rahman!" They say: "And what is Ar-Rahman!" meaning: we do not know Ar-Rahman. They did not like to call Allah by His Name Ar-Rahman (the Most Gracious), as they objected on the day of (the treaty of) Al-Hudaybiyyah, when the Prophet told the scribe: اكْتُبْ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيم Write: "In the Name of Allah, Ar-Rahman (the Most Gracious), Ar-Rahim (the Most Merciful)." They said, "We do not know Ar-Rahman or Ar-Rahim. Write what you used to write: `Bismika Allahumma (in Your Name, O Allah)."' So Allah revealed the words: قُلِ ادْعُواْ اللَّهَ أَوِ ادْعُواْ الرَّحْمَـنَ أَيًّا مَّا تَدْعُواْ فَلَهُ الاٌّسْمَأءَ الْحُسْنَى Say: "Invoke Allah or invoke Ar-Rahman, by whatever name you invoke Him (it is the same), for to Him belong the Best Names. (17:110) meaning, He is Allah and He is the Most Gracious. And in this Ayah, Allah said: وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اسْجُدُوا لِلرَّحْمَنِ قَالُوا وَمَا الرَّحْمَنُ ... And when it is said to them: "Prostrate yourselves to Ar-Rahman!" They say: "And what is the Ar-Rahman!" meaning: we do not know or approve of this Name. ... أَنَسْجُدُ لِمَا تَأْمُرُنَا ... Shall we fall down in prostration to that which you command us! means, "Just because you tell us to!" ... وَزَادَهُمْ نُفُورًا And it increases in them only aversion. As for the believers, they worship Allah Who is the Most Gracious, Most Merciful, and they attribute divinity to Him Alone and prostrate to Him. The scholars, agree that it is allowed and approved for the reader and the listener to prostrate when he reaches this mention of prostration in Surah Al-Furqan, and Allah knows best.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

601رَ حْمٰن، رَ حِیْم اللّٰہ کی صفات اور اسمائے حسنٰی میں سے ہیں لیکن اہل جاہلیت، اللہ کو ان ناموں سے نہیں پہچانتے تھے جیسا کہ صلح حدیبیہ کے موقعے پر جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے معاہدے کے آغاز پر بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیْمِ لکھوایا تو مشرکین مکہ نے کہا، ہم رحمٰن و رحیم کو نہیں جانتے۔ بِاسْمِکَ اللَّھُمَّ ! لکھو (سیرت ابن ہشام۔2317 مذید دیکھئے (كَذٰلِكَ اَرْسَلْنٰكَ فِيْٓ اُمَّةٍ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهَآ اُمَمٌ لِّتَتْلُوَا۟ عَلَيْهِمُ الَّذِيْٓ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ وَهُمْ يَكْفُرُوْنَ بالرَّحْمٰنِ ۭ قُلْ هُوَ رَبِّيْ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ ۚ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَاِلَيْهِ مَتَابِ ) 13 ۔ الرعد :30) (قُلِ ادْعُوا اللّٰهَ اَوِ ادْعُوا الرَّحْمٰنَ ۭ اَيًّا مَّا تَدْعُوْا فَلَهُ الْاَسْمَاۗءُ الْحُسْنٰى ۚ وَلَا تَجْـهَرْ بِصَلَاتِكَ وَلَا تُخَافِتْ بِهَا وَابْتَغِ بَيْنَ ذٰلِكَ سَبِيْلًا) 17 ۔ الاسراء :110) یہاں بھی ان کا رحمٰن کے نام سے بدکنے اور سجدہ کرنے سے گریز کرنے کا ذکر ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧٥] قریش مکہ کے سامنے جب رحمن کا ذکر کیا جاتا تو از راہ۔۔ کہا کرے کہ && رحمن کیا ہوتا ہے ؟ && یہاں ذوی العقول کے لہئے ما کا لفظ اسی مفہوم میں استعمال ہوا ہے اس کی وجہ یہ نہ تھی کہ قریش رحمن سے ناواقف محض تھے بلکہ یہ تھی رحمن کا لفظ ان کے ہاں مروج نہ تھا۔ اور انھیں اس لفظ سے چڑ سی ہوگئی تھی جیسا کہ پہلے سورة رعد کی آیت نمبر ٣٠ کے حاشیہ ٣٩ میں گزر چکا ہے اور جب انھیں رحمن کو سجدہ کرنے کو کہا جاتا تو یکدم بھڑک اٹھتے تھے اور ان کی حرکت محض ضد اور تعصب کی وجہ سے ہوتی تھی۔ ورنہ اگر انھیں فی الواقعہ رحمن کا علم نہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ ان پر گرفت کرنے کے بجائے انھیں نرمی سے سمجھا اور بتلاسکتے تھے۔ [ ٧٦] اس آیت کی اختتام پر سجدہ تلاوت شروع ہے۔ قاری کے لئے بھی اور سامع کے لئے بھی تاکہ اللہ کی اطاعت گزاروں اور قریش مکہ جیسے اسلام دشمنوں کے درمیان فرق معلوم ہوسکے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاِذَا قِيْلَ لَهُمُ اسْجُدُوْا للرَّحْمٰنِ ۔۔ : اس آیت کی دو تفسیریں ہیں، ایک یہ کہ مشرکین مکہ زمین و آسمان کے خالق کے لیے ” اللہ “ کا لفظ تو مانتے تھے، لیکن وہ اس کے نام ” رحمان “ سے مانوس نہ تھے، اس لیے اسے سنتے ہی چڑ جاتے تھے۔ دیکھیے سورة رعد (٣٠) اور بنی اسرائیل (١١٠) دوسری تفسیر اس کی یہ ہے کہ وہ لوگ یہ بات کہ ” رحمان چیز کیا ہے “ محض کافرانہ شوخی اور سراسر ہٹ دھرمی کی بنا پر کہتے تھے، جس طرح فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا تھا : (وَمَا رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ ) [ الشعراء : ٢٣ ] ” اور رب العالمین کیا چیز ہے ؟ “ حالانکہ نہ کفار مکہ اس بیحد رحم والی ہستی سے بیخبر تھے اور نہ فرعون رب العالمین سے ناواقف تھا، جیسا کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے اسے برملا کہا تھا : (قَالَ لَقَدْ عَلِمْتَ مَآ اَنْزَلَ هٰٓؤُلَاۗءِ اِلَّا رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ بَصَاۗىِٕرَ ) [ بنی إسرائیل : ١٠٢ ] ” بلاشبہ یقیناً تو جان چکا ہے کہ انھیں آسمانوں اور زمین کے رب کے سوا کسی نے نہیں اتارا، اس حال میں کہ واضح دلائل ہیں۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

قَالُوا وَمَا الرَّ‌حْمَـٰنُ (60) The word رَّ‌حْمَـٰنُ (Rahman, translated as All-Merciful) is an Arabic word and all Arabs knew its meaning, but they did not use it for Allah Ta’ ala. Hence they enquired who and what is Rahman (رَّ‌حْمَـٰنُ ).

قَالُوْا وَمَا الرَّحْمٰنُ ، لفظ رحمن عربی زبان کا لفظ ہے اس کے معنی سب عرب جانتے تھے مگر یہ لفظ وہ اللہ تعالیٰ کے لئے نہ بولتے تھے اسی لئے یہاں یہ سوال کیا کہ رحمن کون اور کیا ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِذَا قِيْلَ لَہُمُ اسْجُدُوْا لِلرَّحْمٰنِ قَالُوْا وَمَا الرَّحْمٰنُ۝ ٠ۤ اَنَسْجُدُ لِمَا تَاْمُرُنَا وَزَادَہُمْ نُفُوْرًا۝ ٦٠ۧ۞ قول القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ، ( ق و ل ) القول القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ سجد السُّجُودُ أصله : التّطامن «3» والتّذلّل، وجعل ذلک عبارة عن التّذلّل لله وعبادته، وهو عامّ في الإنسان، والحیوانات، والجمادات، وذلک ضربان : سجود باختیار، ولیس ذلک إلا للإنسان، وبه يستحقّ الثواب، نحو قوله : فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا[ النجم/ 62] ، أي : تذللوا له، وسجود تسخیر، وهو للإنسان، والحیوانات، والنّبات، وعلی ذلک قوله : وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً وَظِلالُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الرعد/ 15] ( س ج د ) السجود ( ن ) اسکے اصل معنی فرو تنی اور عاجزی کرنے کے ہیں اور اللہ کے سامنے عاجزی اور اس کی عبادت کرنے کو سجود کہا جاتا ہے اور یہ انسان حیوانات اور جمادات سب کے حق میں عام ہے ( کیونکہ ) سجود کی دو قسمیں ہیں ۔ سجود اختیاری جو انسان کے ساتھ خاص ہے اور اسی سے وہ ثواب الہی کا مستحق ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا[ النجم/ 62] سو اللہ کے لئے سجدہ کرو اور اسی کی ) عبادت کرو ۔ سجود تسخیر ی جو انسان حیوانات اور جمادات سب کے حق میں عام ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ : وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً وَظِلالُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الرعد/ 15] اور فرشتے ) جو آسمانوں میں ہیں اور جو ( انسان ) زمین میں ہیں ۔ چار ونا چار اللہ ہی کو سجدہ کرتے ہیں اور صبح وشام ان کے سایے ( بھی اسی کو سجدہ کرتے ہیں اور صبح وشام ان کے سایے ( بھی اسی کو سجدہ کرتے ہیں ) رحم والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» ( ر ح م ) الرحم ۔ الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، زاد الزِّيادَةُ : أن ينضمّ إلى ما عليه الشیء في نفسه شيء آخر، يقال : زِدْتُهُ فَازْدَادَ ، وقوله وَنَزْداد كَيْلَ بَعِيرٍ [يوسف/ 65] ( زی د ) الزیادۃ اس اضافہ کو کہتے ہیں جو کسی چیز کے پورا کرنے کے بعد بڑھا جائے چناچہ کہاجاتا ہے ۔ زدتہ میں نے اسے بڑھا یا چناچہ وہ بڑھ گیا اور آیت :۔ وَنَزْدادُكَيْلَ بَعِيرٍ [يوسف/ 65] اور ( اس کے حصہ کا ) ایک بار شتر غلہ اور لیں گے ۔ نفر النَّفْرُ : الانْزِعَاجُ عن الشیءِ وإلى الشیء، کالفَزَعِ إلى الشیء وعن الشیء . يقال : نَفَرَ عن الشیء نُفُوراً. قال تعالی: ما زادَهُمْ إِلَّا نُفُوراً [ فاطر/ 42] ، وَما يَزِيدُهُمْ إِلَّا نُفُوراً [ الإسراء/ 41] ونَفَرَ إلى الحربِ يَنْفُرُ ويَنْفِرُ نَفْراً ، ومنه : يَوْمُ النَّفْرِ. قال تعالی: انْفِرُوا خِفافاً وَثِقالًا [ التوبة/ 41] ، إِلَّا تَنْفِرُوا يُعَذِّبْكُمْ عَذاباً أَلِيماً [ التوبة/ 39] ، ما لَكُمْ إِذا قِيلَ لَكُمُ انْفِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ التوبة/ 38] ، وَما کانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنْفِرُوا كَافَّةً فَلَوْلا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طائِفَةٌ [ التوبة/ 122] . ( ن ف ر ) النفر ( عن کے معنی کسی چیز سے رو گردانی کرنے اور ( الی کے ساتھ ) کسی کی طرف دوڑنے کے ہیں جیسا کہ نزع کا لفظ الیٰ اور عن دونوں کے ساتھ استعمال ہوتا ہے محاورہ ہے نفر عن الشئی نفورا کسی چیز سے دور بھاگنا ۔ قرآن میں ہے ما زادَهُمْ إِلَّا نُفُوراً [ فاطر/ 42] تو اس سے ان کی نفرت ہی بڑھی ۔ وَما يَزِيدُهُمْ إِلَّا نُفُوراً [ الإسراء/ 41] مگر وہ اس سے اور بدک جاتے ہیں ۔ نفر الی الحرب ( ض ن ) نفر لڑائی کیلئے نکلنا اور اسی سی ذی الحجہ کی بار ھویں تاریخ کو یوم النفر کہا جاتا ہے کیوں کہ اس روز حجاج منیٰ سے مکہ معظمہ کو واپس ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے انْفِرُوا خِفافاً وَثِقالًا[ التوبة/ 41] تم سبکسار ہو یا گراں بار ( یعنی مال واسباب تھوڑا رکھتے ہو یا بہت گھروں سے نکل آؤ ۔ إِلَّا تَنْفِرُوا يُعَذِّبْكُمْ عَذاباً أَلِيماً [ التوبة/ 39] اگر نہ نکلو گے تو خدا تم کو بڑی تکلیف کا عذاب دے گا ۔ ما لَكُمْ إِذا قِيلَ لَكُمُ انْفِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ التوبة/ 38] تمہیں کیا ہوا کہ جب تم سے کہا جاتا ہے کہ خدا کی راہ میں جہاد کے لئے نکلو وما کان الْمُؤْمِنُونَ لِيَنْفِرُوا كَافَّةً فَلَوْلا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طائِفَةٌ [ التوبة/ 122] اور یہ تو ہو نہیں سکتا کہ مومن سب کے سب سب نکل آئیں تو یوں کیوں نہیں کیا کہ ہر ایک جماعت میں سے چند اشخاص نکل جاتے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٦٠) اور جس وقت ان کفار مکہ سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کو سجدہ کرو اور توحید خداوندی کے قائل رہو، اس کے سامنے سربسجود ہوجاؤ تو کہتے ہیں کہ اللہ کیا چیز ہے ہم تو مسیلمہ کذاب کے علاوہ اور کسی کو نہیں جانتے کیا ہم اس بےسند چیز کو سجدہ کرنے لگیں گے اور اللہ تعالیٰ یا قرآن کریم کے تذکرہ سے یا یہ کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت سے ان کو اور زیادہ نفرت ہوتی ہے اور ایمان سے دور بھاگتے جاتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦٠ (وَاِذَا قِیْلَ لَہُمُ اسْجُدُوْا للرَّحْمٰنِج قَالُوْا وَمَا الرَّحْمٰنُق) ” مشرکین مکہّ کے لیے اللہ کا لفظ تو معروف تھا مگر رحمن سے وہ واقف نہیں تھے۔ چناچہ وہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر یہ اعتراض بھی کرتے تھے کہ اللہ کے بجائے آپ رحمن کا نام کیوں لیتے ہیں ؟ یہ نیا نام ہمارے لیے قابل قبول نہیں ہے۔ (اَنَسْجُدُ لِمَا تَاْمُرُنَا) ” یعنی ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کہنے پر اسے سجدہ کیوں کریں ؟ اس کا مطلب تو یہ ہوگا کہ ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بات تسلیم کرلی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جیت گئے۔ یہی وہ ضد ہے جسے قرآن میں ” شِقَاق “ کہا گیا ہے۔ اس ضد اور تعصب میں وہ لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مبنی بر حقیقت بات بھی ماننے کے لیے تیار نہیں تھے۔ (وَزَادَہُمْ نُفُوْرًا ) ” یعنی اس طرح حق سے ان کی نفرت مزید بڑھ رہی ہے اور ان کے جذبۂ فرار میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

73 This they said due to their arrogance and stubbornness just as Pharaoh had said to Prophet Moses: "What is the Lord of the universe?" For the disbelievers of Makkah were not unaware of the Merciful (Rahman), nor was Pharaoh unaware of the "Lord of the universe". The wording of the verse itself chows that their question about the "Merciful" was not the result of their ignorance of Him but was due to their rebelliousness; otherwise Allah would not have punished them for this but would have informed them politely that He Himself is "Merciful". Besides this, it is well known istorically that the word Rahman (Merciful) for Allah had been in common usage in Arabia since the ancient times. Please see also E.N. 5 of As-Sajdah and E.N. 35 of Saba. 74 All scholars are agreed that here a `Prostration of Recital' (Sajdah Talawat) has been enjoined, which means that every reader and every hearer must prostrate himself on reciting or hearing the recital of this verse. According to traditions, the one who hears this verse being recited should say: Zadan Allahu, khudu an-anima zada, lil-a`daa-i nufura: "May Allah increase us in humility even as the enemies are increased in their hatred."

سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :73 یہ بات دراصل وہ محض کافرانہ شوخی اور سراسر ہٹ دھرمی کی بنا پر کہتے تھے ، جس طرح فرعون نے حضرت موسیٰ سے کہا تھا : وَمَا رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ ۔ رب العالمین کیا ہوتا ہے ؟ حالانکہ نہ کفار مکہ خدائے رحمان سے بے خبر تھے اور نہ فرعون ہی اللہ رب العالمین سے نا واقف تھا ۔ بعض مفسرین نے اس کی یہ تاویل کی ہے کہ اہل عرب کے ہاں اللہ تعالیٰ کے لیے رحمان کا اسم مبارک شائع نہ تھا اس لیے انہوں نے یہ اعتراض کیا ۔ لیکن آیت کا انداز کلام خود بتا رہا ہے کہ یہ اعتراض نا واقفیت کی بنا پر نہیں بلکہ طغیان جاہلیت کی بنا پر تھا ، ورنہ اس پر گرفت کرنے کے بجائے اللہ تعالیٰ نرمی کے ساتھ انہیں سمجھا دیتا کہ یہ بھی ہمارا ہی ایک نام ہے ، اس پر کان نہ کھڑے کرو ۔ علاوہ بریں یہ بات تاریخی طور پر ثابت ہے کہ عرب میں اللہ تعالیٰ کے لیے قدیم زمانے سے رحمان کا لفظ معروف و مستعمل تھا ۔ ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد چہارم ، السجدہ ، حاشیہ 5 ۔ سباء ، حاشیہ 35 ۔ سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :74 اس جگہ سجدہ تلاوت مشروع ہے اور اس پر تمام اہل علم متفق ہیں ۔ ہر قاری اور سامع کو اس مقام پر سجدہ کرنا چاہیے ۔ نیز یہ بھی مسنون ہے کہ آدمی جب اس کو سنے تو جواب میں کہے : زَادَنا اللہُ خُضُوْعاً مَّا زَادَ لِلْاَعْدَآءِ نُفُوْراً ، اللہ کرے ہمارا خضوع اتنا ہی بڑھے جتنا دشمنوں کا نفور بڑھتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

20: مشرکینِ مکہ اگرچہ اﷲ تعالیٰ کی ذات پر اِیمان رکھتے تھے، لیکن اﷲ تعالیٰ کے لئے ’’رحمن‘‘ کے نام کو تسلیم نہیں کرتے تھے، اس لئے جب اﷲ تعالیٰ کا ذکر اس نام کے ساتھ کیا جاتا تو وہ بڑی بدتمیزی سے اس مبارک نام کی تردید کرتے تھے۔ 21: یہ سجدے کی آیت ہے، جو کوئی شخص عربی میں یہ آیت پڑھے یا سنے اس پر سجدہ تلاوت واجب ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(25:60) انسجد بماتا مرنا۔ میں ما مصدریہ بھی ہوسکتا ہے۔ اس صورت میں ترجمہ ہوگا :۔ کیا تیرے کہنے پر ہم سجدہ کریں۔ ما موصولہ بھی ہوسکتا ہے بمعنی الذی ترجمہ ہوگا :۔ کیا جس کے لئے تم حکم کرو ہم اسی کو سجدہ کرنے لگیں۔ زادھم : زاد ماضی واحد مذکر غائب زیادۃ مصدر (باب ضرب) ھم ضمیر مفعول جمع مذکر غائب (اس ضمیر کا مرجع مشرکین ہیں) زاد میں ضمیر فاعل امر بالسجود للرحمن ہے یعنی رحمن کو سجدہ کرنے کا حکم نے ان کی نفرت کو اور بڑھا دیا۔ نفورا۔ کسی چیز سے دور بھاگنا۔ اسی معنی میں ہے وما یریدھم الا نفورا (17:41) مگر وہ حق سے اور زیادہ دور ہی بھاگے جا رہے ہیں اسی معنی میں موجودہ آیت میں استعمال ہوا ہے وزارھم نفورا یعنی رحمن کو سجدہ کرنے کے حکم نے ان کی (حق سے دوری کو) اور بڑھا دیا۔ یعنی ان کی نفرت اور بڑھ گئی۔ اس جملہ کا عطف قالوا پر ہے ای قالوا ذلک وزادھم نفورا۔ الی کا صلہ کے ساتھ نفر الی کے معنی کسی کی طرف دوڑنے کے ہیں مثلاً نفرا لی الحرب نفرا۔ لڑائی کے لئے نکلنا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

6 ۔ یا ” رحمن کو سجدہ کرنے کے حکم سے “ ان کی نفرت اور بڑھ جاتی ہے۔ یہ پہلے بتایا جا چکا ہے کہ مشرکین مکہ زمین و آسمان کے خالق کے لئے ” اللہ “ کا لفظ تو مانتے تھے لیکن وہ اس کے نام ” رحمن “ سے مانوس نہ تھے اس لئے اسے سنتے ہی چڑ جاتے تھے۔ دیکھئے سورة رعد آیت 30، سورة اسرا : آیت 110 ۔ (قرطبی) تنبیہ اس آیت پر سجدہ کرنا ہر پڑھنے اور سننے والے کے لئے مسنون ہے اور اس پر تمام علما کا اتفاق ہے۔ (ابن کثیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

8۔ لفظ رحمن ان میں کم مشہور تھا، مگر یہ نہیں کہ جانتے نہ ہوں، مگر اسلامی تعلیم سے جو مخالفت بڑھی ہوئی تھی تو اطلاقات افضلیہ میں بھی مخالفت کو نباہتے تھے۔ قرآن میں جو یہ لفظ بکثرت آیا وہ اس میں بھی مخالفت کر بیٹھے، اور اس حیثیت سے کہ قرآنی محاورہ ہے تجاہل عارفانہ کے طور پر اس میں کلام اور اس کا انکار کرنے لگے، گو خدا ہی کا انکار اور سوء ادب لازم آجائے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

واذا قیل ……نفوراً (٦٠) یہ برخود غلط لوگوں کو جب رحمٰن کی بندگی کی طرف بلایا جاتا ہے تو یہ لوگ نہایت ہی حقارت ، جھنجھلاہٹ کے ساتھ پوچھتے ہیں کہ رحمٰن کیا ہے ؟ یہ کفر و سرکشی کی بدترین اور مکروہ ترین تصویر ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مقابلے میں کس قدر جری اور گستاخ ہوگئے تھے۔ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ضد میں اپنے رب کی توہین کے لئے بھی تیار تھے۔ اللہ کے بارے میں بھی وہ یہ انداز گفتگو اختیار کرتے تھے۔ لہٰذا یہ لوگ اگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں برے الفاظ استعمال کرتے تھے تو ان سے کوئی بعید نہ تھا۔ وہ اللہ کے اسماء میں سے ایک اسم کا یوں انکار کرتے تھے۔ یوں ظاہر کرتے تھے کہ وہ تو رحمٰن کو نہیں جانتے۔ وہ کون ہوتا ہے۔ وما الرحمٰن (٢٥ : ٦٠) ” رحمٰن کیا ہوتا ہے۔ “ وہ نہایت بےباکی سے کہتے کہ رحمن کو ہم اس کے سوا نہیں جانتے جو یمامہ میں ہے۔ وہ مسلیمہ کذاب کی طرف اشارہ کرتے تھے۔ ان کی اس بےباکی کا جواب اس انداز میں دیا جاتا ہے کہ اللہ وہ بابرکت ذات ہے کہ اس کی بڑائی ، اس کی برکات اور اس کی عظمتوں پر تو یہ کائنات گواہ ہے۔ اس عظیم کائنات کے ایک ہی مظہر پر ذرا غور کرو۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(وَاِِذَا قِیْلَ لَہُمُ اسْجُدُوْا للرَّحْمٰنِ قَالُوْا وَمَا الرَّحْمٰنُ ) (اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ رحمن کو سجدہ کرو تو کہتے ہیں کہ رحمن کیا چیز ہے) یہ بات وہ اپنی جہالت اور عناد کی وجہ سے کہتے تھے (اَنَسْجُدُ لِمَا تَاْمُرُنَا) (اور وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ کیا ہم اسے سجدہ کریں جس کے لیے تم ہمیں سجدہ کرنے کا حکم دیتے ہو) وہ یہ بات ضد میں کہتے تھے کہ تمہارے کہنے سے ہم کسی کو سجدہ نہیں کریں گے (وَزَادَھُمْ نُفُوْرًا) (اور آپ کا یہ فرمانا کہ تم رحمن کو سجدہ کرو اس سے ان کو اور زیادہ نفرت بڑھ جاتی ہے) قریب آنے کے بجائے اور زیادہ دور ہوجاتے ہیں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

40:۔ ” واذا قیل الخ “ یہ شکوی ہے۔ مشرکین سے جب کہا جاتا ہے کہ خدائے رحمن کو سجدہ کرو تو وہ کہتے ہیں وہ رحمن کون ہے ہم تو رحمن کو جانتے ہی نہیں۔ تو کیا جسے تو ہمیں سجدہ کرنے کا حکم دیتا ہے ہم اسے علم و معرفت کے بغیر ہی سجدہ کرنے لگیں ؟ مشرکین میں اللہ تعالیٰ کا یہ نام معروف نہیں تھا۔ اس لیے انہوں نے یہ سوال کیا۔ ای لتعرف الرحمن وکانوا ینکرون ان یسمی اللہ باسمہ الرحمن (ابن کثیر ج 3 ص 323) ۔ لانھم ماکانوا یطلقونہ علی اللہ وکانوا یقولون لا نعرف الرحمن الا رحمان الیمامۃ یعنون مسیلمۃ الکذاب یسمونہ رحمان الیمامۃ (مظہری ج 7 ص 39) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(60) اور جب ان مشرکوں سے کہا جاتا ہے کہ رحمن کو سجدہ کرو تو کہتے ہیں رحمان کیا ہے کیا تو ہم سے جس کو سجدہ کرنے کا حکم کرے ہم اسی کو سجدہ کرنے لگیں اور اسی کے آگے ہم سجدہ ریز ہوجائیں اور یہ سجدہ کرنے کا حکم ان کی نفرت کو اور بڑھاتا ہے یعنی جب رحمان کا نام لیکر ان کو سجدے کی دعوت دی جائے تو انجان بن کر کہتے ہیں اور تجاہل عارفانہ کے طورپر دریافت کرتے ہیں رحمان کیا چیز ہے چونکہ عرب میں اللہ تعالیٰ کے لئے رحمان کا استعمال کم تھا اس لئے اجنبی اور انجان بن کر کہتے تھے یہ بات نہیں کہ رحمان کو جانتے ہی نہ تھے ۔ سلیمہ کذاب کو رحمان الیمامہ کہا کرتے تھے اور ماالرحمان کے ساتھ یہ بھی کہتے تھے کہ کیا جس کو آپ کہتے ہیں اور جس کے لئے حکم دیتے ہیں ہم اسی کے آگے سر بسجود ہوجائیں تو ہم اسی کام کے ہو لئے کہ آپ جس کو کہتے ہیں اور جس کے لئے حکم دیتے ہیں ہم اسی کے آگے سربسجود ہوجائیں تو ہم اسی کام کے ہولئے کہا کہ آپ جس کو کہتے جائیں ہم اس کو سجدہ کرتے جائیں بلکہ اس حکم سے ان کی نفرت اور وحشت اور بھی بڑھ جاتی ہے اور با اعتبار نفرت کے یہ حکم اور زیادتی کا موجب ہوتا ہے۔