Surat ul Furqan

Surah: 25

Verse: 64

سورة الفرقان

وَ الَّذِیۡنَ یَبِیۡتُوۡنَ لِرَبِّہِمۡ سُجَّدًا وَّ قِیَامًا ﴿۶۴﴾

And those who spend [part of] the night to their Lord prostrating and standing [in prayer]

اور جو اپنے رب کے سامنے سجدے اور قیام کرتے ہوئے راتیں گزار دیتے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And those who spend the night in worship of their Lord, prostrate and standing. meaning, worshipping and obeying Him. This is like the Ayat: كَانُواْ قَلِيلً مِّن الَّيْلِ مَا يَهْجَعُونَ وَبِالاٌّسْحَـرِ هُمْ يَسْتَغْفِرُونَ They used to sleep but little by night. And in the hours before dawn, they were asking for forgiveness. (51:17-18) تَتَجَافَى جُنُ... وبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ Their sides forsake their beds... (32:16) أَمَّنْ هُوَ قَانِتٌ ءَانَأءَ الَّيْلِ سَـجِداً وَقَأيِماً يَحْذَرُ الاٌّخِرَةَ وَيَرْجُواْ رَحْمَةَ رَبِّهِ Is one who is obedient to Allah, prostrating himself or standing during the hours of the night, fearing the Hereafter and hoping for the mercy of his Lord... (39:9) Allah says: وَالَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَهَنَّمَ إِنَّ عَذَابَهَا كَانَ غَرَامًا   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨٢] اللہ کے بندوں کی تیسری صفت یہ بیان فرمائی کہ راتوں کو بھی اللہ کی یاد سے غافل نہیں رہتے۔ بلکہ انھیں رات کو عبادت میں زیادہ مزا آتا ہے۔ اس لئے کہ ایک تو رات کی عبادت میں ریا کا شائبہ نہیں ہوتا۔ دوسرے رات کی تنہائیوں میں بندہ جس طرح اللہ کی طرف متوجہ ہوسکتا ہے اور مناجات کرسکتا ہے دن کو نہیں کرس... کتا۔ اسی لئے احادیث میں رات کی عبادت اور بالخصوص نماز تہجد کی بہت فضیلت مذکور ہے۔ نیز حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سات قسم کے آدمیوں کو اپنے سایہ میں رکھے گا جس دن اس کے سایہ کے سوا اور کوئی سایہ نہ ہوگا۔ ان سات آدمیوں میں سے ایک وہ شخص ہوگا جس نے تنہائی میں اللہ کو یاد کیا اور اس کی آنکھیں بہہ نکلیں && ( بخاری۔ کتاب الزکوۃ۔ باب الصدقہ ن بالیمین )   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَالَّذِيْنَ يَبِيْتُوْنَ لِرَبِّهِمْ ۔۔ : پچھلی آیت میں لوگوں کے ساتھ ان کے معاملے کا ذکر تھا، اس آیت میں اپنے رب کے ساتھ ان کے معاملے کا ذکر ہے۔ حسن بصری نے فرمایا : ” پچھلی آیت میں ان کے دن کا ذکر ہے اور اس آیت میں ان کی رات کا۔ “ اس آیت سے قیام اللیل کی اہمیت ثابت ہوتی ہے۔ مزید دیکھیے آیت : (تَـ... تَجَافٰى جُنُوْبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ ) [ السجدۃ : ١٦ ] اور آیت : (كَانُوْا قَلِيْلًا مِّنَ الَّيْلِ مَا يَهْجَعُوْنَ ) [ الذاریات : ١٧ ] امیر المومنین عثمان بن عفان (رض) نے فرمایا، میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا : ( مَنْ صَلَّی الْعِشَاءَ فِيْ جَمَاعَۃٍ فَکَأَنَّمَا قَامَ نِصْفَ اللَّیْلِ وَ مَنْ صَلَّی الصُّبْحَ فِيْ جَمَاعَۃٍ فَکَأَنَّمَا صَلَّی اللَّیْلَ کُلَّہُ ) [ مسلم، المساجد و مواضع الصلاۃ، باب فضل صلاۃ العشاء والصبح في جماعۃ : ٦٥٦ ] ” جو شخص عشاء کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھے تو گویا اس نے نصف رات قیام کیا اور جو صبح کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھے تو گویا اس نے ساری رات نماز پڑھی۔ “ اس حدیث سے عشاء اور فجر جماعت کے ساتھ پڑھنے پر قیام اللیل کا اجر حاصل ہونا ثابت ہوتا ہے، اس کے باوجود کوئی شک نہیں کہ جو لوگ اس کے علاوہ بھی قیام اللیل کی پابندی کرتے ہیں ان کے درجے کو وہ لوگ نہیں پہنچ سکتے جو صرف فرائض پر اکتفا کرتے ہیں۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The Fourth Characteristic وَالَّذِينَ يَبِيتُونَ لِرَ‌بِّهِمْ سُجَّدًا وَقِيَامًا (and those who pass the night prostrating and standing before their Lord, - 25:64). Special mention of night worship is made here firstly, because this time being a time of rest, requires extra effort, and secondly because it rules out the possibility of showing one&s worship to others. The idea is to express th... at they spend their day and night in submission before Allah during the day by teaching and spreading religious tenets and struggling in the way of Allah and at night by praying before Him. The sayings of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) have extolled the night prayers (تَھَجّد). Tirmidhi has reported on the authority of Sayyidna Abu &Umamah (رض) that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said, |"Remain steadfast to your night prayers as this has been the practice of all righteous people before your time, and this will bring you closer to Allah Ta’ ala and will expiate the evils and keep you away from sins|". (Mazhari) Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) has said that one who has offered two or more Rak&ats after &Isha& prayers is also covered by the verse. (Mazhari from Bayhaqi and Sayyidna ` Uthman (رض) is reported to have observed that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has said that one who has offered his ` Isha& prayer with congregation would be regarded as having worshipped half the night and the one who has offered Fajr prayer with congregation would be regarded as having offered the other half of the night in prayers. (Ahmed and Muslim from Mazhari)   Show more

چوتھی صفت : وَالَّذِيْنَ يَبِيْتُوْنَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَّقِيَامًا، یعنی وہ رات گزارتے ہیں اپنے رب کے سامنے سجدہ کرتے ہوئے اور قیام کرتے ہوئے۔ عبادت میں شب بیداری کا ذکر خصوصیت سے اس لئے کیا گیا کہ یہ وقت سونے آرام کرنے کا ہے اس میں نماز و عبادت کے لئے کھڑا ہونا خاص مشقت بھی ہے اور اس میں ریا و...  نمود کے خطرات بھی نہیں ہیں۔ منشاء یہ ہے کہ ان کا لیل و نہار اللہ کی اطاعت میں مشغول ہے دن کو تعلیم و تبلیغ اور جہاد فی سبیل اللہ وغیرہ کے کام ہیں رات کو اللہ کے سامنے عبادت گزاری کرنا ہے۔ تہجد کی نماز کی حدیث میں بڑی فضیلت آئی ہے۔ ترمذی نے حضرت ابوامامہ سے روایت کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ قیام اللیل، تہجد کی پابندی کرو کیونکہ وہ تم سے پہلے بھی سب نیک بندوں کی عادت رہی ہے اور وہ اللہ تعالیٰ سے تم کو قریب کرنے والی اور سیئات کا کفارہ ہے اور گناہوں سے روکنے والی چیز ہے۔ (مظہری) حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ جس شخص نے عشاء کے بعد دو یا زیادہ رکعتیں پڑھ لیں وہ بھی اس حکم میں داخل ہے کہ بات للہ ساجدا و قائما (مظہری از بغوی) اور حضرت عثمان غنی سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جس شخص نے عشاء کی نماز جماعت کے ساتھ ادا کرلی تو آدھی رات عبادت میں گزارنے کے حکم میں ہوگیا اور جس نے صبح کی نماز جماعت سے ادا کرلی وہ باقی آدھی رات بھی عبادت میں گزارنے والا سمجھا جائے گا (رواہ احمد و مسلم فی صحیحہ از مظہری)   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَالَّذِيْنَ يَبِيْتُوْنَ لِرَبِّہِمْ سُجَّدًا وَّقِيَامًا۝ ٦٤ بيت أصل البیت : مأوى الإنسان باللیل، قال عزّ وجلّ : فَتِلْكَ بُيُوتُهُمْ خاوِيَةً بِما ظَلَمُوا [ النمل/ 52] ، ( ب ی ت ) البیت اصل میں بیت کے معنی انسان کے رات کے ٹھکانہ کے ہیں ۔ کیونکہ بات کا لفظ رات کو کسی جگہ اقامت کرنے پر بولا جا... تا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ فَتِلْكَ بُيُوتُهُمْ خاوِيَةً بِما ظَلَمُوا [ النمل/ 52] یہ ان کے گھر ان کے ظلم کے سبب خالی پڑے ہیں ۔ رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔ سجد السُّجُودُ أصله : التّطامن «3» والتّذلّل، وجعل ذلک عبارة عن التّذلّل لله وعبادته، وهو عامّ في الإنسان، والحیوانات، والجمادات، وذلک ضربان : سجود باختیار، ولیس ذلک إلا للإنسان، وبه يستحقّ الثواب، نحو قوله : فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا[ النجم/ 62] ، أي : تذللوا له، وسجود تسخیر، وهو للإنسان، والحیوانات، والنّبات، وعلی ذلک قوله : وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً وَظِلالُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الرعد/ 15] ( س ج د ) السجود ( ن ) اسکے اصل معنی فرو تنی اور عاجزی کرنے کے ہیں اور اللہ کے سامنے عاجزی اور اس کی عبادت کرنے کو سجود کہا جاتا ہے اور یہ انسان حیوانات اور جمادات سب کے حق میں عام ہے ( کیونکہ ) سجود کی دو قسمیں ہیں ۔ سجود اختیاری جو انسان کے ساتھ خاص ہے اور اسی سے وہ ثواب الہی کا مستحق ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا[ النجم/ 62] سو اللہ کے لئے سجدہ کرو اور اسی کی ) عبادت کرو ۔ سجود تسخیر ی جو انسان حیوانات اور جمادات سب کے حق میں عام ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ : وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً وَظِلالُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الرعد/ 15] اور فرشتے ) جو آسمانوں میں ہیں اور جو ( انسان ) زمین میں ہیں ۔ چار ونا چار اللہ ہی کو سجدہ کرتے ہیں اور صبح وشام ان کے سایے ( بھی اسی کو سجدہ کرتے ہیں اور صبح وشام ان کے سایے ( بھی اسی کو سجدہ کرتے ہیں )  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٦٤) اور جو راتوں کو اپنے پروردگار کے سامنے تہجد کی نماز میں لگے رہتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦٤ (وَالَّذِیْنَ یَبِیْتُوْنَ لِرَبِّہِمْ سُجَّدًا وَّقِیَامًا ) ” جہاں تک پانچ نمازوں کا تعلق ہے وہ تو فرائض میں شامل ہیں۔ ان نمازوں کی پابندی بندۂ مؤمن کی سیرت کی بنیاد ہے۔ چناچہ سورة المؤمنون کے آغاز میں جب بندۂ مؤمن کے کردار کی اساسات پر بات ہوئی تو وہاں نماز پنج گانہ کی محافظت کا ذکر ہوا ... : (وَالَّذِیْنَ ہُمْ عَلٰی صَلَوٰتِہِمْ یُحَافِظُوْنَ ) ۔ لیکن یہاں چونکہ اللہ کے ان خصوصی بندوں کا ذکر ہو رہا ہے جنہیں اللہ سے دوستی کا شرف اور اس کا قرب نصیب ہوچکا ہے ‘ اس لیے یہاں جس نماز کا ذکر ہوا ہے وہ نماز بھی خصوصی ہے یعنی نماز تہجد۔ چناچہ اللہ کے یہ نیک بندے اپنے رب کے حضور راتوں کی تنہائیوں میں اس وقت حاضر ہوتے ہیں جب دوسرے لوگ سو رہے ہوتے ہیں اور یوں وہ اپنی راتیں اس کے سامنے اس طرح گزار دیتے ہیں کہ کبھی حالت قیام میں ہیں اور کبھی سربسجود ہیں۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

81 That is, they neither spend their nights in fun and merry-making nor in gossips and telling tales, nor in doing wicked deeds, for these are the ways of the ignorant people. The true servants of Allah pass their nights in worshipping and remembering Him as much as they can. This characteristic of theirs has been brought out clearly at several places in the Qur'an, thus: "their backs forsake thei... r beds and they invoke their Lord in fear and in hope." (As-Sajdah: 16). "These people (of Paradise) slept but little at night, and prayed for their forgiveness in the hours of the morning." (Az-Zariyat: 17, 18). And: "Can the end of the one, who is obedient to AIlah, prostrates himself and stands before Him during the hours of the night, fears the Hereafter and places his hope in the mercy of his Lord, be like that of a mushrik;'" (Az-Zumar: 9).  Show more

سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :81 یعنی وہ ان کے دن کی زندگی تھی اور یہ ان کی راتوں کی زندگی ہے ۔ ان کی راتیں نہ عیاشی میں گزرتی ہیں نہ ناچ گانے میں ، نہ لہو و لعب میں ، نہ گپوں اور افسانہ گوئیوں میں ، اور نہ ڈاکے مارنے اور چوریاں کرنے میں ۔ جاہلیت کے ان معروف مشاغل کے برعکس یہ اس معاشرے کے ... وہ لوگ ہیں جن کی راتیں خدا کے حضور کھڑے اور بیٹھے اور لیٹے دعا و عبادت کرتے گزرتی ہیں ۔ قرآن مجید میں جگہ جگہ ان کی زندگی کے اس پہلو کو نمایاں کر کے پیش کیا گیا ہے ۔ مثلاً سورہ سجدہ میں فرمایا : تَتَجَافٰی جُنُوْبُہُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ یَدْعُوْنَ رَبَّہُمْ خَوْفاً وَّ طَمَعاً ، ان کی پیٹھیں بستروں سے الگ رہتی ہیں ، اپنے رب کو خوف اور طمع کے ساتھ پکارتے رہتے ہیں ( آیت 16 ) ۔ اور سورہ ذاریات میں فرمایا کَانُوْا قَلِیْلاً مِّنَ الَّیْلِ مَایَھْجَعُوْنَ ہ وَ بِالْاَسْحَارِ ھُمْ یَسْتَغْفِرُون ، یہ اہل جنت وہ لوگ تھے جو راتوں کو کم ہی سوتے تھے اور سحر کے اوقات میں مغفرت کی دعائیں مانگا کرتے تھے ( آیات 17 ۔ 18 ) ۔ اور سورہ زمر میں ارشاد ہوا : اَمَّنْ ھُوَ قَانِتٌ اٰنَآءَ الَّیْلِ سَاجِداً وَّقَآئِماً یَّحْذَرُ الْاٰخِرَۃَ وَیَرْجُوْا رَحْمَۃ رَبِّہ ، کیا اس شخص کا انجام کسی مشرک جیسا ہو سکتا ہے جو اللہ کا فرماں بردار ہو ، رات کے اوقات میں سجدے کرتا اور کھڑا رہتا ہو ، آخرت سے ڈرتا ہو اور اپنے رب کی رحمت کی آس لگائے ہوئے ہو ؟ ( آیت 9 )   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(25:64) یبیتون۔ مضارع جمع مذکر غائب۔ بات یبیت (ضرب) بیتوتۃ مصدر وہ رات گزارتے ہیں۔ افعال ناقصہ میں سے ہے لربھم : سجد اوقیاما سے متعلق ہے۔ سجدا ساجد کی جمع ہے ۔ سجدہ کرنے والے۔ قیاما : قائم کی جمع ہے کھڑا ہونے والے۔ سجدا وقیاما۔ دونوں بوجہ حال ہونے کے منصوب ہیں۔ مراد دونوں سے نماز ہے

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : عباد الرّحمن کے اوصاف کا تذکرہ جاری ہے۔ الرّحمن کے بندے پوری رات سونے کی بجائے رات کا کچھ حصہ آرام کرنے کے بعد اٹھ کھڑتے ہوتے ہیں۔ ان کے اٹھنے کی کیفیّت قرآن مجید نے یوں بیان کی ہے کہ الرّحمن کے بندے اپنے بستروں سے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور اپنے رب کو امید اور خوف کی کیفیت میں پک... ارتے ہیں۔ (السجدۃ : ١٦) وہ رات کے وقت اپنے رب کے حضور سجدہ اور قیام کرتے ہیں اپنے رب سے فریاد پر فریاد کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب ! ہمیں جہنم کے عذاب سے محفوظ فرمانا۔ بیشک جہنم کا عذاب چمٹ جانے والا ہے یقیناً جہنم ٹھہرنے اور قیام کے اعتبار سے بدترین جگہ ہے۔ سحری کا وقت حاجات و مناجات اور سکون و اطمینان کے لیے ایسا وقت ہے کہ لیل و نہار کا کوئی لمحہ ان لمحات کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ زمین و آسمان کی وسعتیں نورانی کیفیت سے لبریز دکھائی دیتی ہیں۔ ہر طرف سکون و سکوت انسان کی فکر و نظر کو جلابخشنے کے ساتھ خالق حقیقی کی طرف متوجہ کر رہا ہوتا ہے۔ ایک طرف رات اپنے سیاہ فام دامن میں لے کر ہر ذی روح کو سلائے ہوئے ہے اور دوسری طرف بندۂ مومن اپنے خالق حقیقی کی بارگاہ میں پیش ہونے کے لیے کروٹیں بدلتا ہوا اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ کہیں نیند کی غفلت میں یہ پرنور لمحات گذرنہ جائیں۔ وہ ٹھنڈی راتوں میں یخ پانی سے وضو کرکے رات کی تاریکیوں میں لرزتے ہوئے وجود اور کانپتی ہوئی آواز کے ساتھ شکر و حمد اور فقروحاجت کے جذبات میں زار و قطار روتا ہوا فریاد کناں ہوتا ہے۔ وہ آنسوؤں کے قطروں سے اس طرح اپنی ردائے عمل کو دھو ڈالتا ہے کہ اس کا دامن گناہوں کی آلودگی سے پاک اور وجود دنیا کی تھکن سے ہلکا ہوجاتا ہے۔ کیونکہ طویل ترین قیام اور دیر تک رکوع و سجود میں پڑارہنے سے تہجد بندۂ مومن کو ذہنی اور جسمانی طور پر طاقت و توانائی سے ہمکنار کردیتی ہے اگر خوردو نوش میں مسنون طریقوں کو اپنائے تو اس کو کسی قسم کی سیر و سیاحت حتیٰ کہ معمولی ورزش کی حاجت بھی نہیں رہتی۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی تہجد کا اس طرح تذکرہ فرماتے ہیں : (تَتَجَافٰی جُنُوْبُھُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ خَوْفًا وَّ طَمَعًا وَّمِمَّارَزَقْنَاھُمْ یُنْفِقُوْنَ ) [ السجدۃ : ١٦] ” وہ اپنے بستروں سے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اپنے رب کو خوف اور امید کے ساتھ پکارتے اور جو ہم نے انہیں دیا ہے اس سے خرچ کرتے ہیں۔ “ (اِنَّ نَاشِءَۃَ اللَّیْلِ ھِیَ اَشَدُّ وَطْأً وَّ اَقْوَمُ قِیْلاً ) [ المزمل : ٦] ” حقیقتاً رات کا اٹھنا نفس پر قابو پانے اور قرآن پاک پڑھنے کے لیے موزوں ترین وقت ہے۔ “ (اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ جَنّٰتٍ وَّ عُیُوْنٍ اٰخِذِیْنَ مَااٰتٰھُمْ رَبُّھُمْ اَنَّھُمْ کَانُوْا قَبْلَ ذٰلِکَ مُحْسِنِیْنَ کَانُوْا قَلِیْلًا مِنَ اللَّیْلِ مَا یَھْجَعُوْنَ وَبِالْاَسْحَارِ ھُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ ) [ الذّاریات : ١٥ تا ١٧] ” یقیناً متقی لوگ اس دن باغات اور چشموں میں ہوں گے۔ جو کچھ ان کا رب انہیں عطاکرے گا وہ بڑی خوشی کے ساتھ لے رہے ہوں گے۔ کیونکہ وہ اس دن کے قائم ہونے سے پہلے نیک اعمال کیا کرتے تھے۔ راتوں کو کم ہی سویا کرتے تھے اور رات کے پچھلے حصے میں اللہ کے حضور توبہ و استغفار کرتے تھے۔ “ (عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اَفْضَلُ الصَّلٰوۃِ بَعْدَ الصَّلٰوۃِالْمَکْتُوْبَۃِ فِیْ جَوْفِ اللَّیْلِ ) [ مشکوٰۃ : باب صیام النطوع ] ” جناب ابوہریرۃ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا فرض نماز کے بعد افضل ترین نماز درمیانی رات کی نماز ہے۔ “ (عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَنْزِلُ رَبُّنَا تَبَارَکَ وَتَعَالٰی کُلَّ لَیْلَۃٍ اِلَی السَّمَآء الدُّنْیَا حِیْنَ یَبْقَی ثُلُثُ اللَّیْلِ الْاٰخِرِ یَقُوْلُ مَنْ یَدْعُوْنِیْ فَاَسْتَجِیْبَ لَہُ مَنْ یَّسْاَلُنِیْ فَاُعْطِیْہِ مَنْ یَّسْتَغْفِرُنِیْ فَاَغْفِرُ لَہُ ) [ مشکوۃ : باب التحریض علی قیام اللیل ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ رب تعالیٰ رات کے آخری حصے میں آسمان دنیا پر تشر یف لاکر فرماتے ہیں کون ہے مجھے پکارنے والا کہ میں اس کی دعا قبول کروں اور کون ہے مجھ سے طلب کرنے والا میں اسکو عطاکروں اور کون ہے جو مجھ سے بخشش اور مغفرت چاہے میں اس کو بخشتا چلا جاؤں۔ “ (عَنْ عَاءِشَۃَ قَالَتْ کَان النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اِذَا قَامَ مِنَ اللَّیْلِ اِفْتَتَحَ الصَّلٰوۃَ بِرَکْعَتَیْنِ خَفِیْفَتَیْنِ ) [ مشکوٰۃ : باب صلاۃ اللیل ] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب رات کو نماز تہجد کے لیے کھڑے ہوتے تو پہلے دو رکعتیں ہلکی پڑھا کرتے تھے۔ “ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَنَّہُ کَانَ یَقُولُ بَعْدَ التَّشَہُّدِ اللَّہُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنْ عَذَابِ جَہَنَّمَ وَأَعُوذُ بِکَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَأَعُوذُ بِکَ مِنْ فِتْنَۃِ الدَّجَّالِ وَأَعُوذُ بِکَ مِنْ فِتْنَۃِ الْمَحْیَا وَالْمَمَاتِ ) [ رواہ ابوداؤد : باب مایقول بعد التشھد ] ” حضرت ابن عباس (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ تشھد کے بعد یہ دعا کیا کرتے تھے اے اللہ میں عذاب جہنم، عذ اب قبر، دجال کے فتنہ، زند گی اور موت کے فتنہ سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔ “ (عَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَ (رض) قَالَ اَوْصَانِیْ خَلِےْلِیْ بِثَلٰثٍ صِےَامِ ثَلٰثَۃِ اَیَّامٍ مِّنْ کُلِّ شَھْرٍ وَرَکْعَتَیِ الْضُّحٰی وَاَنْ اُوْتِرَ قَبْلَ اَنْ اَنَامَ ) [ رواہ البخاری : باب صِیَامِ أَیَّامِ الْبِیضِ ثَلاَثَ عَشْرَۃَ وَأَرْبَعَ عَشْرَۃَ وَخَمْسَ عَشْرَۃَ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ مجھے میرے محبوب یعنی نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تین کاموں کی وصیت فرمائی کہ ہر ماہ میں تین روزے رکھنا اور چاشت کے وقت دو نفل ادا کرنا اور رات کو سونے سے پہلے وتر ادا کرنا۔ “ (عَنْ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ نَّامَ عَنْ حِزْبِہٖ اَوْ عَنْ شَئٍ مِنْہُ فَقَرَأَہُ فِےْمَا بَےْنَ صَلٰوۃِ الْفَجْرِ وَصَلٰوۃِ الظُّہْرِ کُتِبَ لَہُ کَاَنَّمَا قَرَاَہُ مِنَ اللَّےْلِ ) [ رواہ مسلم : باب جامِعِ صَلاَۃِ اللَّیْلِ وَمَنْ نَامَ عَنْہُ أَوْ مَرِضَ ] ” حضرت عمر (رض) بیان کرتے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے جو شخص رات کی نیند کی وجہ سے اپنا وظیفہ یا اس کا کچھ حصہ مکمل نہ کرسکے اسے فجر اور ظہر کے درمیان مکمل کرلینا چاہیے۔ اس کے لیے ایسے ہی لکھا جائے گا جیسے اس نے رات کے وقت قیام کیا ہو۔ “ مسائل ١۔ ” الرحمن “ کے بندے رات کے وقت اپنے رب کے حضور سجدے اور قیام کرتے ہیں۔ ٢۔ ” الرحمن “ کے بندے اپنے رب سے جہنم کے عذاب سے پناہ مانگتے ہیں۔ ٣۔ جہنم کا عذاب جہنمیوں کے ساتھ چمٹ جانے والا ہوگا۔ ٤۔ جہنم رہنے کے اعتبار سے بدترین جگہ ہے۔ تفسیر بالقرآن جہنّم کے عذاب کا ایک منظر : ١۔ آنتوں اور کھالوں کا بار بارجلائے جانا۔ (النساء : ٥٦) ٢۔ دوزخیوں کی کھال کا بار بار بدلنا۔ (الحج : ٢٠) ٣۔ کانٹے دار جھاڑیوں کا کھانادیا جانا۔ (الغاشیہ : ٦) ٤۔ لوہے کے ہتھوڑوں سے سزا پانا۔ (الحج : ٢١، ٢٢) ٥۔ کھانا گلے میں اٹک جانا۔ (المزمل : ١٣) ٦۔ دوزخیوں کو کھولتا ہوا پانی دیا جانا۔ (الانعام : ٧٠) ٧۔ دوزخیوں کو پیپ پلایا جانا۔ (النبا : ٢٥) ٨۔ آگ کا لباس پہنایا جانا۔ (الحج : ١٩)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

44:۔ ” والذین یبیتون الخ “ یہ دوسری صفت ہے۔ اللہ کے وہ نیک بندے رات بھر اللہ کی عبادت میں مصروف رہتے اور ساری رات نماز میں گذار دیتے ہیں۔ ” والذین یقولون الخ “ تیسری صفت وہ ہر وقت اللہ کے عذاب سے خائف اور لرزاں رہتے اور اللہ سے دعا مانگتے رہتے ہیں اے اللہ ! ہمیں عذاب جہنم سے بچائیو۔ کیونکہ اس کا عذا... ب ہلاکت خیز اور تباہ کن ہے اور وہ رہنے کی نہایت ہی بری جگہ ہے۔ ” غرام “ شر لازم اور عذاب دائم۔ الغرام الشر اللازم والھلاک الدائم (خازن ج 5 ص 108) ۔ ” والذین اذا انفقوا الخ “ یہ چوتھی صفت ہے۔ وہ زندگی کے معاملات میں خصوصا مال خرچ کرنے میں راہ اعتدال پر چلتے ہیں۔ مال خرچ کرنے میں نہ اسراف کرتے ہیں نہ کنجوسی اور بخل سے کام لیتے ہیں جن مصارف میں خرچ کرنا شرعا ناجائز ہے ان میں خرچ نہیں کرتے اور اللہ کی راہ میں اور مفاد عامہ میں خرچ کرنے سے بخل نہیں کرتے۔ ناجائز جگہوں میں خرچ کرنا اسراف ہے اور جائز مصارف میں خرچ نہ کرنا اقتار ہے۔ الانفاق فی غیر طاعۃ اسراف والامساک عن طاعۃ اقتار (بحر ج 6 ص 514) ۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(64) اور اپنے پروردگار کے آگے سجدے اور قیام میں رات کاٹتے ہیں رات اللہ تعالیٰ کے سامنے نماز میں گزارتے ہیں۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں رکوع کو نہیں گنا رکوع بہت لمبا نہیں ہوتا 12