Surat ul Furqan

Surah: 25

Verse: 65

سورة الفرقان

وَ الَّذِیۡنَ یَقُوۡلُوۡنَ رَبَّنَا اصۡرِفۡ عَنَّا عَذَابَ جَہَنَّمَ ٭ۖ اِنَّ عَذَابَہَا کَانَ غَرَامًا ﴿٭ۖ۶۵﴾

And those who say, "Our Lord, avert from us the punishment of Hell. Indeed, its punishment is ever adhering;

اور جو یہ دعا کرتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار! ہم سے دوزخ کا عذاب پرے ہی پرے رکھ ، کیونکہ اس کا عذاب چمٹ جانے والا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And those who say: "Our Lord! Avert from us the torment of Hell. Verily, its torment is ever an inseparable punishment." meaning, ever-present and never ending. Al-Hasan said concerning the Ayah, إِنَّ عَذَابَهَا كَانَ غَرَامًا (Verily, its torment is ever an inseparable, permanent punishment), Everything that strikes the son of Adam, then disappears, does not constitute an inseparable, permanent punishment. The inseparable, permanent punishment is that which lasts as long as heaven and earth. This was also the view of Sulayman At-Taymi. إِنَّهَا سَاءتْ مُسْتَقَرًّا وَمُقَامًا

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

651اس سے معلوم ہوا کہ رحمٰن کے بندے وہ ہیں جو ایک طرف راتوں کو اٹھ کر عبادت کرتے ہیں اور دوسری طرف وہ ڈرتے بھی ہیں کہ کہیں کسی غلطی یا کوتاہی پر اللہ کی گرفت میں نہ آجائیں، اس لئے وہ عذاب جہنم سے پناہ طلب کرتے ہیں۔ گویا اللہ کی عبادت و اطاعت کے باوجود اللہ کے عذاب اور اس کے مؤاخذے سے انسان کو بےخوف اور اپنی عبادت و اطاعت الٰہی پر کسی غرور اور گھمنڈ میں مبتلا نہیں ہونا چاہئے۔ اسی مفہوم کو دوسرے مقام پر اس طرح بیان فرمایا گیا ہے۔ (وَالَّذِيْنَ يُؤْتُوْنَ مَآ اٰتَوْا وَّقُلُوْبُهُمْ وَجِلَةٌ اَنَّهُمْ اِلٰى رَبِّهِمْ رٰجِعُوْنَ ) 23 ۔ المومنون :60) اور وہ لوگ کہ جو کچھ دیتے ہیں اور ان کے دل ڈرتے ہیں کہ وہ اپنے رب کی طرف لوٹنے والے ہیں ڈر صرف اسی بات کا نہیں کہ انھیں بارگاہ الہی میں حاضر ہونا ہے بلکہ اس کے ساتھ اس کا بھی کہ ان کا صدقہ و خیرات قبول ہوتا ہے یا نہیں ؟ حدیث میں آیت کی تفسیر میں آتا ہے کہ حضرت عائشہ (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس آیت کی بابت پوچھا کہ کیا اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو شراب پیتے اور چوری کرتے ہیں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا انھیں اے ابوبکر (رض) کی بیٹی ! بلکہ یہ وہ لوگ ہیں جو روزے رکھتے، نماز پڑھتے اور صدقہ کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود ڈرتے ہیں کہ کہیں ان کے یہ اعمال نا مقبول نہ ہوجائیں۔ الترمذی۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَالَّذِيْنَ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا ۔۔ : مخلوق اور خالق کے ساتھ اپنا معاملہ درست کرنے کے باوجود ان میں غرور یا خود پسندی کا شائبہ تک نہیں ہوتا، بلکہ وہ اپنی کوتاہیوں کی وجہ سے اپنے آپ کو عذاب کا مستحق سمجھتے ہوئے ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے اس کی رحمت اور عفو کے طلب گار اور عذاب جہنم سے بچنے کے خواست گار رہتے ہیں۔ سورة مومنون کی آیت (٦٠) : (وَالَّذِيْنَ يُؤْتُوْنَ مَآ اٰتَوْا وَّقُلُوْبُهُمْ وَجِلَةٌ) (اور وہ کہ انھوں نے جو کچھ دیا اس حال میں دیتے ہیں کہ ان کے دل ڈرنے والے ہوتے ہیں) میں ان کی یہی کیفیت بیان ہوئی ہے اور سورة ذاریات کی آیت (١٧، ١٨) : (كَانُوْا قَلِيْلًا مِّنَ الَّيْلِ مَا يَهْجَعُوْنَ وَبِالْاَسْحَارِ هُمْ يَسْتَغْفِرُوْنَ ) (وہ رات کے بہت تھوڑے حصے میں سوتے تھے اور رات کی آخری گھڑیوں میں وہ بخشش مانگتے تھے) میں مذکور ساری رات قیام کے بعد سحریوں کے وقت استغفار کا باعث بھی ان کا یہی احساس ہوتا ہے۔ اِنَّ عَذَابَهَا كَانَ غَرَامًا : ” غَرَامًا “ ” چمٹ جانے والا “ جس طرح مقروض جب تک قرض ادا نہ کرے غریم (قرض خواہ) اس کی جان نہیں چھوڑتا۔ جیسے شاعر نے کہا ہے ؂ سَتَعْلَمُ لَیْلٰی أَيَّ دَیْنٍ تَدَانَیَتْ وَ أَيَّ غَرِیْمٍ فِي التَّقَاضِيْ غَرِیْمُھَا ” لیلیٰ جان لے گی کہ اس نے کون سا قرض اٹھا لیا ہے اور تقاضا کرنے میں اس کا قرض خواہ کیسا قرض خواہ ہے ؟ “ یہ جملہ عباد الرحمان کا قول بھی ہوسکتا ہے اور رب رحمٰن کا فرمان بھی۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The Fifth Characteristic وَالَّذِينَ يَقُولُونَ رَ‌بَّنَا اصْرِ‌فْ عَنَّا عَذَابَ جَهَنَّمَ (and those who say, |"Our Lord, avert from us the punishment of Jahannam - 25:65). It means that despite their constant prayers day and night, these favoured ones do not sit content, but are always fearful of God and keep in mind the Day of Judgment. To that end they keep alive the righteous deeds as well as supplications before Allah.

پانچویں صفت : وَالَّذِيْنَ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَهَنَّمَ الآیہ یعنی یہ مقبولین بارگاہ شب و روز عبادت و اطاعت میں مصروف رہنے کے باوجود بےخوف ہو کر نہیں بیٹھ رہتے بلکہ ہر وقت خدا کا خوف اور آخرت کی فکر رکھتے ہیں جس کے لئے عملی کوشش بھی جاری رہتی ہے اور اللہ تعال سے دعائیں بھی۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَالَّذِيْنَ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَہَنَّمَ۝ ٠ ۤۖ اِنَّ عَذَابَہَا كَانَ غَرَامًا۝ ٦ ٥ۤۖ قول القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ، ( ق و ل ) القول القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ صرف الصَّرْفُ : ردّ الشیء من حالة إلى حالة، أو إبداله بغیره، يقال : صَرَفْتُهُ فَانْصَرَفَ. قال تعالی: ثُمَّ صَرَفَكُمْ عَنْهُمْ [ آل عمران/ 152] ( ص ر ف ) الصرف کے معنی ہیں کسی چیز کو ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پھیر دینا یا کسی اور چیز سے بدل دینا ۔ محاور ہ ہے ۔ صرفتہ فانصرف میں نے اسے پھیر دیا چناچہ وہ پھر گیا ۔ قرآن میں ہے : ثُمَّ صَرَفَكُمْ عَنْهُمْ [ آل عمران/ 152] پھر خدا نے تم کو ان کے مقابلے سے پھیر کر بھگادیا ۔ جهنم جَهَنَّم اسم لنار اللہ الموقدة، قيل : وأصلها فارسيّ معرّب جهنام «1» ، وقال أبو مسلم : كهنّام «2» ، والله أعلم . ( ج ھ ن م ) جھنم ۔ دوزخ کا نام ہے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ اصل فارسی لفظ جنام سے معرب ہی واللہ علم ۔ غرم الغُرْمُ : ما ينوب الإنسان في ماله من ضرر لغیر جناية منه، أو خيانة، يقال : غَرِمَ كذا غُرْماً ومَغْرَماً ، وأُغْرِمَ فلان غَرَامَةً. قال تعالی: إِنَّا لَمُغْرَمُونَ [ الواقعة/ 66] ، فَهُمْ مِنْ مَغْرَمٍ مُثْقَلُونَ [ القلم/ 46] ، يَتَّخِذُ ما يُنْفِقُ مَغْرَماً [ التوبة/ 98] . والغَرِيمُ يقال لمن له الدّين، ولمن عليه الدّين . قال تعالی: وَالْغارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ [ التوبة/ 60] ، والغَرَامُ : ما ينوب الإنسان من شدّة ومصیبة، قال : إِنَّ عَذابَها كانَ غَراماً [ الفرقان/ 65] ، من قولهم : هو مُغْرَمٌ بالنّساء، أي : يلازمهنّ ملازمة الْغَرِيمِ. قال الحسن : كلّ غَرِيمٍ مفارق غَرِيمَهُ إلا النّار «1» ، وقیل : معناه : مشغوفا بإهلاكه . ( غ ر م ) الغرم ( مفت کا تاوان یا جرمانہ ) وہ مالی نقصان جو کسی قسم کی خیانت یا جنایت ( جرم) کا ارتکاب کئے بغیر انسان کو اٹھانا پڑے غرم کذا غرما ومبغرما فلاں نے نقصان اٹھایا اغرم فلان غرامۃ اس پر تاوان پڑگیا ۔ قرآن میں ہے :إِنَّا لَمُغْرَمُونَ [ الواقعة/ 66]( کہ ہائے ) ہم مفت تاوان میں پھنس گئے ۔ فَهُمْ مِنْ مَغْرَمٍ مُثْقَلُونَ [ القلم/ 46] کہ ان پر تاوان کا بوجھ پڑ رہا ہے ۔ يَتَّخِذُ ما يُنْفِقُ مَغْرَماً [ التوبة/ 98] . کہ جو کچھ خرچ کرتے ہیں اسے تاوان سمجھتے ہیں ۔ اور غریم کا لفظ مقروض اور قرض خواہ دونوں کے لئے آتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَالْغارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ [ التوبة/ 60] اور قرضداروں ( کے قرض ادا کرنے ) کے لئے اور خدا کی راہ میں ۔ اور جو تکلیف یا مصیبت انسان کی پہنچتی ہے اسے غرام کہاجاتا ہے ۔ قرآں میں ہے : إِنَّ عَذابَها كانَ غَراماً [ الفرقان/ 65] کہ اس کا عذاب بڑی تکلیف کی چیز ہے ۔ یہ ھو مغرم باالنساء ( وہ عورتوں کا دلدا وہ ہے ) کے محاورہ سے ماخوذ ہے یعنی وہ شخص جو غریم ( قرض خواہ ) کی طرح عورتوں کے پیچھے پیچھے پھرتا ہو ۔ حسن فرماتے ہیں کل غریم مفارق غریمۃ الاالنار یعنی ہر قرض خواہ اپنے مقروض کو چھوڑ سکتا ہے ۔ لیکن آگ اپنے غرماء کو نہیں چھوڑے گی ۔ بعض نے عذاب جہنم کو غرام کہنے کی یہ وجہ بیان کی ہے کہ وہ عذاب ان کا اسی طرح پیچھا کرے گا ۔ گویا وہ انہیں ہلاک کرنے پر شیفتہ ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قول باری ہے : (ان عذابھا کان غراما۔ اس کا عذاب تو جان کا لاگو ہے۔ ) ایک قول کے مطابق (غراما) کے معنی لازم، چمٹ جانے والا اور ہمیشہ ساتھ لگا رہنے والا کے ہیں۔ اسی سے غریم یعنی قرض خواہ کا لفظ نکلا ہے کیونکہ قرض خواہ اپنے مقروض کے ساتھ چمٹا رہتا ہے ۔ اسی سے یہ محاورہ بھی ہے۔ ” انہ لمغرم بانسانء “ (فلاں شخص عورتوں کا دیوانہ ہے) یعنی ان کے پیچھے لگا رہتا ہے اور اسے ان کے بغیر چین نہیں آتا۔ اعشیٰ کا شعر ہے۔ ان یعاقب یکن غراما وان یعط جزیلا فانہ لا یبالی اگر اسے سزا دی جائے تو وہ دیوانہ ہوجائے گا اور اگر اسے بڑا حصہ دیا جائے تو اس کی پروا نہیں کرے گا۔ بشر بن ابی حازم کا شعر ہے : یوم النسار ویوم الجفا وکان عذابا وکان غراما جدائی کا دن اور جفا کا دن یہ دونوں دن عذاب کے اور جان کے لاگو دن ہیں۔ ہمیں ثعلب کے غلام ابوعمر نے بتایا ہے کہ لغت میں غرم کے اصلی معنی لزوم کے ہیں۔ پھر اس نے اس کی تائید میں وہ شواہد پیش کیے جو ہم اوپر بیان کر آئے ہیں۔ قرض کو غرم اور مغرم کا نام دیا جاتا ہے اس لئے کہ وہ لزوم اور مطالبہ کا مقتضی ہوتا ہے ۔ طالب کو عزیم کہا جاتا ہے اس لئے کہ اسے لزوم کا حق ہوتا ہے اور مطلوب کو بھی غریم کہا جاتا ہے کیونکہ اس کے خلاف لزوم کا ثبوت ہوتا ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد (لا یغلق الرھن لصاحیہ غنمہ وعلیہ غرمہ) رہن کے فائدے سے اس کے مالک کو بند نہیں رکھا جائے گا اور اس پر اس کا قرض لازم ہوگا، بھی اسی پر محمول ہے یعنی غرم سے مراد اس کا وہ قرض ہے جس کے ساتھ وہ شخص مرہون اور جکڑا ہوا ہے۔ امام شافعی کا خیال ہے کہ غرم کے معنی ہلاک ہوجانے کے ہیں۔ ابو عمر نے بتایا ہے ک لغت کے لحاظ سے یہ بات غلط ہے۔ جن سے مروی ہے کہ ہر قرض خواہ اپنے مقروض کا پیچھا چھوڑ دے گا لیکن جہنم اپنے مقروض کا پیچھا نہیں چھوڑے گی۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٦٥۔ ٦٦) اور جو دعائیں مانگتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار ہم سے دوزخ کا عذاب دور کیجیے کیوں کہ اس کا عذاب لازم ہونے والا اور پوری تباہی ہے۔ بیشک وہ برا ٹھکانا اور برا مقام ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦٥ (وَالَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَہَنَّمَق اِنَّ عَذَابَہَا کَانَ غَرَامًا ) ” سورۃ النور میں بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے مقرب بندوں کی ایسی ہی کیفیت بیان فرمائی ہے : (یَخَافُوْنَ یَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِیْہِ الْقُلُوْبُ وَالْاَبْصَارُ ) ” وہ ڈرتے رہتے ہیں اس دن (کے خیال) سے جس میں دل اور نگاہیں الٹ دیے جائیں گے “۔ یعنی اگرچہ وہ اپنی ہر مصروفیت پر اللہ کے ذکر کو ترجیح دیتے ہیں اور ہر حالت میں نماز قائم کرتے ہیں ‘ مگر اس سب کچھ کے باوجود بھی وہ احتساب آخرت کے خوف سے لرزاں و ترساں رہتے ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(25:65) اصرف : صرف یصرف (ضرب) صرف سے امر کا صیغہ واحد مذکر حاضر تو ہٹا دے۔ تو پھیر دے۔ غراما : الغرم مفت کا تاوان یا جرمانہ ۔ وہ مال نقصان جو کسی قسم کی خیانت یا جنایت (جرم) کا ارتکاب کئے بغیر انسان کو اٹھانا پڑے۔ مثلاٍ قرآن مجید میں ہے انا لمغرمون (56:66) (ہائے) ہم مفت میں تاوان میں پھنس گئے یا فھم من مغرم مثقلون (52:40) کہ ان پر تاوان کا بوجھ پڑ رہا ہے۔ اور جو تکلیف یا مصیبت پہنچتی ہے اسے غرام کہاجاتا ہے لہٰذا پیہم تکلیف یا ہلاکت کے لئے اس کا استعمال ہوتا ہے ان عذابھا کان غراما بیشک اس کا عذاب پیہم اور ہلاکت خیز ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

2 ۔ یعنی ایسا چمٹ جانے والا جو کسی طرح الگ نہ ہو۔ اسی سے فریم ہے یعنی صاحب قرض جو پیچھا نہ چھوڑے۔ (قرطبی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

والذین ……ومقاماً (٦٦) اللہ کے بندوں کی نمازوں کی تعبیر یہاں ارکان نماز سجود و قیام سے کی گئی تاکہ یہ معلوم ہو کہ ان کی سرگرمیاں کیا تھیں۔ راتوں کو جب تمام مخلوق سوتی ہے تو وہ جاگ رہے ہوتے ہیں۔ رب کے حضور سجدے اور قیام میں راتیں گزارتے ہیں۔ وہ صرف اپنے رب کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور صرف اس کے سامنے دست بستہ کھڑے ہوتے ہیں۔ صرف اس کے سامنے سجدہ ریز ہوتے ہیں اور راتوں کو وہ فرحت بخش اور لذیذ نیند ترک کرتے ہیں کیونکہ ان کو اس میٹھی اور لذیذ نیند سے اللہ کے سامنے قیام و سجود میں زیادہ لذدت آتی ہے۔ ان کا جسم ان کی روح اور ان کی سوچ اللہ سے وابستہ ہوتی ہے۔ اس لئے لوگ غفلت کی نیند سوتے ہیں اور وہ رکوع و سجود میں مشغول ہیں۔ لوگ زمین پر لیٹے ہیں اور وہ آسمان اور بلندیوں کے ساتھ وابستہ ہیں اور ذوالجلال والا اکرام کے ساتھ لو لگائے ہوئے ہیں۔ لیکن انہوں نے قیام و سجود کی محض صورت اور شکل ہی نہیں بنائی ہوئی ہوتی ، اس قیام اور سجود اور عالم بالا کی طرف اپنی سوچ متوجہ کرنے ساتھ ساتھ ان کے دل میں خدا کا خوف اور تقویٰ بھی پایا جاتا ہے۔ ان کو یہ خوف دامن گیر ہے کہ کسی طرح وہ عذاب جہنم سے نجات پا لیں۔ وہ ہر وقت دعا کرتے ہیں۔ ربنا ……ومقاماً (٢٥ : ٦٦) ” اے ہمارے رب ، جہنم کے عذاب سے ہم کو بچا لے ، اس کا عذاب تو جان کا لاگو ہے ، وہ تو بڑا ہی برا مستقر اور مقام ہے۔ “ انہوں نے جہنم کی اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا لیکن جہنم کے وجود پر ایمان لائے ہیں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم نے جہنم کی جو تصویر کھینچی ہے انہیں اس پر پورا پورا یقین ہے۔ اس لئے ان کو جو خوف لاحق ہے اور جو یہ کہتے ہیں کہ جہنم بہت بڑا ٹھکانا ہے ، یہ ان کے پختہ یقین کا ثبوت ہے اور ان کے گہرے تصدیق کی وجہ سے ہے۔ وہ اپنے رب کی طرف نہایت ہی خضوع او خشوع کے ساتھ متوجہ ہوتے ہیں تاکہ رب کریم مہربانی کر کے جہنم کے عذاب کو ان سے پھیر دے۔ صرف عبادت اور قیام و سجود ہی سے وہ مطمئن نہیں ہوجاتے۔ وہ اس قدر حساس متقی ہیں کہ اپنی عبادت پر تکیہ نہیں کرتے۔ وہ عبادت کو قلیل سمجھتے ہیں۔ اس لئے نجات کے لئے اسے پورا ضامن نہیں سمجھتے۔ چناچہ وہ اس عبارت کے ساتھ ساتھ اللہ کے فضل و کرم کے بھی طلبگار ہیں کہ اللہ کے فضل و کرم ہی سے عذاب الٰہی ٹل سکتا ہے۔ انداز کلام سے جہنم کی نقشہ کشی یوں ہوتی ہے کہ وہ ایک زندہ بلا ہے۔ ہر شخص اس کے منہ میں ہے۔ ہر شخص کو و پکار رہی ہے ، ہر شخص کو ہڑپ کرنا چاہتی ہے ، ہاتھ آگے بڑھا چڑھا کر لوگوں کو اپنے قبضے میں لیتی جاتی ہے ۔ دور اور قریب سب اس کی پہنچ میں ہیں اور اس کے خوف کے مارے اللہ کے یہ بندے رات دن اللہ کے سامنے کھڑے ہیں۔ اس سے ڈر ڈر کر اللہ سے پناہ مانگتے ہیں عاجزی کرتے ہیں اور درخواستیں اور فریادیں کرتے ہیں کہ ای اللہ بچائیو ، یہ تو کھائے جا رہی ہے۔ جب وہ اللہ کے سامنے ہاتھ باندھ کر ، نہایت ہی خوف سے اور نہایت ہی گھبراہٹ سے دعا کرتے ہیں تو انداز کلام ماحول کے اندر ارتعاش پیدا کردیتا ہے۔ ان عذابھا کان غراماً (٢٥ : ٦٥) ” بیشک اس کا عذاب تو جان کا لاگو ہے۔ “ یعنی ایسا عذاب ہے جو کبھی ختم ہونے والا نہیں ہے۔ پھر کبھی چھوڑتا نہیں۔ نہ کم ہوتا ہے اور نہ ختم ہنے کا نام لیتا ہے۔ یہی وصف ہے جہنم اک جو ان بندوں کو خائف کر رہا ہے اور وہ ہر وقت اس سے ڈرے سہمے رہتے ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(65) اور وہ جو یوں دعائیں کرتے ہیں اے ہمارے پروردگار ہم سے جہنم کے عذاب کو دور رکھیو کیونکہ دوزخ کا عذاب ہمیشہ کی تباہی اور چمٹ جانے والا ہے یعنی باوجود اس قدر احتیاط اور عبادت کے جہنم اور اس کے عذاب سے ڈرتے اور پناہ مانگتے ہیں۔