Surat ul Furqan

Surah: 25

Verse: 7

سورة الفرقان

وَ قَالُوۡا مَالِ ہٰذَا الرَّسُوۡلِ یَاۡکُلُ الطَّعَامَ وَ یَمۡشِیۡ فِی الۡاَسۡوَاقِ ؕ لَوۡ لَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡہِ مَلَکٌ فَیَکُوۡنَ مَعَہٗ نَذِیۡرًا ۙ﴿۷﴾

And they say, "What is this messenger that eats food and walks in the markets? Why was there not sent down to him an angel so he would be with him a warner?

اور انہوں نے کہا کہ یہ کیسا رسول ہے؟ کہ کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے ، اس کے پاس کوئی فرشتہ کیوں نہیں بھیجا جاتا ۔ کہ وہ بھی اس کے ساتھ ہو کر ڈرانے والا بن جاتا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

What the Disbelievers said about the Messenger , refutation of Their Words, and Their ultimate Destiny Allah tells us about the disbelievers' stubborn resistance to and rejection of the truth, with no proof or evidence for doing so. وَقَالُوا مَالِ هَذَا الرَّسُولِ يَأْكُلُ الطَّعَامَ ... And they say: "Why does this Messenger eat food, meaning, `as we eat, and why does he need food as we need it.' ... وَيَمْشِي فِي الاَْسْوَاقِ ... and walk about in the markets. means, he walks around and goes there often seeking to trade and earn a living. ... لَوْلاَ أُنزِلَ إِلَيْهِ مَلَكٌ فَيَكُونَ مَعَهُ نَذِيرًا Why is not an angel sent down to him to be a warner with him! They were saying: why doesn't an angel come down to him from Allah, to be a witness that what he is claiming is true! This is like when Fir`awn said: فَلَوْلاَ أُلْقِىَ عَلَيْهِ أَسْوِرَةٌ مِّن ذَهَبٍ أَوْ جَأءَ مَعَهُ الْمَلَـيِكَةُ مُقْتَرِنِينَ "Why then are not golden bracelets bestowed on him, or angels sent along with him!" (43:53) These people had a similar mentality and said the same kind of thing. They said:

مشرکین کی حماقتیں اس حماقت کو ملاحظہ فرمائیے کہ رسول کی رسالت کی انکار کی وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ یہ کھانے پینے کا محتاج کیوں ہے ؟ اور بازاروں میں تجارت اور لین دین کے لئے آتا جاتا کیوں ہے ؟ اس کے ساتھ ہی کوئی فرشتہ کیوں نہیں اتارا گیا ؟ کہ وہ اس کے دعوے کی تصدیق کرتا اور لوگوں کو اس کے دین کی طرف بلاتا اور عذاب الہٰی سے آگاہ کرتا ۔ فرعون نے بھی یہی کہا تھا کہ آیت ( فَلَوْلَآ اُلْقِيَ عَلَيْهِ اَسْوِرَةٌ مِّنْ ذَهَبٍ اَوْ جَاۗءَ مَعَهُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ مُقْتَرِنِيْنَ 53؀ ) 43- الزخرف:53 ) ، اس پر سونے کے کنگن کیوں نہیں ڈالے گئے ؟ یا اس کی مدد کے لئے آسمان سے فرشتے کیوں نہیں اتارے گئے ۔ چونکہ دل ان تمام کافروں کے یکساں ہیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے کفار نے بھی کہا کہ اچھا یہ نہیں تو اسے کوئی خزانہ ہی دے دیا جاتا کہ یہ خود بہ آرام اپنی زندگی بسر کرتا اور دوسرں کو بھی آسان ہے لیکن سردست ان سب چیزوں کے نہ دینے میں بھی حکمت ہے ۔ یہ ظالم مسلمانوں کو بھی بہکاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تم ایک ایسے شخص کے پیچھے لگ لئے ہو جس پر کسی نے جادو کر دیا ہے ۔ دیکھو تو سہی کہ کیسی بےبنیاد باتیں بناتے ہیں ، کسی ایک بات پر جم ہی نہیں سکتے ، ادھر ادھر کروٹیں لے رہے ہیں کبھی جادوگر کہہ دیا تو کبھی جادو کیا ہوا بتا دیا ، کبھی شعر کہہ دیا کبھی جن کا سکھایا ہوا کہہ دیا ، کبھی کذاب کہا کبھی مجنون ۔ حالانکہ یہ سب باتیں محض غلط ہیں اور ان کا غلط ہونا اس سے بھی واضح ہے کہ خود ان میں تضاد ہے کسی ایک بات پر خود ان مشرکین کا اعتماد نہیں ۔ گھڑتے ہیں پھر چھوڑتے ہیں پھر گھڑتے ہیں پھر بدلتے ہیں کسی ٹھیک بات پر جمتے ہی نہیں ۔ جدھر متوجہ ہوتے ہیں راہ بھولتے اور ٹھوکر کھاتے ہیں ۔ حق تو ایک ہوتا ہے اس میں تضاد اور تعارض نہیں ہوسکتا ۔ ناممکن ہے کہ یہ لوگ ان بھول بھلیوں سے نکال سکیں ۔ بیشک اگر رب چاہے تو جو یہ کافر کہتے ہیں اس سے بہتر اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا میں ہی دے دے وہ بڑی برکتوں والا ہے ۔ پتھر سے بنے ہوئے گھر کو عرب قصر کہتے ہیں خواہ وہ بڑا ہو یا چھوٹا ہو ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے تو جناب باری تعالیٰ کی جانب سے فرمایا اور جواب دیا کہ اگر آپ چاہیں تو زمین کے خزانے اور یہاں کی کنجیاں آپ کو دے دی جائیں اور اس قدر دنیا کا مالک بناکر دیا جائے کہ کسی اور کو اتنی ملی نہ ہو ساتھ ہی آخرت کی آپ کی تمام نعمتیں جوں کی توں برقرار ہیں لیکن آپ نے اسے پسند نہ فرمایا اور جواب دیا کہ نہیں میرے لئے تو سب کچھ آخرت ہی میں جمع ہو ۔ پھر فرماتا ہے کہ یہ جو کچھ کہتے ہیں یہ صرف تکبر ، عناد ، ضد اور ہٹ کے طور پر کہتے ہیں یہ نہیں کہ ان کا کہا ہوا ہوجائے تو یہ مسلمان ہوجائیں گے ۔ اس وقت پھر اور کچھ حیلہ بہانہ ٹٹول نکالیں گے ۔ ان کے دل میں تو یہ خیال جما ہوا ہے کہ قیامت ہونے کی نہیں ۔ اور ایسے لوگوں کے لیے ہم نے بھی عذاب الیم تیار کر رکھاہے جو ان کے دل کی برداشت سے باہر ہے جو بھڑکانے اور سلگانے والی جھلس دینے والی تیز آگ کا ہے ۔ ابھی تو جہنم ان سے سو سال کے فاصلے پر ہوگی جب ان کی نظریں اس پر اور اس کی نگاہیں ان پر پڑیں گی وہیں جہنم پیچ وتاب کھائے گی اور جوش وخروش سے آوازیں نکالے گا ۔ جسے یہ بدنصیب سن لیں گے اور ان کے ہوش وحواس خطا ہوجائیں گے ، ہوش جاتے رہیں گے ، ہاتھوں کے طوطے اڑ جائیں گے ، جہنم ان بدکاروں پر دانت پیس رہی ہوگی کہ ابھی ابھی مارے جوش کے پھٹ پڑے گی ۔ ابن ابی حاتم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص میرا نام لے کر میرے ذمے وہ بات کہے جو میں نے نہ کہی ہو وہ جہنم کی دونوں آنکھوں کے درمیان اپنا ٹھکانا بنالے ۔ لوگوں نے کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا جہنم کی بھی آنکھیں ہیں ؟ آپ نے فرمایا ہاں کیا تم نے اللہ کے کلام کی یہ آیت نہیں سنی آیت ( اِذَا رَاَتْهُمْ مِّنْ مَّكَانٍۢ بَعِيْدٍ سَمِعُوْا لَهَا تَغَيُّظًا وَّزَفِيْرًا 12؀ ) 25- الفرقان:12 ) ، ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت ربیع وغیرہ کو ساتھ لئے ہوئے کہیں جا رہے تھے راستے میں لوہار کی دکان آئی آپ وہاں ٹھہر گئے اور لوہا جو آگ میں تپایا جا رہا تھا اسے دیکھنے لگے حضرت ربیع کا تو برا حال ہوگیا عذاب الہٰی کا نقشہ آنکھوں تلے پھرگیا ۔ قریب تھا کہ بیہوش ہو کر گر پڑیں ۔ اس کے بعد آپ فرات کے کنارے گئے وہاں آپ نے تنور کو دیکھا کہ اس کے بیچ میں آگ شعلے مار رہی ہے ۔ بےساختہ آپ کی زبان سے یہ آیت نکل گئی اسے سنتے ہی حضرت ربیع بیہوش ہو کر گر پڑے چار پائی پر ڈال کر آپ کو گھر پہنچایا گیا صبح سے لے کر دوپہر تک حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کے پاس بیٹھے رہے اور چارہ جوئی کرتے رہے لیکن حضرت ربیع کو ہوش نہ آیا ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ جب جہنمی کو جہنم کی طرف گھسیٹا جائے گا جہنم چیخے گی اور ایک ایسی جھر جھری لے گی کہ کل اہل محشر خوف زدہ ہوجائیں گے ۔ اور راویت میں ہے کہ بعض لوگوں کو جب دوزخ کی طرف لے چلیں گے دوزخ سمٹ جائے گی ۔ اللہ تعالیٰ مالک ورحمن اس سے پوچھے گا یہ کیا بات ہے ؟ وہ جواب دے گی کہ اے اللہ یہ تو اپنی دعاؤں میں تجھ سے جہنم سے پناہ مانگا کرتا تھا ، آج بھی پناہ مانگ رہ ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا پھر تم کیا سمجھ رہے تھے ؟ یہ کہیں گے یہی کہ تیری رحمت ہمیں چھپالے گی ، تیرا کرم ہمارے شامل حال ہوگا ، تیری وسیع رحمت ہمیں اپنے دامن میں لے لے گی ۔ اللہ تعالیٰ ان کی آرزو بھی پوری کرے گا اور حکم دے گا کہ میرے ان بندوں کو بھی چھوڑ دو ۔ کچھ اور لوگ گھسیٹتے ہوئے آئیں گے انہیں دیکھتے ہی جہنم ان کی طرف شور مچاتی ہوئی بڑھے گی اور اس طرح جھر جھری لے گی کہ تمام مجمع محشر خوفزدہ ہو جائے گا ۔ حضرت عبید بن عمیر فرماتے ہیں کہ جب جہنم مارے غصے کے تھر تھرائے گی اور شور وغل اور چیخ پکار اور جوش وخروش کرے گی اس وقت تمام مقرب فرشتے اور ذی رتبہ انبیاء کانپنے لگیں گے یہاں تک خلیل اللہ حضرت ابراہیم علیہ السلام بھی اپنے گھٹنوں کے بل گر پڑیں گے اور کہنے لگے اے اللہ میں آج تجھ سے صرف اپنی جان کا بچاؤ چاہتا ہوں اور کچھ نہیں مانگتا ۔ یہ لوگ جہنم کے ایسے تنگ وتاریک مکان میں ٹھوس دیئے جائیں گے جیسے بھالا کسی سوراخ میں اور روایت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اس آیت کی بابت سوال ہونا اور آپ کا یہ فرمانا مروی ہے کہ جیسے کیل دیوار میں بمشکل گاڑی جاتی ہے اس طرح ان دوزخیوں کو ٹھونسا جائے گا ۔ یہ اس وقت خوب جکڑے ہوئے ہونگے بال بال بندھا ہوا ہوگا ۔ وہاں وہ موت کو فوت کو ہلاکت کو حسرت کو پکارنے لگیں گے ۔ ان سے کہا جائے ایک موت کو کیوں پکارتے ہو؟ صدہا ہزارہا موتوں کو کیوں نہیں پکارتے ؟ مسند احمد میں ہے سب سے پہلے ابلیس کو جہنمی لباس پہنایا جائے گا یہ اسے اپنی پیشانی پر رکھ کر پیچھے سے گسیٹتا ہوا اپنی ذریت کو پیچھے لگائے ہوئے موت و ہلاکت کو پکارتا ہوا دوڑتا پھرے گا ۔ اس کے ساتھ ہی اس کی اولاد بھی سب حسرت وافسوس ، موت وغارت کو پکار رہی ہوگی ۔ اس وقت ان سے یہ کہا جائے گا ۔ ثبور سے مراد موت ، ویل ، حسرت ، خسارہ ، بربادی وغیرہ ہے ۔ جیسے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعون سے کہا تھا آیت ( وَاِنِّىْ لَاَظُنُّكَ يٰفِرْعَوْنُ مَثْبُوْرًا ١٠٢؁ ) 17- الإسراء:102 ) فرعون میں تو سمجھتا ہوں کہ تو مٹ کر برباد ہو کر ہی رہے گا ۔ شاعر بھی لفظ ثبور کو ہلاکت وبربادی کے معنی میں لائے ہیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

71قرآن پر طعن کرنے کے بعد رسول پر طعن کیا جا رہا ہے اور یہ طعن رسول کی بشریت پر ہے۔ کیونکہ ان کے خیال میں بشریت، عظمت رسالت کی متحمل نہیں۔ اس لئے انہوں نے کہا کہ یہ تو کھاتا پیتا ہے اور بازاروں میں آتا جاتا ہے اور ہمارے ہی جیسا بشر ہے۔ حالانکہ رسول کو تو بشر نہیں ہونا چاہیئے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٠] کفار کا یہ جاہلانہ اعتراض بھی قرآن میں متعدد مقامات پر دہرایا گیا ہے اور وہ اعتراض یہ ہے کہ رسول کم از کم کوئی مافوق البشر ہستی ہونا چاہئے۔ جو حوائج بشریہ سے بےنیاز ہو۔ یا کم از کم دنیوی دھندوں سے آزاد اور تارک دنیا قسم کے لوگوں سے ہو۔ اس اعتراض کا جواب بھی پہلے کئی مقامات پر دیا جاچکا ہے۔ [ ١١] یعنی وہ کافر اس پیغمبر کی بات کو درست تسلیم نہ کرتا، فرشتہ اسے ڈراتا، دھمکاتا یا مار مار کر کچومر نکال دیتا۔ تاکہ لوگ نبی کی دعوت کا انکار کرنے کی جرات ہی نہ کرسکتے اور اس طرح اس کی اپنی ہی ایک جمعیت بن جاتی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَقَالُوْا مَالِ ھٰذَا الرَّسُوْلِ يَاْكُلُ الطَّعَامَ ۔۔ : یہ قرآن پر طعن کے بعد رسول پر طعن ہے اور بہت گھٹیا طعن ہے، کفار کا یہ جاہلانہ طعن قرآن میں متعدد مقامات پر دہرایا گیا ہے، ان کے خیال میں کوئی بشر رسول نہیں ہوسکتا۔ (دیکھیے بنی اسرائیل : ٩٤، ٩٥) اس لیے انھوں نے کہا، یہ رسول (جو ہماری طرف بھیجے جانے کا دعویٰ کرتا ہے) اسے کیا ہے کہ ہماری طرح کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے، ہم میں اور اس میں فرق کیا ہے ؟ اسے تو فرشتہ ہونا چاہیے تھا، جو بشری ضرورتوں سے پاک ہوتا اور اگر انسان ہوتے ہوئے اسے یہ مقام مل گیا تھا، تو اس کی شان کم از کم اتنی تو ہوتی جتنی دنیا کے کسی بادشاہ کی ہوتی ہے۔ (دیکھیے زخرف : ٥٣) اللہ تعالیٰ نے اس کا جواب آگے آیت (٢٠) میں دیا ہے۔ لَوْلَآ اُنْزِلَ اِلَيْهِ مَلَكٌ ۔۔ : یعنی اگر انسان ہی کو رسول ہونا تھا تو اس کی طرف آسمان سے کوئی فرشتہ اتارا جاتا، جو سب کو نظر آتا، ہر وقت اس کے ساتھ رہتا اور لوگوں کو بتاتا کہ یہ اللہ کا رسول ہے، پھر جو لوگ اس پر ایمان نہ لاتے انھیں اللہ کے عذاب کی دھمکی دیتا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَقَالُوْا مَالِ ھٰذَا الرَّسُوْلِ يَاْكُلُ الطَّعَامَ وَيَمْشِيْ فِي الْاَسْوَاقِ۝ ٠ۭ لَوْلَآ اُنْزِلَ اِلَيْہِ مَلَكٌ فَيَكُوْنَ مَعَہٗ نَذِيْرًا۝ ٧ۙ رسل وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ، ( ر س ل ) الرسل اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ أكل الأَكْل : تناول المطعم، وعلی طریق التشبيه قيل : أكلت النار الحطب، والأُكْل لما يؤكل، بضم الکاف وسکونه، قال تعالی: أُكُلُها دائِمٌ [ الرعد/ 35] ( ا ک ل ) الاکل کے معنی کھانا تناول کرنے کے ہیں اور مجازا اکلت النار الحطب کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے یعنی آگ نے ایندھن کو جلا ڈالا۔ اور جو چیز بھی کھائی جائے اسے اکل بضم کاف و سکونا ) کہا جاتا ہے ارشاد ہے { أُكُلُهَا دَائِمٌ } ( سورة الرعد 35) اسکے پھل ہمیشہ قائم رہنے والے ہیں ۔ طعم الطَّعْمُ : تناول الغذاء، ويسمّى ما يتناول منه طَعْمٌ وطَعَامٌ. قال تعالی: وَطَعامُهُ مَتاعاً لَكُمْ [ المائدة/ 96] ، قال : وقد اختصّ بالبرّ فيما روی أبو سعید «أنّ النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم أمر بصدقة الفطر صاعا من طَعَامٍ أو صاعا من شعیر» «2» . قال تعالی: وَلا طَعامٌ إِلَّا مِنْ غِسْلِينٍ [ الحاقة/ 36] ، طَعاماً ذا غُصَّةٍ [ المزمل/ 13] ، طَعامُ الْأَثِيمِ [ الدخان/ 44] ، وَلا يَحُضُّ عَلى طَعامِ الْمِسْكِينِ [ الماعون/ 3] ، أي : إِطْعَامِهِ الطَّعَامَ ، فَإِذا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا [ الأحزاب/ 53] ، وقال تعالی: لَيْسَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ جُناحٌ فِيما طَعِمُوا [ المائدة/ 93] ، قيل : وقد يستعمل طَعِمْتُ في الشّراب کقوله : فَمَنْ شَرِبَ مِنْهُ فَلَيْسَ مِنِّي وَمَنْ لَمْ يَطْعَمْهُ فَإِنَّهُ مِنِّي[ البقرة/ 249] ، وقال بعضهم : إنّما قال : وَمَنْ لَمْ يَطْعَمْهُ تنبيها أنه محظور أن يتناول إلّا غرفة مع طَعَامٍ ، كما أنه محظور عليه أن يشربه إلّا غرفة، فإنّ الماء قد يُطْعَمُ إذا کان مع شيء يمضغ، ولو قال : ومن لم يشربه لکان يقتضي أن يجوز تناوله إذا کان في طَعَامٍ ، فلما قال : وَمَنْ لَمْ يَطْعَمْهُ بَيَّنَ أنه لا يجوز تناوله علی كلّ حال إلّا قدر المستثنی، وهو الغرفة بالید، وقول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم في زمزم : «إنّه طَعَامُ طُعْمٍ وشِفَاءُ سُقْمٍ» «3» فتنبيه منه أنه يغذّي بخلاف سائر المیاه، واسْتَطْعَمَهُ فَأْطْعَمَهُ. قال تعالی: اسْتَطْعَما أَهْلَها[ الكهف/ 77] ، وَأَطْعِمُوا الْقانِعَ وَالْمُعْتَرَّ [ الحج/ 36] ، وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ [ الإنسان/ 8] ، أَنُطْعِمُ مَنْ لَوْ يَشاءُ اللَّهُ أَطْعَمَهُ [يس/ 47] ، الَّذِي أَطْعَمَهُمْ مِنْ جُوعٍ [ قریش/ 4] ، وَهُوَ يُطْعِمُ وَلا يُطْعَمُ [ الأنعام/ 14] ، وَما أُرِيدُ أَنْ يُطْعِمُونِ [ الذاریات/ 57] ، وقال عليه الصلاة والسلام : «إذا اسْتَطْعَمَكُمُ الإمامُ فَأَطْعِمُوهُ» «1» أي : إذا استفتحکم عند الارتیاج فلقّنوه، ورجلٌ طَاعِمٌ: حَسَنُ الحالِ ، ومُطْعَمٌ: مرزوقٌ ، ومِطْعَامٌ: كثيرُ الإِطْعَامِ ، ومِطْعَمٌ: كثيرُ الطَّعْمِ ، والطُّعْمَةُ : ما يُطْعَمُ. ( ط ع م ) الطعم ( س) کے معنی غذا کھانے کے ہیں ۔ اور ہر وہ چیز جو بطورغذا کھائی جائے اسے طعم یا طعام کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَطَعامُهُ مَتاعاً لَكُمْ [ المائدة/ 96] اور اس کا طعام جو تمہارے فائدہ کے لئے ۔ اور کبھی طعام کا لفظ خاص کر گیہوں پر بولا جاتا ہے جیسا کہ ابوسیعد خدری سے ۔ روایت ہے ان النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) امر بصدقۃ الفطر صاعا من طعام اوصاعا من شعیر ۔ کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صدقہ فطر میں ایک صحابی طعام یا ایک صاع جو د ینے کے حکم دیا ۔ قرآن میں ہے : وَلا طَعامٌ إِلَّا مِنْ غِسْلِينٍ [ الحاقة/ 36] اور نہ پیپ کے سوا ( اس کے ) لئے کھانا ہے ۔ طَعاماً ذا غُصَّةٍ [ المزمل/ 13] اور گلوگیرکھانا ہے ۔ طَعامُ الْأَثِيمِ [ الدخان/ 44] گنہگار کا کھانا ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛ وَلا يَحُضُّ عَلى طَعامِ الْمِسْكِينِ [ الماعون/ 3] اور فقیر کو کھانا کھلانے کے لئے لوگوں کو ترغیب نہیں دیتا ۔ میں طعام بمعنی اوطعام یعنی کھانا کھلانا کے ہے فَإِذا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا[ الأحزاب/ 53] اور جب کھانا کھا چکو تو چل دو لَيْسَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ جُناحٌ فِيما طَعِمُوا[ المائدة/ 93] جو لوگ ایمان لائے اور نیک کام کرتے رہے اور انپر ان چیزوں کا کچھ گناہ نہیں جو وہ کھاچکے ۔ بعض نے کہا ہے کہ کبھی طعمت بمعنی شربت آجاتا ہے ۔ جیسے فرمایا : فَمَنْ شَرِبَ مِنْهُ فَلَيْسَ مِنِّي وَمَنْ لَمْ يَطْعَمْهُ فَإِنَّهُ مِنِّي[ البقرة/ 249] جو شخص اس میں سے پانی پی لے گا توہ وہ مجھ دے نہیں ہے اور جو شخص اس سے پانی نہ پیے گا ( اس کی نسبت تصور کیا جائے گا کہ ) میرا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہاں من لم یشربہ بجائے ومن لم یطعمہ کہہ کر اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ جس طرح چلو بھر سے زیادہ محض پانی کا استعمال ممنوع ہے اسی طرح طعام کے ساتھ بھی اس مقدار سے زائد پانی پینا ممنوع ہے کیونکہ جو پانی کھانے کے ساتھ پیاجاتا ہے اس پر بھی طعمت کا لفظ بولا جاسکتا ہے ۔ لہذا اگر من لمیشربہ لایا جاتا تو اس سے کھانے کے ساتھ پانی پینے کی ممانعت ثابت نہ ہوتی اس کے برعکس یطعمہ کے لفظ سے یہ ممانعت بھی ثابت ہوجاتی اور معین مقدار سے زائد پانی کا پینا بہر حالت ممنوع ہوجاتا ہے ۔ اور ایک حدیث (20) میں آنحضرت نے زم زم کے پانی کے متعلق انہ طعام طعم و شفاء سقم ( کہ یہ کھانے کا کھانا اور بیماری سے شفا ہے ) فرماکر تنبیہ کی ہے کہ بیر زمزم کے پانی میں غذائیت بھی پائی جاتی ہے جو دوسرے پانی میں نہیں ہے ۔ استطعمتہ فاطعمنی میں نے اس سے کھانا مانگا چناچہ اس نے مجھے کھانا کھلایا ۔ قرآن میں ہے : اسْتَطْعَما أَهْلَها[ الكهف/ 77] اور ان سے کھانا طلب کیا ۔ وَأَطْعِمُوا الْقانِعَ وَالْمُعْتَرَّ [ الحج/ 36] اور قناعت سے بیٹھے رہنے والوں اور سوال کرنے والوں کو بھی کھلاؤ ۔ وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ [ الإنسان/ 8] اور وہ کھانا کھلاتے ہیں أَنُطْعِمُ مَنْ لَوْ يَشاءُ اللَّهُ أَطْعَمَهُ [يس/ 47] بھلا ہم ان لوگوں کو کھانا کھلائیں جن کو اگر خدا چاہتا تو خود کھلا دیتا ۔ الَّذِي أَطْعَمَهُمْ مِنْ جُوعٍ [ قریش/ 4] جس نے ان کو بھوک میں کھانا کھلایا ۔ وَهُوَ يُطْعِمُ وَلا يُطْعَمُ [ الأنعام/ 14] دہی سب کو کھانا کھلاتا ہے اور خود کسی سے کھانا نہیں لیتا ۔ وَما أُرِيدُ أَنْ يُطْعِمُونِ [ الذاریات/ 57] اور نہ یہ چاہتا ہوں کہ مجھے کھانا کھلائیں ۔ اور (علیہ السلام) نے فرمایا (21) اذا استطعمکم الامام فاطعموہ یعنی جب امام ( نماز میں ) تم سے لقمہ طلب کرے یعنی بھول جائے تو اسے بتادو ۔ رجل طاعم خوش حال آدمی رجل مطعم جس کو وافروزق ملا ہو مطعم نیک خورندہ ۔ مطعام بہت کھلانے والا ، مہمان نواز طعمۃ کھانے کی چیز ۔ رزق ۔ مشی المشي : الانتقال من مکان إلى مکان بإرادة . قال اللہ تعالی: كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] ، وقال : فَمِنْهُمْ مَنْ يَمْشِي عَلى بَطْنِهِ [ النور/ 45] ، إلى آخر الآية . يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان/ 63] ، فَامْشُوا فِي مَناكِبِها[ الملک/ 15] ، ويكنّى بالمشي عن النّميمة . قال تعالی: هَمَّازٍ مَشَّاءٍ بِنَمِيمٍ [ القلم/ 11] ، ويكنّى به عن شرب المسهل، فقیل : شربت مِشْياً ومَشْواً ، والماشية : الأغنام، وقیل : امرأة ماشية : كثر أولادها . ( م ش ی ) المشی ( ج ) کے معنی ایک مقام سے دوسرے مقام کی طرف قصد اور ارادہ کے ساتھ منتقل ہونے کے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] جب بجلی چمکتی اور ان پر روشنی ڈالتی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں ۔ فَمِنْهُمْ مَنْ يَمْشِي عَلى بَطْنِهِ [ النور/ 45] ان میں سے بعض ایسے ہیں جو پیٹ کے بل چلتے ہیں يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان/ 63] جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں ۔ فَامْشُوا فِي مَناكِبِها[ الملک/ 15] تو اس کی راہوں میں چلو پھرو ۔ اور کنایۃ مشی کا لفظ چغلی کھانے کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ هَمَّازٍ مَشَّاءٍ بِنَمِيمٍ [ القلم/ 11] طعن آمیز اشارتیں کرنے والا چغلیاں لئے پھرنے والا ۔ اور کنایۃ کے طور پر مشئی کے معنی مسہل پینا بھی آتے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے : ۔ شربت مشیا ومشو ا میں نے مسہل دواپی الما شیۃ مویشی یعنی بھیڑ بکری کے ریوڑ کو کہتے ہیں اور امراۃ ماشیۃ اس عورت کو کہتے ہیں جس کے بچے بہت ہوں ۔ سُّوقُ : الموضع الذي يجلب إليه المتاع للبیع، قال : وَقالُوا مالِ هذَا الرَّسُولِ يَأْكُلُ الطَّعامَ وَيَمْشِي فِي الْأَسْواقِ [ الفرقان/ 7] ، والسَّوِيقُ سمّي لِانْسِوَاقِهِ في الحلق من غير مضغ . اور سوق کے معنی بازار بھی آتے ہیں جہاں خرید فروخت ہوتی ہے اور فروخت کے لئے وہاں سامان لے جایا جاتا ہے اس کی جمع اسواق ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَقالُوا مالِ هذَا الرَّسُولِ يَأْكُلُ الطَّعامَ وَيَمْشِي فِي الْأَسْواقِ [ الفرقان/ 7] یہ کیسا پیغمبر ہے کہ کھانا کھاتا ہے ۔ اور بازروں میں چلتا پھرتا ہے ۔ ملك ( فرشته) وأما المَلَكُ فالنحویون جعلوه من لفظ الملائكة، وجعل المیم فيه زائدة . وقال بعض المحقّقين : هو من المِلك، قال : والمتولّي من الملائكة شيئا من السّياسات يقال له : ملک بالفتح، ومن البشر يقال له : ملک بالکسر، فكلّ مَلَكٍ ملائكة ولیس کلّ ملائكة ملکاقال : وَالْمَلَكُ عَلى أَرْجائِها [ الحاقة/ 17] ، عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبابِلَ [ البقرة/ 102] ( م ل ک ) الملک الملک علمائے نحو اس لفظ کو ملا ئکۃ سے ماخوذ مانتے ہیں اور اس کی میم کو زائد بناتے ہیں لیکن بعض محقیقن نے اسے ملک سے مشتق مانا ہے اور کہا ہے کہ جو فرشتہ کائنات کا انتظام کرتا ہے اسے فتحہ لام کے ساتھ ملک کہا جاتا ہے اور انسان کو ملک ہیں معلوم ہوا کہ ملک تو ملا ئکۃ میں ہے لیکن کل ملا ئکۃ ملک نہیں ہو بلکہ ملک کا لفظ فرشتوں پر بولا جاتا ہے کی طرف کہ آیات ۔ وَالْمَلَكُ عَلى أَرْجائِها [ الحاقة/ 17] اور فرشتے اس کے کناروں پر اتر آئیں گے ۔ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبابِلَ [ البقرة/ 102] اور ان باتوں کے بھی پیچھے لگ گئے جو دو فرشتوں پر اتری تھیں ۔ النذیر والنَّذِيرُ : المنذر، ويقع علی كلّ شيء فيه إنذار، إنسانا کان أو غيره . إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ نوح/ 2] ( ن ذ ر ) النذیر النذیر کے معنی منذر یعنی ڈرانے والا ہیں ۔ اور اس کا اطلاق ہر اس چیز پر ہوتا ہے جس میں خوف پایا جائے خواہ وہ انسان ہو یا کوئی اور چیز چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُبِينٌ [ الأحقاف/ 9] اور میرا کام تو علانیہ ہدایت کرنا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٧) اور ابوجہل، نضر اور امیہ بن خلف اور ان کے ساتھی یوں کہتے ہیں کہ اس رسول کو کیا ہوا کہ وہ ہماری طرح کھانا کھاتا ہے اور ہماری طرح بازاروں میں چلتا پھرتا ہے اس کے ساتھ کوئی فرشتہ کیوں نہیں بھیجا گیا جو اس کا مددگار اور محافظ رہتا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧ (وَقَالُوْا مَالِ ہٰذَا الرَّسُوْلِ یَاْکُلُ الطَّعَامَ وَیَمْشِیْ فِی الْاَسْوَاقِ ط) ” کہ ایک ایسا شخص اللہ کا بھیجا ہوا رسول کیسے ہوسکتا ہے جس کو کھانے کی حاجت بھی ہو اور وہ عام انسانوں کی طرح بازاروں میں خریدو فروخت بھی کرتا پھرتا ہو۔ (لَوْلَآ اُنْزِلَ اِلَیْہِ مَلَکٌ فَیَکُوْنَ مَعَہٗ نَذِیْرًا ) ” ہاں اگر یہ واقعی اللہ کے رسول ہیں تو ان پر آسمان سے کوئی فرشتہ کیوں نہیں اتارا گیا جو ہماری آنکھوں کے سامنے پرواز کرتے ہوئے نازل ہوتا ‘ ان کے رسول ہونے کی گواہی دیتا اور پھر یہ جدھر بھی جاتے ‘ وہ فرشتہ لوگوں کو خبردار کرنے کے لیے ہٹو بچو کا نعرہ لگاتے ہوئے ان کے ساتھ ساتھ چلتا اور نہ ماننے والوں کو دھمکاتا !

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

14 That is, "He cannot be a Messenger of AIIah because he is a human being like us. Had Allah willed to send a Messenger, He would have sent an angel, and f at aII a human being was to be sent, he should have been a king or a millionaire, who would have resided in a castle and been guarded by attendants. A Messenger could not be an ordinary person who has to move about in the market places like the common people, for it is obvious that such a human Messenger cannot attract the attention of the people. In other words, they thought that a Messenger was not meant to guide the people to the right path but to coerce them to obedience by show of worldly power and grandeur. For further details, see E.N. 26 of AI-Mu'minun. 15 That is, "If a human being was to be sent as a Messenger, an angel should have been appointed to accompany him to proclaim: `If you do not believe in him, 1 will scourge you." But what son of a Messenger is he, who has to suffer from abuse and persecution?"

سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :14 یعنی اول تو انسان کا رسول ہونا ہی عجیب بات ہے ۔ خدا کا پیغام لے کر آتا تو کوئی فرشتہ آتا نہ کہ ایک گوشت پوست کا آدمی جو زندہ رہنے کے لیے غذا کا محتاج ہو ۔ تا ہم اگر آدمی ہی رسول بنایا گیا تھا تو کم از کم وہ بادشاہوں اور دنیا کے بڑے لوگوں کی طرح ایک بلند پایہ ہستی ہونا چاہیے تھا جسے دیکھنے کے لیے آنکھیں ترستیں اور جس کے حضور باریابی کا شرف بڑی کوششوں سے کسی کو نصیب ہوتا ، نہ یہ کہ ایک ایسا عامی آدمی خداوند ، عالم کا پیغمبر بنا دیا جائے جو بازاروں میں جوتیاں چٹخاتا پھرتا ہو ۔ بھلا اس آدمی کو کون خاطر میں لائے گا جسے ہر راہ چلتا روز دیکھتا ہو اور کسی پہلو سے بھی اس کے اندر کوئی غیر معمولی پن نہ پاتا ہو ۔ بالفاظ دیگر ، ان کی رائے میں رسول کی ضرورت اگر تھی تو عوام الناس کو ہدایت دینے کے لیے نہیں بلکہ عجوبہ دکھانے یا ٹھاٹھ باٹ سے دھونس جمانے کے لیے تھی ۔ ۔ ﴿ تشریح کے لئے ملاحظہ ہو ، تفہیم القرآن ، جلد سوم ، المومنون ، حاشیہ۲٦ ﴾ سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :15 یعنی اگر آدمی ہی کو نبی بنایا گیا تھا تو ایک فرشتہ اس کے ساتھ کردیا جاتا جو ہر وقت کوڑا ہاتھ میں لئے رہتا اور لوگوں سے کہتا کہ مانو اس کی بات ، ورنہ ابھی خدا کا عذاب برسا دیتا ہوں ۔ یہ تو بڑی عجیب بات ہے کہ کائنات کا مالک ایک شخص کو نبوت کا جلیل القدر منصب عطا کر کے بس یونہی اکیلا چھوڑا دے اور وہ لوگوں سے گالیاں اور پتھر کھاتا پھرے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٧۔ ٩:۔ تفسیر ابن جریر ٢ ؎ میں عکرمہ اور سعید بن جبیر کی سند سے حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کی روایت میں جو شان نزول ان آیتوں کی بیان کی گئی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ مشرکین مکہ نے جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر تنگ دستی اور فقروفاقہ کی طعن کی اور کہا یہ کیسے رسول ہیں کہ ذرا ذرا سی چیز بازار میں خریدتے پھرتے ہیں ‘ اگر یہ اللہ کے سچے رسول ہوتے تو ضرور اللہ تعالیٰ ان کو خوشحالی سے رکھتا ‘ مشرکین کی اس طعن سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دل پر کچھ اثر رنج کا پیدا ہوا ‘ اس رنج کا اثر دور کرنے کو اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائیں اور فرما دیا ‘ کہ شیطان نے ان لوگوں کو بہکا دیا ہے ‘ اس واسطے یہ بہکی بہکی باتیں کرتے ہیں ‘ ورنہ یہ لوگ اپنے آپ کو ملت ابراہیمی پر بتلاتے ہیں اور حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کو نبی جانتے ہیں ‘ پھر یہ نہیں ثابت کرسکتے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) فرشتے تھے ‘ کچھ کھاتے پیتے نہیں تھے یا غیب سے ان کو خزانہ ملا تھا ‘ یا کوئی فرشتہ ان کے ساتھ رہتا تھا ‘ جو ان کے نبی ہونے کی شہادت لوگوں سے ادا کرتا تھا ‘ یا انہوں نے بڑے بڑے محل اور باغ بنائے تھے ‘ علاوہ حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کے اور انبیاء کا حال اہل کتاب سے بھی انہوں نے سنا ہے کہ کسی نبی میں یہ باتیں نہیں تھیں ‘ پھر سب انبیاء سے انوکھی باتیں جو یہ لوگ نبی آخر الزمان میں چاہتے ہیں ‘ یہ خواہش ان کی ایک معجزے کے طور کی خواہش نہیں ہے بلکہ ایک شرارت اور اغوائے شیطانی کی خواہش ہے ‘ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مشرکین کی طعن کا جواب مختصر طور پر دیا ہے اور آیتوں میں اس کی زیادہ تفصیل ہے جس کا ذکر ہر ایک موقعہ پر آوے گا ‘ اس شان نزول کی سند کو بعضے مفسروں نے ضعیف جو کہا ہے اس کا سبب یہ ہے کہ اس شان نزول کی دو سندیں ہیں ایک جبیر اور ضحاک بن مزحک مزاحم کی سند ہے اور دوسرے سعید بن جبیر اور عکرمہ کی سند ہے ‘ پہلی سند ضعیف ہے ‘ اس ضعیف سند سے اس شان نزول کو واحدی وغیرہ نے روایت کیا ١ ؎ ہے ‘ دوسری سند قوی ہے جس کو ابن جریر نے اپنی تفسیر میں روایت کیا ہے ‘ وہی روایت اس تفسیر میں لی گئی ہے ‘ ان آیتوں میں مشرکین مکہ نے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جو طعن کی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ جو اپنے آپ کو اللہ کا رسول کہتے ہیں ان میں اور ہم میں کچھ فرق نہیں ہے ‘ ہماری طرح یہ بھی کھانا کھاتے ہیں ‘ بازاروں میں پھرتے ہیں ‘ اگر یہ سچے رسول ہیں تو آسمان سے کوئی فرشتہ ان کے ساتھ رہ کر ان کے رسول ہونے کی صداقت کیوں نہیں کرتا ‘ اور تنگدستی سے چھوٹ جانے کے لیے ان کو کوئی خزانہ اور عمدہ باغ غیب سے کیوں نہیں مل جاتا ‘ پھر فرمایا ان باتوں کے ساتھ مسلمانوں سے یہ بےانصاف لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ تم میں سے کسی کو ان رسول کا کہنا نہیں ماننا چاہیے تھا کیونکہ ان پر تو کسی نے جادو کردیا اس جادو کے اثر سے یہ اپنے آپ کو اللہ کا رسول بتلاتے ہیں ‘ پھر فرمایا اے رسول اللہ کے تم نے دیکھا کہ یہ مشرک تمہاری شان میں کیا کیا کہتے ہیں لیکن اے رسول اللہ کے اللہ تعالیٰ نے تمہاری معرفت ان کو جو نجات کا راستہ بتلایا ہے جب تک یہ لوگ اس کو نہ مانیں گے تو اسی طرح کی بہکی بہکی باتیں ان کو اچھی معلوم ہوں گی ‘ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے حضرت علی (رض) کی حدیث کئی جگہ گزر چکی ہے کہ دنیا کے پیدا ہونے سے پہلے جو لوگ اللہ تعالیٰ کے علم غیب کے موافق جنتی قرار پاچکے ہیں وہ دنیا میں پیدا ہونے کے بعد ویسے ہی کام کرتے ہیں اور جو دوزخی ٹھہر چکے ہیں وہ ویسے ہی کام کرتے ہیں ‘ اس حدیث کو آیتوں کے ساتھ ملانے سے یہ مطلب ہوا کہ اہل مکہ میں سے جو لوگ اللہ تعالیٰ کے علم غیب میں جنتی قرار پا چکے ہیں وہ کچھ دنوں تک بہکی ہوئی باتیں کرتے رہے لیکن پھر آخر کو قرآن کی نصیحت سے راہ راست پر آگئے اور جو لوگ اللہ تعالیٰ کے علم غیب میں دوزخی ٹھہر چکے تھے وہ مرتے دم تک ایسی ہی بہکی ہوئی باتیں کرتے رہے جیسی باتوں کا ذکر ان آیتوں میں ہے۔ (٢ ؎ ص ٨٣ ا ج ٨ ا طبع جدید ) (١ ؎ تفسیر الدر المنثور ص ٦٣ ج ٥ بحوالہ اسباب النزول واحدی ١٩٠‘ ١٩١ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

3 ۔ یعنی اللہ کا بھیجا ہوا رسول اتنی معمولی شخصیت کا مالک نہیں ہوتا کہ عام لوگوں کی طرح کھانا کھائے اور بازاروں میں چلے پھرے۔ اسے اول تو فرشتہ ہونا چاہیے تھا جو ان لوازم بشریت سے پاک ہوتا۔ اور اگر انسان ہوتے ہوئے اسے یہ مقام مل گیا تھا تو اس کی شان کم از کم اتنی تو ہوتی جتنی دنیا کے دوسرے بادشاہوں کی ہوتی ہے۔ 4 ۔ یعنی جو لوگ اس کا کہنا نہ مانتے انہیں خدا کے عذاب کی دھمکی دیتا رہتا۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن : آیت نمبر 7 تا 16 : (مالھذالرسول) یہ کیسا رسول ہے ‘(یمشی) چلتا ہے ‘(الاسواق (سوق) بازار ‘(کنز) خزانہ ‘(مسحور) جادو میں پھنسا ہوا ‘(ضلوا) وہ گمراہ ہوگئے ‘ قصور (قصر) محل۔ محلات ‘(سعیر) بھڑکتی آگ ‘(تغیظ) غصہ سے جوش مارنا ‘(زفیر) غصہ سے نکلی ہوئی تیز آواز ‘ (ضیق) تنگ ‘ مقرنین (آپس میں جکڑے ہوئے) (ثبور) موت۔ ہلاکت ‘(مایشآء و ن) جو کچھ وہ چاہیں گے ‘(مسئولا) سوال کیا گیا۔ درخواست کا حق ‘۔ تشریح : آیت نمبر 7 تا 16 : سچی اور عظیم تحریک اور مضبوط دلائل کے سامنے شکست کھاجانے والے لوگ جب دیکھتے ہیں کہ ہر شخص متاثر ہورہا ہے تو وہ طرح طرح کے اعتراضات ‘ الزامات اور ذاتیات پر اتر آتے ہیں چناچہ جب قرآن کریم کی واضح اور کھلی کھلی آیات اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پر تاثیر شخصیت اور اعلیٰ ترین سیرت نے ہر شخص کو دین اسلام کی طرف متوجہ کرنا شروع کیا تو کفار و مشرکین نے قرآن کریم اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات کو اعتراضات کا نشانہ بنانا شروع کردیا تھا۔ چنانچہ قرآن کریم جیسی عظیم کتاب جس کے سامنے وقت کے شاعر اور زباں داں عاجز اور بےبس ہو کر رہ گئے تھے اس کو پرانے زمانے کے قصے اور من گھڑت کہانیاں قرار دینے کا پروپیگنڈا شروع کردیا گیا۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو شاعر ‘ مجنون ‘ کاہن اور نجانے کن کن القابات سے یاد کیا جانے لگا تھا۔ وہ کہتے تھے کہ اگر یہ واقعی اللہ کے نبی ہیں تو ان کا کوئی شاہانہ انداز ہونا چاہیے تھا ‘ خوب ٹھاٹ باٹ ہوتے ‘ آسمان سے فرشتے نازل ہوتے ‘ مال و دولت کا زبردست خزانہ ہوتا جس کو وہ دونوں ہاتھوں سے خوب لٹاتے ‘ خود بھی کھاتے اور دوسروں کو بھی کھلاتے یا کوئی خوبصورت ساباغ ہوتا جس میں ہر طرف سر سبزی و شادابی ہوتی۔ لیکن یہاں تو صورت حال یہ ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے اوپر ایمان لانے والے غریب ‘ مسکین اور پھٹے حال لوگ ہیں جن کے نہ کھانے کو نہ پینے کو ہر طرف فقروفاقہ ہی فقرو فاقہ ہے۔ وہ یہاں تک گستاخی پر اتر آئے تھے کہ لوگوں سے کہتے کہ کیا تم ایسے شخص کی بات کا یقین کرنے چلے ہو جس پر کسی نے جادو کردیا ہے جس کی وجہ سے نعوذ باللہ ان کے ہوش و حواس بگڑ چکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ذرا دیکھئے تو سہی یہ لوگ جو کل تک آپ کو صادق ‘ امین اور ذہین و سمجھ دار کہا کرتے تھے آج کیسی پھبتیاں کس رہے ہیں ‘ کیسے کیسے القابات دے رہے ہیں۔ فرمایا کہ آپ اس کی پروا نہ کیجئے کیونکہ یہ لوگ راستے سے بھٹک چکے ہیں نہ خود صراط مسقیم پر چلنا چاہتے ہیں اور نہ دوسروں کو اس سیدھی سچی راہ پر دیکھنا گوارا کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اگر اللہ چاہتا تو آپ کو حضرت دائود (علیہ السلام) اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی طرح دولت و سلطنت سے نواز سکتا تھا۔ وہ آپ کو ایسے سر سبز و شاداب اور ہرے بھرے باغات عطا کرسکتا تھا کہ جس کے نیچے سے نہریں جاری ہوتیں اور رہنے کے لئے عالی شان محلات اور حسین ترین مکانات ہوتے لیکن یہ سب کچھ مقصود نہیں ہے بلکہ آخرت کی زندگی کی طرف متوجہ کرنا اصل مقصد ہے۔ فرمایا کہ یہ لوگ جس بات کو ظاہر کررہے ہیں اور اعتراضات کررہے ہیں بات یہ نہیں ہے۔ بلکہ اصل بات یہ ہے کہ یہ لوگ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے اور قیامت ‘ آخرت اور تمام اعمال کی جزا و سزا پر یقین نہیں رکھتے۔ وہ دنیا کی زنذگی ہی کو سب کچھ سمجھتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ ہمارا مرنا جینا اسی دنیا تک محدود ہے۔ آخرت ‘ جنت ‘ جہنم اور اچھے برے اعمال کی سزا اور جزا کوئی چیز نہیں ہے۔ فرمایا کہ ان لوگوں کے اس طرح سوچنے سے حقائق تبدیل نہیں ہوں گے کیونکہ مرنے کے بعد ان کو دوبارہ زندہ ہونا ہے اور پھر جب ان کو جہنم کی وہ آگ جوان کے لئے تیار کی گئی ہے اس میں جھونکا جائے گا اس وقت ان کی آنکھوں سے سارے پردے ہٹ جائیں گے۔ جہنم کی کیفیات کو ظاہر کرتے ہوئے فرمایا کہ جب یہ جہنم کفار کو دیکھے گی تو وہ غیض و غضب کے ساتھ ایک ڈراونی اور ہیبت ناک آواز سے دھاڑنا شروع کردے گی اور اس کے جوش کا ٹھکانا نہ ہوگا۔ اس کی ہیبت ناک آوازوں کو یہ کفار و مشرکین خود اپنے کانوں سے سنیں گے۔ فرمایا کہ ان مجرمین کو جب زنجیروں میں جکڑ کر جہنم کے تنگ و تاریک حصے میں پھینک دیاجائے گا تو پھر ان کی بےچینی اور گھبراہٹ اپنی انتہاؤں پر ہوگی۔ وہ روئیں گے ‘ چلائیں گے اور شدید ترین اذیت کی وجہ سے موت کو یاد کر کے کہیں گے کہ اس سے بہتر تھا کہ ہمیں موت آجاتی۔ ہمارا وجود مٹ جاتا اور اس کی اذیت و مصیبت سے جان چھوٹ جاتی۔ مگر اس وقت ان کا رونا ‘ چلانا ‘ چیخنا اور دھاڑنا ان کے کام نہ آسکے گا۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ آج کے دن تم صرف ایک موت کو نہ پکارو بلکہ بہت سی موتوں کو آواز دو ۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا ہے کہ آپ ذرا ان سے پوچھئیے کہ تم اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی وجہ سے جہنم کی جس اذیت میں مبتلا ہوگے یہ بہتر ہے یا وہ جنت بہتر ہے جس کا وعدہ اللہ نے ان لوگوں سے کیا ہوا ہے جوتقویٰ اور پرہیز گاری کی زندگی کو اپنائے ہوئے ہیں۔ ان جنتوں میں ان کو بہترین بدلہ اور جزاء عطا کی جائے گی جس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ ان جنتیوں کا یہ حال ہوگا۔ کہ اہل جنت جس چیز کی خواہش اور تمنا کریں گے ان کو عطاکی جائے گی۔ یہ اللہ کا سچاوعدہ ہے جو پورا ہوکررہنے والا ہے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ یعنی بشر ہے جو کہ محتاج ہوتا ہے طعام و اہتمام معاش کا، مطلب یہ کہ رسول کو فرشتہ ہونا چاہئے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : کفار کا قرآن مجید پر اعتراضات کرنے کے بعد سروردو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات پر اعتراضات۔ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات اطہر پر اہل مکہ کو یہ بھی اعتراض تھا کہ یہ کیسا رسول ہے جو کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے اس کے ساتھ فرشتہ کیوں نہیں اتارا گیا ؟ جو اس کی بات نہ ماننے والوں کو ڈرا دھما کر اس کی رسالت منواتا۔ یہاں تک ان لوگوں کا رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر یہ اعتراض کہ آپ انسان ہونے کے ناطے سے کھانے پینے کے محتاج تھے اور سودا سلف کے لیے بازار جاتے یہ ایسا بوسیدہ اور قدیم ترین اعتراض ہے جو ہزاروں سال پہلے حضرت نوح (علیہ السلام) پر بھی کیا گیا۔ قرآن مجید نے اس اعتراض کا یہ جواب دیا ہے کہ کیوں نہیں آپ سے پہلے جتنے پیغمبر مبعوث کئے گئے وہ سب کے سب کھانے پینے والے انسان تھے انبیاء واضح الفاظ میں اس بات کا اعتراف کرتے کہ لوگو ! انسانی حاجات کے حوالے سے ہم بھی تمہارے جیسے انسان ہیں لیکن ہمارا امتیاز یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہم پر احسان فرمایا اور لوگوں تک اپنا پیغام پہنچانے کے لیے ہمارا انتخاب کیا ہے (ابراہیم : ١١) جہاں تک دوسرے اعتراض کا تعلق ہے کہ اس کے ساتھ ایک فرشتہ ہونا چاہیے تھا جو شخص آپ کی رسالت کا انکار کرتا فرشتہ اسے ڈرا دھما کر آپ کی رسالت ماننے پر مجبور کردیتا۔ یہ بات دو اعتبار سے غلط ہے ایک تو اس لحاظ سے کہ اللہ تعالیٰ نے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کو جبراً منوانا پسند نہیں فرمایا۔ دوسرا سبب یہ ہے کہ اگر رسول کی تائید کے لیے فرشتہ بھیجا جاتا تو پھر اس قوم کو مہلت نہ دی جاتی۔ انکار کرنے پر قوم کا صفایا کردیا جاتا ہے۔ مسائل ١۔ رسالت مآب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کفار بیہودہ قسم کے اعتراضات اٹھایا کرتے تھے۔ ٢۔ تمام انبیاء کرام (علیہ السلام) انسان تھے اور انسان ہونے کی وجہ سے وہ کھاتے، پیتے، بازار سے سودا سلف لاتے اور کام، کاج کرتے تھے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے کسی پیغمبر کی رسالت کو جبری طور پر نہیں منوایا۔ ( تمام انبیاء کرام بشر تھے اسی سورت کی آیت ٢٥ کی تفسیر بالقرآن ملاحظہ فرمائیں۔ )

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(وقالوا مال۔۔۔۔۔۔۔ قصورا) (٧ تا ١٠) یہ کیسا رسول ہے جو کھاتا پیتا ‘ چلتا پھرتا انسان ہے اور تمام تصرفات و حرکات انسانوں جیسے کرتا ہے۔ یہ وہی گھسا پٹا اعتراض ہے جو لوگ ہمیشہ رسولوں پر کرتے چلے آئے ہیں کہ فلاں شخص نے رسول ہونے کا دعویٰ کردیا ہے۔ دیکھو بھائی فالاں کا بیٹا بھی اب رسول بن گیا۔ یہ تو ہم جیسا انسان ہے جس طرح ہم کھاتے پیتے ہیں اور چلتے پھرتے ہیں۔ یہ بھی ہے۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہو اور اللہ کی طرف سے اس پر وحی آرہی ہو۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ اس کا اتصال اور رابطہعالم بالا سے ہوجائے۔ اور یہ عالم بالا سے ہدایات لے رہا ہو۔ جبکہ وہ ہمارے جی اس گوشت و پوست کا بنا ہوا انسان ہے۔ آخر ہماری طرف وحی کیوں نہیں آتی۔ اور وہ جس علم کا دعویٰ کرتا ہے وہ ہمارے پاس کیوں نہیں آتا۔ جبکہ ہمارے اور اس رسول کے درمیان کوئی بات ایسی نہیں ہے جو امتیازی ہو۔ اس لحاظ سے یہ بات واقعی انوکھی معلوم ہوتی ہے اور مسعبد نظر آتی ۔ لیکن دوسرے لحاظ سے طبعی اور معقول ہے۔ اللہ تعالیٰ انسان کے اندر اپنی روح پھونکی ہے اور اسی روح کی وجہ سے انسان ‘ انسان بنا ہے اور اسی وجہ سے اللہ نے اسے خلافت ارضی سپرد کی ہے حالانکہ انسان ایک محدود علم رکھتا ہے۔ اس کا تجربہ محدود ہے اور اس کے پاس بہت کم وسائل ہیں اس لیے یہ ممکن ہی نہ تھا کہ اللہ تعالیٰ انسان کو یہ عظیم فریضہ ادا کرنے کے لیے بےآسرا اور بغیر معاونت کے چھوڑ دے اور بغیر ہدایت اور راہنمائی کے یوں ہی چھوڑ دے۔ جبکہ اس کے اندر اللہ نے یہ صلاحیت بھی رکھی کہ وہ عالم بالا سے تعلق بھی قائم کرسکتا ہے۔ چناچہ یہ بات تعجب خیز نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ انسانوں میں سے کسی ایک انسان کو اس مقصد کے لیے چن لے کہ وہ عالم بالا کی ہدایات اخذ کرے اور لوگوں تک پہنچائے۔ اور اس شخص کو اللہ اس مقصد کے لیے خصوصی استعداد بھی دے تاکہ جب بھی ان پر کوئی مسئلہ مشتبہ ہو تو یہ شخص اللہ کی ہدایت کی روشنی میں اسے حل کر دے اور جب بھی راہ ہدایت کے اختیار کرنے میں ان کو ضرورت ہو وہ ان کی معاونت کرے۔ یہ تو انسان کے لیے ‘ اس پہلو سے ‘ اور اس شکل میں ایک بہت بڑا اعزاز ہے لیکن بعض لوگ ایسے ہیں جو اس اعزاز کو سمجھتے نہیں ہیں۔ نہ وہ انسان کے اس اعزاز اور تکریم کی قدر کرتے ہیں۔ اس لیے جن لوگوں کے ذہن میں یہ بات نہیں بیٹھتی وہ اس اعزاز کا انکار کرتے ہیں کہ انسانوں میں سے کوئی شخص کس طرح رسول ہو سکتا ہے۔ انسانوں کے مقابلے میں اس مقصد کے لیے فرشتہ زیادہ موزوں تھا۔ (لو لآ انزل۔۔۔۔۔۔۔۔ نذیرا) (٢٥ : ٧) ” کیوں نہ اس کے پاس ایک فرشتہ بھیجا گیا جو اس کے ساتھ ساتھ چلتا اور نہ ماننے والوں کو دھمکاتا “۔ جبکہ اللہ نے تمام فرشتوں کو حکم دیا تھا کہ وہ انسان کو سجدہ کریں کیونکہ اللہ نے انسان کو اس کی بعض خصوصیات کی وجہ سے مکرم بنایا تھا اور یہ خصائص خود انسان کے اندر عالم بالا کی طرف سے پھونکی ہوئی روحانیت کی وجہ سے پیدا ہوئے تھے ۔ پھر ایک انسان کو انسانوں کی طرف رسول بنا کر بھیجنے کی ایک اور حکمت بھی ہے۔ ایک انسان انسانوں جیسے احساسات رکھتا ہے وہ انسان جیسا ذوق رکھتا ہے۔ پھر اس کے تجرباتا بھی ایسے ہوتے ہیں جو دوسرے انسانوں جیسے ہوتے ہیں۔ وہ ان کے دکھ درد اور ان کی خواہشتا کو انسان ہونے کے ناطے سمجھ سکتا ہے۔ وہ ان کے جذبات اور میلانات کو بھی سمجھ سکتا ہے۔ وہ انسانوں کی ضروریات اور ان کی ذمہ داریوں سے بھی واقف ہوتا ہے۔ چناچہ وہ ان کی کمزوریوں اور نقائص کا خیال کرتا ہے ‘ وہ ان کی قوت اور ان کی استعداد سے پر امید بھی ہوتا ہے۔ اور ان کو لے کر قدم بقدم آگے چلتا ہے ‘ وہ ان کے تاثرات اور ان کے ردعمل سے اچھی طرح باخبر ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ بھی انہی میں سے ایک ہے۔ اور انہی کی ہدایت اور راہنمائی کے لیے مبعوث ہا ہے اور اللہ کی ہدایت اور امداد سے ان کی راہنمائی کررہا ہے۔ پھر ان لوگوں کے لیے بھی ممکن ہے کہ وہ حضرت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیروی کریں کیونکہ وہ انہی جیسا انسان ہے۔ وہ ان انسانوں کو لے کر آہستہ آہستہ آگے بڑھتا ہے۔ وہ ان کے اندر رہ کر ایک اخلاقی نمونہ پیش کرتا ہے۔ اور ان کو عملاً ان اخلاق و فرائض کی تعلیم دیتا ہے جو اللہ نے ان پر فرض کیے ہیں اور جن کا اللہ ان سے مطالبہ فرماتا ہے۔ گویا وہ اس نظریہ اور عمل کا ایک نمونہ ہوتا ہے جسے وہ لوگوں کے سامنے پیش کرتا ہے۔ اس کی زندگی ‘ اس کے اعمال اور اس کی تمام حرکات ایک کھلی کتاب ہوتی ہے ‘ جسے وہ ان کے سامنے پیش کرتا ہے اور وہ اس کتاب کی ایک ایک سطر کو نقل کرتے ہیں۔ اور اس کتاب کے ایک ایک لفظ کو حقیقت کا روپ عطا کرتے ہیں اور وہ دیکت ہیں کہ ان کا رسول ہر بات کو عملاً پیش کرتا ہے تو وہ بھی اس کی تقلید کرتے ہیں کیونکہ یہ نظریہ اور ہدایت ایک شخص کی زندگی میں عملاً نظر آتی ہے۔ اگر رسول کوئی فرشتہ ہوتا تو لوگ نہ اس کے عمل دیکھ سکتے اور نہ اس کی تقلید کے بارے میں سوچ سکتے۔ کیونکہ ان کے اندر آغاز ہی سے یہ بات آجاتی کہ وہ تو ایک فرشتہ ہے۔ اس کا مزاج ہی ایسا ہے اور ہم ضعیف انسان ہیں۔ ہم اس جیسا طرز عمل کب اختیار کرسکتے ہیں۔ یا ہم اس کی تقلید کس طرح کرسکتے ہیں یا اس جیسا نمونہ وہ کس طرح پیش کرسکتے ہیں۔ یہ تھی اللہ کی حکمت جس نے ہر چیز کی تخلیق کی اور اسے پوری پوری طرح برابر کیا۔ یہ اس کی حکمت تھی کہ اس نے انسانوں کی ہدایت کے لیے ایک انسان کو رسول بنا کر بھیجا تاکہ وہ ان کی قیادت کرسکے اور رسول کے بشر ہونے پر اعتراض دراصل اس حکمت سے جہالت کی وجہ سے کیا جاتا ہے۔ پھر اس میں اللہ کی طرف سے انسان کی عزت افزائی بھی ہے اور جو لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں وہ انسان کی تکریم کی نفی کرتے ہیں۔ ان کا دوسرا اعتراض اس سے بھی زیادہ سادگی اور جہالت پر مبنی تھا کہ یہ رسول بازاروں میں پھرتا ہے اور اپنی ضرورت کی چیزیں حاصل کرتا ہے اور محنت کرتا ہے تو کیوں اللہ نے اسے اس قدر دولت نہ دی کہ وہ اپنی ضروریات کی طرف سے بےغم ہوجائے۔ اور بغیر محنت کے اسے ضروریات ملتی رہیں۔ او یلقی الیہ کنز او تکون لہ جنۃ یا کل منھا (٢٥ : ٨) ” یا اس کے لیے کوئی خزانہ ہوتا یا اس کے پاس کوئی باغ ہی ہوتا جس سے یہ روزی حاصل کرتا “۔ اللہ نے یہ نہ چاہا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس کوئی خزانہ ہوتا یا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی بڑے باغ کے مالک ہوتے ‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنی امت کے لیے ایک نمونہ بنارہا تھا تاکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رسالت کے منصب کے فرائض کو اٹھائیں اور ان فرائض کے ساتھ ساتھ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی امت کے دوسرے انسانوں کی طرح بطور انسان اپنی ذمہ داریاں خود اٹھائیں۔ اپنے رزق کے لیے خود سعی کریں تاکہ امت میں سے کوئی شخص یہ اعتراض نہ کرسکے کہ یہ شخص کوئی کاروبار کررہا ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ‘ قناعت اختیار کرنے والے تھے۔ اس لیے آپ کو ضروریات زندگی کے لیے بہت زیادہ جدوجہد نہیں کرنی پڑتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ آپ مبلغ رسالت کے فرائض کی ادائیگی کے لیے فارغ ہوگئے تھے۔ لہٰذا اس سلسلے میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے کوئی رکاوٹ نہیں آئی۔ چناچہ آپ اپنی ضروریات کے لیے بھی بقدر ضرورت جدوجہد فرماتے تھے۔ اور رسالت کے فرائض بھی سرانجام دیتے تھے تاکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نمونہ بنا کر آپ کی امت کا ہر فرد تبلیغ رسالت کے فرائض کا کچھ حصہ اپنے ذمہ لے اور اپنی ضروریات کے لیے بھی جدوجہد کرے۔ بعد کے ادوار میں دولت کا ایک سیلاب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قدموں میں جاری ہوگیا۔ اور اللہ نے رسول کی زندگی کو اس پہلو سے بھی آزمایا تاکہ لوگوں کے لیے یہ پہلو بھی نمونہ ہو۔ چناچہ آپ نے کبھی دولت کے اس سیلاب کی طرف توجہ نہیں دی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہوا کے طوفان کی طرح سخی تھے۔ چناچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دولت مندی کے فتنے پر بھی قابو پایا۔ یوں لوگوں کے دلوں سے دولت مندی کی ہوس کو بھی نکال دیا۔ تاکہ لوگ یہ اعتراض نہ کریں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پیغام لے کر نکلے ‘ ایک غریب آدمی تھے ‘ آپ کی کوئی مالی سرگرمی نہ تھی ‘ نہ مالی حیثیت تھی اور اب آپ لاکھوں اربوں میں کھیل رہے ہیں۔ ہر طرف سے آپ پر مال و دولت کی بارش ہے لیکن حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دولت کے اس سیلاب کو بھی اپنے آپ سے دور رکھا اور دعوت اسلامی کے کام میں اسی طرح مشغول ہوگئے جس طرح کہ وہ زمانہ فقر میں مشغول تھے۔ مال کیا چیز ہے ‘ خزانوں کی حقیقت کیا ہے ؟ باغات کی کیا حیثیت ہے۔ جب ایک ضعیف اور فانی انسان خدا تک رسائی حاصل کرلیتا ہے تو پھر اس کے لیے اس پورے کرئہ ارض اور ما فیہا کی کوئی وقعت نہیں ہوتی بلکہ اس کے نزدیک اس پوری کائنات میں بسنے والی اس پوری مخلوقات کی کوئی وقعت نہیں ہوتی۔ لیکن اس کی یہ حالت تب ہوتی ہے کہ جب اس نے خالق کائنات تک رسائی حاصل کرلی جو قلیل و کثیر کا بخشنے والا ہے لیکن اس وقت لوگ اس حقیقت کا ادراک کرنے سے قاصر تھے۔ وقال الظلمون ان تتبعون الا رجلا مسحورا (٢٥ : ٨) ” اور یہ ظالم کہتے ہیں تم تو ایک سحر زدہ آدمی کے پیچھے لگ گئے “۔ یہ وہ ظالمانہ بات ہے جو اللہ نے ان لوگوں کی زبان سے نقل کیا ہے۔ سورت اسرا میں بھی ان لوگوں کا یہ الزام لفظاً اللہ نے نقل فرمایا ہے۔ وہاں اللہ تعالیٰ نے اس کا یہ جواب دیا۔ انظر کیف ضربوا لک الامثال فضلوا فلا یستطیعون سبیلا (٢٥ : ٩) ” دیکھئے ‘ یہ لوگ آپ کے بارے میں کیسی باتیں کرتے ہیں ‘ یہ گمراہ ہوچکے ہیں ‘ اب ان کی استطاعت ہی میں یہ بات نہیں رہی کہ یہ راہ راست پالیں “۔ اس سورت اور سورة اسرا کا مضمون و موضوع ایک ہی جیسا ہے اور یہ دونوں سورتوں کی بات ایک ہی ماحول میں ہو رہی ہے۔ دونوں جگہ ان لوگوں نے یہ اعتراض کیا ہے ‘ انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات پر حملہ کیا ہے اور ذاتی نقص نکالا ہے یعنی وہ لوگوں کو یہ باور کراتے ہیں کہ اس شخص کی عقل ماری گئی ہے ‘ کیونکہ یہ عجیب و غریب باتیں کرتا ہے ‘ ایک عام نارمل شخص ایسی باتیں نہیں کیا کرتا۔ لیکن اس اعتراض سے ان کے لا شعور سے یہ بات خود بخود باہر رہ گئی کہ رسول اللہ جو باتیں فرماتے ہیں وہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ عام طور پر بڑے سے بڑا عقلمند شخص بھی ایسی باتیں نہیں کرتا۔ یہ باتیں انسانی طاقت سے بالا باتیں ہیں۔ اس لیے ان پر رد کرتے وقت بھی اللہ نے ان کے اس رویے پر صرف تعجب کا اظہار کرنے پر اکتفاء کیا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اس کے بعد مشرکین مکہ کی انکار رسالت والی باتوں کا تذکرہ فرمایا (وَقَالُوْا مَالِ ھٰذَا الرَّسُوْلِ ) (اور ان لوگوں نے یوں کہا کہ اس رسول کو کیا ہوا یہ تو کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے) ان لوگوں نے اپنی طرف سے نبوت اور رسالت کا ایک معیار بنالیا تھا اور وہ یہ تھا کہ رسول کوئی ایسی شخصیت ہونی چاہئے جو اپنے اعمال و احوال میں دوسرے انسانوں سے ممتاز ہو جو شخص ہماری طرح کھانا کھاتا ہے اور اپنی ضرورتوں کے لیے بازار میں جاتا ہے چونکہ یہ شخص ہماری ہی جیسا ہے اس لیے یہ رسول نہیں ہوسکتا یہ ان لوگوں کی حماقت کی بات ہے خود تراشیدہ معیار ہے صحیح بات یہ ہے کہ انسانوں کی طرف جو شخص مبعوث ہو وہ انسان ہی ہونا چاہئے جو قول سے بھی بتائے اور عمل کرکے بھی دکھائے کھانا کھائے کھانے کے احکام بھی بتائے اور خریدو فروخت کے طریقے بھی سمجھائے۔ منکرین رسالت نے رسالت و نبوت کا معیار بیان کرتے ہوئے اور بھی بعض باتیں کہیں۔ اولاً یوں کہا (لَوْلاَ اُنزِلَ اِِلَیْہِ مَلَکٌ فَیَکُوْنَ مَعَہٗ نَذِیرًا) (اس پر کوئی فرشتہ کیوں نہیں نازل کیا گیا جو اس کے کام میں شریک ہوتا اور نذیر ہوتا) یعنی وہ بھی لوگوں کو اللہ کے عذاب سے ڈراتا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

8:۔ ” وقالوا مال الخ “ یہ مشرکین پر چوتھا شکوی ہے۔ وہ کہتے یہ پیغمبر تو کھانے پینے کا محتاج ہے اور کسب معاش کے لیے بازاروں کا چکر بھی کاٹتا ہے پھر ہم ہیں اور اس میں کیا فرق باقی رہا اور اسے ہم پر کیا فوقیت حاصل ہے کہ اس کو نبوت مل گئی۔ و اذا کان کذلک فمن این لہ الفضل علینا ولا یجوز ان یمتاز عنا بالنبوۃ (خازن ج 5 ص 94) ۔ ” لولا انزل الیہ الخ “ یہ پانچواں شکوی ہے۔ ینی اول تو یہ چاہئے تھا کہ پیغمبر بشر نہ ہوتا بلکہ ہوتا ہی فرشتہ یا پھر کم از کم اس کے ساتھ کوئی فرشتہ آتا جو اس کی تصدیق و تائید کرتا ھلا انزل الیہ ملک من عند اللہ فیکون لہ شاھدا علی صدق ما یدعیہ (ابن کثیر ج 3 ص 310) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(7) اور یہ دین حق کے منکر اس پیغمبر کی شان میں یہ بھی کہتے ہیں کہ اس رسول کو کیا ہوگیا کہک یہ کھانا بھی کھاتا ہے اور بازاروں میں بھی چلتا پھرتا ہے اس کے پاس کوئی فرشتہ کیوں نہیں جو اس کے ساتھ رہ کر لوگوں کو ڈراتا یعنی یہ جو اپنے کو رسول کہتا ہے یہ تو ہماری طرح کھانا بھی کھاتا ہے اور معاش کا انتظام کرنے کو بازاروں میں چلتا پھرتا بھی ہے مطلب یہ ہے کہ ہماری ہدایت کے لئے فرشتہ آتا اور اگر فرشتہ نہ آتا تو کم از کم اس کے ساتھ ہی کوئی فرشتہ رہتا جوا سکے ساتھ مل کر لوگوں کو ڈراتا۔