Surat ul Furqan

Surah: 25

Verse: 71

سورة الفرقان

وَ مَنۡ تَابَ وَ عَمِلَ صَالِحًا فَاِنَّہٗ یَتُوۡبُ اِلَی اللّٰہِ مَتَابًا ﴿۷۱﴾

And he who repents and does righteousness does indeed turn to Allah with [accepted] repentance.

اور جو شخص توبہ کرے اور نیک عمل کرے وہ تو ( حقیقتًا ) اللہ تعالٰی کی طرف سچا رجوع کرتا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And whosoever repents and does righteous good deeds; then indeed he has repented to Allah Mataba. meaning, Allah will accept his repentance. This is like the Ayat: وَمَن يَعْمَلْ سُوءاً أَوْ يَظْلِمْ نَفْسَهُ ثُمَّ يَسْتَغْفِرِ اللَّهَ يَجِدِ اللَّهَ غَفُوراً رَّحِيماً And whoever does evil or wrongs himself but afterwards seeks Allah's forgiveness, he will find Allah Oft-Forgiving, Most Merciful. (4:110) أَلَمْ يَعْلَمُواْ أَنَّ اللَّهَ هُوَ يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهِ Know they not that Allah accepts repentance from His servants... (9:104) قُلْ يعِبَادِىَ الَّذِينَ أَسْرَفُواْ عَلَى أَنفُسِهِمْ لاَ تَقْنَطُواْ مِن رَّحْمَةِ اللَّهِ Say: "O My servants who have transgressed against themselves! Despair not of the mercy of Allah." (39:53) - for those who repent to Him.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

711پہلی توبہ کا تعلق کفر و شرک سے ہے۔ اس توبہ کا تعلق دیگر معاصی اور کوتاہیوں سے ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨٨] سابقہ آیت میں ان لوگوں کا ذکر تھا جو کفر سے توبہ کرتے اور دائرہ اسلام میں داخل ہوتے ہیں۔ اس آیت میں ان مسلمانوں کا ذکر ہے جن سے گناہ سرزد ہوجائیں اور وہ توبہ کرتے ہیں۔ توبہ کی قبولیت کی شرائط یہ ہیں کہ وہ فی الواقعہ اپنے کئے پر نادم ہو۔ پھر اللہ سے استغفار کرے۔ توبہ استغفار کے بعد اپنی اصلاح کرے اور کم از کم اس سے وہ گناہ سرزد نہ ہو جس سے اس نے توبہ کی تھی۔ اب وہ توبہ استغفار کے بعد جس قدر اپنی اصلاح کرتا اور اعمال صالحہ بجا لاتا رہے گا اسی قدر وہ اللہ کے حضور مقرب بنتا جائے گا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَمَنْ تَابَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَاِنَّهٗ يَتُوْبُ ۔۔ : یہاں ایک سوال یہ ہے کہ پچھلی آیت میں توبہ کے ذکر کے بعد دوبارہ توبہ کے ذکر میں کیا حکمت ہے ؟ اور ایک یہ کہ یہ کہنا کہ ” جو شخص توبہ کرے تو وہ توبہ کرتا ہے۔۔ “ ایسے ہی ہے جیسے کوئی کہے ” مَنْ قَامَ فَإِنَّہُ یَقُوْمُ “ یعنی جو کھڑا ہو تو وہ کھڑا ہوتا ہے، تو اس سے کیا فائدہ حاصل ہوا ؟ اس کا جواب کئی طرح سے دیا گیا ہے، ایک یہ کہ اس میں توبہ کی ترغیب دلائی گئی ہے کہ جو شخص توبہ کرے اور عمل صالح کرے، تو اسے جان لینا چاہیے کہ وہ اس توبہ کے ساتھ کسی معمولی ہستی کی طرف پلٹ کر نہیں جا رہا، بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف پلٹ کر جا رہا ہے، جو بندے کی توبہ سے بہت محبت کرتا ہے اور اس کی توبہ معمولی نہیں بلکہ بڑی شان والی اور سچی توبہ ہے۔ دوسرا یہ کہ اگرچہ پچھلی آیت میں بھی عمل صالح کا ذکر تھا مگر اس کی اہمیت کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے اسے پھر دہرایا اور فرمایا کہ صرف زبانی توبہ اللہ کے ہاں معتبر نہیں، اس کے مطابق عمل بھی ضروری ہے، چناچہ جو شخص توبہ کرے اور نیک اعمال کرے وہ اللہ کی طرف سچی اور حقیقی توبہ کرتا ہے اور جو قدرت کے باوجود عمل نہ کرے اس کا توبہ کا دعویٰ قبول نہیں اور اس کی توبہ سچی اور حقیقی نہیں، بلکہ جھوٹی اور بےکار ہے۔ تیسرا یہ کہ پچھلی آیت میں کفر کے زمانے میں کیے ہوئے گناہوں سے توبہ کا ذکر تھا، اس آیت میں مسلمان ہونے کے بعد کیے ہوئے گناہوں سے توبہ کا ذکر ہے کہ مسلمان ہونے کے بعد بھی کوئی شخص کسی بھی گناہ سے توبہ کرے تو اس کی توبہ بھی سچی اور مقبول توبہ ہوگی۔ ابن عباس (رض) مسلمان قاتل کی توبہ قبول ہونے کے قائل نہیں، اس آیت سے اس کی توبہ کا قبول ہونا بھی ثابت ہوتا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورة نساء کی آیت (٩٣) : (وَمَنْ يَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا) کی تفسیر۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

وَمَن تَابَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَإِنَّهُ يَتُوبُ إِلَى اللَّـهِ مَتَابًا (And whoever repents and does righteous deeds he turns to Allah truly - 25:71). On the face of it, it looks repetition of the same subject as described in the preceding verse i.e. تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا . But Qurtubi while quoting Qaffal has explained that this repentance is different and separate from the repentance described in the previous verse. It is because the previous verse related to deniers of monotheism and infidels who indulged in adultery and homicide and then submitted to Islam. Hence their sins were converted into virtues. But here the second verse speaks about the repentance of the Muslim sinners. This may be explained by the fact that in the previous verse the repentance was combined with the word آمَنَ which means that they accepted Islam whereas in the second verse the word آمَنَ is not there, which means that in the second verse the repentance is related to those sinners who had already converted to Islam or that they were Muslims, but by negligence indulged in adultery and homicide. Hence this verse relates to those Muslims who commit sins, but then repent on their folly sincerely and seek Allah&s forgiveness and then keep themselves away from sins and evil deeds. Such repentance by the Muslims will be regarded in order and accepted. It should be understood here that the word تَوبَہ (taubah) is used here in conditional clause as well as in principal clause. In the conditional clause it means verbal repentance, and in the principal clause it refers to the practical repentance in the sense of correcting one&s deeds. Hence it means that if someone repented on his sins and proved his sincerity by not indulging in those sins again would be regarded as on the right path towards Allah Ta’ ala. As against this the one who repented on his past sins but continued indulging in those sins, is like the one who has not repented. In brief if a Muslim indulged in a sin by negligence and then realized that he has done wrong and repented and after that kept himself away from the sin, his repentance will be accepted by Allah Ta’ ala, and hopefully he will get the same benefit as described in the first verse i.e. his sins will be converted into virtues. Some rules of taubah (repentance) from sins had been mentioned during the traits of Allah&s favoured servants. The next verses are back to the original subject.

وَمَنْ تَابَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَاِنَّهٗ يَتُوْبُ اِلَى اللّٰهِ مَتَابًا، بظاہر یہ اسی مضمون کا تکرار ہے جو اس سے پہلے آیت میں آیا ہے اِلَّا مَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا اور قرطبی نے قفال سے یہ نقل کیا ہے کہ یہ توبہ پہلی توبہ سے مختلف اور الگ ہے کیونکہ پہلا معاملہ کافر و مشرکین کا تھا جو قتل و زنا میں بھی مبتلا ہوئے تھے، پھر ایمان لے آئے تو ان کی سیئات حسنات سے بدل دی گئیں اور یہاں مسلمان گناہگاروں کی توبہ کا ذکر ہے۔ اسی لئے پہلی توبہ کے ساتھ وَاٰمَنَ یعنی اس کے ایمان لانے کا ذکر تھا، اس دوسری توبہ میں وہ مذکور نہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ توبہ ان لوگوں کی ذکر کی گئی ہے جو پہلے سے مومن ہی تھے مگر غفلت سے قتل و زنا میں مبتلا ہوگئے تو ان کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی کہ ایسے لوگ اگر توبہ کرلینے کے بعد صرف زبانی توبہ پر اکتفا نہ کریں بلکہ آئندہ کے لئے اپنے عمل کو بھی صالح اور درست بنالیں تو ان کا توبہ کرنا صحیح اور درست سمجھا جائے گا۔ اسی لئے بطور شرط کے توبہ کرلینے کے ابتدائی حال ذکر کرنے کے بعد اس کی جزاء میں پھر يَتُوْبُ کا ذکر کرنا صحیح ہوگیا کیونکہ شرط میں جس توبہ کا ذکر ہے وہ صرف زبانی توبہ ہے اور جزاء میں جس توبہ کا ذکر ہے وہ عمل صالح پر مرتب ہے۔ مطلب یہ ہوگیا کہ جس نے توبہ کرلی پھر اپنے عمل سے بھی اس توبہ کا ثبوت دیا تو وہ صحیح طور پر اللہ کی طرف رجوع کرنے والا سمجھا جائے گا بخلاف اس کے جس نے پچھلے گناہ سے توبہ تو کی مگر آئندہ عمل میں اس کا کوئی ثبوت نہ فراہم کیا تو اس کی توبہ گویا توبہ ہی نہیں۔ خلاصہ مضمون اس آیت کا یہ ہوگیا کہ جو مسلمان غفلت سے گناہ میں مبتلا ہوگیا پھر توبہ کرلی اور اس توبہ کے بعد اپنے عمل کی بھی ایسی اصلاح کرلی کہ اس کے عمل سے توبہ کا ثبوت ملنے لگا تو یہ توبہ بھی عنداللہ مقبول ہوگی اور بظاہر اس کا فائدہ بھی وہی ہوگا جو پہلی آیت میں بتلایا گیا ہے کہ اس کے سیئات کو حسنات سے بدل دیا جائے گا۔ اللہ کے مخصوص اور مقبول بندوں کی خاص صفات کا بیان اوپر سے ہو رہا تھا، درمیان میں گناہ کے بعد توبہ کرلینے کے احکام کا بیان آیا اس کے بعد باقی صفات کا بیان ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَمَنْ تَابَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَاِنَّہٗ يَتُوْبُ اِلَى اللہِ مَتَابًا۝ ٧١ توب التَّوْبُ : ترک الذنب علی أجمل الوجوه وهو أبلغ وجوه الاعتذار، فإنّ الاعتذار علی ثلاثة أوجه : إمّا أن يقول المعتذر : لم أفعل، أو يقول : فعلت لأجل کذا، أو فعلت وأسأت وقد أقلعت، ولا رابع لذلک، وهذا الأخير هو التوبة، والتَّوْبَةُ في الشرع : ترک الذنب لقبحه والندم علی ما فرط منه، والعزیمة علی ترک المعاودة، وتدارک ما أمكنه أن يتدارک من الأعمال بالأعمال بالإعادة، فمتی اجتمعت هذه الأربع فقد کملت شرائط التوبة . وتاب إلى الله، فذکر «إلى الله» يقتضي الإنابة، نحو : فَتُوبُوا إِلى بارِئِكُمْ [ البقرة/ 54] ( ت و ب ) التوب ( ن) کے معنی گناہ کے باحسن وجود ترک کرنے کے ہیں اور یہ معذرت کی سب سے بہتر صورت ہے کیونکہ اعتذار کی تین ہی صورتیں ہیں ۔ پہلی صورت یہ ہے کہ عذر کنندہ اپنے جرم کا سرے سے انکار کردے اور کہہ دے لم افعلہ کہ میں نے کیا ہی نہیں ۔ دوسری صورت یہ ہے کہ اس کے لئے وجہ جواز تلاش کرے اور بہانے تراشے لگ جائے ۔ تیسری صورت یہ ہے کہ اعتراف جرم کے ساتھ آئندہ نہ کرنے کا یقین بھی دلائے افرض اعتزار کی یہ تین ہی صورتیں ہیں اور کوئی چوتھی صورت نہیں ہے اور اس آخری صورت کو تو بہ کہا جاتا ہ مگر شرعا توبہ جب کہیں گے کہ گناہ کو گناہ سمجھ کر چھوڑ دے اور اپنی کوتاہی پر نادم ہو اور دوبارہ نہ کرنے کا پختہ عزم کرے ۔ اگر ان گناہوں کی تلافی ممکن ہو تو حتی الامکان تلافی کی کوشش کرے پس تو بہ کی یہ چار شرطیں ہیں جن کے پائے جانے سے توبہ مکمل ہوتی ہے ۔ تاب الی اللہ ان باتوں کا تصور کرنا جو انابت الی اللہ کی مقتضی ہوں ۔ قرآن میں ہے ؛۔ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعاً [ النور/ 31] سب خدا کے آگے تو بہ کرو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٧١) اور جو شخص گناہوں سے توبہ کرتا ہے اور خلوص کے ساتھ اعمال صالحہ کرتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کے حضور میں پختہ توبہ کرنے والا ہوگا اور اس توبہ کا ثواب وہ اللہ تعالیٰ کے دربان میں پائے گا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧١ (وَمَنْ تَابَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَاِنَّہٗ یَتُوْبُ اِلَی اللّٰہِ مَتَابًا ) ” یعنی توبہ کے بعد گناہوں سے کنارہ کش ہوگیا اور تقویٰ کی روش اختیار کرلی تو یہی اصل توبہ ہے۔ اس کے برعکس اگر ایک شخص زبان سے توبہ توبہ کے الفاظ ادا کرتا رہے اور استغفار کی تسبیحات پڑھتا رہے ‘ سوا لاکھ مرتبہ آیت کریمہ پڑھوا کر ختم بھی دلائے مگر اس کی حرام خوری جوں کی توں رہے اور وہ گناہوں سے باز نہ آئے تو اس کی توبہ کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

87 It has two meanings: (1) When he has repented sincerely, he will start a new life of belief and obedience to Allah and by His grace and help will start doing good deeds instead of evil deeds that he used to do in his life of unbelief, and his evil deeds will be replaced by good deeds; and (2) Not only will his evil deeds done in the past be written off, but it will also be recorded in his conduct register that he was the servant who gave up rebellion against his Lord and adopted the way of His obedience. Then, as he will feel more and more sorry for his past sins and offer repentance, more and more good deeds will be credited to him; for repenting of one's wrong doing and seeking forgiveness is in itself a good deed. Thus, good deeds will supersede all his evil deeds in his conduct register, and he will not only escape punishment in the Hereafter but, in addition, he will also be blessed with high favours by Allah. 88 That is. ultimately everyone has to return to AIIah for AIIah alone is man's last and real refuge: He alone can reward one for his good deeds or punish une for his evil deeds: He alone is All-Merciful and AlI Compassionate, Who receives the penitent with forgiveness and Who dces not rebuke him for his past errors provided that he has repented sincerely, and adopted the right attitude and reformed himself.

سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :88 یعنی فطرت کے اعتبار سے بھی بندے کا اصلی مرجع اسی کی بارگاہ ہے ، اور اخلاقی حیثیت سے بھی وہی ایک بارگاہ ہے جس کی طرف اسے پلٹنا چاہیے ، اور نتیجے کے اعتبار سے بھی اس بارگاہ کی طرف پلٹنا مفید ہے ، ورنہ کوئی دوسری جگہ ایسی نہیں ہے جدھر رجوع کر کے وہ سزا سے بچ سکتے یا ثواب پا سکے ۔ علاوہ بریں اس کا مطلب یہ بھی کہ وہ پلٹ کر ایک ایسی بارگاہ کی طرف جاتا ہے جو واقعی ہے ہی پلٹنے کے قابل جگہ ، بہترین بارگاہ ، جہاں سے تمام بھلائیاں ملتی ہیں ، جہاں سے قصوروں پر شرمسار ہونے والے دھتکارے نہیں جاتے بلکہ معافی اور انعام سے نوازے جاتے ہیں ، جہاں معافی مانگنے والے کے جرم نہیں گنے جاتے بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ اس نے توبہ کر کے اپنی اصلاح کتنی کر لی ، جہاں بندے کو وہ آقا ملتا ہے جو انتقام پر خار کھائے نہیں بیٹھا ہے بلکہ اپنے ہر شرمسار غلام کے لیے دامن رحمت کھولے ہوئے ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(25:71) عمل صلحا : ای عمل عملا صالحا (جس نے) نیک کام کئے۔ یتوب الیٰ ۔ مضارع واحد مذکر غائب کسی کے آگے توبہ کرنا۔ اور علی کے صلہ کے ساتھ بمعنی توبہ قبول کرنا۔ التوب (باب نصر) کے معنی گناہ کے باحسن وجوہ ترک کرنے کے ہیں اور یہ معذرت کی سب سے بہتر صورت ہے۔ کیونکہ اعتزار کی تین ہی صورتیں ہیں :۔ (1) پہلی صورت یہ ہے کہ عذر کنندہ اپنے جرم کا سرے سے انکار کر دے اور کہہ دے کہ میں نے کیا ہی نہیں۔ (2) دوسری صورت یہ ہے کہ اس کے لئے وجہ تلاش کرے اور بہانے تراشنے لگ جائے۔ (3) تیسری صورت یہ ہے کہ اعتراف جرم کے ساتھ آئندہ کرنے کا بھی یقین دلائے۔ اس آخری صورت کو توبہ کہا جاتا ہے۔ شرعا توبہ کو یوبہ جب کہیں گے کہ گناہ کو گناہ سمجھ کر چھوڑ دے اور اپنی کوتاہی پر نادم ہو اور دوبارہ نہ کرنے کا پختہ عزم کرلے۔ توبوا الی اللہ جمیعا (24:31) تم سب خدا کے آگے توبہ کرو (الیٰ کے صلہ کے ساتھ) اور فتاب علیہ (2:37) پھر (اللہ نے) اس کی توبہ قبول کرلی۔ (علیٰ کے صلہ کے ساتھ) متابا مصدر میمی۔ تاب یتوب توبۃ ومتاب وتایۃ فعل کے بعد مصدر کو تاکید کے لئے لایا گیا ہے ۔ فانہ یتوب الی اللہ متابا۔ پس اسی نے خدا کے آگے کما حقہ توبہ کی۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

9 ۔ پہلا ذکر تھا کفر (کی حالت) کے گناہوں کا جو پیچھے ایمان لایا۔ یہ ذکر ہے اسلام میں گناہ کرنے کا، وہ بھی جب توبہ کرے یعنی پھرے اپنے کام سے تو اللہ کے یہاں جگہ پاوے۔ (موضح)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ومن تاب و عمل صالحاً فانہ یتوب الی اللہ متابا (٢٥ : ٨١) ” جو شخص توبہ کر کے نیک عمل اختیار کرتا ہے وہ تو اللہ کیطرف پلٹآتا ہے جیسا کہ پلٹنے کا حق ہے۔ “ توبہ کا آغاز یوں ہوتا ہے کہ کسی گناہ گا رکو ندامت آجائے اور پھر وہ معصیت کو چھوڑ دے اور اس کے بعد وہ نیکیوں پر عمل پیرا ہوجائے تو ثابت ہوگا کہ اس شخص کی توبہ صحیح ہے اور یہ شخص سچا ہے۔ یعنی اس نے برائیوں کو ترک کر کے مثبت پیش رفت شروع کردیا ہے۔ کیونکہ معصیت دراصل زندگی کا ایک عمل اور تحریک ہوتی ہے جو شخص ان معاصی کو ترک کرے گا بیشک اس کی زندگی معاصی سے خالی ہوگی لیکن اس کی زندگی کے اس خلا کو مثبت اعمال سے بھرنا بھی ضروری ہے۔ یہ ہے اسلامی نظام تربیت کا وہ خاص یونٹ جس پر آ کر معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ خالق ہے اور وہ انسان کے حالات نفس سے اچھی طرح باخبر ہے۔ اس لئے اس نے ہدایت فرمائی کہ اس نفسیاتی خلا کو اعمال صالحہ کے ساتھ بھر دو ورنہ …… …… اس جملہ معترفہ کے بعد پھر روئے سخن صفات عبادالرحمن کی طرف پھرجاتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(وَ مَنْ تَابَ وَ عَمِلَ صَالِحًا فَاِنَّہٗ یَتُوْبُ اِلَی اللّٰہِ مَتَابًا) (اور جو شخص توبہ کرتا ہے اور نیک کام کرتا ہے وہ اللہ کی طرف خاص طور پر رجوع کرتا ہے) یعنی اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرتا ہے اور اخلاص سے توبہ کرتا ہے اور آئندہ گناہ نہ کرنے کا عہد کرتا ہے اور نیکی پر رہنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ قال صاحب الروح ای رجوعا عظیم الشان مرضیا عندہ تعالیٰ ماحیا للعقاب محصلا للثواب اس آیت شریفہ میں توبہ کا طریقہ بتادیا کہ پختہ عزم کے ساتھ توبہ کرے اور اللہ کی رضا کے کاموں میں لگے اور گناہوں سے خاص طور پر پرہیز کرے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(71) اور جو شخص توبہ کرتا ہے اور توبہ کے نیک عمل کرنے لگتا ہے اور نیک اعمال کا پابند ہوجاتا ہے تو وہی حقیقت میں اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتا ہے یعنی اہل ایمان میں سے اگر کوئی شخص گناہ میں مبتلا ہوجاتا ہے اور وہ توبہ کرکے نیک اعمال کا پابند ہوجائے اور گناہوں سے بچتا رہے تو وہ خاص طورپر اللہ کی طرف رجوع کرتا ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں پہلا ذکر تھا کفر کے گناہوں کا جو پیچھے ایمان لایا یہ ذکر ہے اسلام میں گناہ کرنے کا وہ بھی جب توبہ کرے یعنی پھرے اپنے کام سے تو اللہ کے یہاں جگہ پاوے 12