Surat us Shooaraa

The Poets

Surah: 26

Verses: 227

Ruku: 11

Listen to Surah Recitation
Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

سورة الشُّعَرَآء نام : آیت 224 وَالشُّعَرَآءُ یَتَّبِعُھُمُ الْغَاوٗنَ O سے ماخوذ ہے ۔ زمانۂ نزول : مضمون اور انداز بیان سے محسوس ہوتا ہے اور روایات اس کی تائید کرتی ہیں کہ اس سورے کا زمانہ نزول مکہ کا دور متوسط ہے ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ پہلے سورہ طٰہٰ نازل ہوئی پھر واقعہ اور اس کے بعد الشعراء ( روح المعانی جلد 19 صفحہ 64 ) ۔ اور سورہ طٰہٰ کے متعلق یہ معلوم ہے کہ وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے قبول اسلام سے پہلے نازل ہو چکی تھی ۔ موضوع اور مباحث : تقریر کا پس منظر یہ ہے کہ کفار مکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تبلیغ و تذکیر کا مقابلہ پیہم جحود و انکار سے کر رہے تھے اور اس کے لیے طرح طرح کے بہانے تراشے چلے جاتے تھے ۔ کبھی کہتے کہ تم نے ہمیں کوئی نشانی تو دکھائی ہی نہیں ، پھر ہمیں کیسے یقین آئے کہ تم نبی ہو ۔ کبھی آپ کو شاعر اور کاہن قرار دے کر آپ کی تعلیم و تلقین کو باتوں میں اڑا دینے کی کوشش کرتے ۔ اور کبھی یہ کہہ کر آپ کے مشن کا استخفاف کرتے کہ ان کے پیرو یا تو چند نادان نوجوان ہیں ، یا پھر ہمارے معاشرے کے ادنی طبقات کے لوگ ، حالانکہ اگر اس تعلیم میں کوئی جان ہوتی تو اشراف قوم اور شیوخ اس کو قبول کرتے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان لوگوں کو معقول دلائل کے ساتھ ان کے عقائد کی غلطی اور توحید و معاد کی صداقت سمجھانے کی کوشش کرتے کرتے تھکے جاتے تھے ، مگر وہ ہٹ دھرمی کی نت نئی صورتیں اختیار کرتے نہ تھکتے تھے ۔ یہی چیز آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے سوہان روح بنی ہوئی تھی اور اس غم میں آپ کی جان گھلی جاتی تھی ۔ ان حالات میں یہ سورت نازل ہوئی ۔ کلام کا آغاز اس طرح ہوتا ہے کہ تم ان کے پیچھے ہی جان کیوں گھلاتے ہو؟ ان کے ایمان نہ لانے کی وجہ یہ نہیں ہے کہ انہوں نے کوئی نشانی نہیں دیکھی ہے ، بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ ہٹ دھرم ہیں ، سمجھانے سے نہیں ماننا چاہتے ، کسی ایسی نشانی کے طالب ہیں جو زبردستی ان کی گردنیں جھکا دے ، اور وہ نشانی اپنے وقت پر جب آ جائے گی تو انہیں خود معلوم ہو جائے گا کہ جو بات انہیں سمجھائی جا رہی تھی وہ کیسی برحق تھی ۔ اس تمہید کے بعد دسویں رکوع تک جو مضمون مسلسل بیان ہوا ہے وہ یہ ہے کہ طالب حق لوگوں کے لیے تو خدا کی زمین پر ہر طرف نشانیاں ہی نشانیاں پھیلی ہوئی ہیں جنہیں دیکھ کر وہ حقیقت کو پہچان سکتے ہیں ۔ لیکن ہٹ دھرم لوگ کبھی کسی چیز کو دیکھ کر بھی ایمان نہیں لائے ہیں ، نہ آفاق کی نشانیاں دیکھ کر اور نہ انبیاء کے معجزات دیکھ کر ۔ وہ تو ہمیشہ اس وقت تک اپنی ضلالت پر جمے رہے ہیں جب تک خدا کے عذاب نے آ کر ان کو گرفت میں نہیں لے لیا ہے ۔ اسی مناسبت سے تاریخ کی سات قوموں کے حالات پیش کیے گئے ہیں جنہوں نے اسی ہٹ دھرمی سے کام لیا تھا جس سے کفار مکہ کام لے رہے تھے ۔ اور اس تاریخی بیان کے ضمن میں چند باتیں ذہن نشین کرائی گئی ہیں : ۔ اول یہ کہ نشانیاں دو طرح کی ہیں ۔ ایک قسم کی نشانیاں وہ ہیں جو خدا کی زمین پر ہر طرف پھیلی ہوئی ہیں ، جنہیں دیکھ کر ہر صاحب عقل آدمی تحقیق کر سکتا ہے کہ نبی جس چیز کی طرف بلا رہا ہے وہ حق ہے یا نہیں ۔ دوسری قسم کی نشانیاں وہ ہیں جو فرعون اور اسکی قوم نے دیکھیں ، قوم نوح نے دیکھیں ، عاد اور ثمود نے دیکھیں ، قوم لوط اور اصحاب الاَیکہ نے دیکھیں ۔ اب یہ فیصلہ کرنا خود کفار کا اپنا کام ہے کہ وہ کس قسم کی نشانی دیکھا چاہتے ہیں ۔ دوم یہ کہ ہر زمانے میں کفار کی ذہنیت ایک سی رہی ہے ۔ ان کی حجتیں ایک ہی طرح کی تھیں ۔ ان کے اعتراضات یکساں تھے ۔ ایمان نہ لانے کے لیے ان کے حیلے اور بہانے یکساں تھے ۔ اور آخر کار ان کا انجام بھی یکساں ہی رہا ۔ اس کے برعکس ہر زمانے میں انبیاء کی تعلیم ایک تھی ۔ ان کی سیرت و اخلاق کا رنگ ایک تھا ۔ اپنے مخالفوں کے مقابلے میں ان کی دلیل و حجت کا انداز ایک تھا ۔ اور ان سب کے ساتھ اللہ کی رحمت کا معاملہ بھی ایک تھا ۔ یہ دونوں نمونے تاریخ میں موجود ہیں ۔ کفار خود دیکھ سکتے ہیں کہ ان کی اپنی تصویر کس نمونے سے ملتی ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں کس نمونے کی علامات پائی جاتی ہیں ۔ تیسری بات جو بار بار دہرائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ خدا زبردست ، قادر و توانا بھی ہے اور رحیم بھی ۔ تاریخ میں اس کے قہر کی مثالیں بھی موجود ہیں اور رحمت کی بھی ۔ اب یہ بات لوگوں کو خود ہی طے کرنی چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو اس کے رحم کا مستحق بناتے ہیں یا قہر کا ۔ آخری رکوع میں اس بحث کو سمیٹتے ہوئے کہا گیا ہے کہ تم لوگ اگر نشانیاں ہی دیکھنا چاہتے ہو ، تو آخر وہ خوفناک نشانیاں دیکھنے پر کیوں اصرار کرتے ہو جو تباہ شدہ قوموں نے دیکھی ہیں ۔ اس قرآن کو دیکھو جو تمہاری اپنی زبان میں ہے ۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھو ۔ ان کے ساتھیوں کو دیکھو ۔ کیا یہ کلام کسی شیطان یا جن کا کلام ہو سکتا ہے ؟ کیا اس کلام کا پیش کرنے والا تمہیں کاہن نظر آتا ہے ؟ کیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے اصحاب تمہیں ویسے ہی نظر آتے ہیں جیسے شاعر اور ان کے ہم مشرب ہوا کرتے ہیں ؟ ضدّم ضدّا کی بات دوسری ہے ، مگر اپنے دلوں کو ٹٹول کر دیکھو کہ وہ کیا شہادت دیتے ہیں ۔ اگر دلوں میں تم خود جانتے ہو کہ کہانت اور شاعری سے اس کا کوئی دور کا واسطہ بھی نہیں ہے تو پھر یہ بھی جان لو کہ تم ظلم کر رہے ہو اور ظالموں کا سا انجام دیکھ کر رہو گے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

سورۃ الشعراء تعارف حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کی ایک روایت کے مطابق یہ سورت سورۃ واقعہ (سورہ نمبر ٥٦) کے بعد نازل ہوئی تھی۔ یہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مکی زندگی کا وہ زمانہ تھا جس میں کفار مکہ آپ کی دعوت کی بڑے زور و شور سے مخالفت کرتے ہوئے آپ سے اپنی پسند کے معجزات دکھانے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ اس سورت کے ذریعے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی بھی دی گئی ہے، اور کائنات میں پھیلی ہوئی اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیوں کی طرف توجہ دلا کر اشارہ فرمایا گیا ہے کہ اگر کسی کے دل میں انصاف ہو اور وہ سچے دل سے حق کی تلاش کرنا چاہتا ہو تو اس کے لیے اللہ تعالیٰ کی قدرت کی یہ نشانیاں اس توحید کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں۔ اور اسے کسی اور معجزے کی تلاش کی ضرورت نہیں ہے۔ اسی ضمن میں پچھلے انبیائے کرام علیہم السلام اور ان کی امتوں کے واقعات یہ بیان کرنے کے لیے سنائے گئے ہیں کہ ان کی قوموں نے جو معجزات مانگے تھے، انہیں وہی معجزات دکھائے گئے، لیکن وہ پھر بھی نہ مانے جس کے نتیجے میں انہیں عذاب الہی کا سامنا کرنا پڑا، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی سنت یہ ہے کہ جب منہ مانگے معجزات دیکھنے کے باوجود کوئی قوم ایمان نہیں لاتی تو اسے ہلاک کردیا جاتا ہے۔ اس بنا پر کفار مکہ کو مہلت دی جارہی ہے کہ وہ نت نئے معجزات کا مطالبہ کرنے کے بجائے توحید و رسالت کے دوسرے دلائل پر کھلی آنکھوں سے غور کر کے ایمان لائیں، اور ہلاکت سے بچ جائیں۔ کفار مکہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کبھی کاہن کہتے تھے، کبھی جادو گر اور کبھی آپ کو شاعر کا نام دیتے تھے۔ سورت کے آخری رکوع میں ان باتوں کی مدلل تردید فرمائی گئی ہے، اور کاہنوں اور شاعروں کی خصوصیات بیان کر کے جتایا گیا ہے کہ ان میں سے کوئی بات آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں نہیں پائی جاتی۔ اسی ضمن میں آیت ٢٢٤ تا ٢٢٧ نے شعراء کی خصوصیات بیان کی ہیں۔ اسی وجہ سے سورت کا نام شعراء رکھا گیا ہے۔ (ملاحظہ فرمائیں صفحہ نمبر ١١٤١)

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

سورة نمبر 26 کل رکوع 11 آیات 227 الفاظ و کلمات 1347 حروف 5689 سورۃ الشعراء مکہ مکرمہ کے درمیانے دور میں نازل کی گئی ہے جس میں سات جلیل القدر پیغمبروں کی دین اسلام کی سربلندی کے لیے جدوجہد اور ان کی قوم کی نافرمانیوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ جب ان کی قوموں کا کفر اور شرک انتہاء کو پہنچ گیا تو اللہ نے ان قوموں کو جڑ و بنیاد سے اکھاڑ کر پھینک دیا اور آج ان کے کھنڈرات ان کی نافرمانیوں کی داستان بن کر نشان عبرت بنے ہوئے ہیں۔ کفار مکہ کے سامنے جب اللہ کا ابدی پیغام پہنچانے کے لیے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کوشش فرماتے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر طرح طرح کے اعتراض کیے جاتے اور کفار طرح طرح کے مطالبات کرتے تھے کبھی کہتے کہ اے نبی ! اگر آپ سچے ہیں تو مکہ کے چاروں طرف جو پہاڑ ہیں ان کو ہٹا کر میدان بنا دیجئے ‘ چاروں طرف ریگستان ہے ان میں پانی کی نہریں بہاد یجیے یا کم ازکم ایک پہاڑ سونے کا بنادیا ہوتا یا کوئی فرشتہ آپ کے ساتھ ہوتا جو آپ کے ساتھ چلتا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے بچکانہ مطالبات کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ اللہ کی یہ قدرت ہے کہ یہ جیسا کہہ رہے ہیں اللہ ایسا ہی کردے لیکن جو قرآن جیسی عظیم کتاب اور عظیم صفتوں کے حامل حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھ کر ایمان نہیں لاتے وہ معجزات کو دیکھ کر بھی ایمان نہ لائیں گے۔ ان آیات کو پڑھ کر بعض حضرات معجزات نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قرآن کریم کے سوا کوئی معجزہ نہیں دیا گیا حالانکہ یہاں اور قرآن کریم میں متعدد و مقامات پر صرف یہ بتایا گیا ہے کہ قرآن کریم ایک ایسا معجزہ ہے جس کے سامنے ساری دنیا کو گونگا کہنے والے خود حیران ہیں کہ ہم وہ زبان کہاں سے لائیں جو قرآن جیسی کتاب کو پڑھ کر اس جیسا قرآن لانے کی کوشش کرسکے۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو لاتعداد معجزات دیئے ہیں جن کی تفصیلات احادیث میں بیان فرمائی گئی ہیں۔ بہت کم ایسا ہوا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے اپنے معجزات لوگوں کی فرمائش پر دکھائے ہوں لیکن اللہ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سیکڑوں معجزات صادر فرمائے ہیں جن کے گواہ لاکھوں کی تعداد میں صحابہ کرام (رض) ہیں۔ قرآن کریم نے اس بات پر زور دیا ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے بہت سے انبیاء کرام (علیہ السلام) سے معجزات ظاہر ہوئے ہیں لیکن اس کے باوجود کفار ان پر ایمان نہ لائے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر معجزات آنے کے بعد قوم ایمان نہ لائے تو پھر اللہ کا شدید ترین عذاب نازل ہوتا ہے۔ کیونکہ اس کے بعد کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی اور ایمان نہ لانے والوں کو سخت سزادی جاتی ہے۔ فرمایا گیا کہ یہ قرآن کریم قیامت تک ساری انسانیت کی رہبری کرتا رہے گا۔ یہ قرآن سادہ تعلیمات کی کتاب ہے یہ نہ شعر ہے نہ سحر نہ کہانت ہے بلکہ یہ وہ کلام الہی ہے جس کو اللہ معجزہ بنا کر نازل کیا ہے ۔ اب یہ ہر انسان کا اپنا کام ہے کہ اس کی تعلیمات سے فائدہ اٹھا کر اپنے لیے دنیا و آخرت کی سعادتیں حاصل کرے یا اپنے لیے دنیا اور آخرت کی بربادیوں اور نحوستوں کو دعوت دے۔ چناچہ سورة الشعرا میں سات انبیاء کرام (علیہ السلام) کا ذکر فرمایا گیا ہے کہ ان کی قوموں نے ان سے معجزات کے مطالبات کیے جب اللہ نے وہ معجزات دکھادیئے تو کفار و مشرکین نے ان کو جادوگری ‘ کہانت اور شعر و شاعری قراردیا اور ایمان نہ لائے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان نافرمان قوموں کو تباہ و بر باد کردیا گیا۔ خلاصہ یہ ہے کہ ان آیات کو سامنے رکھ کر معجزات نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انکار کرنا ایک بہت بڑی جہالت اور نا واقفیت ہے البتہ اللہ تعالیٰ نے اس بات پر زور دے کر فرمایا ہے کہ مکہ والو ! تم گزشتہ قوموں کا جیسا مزاج نہ بنائو جنہوں نے اپنے اپنے نبیوں سے معجزات کے مطالبات کیے اور پھر بھی وہ ایمان نہ لائے جس کی وجہ سے ان کو تہس نہس کردیا گیا۔ اگر حقیقت میں کسی کو ایمان لانا ہے اور اس میں ایمان لانے کی طلب اور تڑپ ہے تو فرمایا کہ یہ قرآن مبین موجود ہے اس کی آیات ‘ اس کے احکامات بالکل صاف صاف اور واضح ہیں اور حق و باطل کو چھانٹ کر رکھ دیتے ہیں۔ اس کی تعلیمات اس قدر صاف ‘ سیدھی اور بچی ہیں کہ ان کو پڑھنیکے بعد ہر شخص نہایت آسانی سے سمجھ سکتا ہے کہ قرآن کریم انہیں کس چیز کی طرف بلارہا ہے اور کن باتوں سے روک رہا ہے۔ اگر وہ اس واضح سچائی کو مانتا ہے تو یہ اس کی سعادت ہے لیکن اگر وہ نہیں مانتا تو کم از کم وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ قرآن کریم کی باتیں میری سمجھ سے باہر ہیں۔ فرمایا کہ یہ کیسی عجیب بات ہے کہ کفار مکہ اس کلام الہیٰ کو پڑھنے ‘ سمجھنے اور عمل کرنے کے بجائے اس کو شعر و شاعری قرار دیتے ہیں۔ فرمایا کہ قرآن کریم نہ شعر ہے نہ سحر ہے نہ کہانت ہے بلکہ زندگی کی سچائیاں ہیں۔ فرمایا کہ عام طور پر شاعر تو وہ ہیں جو گم راہی کے پیروکار ہوتے ہیں ان کے شعروں میں ذاتی فخر و غرور ‘ قومی جہالت ‘ عورتوں کے حسن و جمال ‘ عشق بازی ‘ شراب نوشی اور فسق و فجور کے سوا کیا ہوتا ہے اور جو بات وہ کہتے ہیں عام طور پر وہ اس پر عمل بھی نہیں کرتے۔ شاعروں کی زندگیاں بےعملی کا شکار ہوتی ہیں البتہ اگر ایمان اور عمل صالح کے ساتھ شاعری ہو تو وہ دوسری بات ہے کیونکہ اس میں شاعری کا انداز بےحقیقت نہیں ہوگا۔ بلکہ اس میں اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کا انداز جھلکتا ہوا نظر آئے گا۔ فرمایا کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایک شاعر ہونے اور اشعار کہنے کا جو الزام لگایا جاتا ہے وہ بنیادی طور پر اس لیے غلط ہے کہ قرآن کریم کی تعلیمات راہ ہدایت اور صراط مستقیم ہیں اور حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی ہر شخص کے سامنے ہے آپ میں نہ شاعروں کی ادائیں ہیں اور نہ بےعملی کی زندگی بلکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو سراپا حسن عمل ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا شعر و شاعری اور اس طرح کی گمراہی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

سورة الشعرآء کا تعارف ربط سورة : سورة الفرقان کی آخری آیت میں ارشاد ہے کہ جو لوگ ” اللہ “ کے سوا دوسروں کو پکارتے ہیں ” اللہ “ کو ان کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ الشعرآء کے آغاز میں ارشاد ہے کہ اگر یہ لوگ ایمان لانے کے لیے تیار نہیں ہیں تو اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کو ان پر دل گرفتہ نہیں ہونا چاہیے۔ یہ سورة 11 رکوع اور 227 آیات پر مشتمل ہے۔ اس سورة کا نام آیت 224 میں موجود ہے۔ سورة کا زیادہ حصہ مکہ میں نازل ہوا، لیکن آخری آیات مدینہ منورہ میں نازل ہوئیں۔ جیسا کہ اس سورة کی ابتدائی آیات کی تفسیر میں ذکر ہوگا کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خواہش اور کوشش تھی کہ اہل مکہ بالخصوص آپ کے رشتہ دار ہر صورت حلقہ اسلام میں داخل ہوجائیں لیکن وہ لوگ کسی صورت بھی مسلمان ہونے کے لیے تیار نہ ہوئے۔ بلکہ آپ کی جان کے دشمن ہوگئے۔ اس صورت حال پر آپ کا دل پسیج جاتا اور آپ رات کو اٹھ اٹھ کر اپنے رب کے حضور سر بسجود ہو کر زارو قطار روتے اور فریاد پر فریاد کرتے کہ بارالہا انہیں ہدایت سے سرفراز فرما دے۔ بسا اوقات آپ کی طبیعت پر یہ بات اس قدر گراں بار ہوتی کہ قریب تھا کہ آپ کی صحت بگڑ جائے۔ جس پر آپ کو تسلّی کے طور اور حقیقت حال سے آگاہ کرتے ہوئے فرمایا گیا کہ کیا اپنے آپ کو بیمار کرلیں گے کہ یہ لوگ ایمان نہیں لاتے، اگر اللہ تعالیٰ انہیں جبراً مسلمان کرنا چاہتا تو اس کے لیے یہ مشکل نہ تھا کہ وہ اپنی قدرت کی ایسی نشانی ظاہر کرتا کہ ان کی گردنیں اس کے سامنے جھکے بغیر نہ رہ سکتی تھیں۔ لیکن اس کا ضابطہ نہیں کہ لوگوں کو جبراً ایمان لانے پر مجبور کرے۔ اس نے ہر قسم کے دلائل دے کر لوگوں کو کھلا چھوڑ دیا ہے کہ وہ مانیں یا اس کا انکار کریں۔ لہٰذا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ” اللہ “ کی حکمت اور مشیت کو مد نگاہ رکھنا چاہیے۔ آپ کو تسلّی دینے اور ہدایت کے بارے میں بنیادی اصول بیان کرنے کے بعد۔ سات عظیم المرتبت انبیاء کرام کی جدوجہد ان کی دعوت کا انداز اور ان کی اقوام کے عقائد، جرائم اور ان کے بدترین ردعمل کا ذکر کیا ہے۔ تاکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے متبعین کے سامنے حق و باطل کی معرکہ آرائی اور اس کے انجام کا پورا نقشہ آجائے۔ آخر میں اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ اس قرآن کو رب العالمین نے روح الامین کے ذریعے آپ کے قلب سلیم پر نازل کیا ہے۔ اس کے نزول میں شیاطین کا ذرہ برابر بھی عمل دخل نہ ہے، اور نہ ہی یہ شاعرانہ کلام ہے۔ شعراء اور ان کی پیروی کرنے والوں کی غالب اکثریت گمراہ ہوا کرتی ہے۔ شاعر تو فکر و خیال کی ہر وادی میں منہ ماری کرتے ہیں۔ جب کہ قرآن مجید میں کسی قسم کی یا وہ گوئی اور فکری پراگندگی کی کوئی مثال موجود نہیں ہے۔ بس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے آپ کو ایماندار ساتھیوں کے ساتھ وابستہ رکھیں ان کے لیے تواضع کا مظاہرہ فرمائیں۔ اپنے رب کے ساتھ یا اس کے سوا کسی اور کے سامنے فریاد کنان ہونے سے بچتے رہیں۔ اگر آپ نے اپنے رب کے ساتھ کسی اور کو پکارا تو آپ بھی اس کے عذاب سے نہیں بچ سکیں گے۔ ظالمو ! کو بہت جلد اپنے انجام کا علم ہوجائے گا۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

سورة الشعراء ایک نظر میں اس سورت کا موضوع بھی وہی ہے جو عام مکی سورتوں کا ہے یعنی اسلامی نظریہ حیات جس کے بنیادی عناصر کا خلاصہ یہ ہے : فلا تدع مع اللہ الھا اخرفتکون من المعذبین (٢٦ : ٢١) ” پس نہ پکارو اللہ کے سوا کسی الہ کو ورنہ تم ان لوگوں میں سے ہو جائو گے جن کو عذاب دیا جائے گا۔ ‘ نیز آخرت کی جوابدہی کا احساس۔ ولا تخزنی یوم یبعثون (٢٦ : ٨٨) یوم لاینفع مال ولابنون (٢٦ : ٨٨) الا من اتی اللہ بقلب سلیم (٢٦ : ٨٩) ” اور مجھے اس دن رسوا نہ کرو جبکہ سب لوگ زندہ کر کے اٹھائے جائیں گے جبکہ نہ مال کوئی فائدہ دے گا اور نہ اولاد ، بجز اس کے کہ کوئی شخص قلب سلیم لئے ہوئے اللہ کے حضور حاضر ہو۔ “ اور حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہونے والی وحی پر ایمان و تصدیق۔ وانہ لتنزیل رب العلمین (٢٦ : ١٩٢) نزل بہ الروح الامین (٢٦ : ١٩٣) علی قلبک لتکون من المنذرین (٢٦ : ١٩٣) ” یہ رب العالمین کی نازل کردہ چیز ہے اسے لے کر تیرے دل پر امانت دار روح اتری ہے تاکہ تو ان لوگوں میں شامل ہو (جو خدا کی طرف سیخلق خدا کو) متنبہ کرنے والے ہیں۔ “ او پھر لوگوں کو ڈرایا گیا ہے کہ تکذیب کے نتائج بہت ہی برے ہوں گے ، یا تو دنیا میں عذاب الٰہی نازل ہوگا اور تمہیں ایام سابقہ کے مکذبین کی طرح ہلاک کردیا جائے گایا پھر آخرت کا عذاب ہوگا جو کافروں کے انتظار میں ہے۔ فقد کذبوا فسیاتیھم انبئوا ما کانوا بہ یستھزء ون (٢٦ : ٦) ” اب جب کہ یہ جھٹلا چکے ہیں عنقریب ان کو اس چیز کی حقیقت معلوم ہوجائے گی جس کا یہمذاقاڑاتے رہتے ہیں۔ “ اور وسیعلم الذی ظلموا ای منقلب ینقلبون (٢٦ : ٢٢٨) ” اور ظلم کرنے والوں کو عنقریب معلوم ہوجائے گا کہ وہ کس انجام سیدوچار ہوتے ہیں۔ “ نیز اس سورت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے دلا سے اور تسلی کے مضامین بھی ہیں کہ مشرکین آپ کی تکذیب کرتے ہیں اور ایمان نہیں لاتے۔ ارشاد الٰہی ہے کہ آپ پرواہ نہ کریں۔ لعلک باخع نفسک الایکونوا مئومنین (٢٦ : ٣) ” شاید تم اس غم میں اپنی جان کھو دو گے کہ یہ لوگ ایمان نہیں لاتے۔ “ اور اہل ایمان کو بھی یہ نصیحت کی جاتی ہے کہ وہ مشرکین کی جانب سے ہٹ دھری اور عناد کے مظاہرے پر صبر کریں اور اپنے پر ورگراموں اور نظریہ حیات پر ثابت قدمی سے آگے بڑھتے ہیں خواہ اس راہ میں ان کو جس قدر اذیتیں پہنچیں جس طرح انبیاء کی تاریخ میں تمام اہل ایمان ثابت قدمی دکھاتے رہے ہیں ، وہ بھی ایسی ہی ثابت قدمی دکھائیں۔ اس سورت کیمضامین کا بڑا حصہ قصص القرآن پر مشتمل ہے۔ سورت کی کل ٢٢٧ آیات میں سے ١٨٠ آیات میں تو قصص القرآن ہیں۔ پوری سورت میں ایک مقدمہ ہے ، پھر یہ قصص ہیں اور آخر میں تبصرہ ہے جبکہ مقدمہ اور آخری تبصرے کا مضمون ایک ہے۔ ان میں سورت کے موضوع کو پیش نظر رکھتے ہوئے قصص کے اندر مختلف اسالیب سے ، اس موضوع پر کلام کیا گیا ہے۔ انداز گفتگو سے ظاہر ہے کہ پوری سورت کے سامنے صرف ایک ہی ہدف ہے۔ اس لئے تمام قصص کے وہی حلقے اور کڑیاں پیش کی جاتی ہیں جن کا موضوع زیر بحث کے ساتھ تعلق ہے۔ باقی قصے کو چھوڑ دیا گیا ہے۔ پوری سورت پر ڈراوے کی فضا ہے جبکہ مکذبین کی طرف سے مسلسل تکذیب ہے اور نتیجہ عذالب الٰہی کا نزول۔ مقصد یہ ہے کہ اہل مکہ جو مسلسل تکذیب کر رہے ہیں اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے منہ موڑ رہے ہیں ، یہ ان کے لئے خطرناک فعل ہے ۔ ڈرانے والوں کے ساتھ یہ مذاق ، اللہ کی آیات کی یہ مسلسل تکذیب اور پھر سرکشی میں یہ انتہا کہ رسولوں کو بار بار کہنا کہ لائو جس عذاب سے ہمیں ڈراتے ہو ، قرآن کے بارے میں طرح طرح کی باتیں کرنا کہ یہ سحر ہے۔ یہ اشعار ہیں اور روح الامین نہیں ، شیاطین اسے اتارتے ہیں۔ پوری کی پوری سورت دراصل ایک ہیمضمون اور ایک ہی سبق ہے۔ مقدمہ قصص اور تبصرہ لہٰذا ہم نے اسے چند پیراگرافوں میں تقسیم کردیا ہے ، اس کی تربیت مضامین کے مطابق۔ آغاز ہم مقدمہ سے کرتے ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi