Surat us Shooaraa

Surah: 26

Verse: 1

سورة الشعراء

طٰسٓمّٓ ﴿۱﴾

Ta, Seen, Meem.

طٰسم

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Qur'an and the Disbelievers turning away; They could be compelled to believe if Allah so willed Allah says: طسم Ta Sin Mim. At the beginning of the explanation of Surah Al-Baqarah we discussed the letters which appear at the beginning of some Surahs. Allah's saying: تِلْكَ ايَاتُ الْكِتَابِ الْمُبِينِ

تعارف قرآن کریم پھر فرمان ہے کہ یہ آیتیں قرآن مبین کی ہیں جو بہت واضح بالکل صاف اور حق وباطل بھلائی برائی کے درمیان فیصلہ اور فرق کرنے والا ہے ۔ ان لوگوں کے ایمان نہ لانے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم رنجیدہ خاطر اور غمگین نہ ہوں ۔ جیسے اور جگہ ارشاد ہے آیت ( فَلَا تَذْهَبْ نَفْسُكَ عَلَيْهِمْ حَسَرٰتٍ ۭ اِنَّ اللّٰهَ عَلِـيْمٌۢ بِمَا يَصْنَعُوْنَ Ď۝ ) 35- فاطر:8 ) تو ان کے ایمان نہ لانے پر حسرت وافسوس نہ کر ۔ اور آیت میں ہے آیت ( فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ عَلٰٓي اٰثَارِهِمْ اِنْ لَّمْ يُؤْمِنُوْا بِهٰذَا الْحَدِيْثِ اَسَفًا Č۝ ) 18- الكهف:6 ) کہیں ایسا نہ ہو کہ تو ان کے پیچے اپنی جان گنوادے ۔ چونکہ ہماری یہ چاہت ہی نہیں کہ لوگوں کو ایمان پر زبردستی کریں اگر یہ چاہتے تو کوئی ایسی چیز آسمان سے اتارتے کہ یہ ایمان لانے پر مجبور ہوجاتے مگر ہم کو تو ان کا اختیاری ایمان طلب کرتے ہیں ۔ اور آیت میں ہے ( وَلَوْ شَاۗءَ رَبُّكَ لَاٰمَنَ مَنْ فِي الْاَرْضِ كُلُّھُمْ جَمِيْعًا ۭ اَفَاَنْتَ تُكْرِهُ النَّاسَ حَتّٰى يَكُوْنُوْا مُؤْمِنِيْنَ 99؀ ) 10- یونس:99 ) اگر تیرا رب چاہے تو روئے زمین کے تمام لوگ مومن ہوجائیں کیا تو لوگوں پر جبر کرے گا ؟ جب تک کہ وہ مومن نہ ہوجائیں ۔ اور آیت میں ہے اگر تیر رب چاہتا تو تمام لوگوں کو ایک ہی امت بنادیتا ۔ یہ اختلاف دین ومذہب بھی اس کا مقرر کیا ہوا ہے اور اسکی حکمت کو ظاہر کرنے والا ہے اس نے رسول بھیج دئیے کتابیں اتاردیں اپنی دلیل وحجت قائم کردی انسان کو ایمان لانے نہ لانے میں مختار کردیا ۔ اب جس راہ پر وہ چاہے لگ جائے جب کبھی کوئی آسمانی کتاب نازل ہوئی بہت سے لوگوں نے اس سے منہ موڑ لیا ۔ تیری پوری آرزو کے باوجود اکثر لوگ بے ایمان ہی رہیں گے ۔ سورۃ یاسین میں فرمایا بندوں پر افسوس ہے انکے پاس جو بھی رسول آیا انہوں نے اس کا مذاق اڑایا ۔ اور آیت میں ہے ہم نے پے درپے پیغمبر بھیجے لیکن جس امت کے پاس ان کا رسول آیا اس نے اپنے رسول کو جھٹلانے میں کمی نہ کی ۔ یہاں بھی اس کے بعد ہی فرمایا کہ نبی آخرالزمان کی قوم نے بھی اسے جھٹلایا ہے انہیں بھی اس کا بدلہ عنقریب مل جائے گا ان ظالموں کو بہت جلد معلوم ہوجائے گا کہ یہ کس راہ ڈالے گئے ہیں؟ پھر اپنی شان وشوکت قدرت وعظمت عزت ورفعت بیان فرماتا ہے کہ جس کے پیغام اور جس کے قاصد کو تم جھوٹا کہہ رہے ہو وہ اتنا بڑا قادر قیوم ہے کہ اسی ایک نے ساری زمین بنائی ہے اور اس میں جاندار اور بےجان چیزیں پیدا کی ہیں ۔ کھیت پھل باغ وبہار سب اسی کے پیدا کردہ ہیں ۔ شعبی رحمۃ اللہ علی فرماتے ہیں لوگ زمین کی پیداوار ہیں ان میں جو جنتی ہیں وہ کریم ہیں اور جو دوزخی ہیں وہ کنجوس ہیں ۔ اس میں قدرت خالق کی بہت سی نشانیاں ہیں یہ اس نے پھیلی ہوئی زمین کو اور اونچے آسمان کو پیدا کردیا ۔ باوجود اسکے بھی اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے بلکہ الٹا اسکے نبیوں کو جھوٹاکہتے ہیں اسکی کتابوں کو نہیں مانتے اسکے حکموں کی مخالفت کرتے ہیں اور اس کے منع کردہ کاموں میں دلچسپی لیتے ہیں ۔ بیشک تیرا رب ہر چیز پر غالب ہے اس کے سامنے مخلوق عاجز ہے ۔ ساتھ ہی وہ اپنے بندوں پر مہربان ہے نافرمانوں کے عذاب میں جلدی نہیں کرتا تاخیر اور ڈھیل دیتا ہے تاکہ وہ اپنے کرتوتوں سے باز آجائیں لیکن پھر بھی جب وہ راہ راست پر نہیں آتے تو انہیں سختی سے پکڑلیتا ہے اور ان سے پورا انتقام لیتا ہے ہاں جو توبہ کرے اور اسکی طرف جھکے اور اسکا فرمانبردار ہوجائے وہ اس پر اس کے ماں باپ سے بھی زیادہ رحم وکرم کرتا ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

طٰسۗمّۗ : اس کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورة بقرہ (١) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر طسم (اس کے معنی تو اللہ کو معلوم ہیں) یہ (مضامین جو آپ پر نازل ہوتے ہیں) کتاب واضح (یعنی) کی آیتیں ہیں (اور یہ لوگ جو اس پر ایمان نہیں لاتے تو آپ اتنا غم کیوں کرتے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے کہ) شاید آپ ان کے ایمان نہ لانے پر (تاسف کرتے کرتے) اپنی جان دے دیں گے (اصل یہ ہے کہ یہ عالم ابتلاء ہے اس میں حق کے اثبات پر وہی دلائل قائم کئے جاتے ہیں جن کے بعد بھی ایمان لانا بندہ کے اختیار میں رہتا ہے ورنہ) اگر ہم (جبراً و اضطراراً ان کو مومن کرنا) چاہیں تو ان پر آسمان سے ایک (ایسی) بڑی نشانی نازل کردیں (کہ ان کا اختیار ہی بالکل سلب ہوجاوے) پھر ان کی گردنیں اس نشانی (کے آنے) سے پست ہوجاویں (ور بالاضطرار مومن بن جاویں لیکن ایسا کرنے سے آزمائش باقی نہ رہے گی اس لئے ایسا نہیں کیا جاتا اور معاملہ جبر و اختیار کے درمیان رہتا ہے اور (ان کی یہ حالت ہے کہ) ان کے پاس کوئی تازہ فہمائش (حضرت) رحمان (جل شانہ) کی طرف سے ایسی نہیں آتی جس سے یہ بےرخی نہ کرتے ہوں سو (اس بےرخی کی یہاں تک نوبت پہنچی کہ) انہوں نے (دین حق کو) جھوٹا بتلا دیا (جو اعراض کا انتہائی درجہ ہے اور صرف اس کے ابتدائی درجہ یعنی بےالتفاتی پر اکتفا نہیں کیا اور پھر تکذیب بھی خالی نہیں بلکہ استہزاء کے ساتھ) سو اب عنقریب ان کو اس بات کی حقیقت معلوم ہوجاوے گی جس کے ساتھ یہ استہزاء کیا کرتے تھے (یعنی جب عذاب الٰہی کا موت کے وقت یا قیامت میں معائنہ ہوگا، اس وقت قرآن کے اور مافی القرآن یعنی عذاب وغیرہ کے حق ہونے کا انکشاف ہوجاوے گا) کیا انہوں نے زمین کو نہیں دیکھا (جو ان سے بہت قریب اور ہر وقت پیش نظر ہے) کہ ہم نے اس میں کس قدر عمدہ عمدہ قسم قسم کی بوٹیاں اگائی ہیں (جو مثل جمیع مصنوعات کے اپنے بنانے والے کے وجود اور اس کی یکتائی اور کمال قدرت پر دلالت کرتی ہیں کہ) اس میں (توحید ذاتی و صفاتی و افعال کی) ایک بڑی نشانی (عقلی) ہے (اور یہ مسئلہ بھی عقلی ہے کہ خدائی کے لئے کمال ذاتی و صفاتی شرط ہے اور کمال مذکور کے لوازم میں سے ہے کہ وہ خدائی میں اکیلا ہو) اور (باوجود اس کے) ان میں کے اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے (اور شرک کرتے ہیں، غرض شرک کرنا انکار نبوت سے بھی بڑھ کر ہے، اس سے معلوم ہوا کہ ان کے عناد نے ان کی فطرت کو بالکل مختلف کردیا پھر ایسوں کے پیچھے کیوں جان کھوئی جاوے) اور (اگر ان کو شرک کے مذموم عند اللہ ہونے میں یہ شبہ ہو کہ ہم پر عذاب فوراً کیوں نہیں آجاتا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ) بلاشبہ آپ کا رب (باوجود اس کے کہ) غالب (ور کامل القدرت) ہے (مگر اس کے ساتھ ہی) رحیم (بھی) ہے (اور اس کی رحمت عامہ دنیا میں کفار سے بھی متعلق ہے اس کا اثر یہ ہے کہ ان کو مہلت دے رکھی ہے ورنہ کفر یقینا مذموم اور عذاب کا مقتضی ہے۔ )

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

طٰسۗمّۗ۝ ١ تِلْكَ اٰيٰتُ الْكِتٰبِ الْمُبِيْنِ۝ ٢ الآية والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع . الایۃ ۔ اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔ كتب والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ، ( ک ت ب ) الکتب ۔ الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١۔ ٢) طاء سے مراد اس کی بلندی اور قدرت اور سین سے مراد عمدگی اور میم سے مراد ملک اور بادشاہت ہے یا یہ کہ اللہ تعالیٰ نے یہ ایک قسم کھائی ہے یعنی میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یہ سورت اس قرآن کی آیات میں جو حلال و حرام اور اوامرو نواہی کو واضح طور پر بیان کرنے والا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

1: جیسا کہ سورۃ بقرہ کے شروع میں عرض کیا گیا تھا، مختلف سورتوں کے شروع میں جو حروف آئے ہیں، انہیں حروف مقطعات کہا جاتا ہے، اور ان کا ٹھیک ٹھیک مطلب اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(١ تا ٤) شروع سورة میں جو طٰسٓمٓ ہے یہ حروف مقطعات ہیں جو سورتوں کے اول میں آتے ہیں ان حروف کا ذکر سورة بقرہ میں بیان ہوچکا ١ ؎ ہے۔ کتاب کے لفظ سے مطلب قرآن شریف ہے اور مبین کے معنی اس واضح اور روشن کے ہیں جس سے حق و ناحق کا فیصلہ ہوجاوے باخع کے معنے ہلاک کرنے والا مشرکین مکہ کے ایمان نہ لانے کے رنج کو دور کرنے کے لیے یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تسلی ہے ‘ یہ آیت مثل سورة فاطر کی آیت کریمہ فَلَا تَذْھَبْ نَفْسٔکَ عَلَیْھِمْ حَسَرَاتٍ الٰایۃ کے ہے سورة فاطر کی آیت اور اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مشرکین مکہ کے ایمان نہ لانے پر زیادہ رنج کرنے سے اپنے رسول کو منع فرمایا ہے حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کے شاگردوں میں سے عکرمہ اور قتادہ (رض) نے باخع نفسک کی تفسیر قاتل نفسک کی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اے رسول اللہ کے ان مشرکوں کے ایمان نہ لانے کے رنج میں تم اپنی جان کو ہلاک نہ کرو اس تسلی کے بعد فرمایا کہ اگر اللہ چاہتا تو آسمان سے ایسی نشانی اتارتا کہ ان کو جبرا وقہرا ایمان لانا پڑتا مگر ایسا مجبوری کا ایمان اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے دنیا کو نیک و بد کے امتحان کے لیے پیدا کیا ہے مجبوری کی حالت میں وہ امتحان کا موقع باقی نہیں رہتا سورة الم السجدہ میں آوے گا کہ اگر اللہ چاہے تو ہر ایک جن اور انسان کو نیک کر دیوے لیکن دنیا کے پیدا ہونے سے پہلے اپنے علم ازلی کے نتیجہ کے طور پر اللہ تعالیٰ نے لوح محفوظ میں لکھ دیا ہے کہ جب جن وانس کو نیک وبد کا اختیار دیا جا کر دنیا میں پیدا کیا جاوے تو اس قدر جن وانس اپنے اختیار سے نیک کام کریں گے اور اس قدر برے کام کریں گے اور پھر نیکوں کو جنت میں داخل کیا جاوے گا اور بد جن وانس کو دوزخ میں جھونکا جائے گا ‘ تبارک الذی میں آوے گا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے انصاف کے موافق جزا وسزا کا مدار اپنے علم ازلی پر نہیں رکھا بلکہ دنیا کی ظاہری حالت پر رکھا ہے جیسا کوئی کرے گا ویسا ہی پھل پاوے گا صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ ١ ؎ سے ابو موسیٰ اشعری (رض) کی حدیث ایک جگہ گذر چکی جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرآن شریف کی نصیحت کی مثال مینہ کے پانی کی اور اچھے برے لوگوں کی مثال اچھی بری زمین کی بیان فرمائی ہے حاصل کلام یہ ہے کہ ابتدائے اسلام کے زمانہ میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس بات کا حد سے زیادہ رنج تھا کہ باوجود ہر وقت کی نصیحت کے تمام مشرکین مکہ راہ راست پر کیوں نہیں آتے اور آپ کے رنج کو یہ بتلا دیا کہ اگر اللہ چاہے تو تمام جنات اور انسان راہ راست پر آجاویں لیکن دنیا کے پیدا ہونے سے پہلے علم ازلی کے نتیجہ کے طور پر لوح محفوظ میں جو کچھ لکھا جا چکا ہے اس کے برخلاف کسی بات کو اللہ تعالیٰ نہیں چاہتا بلکہ اللہ تعالیٰ کو اسی نوشتہ تقدیری کے موافق دنیا کا چلانا منظور ہے تو اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خود بھی تسکین ہوگئی اور ابوموسیٰ اشعری (رض) کی حدیث کی مثال سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسلمانوں کو بھی سمجھا دیا کہ جو لوگ علم ازلی میں بد قرار پاچکے ہیں ان کے حق میں دین کی نصیحت ایسی رائیگاں ہے جس طرح بری زمین میں مینہ کا پانی رائیگاں جاتا ہے۔ (١ ؎ ص ٦٩ جلد اول ) (١ ؎ مشکوٰۃ باب الاعتصام بالکتاب والسنہ فصل اول ١٢ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(26:) طسم۔ بعض کے نزدیک یہ اللہ تعالیٰ کے اسماء الحسنی میں سے ہے بعض اسے قرآن مجید کے اسماء میں سے مراد لیتے ہیں بعض اسے سورة کا نام بتاتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے بقول صاحب تفسیر مظہری (رح) :۔ انہ رمز بین اللہ وبین رسولہ یہ اللہ اور اس کے رسول کے درمیان ایک راز ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

بسم اللہ الرحمن الرحیم تفسیر اسرار التنزیل جلد 05 سورۃ شعراء اسرار و معارف سورۃ شعراء بھی مکی سورتوں میں شمار کی گئی ہے اور گزشتہ مضمون یعنی کفار کے انکار پر بات کو آگے بڑھاتے ہوئے اس کیفیت کو بیان کرتی ہے جو رحمت للعالمین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وارد ہوتی تھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی تو یہ بات خوب جانتے تھے کہ ان کا نہ ماننا ان کی ان برائیوں کا نتیجہ ہے جس سے ان کی فطری صلاحیت تباہ ہوگئی اور آپ کا یہ ایمان بھی تھا کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے اگر وہ منوانا چاہے تو کوئی انکار نہیں کرسکتا نیز آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ علم بھی تھا کہ آپ کا کام اللہ کا پیغام پہنچانا ہے منوانا نہیں مگر اس کے باوجود جب کفار انکار کی راہ اختیار کرتے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نگاہ پاک میں تو وہ منظر ہوتا تھا کہ اس انکار کے نتیجہ میں انہیں کس حال میں دوزخ میں جھونکا جائے گا تو فطری رحمدلی اور شفقت کے باعث آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بہت دکھ ہوتا تو ان آیات مبارکہ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دلجوئی کے لئے پھر سے ارشاد فرمایا گیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس طرف متوجہ کیا گیا کہ یہ ایک ایسی روشن کتاب ہے جا واضح دلائل مہیا کرتی ہے اللہ کی وحدانیت پر اور اس کے محبوب برحق ہونے پر آگے ان دلائل کو قبول کرنا یا نہ کرنا یہ بندے کو اختیار دیا گیا ہے تو اگر کوئی اپنی پسند سے دوسری راہ یعنی انکار کی راہ اپناتا ہے تو آپ اس کا دکھ اس قدر محسوس نہ کیجیے کہ جان سے جانے کا خطرہ پیدا ہوجائے اگر یہ نہیں مانتے نو نہ ماننے کا بھی ان کو اختیار ہے بھلا اگر ان سے منوانا ہی مقصد ہوتا تو کوئی ایسی نشانی نازل کردی جاتی کہ ان کی گردنیں جھکی رہ جاتیں انہیں بعد الموت کا مشاہدہ کرادیا جاتا یا یہ کہ جو نہ مانے گا سانس نہ لے سکے گا یا اسی سر میں درد شروع ہوجائے گا تو کون انکار کرتا مگر ایسا نہیں بلکہ انہیں پسند و ناپسند کی مہلت دی گئی ہے اور یہ صرف آپ سے نہیں ہورہا بلکہ کفار کے پاس جب بھی اللہ کی طرف سے جو بہت بڑا رحم کرنے والا ہے کوئی ہدایت نازل ہوئی اور کتاب آئی تو انہوں نے اس حد تک بےرخی برتی کہ اس کا انکار کردیا اور ان حقائق کا تمسخر اڑایا جو اللہ نے بیان فرمایے تھے مگر وہ دن بھی دور نہیں کہ جب وہ تمام حقائق ان پر ظاہر ہوجائیں گے اور ان منازل سے انہیں گزرنا ہوگا جن کا مذاق اڑاتے تھے یہ اس قدر اندھے ہیں کہ زمین اور اس کی رؤیدگی پہ بھی گور نہیں کرتے کہ اللہ نے کس قدر پودے اگا دیئے ہیں اور ان سب کا طریق بھی متعین کی ہے نر اور مادہ ہیں اپنا اپنا کا م کرتے ہیں اور جو پھل پھول یا نتیجہ ان سے مطلوب ہے وہ دے رہے ہیں اللہ کا نظام کس قدر مضبوط اور عظیم ہے کہ ہر شے پیدا ہونے سے لے کر فنا ہونے تک اس کے ایک ایک ضابطے کی پابندی کرتی ہے اور ان سب کا حاصل انہی کی یعنی انسان ہی کی خدمت ہے تو کیا انسان جس کی سب خدمت کرتے ہیں اور جو واقعی اللہ کے نظام میں تکوینی امور میں اس کے ضابطوں کے تحت ہر منزل سے گزرتا ہے جہاں اسے اختیار دیا گیا ہے وہاں کوئی نتیجہ نہ ہوگا کیا اس سارے نظام میں ایسے دلائل کی کمی ہے ہرگز نہیں ہر صنعت صانع کے کمال قدرت کی گواہ ہے صرف انہی میں سے اکثر کو ایمان نصیب نہیں اور یہ نہیں مانتے پھر ایسے لوگوں کا دکھ آپ اتنی شدت سے کیوں محسوس کریں ان کا کردار تو یہ ہے اللہ انہیں تباہ کردے اور وہ غالب ہے کرسکتا ہے مگر وہ رحم کرنے والا ہے کہ انہیں مہلت دے رکھی ہے کتاب نازل فرمائی اپنا رسول مبعوث فرمایا یہ اس کے کرم کی بات ہے

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

طسم ……المبین (٢) حروف تہجی سے یہ بتانا مقصود ہے کہ یہ کتاب مبین اور یہ سورت انہی حروف سے بنائی گئی ہے اور جو لوگ تکذیب پر اصرار کرتے ہیں یہ حروف ان کے علم میں ہیں اور ان سے مرکب کلمات وہ بولتے ہیں لیکن وہ ایسی کتاب مبین پیش نہیں کرسکتے۔ اس کتاب کے بارے میں اس سورت میں بہت سی باتوں پر بحث کی گئی ہے۔ مقدمے میں بھی اور آخری نتائج میں بھی۔ اور یہ اندازان تمام سورتوں کا ہوتا ہے جن کے آغاز میں حروف مقطعات لائے گئے ہوتے ہیں۔ اس تنبیہ کے بعد حضور کو براہ راست مخاطب کیا جاتا ہے کیونکہ حضور مشرزکین کے مقابلے میں ایک انتھک جدوجہد کر رہے تھے اور ان کی مسسل تکذیب سے آپ کو دکھ پہنچ رہا تھا۔ تو حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہاں تسلی دی جاتی ہے اور بتایا جاتا ہے کہ آپ اس کام کے لئے زیادہ پریشان نہ ہوں۔ بتایا جاتا ہے کہ ٹھیک ہے کہ آپ بہت کچھ برداشت کر رہے ہیں اور یہ بھی ٹھیک ہے کہ اگر ہم چاہیں تو چشم زون میں ان کی گردنیں جھکادیں لیکن اللہ کی ایک اسکیم ہے۔ ذرا انتظار کریں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(1) طسم