Surat us Shooaraa

Surah: 26

Verse: 105

سورة الشعراء

کَذَّبَتۡ قَوۡمُ نُوۡحِ ۣ الۡمُرۡسَلِیۡنَ ﴿۱۰۵﴾ۚۖ

The people of Noah denied the messengers

قوم نوح نے بھی نبیوں کو جھٹلایا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Nuh's preaching to His People, and Their Response Here Allah tells us about His servant and Messenger Nuh, peace be upon him, who was the first Messenger sent by Allah to the people of earth after they started to worship idols. Allah sent him to forbid that and to warn people of the consequences of idol worship. But his people belied him and continued their evil practice of worshipping idols besides Allah. Allah revealed that their disbelieving in him was akin to disbelieving in all the Messengers, So Allah said: كَذَّبَتْ قَوْمُ نُوحٍ الْمُرْسَلِينَ إِذْ قَالَ لَهُمْ أَخُوهُمْ نُوحٌ أَلاَ تَتَّقُونَ

بت پرستی کا اغاز زمین پر سب سے پہلے جو بت پرستی شروع ہوئی اور لوگ شیطانی راہوں پر چلنے لگے تو اللہ تعالیٰ نے اپنے اولوالعزم رسولوں کے سلسلے کو حضرت نوح علیہ السلام سے شروع کیا جنہوں نے آکر لوگوں کو اللہ کے عذابوں سے ڈرایا اور اسکی سزاؤں سے انہیں آگاہ کیا لیکن وہ اپنے ناپاک کرتوتوں سے باز نہ آئے غیر اللہ کی عبادت نہ چھوڑی بلکہ حضرت نوح علیہ السلام کو جھوٹا کہا ان کے دشمن بن گئے اور ایذاء رسانی کے درپے ہوگئے حضرت نوح علیہ السلام کا جھٹلانا گویا تمام پیغمبروں سے انکار کرنا تھا اس لئے آیت میں فرمایا گیا کہ قوم نوح نے نبیوں کو جھٹلایا ۔ حضرت نوح علیہ السلام نے پہلے تو انہیں اللہ کا خوف کرنے کی نصیحت کی کہ تم جو غیر اللہ کی عبادت کرتے ہو اللہ کے عذاب کا تمہیں ڈر نہیں؟ اس طرح توحید کی تعلیم کے بعد اپنی رسالت کی تلقین کی اور فرمایا میں تمہاری طرف اللہ کا رسول بن کر آیا ہوں اور میں امانت دار بھی ہوں اس کا پیغام ہو بہو وہی ہے جو تمہیں سنارہا ہوں ۔ پس تمہیں اپنے دلوں کو اللہ کے ڈر سے پرکھنا چاہئے اور میری تمام باتوں کو بلا چوں وچرا مان لینا چائیے ۔ اور سنو میں تم سے اس تبلیغ رسالت پر کوئی اجرت نہیں مانگتا ۔ میر امقصد اس سے صرف یہی ہے کہ میرا رب مجھے اس کا بدلہ اور ثواب عطا فرمائے ۔ پس تم اللہ سے ڈرو اور میر اکہنا مانو میری سچائی میری خیر خواہی تم پر خوب روشن ہے ۔ ساتھ ہی میری دیانت داری اور امانت داری بھی تم پر واضح ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

051قوم نوح (علیہ السلام) نے اگرچہ صرف اپنے پیغمبر حضرت نوح (علیہ السلام) کی تکذیب کی تھی۔ مگر چونکہ ایک نبی کی تکذیب، تمام نبیوں کی تکذیب کے مترادف ہے۔ اس لئے فرمایا کہ قوم نوح (علیہ السلام) نے پیغمبروں کو جھٹلایا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧١] قوم نوح کی طرف مبعوث تو نوح (علیہ السلام) ہوئے تھے لیکن یہاں جمع کا صیغہ استعمال ہوا ہے۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ تمام انبیاء کی بنیادی تعلیم ایک ہی جیسی رہی ہے۔ لہذا ایک نبی کو جھٹلانا سب نبیوں کو جھٹلانے کے مترادف ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس قوم کے پاس نوح (علیہ السلام) سے پہلے کچھ نبی آئے ہوں۔ جن کا ذکر قرآن اور حدیث میں موجود نہ ہو۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

كَذَّبَتْ قَوْمُ نُوْحِۨ الْمُرْسَلِيْنَ : سورت کا آغاز نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دلانے اور رسولوں کو جھٹلانے کے انجام بد کے ساتھ ہوا تھا، موسیٰ اور ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کی قوم کے ذکر کے بعد اب قوم نوح کا ذکر ہوتا ہے۔ اس میں بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے تسلی ہے اور اللہ کے رسولوں کو جھٹلانے والوں کے انجام بد کا ذکر ہے، اس کے بعد عاد، ثمود، قوم لوط اور اصحاب الایکہ کے ذکر میں بھی یہ دونوں چیزیں نمایاں ہیں۔ 3 اگرچہ انھوں نے صرف ایک پیغمبر نوح (علیہ السلام) کو جھٹلایا تھا، لیکن چونکہ تمام پیغمبروں کی دعوت ایک تھی اور ایک پیغمبر کو جھٹلانا اس دعوت کو جھٹلانا ہے جو تمام پیغمبر لے کر آئے، اس لیے فرمایا کہ انھوں نے تمام پیغمبروں کو جھٹلا دیا۔ تقابل کے لیے دیکھیے سورة اعراف (٥٩ تا ٦٤) ، یونس (٢٥ تا ٤٨) ، بنی اسرائیل (٣) ، انبیاء (٧٦، ٧٧) ، مؤمنون (٢٣ تا ٣٠) اور فرقان (٣٧) اس کے علاوہ نوح (علیہ السلام) کے واقعہ کی تفصیل کے لیے یہ مقامات بھی زیر نظر رکھیں، سورة عنکبوت (١٤، ١٥) ، صافات (٧٥ تا ٨٢) ، قمر (٩ تا ١٥) اور سورة نوح مکمل۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر قوم نوح نے پیغمبروں کو جھٹلایا (کیونکہ ایک پیغمبر کی تکذیب سے سب کی تکذیب لازم آتی ہے) جبکہ ان سے ان کی برادری کے بھائی نوح (علیہ السلام) نے فرمایا کہ کیا تم (خدا سے) نہیں ڈرتے ؟ میں تمہارا امانت دار پیغمبر ہوں (کہ بعینہ پیغام خداوندی بلا کمی بیشی پہنچا دیتا ہوں) سو (اس کا مقتضی یہ ہے کہ) تم لوگ اللہ سے ڈرو اور میرا کہنا مانو اور (نیز) میں تم سے کوئی (دنیوی) صلہ (بھی) نہیں مانگتا میرا صلہ تو بس رب العالمین کے ذمہ ہے سو (میری اس بےغرضی کا مقتضی بھی یہ ہے کہ) تم اللہ سے ڈرو اور میرا کہنا مانو۔ وہ لوگ کہنے لگے کہ کیا ہم تم کو مانیں گے حالانکہ رذیل لوگ تمہارے ساتھ ہو لئے ہیں (جن کی موافقت سے شرفاء کو عار آتی ہے اور نیز اکثر ایسے کم حوصلہ لوگوں کا مقصد کسی کے ساتھ لگنے سے کچھ مال یا جاہ حاصل کرنا ہوتا ہے، ان کا دعوی ایمان بھی قابل اعتبار نہیں) نوح (علیہ السلام) نے فرمایا کہ ان کے (پیشہ ورانہ) کام سے مجھ کو کیا بحث (خواہ شریف ہوں یا رذیل ہوں دین میں اس تفاوت کا کیا اثر رہا ؟ یہ احتمال کہ ان کا ایمان دل سے نہیں سو اس پر) ان سے حساب و کتاب لینا بس خدا کا کام ہے۔ کیا خوب ہو کہ تم اس کو سمجھو اور (رذالت پیشہ لوگوں کو اپنے ایمان کا مانع قرار دینے سے جو اشارةً یہ درخواست نکلتی ہے کہ میں ان کو اپنے پاس سے دور کروں تو) میں ایمانداروں کو دور کرنے والا نہیں ہوں (خواہ تم ایمان لاؤ یا نہ لاؤ میرا کوئی ضرر نہیں کیونکہ) میں تو صاف طور پر ایک ڈرانے والا ہوں (اور تبلیغ سے میرا فرض منصبی پورا ہوجاتا ہے، آگے اپنا نفع و نقصان تم لوگ دیکھ لو) وہ لوگ کہنے لگے اگر تم (اس کہنے سننے سے) اے نوح باز نہ آؤ گے تو ضرور سنگسار کردیئے جاؤ گے (غرض جب سالہا سال اس طرح گزر گئے تب) نوح (علیہ السلام) نے دعا کی کہ اے میرے پروردگار میری قوم مجھ کو (برابر) جھٹلا رہی ہے سو آپ میرے اور ان کے درمیان ایک (عملی) فیصلہ کر دیجئے (یعنی ان کو ہلاک کر دیجئے) اور مجھ کو اور جو ایماندار میرے ساتھ ہیں ان کو (اس ہلاکت سے) نجات دیجئے تو ہم نے (ان کی دعا قبول کی اور) ان کو اور جو ان کے ساتھ بھری ہوئی کشتی میں (سوار) تھے ان کو نجات دی پھر اس کے بعد ہم نے باقی لوگوں کو غرق کردیا اس (واقعہ) میں (بھی) بڑی عبرت ہے اور (باوجود اس کے) ان (کفار مکہ) میں سے اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے، بیشک آپ کا رب زبردست (اور) مہربان ہے (کہ باوجود عذاب پر قادر ہونے کے ان کو مہلت دیئے ہوئے ہے۔ )

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

كَذَّبَتْ قَوْمُ نُوْحِۨ الْمُرْسَلِيْنَ۝ ١ ٠٥ۚۖ كذب وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی: إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] ، ( ک ذ ب ) الکذب قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے قوم والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ، ( ق و م ) قيام القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] نوح نوح اسم نبيّ ، والنَّوْح : مصدر ناح أي : صاح بعویل، يقال : ناحت الحمامة نَوْحاً وأصل النَّوْح : اجتماع النّساء في المَنَاحَة، وهو من التّناوح . أي : التّقابل، يقال : جبلان يتناوحان، وریحان يتناوحان، وهذه الرّيح نَيْحَة تلك . أي : مقابلتها، والنَّوَائِح : النّساء، والمَنُوح : المجلس . ( ن و ح ) نوح ۔ یہ ایک نبی کا نام ہے دراصل یہ ناح ینوح کا مصدر ہے جس کے معنی بلند آواز کے ساتھ گریہ کرنے کے ہیں ۔ محاورہ ہے ناحت الحمامۃ نوحا فاختہ کا نوحہ کرنا نوح کے اصل معنی عورتوں کے ماتم کدہ میں جمع ہونے کے ہیں اور یہ تناوح سے مشتق ہے جس کے معنی ثقابل کے ہیں جیسے بجلان متنا وحان دو متقابل پہاڑ ۔ ریحان یتنا وحان وہ متقابل ہوائیں ۔ النوائع نوحہ گر عورتیں ۔ المنوح ۔ مجلس گریہ ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٠٥) حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم نے حضرت نوح (علیہ السلام) کو اور ان پیغمبروں کو جن کا حضرت نوح (علیہ السلام) نے ذکر کیا جھٹلایا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

اب آگے انباء الرسل کا تذکرہ پھر اسی زمانی ترتیب سے ہو رہا ہے جس ترتیب سے پہلے سورة الاعراف اور سورة ہود میں ہوچکا ہے۔ اس ضمن میں ہر رکوع کے آخر میں دو آیات ترجیعی کلمات کے طور پر بار بار دہرائی جائیں گی۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

74 For comparison, see AI-A`raf: 59-64, Yunus: 71-73, Hud: 25-48, Bani Isra'il: 3, Al-Anbiya' 76-77, AI-Mu'minun:: 23-30, and Al-Furqan: 37. For the details of the story of Prophet Noah, see AI-'Ankabut:15, As-Saffat: 75-82, AIQamar: 9-15 and Surah Nuh itself. 75 Though they had rejected only one Messenger, it amounted to rejecting all the messengers because all of them had brought one and the same message from Allah. This is an important fact which the Qur'an has mentioned over and over again in different ways. Thus, even those people who rejected just one Prophet have been regarded as unbelievers though they believed in all other Prophets, for the simple reason that the believer in the truth of one Messenger cannot deny the same truth in other cases unless he dces so on account of racial prejudice, imitation of elders, etc.

سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :74 تقابل کے لیے ملاحظہ ہو الاعراف ، آیات 59 تا 64 ۔ یونس ، آیات 71 تا 73 ۔ ہود ، آیات 25 تا 48 ۔ بنی اسرائیل ، آیت 3 ۔ الانبیاء ، آیات 76 ۔ 77 ۔ المؤمنون ، آیات 23 تا 30 ۔ الفرقان ، آیت 37 ۔ اس کے علاوہ قصہ نوح علیہ السلام کی تفصیلات کے لیے قرآن مجید کے حسب ذیل مقامات بھی پیش نظر رہیں : العنکبوت آیات 14 ۔ 15 ۔ الصّٰفّٰت ، 75 تا 82 ۔ القمر ، 9 ۔ 15 ۔ سورہ نوح مکمل ۔ سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :75 اگرچہ انہوں نے ایک ہی رسول کو جھٹلایا تھا ، لیکن چونکہ رسول کی تکذیب درحقیقت اس دعوت اور پیغام کی تکذیب ہے جسے لے کر وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے ، اس لیے جو شخص یا گروہ کسی ایک رسول کا بھی انکار کر دے وہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں تمام رسولوں کا منکر ہے ۔ یہ ایک بڑی اہم اصولی حقیقت ہے جسے قرآن میں جگہ جگہ مختلف طریقوں سے بیان کیا گیا ہے ۔ حتّیٰ کہ وہ لوگ بھی کافر ٹھہرائے گئے ہیں جو صرف ایک نبی کا انکار کرتے ہوں ، باقی تمام انبیاء کو مانتے ہوں ۔ اس لیے کہ جو شخص اصل پیغام رسالت کا ماننے والا ہے وہ تو لازماً ہر رسول کو مانے گا ۔ مگر جو شخص کسی رسول کا انکار کرتا ہے وہ اگر دوسرے رسولوں کو مانتا بھی ہے تو کسی عصبیت یا تقلید آبائی کی بنا پر مانتا ہے ، نفس پیغام رسالت کو نہیں مانتا ، ورنہ ممکن نہ تھا کہ وہی حق ایک پیش کرے تو یہ اسے مان لے اور وہی دوسرا پیش کرے تو یہ اس کا انکار کر دے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(١٠٥ تا ١٢٢) اوپر کی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے ان منکروں کا ذکر فرمایا تھا جو دنیا میں عذاب دوزخ کا انکار کرتے ہیں اور میدان حشر میں دوزخ کی حالت آنکھوں کے سامنے دیکھ کر دنیا میں دوبارہ پیدا ہونے کی آرزو کریں گے اب ان آیتوں میں سب سے پہلے صاحب شریعت نبی حضرت نوح (علیہ السلام) نے شروع فرما کر چند رکوع میں کئی نبیوں کا تذکرہ فرمایا ہے تاکہ معلوم ہوجائے کہ جب سے شریعت کا حکم روئے زمین پر شروع ہوا ہے اسی وقت سے دنیا میں ایسے لوگ بھی چلے آتے ہیں کہ شریعت کے جن حکموں کو وہ اپنی مرضی کے خلاف پاتے ہیں ان حکموں کو نہیں مانتے شروع نصیحت نہیں کرتے ہیں اس لیے ہم کو اللہ کا رسول مانو اور ہماری نصیحت پر چلو سورة انعام میں گزر چکا ہے کہ قریش نے بھی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ کہا تھا کہ تمہارے پاس ہر وقت کمینے اور کم ظرف لوگ جمع رہتے ہیں اس لیے ہم اشراف لوگ تمہاری مجلس میں بیٹھنے اور تمہاری بات سننے کی اپنی ہتک عزت سمجھتے ہیں وہی بات قوم نوح ( علیہ السلام) نے حضرت نوح ( علیہ السلام) سے ان آیتوں میں کہی ہے اور جس طرح قریش نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک انبیاء کا ایک سلسلہ کیا جاوے تو ہر زمانہ میں اللہ تعالیٰ کی عنایت لوگوں پر بھی رہی ہے کہ ہر زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے احکام شریعت نازل فرمائے ان احکام کے سمجھانے کے لیے رسولوں کو بھیجا اور باوجود اللہ کی اس عنایت کے ہمیشہ سے مخالف لوگوں کا وہی نافرمانی کا ایک سلسلہ رہا اور انجام ان کی نافرمانی کا دنیا میں تو یہ ہوا کہ طرح طرح کے عذابوں سے وہ ہلاک ہوئے اور عاقبت میں ایسے نافرمان لوگوں کا جو کچھ انجام ہوگا اس کا ذکر اوپر کی آیتوں میں گزر چکا ہے کہ کبھی اپنے گمراہی اور نافرمانی پر افسوس کریں گے کبھی اپنے بہکانے والوں کو برا کہیں گے کبھی دنیا میں دوبارہ پیدا ہونے اور نیک کام کرنے کی تمنا کریں گے اور کبھی ان انبیاء کی شفاعت کی آرزو کریں گے جن کو دنیا میں تکلیفیں دیتے تھے یہ تو ان لوگوں کا حال ہوا جو رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ حیات میں رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وقت کی مخالفت کرتے تھے اب بھی امت میں سے جو لوگ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وقت کی کسی طرح کی مخالفت کریں گے ان کا انجام بھی وہی ہوگا جو ان سے پہلے نافرمان لوگوں کا ہوچکا اس باب میں بہت سی آیتیں اور حدیثیں ہیں سورة بقرہ میں گزر چکا ہے کہ جس شخص کے دل میں اللہ کی کچھ بھی محبت ہوگی وہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی فرمانبرداری ضرور کرے گا اور صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عباس (رض) اور حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت سے جو حدیثیں ١ ؎ ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرشتوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سوتے میں آن کر جنت کے ایک کھانے کی چنے ہوئے دسترخوان کی مثال دے کر امت کے لوگوں کو اچھی طرح سمجھا دیا ہے کہ بغیر پوری فرما نبرداری رسول وقت کسی شخص کو جنت نصیب نہیں ہوسکتی حق تعالیٰ کل مسلمانوں کو رسول وقت کی فرمانبرداری کا شوق عطا فرماوے تاکہ نافرمان لوگوں کی طرح ایک دفعہ دنیا سے اٹھ جانے کے بعد پھر دوبارہ دنیا میں پیدا ہونے اور رسول وقت کی فرمانبرداری کی حسرت دل میں باقی نہ رہے حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کے قول کے موافق اَرْذَلُوْنَ کے معنی اہل پیشہ لوگوں کے ہیں نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کی اوپر کی بات کا یہ جواب دیا کہ مجھ کو ان غریب لوگوں کے پیشہ سے کچھ سروکار نہیں میں تو پیشہ ور اور شریف ہر ایک کو خالص اللہ تعالیٰ کے عبادت کی نصیحت کرتا ہوں اور ظاہر میں جو شخص میری نصیحت پر عمل کرے اس کو میں نیک سمجھتا ہوں کسی کے دل کا حال یا پیشہ کا حال مجھ کو معلوم نہیں یہ غیب کا حال اللہ تعالیٰ ہی کو معلوم ہے اور ہر شخص کی نیت کا معاملہ اسی کو خوب روشن ہے اگر تم اس بات کو اچھی طرح سمجھ لو۔ تو پھر تمہارا کچھ اعتراض باقی نہیں رہتا اور تم لوگوں کے کہنے سے میں ان غریب ایمانداروں کو اپنی مجلس سے نکال نہیں سکتا قوم کے لوگوں نے حضرت نوح ( علیہ السلام) کی ان باتوں کا یہ جواب دیا کہ اے نوح ( علیہ السلام) اگر تم اپنی اس طرح کی باتوں سے باز نہ آؤگے تو ہم تم کی پتھروں سے کچل کر مار ڈالیں گے آخر مجبور ہو کر نوح (علیہ السلام) نے بد دعا کی سوائے حضرت نوح ( علیہ السلام) اور ان کے فرمانبردار لوگوں کے ساری قوم طوفان میں غرق ہوگئی اسی کو فرمایا کہ اس قصہ میں رسولوں کی مخالفت کرنے والوں کے لیے اگرچہ بڑی عبرت ہے مگر جو لوگ علم الٰہی میں نافرمان ٹھہر چکے ہیں وہ راہ راست پر نہیں آنے والے اور ایسے لوگوں کی سرکشی اگرچہ ہر وقت قابل سزا ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے جب تک ایسے لوگوں کو مہلت دے رکھی ہے اس وقت تک وہ سرکشی کرلیویں پھر جب کہ اللہ تعالیٰ ان کو پکڑے گا تو اس کی پکڑ بہت زبردست ہے صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے ابوموسیٰ اشعری (رض) کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ جب تک چاہتا ہے نافرمان لوگوں کو مہلت دیتا ہے پھر جب ان کو پکڑتا ہے تو بالکل برباد کردیتا ہے۔ قوم نوح ( علیہ السلام) کے انجام اور فتح مکہ تک کے نافرمان اہل مکہ کے انجام کی یہ حدیث گویا تفسیر ہے۔ طوفان کا پورا قصہ سورة ہود میں گزر چکا ہے اگرچہ ظاہر میں ہر ایک قوم نے فقط اپنے رسول کو جھٹلایا ہے۔ لیکن صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ (رض) کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ١ ؎ ہے۔ جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا نماز روزہ اور حلال و حرام کے احکام ہر ایک نبی صاحب شریعت کے زمانہ میں بدلتے رہے ہیں مگر اللہ کی وحدانیت جو اصل دین ہے اس سے کوئی شریعت خالی نہیں ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جس قوم نے ایک شریعت اور ایک رسول کو جھٹلایا تو اس سے کوئی شریعت اور کوئی رسول خالی نہیں ہے اسی مطلب کے ادا کرنے کے لیے ان قصوں میں مرسلین جمع کے طور پر فرما کر یہ جتلایا گیا ہے کہ ان قوموں سے ہر ایک قوم نے فقط اپنے رسول کو جھٹلا کر سب صاحب شریعت رسولوں کو جھٹلایا مصنف ابن ابی شیبہ مستدرک حاکم تفسیر ابن ابی حاتم کے حوالہ سے حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کی معتبر روایت سورة ہود میں گزر چکی ہے کہ چالیس برس کی عمر میں حضرت نوح (علیہ السلام) نبی ہوئے اور طوفان سے پہلے ساڑھے نو سو برس اپنی قوم کو وہ نصیحت کرتے رہے جس نصیحت کے اثر سے اسی ٨٠ آدمی کے قریب راہ راست پر آئے اس کے بعد طوفان آیا اور ساٹھ برس طوفان کے بعد حضرت نوح (علیہ السلام) پھر زندہ رہے اس حساب سے نوح (علیہ السلام) کی عمر ہزار برس سے اونچی ہوئی۔ پچھلی کسی تاریخی حالت سے آئندہ کے کسی معاملہ کو ثابت کرنا ثبوت دعا کے لیے ایک عمدہ طریقہ ہے اسی مطلب سے قرآن شریعت میں جگہ جگہ پچھلے قصے بیان فرمائے گئے ہیں تاکہ قریش کو اپنے آئندہ کے انجام سے خوف ہو۔ (١ ؎ مشکوٰۃ باب الا عتصام بالکتاب والسنتہ بروایت جابر (رض) اس مضمون کی روایت ہے۔ ) (١ ؎ تفسیر ہذاص ١١١ ج ٣۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(26:105) کذبت قوم نوح ن المرسلین ۔ ۔ کذبت فعل ماضی قوم نوح مضاف مضاف الیہ مل کر فاعل المرسلین ۔ مفعول

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

13 ۔ اگرچہ انہوں نے صرف ایک ہی پیغمبر نوح (علیہ السلام) کو جھٹلایا لیکن چونکہ ایک پیغمبر کو جھٹلانا دراصل اس دعوت کو جھٹلانا ہے جو تمام پیغمبر پیش کر رہے تھے۔ اس لئے فرمایا گیا کہ انہوں نے پیغمبروں کو جھٹلایا۔ نیز دیکھئے سورة الفرقان آیت 37 ۔ (قرطبی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

آیات 105 تا 122: اسرار و معارف : نبی اور رسول کو نہ ماننا گویا منصب نبوت کا انکار شمار ہوگا جیسے سب کا انکار کردیا : نوح (علیہ السلام) کی قوم نے اللہ کے رسولوں کو ماننے سے انکار کردیا کہ نوح (علیہ السلام) کا انکار کرکے گویا انہوں نے منصب نبوت و رسالت کا انکار کیا جو تمام انبیاء کا انکار شمار ہوا۔ اور نوح (علیہ السلام) ان کے لیے کوئی غیر معروف آدمی نہ تھے ان کے قومی بھائی تھے جن کی ذات سے وہ بخوبی واقف تھے مگر جب انہوں نے ان کے کردار پر بات کی اور فرمایا یاد رکھو میں اللہ کا رسول ہوں اور مانتدار ہوں یعنی وہی کہتا ہوں جو اللہ کہنے کا حکم دیتے ہیں اور تم سے اس لیے کہتا ہوں کہ اللہ نے تمہاری طرف بھیجا ہے۔ لہذا اللہ سے ڈرو اس کی نافرمانی سے باز آؤ اور میری اطاعت کرو جو در اصل اللہ کی اطاعت ہے۔ تبلیغ اور عبادات پہ اجرت : یہ بھی دیکھ لو کہ اس ساری تبلیغ اور مجاہدے پر میں سے کوئی اجرت طلب نہیں کرتا۔ بلکہ میری اجرت اللہ کریم ہی دینگے جو سب جہانوں کو پالنے والے ہیں۔ یہ مسئلہ پہلے بھی گذر چکا ہے کہ عبادات اور تبلیغ پر اجرت جائز نہیں مفتی محمد شیع مرحوم معارف القرآن میں فرماتے ہیں کہ سلف صالحین نے اس کو حرام کہا ہے مگر متاخرین نے اس کو بحالت مجبوری جائز قرار دیا ہے۔ گویا آج بھی مجبوری کے تحت جائز ہے اور مناسب یہ ہے کہ آدمی روزی کا کوئی دوسرا معروف ذریعہ اپنائے اور عبادات و تبلیغ پر اجرت نہ لے چناچہ پھر ارشاد ہوا کہ اللہ کی نافرمانی سے باز آجاؤ اور میری اطاعت اختیار کرو جس پر قوم نے جواب دیا آپ کی اطاعت کرلیں جبکہ آپ پر جو چند لوگ ایمان لائے وہ مفلس اور رذیل یعنی مزدور پیشہ لوگ ہیں۔ دنیا دار کے لیے امیر و غریب بھی دو قومیں ہیں : دنیا داروں کے نزدیک امیر اور غریب دو الگ قومیں ہیں اور سب بھلائیاں امارت میں اور ساری رذالت غربت میں نظرآتی ہے جبکہ اللہ کے نزدیک بھلائی اور خوبی اطاعت میں ہے خواہ غریب کرے یا امیر اور رذالت نافرمانی میں ہے چناچہ نوح (علیہ السلام) نے فرمایا کہ تمہارا یہ خیال درست نہیں کہ اعمال کا حساب تو اللہ کو لینا ہے اور وہ ہی دلوں کے حال سے بھی واقف ہے رہی یہ بات کہ میں انہیں نکال باہر کروں تب تم ایمان لاؤ گے تو میں ایسا نہیں کرسکتا کہ ایمان لا چکے تم بھی چاہو تو ان کے ساتھ شامل ہوجاؤ ورنہ تمہاری مرضی کہ میرا منصب برے کاموں اور غلط عقائد کے انجام بد کی خبر دینا ہے جو میں تم سب کو پہنچا رہا ہوں اس سے بچاؤ کا راستہ اختیار کرنا تمہارا کام ہے ۔ ان کھری کھری باتوں پہ وہ اور بھڑک اٹھے اور کہنے لگے کہ آپ یہ سب کچھ کہنا اور کرنا بند کیجیے اور ہمارے معاشرے کے خلاف کوئی نئی راہ مت کھولیے ورنہ ہم بطور سزا آپ کو سنگسار کردیں گے ایک بہت لمبے عرصے بعد ان سے ناامید ہو کر آپ نے دعا کی بار الہا اب میری قوم نے میری اور مومنین کی ہلاکت کا فیصلہ کرلیا ہے اور میں اپنی بات منوانے سے ناامید ہوچکا ہوں اب میرے اور ان کے درمیان فیصلہ کردیجیے کہ یہ تباہ و برباد ہو کر مٹ جائیں اور مجھے اور میرے ساتھ ایمان لانے والوں کو ان سے اور عذاب الہی سے بھی نجات دیجیے۔ چناچہ اللہ کا عذاب نازل ہوا جس میں صرف نوح (علیہ السلام) اور ان کی کشتی میں سوار لوگ تو محفوظ رہے باقی سب کے سب غرق ہو کر تباہ ہوگئے۔ یہ سب قصہ بھی اس لیے بیان کیا گیا ہے کہ اس میں بہت بڑی عبرت ہے اور انبیاء کی نافرمانی کا نتیجہ کیا ہوتا ہے یہ بات سامنے آجاتی ہے مگر اس کے باوجود اکثر لوگ ایمان سے محروم رہتے ہیں جبکہ اللہ ان سب کی ہلاکت پہ بھی قادر ہے مگر وہ رحیم ہے کہ مہلت دے رکھی ہے۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن : آیت نمبر 105 تا 122 : الارذلون (گھٹیا اور معمولی لوگ) ‘ لو تشعرون (کاش تم عقل و فہم سے کام لیتے) ‘ طارد (بھگانے والا۔ دھکے دینے والا) ‘ لم تنتہ (تو باز نہ آیا) ‘ افتح (کھول دے) ‘ المشحون ( بھری ہوئی۔ بھر پور) ‘۔ تشریح : آیت نمبر 105 تا 122 : سورۃ الشعراء میں سات انبیاء کرام کے واقعات زندگی میں سے موقع کی مناسبت اور عبرت و نصیحت کے بیشمار پہلوؤں کو اجاگر کرنے کے لئے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا تذکرہ فرمایا گیا اور اب حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم کی نافرمانیوں اور ان پر عذاب کا ذکر فرمایا جارہا ہے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے ساڑھے نو سو سال تک مسلسل اپنی قوکو درس توحید دیا لیکن ان کی قوم جو بت پرستی ‘ غیر اللہ کی عبادت و بندگی ‘ عیش و عشرت کی بد مستی میں اس طرح ڈوبی ہوئی تھی کہ جب حضرت نوح (علیہ السلام) نے ایک اللہ کی عبادت و بندگی ‘ بری رسموں سے پرہیز اور دیانت و امانت کی زندگی گزارنے کی بات کی تو پوری قوم نے آ پکا مذاق اڑانا ‘ ستانا ‘ حق و صداقت کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنا شروع کردیں۔ ان کی لائی ہوئی تعلیمات کو ماننے کے بجائے ان کا انکار اور حضرت نوح (علیہ السلام) پر ایمان لانے والوں سے حقارت کا معاملہ شروع کردیا۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے جب ان کو اللہ کا پیغام پہنچایا تو اس وقت آپ نے فرمایا کہ 1۔ اے میری قوم تمہیں کیا ہوگیا ہے تم اللہ سے کیوں نہیں ڈرتے ؟ 2۔ میں پوری دیانت وامانت سے اللہ کا پیغام تم تک پہنچارہا ہوں۔ 3۔ تم سے میں کوئی صلہ ’ بدلہ یا اجرت تو نہیں مانگ رہا ہوں۔ 4۔ تمہیں صرف اس ایک اللہ سے ڈرنا چاہیے جو ہم سب کا خالق اور مالک ہے۔ 5 تمہیں میری اطاعت و فرماں برداری کرنا چاہیے۔ قوم کا جواب یہ تھا کہ اے نوح (علیہ السلام) ہم آپکے پاس کیسے آئیں جب کہ معاشرہ کے وہ لوگ آپ کے ارد گردموجود ہیں جن کا معاشرہ میں کوئی مقام نہیں ہے۔ ان کہنے کا مطلب یہ تھا کہ اگر تمہاری باتوں میں واقعی کوئی صداقت یا بھلائی ہوتی تو ہمارے معاشرے کے بڑے لوگ جو انتہائی ذہین ہیں اور ہر بات کی گہرائی تک پہنچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں وہ سب سے پہلے ایمان لاتے وہ آپ کا کہا مانتے لیکن معاشرے کے ان لوگوں کے برابر ہم کیسے بیٹھ کر آپ کی باتیں سن سکتے ہیں جن کے پاس بیٹھنا ہماری توہین ہے ہمارے مرتبے اور مقام کے خلاف ہے۔ ٹھیک یہی صورت حال نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں بھی تھی جب کفار اور سردار ان قریش یہ کہتے تھے کہ بلال حبشی ‘ عمار اور صہیب رومی جیسے غلام اور غریب و مفلس لوگ آپ کیا رد گرد بیٹھے رہتے ہیں یہ ہماری شان کے خلاف ہے کہ ہم ایسے معمولی لوگوں کے برابر بیٹھیں اور آپ کی باتیں سنیں۔ پہلے آپ ان کو اپنی مجلس سے نکال دیجئے پھر ہم آپ کی بات سننے پر غور کریں گے۔ اللہ تعالیٰ نے سورة انعام میں اس کا یہ جواب دیا ہے کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! جو لوگ رات دن محض اللہ کی رضا و خوشنودی کے لئے اس کو پکارتے ہیں ان کو اپنے پاس سے نہ ہٹا ئیے کیونکہ ان میں سے کسی کا حساب آپ کے ذمے نہیں ہے۔ اگر آپ نے ایسا کیا تو آپ کا شمار بےانصافوں میں ہوجائے گا۔ ہم نے تو اسی طرح بعض لوگوں کو بعض لوگوں سے آزمایا ہے تاکہ وہ یہ کہنے لگیں کہ ” کیا ہم میں سے صرف یہی لوگ رہ گئے تھے جن پر اللہ اپنا فضل وکرم نازل کرتا ہے “ فرمایا ہاں ہاں ‘ کیوں نہیں ‘ کیا اللہ اپنے ایسے شکر گزار بندوں سے واقف نہیں ہے۔ (الانعام آیت 52) حضرت نوح (علیہ السلام) نے ان بت پرستوں کو وہی جواب دیا جو ہر نبی سے اس طرح کی باتیں کرنیوالوں کو دیا گیا ہے کہ ۔ 1۔ مجھے اس سے کوئی بحث یا مطلب نہیں ہے کہ (ایمان لانے والے مخلص) کیا کرتے ہیں۔ ان کا مشغلہ یا پیشہ کیا ہے ؟ 2۔ وہ دل سے ایمان لائے ہیں وہ اپنا حساب خود دیں گے میرے ذمے ان سے حساب لینا نہیں ہے۔ 3۔ تمہارے کہنے سے میں ان صاحبان امیان کو دور نہیں پھینک سکتا جو ایمان لے آئے ہیں کیا تمہیں اتنا بھی شعور نہیں ہے۔ 4۔ میں تو صرف اللہ کے احکامات کے ذریعہ برے اعمال کے برے انجام سے کھول کر ڈرانے والا ہوں۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کے اس دو ٹوک جواب سے مایوس ہوکر وہ جاہلانہ دھمکیوں پر اتر آئے۔ کہنے لگے کہ اے نوح (علیہ السلام) اگر تم اپنی باتوں سے باز نہ آئے یعنی ہمارے بتوں اور رسموں کو برا کہنا نہ چھوڑا تو ہم تمہیں پتھر مار مار کر ہلاک کردیں گے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) قوم کی نافرمانیوں اور دھمکیوں کے باوجود اللہ کے دین کی طرف دعوت دیتے رہے۔ علماء مفسرین نے فرمایا ہے کہ ساڑھے نو سو سال میں حضرت نوح علیہ اسلام کی جدوجہد کے نتیجے میں ایک سو آدمیوں سے بھی کم لوگوں نے ایمان قبول کیا۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کے بیٹے نے بھی ایمان قبول نہیں کیا اور اس قوم نے نافرمانیوں کی حد کردی۔ اللہ تعالیٰ انبیاء کرام (علیہ السلام) میں صبر ‘ برداشت اور بےانتہا عمل کی قوت عطا فرماتا ہے اس لئے وہ دن رات جدوجہد کرتے اور اپنی قوم کی بد عملی پر روتے اور گڑ گڑاتے رہے ہیں۔ وہ اپنی امت کے سب سے زیادہ مخلص ہوتے ہیں لیکن اگر وہ مایوس ہو کر اللہ کی بار گاہ میں ہاتھ اٹھادیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کی دعا کو قبول کرلیتا ہے چناچہ قوم سے قطعاً مایوس ہو کر ایک دن حضرت نوح (علیہ السلام) نے بار گاہ الہی میں درخواست پیش کردی کہ الہی ! میری قوم مجھے مسلسل چھٹلا رہی ہے اور کہتی ہے کہ اے نوح (علیہ السلام) اس روز روز کے جھگڑے کو ختم کرو اور تم جس عذاب کی باتیں کرتے ہو وہ لے آئو۔ اے اللہ ان کے اور میرے درمیان آپ سے بہتر فیصلہ کون کرسکتا ہے ؟ مجھے اور میرے ساتھ ایمان لانے والوں کو نجات عطا فرمادیجئے۔ جیسا کہ قرآن کریم میں دوسری جگہ اس کی تفصیل آئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) سے فرمایا کہ اے نوح تم ایک ایسی کشتی تیار کرو جس میں تمام اہل ایمان اور تمام جانوروں کا ایک ایک جوڑا رکھا جاسکتا ہو۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے جب کشتی (جہاز) بنانا شروع کی تو کفار نے ہر طرح مذاق اڑایا مگر حضرت نوح (علیہ السلام) اور اہل ایمان ان لوگوں سے بےپرواہ ہو کر اس کشتی کو تیار کرنے میں لگے رہے۔ جب کشتی مکمل ہوگئی تو اللہ تعالیٰ نے اپنے عذاب کو بھیجا۔۔۔۔ ۔۔ ۔ گیا۔ زمین سے پانی نکلنا شروع ہوا اللہ نے پانی کے چشموں کو ابل پڑنے اور بادلوں کو برسنے کا حکم دیا۔ پانی اس قدر تیزی سے پڑھنا شروع ہوا کہ منکرین تیزی سے پہاڑروں کی طرف دوڑنے لگے مگر بتدریج پانی نے بڑھنا شروع کیا تو پہاڑوں کی چوٹیاں بھی پائی میں ڈوب گئیں اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے اس نافرمان قوم اور ان کی عیش پرستی کی ہر نشان کو مٹاکررکھ دیا۔ اہل ایمان جو ان کشتی میں سوار تھے ان سب کو اور حضرت نوح (علیہ السلام) کو نجات عطا فرمادی۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں بھی اس آیت کو دھرایا ہے کہ بیشک (اس واقعہ میں ) عبرت و نصیحت کے بیشمار پہلو موجود ہیں۔ لیکن اکثر لوگ وہ ہیں کہ سب کچھ دیکھتے بھالتے بھی ایمان کی نعمت سے محروم رہتے ہیں۔ یہ تو اللہ کا فضل و کرم ہے ورنہ اللہ جب چاہے ان کو صفحہ ہستی سے مٹا سکتا ہے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

7۔ کیونکہ ایک پیغمبر کی تکذیب سے سب کی تکذیب لازم آتی ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

درس نمبر ١٦٤ ایک نظر میں جس طرح سابقہ قصے میں گردش ایام کو پ یچھے کی طرف دوڑایا گیا تھا اور روئے سخن قصہ مسویٰ سے پیھچے قصہ ابراہیم کی طرف چلا گیا تھا۔ یہاں بھی قصہ ابراہیم سے آپ مزید پیچھے قصہ نوح کی طرف ہم جا رہے ہیں۔ یہاں دراصل تاریخی ترتیب قصص ملحوظ نہیں ہے۔ مقصد شرکیہ عقائد کے خلاف جدوجہد کے چند نمونے دینے ہیں۔ قصہ نوح بھی قصہ موسیٰ اور قصہ ابراہیم کی طرح کئی سورتوں میں آیا ہے۔ یہ قصہ اس سے قبل سورة اعراف میں آیا ہے۔ سورة اعراف میں نزول آدم کے بعد اتخصار کے ساتھ آیا تھا جس میں آپ نے قوم کو توحید کی طرف بلایا تھا اور قیامت کے دن کے عذاب عظیم سے ڈرایا تھا اور یہ بتایا تھا کہ قوم نوح نے اپنا نوح (علیہ السلام) سے کہا کہ وہ گمراہ ہوگ ئے ہیں۔ ان کو تعجب ہوا کہ اللہ ان کے طرف ان جیسا انسان کس طرح بھیج سکتا ہے کہ وہ دوسرے انسانوں کو ہدایت دے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ نے آپ کی قوم کو غقر کیا اور آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو نجات دی۔ یہ قصور سورة یونس میں بھی اختصار کے ساتھ پیش کیا گیا ہے ، یہ آپ کی راسلت کا آخری دور تھا ، جب آپ نے اپنی قوم کو چیلنج کیا۔ انہوں نے ان کی تکیذب کی۔ آپ اور آپ کے ساتھیوں کو کشتی کے ذریعے نجات ملی اور دور سے فریق کو غرق کردیا گیا۔ سورت ہود میں اس قصے کی تفصیلات دی گیء ہیں اس میں کشتی ، طوفان اور اپنے بیٹے کے بارے میں حضرت نوح کی دعا جو غرق ہوا اور پھر طوفان کے بعد کے واقعات اور وہ واقعات جو طوفان سے پہلے تبلیغ کے دوران ان کو پیش ائٓے۔ سورت المومنون میں بھی یہ قصہ آیا ہے۔ وہاں حضرت نوح اپنی قوم کو رب واحد کی بندگی کی دعوت دیتے ہیں جبکہ قوم یہ اعتراض کرتی ہے کہ تم تو ہم جیسے انسان ہو اور ہم پر فضیلت حاصل کرنے کے لئے یہ باتیں کرتے ہو۔ اگر اللہ کو کوئی نبی بھیجنا بھی تھا تو وہ فرشتے بھیج سکتا تھا انہوں نے آپ پر مجنوں ہونے کا الزام عائد کیا۔ وہاں پھر حضرت نوح رب کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور نصرت طلب کرتے ہیں اور وہاں پھر کشتی اور طوفان کی طرف ایک سرسری اشارہ ہوتا ہے۔ بالعموم قصہ نوح ، قصص عاد ، ثمود ، لوط اور الہ مدین کے قصے کے ساتھ آتا ہے۔ اس سورت میں بھی یہی صورت حال ہے۔ یہاں اس قصے میں جو بات کہی گئی ہے وہ یہ ہے کہ وہ قوم سے کہتے ہیں کہ خدا خوفی اختیار کرو ، یہ کہ وہ ان سے کسی اجر کے طلبگار نہیں ہیں اور یہ کہ ان کی قوم کے کبراء ان سے جو مطالبہ کرتے تھے کہ تمہارے پاس جو غریب اہل ایمان چپکے ہوئے ہیں ان کو دور کرو جس سے حضرت نوح انکار فرماتے تھے اور بعینہ یہی مطالبہ حضور اکرم سے بھی اہل مکہ کرتے تھے۔ اس کے بعد حضرت نوح دعا کرتے ہیں کہ اے اللہ ان کے اور ان کی قوم کے تنازعہ کا فصلہ حق کے ساتھ فرما دے۔ اللہ ان کے اس سوال کو پورا کرتا ہے اور مکذبین کو ہلاک کرتا ہے اور اہل ایمان کو بچا لیتا ہے۔ درس نمبر ١٦٤ تشریح آیات ١٠٥………تا …………١٢٢ کذبت قوم نوح المرسلین (١٠٥) یہ تو قصے کا انجام بتا دیا ، قصے کا انجام پہلے لا کر پھر تفصیلات دی جاتی ہیں تاکہ قاری کو معلوم ہوجائے کہ روئے سخن کدھر ہے۔ سوال یہ ہے کہ قوم و نوح نے تو صرف نوح (علیہ السلام) کو جھٹلایا جبکہ قرآن کہتا ہے اس نے رسولوں کو جھٹلایا۔ رسالت اپنی حقیقت کے اعتبار سے دراصل ایک حقیقت ہے۔ تمام رسولوں کی دعوت یہی رہی ہے کہ اللو وحدہ لاشریک ہے اور صرف اسی کی بندگی کرنا چاہئے۔ جو شخص یا جو قوم ایک رسول کی تکذیب کرے وہ دراصل تمام رسولوں کی تکذیب کرتا ہے ۔ قرآن کریم اس مفہوم اور حقیقت کو مختلف مقامات پر دہراتا ہے۔ اور مختلف انداز اور اسالیب میں اس بات کو دہرایا جاتا ہے۔ اس لئے کہ یہ اسلامی نظریہ حیات کا ایک مسلمہ اصول ہے تمام رسولوں کی دعوت میں یہ اصول مسلم ہر ہے ہیں۔ اور اسی اصول پر انساینت کی تقسیم ہوتی رہی ہے۔ یعنی رسولوں کو ماننے والے ایک طرف اور نہ ماننے والے دورسی طرف تمام رسالتوں اور تمام زمانوں میں ایسا ہی ہوتا رہا ہے ۔ ایک مسلمان جب دیکھتا ہے تو ہر دین اور ہر عقیدے میں امت ایک ہی رہی ہے۔ ابتدائی تاریخ سے لے کر آج تک اور آخری دین توحید اسلام تک۔ ہر ملت اور ہر دین میں صنف مخلاف کافروں اور منکرین کی رہی ہے۔ اہل ایمان وہ ہیں جو رسولوں پر ایمان لاتے ہیں اور اہل کفر وہ ہیں جو انکار کرتے ہیں۔ اہل ایمان تمام رسولوں کا احترام کرتے ہیں اور ان پر ایمان لاتے ہیں کیونکہ منصب رسالت کی نوعیت اور حقیقت ایک ہے۔ ایک مسلم کے اندازے کے مطابق انسانیت کی تقسیم رنگوں ، علاقوں اور نسلوں کے مطابق نہیں کی جاسکتی۔ انسانیت کی تقسیم صرف اہل حق اور الہ باطل دو گروہوں کے درمیان ہوتی ہے اور آغاز انسانیت سے لے کر یہی تقسیم رہی ہے۔ لہٰذا اسلامی نقطہ نظر سے تاریخ کے لئے ایک ہی معیار اور ایک ہی رتازو ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک مسلم کی ذہنیت اور اس کی سوچ یہ ہوتی ہے کہ وہ رنگ و نسل اور قوم و وطن سے بالا ہو کر سوچتا ہے ۔ اس کے موجودہ روابط یا تاریخی روابط وہی ہوتے ہیں جو ایمانی اقدار پر مبنی ہوں۔ وہ ایمانی اقدار کیا صول پر سب کا محاسبہ کرتا ہے اور اپنی تمام اقدار اور افکار کو ایمان ہی کے معیار پر تولتا ہے اذ قال لھم ……اطیعون (١٠٨) ۔ “ یہ تھی حضرت نوح کی قوم ، جس نے حضرت نوح (علیہ السلام) کی تکذیب کی۔ خود اپنی قوم نے ان کی تکذیب کی اور وہ خود ان کے بھائی تھے۔ حالانکہ اخوت کا تقاضا تو یہ تھا کہ یہ لوگ نوح کے ساتھ روا داری برتنے اور اطمینان سے ایمان لاتے اور تصدیق کرتے۔ لیکن ان کی قوم نے برادرانہ رواداری کا مظاہرہ بھی نہ کیا اور خود اپنے بھائی کی ہمدردانہ باتوں کا ان پر کوئی اثر نہ ہوا۔ الاتتقون (٢٦ : ١٠٦) ” کیا تم ڈرتے نہیں وہ۔ “…… اور اس انجام سے نہیں ڈرتے ہو جو اس رویہ کا لازمی نتیجہ ہے جس پر تم ہو۔ اور تمہارے دل خوف اور خشیت محسوس نہیں کرتے۔ خدا خوفی کی طرف بلانا اسی سورت کا مخصوص مضمون ہے۔ یہی بات حضری موسیٰ نے فرعون سے کہی اور یہی بات نوح نے اپنی قوم سے کہی اور یہی بات ہر رسول نے اپنی اپنی قوم سے کہی۔ انی لکم رسول امین (٢٦ : ١٠٨) ” میں تمہارے لئے ایک امانت دار رسول ہوں۔ “ جو نہ خیانت کرتا ہے نہ دھوکہ دیتا ہے اور نہ کوئی چیز چھپاتا ہے۔ نہ کوئی کمی کرتا ہے اور نہ بیشی اور مبالغہ کرت ا ہے۔ بس جو کچھ اللہ نے حکم دیا وہ پہنچاتا ہے۔ فاتقوا اللہ و اطیعون (٢٦ : ١٠٨) ” لہٰذا تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ “ یوں حضرت نوح (علیہ السلام) ان کو خد خوفی کی دعوت دیتے ہیں اور یہاں وہ ڈرنے کی نسبت اللہ کی طرف کرتے ہیں اور اس طرح ان کو اطاعت اور تسلیم پر آمادہ کرتے ہیں۔ پھر حضرت نوح دنیا کے مقاصد کی طرف سے ان کو اطمینان دلاتے ہیں۔ یہ کہ دعوت الی اللہ کیت حریک کے ساتھ ان کے کوء یمقاصد وابستہ نہیں ہیں۔ وہ ان سے کوئی اجر طلب نہیں کرتے کہ تم اللہ کی طرف رجوع کرو گے تو مجھے یہ انعام بھی دو گے۔ میرا اجر تو صرف اللہ پر ہے جس نے مجھے یہ دعوت دینے پر مامور کیا ہے۔ لوگوں سے یہ کہنا کہ میں تم سے کوئی دنیاوی اجر طلب نہیں کرتا ، یہ بات ہر نبی نے کی ہے اور معلوم یہ ہوتا ہے کہ ہر دور میں تحریک اسلامی کی دعوت دینے والوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ تحریک کے ساتھ اپنے اغراض و مقاصد وابستہ نہ کریں کیونکہ ایک سچے داعی اور جھوٹے داعی میں فرق ہی یہ ہوتا ہے کہ ایک جھوٹا داعی مفادات کے لئے دعوت سے وابستہ ہوتا ہے۔ تمام انبیاء کے زمانے میں کاہن اور دوسرے مذہب راہنما لوگوں کے اموال باطل طریقے سے کھاتے تھے۔ ان کا کام ہی یہ ہوتا تھا کہ مختلف طریقوں اور حیلوں سے لوگوں کے مال بٹورنے کی کوشش کریں۔ اس کے مقابلے میں داعیان حق ہمیشہ مخلص ہوتے تھے۔ وہ اس ہدایت پر کوئی فیس طلب نہ کرتے تھے۔ وہ یہ کہتے تھے کہ ہمارا اجر اللہ رب العالمین پر ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

حضرت نوح (علیہ السلام) کا اپنی قوم کو توحید کی دعوت دینا اور ان لوگوں کا گمراہی پر جمے رہنا اور آخر میں غرق ہو کر ہلاک ہونا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم سے جو گفتگو ہوئی گزشتہ رکوع میں اس کا ذکر تھا اب یہاں سے دیگر انبیاء کرام (علیہ السلام) کے واقعات اور قوموں کے ساتھ ان کے مکالمات اور مخاطبات اور قوموں کی تکذیب پھر ان کی ہلاکت اور تعذیب کے قصے بیان کیے جا رہے ہیں اولاً حضرت نوح (علیہ السلام) کا واقعہ اور اس کے بعد حضرت ھود حضرت صالح اور حضرت لوط اور حضرت شعیب ( علیہ السلام) کے واقعات ذکر فرمائے ہیں۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو توحید کی دعوت دی شرک سے روکا اور انہیں طرح طرح سے سمجھایا اور ان لوگوں سے کہا کہ تم کفرو شرک کیوں نہیں چھوڑتے اللہ کو ایک ماننے کے لیے تو عقل ہی کافی ہے پھر بھی اللہ تعالیٰ نے مجھے تمہاری طرف رسول بنا کر بھیجا ہے میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں اور امانت دار ہوں جو کچھ کہتا ہوں اسی کے حکم سے کہتا ہوں۔ لہٰذا تم اللہ سے ڈرو میری فرمانبر داری کرو کیونکہ میری فرمانبرداری کرنا خالق اور مالک ہی کی فرمانبر داری کرنا ہے اور تم یہ بھی سمجھ لو کہ میں جو تمہیں توحید کی دعوت دے رہا ہوں اور تمہیں راہ حق پر لانے کی محنت کر رہا ہوں اس میں میرا کوئی دنیاوی فائدہ نہیں ہے تم سے اپنی اس محنت پر کوئی اجرت یا عوض یا صلہ طلب نہیں کرتا میں تو اپنا اجر وثواب رب العالمین جل مجدہ سے لے لوں گا تمہیں یہ سوچنا چاہئے کہ جب یہ شخص ہم سے کسی چیز کا طالب نہیں تو اتنی محنت کیوں کرتا ہے تم غور کرو اور سمجھو اور اللہ سے ڈرو اور میری فرمانبر داری کرو۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم نے ہدایت قبول نہ کی اینڈے بینڈے جواب دیتے رہے حضرت نوح (علیہ السلام) ساڑھے نو سو سال ان لوگوں کے درمیان رہے لیکن تھوڑے سے ہی آدمی مسلمان ہوئے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم نے جو کٹ حجتی کی اور ایمان نہ لانے کا بہانہ بنایا اس میں ایک یہ بات بھی تھی کہ تمہارے ساتھ رذیل لوگ لگے ہوئے ہیں اگر ہم تم پر ایمان لے آئیں تو ہمیں ان چھوٹے لوگوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا پڑے گا (اس میں گویا اس طرف اشارہ تھا کہ اگر یہ لوگ ہٹ جائیں تو ہم ایمان لے آئیں اور آپ سے دین سیکھنے لگیں) یہ ایسا ہی ہے جیسے عرب کے لوگوں نے حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا تھا کہ ہمیں اس بات سے شرم آتی ہے کہ عرب کے لوگ ہمیں ان لوگوں کے پاس بیٹھا ہوا دیکھیں (یعنی بلال صھیب عمار خباب وغیرھم (رض) جب ہم آپ کے پاس آیا کریں تو آپ ان کو اٹھا دیا کریں، قال القرطبی و کانھم طلبوا منہ طرد الضعفاء کما طلبتہ قریش۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے فرمایا کہ مجھے دین و ایمان سے مطلب ہے مجھے اس سے کوئی بحث نہیں کہ اپنی دنیاوی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے کوئی شخص عمدہ پیشہ اختیار کرلے یا ایسا کوئی کام اختیار کرلے جسے دنیا والے گھٹیا سمجھتے ہیں مثلاً سڑکوں پر جھاڑو دینا یا جوتے گانٹھنا وغیرہ اصل چیز ایمان اور اعمال صالحہ ہیں اللہ تعالیٰ کے نزدیک انہیں دو چیزوں کے ذریعہ بلند مرتبہ ملتا ہے اور پھر سب کو اللہ تعالیٰ کی بار گاہ میں حاضر ہونا ہے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ان سے محاسبہ فرمائے گا۔ (یہ بات فرما کر ان لوگوں کو متوجہ فرمایا کہ دیکھو تمہارا بھی حساب ہوگا) کاش تم سمجھدار ہوتے تو ایسی بےتکی باتیں نہ کرتے حق کو قبول نہ کرنے کے لیے ایسے بہانے کرنا کہ تمہارے پاس جو لوگ بیٹھے ہیں وہ دنیاوی اعتبار سے گھٹیا ہیں ناسمجھی کی بات ہے یہ جو تمہاری خواہش ہے کہ میں انہیں ہٹا دوں تو میں ایسا نہیں کرسکتا جن لوگوں نے حق کو قبول کرلیا توحید کو مان لیا مومن بندے بن گئے بھلا میں ان کو کیسے ہٹا سکتا ہوں اور میں کوئی تم پر زبردستی تو کر نہیں سکتا میں تو واضح طور پر ڈرانے والا ہوں میں نے سمجھانے میں اور صاف صاف کہنے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی۔ بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم کا یہ مطلب تھا کہ یہ لوگ جو تمہارے ساتھ لگ گئے ہیں یوں ہی ظاہر میں تمہارا دین قبول کرلیا ہے دل سے مومن نہیں ہیں جواب میں حضرت نوح (علیہ السلام) نے فرمایا (وَمَا عِلْمِیْ بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ) کہ مجھے کسی کے باطن سے بحث نہیں میں تو ظاہر کے دیکھنے کا مکلف ہوں۔ کسی نے ایمان قبول کرلیا میرا ساتھی ہوگیا بس وہ میرے نزدیک مومن ہے رہا باطن کا معاملہ سو وہ اللہ تعالیٰ کے سپرد ہے وہ ان کا حساب لے گا کاش تم قانون شرعی کو جانتے ہوتے تو ایسی باتیں نہ کرتے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم کے آدمی کہنے لگے کہ اپنی یہ باتیں بند کرو اگر تم باز نہ آئے تو سمجھ لو کہ تمہاری خیر نہیں ہم پتھر مار مار کر تمہیں جان سے مار دیں گے۔ سورة ھود اور سورة نوح میں ان لوگوں کی اور باتیں بھی ذکر فرمائی ہیں جن میں سے یہ بھی ہے کہ انہوں نے عذاب کا مطالبہ کیا (جس کا ذکر سورة ھود میں ہے) ساڑھے نو سو سال تک کسی قوم کو دعوت دینا یہ کوئی معمولی مدت نہیں ہے ان لوگوں نے بھی عذاب مانگا اور حضرت نوح (علیہ السلام) بھی بہت زیادہ دل برداشتہ ہوگئے لہٰذا انہوں نے بار گاہ خداوندی میں دعا کی کہ اے اللہ پاک میرے اور میرے قوم کے درمیان فیصلہ فرما دے یعنی ان کو ہلاک کردیجیے اور مجھے اور میرے ساتھیوں کو جو ایمان والے ہیں نجات دے دیجیے۔ اللہ تعالیٰ شانہٗ نے حضرت نوح (علیہ السلام) کو کشتی بنانے کا حکم فرمایا چناچہ انہوں نے کشتی بنائی اپنے اہل و عیال مومنین اور دیگر اہل ایمان کو ساتھ لے کر (بِسْمِ اللّٰہِ مَجْرِیْھَا وَ مُرْسَاھَا) پڑھ کر اس میں سوار ہوگئے۔ آسمان سے پانی برسا زمین سے بھی پانی ابلا زبردست سیلاب آیا اس میں پوری قوم غرق ہوگئی اور حضرت نوح (علیہ السلام) اپنے ساتھیوں سمیت جو کشتی میں سوار تھے نجات پا گئے تفصیل کے ساتھ سورة اعراف اور سورة ھود میں واقعہ گزر چکا ہے اور سورة نوح کا بھی مطالعہ کرلیا جائے۔ فائدہ : حضرت نوح (علیہ السلام) اور ان کی قوم کا مکالمہ شروع فرماتے ہوئے (کَذَّبَتْ قَوْمَ نُوْحِنِ الْمُرْسَلِیْنَ ) فرمایا ہے اس میں یہ اشکال پیدا ہوتا ہے کہ ان کی طرف ایک ہی نبی مبعوث ہوئے تھے پھر تمام مرسلین کرام (علیہ السلام) کا جھٹلانا کیسے لازم آیا اس کے جواب میں حضرات مفسرین نے فرمایا کہ چونکہ تمام انبیائے کرام (علیہ السلام) کی دعوت ایک ہی تھی اس لیے جب کسی ایک نبی کو جھٹلایا تو اس سے سب کی تکذیب لازم آگئی خصوصاً جبکہ ہر نبی نے تمام نبیوں کی تصدیق کا حکم بھی فرمایا۔ اور یہ بھی بتایا ہو کہ اللہ کے تمام نبیوں پر ایمان لاؤ۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

43:۔ یہ تیسری نقلی دلیل ہے مع تخویف دنیوی۔ اس آیت میں قوم نوح کی طرف بہت سے رسولوں کی تکذیب منسوب کی گئی ہے حالانکہ انہوں نے صرف ایک رسول حضرت نوح (علیہ السلام) کی تکذیب کی تھی۔ اسی طرح آگے چل کر عاد وثمود، قوم لوط اور اصحاب الایکہ کے بارے میں یہی کہا گیا ہے کہ انہوں نے بہت سے رسولوں کی تکذیب کی حالانکہ انہوں نے ایک پیغمبر ہی کو جھٹلایا جو ان کے پاس بھیجا گیا اس کی وجہ یہ ہے کہ تمام انبیاء و رسل (علیہم السلام) توحید اور دیگر اصول دین میں متفق تھے اور سب کی دعوت ایک تھی اس لیے ان میں سے ایک کو جھٹلانا اور اس کی دعوت کو نہ ماننا ایسا ہی ہے جیسا سب کو جھٹلا دیا و تکذیبھم المرسلین باعتبار اجماع الکل علی التوحید و اصول الشرائع التی لا تختلف باختلاف الازمنۃ والاعصار (روح ج 15 ص 109) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(105) نوح (علیہ السلام) کی قوم نے پیغمبروں کو جھٹلایا اور ان کو جھوٹا بنایا یعنی حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم کا بھی یہی رویہ تھا کہ پیغمبروں کی تکذیب کیا کرتیت ہے یا تو حضرت نوح (علیہ السلام) کی تشریف آوری سے پہلے سے یہی عادت تھی کہ جو نبی آیا اس کو جھوٹا بتایا یا حضرت نوح (علیہ السلام) کی فقط تکذیب کو انبیاء کی تکذیب فرمایا کیونکہ ایک پیغمبر کی تکذیب سے کل پیغمبروں کی تکذیب لازم آتی ہے۔