Surat us Shooaraa

Surah: 26

Verse: 107

سورة الشعراء

اِنِّیۡ لَکُمۡ رَسُوۡلٌ اَمِیۡنٌ ﴿۱۰۷﴾ۙ

Indeed, I am to you a trustworthy messenger.

سنو! میں تمہاری طرف اللہ کا اما نت دار رسول ہوں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

I am a trustworthy Messenger to you. means, `I am the Messenger of Allah to you, faithfully fulfilling the mission with which Allah has sent me. I convey the Messages of my Lord to you, and I do not add anything to them or take anything away from them.' فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَطِيعُونِ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

1071یعنی اللہ نے جو پیغام دے کر مجھے بھیجا ہے، وہ بلا کم وکاست تم تک پہنچانے والا ہوں، اس میں کمی بیشی نہیں کرتا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧٢] اس آیت کے دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ کے ہاں سے جو وحی مجھ پر نازل ہوتی ہے بلاکم وکاست تمہیں پہنچا رہا ہوں۔ اس میں نہ کچھ اضافہ کرتا ہوں نہ اس میں کمی کرتا ہوں جوں کی توں تم لوگوں کو پہنچا دیتا ہوں۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ یہ تو تم خود جانتے ہو کہ میں ایک راست باز اور امین انسان ہوں۔ کبھی کسی سے مکروفریب یا ہیرا پھیری کی بات نہیں کہی۔ تو کیا اب میں اللہ کے ذمہ جھوٹی باتیں منسوب کروں گا ؟

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِنِّىْ لَكُمْ رَسُوْلٌ اَمِيْنٌ ۔۔ : نوح (علیہ السلام) نے دعوئ رسالت کے ثبوت کے طور پر دو چیزیں پیش فرمائیں، پہلی یہ کہ میں امانت دار ہوں، میری ساری عمر تمہارے سامنے گزری، تم میری امانت اور میرے صدق سے خوب واقف ہو، پھر تمہیں میری رسالت تسلیم کرنے میں رکاوٹ کیا ہے ؟ ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی اللہ تعالیٰ نے یہ بات واشگاف الفاظ میں کہہ دینے کا حکم دیا، فرمایا : (فَقَدْ لَبِثْتُ فِيْكُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِهٖ ۭ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ ) [ یونس : ١٦ ] ” پس بیشک میں تم میں اس سے پہلے ایک عمر رہ چکا ہوں، تو کیا تم نہیں سمجھتے ؟ “ حدیث ہرقل میں ابوسفیان نے جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا صادق و امین ہونا تسلیم کیا تو ہرقل نے کہا : ” یہ نہیں ہوسکتا کہ وہ لوگوں پر جھوٹ سے تو اجتناب کرے اور اللہ پر جھوٹ باندھ دے کہ اس نے مجھے رسول بنا کر بھیجا ہے۔ “ (دیکھیے بخاری : ٧) غرض نوح (علیہ السلام) نے قوم کو اپنے امین ہونے کا حوالہ دے کر اپنی رسالت کی اطلاع دی اور فرمایا (چونکہ میں رسول امین ہوں) اس لیے تم اللہ سے ڈرو کہ مجھے جھٹلا کر کہیں تم اس کے غضب کا نشانہ نہ بن جاؤ اور میرا کہا مانو۔ معلوم ہوا کہ رسول کا ہر حکم ماننا امت کے لیے ضروری ہے۔ یہ نہیں کہ وہ کتاب اللہ کی چند آیات پہنچا دے اور بس، اس کے علاوہ اس کی بات ماننا لازم نہ ہو۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنِّىْ لَكُمْ رَسُوْلٌ اَمِيْنٌ۝ ١٠٧ۙ رسل وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ، ( ر س ل ) الرسل اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ أمانت أصل الأَمْن : طمأنينة النفس وزوال الخوف، والأَمْنُ والأَمَانَةُ والأَمَانُ في الأصل مصادر، ويجعل الأمان تارة اسما للحالة التي يكون عليها الإنسان في الأمن، وتارة اسما لما يؤمن عليه الإنسان، نحو قوله تعالی: وَتَخُونُوا أَماناتِكُمْ [ الأنفال/ 27] ، أي : ما ائتمنتم عليه، ( ا م ن ) امانت ۔ اصل میں امن کا معنی نفس کے مطمئن ہونا کے ہیں ۔ امن ، امانۃ اور امان یہ سب اصل میں مصدر ہیں اور امان کے معنی کبھی حالت امن کے آتے ہیں اور کبھی اس چیز کو کہا جاتا ہے جو کسی کے پاس بطور امانت رکھی جائے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ { وَتَخُونُوا أَمَانَاتِكُمْ } ( سورة الأَنْفال 27) یعنی وہ چیزیں جن پر تم امین مقرر کئے گئے ہو ان میں خیانت نہ کرو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٠٧ ( اِنِّیْ لَکُمْ رَسُوْلٌ اَمِیْنٌ ) ” مجھے اللہ کی طرف سے تمہاری طرف جو پیغام دے کر بھیجا گیا ہے وہ میں بلاکم وکاست تم لوگوں تک پہنچارہا ہوں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

77 It has two meanings: (1) "1 present before you nothing but what Allah reveals to me;" and (2) "I am a Messenger whom you have already known to be a trustworthy and honest and righteous man. When I have been honest and true in my dealings with you, how can 1 be dishonest and untrustworthy in conveying the Message of God'? Therefore, you should rest assured that whatever I am presenting is the Truth. "

سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :77 اس کے دو مفہوم ہیں ۔ ایک یہ کہ میں اپنی طرف سے کوئی بات بنا کر یا کم و بیش کر کے بیان نہیں کرتا بلکہ جو کچھ خدا کی طرف سے مجھ پر نازل ہوتا ہے وہی بےکم و کاست تم تک پہنچا دیتا ہوں ۔ اور دوسرا مفہوم یہ ہے کہ میں ایک ایسا رسول ہوں جسے تم پہلے سے ایک امین اور راستباز آدمی کی حیثیت سے جانتے ہو ۔ جب میں خلق کے معاملے میں خیانت کرنے والا نہیں ہوں تو خدا کے معاملے میں کیسے خیانت کر سکتا ہوں ۔ لہٰذا تمہیں باور کرنا چاہیے کہ جو کچھ میں خدا کی طرف سے پیش کر رہا ہوں اس میں بھی ویسا ہی امین ہوں جیسا دنیا کے معاملات میں آج تک تم نے مجھے امین پایا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(26:107) امین : امانۃ اور امن سے اسم فاعل کا صیغہ بھی ہوسکتا ہے اور اسم مفعول کا بھی۔ کیونکہ فعیل کا وزن دونوں میں مشترک ہے۔ امانت دار۔ معتبر۔ امن والا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

1 ۔ امانت دار یعنی اللہ تعالیٰ کے پیغام میں کسی قسم کی کمی بیشی نہ کرنے والا۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم کا رد عمل بیان کرنے کے بعد حضرت نوح (علیہ السلام) کی دعوت اور ان کی قوم کا ردّ عمل بیان کیا جاتا ہے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم نے رسولوں کو جھٹلایا جب ان کے بھائی حضرت نوح (علیہ السلام) نے انھیں سمجھایا کہ اپنے عقیدہ اور عمل کے بارے میں اللہ سے ڈرو۔ یقین جانو کے میں تمہارے لیے امانت دار رسول ہوں بس تمہیں اللہ سے ڈر کر میری اطاعت کرنا چاہیے۔ میں منصب نبوت کے حوالے سے تم سے کسی معاوضہ کا طلب گار نہیں۔ میرا اجر میرے رب نے اپنے ذمہ لے رکھا ہے۔ قوم نوح، قوم عاد، قوم ثمود، قوم لوط اور قوم شعیب کے بارے میں یہ الفاظ استعمال ہوئے ہیں کہ انھوں نے مرسلین کی تکذیب کی حالانکہ ان قوموں کا واسطہ اپنے اپنے رسول سے پڑا تھا اور انھوں نے اپنے اپنے رسول کی ہی تکذیب کی تھی۔ اس کے باوجود حضرت نوح (علیہ السلام) سے لے کر حضرت شعیب (علیہ السلام) کی قوم کے بارے میں فرمایا ہے کہ انھوں نے رسولوں کی تکذیب کی۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ دین کی تعلیم یہ ہے کہ وقت کے رسول پر ایمان لانے کے ساتھ پہلے رسولوں پر بھی ایمان لایا جائے کہ وہ واقعی اپنے اپنے دور میں ” اللہ “ کے مبعوث کیے ہوئے رسول تھے۔ جو شخص اس اصول کی پاسداری نہیں کرتا گویا کہ وہ تمام انبیاء (علیہ السلام) کی تکذیب کرتا ہے۔ دوسری وجہ یہ سمجھ آتی ہے کہ تمام انبیاء کرام (علیہ السلام) کی دعوت کا مرکزی نقطہ ” اللہ “ کی توحید تھا۔ ان قوموں نے اپنے اپنے دور میں نہ صرف توحید خالص کا انکار کیا بلکہ اپنے اپنے نبی کی مخالفت میں ایڑی چوٹی کا زور لگایا اس طرح فکر و عمل کے اعتبار سے یہ قومیں ایک جیسارویہ رکھتی تھیں۔ جس بنا پر ان اقوام کے بارے میں یہ الفاظ استعمال کیے ہیں کہ انہوں نے رسولوں کی تکذیب کی۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو اوّل آخر سمجھایا کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور اپنے باطل عقیدہ اور برے کردار سے تائب ہو کر میری اتباع کرو۔ رسول کی آمد کا مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ لوگ اس کی اطاعت کریں چناچہ حضرت نوح (علیہ السلام) بار بار قوم کو اپنی اطاعت کے بارے میں ارشاد فرماتے رہے۔ انھوں نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ میں نبوت کے کام پر تم سے کسی معاوضے کا طلب گار نہیں ہوں۔ جس کا دوسرا معنٰی یہ ہے کہ سوچو اور غور کرو۔ جس کی خاطر اس قدر مصائب اور دکھ اٹھا رہا ہوں اس کے پیچھے میری کوئی غرض مضمر نہیں۔ وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میرے ذمّے نبوت کی ذمہ داری لگائی ہے تاکہ اسے امانت و دیانت کے ساتھ سر انجام دیتا رہوں۔ یہی میرے منصب کا تقاضا ہے جسے شب و روز پورا کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنے لیے رسول امین کا لفظ بول کر یہ بھی واضح کیا کہ نبوت کا دعویٰ کرنے اور اس کا پیغام پہنچانے میں پوری ذمہ دار اور امانت دار ہوں اور تم بھی مجھے کردار اور امانت کے حوالے سے امین تسلیم کرتے ہو۔ یہی انبیاء کرام (علیہ السلام) کا کردار ہے کہ وہ نبوت سے پہلے بھی اپنی قوم میں صادق اور امین سمجھے جاتے تھے سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صفا پہاڑی پر اپنی دعوت پیش کرنے سے پہلے لوگوں سے استفسار فرمایا کہ اگر میں کہوں اس کے پہاڑ کے عقب سے کوئی لشکر تم پر حملہ آور ہونے والا ہے تو کیا تم یقین کرو گے ؟ لوگوں نے بیک زبان کہا تھا۔” مَا جَرَ بَّنَا عَلَیْکَاِلَّا صِدْقًا “ ہم نے ہمیشہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سچاپایا۔ (سیرت ابن ہشام ) تقویٰ کا مفہوم : (وَقَدْ قِیْلَ اَنَّ عُمَرَبْنِ الْخَطَّاب (رض) سَأَلَ اُبَیِّ بَنْ کَعْبٍ عَنِ التَّقْوَیْ ، فَقَالَ لَہٗ أَمَا سَلَکْتُ طَرِیْقًا ذَاشَوْکٍ ؟ قَالَ بَلٰی قَالَ فَمَا عَمِلْتَ ؟ قَالَ شَمَرْتُ وَاجْتَہَدَتْ ، قَالَ فَذٰلِکَ التَّقْوَیٰ ) [ تفسیر ابن کثیر : جلد ١] ” روایت ہے کہ عمر (رض) بن خطاب نے حضرت ابی (رض) بن کعب سے تقویٰ کے متعلق سوال کیا تو کعب (رض) نے کہا کہ کیا آپ کبھی خار دار راستے پر نہیں گزرے حضرت عمر (رض) نے جواب دیا کہ کیوں نہیں حضرت ابی کہنے لگے تو اس وقت آپ کیا کرتے ہیں حضرت عمر کہنے لگے میں کپڑے سمیٹ کر اور کانٹوں سے بچتے ہوئے اس راستہ سے گزرتا ہوں۔ حضرت ابی نے کہا یہی تقویٰ ہے۔ “ (عَنْ أَبِيْ سَعِیْدِ نِ الْخُدْرِيِّ أَنَّ رَجُلًا جَاءَ ہُ فَقَالَ أَوْصِنِيْ فَقَالَ سَأَلْتَ عَمَّا سَأَلْتُ عَنْہُ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مِنْ قَبْلِکَ أُوْصِیْکَ بِتَقْوَی اللّٰہِ فَإِنَّہٗ رَأْسُ کُلِّ شَيْءٍ ۔۔ ) [ مسند احمد : کتاب باقي مسند المکثرین، باب مسند أبی سعید الخدری ] ” حضرت ابوسعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ ان کے پاس ایک آدمی نے آکر کہا : مجھے نصیحت کیجئے ابو سعید خدری (رض) نے کہا : تو نے مجھ سے اس چیز کا سوال کیا ہے جس کے متعلق میں نے تجھ سے پہلے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا تھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے فرمایا کہ میں تجھے اللہ سے ڈرنے کی نصیحت کرتا ہوں کیونکہ تقویٰ ہر خیر کا سرچشمہ ہے۔ “ مسائل ١۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو اللہ سے ڈرنے کی تلقین فرمائی۔ ٢۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم نے ان کی تکذیب کی۔ ٣۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کو ان کی قوم امین سمجھتی تھی۔ ٤۔ حضرت نوح (علیہ السلام) اور تمام انبیاء کرام (علیہ السلام) بلامعاوضہ دین اور قوم کی خدمت کیا کرتے تھے۔ تفسیر بالقرآن تقویٰ اور اس کے تقاضے : ١۔ مصیبتوں میں صبر اختیار کرنا اور سچ بولنا تقویٰ ہے۔ (البقرۃ : ١٧٧) ٢۔ حلال روزی کھانا، اللہ پر ایمان لانا اور اس سے ڈرنا تقوٰی ہے۔ (المائدۃ : ٨٨) ٣۔ اپنے اہل و عیال کو نماز کا حکم دینا اور اس پر قائم رہنا تقوٰی ہے۔ (طٰہٰ : ١٣٢) ٤۔ شعائر اللہ کا احترام کرنا تقویٰ ہے۔ (الحج : ٣٢) ٥۔ حج کے سفر میں زاد راہ لینا تقوٰی ہے۔ (البقرۃ : ١٩٧) ٦۔ متقین کے لیے کامیابی ہے۔ (النساء : ٣١ تا ٣٣) ٧۔ متقی کی خطائیں معاف اور ان کے لیے بڑا اجر ہوگا۔ (الطلاق : ٤ تا ٥) ٨۔ متقین کے لیے ان کے رب کے پاس نعمتوں والی جنت ہے۔ (القلم : ٣٤) ٩۔ متقین اولیاء اللہ ہیں جو قیامت کے دن بےخوف ہوں گے۔ ( یونس : ٦١ تا ٦٤)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(107) میں تم سب کے لئے ایک امین اور امانت دار پیغمبرہوں۔