Surat us Shooaraa

Surah: 26

Verse: 111

سورة الشعراء

قَالُوۡۤا اَنُؤۡمِنُ لَکَ وَ اتَّبَعَکَ الۡاَرۡذَلُوۡنَ ﴿۱۱۱﴾ؕ

They said, "Should we believe you while you are followed by the lowest [class of people]?"

قوم نے جواب دیا کہ کیا ہم تجھ پر ایمان لائیں! تیری تابعداری تو رذیل لوگوں نے کی ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Demand of the People of Nuh and His Response They said: "We do not believe in you, and we will not follow you and become equal to the meanest of the people, who follow you and believe in you, and they are the lowest among us." قَالُوا أَنُوْمِنُ لَكَ وَاتَّبَعَكَ الاْاَرْذَلُونَ قَالَ وَمَا عِلْمِي بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ

ہدایت طبقاتی عصبیت سے پاک ہے قوم نوح نے اللہ کے رسول کو جواب دیا کہ چند سفلے اور چھوٹے لوگوں نے تیری بات مانی ہے ۔ ہم سے یہ نہیں ہوسکتا کہ ان رذیلوں کا ساتھ دیں اور تیری مان لیں ۔ اس کے جواب میں اللہ کے رسول نے جواب دیا یہ میرا فرض نہیں کہ کوئی حق قبول کرنے کو آئے تو میں اس سے اس کی قوم اور پیشہ دریافت کرتا پھروں ۔ اندرونی حالات پر اطلاع رکھنا ، حساب لینا اللہ کا کام ہے ۔ افسوس تمہیں اتنی سمجھ بھی نہیں ۔ تمہاری اس چاہت کو پورا کرنا میرے اختیار سے باہر ہے کہ میں ان مسکینوں سے اپنی محفل خالی کرالوں ۔ میں تو اللہ کی طرف سے ایک آگاہ کردینے والا ہوں ۔ جو بھی مانے وہ میرا اور جو نہ مانے وہ خود ذمہ دار ۔ شریف ہو یا رذیل ہو امیر ہو یا غریب ہو جو میری مانے میرا ہے اور میں اس کا ہوں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

1111الارذلون، ارذل کی جمع ہے، جاہ و مال رکھنے والے، اور اس کی وجہ سے معاشرے میں کمتر سمجھے جانے والے اور ان ہی میں وہ لوگ بھی آجاتے ہیں جو حقیر سمجھے جانے والے پیشوں سے تعلق رکھتے ہیں

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧٥] اس سے دو باتیں معلوم ہوئیں۔ ایک یہ کہ ہر نبی کی دعوت کی مخالفت کرنے والے ہمیشہ وہی لوگ ہوتے ہیں جن کا معاشرہ میں کچھ اثر و رسوخ ہوتا ہے۔ جنہیں عموماً چودھری، اشراف یا شیوخ کہا جاتا ہے اور قرآن ان کا ذکر ملا اور مترفین کے الفاظ سے کرتا ہے۔ اور یہ لوگ انبیاء کی مخالفت محض اس لئے کرتے ہیں کہ انھیں نبی پر ایمان لانے کی صورت میں مطاع کے بجائے مطیع بننا پڑتا ہے۔ لہذا ابتداء میں نبیوں پر ایمان وہی لوگ لاتے ہیں جن کا معاشرہ میں کچھ اثر و رسوخ نہیں ہوتا اور جنہیں یہ اشراف عموماً حقیر اور کمینہ مخلوق تصور کرتے ہیں۔ دوسری یہ بات کہ یہ اشراف اس بات میں اپنی ہتک اور توہین سمجھتے ہیں کہ ہم ایمان لا کر خود بھی اس حقیر اور کمینہ قسم کے لوگوں میں شامل ہو کر ان میں برابر کی سطح پر آجائیں۔ یعنی دوسری یہ چیز بھی ان کے ایمان لانے میں رکاوٹ کا سبب بن جاتی ہے اور اس طرح ان کی انا مجروح ہوتی ہے۔ چونکہ قریش مکہ بھی یہی کچھ کیا کرتے تھے لہذا اس سوال و جواب میں بھی گویا انہی کا ذکر ہے۔ بلکہ ان کا تو رسول اللہ ~ سے یہ مطالبہ بھی ہوتا تھا کہ اس قسم کے لوگوں کو اگر آپ اپنی مجلس سے کسی وقت اٹھا دیں تو ہم آپ کی باتیں سننے کو تیار ہیں۔ ) تفصیل کے لئے سورة انعام کی آیت نمبر ٥٢ کا حاشیہ ملاحظہ فرمائیے (

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قَالُـوْٓا اَنُؤْمِنُ لَكَ ۔۔ : ” الْاَرْذَلُوْنَ “ ” أَرْذَلُ “ (اسم تفضیل) کی جمع سالم ہے، سب سے کمتر، نیچ، ذلیل، جن کے پاس جاہ و مال نہ ہو، غریب، محتاج۔ ان میں وہ لوگ بھی آجاتے ہیں جو حقیر سمجھے جانے والے پیشوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ بات کہنے والے نوح (علیہ السلام) کی قوم کے سردار تھے۔ دیکھیے سورة ہود (٢٧) اس سے معلوم ہوا کہ نوح (علیہ السلام) پر ایمان لانے والے زیادہ تر غریب لوگ، چھوٹے چھوٹے پیشہ ور یا ایسے نوجوان تھے جن کی قوم میں کوئی حیثیت نہ تھی۔ ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے والے بھی ایسے ہی لوگ تھے۔ حدیث ہرقل میں ہے کہ اس نے ابوسفیان سے سوال کیا : ( فَأَشْرَاف النَّاسِ یَتَّبِعُوْنَہُ أَمْ ضُعَفَاءُھُمْ ؟ ) ” اونچے لوگ اس کی پیروی اختیار کر رہے ہیں یا کمزور لوگ ؟ “ ابوسفیان نے جواب دیا : ” کمزور لوگ۔ “ تو ہرقل نے کہا : ” رسولوں کی پیروی کرنے والے یہی لوگ ہوتے ہیں۔ “ [ بخاري، بدء الوحي، باب کیف کان بدء الوحي۔۔ : ٧ ] کیونکہ مال و جاہ والے لوگوں کو ایمان قبول کرنے میں ان کا مال و جاہ، اپنی عزت اور رتبے کا احساس اور دنیوی مفاد رکاوٹ بن جاتے ہیں، کیونکہ ایمان لانے کی صورت میں انھیں حکم منوانے کے بجائے حکم ماننا پڑتا ہے، جب کہ کمزور لوگ ان رکاوٹوں سے آزاد ہوتے ہیں۔ اس مکالمے میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے بھی تسلی ہے، کیونکہ آپ کی قوم کے لوگ بھی اللہ کے فضل کا مستحق مال داروں ہی کو سمجھتے تھے۔ ان کی نظر میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بجائے مکہ یا طائف کے کسی مال دار سردار کو نبوت ملنی چاہیے تھی، سورة زخرف میں ہے : (وَقَالُوْا لَوْلَا نُزِّلَ ھٰذَا الْقُرْاٰنُ عَلٰي رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْيَـتَيْنِ عَظِيْمٍ ) [ الزخرف : ٣١ ] ” اور انھوں نے کہا یہ قرآن ان دوبستیوں میں سے کسی بڑے آدمی پر کیوں نازل نہ کیا گیا ؟ “ واضح رہے کہ مومن کو رذیل یا ذلیل سمجھنا یا کہنا جائز نہیں، بلکہ ہر مومن کے متعلق یہی خیال رکھنا چاہیے کہ ہوسکتا ہے یہ مجھ سے بہتر ہو، جیسا کہ فرمایا : ( يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسٰٓى اَنْ يَّكُوْنُوْا خَيْرًا مِّنْهُمْ ) [ الحجرات : ١١ ] ” اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! کوئی قوم کسی قوم سے مذاق نہ کرے، ہوسکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Nobility of a person depends on deeds and moral qualities and not on family or status قَالُوا أَنُؤْمِنُ لَكَ وَاتَّبَعَكَ الْأَرْ‌ذَلُونَ ﴿١١١﴾ قَالَ وَمَا عِلْمِي بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴿١١٢﴾ They said, |"Shall we believe in you while you are followed by the lowest people?|" [ 111] He said, |"I do not know about what they do. (26:111-112) It is related in this verse that the disbelievers rejected the invitation of Sayyidna Nuh (علیہ السلام) to accept the faith on the plea that his followers were worthless poor people. So, how could they, the elite and noble, mix up with them? On this Nuh (علیہ السلام) replied that he did not know about their acts, thereby hinting that their understanding of nobility on the basis of family background, wealth, or status was wrong, and that the nobility or meanness and honour or disgrace is dependent on one&s deeds and morals. Hence, it was their ignorance to put the label of sordidness on his followers, because they did not know about their deeds and disposition. Unless one knows fully well about the morals and deeds of others, it is not right to pass any judgment about them. (Qurtubi).

شرافت و رذالت اعمال و اخلاق سے ہے نہ کہ خاندان اور جاہ و چشم سے : قَالُـوْٓا اَنُؤ ْمِنُ لَكَ وَاتَّبَعَكَ الْاَرْذَلُوْنَ ، قَالَ وَمَا عِلْمِىْ بِمَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ ، اس آیت میں اول مشرکین کا یہ قول نقل کیا ہے کہ انہوں نے حضرت نوح (علیہ السلام) پر ایمان لانے سے انکار کی وجہ یہ بیان کی کہ آپ کے ماننے والے سارے رذیل لوگ ہیں ہم عزت دار شریف ان میں کیسے مل جائیں ؟ نوح (علیہ السلام) نے جواب میں فرمایا کہ مجھے ان کے اعمال کا حال معلوم نہیں۔ اس میں اشارہ فرما دیا کہ تم لوگ جو خاندانی شرافت یا مال و دولت اور عزت و جاہ کو شرافت کی بنیاد سمجھتے ہو یہ غلط ہے بلکہ مدار عزت و ذلت یا شرافت و رذالت کا دراصل اعمال و اخلاق پر ہے۔ تم نے جن پر یہ حکم لگا دیا کہ یہ سب رذیل ہیں، یہ تمہاری جہالت ہے چونکہ ہم ہر شخص کے اعمال و اخلاق کی حقیقت سے واقف نہیں، اس لئے ہم کوئی فیصلہ نہیں کرسکتے کہ حقیقۃً کون رذیل ہے کون شریف۔ (قرطبی)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالُـوْٓا اَنُؤْمِنُ لَكَ وَاتَّبَعَكَ الْاَرْذَلُوْنَ۝ ١١ ١ۭ قول القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ، ( ق و ل ) القول القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ تبع يقال : تَبِعَهُ واتَّبَعَهُ : قفا أثره، وذلک تارة بالجسم، وتارة بالارتسام والائتمار، وعلی ذلك قوله تعالی: فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] ، ( ت ب ع) تبعہ واتبعہ کے معنی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں یہ کبھی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہوتا ہے جیسے فرمایا ؛ فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غمناک ہونگے رذل الرَّذْلُ والرُّذَالُ : المرغوب عنه لرداء ته، قال تعالی: وَمِنْكُمْ مَنْ يُرَدُّ إِلى أَرْذَلِ الْعُمُرِ [ النحل/ 70] ، وقال : إِلَّا الَّذِينَ هُمْ أَراذِلُنا بادِيَ الرَّأْيِ [هود/ 27] ، ( رذل ) الرذل والرذال وہ چیز جس سے اس کے روی ہونے کی وجہ سے بےرغبتی کی جائے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَمِنْكُمْ مَنْ يُرَدُّ إِلى أَرْذَلِ الْعُمُرِ [ النحل/ 70] اور تم میں سے ایسے بھی ہیں جو بدترین حالت کی طرف لوٹائے جاتے ہیں ۔ إِلَّا الَّذِينَ هُمْ أَراذِلُنا بادِيَ الرَّأْيِ [هود/ 27] مگر جو ہم میں رذاے ہیں اور پرو ہو بھی گئے ہیں تو لے سوچے سمجھے ) سر سری نظر سے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١١١) وہ کہنے لگے اے نوح (علیہ السلام) کیا ہم تمہاری تصدیق کریں گے، حالانکہ رذیل اور کمزور آدمی تمہارے ساتھ ہوئے ہیں ان کو اپنے پاس سے ہٹا دو تاکہ ہم تم پر ایمان لے آئیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١١١ (قَالُوْٓا اَنُؤْمِنُ لَکَ وَاتَّبَعَکَ الْاَرْذَلُوْنَ ) ” حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم کے سردار اور اشراف آپ ( علیہ السلام) کی دعوت حق کے جواب میں کہتے تھے کہ ہم آپ کو کیسے مان لیں جبکہ آپ کی پیروی اختیار کرنے والے تو ہمارے کمیّ کمین ہیں ‘ ہمارے معاشرے کے پسماندہ طبقات کے لوگ ہیں جنہیں حقیر اور رذیل سمجھا جاتا ہے !

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

81 This answer to Prophet Noah's message of Truth was given by the chiefs, elders and nobles of his people as mentioned in Hud: 27: "In answer to this, those chiefs of his people, who had rejected his message, said, 'We see that you are no more than a mere man like ourselves, and we also see that only the meanest from among us have become your followers without due consideration, and we find nothing in you that might give you superiority over us'." This shows that those who believed in Prophet Noah were mostly the poor people, and ordinary workmen, or some youth who enjoyed no position in society. As for the influential and rich people, they had become his bitter opponents, and were trying by every trick and allurement to keep the common man behind them. One of the arguments they advanced against Prophet Noah was this: "Had there been some weight and substance in Noah's message, the rich people, scholars, religious divines, nobles and wise people of the community should have accepted it, but none of them has believed in him; the only people to follow him are the foolish people belonging to the lowest stratum of society, who have no common-sense. Now how can the noble and high ranking people like us join the company of the common people?" Precisely the same thing was being said by the unbelieving Quraish about the Holy Prophet and his followers. Abu Sufyan in reply to the questions asked by Heraclius had said: "Muhammad (Allah"s peace be upon him) has been followed by the poor and weak of our people." What they seemed to be thinking was that Truth was that which was considered as Truth by the chiefs and elders of the community, for only they had the necessary common-sense and power of judgment. As for the common people, their being common was a proof that they lacked sense and judgment. As such, if a thing was accepted by them but rejected by the chiefs, it meant that the thing itself was without worth and value. The disbelievers of Makkah even went further. They argued that a Prophet could not be a common man: if God had to appoint a Prophet, He would have appointed a great chief to be a Prophet: "They say: why has not the Qur'an been sent down to a prominent man of our two cities (Makkah and Ta'if)?" (Az-Zukhruf: 31).

سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :81 یہ لوگ جنہوں نے حضرت نوح کو دعوت حق کا یہ جواب دیا ، ان کی قوم کے سردار ، شیوخ اور اشراف تھے ، جیسا کہ دوسرے مقام پر اسی قصے کے سلسلے میں بیان ہوا ہے : فَقَالَ الْمَلَاُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ قَوْمِہ مَا نَرٰکَ اِلَّا بَشَراً مِّثْلَنَا وَمَا نَرٰکَ اتَّبَعَکَ اِلَّا الَّذِیْنَ ھُمْ اَرَاذِلُنَا بَادِیَ الرَّأیِ ، وَمَا نَریٰ لَکُمْ عَلَیْنَا مِنْ فَضْلٍ ( ہود ، آیت 27 ) ۔ اس کی قوم کے کافر سرداروں نے کہا ہمیں تو تم اس کے سوا کچھ نظر نہیں آتے کہ بس ایک انسان ہو ہم جیسے ، اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ تمہاری پیروی صرف ان لوگوں نے بے سمجھے بوجھے اختیار کر لی ہے جو ہمارے ہاں کے اراذل ہیں ، اور ہم کوئی چیز بھی ایسی نہیں پاتے جس میں تم لوگ ہم سے بڑھے ہوئے ہو ۔ اس سے معلوم ہوا کہ حضرت نوح پر ایمان لانے والے زیادہ تر غریب لوگ ، چھوٹے چھوٹے پیشہ ور لوگ ، یا ایسے نوجوان تھے جن کی قوم میں کوئی حیثیت نہ تھی ۔ رہے اونچے طبقہ کے با اثر اور خوش حال لوگ ، تو وہ ان کی مخالفت پر کمر بستہ تھے اور وہی اپنی قوم کے عوام کو طرح طرح کے فریب دے دے کر اپنے پیچھے لگائے رکھنے کی کوشش کر رہے تھے ۔ اس سلسلے میں جو دلائل وہ حضرت نوح علیہ السلام کے خلاف پیش کرتے تھے ان میں سے ایک استدلال یہ تھا کہ اگر نوح کی دعوت میں کوئی وزن ہوتا تو قوم کے امراء علماء ، مذہبی پیشوا ، معززین اور سمجھ دار لوگ اسے قبول کرتے ۔ لیکن ان میں سے تو کوئی بھی اس شخص پر ایمان نہیں لایا ہے ۔ اس کے پیچھے لگے ہیں ادنیٰ طبقوں کے چند نادان لوگ جو کوئی سمجھ بوجھ نہیں رکھتے ۔ اب کیا ہم جیسے بلند پایہ لوگ ان بے شعور اور کمین لوگوں کے زمرے میں شامل ہو جائیں ؟ بعینہ یہی بات قریش کے کفار نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کہتے تھے کہ ان کے پیرو یا تو غلام اور غریب لوگ ہیں یا چند نادان لڑکے ، قوم کے اکابر اور معززین میں سے کوئی بھی ان کے ساتھ نہیں ہے ۔ ابوسفیان نے ہرقل کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے بھی یہی کہا تھا کہ : تَبِعَہ مِنا الضعفآء والمَسَاکین ( محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی ہمارے غریب اور کمزور لوگوں نے قبول کی ہے ) گویا ان لوگوں کا طرز فکر یہ تھا کہ حق صرف وہ ہے جسے قوم کے بڑے لوگ حق مانیں کیونکہ وہی عقل اور سمجھ بوجھ رکھتے ہیں ، رہے چھوٹے لوگ ، تو ان کا چھوٹا ہونا ہی اس بات کی دلیل ہے کہ وہ بے عقل اور ضعیف الرائے ہیں ، اس لیے ان کا کسی بات کو مان لینا اور بڑے لوگوں کا رد کر دینا صاف طور پر یہ معنی رکھتا ہے کہ وہ ایک بے وزن بات ہے ۔ بلکہ کفار مکہ تو اس سے بھی آگے بڑھ کر یہ دلیل لاتے تھے کہ پیغمبر بھی کوئی معمولی آدمی نہیں ہو سکتا ، خدا کو اگر واقعی کوئی پیغمبر بھیجنا منظور ہوتا تو کسی بڑے رئیس کو بناتا ، وَقَالُوْا لَوْ لَا نُزِّلَ ھٰذَا الْقُرْاٰنُ عَلیٰ رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْیَتَیْنِ عَظِیْمٍ ( الزخرف ، آیت 3 ) وہ کہتے ہیں کہ یہ قرآن ہمارے دونوں شہروں ( مکہ اور طائف ) کے کسی بڑے آدمی پر کیوں نہ نازل کیا گیا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(26:111) الارزلون۔ کمین لوگ۔ رذیل لوگ۔ ارذل کی جمع افعل التفضیل کا صیغہ ہے سب سے زیادہ نکما۔ رذیل۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

4 ۔ یعنی کمینے، غریب، روٹیوں کے محتاج اور معمولی قسم کے پیشہ ور جن کو سوسائٹی میں کچھ بھی عزت ووقعت حاصل نہیں ہے۔ مزید دیکھئے سرہ ہود : 27 ۔ (شوکانی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : حضرت نوح (علیہ السلام) کے بار بار سمجھانے اور ان کی امانت کا اعتراف کرنے کے باوجود قوم کا جواب۔ قوم کا جواب یہ تھا کہ اے نوح کیا ہم تجھ پر ایمان لائیں ؟ جبکہ تجھ پر ایمان لانے والے معاشی اعتبار سے غریب سماجی حوالے سے گھٹیا لوگ ہیں۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے جواباً ارشاد فرمایا مجھے کیا معلوم کہ کون کیا پیشہ اختیار کیے ہوئے ہے۔ ان کا حساب میرے رب کے ذمہ ہے کاش تم شعور سے کام لو۔ میں ان کے پیشہ کی وجہ سے انھیں اپنے آپ سے دور نہیں کرسکتا کیونکہ میرے ذمہ لوگوں کو ان کے برے انجام سے ڈرانا ہے۔ دین کی تاریخ یہ ہے کہ اس کے ماننے والے۔ ابتداً غریب لوگ ہوا کرتے ہیں جنہیں معاشرے کے کھاتے پیتے لوگ حقیر سمجھتے ہیں اور بڑے لوگ ان کے ساتھ بیٹھنا، اٹھنا اپنی توہین جانتے ہیں۔ اس وجہ سے حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم کے بڑے لوگوں نے یہ کہہ کر حضرت نوح (علیہ السلام) کی تکذیب کی اور کہا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ہم آپ کی اطاعت کریں اور ان لوگوں کے ساتھ بیٹھا کریں جو ہم میں نیچ ہمارے نوکر چاکر ہیں۔ حقیقتاً وہ حضرت نوح (علیہ السلام) کے اطاعت گزار بننے میں اپنی توہین سمجھتے تھے لیکن حضرت نوح (علیہ السلام) ظاہری جمال و کمال کے اعتبار سے ان سے اعلیٰ تھے اس لیے انھوں نے یہ بہانہ بنایا کہ ہم آپ پر اس لیے ایمان نہیں لاتے کہ آپ کے ساتھی کمتر لوگ ہیں۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے فرمایا کہ مجھے کیا علم کہ پیشے کے اعتبار سے کون کیا کرتا ہے۔ مالی لحاظ سے کوئی کیا حیثیت رکھتا ہے میرا کام لوگوں کا پیشہ بدلنا نہیں میرا فرض تو یہ ہے کہ میں لوگوں کو برے کاموں سے بچنے کا حکم دوں اور برے انجام سے لوگوں کو ڈراؤں۔ جو لوگ ایمان لائے ہیں ان کا حساب ان کے رب کے ذمہ ہے۔ کاش تم اس بات کو سمجھنے کی کوشش کرو۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان پیشے اور مال کے حوالے سے معزز نہیں ہوتا معزز وہ ہے جو عقیدہ و عمل کے اعتبار سے بہتر ہے۔ (یَا أَیُّہَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاکُمْ مِنْ ذَکَرٍ وَأُنْثَی وَجَعَلْنَاکُمْ شُعُوْبًا وَقَبَاءِلَ لِتَعَارَفُوْا إِنَّ أَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ أَتْقَاکُمْ إِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ ) ” اے لوگو ! ہم نے تمہیں ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا اور ایک دوسرے کی پہچان کے لیے تمہارے قبلے اور برادریاں بنائیں۔ تم میں سے سب سے زیادہ اللہ کے ہاں عزت والا وہ ہے جو متقی ہے۔ بیشک اللہ جاننے والا خبر رکھنے والا ہے۔ “ (یَآ أَیُّھَا النَّاسُ ! أَلَآ إِنَّ رَبَّکُمْ وَاحِدٌ وَإِنَّ أَبَاکُمْ وَاحِدٌ أَلَا لَا فَضْلَ لِعَرَبِیٍّ عَلٰی أَعْجَمِیٍّ وَلَا لِعَجَمِیٍّ عَلٰی عَرَبِیٍّ وَلَا لِأَحْمَرَ عَلآی أَسْوَدَ وَلَا لِاَسْوَدَ عَلٰی أَحْمَرَ إِلَّا بالتَّقْوٰی) [ مسند أحمد : کتاب مسند الأنصار، باب حدیث رجل من أصحاب النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ] ” اے لوگو ! آگاہ ہوجاؤ ! یقیناً تمہارا رب ایک ہے، تمہارا باپ بھی ایک ہے خبردار ! کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عربی پر، کسی سرخ کو کالے پر اور کسی کالے کو سرخ پر تقویٰ کے سوا کوئی برتری حاصل نہیں۔ “ مسائل ١۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم نے یہ کہہ کر ان کی نبوت کا انکار کیا کہ تجھ پر ایمان لانے والے لوگ سماجی اعتبار سے گھٹیا لوگ ہیں۔ ٢۔ ا لداعی کو غربت کی بنا پر نیک لوگوں کو اپنے آپ سے دور نہیں کرنا چاہیے اس کا کام لوگوں کو برے اعمال اور اس کے انجام سے ڈرانا ہے۔ تفسیر بالقرآن صحیح عقیدہ اور صالح اعمال کرنے والوں کا مرتبہ و مقام : ١۔ ایماندار صالح اعمال کرنے والوں کو اللہ اپنی رحمت میں داخل کرے گا۔ (الجاثیۃ : ٣٠) ٢۔ ایمان کے ساتھ صالح اعمال کرنے والوں کے لیے مغفرت ہے۔ (الحج : ٥٠) ٣۔ موت کے بعد نیک لوگوں کی رفاقت نصیب ہوگی۔ (آل عمران : ١٩٣) ٤۔ اللہ تعالیٰ نے نیک لوگوں کو اپنی رحمت میں داخل کرلیا ہے۔ (الانبیاء : ٨٦) ٥۔ اللہ نیک لوگوں کو ان کے اعمال کا بہترین صلہ دے گا۔ (التوبۃ : ١٢١) ٦۔ قیامت کے دن نیک لوگوں کے چہروں پر ذلت اور نحوست نہ ہوگی اور وہ جنت میں رہیں گے۔ (یونس : ٢٦)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

قالوا انومن لک و اتبع الارزذلون (١١١) ’ یہاں ارزلون سے مراد غرباء فقرئا ہیں اور یہی وہ لوگ ہوتے ہیں جو رسولوں کی پیروی اختیار کرتے ہیں۔ یہی لوگ ایمان لاتے اور استقامت بھی کرتے ہیں اور ان غرباء کو راہ ہدایت اختیار کرنے سے یہی بےکار کبرا روکتے ہیں اور یہ اس لئے روکتے ہیں کہ معاشرے میں ان کی پوزیشن اور ان کا مقام و مرتبہ کہیں آگے سے گر نہ جائے۔ غریب لوگ تو ہمیشہ دعوت پر لبیک کہتے ہیں اور کبرا محروم رہتے ہیں ان کا مقام و مرتبہ انہیں حق سے دور رکھتا ہے۔ وہ اپنی مصلحتوں ، جھوٹے حالات اور وہی روایات کے خول سے باہر نہیں آسکتے۔ پھر یہ کبرا اور معتربین عقیدہ توحید اختیار کر کے یہ پسند نہیں کرتے کہ عامتہ الناس اور جمہور کے ساتھ ان کا مقام اور مرتبہ برابر ہوجائے۔ کیونکہ اسلام میں داخل ہو کر نہ وہ خصوصی مراعات کا مطالبہ کرسکتے ہیں اور جھوٹے مرتبے کو قائم رکھ سکتے ہیں۔ جبکہ اسلامی معاشرے میں ایک ہی قدر ہے ” ایمان اور عمل صالح ‘ یہی کسی کو اٹھانی ہے اور سکی کو گراتی ہے اور اسلامی معاشرے میں ایک ہی میزان ہے ” عقیدہ اور درست عمل “۔ چناچہ حضرت نوح ان کو ایسا جواب دیتے ہیں جو ان ثابت شدہ قدروں کی تصدیق کرتا ہے۔ یہ بتاتا ہے کہ رسول کا فریضہ کیا ہے اور کیا نہیں ہے۔ لوگ جو کچھ کرتے ہیں ان کا ذمہ دار سوال نہیں ہے ۔ حساب و کتاب لینے والا اللہ ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

46:۔ مشرکین نے حضرت نوح (علیہ السلام) کو جواب دیا کہ تجھے ماننے والے تو بہت گھٹیا اور پست طقبہ کے لوگ ہیں اگر ہم بھی تم پر ایمان لے آئیں تو پھر ہمیں ان رذیل لوگوں کے ساتھ بیٹھنا اٹھنا ہوگا۔ یہ بات ہم برداشت نہیں کرسکتے سرمایہ دار اور دولت مند طبقے کی خواہ وہ حسب و نسبت کے اعتبار سے کتنا ہی پست ہو ہمیشہ سے یہی ذہنیت رہی ہے کہ غریب اور مفلس طبقہ کو انہوں نے ہمیشہ حقیر و ذلیل سمجھا ہے۔ خواہ حسب و نسب اور محاسن اخلاق کے اعتبار سے وہ کتنا ہی شریف اور بلند ہو۔ یا ” ارذلون “ سے منافق مراد ہیں۔ یعنی یہ لوگ صرف ظاہر میں تجھ پر ایمان لائے ہیں اور باطن میں تیرے دین کے مخالف ہیں وہ حاصلہ و ما وظیفتی الا اعتبار الظواھر دون الشق عن القلوب والتفتیش عما فی السرارئر فما یضرنی عدم اخلاصھم فی ایمانہم کما تزعمون (روح ج 19 ص 108) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(111) اس پر قوم کے لوگوں نے جواب دیا کیا ہم تجھ کو مان لیں حالانکہ چند رذیل لوگ تیرے پیرو ہوگئے ہیں رذیل کہا پیشہ وروں کو اور ان کے پاس بیٹھنے کو عار بتایا کہ ہم ان کے پاس نہیں بیٹھ سکتے یہ کفر کا خاص شیوہ ہے کہ پیشہ ورہ خدمت گزاروں کو ذلیل اور اچھوت سمجھتے ہیں۔