Surat us Shooaraa

Surah: 26

Verse: 115

سورة الشعراء

اِنۡ اَنَا اِلَّا نَذِیۡرٌ مُّبِیۡنٌ ﴿۱۱۵﴾ؕ

I am only a clear warner."

میں تو صاف طور پر ڈرا دینے والا ہوں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And I am not going to drive away the believers. I am only a plain warner. meaning, `I have been sent as a warner, and whoever obeys me and follows me and believes in me, then he belongs to me and I to him, whether he is noble or common, upper-class or lower-class.'

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

1151پس جو اللہ سے ڈر کر میری اطاعت کرے گا، وہ میرا ہے اور میں اس کا ہوں، چاہے دنیا کی نظر میں وہ شریف ہو یا رذیل، کمینہ ہو یا حقیر۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنْ اَنَا اِلَّا نَذِيْرٌ مُّبِيْنٌ۝ ١ ١٥ۭ النذیر والنَّذِيرُ : المنذر، ويقع علی كلّ شيء فيه إنذار، إنسانا کان أو غيره . إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ نوح/ 2] ( ن ذ ر ) النذیر النذیر کے معنی منذر یعنی ڈرانے والا ہیں ۔ اور اس کا اطلاق ہر اس چیز پر ہوتا ہے جس میں خوف پایا جائے خواہ وہ انسان ہو یا کوئی اور چیز چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُبِينٌ [ الأحقاف/ 9] اور میرا کام تو علانیہ ہدایت کرنا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

83 This is the second answer to their objection, which implied that since those who were gathering around Noah as believers, belonged to the lowest social strata, none of the nobles would like to join them, as if to say, "O Noah, should we believe in you in order to be counted among the low-ranking people like the slaves and servants and workmen?" To this Prophet Noah answers, "How can I adopt this irrational attitude that I should attend earnestly to those who do not like to listen to me, but drive away those who have believed and followed me? I am simply, a warner, who has declared openly that the way you are following is wrong and will lead you to ruin, and the way that I am inviting to is the way of salvation far all. Now it is up to you whether you heed my warning and adopt the right path, or go on following blindly the way to your ruin. It dces not behove me that I should start inquiring into the castes and ancestry and trades of the people who have heeded my warning and adopted the right path. They might be "mean" in your sight, but I cannot drive them away and wait to see when the "nobles" will' give up the path of destruction and adopt the way of salvation and success instead." Precisely the same thing was going on between the Holy Prophet and the disbelievers of Makkah when these verses were revealed, and one can fully understand why the dialogue between Prophet Noah and the chiefs of his people, has been related here. The chiefs of the disbelievers of Makkah thought exactly the same way. They said how they could sit side by side with the slaves like Bilal, 'Ammar and Suhaib and other men of the working class, as if to say, "Unless these poor people areturned out, there can be no possibility that the nobles may consider to become believers; it is impossible that the master and the slave should stand shoulder to shoulder with each other." In answer to this the Holy Prophet was commanded by Allah to tell the vain and arrogant disbelievers plainly that the poor believers could not be driven out of Islam just for their sake: "O Muhammad, you attend earnestly to him who has shown indifference (to your message), whereas you have no responsibility if he dces not reform himself; and the one who comes to you earnestly, fearing Allah, to him you pay no attention. Nay! this indeed is an Admonition, so let him who wills, accept it." (`Abasa :5-12). "And do not drive away those who invoke their Lord morning and evening and are engaged in seeking His favour. You are not in any way accountable for them, nor are they inany way accountable for you: so, if you should drive them away, you shall be counted among the unjust. As a matter of fact, in this way We have made some of them a means of test for others, so that, seeing them, they should say, `Are these the people from among us upon whom AIlah has showered His blessings?' --Yes: dces not Allah know His grateful servants better than they?" (AI-An'am: 52-53)

سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :83 یہ ان کے اعتراض کا دوسرا جواب ہے ۔ ان کے اعتراض میں یہ بات بھی مضمر تھی کہ ایمان لانے والوں کا جو گروہ حضرت نوح علیہ السلام کے گرد جمع ہو رہا ہے یہ چونکہ ہمارے معاشرے کے ادنیٰ طبقات پر مشتمل ہے ، اس لیے اونچے طبقوں میں سے کوئی شخص اس زمرے میں شامل ہونا گوارا نہیں کر سکتا ۔ دوسرے الفاظ میں گویا وہ یہ کہہ رہے تھے کہ اے نوح علیہ السلام کیا تم پر ایمان لا کر ہم اپنے آپ کو اراذل اور سفہاء میں شمار کرائیں ؟ کیا ہم غلاموں ، نوکروں ، مزدوروں اور کام پیشہ لوگوں کی صف میں آ بیٹھیں ؟ حضرت نوح علیہ السلام اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ میں آخر یہ غیر معقول طرز عمل کیسے اختیار کر سکتا ہوں کہ جو لوگ میری بات نہیں مانتے ان کے تو پیچھے پھرتا رہوں اور جو میری بات مانتے ہیں انہیں دھکے دے کر نکال دوں ۔ میری حیثیت تو ایک ایسے بے لاگ آدمی کی ہے جس نے علی الاعلان کھڑے ہو کر پکار دیا ہے کہ جس طریقے پر تم لوگ چل رہے ہو یہ باطل ہے اور اس پر چلنے کا انجام تباہی ہے ، اور جس طریقے کی طرف میں رہنمائی کر رہا ہوں اسی میں تم سب کی نجات ہے ۔ اب جس کا جی چاہے میری اس تنبیہ کو قبول کر کے سیدھے راستے پر آئے اور جس کا جی چاہے آنکھیں بند کر کے تباہی کی راہ چلتا رہے ۔ میں یہ نہیں کر سکتا کہ جو اللہ کے بندے میری اس تنبیہ کو سن کر سیدھا راستہ اختیار کرنے کے لیے میرے پاس آئیں ان کی ذات ، برادری ، نسب اور پیشہ پوچھوں اور اگر وہ آپ لوگوں کی نگاہ میں کمین ہوں تو ان کو واپس کر کے اس انتظار میں بیٹھا رہوں کہ شریف حضرات کب تباہی کا راستہ چھوڑ کر نجات کی راہ پر قدم رنجہ فرماتے ہیں ۔ ٹھیک یہی معاملہ ان آیات کے نزول کے زمانے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور کفار مکہ کے درمیان چل رہا تھا اور اسی کو نگاہ میں رکھنے سے یہ سمجھ میں آ سکتا ہے کہ حضرت نوح اور ان کی قوم کے سرداروں کی یہ گفتگو یہاں کیوں سنائی جا رہی ہے ۔ کفار مکہ کے بڑے بڑے سردار نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہتے تھے کہ ہم آخر بلال اور عَمار اور صہیب جیسے غلاموں اور کام پیشہ لوگوں کے ساتھ کیسے بیٹھ سکتے ہیں ۔ گویا ان کا مطلب یہ تھا کہ ایمان لانے والوں کی صف سے یہ غریب لوگ نکالے جائیں تب کوئی امکان اس کا نکل سکتا ہے کہ اشراف ادھر کا رخ کریں ، ورنہ یہ کسی طرح ممکن نہیں ہے کہ محمود اور ایاز ایک صف میں کھڑے ہو جائیں ۔ اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بالکل صاف اور دو ٹوک الفاظ میں یہ ہدایت دی گئی کہ حق سے منہ موڑنے والے متکبروں کی خاطر ایمان قبول کرنے والے غریبوں کو دھکے نہیں دیے جا سکتے : اَمَّا مَنِ اسْتَغْنیٰ ۙ فَاَنْتَ لَہٗ تَصَدّٰی ؕ وَمَا عَلَیْکَ اَلَّا یَزَّکّیٰ ؕ وَاَ مَّا مَنْ جَآءَکَ یَسْعٰی ۙ وَھُوَ یَخْشیٰ ۙ فَاَ نْتَ عَنْہُ تَلَھّیٰ کَلَّآ اِنَّھَا تَذْکِرَۃً فَمَنْ شَآءَ ذَکَرَہ ‏ ۔ ( آیات 5 تا 13 ) اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، جس نے بے نیازی برتی تم اس کے پیچھے پڑتے ہو؟ حالانکہ اگر وہ نہ سدھرے تو تم پر اس کی کیا ذمہ داری ہے ۔ اور جو تمہارے پاس دوڑا آتا ہے اس حال میں کہ وہ اللہ سے ڈر رہا ہے ، تم اس سے بے رخی برتتے ہو؟ ہرگز نہیں ، یہ تو ایک نصیحت ہے جس کا جی چاہے اسے قبول کرے ۔ وَلَا تَطْرُدِ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ بِالْغَدٰوَۃِ وَالْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجُھَہ ؕ مَا عَلَیْکَ مِنْ حِسَابِھِمْ مِّنْ شَیْءٍ وَمَا مِنْ حِسَابِکَ عَلَیْھِمْ مِّنْ شَیْءٍ فَتَطْرُدَھُمْٰ فَتَکُوْ نَ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ ۵ وَکَذٰلِکَ فَتَنَّا بَعْضَھُمْ بِبَعْضٍ لِّیَقُوْلُوْٓا اَھٰٓؤُلَآءِ مَنَّ اللہُ عَلَیْھِمْ مِّنْ‏ بَیْنِنَا ؕ اَلَیْسَ اللّٰہُ بِاَعْلَمَ بِالشّٰکِرِیْنَ ہ ( الانعام ۔ آیت 52 ) ۔ نہ دور پھینکو ان لوگوں کو جو شب و روز اپنے رب کو پکارتے ہیں محض اس کی خوشنودی کی خاطر ۔ ان کا کوئی حساب تمہارے ذمہ نہیں اور تمہارا کوئی حساب ان کے ذمہ نہیں ۔ اس پر بھی اگر تم انہیں دور پھینکو گے تو ظالموں میں شمار ہو گے ۔ ہم نے تو اس طرح ان لوگوں میں سے بعض کو بعض کے ذریعے آزمائش میں ڈال دیا ہے تاکہ وہ کہیں کیا ہمارے درمیان بس یہی لوگ رہ گئے تھے جن پر اللہ کا فضل و کرم ہوا ؟ ہاں ، کیا اللہ اپنے شاکر بندوں کو ان سے زیادہ نہیں جانتا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(26:115) ان نافیہ ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

7 ۔ لہٰذا جو بھی مجھے سچا سمجھتے ہوئے میری اطاعت قبول کرے اور میرے راستے پر چلے وہ میرا ہے اور میں اس کا ہوں۔ وہ شریف و امیر زادہ ہو یا غریب اور معمولی پیشہ ور۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ اور تبلیغ سے میرا فرض منصبی پورا ہوجاتا ہے، آگے اپنا نفع و نقصان تم دیکھ لو۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(115) میں تو صاف طورپر صرف ایک ڈرانے والا ڈر سنانے والا ہوں یعنی مجھے کسی کے پیشے کا حال معلوم کرنے سے کیا مطلب پیشے کا حساب کتاب لینا تو اللہ تعالیٰ کا کام ہے اور میں یہ کس طرح کرسکتا ہوں کہ ایک مسلمان کو محض اس کی غربت اور مفلسی کی وجہ سے اپنی مجلس سے ہٹا دوں اور اٹھادوں میرا کام تو صرف تبلیغ رسالت ہے جو نافرمانی کرے اس کو خدا کے عذاب سے ڈرادوں کاش ! تم بھی اتنی بات سمجھتے کسی کو کمینہ یا رذیل بنانا میرا کام نہیں ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں کمینے کہا محنتی لوگوں کو ہر پیغمبر کے ساتھ اول غریب ہوتے ہیں سو فرمایا مجھ کو ان کا صدق قبول ہے ان کے کام سے کیا غرض کہ ان کا پیشہ کیا ہے 12