Surat us Shooaraa

Surah: 26

Verse: 116

سورة الشعراء

قَالُوۡا لَئِنۡ لَّمۡ تَنۡتَہِ یٰنُوۡحُ لَتَکُوۡنَنَّ مِنَ الۡمَرۡجُوۡمِیۡنَ ﴿۱۱۶﴾ؕ

They said, "If you do not desist, O Noah, you will surely be of those who are stoned."

انہوں نے کہا کہ اے نوح! اگر تو باز نہ آیا تو یقیناً تجھے سنگسار کر دیا جائے گا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

His People's Threat, Nuh's Prayer against Them, and Their Destruction Nuh stayed among his people for a long time, calling them to Allah night and day, in secret and openly. The more he repeated his call to them, the more determined were they to cling to their extreme disbelief and resist his call. In the end, they said: قَالُوا لَيِن لَّمْ تَنتَهِ يَا نُوحُ لَتَكُونَنَّ مِنَ الْمَرْ... جُومِينَ They said: If you cease not, O Nuh you will surely be among those stoned. meaning, `if you do not stop calling us to your religion,' لَتَكُونَنَّ مِنَ الْمَرْجُومِينَ (you will surely be among those stoned), meaning, `we will stone you.' At that point, he prayed against them, and Allah responded to his prayer. Nuh said: قَالَ رَبِّ إِنَّ قَوْمِي كَذَّبُونِ   Show more

تذکرہ نوح علیہ السلام لمبی مدت تک جناب نوح علیہ السلام ان میں رہے دن رات چھپے کھلے انہیں اللہ کی راہ کی دعوت دیتے رہے لیکن جوں جوں آپ علیہ السلام اپنی نیکی میں بڑھتے گئے وہ اپنی بدی میں سوار ہوتے گئے بالآخر زور باندھتے باندھتے صاف کہہ دیا کہ اگر اب ہمیں اپنے دین کی دعوت دی تو ہم تجھ پر پتھراؤ کر ک... ے تیری جان لے لیں گے ۔ آپ کے ہاتھ بھی جناب باری میں اٹھ گئے قوم کی تکذیب کی شکایت آسمان کی طرف بلند ہوئی ۔ اور آپ نے فتح کی دعا کی فرمایا کہ اے اللہ! میں مغلوب اور عاجز ہوں میری مدد کر میرے ساتھ میرے ساتھیوں کو بھی بچا لے ۔ پس جناب باری عزوجل نے آپ کی دعا قبول کی ۔ انسانوں جانوروں اور سامان اسباب سے کچھا کچھ بھری ہوئی کشتی میں سوار ہوجانے کا حکم دے دیا ۔ یقینا یہ واقعہ بھی عبرت آموز ہے لیکن اکثر لوگ بےیقین ہیں ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ رب بڑے غلبے والا لیکن وہ مہربان بھی بہت ہے ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧٨] لفظ من المرجومین کے بھی دو مطلب ہیں۔ رجم کے معنی دور سے پتھر، کنکر وغیرہ پھینکنا اور جان سے مار ڈالنا یا سنگسار کرنا ہے اور یہ معنی ترجمہ میں مذکور ہیں۔ پھر یہ لفظ مادی اور معنوی دونوں طرح استعمال ہوگا ہے۔ اور رجیم اور مرجوم وہ شخص یا چیز ہے۔ جسپر لعنت اور پھٹکار پڑتی رہے۔ یعنی قوم نوح کے چودھ... ریوں نے حضرت نوح (علیہ السلام) سے کہا کہ اگر تم اپنی دعوت و تبلیغ سے باز نہ آئے تو ہر طرف سے تم پر لعنت اور پھٹکار پڑتی رہا کرے گی۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قَالُوْا لَىِٕنْ لَّمْ تَنْتَهِ يٰنُوْحُ ۔۔ : نوح (علیہ السلام) اور ان کی قوم کی یہ گفتگو دو چار مواقع کی بات نہیں بلکہ ان کے ساتھ ان کی قوم کی یہ کش مکش ساڑھے نو سو (٩٥٠) برس جاری رہی۔ جیسے جیسے آپ دعوت کے کام میں آگے بڑھتے گئے وہ بدی میں آگے بڑھتے گئے۔ آخر کار تمام ظالم و جابر لوگوں کی طرح، جو دلی... ل میں لاجواب ہو کر دھمکیوں اور تشدد پر اتر آتے ہیں، نوح (علیہ السلام) کی قوم نے بھی صاف لفظوں میں کہہ دیا کہ آئندہ اگر تم اپنی دعوت سے باز نہ آئے تو ہم پتھر مار مار کر تمہیں ختم کردیں گے۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالُوْا لَىِٕنْ لَّمْ تَنْتَہِ يٰنُوْحُ لَتَكُوْنَنَّ مِنَ الْمَرْجُوْمِيْنَ۝ ١١٦ۭ نهى النهي : الزّجر عن الشیء . قال تعالی: أَرَأَيْتَ الَّذِي يَنْهى عَبْداً إِذا صَلَّى[ العلق/ 9- 10] ( ن ھ ی ) النهي کسی چیز سے منع کردینا ۔ قرآن میں ہے : أَرَأَيْتَ الَّذِي يَنْهى عَبْداً إِذا صَلَّى[ العلق/ 9- 10... ] بھلاتم نے اس شخص کو دیکھا جو منع کرتا ہے ( یعنی ) ایک بندے کو جب وہ نماز پڑھنے لگتا ہے ۔ نوح نوح اسم نبيّ ، والنَّوْح : مصدر ناح أي : صاح بعویل، يقال : ناحت الحمامة نَوْحاً وأصل النَّوْح : اجتماع النّساء في المَنَاحَة، وهو من التّناوح . أي : التّقابل، يقال : جبلان يتناوحان، وریحان يتناوحان، وهذه الرّيح نَيْحَة تلك . أي : مقابلتها، والنَّوَائِح : النّساء، والمَنُوح : المجلس . ( ن و ح ) نوح ۔ یہ ایک نبی کا نام ہے دراصل یہ ناح ینوح کا مصدر ہے جس کے معنی بلند آواز کے ساتھ گریہ کرنے کے ہیں ۔ محاورہ ہے ناحت الحمامۃ نوحا فاختہ کا نوحہ کرنا نوح کے اصل معنی عورتوں کے ماتم کدہ میں جمع ہونے کے ہیں اور یہ تناوح سے مشتق ہے جس کے معنی ثقابل کے ہیں جیسے بجلان متنا وحان دو متقابل پہاڑ ۔ ریحان یتنا وحان وہ متقابل ہوائیں ۔ النوائع نوحہ گر عورتیں ۔ المنوح ۔ مجلس گریہ ۔ رجم الرِّجَامُ : الحجارة، والرَّجْمُ : الرّمي بالرِّجَامِ. يقال : رُجِمَ فهو مَرْجُومٌ ، قال تعالی: لَئِنْ لَمْ تَنْتَهِ يا نُوحُ لَتَكُونَنَّ مِنَ الْمَرْجُومِينَ [ الشعراء/ 116] ، أي : المقتولین أقبح قتلة، وقال : وَلَوْلا رَهْطُكَ لَرَجَمْناكَ [هود/ 91] ، إِنَّهُمْ إِنْ يَظْهَرُوا عَلَيْكُمْ يَرْجُمُوكُمْ [ الكهف/ 20] ، ويستعار الرّجم للرّمي بالظّنّ ، والتّوهّم، وللشّتم والطّرد، نحو قوله تعالی: رَجْماً بِالْغَيْبِ وما هو عنها بالحدیث المرجّم «7» وقوله تعالی: لَأَرْجُمَنَّكَ وَاهْجُرْنِي مَلِيًّا [ مریم/ 46] ، أي : لأقولنّ فيك ما تكره والشّيطان الرَّجِيمُ : المطرود عن الخیرات، وعن منازل الملإ الأعلی. قال تعالی: فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطانِ الرَّجِيمِ [ النحل/ 98] ، وقال تعالی: فَاخْرُجْ مِنْها فَإِنَّكَ رَجِيمٌ [ الحجر/ 34] ، وقال في الشّهب : رُجُوماً لِلشَّياطِينِ [ الملک/ 5] ( ر ج م ) الرجام ۔ پتھر اسی سے الرجیم ہے جس کے معنی سنگسار کرنا کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے رجمۃ ۔ اسے سنگسار کیا اور جسے سنگسار کیا گیا ہوا سے مرجوم کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے ؛ لَئِنْ لَمْ تَنْتَهِ يا نُوحُ لَتَكُونَنَّ مِنَ الْمَرْجُومِينَ [ الشعراء/ 116] کہ تم ضرور سنگسار کردیئے جاؤ گے ۔ إِنَّهُمْ إِنْ يَظْهَرُوا عَلَيْكُمْ يَرْجُمُوكُمْ [ الكهف/ 20] کیونکہ تمہاری قوم کے لوگ تمہاری خبر پائیں گے تو تمہیں سنگسار کردیں گے ۔ پھر استعارہ کے طور پر رجم کا لفظ جھوٹے گمان تو ہم ، سب وشتم اور کسی کو دھتکار دینے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے رَجْماً بِالْغَيْب یہ سب غیب کی باتوں میں اٹکل کے تکے چلاتے ہیں ۔ (176) ، ، وماھو عنھا بالحدیث المرکم ، ، اور لڑائی کے متعلق یہ بات محض انداز سے نہیں ہے ۔ اور شیطان کو رجیم اس لئے کہاجاتا ہے کہ وہ خیرات اور ملائم اعلیٰ کے مراتب سے راندہ ہوا ہے قرآن میں ہے :۔ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطانِ الرَّجِيمِ [ النحل/ 98] تو شیطان مردود کے وسواس سے خدا کی پناہ مانگ لیاکرو ۔ فَاخْرُجْ مِنْها فَإِنَّكَ رَجِيمٌ [ الحجر/ 34] تو بہشت سے نکل جا کہ راندہ درگاہ ہے ۔ اور شھب ( ستاروں ) کو رجوم کہا گیا ہے قرآن میں ہے :۔ رُجُوماً لِلشَّياطِينِ [ الملک/ 5] ان کی شیاطین کے لئے ایک طرح کا زوبنایا ہے ۔ رجمۃ ورجمۃ ۔ قبر کا پتھر جو بطور نشان اس پر نصب کیا جاتا ہے ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١١٦) وہ لوگ کہنے لگے اے نوح (علیہ السلام) اگر تم اپنے اس کہنے سننے سے باز آؤ گے تو ضرور قتل کردیے جاؤ گے جیسا کہ تمہارے ماننے والوں میں سے غریبوں کو قتل کیا گیا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

84 ' The words in the Text may have two meanings: (1) "You will be stoned to death"; and (2) "You will be showered with abuses from all sides, and cursed and reviled wherever you go. "

سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :84 اصل الفاظ ہیں لَتَکُوْنَنَّ مِنَ الْمَرْجُوْمِیْنَ ۔ اس کے دو معنی ہو سکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ تم کو رجم کیا جائے گا ، یعنی پتھر مار مار کر ہلاک کر دیا جائے گا ۔ دوسرے معنی یہ ہو سکتے ہیں کہ تم پر ہر طرف سے گالیوں کی بوچھاڑ کی جائے گی ، جہاں جاؤ گے دھتکارے اور پھٹک... ارے جاؤ گے ۔ عربی محاورے کے لحاظ سے ان الفاظ کے یہ دونوں معنی لیے جا سکتے ہیں ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(26:116) لم تنتہ۔ مضارع مجزوم نفی جحد بلم واحد مذکر حاضر تنتہ اصل میں تنتھی تھا۔ لم کے آنے سے ی حرف علت حذف ہوگیا۔ انتھاء (افتعال) مصدر سے بھی مادہ تو باز نہیں آئے گا۔ لتکونن۔ لام تاکید کا۔ تکونن کان سے مضارع تاکید بانون ثقیلہ صیغہ واحد مذکر حاضر ۔ تو ضرور ہوجائے گا۔ المرجومین۔ اسم مفعول جمع مذک... ر مجرور۔ مرجوم واحد رجم یرجم (نصر) رجم سے۔ سنگسار کرنا۔ من المرجومین۔ سنگسار کئے جانے والوں میں سے۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

8 ۔ یعنی اگر ہمارے دین میں کیڑے ڈالنے اور ہمارے معبودوں کو برا بھلا کہنے سے باز آئے گا۔ (شوکانی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ غرض جب سالہا سال اس طرح گزر گئے تب نوح (علیہ السلام) نے دعا کی۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : حضرت نوح (علیہ السلام) کو قوم کی دھمکی۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو ساڑھے نو سو سال سمجھایا۔ (العنکبوت : ١٤) لیکن قوم نے انھیں بدتر سے بدترین جواب دیا یہاں تک کہ انھوں نے کہا اے نوح ! اگر تو عقیدہ توحید کی دعوت سے باز نہ آیا تو ہم پتھر مار مار کر تجھے جان سے مار دیں...  گے۔ ” نوح نے عرض کی اے میرے پروردگار میں نے اپنی قوم کو دن رات دعوت دی لیکن میری دعوت دینے سے وہ اور زیادہ دوری اختیار کرتے گئے۔ جب بھی میں نے انہیں بلایا تاکہ تو انہیں معاف کر دے تو انہوں نے اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں اور اپنے آپ پر کپڑے ڈال لیے۔ ہٹ دھرمی اور تکبر اختیار کیا پھر میں نے انہیں سرعام دعوت دی اور اعلانیہ اور پوشیدہ طریقے سے بھی سمجھایا۔ “ (نوح : ٥ تا ٩) ” اس کے بعد نوح نے عرض کی کہ میرے پروردگار ! یہ لوگ میرے کہنے پر نہیں چلے۔ یہ ان کے تابع ہوئے ہیں جن کو ان کے مال اور اولاد نے نقصان کے سوا کچھ فائدہ نہیں دیا۔ اور وہ بڑی بڑی چالیں چلے۔ اور کہنے لگے کہ اپنے معبودوں کو ہرگز نہ چھوڑنا وَدّ ، سواع، یغوث، یعوق اور نسر کو کبھی ترک نہ کرنا۔ میرے رب انہوں نے بہت لوگوں کو گمراہ کردیا ہے تو تو ان کو اور گمراہ کر دے۔ “ ( نوح : ٢١ تا ٢٤ ) حضرت نوح (علیہ السلام) نے یہ بھی دعا کی اے رب کریم ! قوم نے مجھے کلیتاً ٹھکرا دیا ہے۔ میری درخواست ہے کہ آپ میرے اور میری قوم کے درمیان فیصلہ فرما دیں۔ فیصلہ سے مراد اللہ کا عذاب ہے مجھے اور میرے ایماندار ساتھیوں کو اس سے بچائے رکھنا۔ ( وَقَالَ نُوحٌ رَّبِّ لاَ تَذَرْ عَلَی الْاَرْضِ مِنَ الْکٰفِرِیْنَ دَیَّارًا اِِنَّکَ اِِنْ تَذَرْہُمْ یُضِلُّوْا عِبَادَکَ وَلاَ یَلِدُوْا اِِلَّا فَاجِرًا کَفَّارًا رَبِّ اغْفِرْ لِی وَلِوَالِدَیَّ وَلِمَنْ دَخَلَ بَیْتِیَ مُؤْمِنًا وَّلِلْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَلاَ تَزِدِ الظٰلِمِیْنَ اِِلَّا تَبَارًا) [ نوح : ٢٦ تا ٢٨ ] ” اور پھر نوح (علیہ السلام) نے یہ دعا کی کہ میرے پروردگار کسی کافر کو روئے زمین پر نہ رہنے دے۔ اگر تو ان کو رہنے دے گا تو تیرے بندوں کو گمراہ کرینگے اور ان سے جو اولاد ہوگی وہ بھی بدکار اور ناشکری ہوگی۔ اے میرے پروردگار مجھے اور میرے ماں باپ کو اور جو ایمان لا کر میرے گھر میں آئے اس کو اور تمام ایمان دار مردوں اور ایمان دار خواتین کو معاف فرما ! ظالم لوگوں کے لیے اور زیادہ تباہی بڑھا۔ مسائل ١۔ نوح (علیہ السلام) کی قوم نے دعوت حق قبول کرنے کی بجائے نوح (علیہ السلام) کو سنگسار کرنے کی دھمکی دی۔ ٢۔ نوح (علیہ السلام) کی قوم نے عذاب کا مطالبہ کیا۔ ٢۔ نوح (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے فیصلہ کن عذاب کی درخواست کی۔ تفسیر بالقرآن انبیاء (علیہ السلام) اور صلحاء کی نافرمان قوم کے لیے بددعائیں : ١۔ اے ہمارے پروردگار ! ان کے اموال کو نیست و نابود کردے اور ان کے دلوں کو سخت فرما۔ (حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی بددعا) ۔ (یونس : ٨٨) ٢۔ نوح نے بدعا کی کہ الٰہی زمین پر ایک کافر بھی نہ چھوڑنا۔ (نوح : ٢٦) ٣۔ اے اللہ ! فساد کرنے والی قوم کے مقابلہ میں میری مدد فرما۔ لوط (علیہ السلام) کی بددعا (العنکبوت : ٣٠) ٤۔ اے ہمارے رب ! تو ہمارے درمیان اور ہماری قوم کے درمیان فیصلہ فرما دے (حضرت شعیب (علیہ السلام) کی بد دعا) ۔ (الاعراف : ٨٩)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

قالوا لئن ……المرجومین (١١٦) ’ اب سرکشی ننگی ہو کر سامنے آگئی۔ گمراہی نے اپنے ذرائع اور اوچھے ہتھیار استعمال کرنا شروع کردیئے اور حضرت نوح (علیہ السلام) کو ملعوم تھا کہ یہ سنگ دل کوئی نرمی قبول نہیں کرتے۔ اب حضرت نوح (علیہ السلام) بھی اپنا آخری ہتھیار استعمال کرتے ہیں وہ اپنے والی مددگار کی طرف متو... جہ ہوتے ہیں جن کے سوال اہل ایمان کے لئے کوئی جائے پناہ نہیں ہے۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

48:۔ حضرت نوح (علیہ السلام) عرصہ دراز تک اپنی قوم کو توحید کی دعوت دیتے رہے اور قوم ضد پر اڑی رہی آخرت قوم کے سرداروں نے نوح (علیہ السلام) کو قتل کی دھمکی دی کہ اے نوح اگر اتو اپنے اس عقیدے اور اس وعظ سے باز نہ آیا تو ہم تجھے سنگسار کردیں گے۔ ” قال رب ان قومی کذبون “ اب نوح (علیہ السلام) نے اللہ تعا... لیٰ سے عرض کی کہ میرے پروردگار میری مسلسل تبلیغ کے باوجود میری قوم تکذیب پر قائم ہے اس لیے اب میرے اور ان کے درمیان آخری فیصلہ فرما دے یعنی ان پر عذاب نازل کر کے ان کو ہلاک کردے اور مجھ کو اور ایمان والوں کو اس عذاب سے بچا لے۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(116) اس پر قوم کے لوگوں نے کہا اے نوح (علیہ السلام) تو اگر اپنے طریق کار سے باز نہ آیا تو ضرور سنگسار کردیاجائے گا یعنی پتھروں سے کچل دیاجائے گا سالہا سال تک قوم سیی ہی کشمکش جاری رہی۔