Surat us Shooaraa

Surah: 26

Verse: 123

سورة الشعراء

کَذَّبَتۡ عَادُۨ الۡمُرۡسَلِیۡنَ ﴿۱۲۳﴾ۚۖ

'Aad denied the messengers

عادیوں نے بھی رسولوں کو جھٹلایا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Hud's preaching to His People `Ad Allah tells: كَذَّبَتْ عَادٌ الْمُرْسَلِينَ

ہود علیہ السلام اور ان کی قوم حضرت ہود علیہ السلام کا قصہ بیان ہو رہا ہے کہ انہوں نے عادیوں کو جو احقاف کے رہنے والے تھے اللہ کی طرف بلایا ۔ احقاف ملک یمن میں حضرموت کے پاس ریتلی پہاڑیوں کے قریب ہے ان کا زمانہ نوح علیہ السلام کے بعد کا ہے ۔ سورۃ اعراف میں بھی ان کا ذکر گزر چکا ہے کہ انہیں قوم نوح کا جانشین بنایا گیا اور انہیں بہت کچھ کشادگی اور وسعت دی گئی ۔ ڈیل ڈول دیا بڑی قوت طاقت دی پورے مال اولاد کھیت باغات پھل اور اناج دیا ۔ بکثرت دولت اور زر بہت سی نہریں اور چشمے جابجادئیے ۔ الغرض ہر طرح کی آسائش اور آسانی مہیا کی لیکن رب کی تمام نعمتوں کی ناقدری کرنے والے اور اللہ کے ساتھ شریک کرنے والوں نے اپنے نبی کو جھٹلایا ۔ یہ انہی میں سے تھے نبی نے انہیں سمجھایا بجھایا ڈرایا دھمکایا اپنا رسول ہونا ظاہر فرمایا ۔ اپنی اطاعت اور اللہ کی عبادت و وحدانیت کی دعوت دی جیسے کہ نوح علیہ السلام نے دی تھی ۔ اپنا بےلاگ ہونا طالب دنیا نہ ہونا بیان فرمایا ۔ اپنے خواص کا بھی ذکر کیا یہ جو فخر وریا کے طور پر اپنے مال برباد کرتے تھے اور اونچے اونچے مشہور ٹیلوں پر اپنی قوت کے اور مال کے اظہار کے لئے بلند وبالا علامتیں بناتے تھے اس فعل عبث سے انہیں ان کے نبی حضرت ہود علیہ السلام نے روکا کیونکہ اس میں بیکار دولت کا کھونا وقت کا برباد کرنا اور مشقت اٹھانا ہے جس سے دین دنیا کا کوئی فائدہ نہ مقصود ہوتا ہے نہ متصور ۔ بڑے بڑے پختہ اور بلند برج اور مینار بناتے تھے جس کے بارے میں ان کے نبی نے نصیحت کی کہ کیا تم یہ سمجھے بیٹھے ہو کہ یہیں ہمیشہ رہوگے محبت دنیا نے تمہیں آخرت بھلادی ہے لیکن یاد رکھو تمہاری یہ چاہت بےسود ہے ۔ دنیا زائل ہونے والی ہے تم خود فنا ہونے والے ہو ۔ ایک قرأت میں کانکم خالدون ہے ابن ابی حاتم میں ہے کہ جب مسلمانوں نے غوطہ میں محلات اور باغات کی تعمیر اعلی پیمانے پر ضروت سے زیادہ شروع کردی تو حضرت ابو درداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مسجد میں کھڑے ہو کر فرمایا کہ اے دمشق کے رہنے والو سنو! لوگ سب جمع ہوگئے تو آپ نے اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا کے بعد فرمایا کہ تمہیں شرم نہیں آتی تم خیال نہیں کرتے کہ تم نے وہ جمع کرنا شروع کردیا جسے تم کھا نہیں سکتے ۔ تم نے وہ مکانات بنانے شروع کردئیے جو تمہارے رہنے سہنے کے کام نہیں آتے تم نے وہ دور دراز کی آرزوئیں کرنی شروع کردیں جو پوری ہونی محال ہیں ۔ کیا تم بھول گئے تم سے اگلے لوگوں نے بھی جمع جتھا کر کے سنبھال سنبھال کر رکھا تھا ۔ بڑے اونچے اونچے پختہ اور مضبوط محلات تعمیر کئے تھے بڑی بڑی آرزوئیں باندھی تھیں لیکن نتیجہ یہ ہوا کہ وہ دھوکے میں رہ گئے ان کی پونجی برباد ہوگئی ان کے مکانات اور بستیاں اجڑگئیں ۔ عادیوں کو دیکھو کہ عدن سے لے کر عمان تک ان کے گھوڑے اور اونٹ تھے لیکن آج وہ کہاں ہیں؟ ہے کوئی ایسا بےوقوف کہ قوم عاد کی میراث کو دو درہموں کے بدلے بھی خریدے انکے مال ومکانات کا بیان فرما کر ان کی قوت وطاقت کا بیان فرمایا کہ بڑے سرکش ، بتکبر اور سخت لوگ تھے ۔ نبی علیہ صلوات اللہ نے انہیں اللہ سے ڈرنے اور اپنی اطاعت کرنے کا حکم دیا کہ عبادت رب کی کرو اطاعت اس کے رسول کی کرو پھر وہ نعمتیں یاد دلائیں جو اللہ نے ان پر انعام کی تھیں جنہیں وہ خود جانتے تھے ۔ مثلا چوپائے جانور اور اولاد باغات اور دریا پھر اپنا اندیشہ ظاہر کیا کہ اگر تم نے میری تکذیب کی اور میری مخالفت پر جمے رہے تو تم پر عذاب اللہ برس پڑے گا لالچ اور ڈر دونوں دکھائے مگر بےسود رہیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

1231عاد، ان کے جد اعلٰی کا نام تھا، جس کے نام پر قوم کا نام پڑگیا۔ یہاں عاد قبیلہ تصور کر کے کَذَّبَتْ (صیغہ مؤنث) لایا گیا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨٢] قوم نوح کے بعد جس قوم نے دنیا میں نامور اور سربلندی حاصل کی وہ یہی قوم عاد تپی جسے عاد اولیٰ بھی کہتے ہیں۔ یہ قوم اللہ تعالیٰ کی ہستی کی تو قائل تھی مگر شرک میں بری طرح مبتلا تھی۔ ان کا اصل وطن احقاف تھا۔ یہ قوم بڑی قد آور، مضبوط اور سرکش تھی۔ ان کی طرف اللہ تعالیٰ نے ہود (علیہ السلام) کو مبعوث فرمایا۔ اس قوم کا زمانہ عروج اڑھائی ہزارسال قبل مسیح کے لگ بھگ ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

كَذَّبَتْ عَادُۨ الْمُرْسَلِيْنَ ۔۔ : نوح (علیہ السلام) اور ان کے بعد چاروں انبیاء ( علیہ السلام) کے قصوں میں خاص طور پر تقویٰ اور اطاعت کے حکم اور تبلیغ رسالت پر کسی قسم کے بدلے کی نفی سے ظاہر ہوتا ہے کہ انبیاء کی بعثت کا بنیادی مقصد اللہ تعالیٰ کی معرفت، اس کی توحید اور اس کے رسولوں کی اطاعت کا حکم دینا ہے اور یہ کہ انبیاء ( علیہ السلام) دنیاوی طمع سے پاک ہوتے ہیں۔ 3 اس قصے کی اور نوح (علیہ السلام) کے قصے کی ابتدائی آیات ایک جیسی ہیں، اس لیے ان کی تفسیر دہرانے کی ضرورت نہیں۔ تقابل کے لیے دیکھیے سورة اعراف (٦٥ تا ٧٢) اور ہود (٥٠ تا ٦٠) مزید تفصیلات ان مقامات پر بھی ہیں، سورة حٰم السجدہ (١٣ تا ١٦) ، احقاف (٢١ تا ٢٦) ، ذاریات (٤١ تا ٤٥) ، قمر (١٨ تا ٢٢) اور سورة فجر (٦ تا ٨) قوم عاد کا مسکن حضر موت کے قریب اس جگہ تھا جسے اب ” الربع الخالی “ کہا جاتا ہے۔ دیکھیے سورة اعراف (٦٥) ۔ اِذْ قَالَ لَهُمْ اَخُوْهُمْ هُوْدٌ ۔۔ : ہود (علیہ السلام) کی تقریر سمجھنے کے لیے اس قوم کے متعلق وہ بنیادی معلومات نگاہ میں رہنا ضروری ہیں جو قرآن مجید میں مختلف مقامات پر مذکور ہیں۔ ان کے مطابق قوم نوح کی تباہی کے بعد اس قوم کو عروج عطا ہوا۔ (اعراف : ٦٩) جسمانی لحاظ سے یہ لوگ بڑے تنو مند اور زور آور تھے۔ (اعراف : ٦٩۔ حاقہ : ٧) اس قوم جیسی کوئی قوم پیدا نہیں کی گئی۔ (فجر : ٨) وہ نہایت ترقی یافتہ تھے، اونچے اونچے ستونوں والی بلند و بالا عمارتیں بنانے کی وجہ سے ان کی شہرت ہی ” ستونوں والے “ کے نام سے تھی۔ (فجر : ٦، ٧) مادی ترقی اور جسمانی قوت کی وجہ سے وہ سخت متکبر تھے اور کسی کو اپنے سے طاقتور نہیں مانتے تھے۔ (حٰم السجدہ : ١٥) ان کا سیاسی نظام بڑے بڑے سرکش جباروں کے ہاتھ میں تھا۔ (ہود : ٥٩) مذہبی لحاظ سے اللہ تعالیٰ کے منکر نہیں تھے بلکہ مشرک تھے، ایک اللہ کو معبود ماننے کے لیے تیار نہ تھے۔ (اعراف : ٧٠) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر قوم عاد نے پیغمبروں کو جھٹلایا جبکہ ان سے ان کی (برادری کے) بھائی ہود (علیہ السلام) نے کہا کہ کیا تم (خدا سے) ڈرتے نہیں ہو ؟ میں تمہارا امانت دار پیغمبر ہوں، سو تم اللہ سے ڈرو، اور میری اطاعت کرو، اور میں تم سے اس (تبلیغ) پر کوئی صلہ نہیں مانگتا، بس میرا صلہ تو رب العالمین کے ذمہ ہے، کیا تم (علاوہ شرک کے تکبر و تفاخر میں بھی اس درجہ مصروف ہو کہ) ہر اونچے مقام پر ایک یادگار (کے طور پر عمارت) بناتے ہو (تاکہ خوب اونچی نظر آوے) جس کو محض فضول (بلاضرورت) بناتے ہو اور (اس کے علاوہ جو رہنے کے مکان ہیں جن کی ایک درجہ ضرورت بھی ہے ان میں بھی یہ غلو ہے) کہ بڑے بڑے محل بناتے ہو (حالانکہ اس سے کم میں آرام مل سکتا ہے) جیسے دنیا میں تم کو ہمیشہ رہنا ہے (یعنی توسیع مکانات اور ایسے بلند محل اور ایسی مضبوطی اور ایسی یادگار تعمیرات اس وقت مناسب تھیں جبکہ دنیا میں ہمیشہ رہنا ہوتا، تو یہ خیال ہوتا کہ فراخ مکان بناؤ تاکہ آئندہ نسل میں تنگی نہ ہو کیونکہ ہم بھی رہیں گے اور وہ بھی رہیں گے اور بلند بھی بناؤ تاکہ نیچے جگہ نہ رہے تو ادھر رہنے لگیں گے اور مضبوط بناؤ تاکہ ہماری عمر طویل کے لئے کافی ہو اور یادگاریں بناؤ تاکہ ہمارے زندہ رہنے سے ہمارا ذکر زندہ رہے اور اب تو سب فضول ہے۔ بڑی بڑی یادگاریں بنی ہیں اور بنانے والے کا نام تک نہیں۔ موت نے سب کا نام مٹا دیا کسی کا جلدی اور کسی کا دیر میں) اور (اس تکبر کے سبب طبیعت میں سختی اور بےرحمی اس درجہ رکھتے ہو کہ) جب کسی پر داروگیر کرنے لگتے ہو تو بالکل جابر (اور ظالم) بن کر داروگیر کرتے ہو (ان برے اخلاق کا اس لئے بیان کیا گیا کہ یہ برے اخلاق اکثر ایمان اور اطاعت کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں) سو (چونکہ شرک اور گزشتہ برے اخلاق اللہ تعالیٰ کی ناخوشی اور عذاب کا سبب ہیں اس لئے) تم (کو چاہئے کہ) اللہ سے ڈرو اور (چونکہ میں رسول ہوں اس لئے) میری اطاعت کرو اور اس (اللہ) سے ڈرو (یعنی جس سے ڈرنے کو میں کہتا ہوں وہ ایسا ہے) جس نے تمہاری ان چیزوں سے امداد کی جن کو تم جانتے ہو (یعنی) چوپائے اور بیٹوں اور باغوں اور چشموں سے تمہاری امداد کی (تو منعم ہونے کا مقتضا یہ ہے کہ اس کے احکام کی بالکل مخالفت نہ کی جاوے) مجھ کو تمہارے حق میں (اگر تم ان حرکات سے باز نہ آئے) ایک بڑے سخت دن کے عذاب کا اندیشہ ہے (یہ ترہیب ہے اور اَمَدَّكُمْ بِاَنْعَامٍ الخ میں ترغیب تھی) وہ لوگ بولے کہ ہمارے نزدیک تو دونوں باتیں برابر ہیں خواہ تم نصیحت کرو اور خواہ ناصح نہ بنو (یعنی ہم دونوں حالتوں میں اپنے کردار سے باز نہ آویں گے اور تم جو کچھ کہہ رہے ہو) یہ تو بس اگلے لوگوں کی ایک (معمولی) عادت (ہے اور رسم) ہے (کہ ہر زمانہ میں لوگ مدعی نبوت ہو کر لوگوں کو یوں ہی کہتے سنتے رہے) اور (تم جو ہم کو عذاب سے ڈراتے ہو تو) ہم کو ہرگز عذاب نہ ہوگا غرض ان لوگوں نے ہود (علیہ السلام) کو جھٹلایا تو ہم نے ان کو (سخت آندھی کے عذاب سے) ہلاک کردیا، بیشک اس (واقعہ) میں (بھی) بڑی عبرت ہے (کہ احکام کی مخالفت کا کیا انجام ہوا) اور (باوجود اس کے) ان (کفار مکہ) میں اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے اور بیشک آپ کا رب زبردست (اور مہربان ہے (کہ عذاب دینے پر قادر بھی ہے اور رحمت سے مہلت بھی دے رکھی ہے۔ )

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

كَذَّبَتْ عَادُۨ الْمُرْسَلِيْنَ۝ ١٢٣ۚۖ كذب وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی: إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] ، ( ک ذ ب ) الکذب قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٢٣۔ ١٢٤) قوم عاد نے حضرت ہود (علیہ السلام) اور تمام ان پیغمبروں کو جن کا ہود (علیہ السلام) نے ذکر کیا جھٹلایا جب کہ ان کے نبی نے فرمایا کیا تم غیر اللہ کی پرستش سے نہیں ڈرتے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

88 For comparison, see Al-A'raf: 65-72, Hud: 50-60; and for further details of this story, see Ha Mim Sajdah: 13-16, AI-Ahqaf: 21-26, Az-Zariyat: 4145, AI-Qamar :18-22, Al-Haqqah: 4-8, and AI-Fajr: 6-8.

سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :88 تقابل کے لیے ملاحظہ ہو الاعراف ، آیات 65 تا 72 ۔ ہود ، 50 تا 60 ۔ مزید براں اس قصے کی تفصیلات کے لیے قرآن مجید کے حسب ذیل مقامات بھی نگاہ میں رہیں : حٰم السجدہ آیات 13 ۔ 16 ۔ الاحقاف ، 21 ۔ 26 الذاریات ، 41 ۔ 45 ۔ القمر 18 ۔ 22 ۔ الحاقہ 4 ۔ 8 ۔ الفجر 6 ۔ 8 ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(١٢٣ تا ١٤٠) اوپر کے رکوع میں حضرت نوح (علیہ السلام) اور ان کی امت کا ذکر تھا حضرت نوح ( علیہ السلام) کے بعد دوسرے نبی ہود گزرے ہیں اس رکوع میں ان کا اور ان کی امت کا ذکر ہے شروع میں یہ ہود (علیہ السلام) نے بھی اپنی امت کو وہی نصیحت کی جو نوح (علیہ السلام) نے اپنی امت کو کی تھی۔ حضرت نوح ( علیہ السلام) کا پڑپوتا ایک شخص عاد بن ارم تھا اس کی اولاد کو حضرت ہود ( علیہ السلام) کی امت کہتے ہیں تفسیر ثعلبی وغیرہ میں باغ ارم کی حکایت جو لکھی ہے کہ شداد بن عاد کا ایک باغ اور عمارت یمن کے ملک میں ہے اللہ کے حکم سے کبھی وہ باغ یمن کے ملک میں رہتا ہے کبھی عراق کے ملک میں آجاتا ہے سونے چاندی کی اینٹوں سے وہ عمارت بنی ہوئی ہے معاویہ (رض) کی خلافت میں لوگوں نے اس باغ اور عمارت کو دیکھا ہے یہ سب باتیں صحیح تفسیروں اور صحیح تاریخوں کی کتابوں میں بالکل نہیں ١ ؎ ہیں یہ حضرت ہود ( علیہ السلام) کی امت کے لوگ بڑے شہ زور اور صاحب قوت تھے تفسیر ابن حاتم میں ایک حدیث ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اس قوم عاد میں ایک شخص اتنا بڑا پتھر پہاڑوں سے لڑھکا دیا کرتا تھا جس سے اور قوم کے صدہا لوگ ہلاک ہوجایا کرتے تھے اور قرآن شریف میں بھی کئی جگہ اس قوم کے شہ زور ہونے کا ذکر ہے اس قوم کے لوگوں کو نمود کی عمارتیں بنانے کا بڑا شوق تھا انہیں بےفائدہ عمارتوں کے بنانے سے حضرت ہود (علیہ السلام) نے ان لوگوں کو روکا ہے حضرت ابو درداء صحابی (رض) جب دمشق کے ملک ٣ ؎ میں تھے انہوں نے دیکھا کہ دمشق کے مسلمان لوگ باغ اور مکان بنانے کی بڑی حرص کرتے ہیں اس پر انہوں نے سب لوگوں کو دمشق کی جامع مسجد میں جمع کر کے ایک خطبہ پڑھا تھا جس کا حاصل یہ ہے کہ اے لوگو تم قوم عاد نے اتنا کچھ بنا کر پھر آخر کو یہیں چھوڑ دیا ان عمارتوں کو کوئی دو کوڑی کو بھی نہیں پوچھتا ابوداؤد کی انس بن مالک کی معتبر روایت ٤ ؎ سے اوپر گزر چکا ہے کہ ایک صحابی (رض) نے ایک پختہ برج بنایا تھا جب وہ برج آپ کی نظر پڑا تو آپ نے ان کو صحابی (رض) سے بات نہ کی اور منہ پھیرلیا آخر ان صحابی نے وہ برج ڈھا ڈالا اور آپ نے یہ فرمایا کہ ضرورت سے زیادہ دنیا میں عمارت کا چھوڑ جانا بڑی وہاں کی چیز ہے۔ مسند امام احمد ‘ ترمذی اور ابن ماجہ کی حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کی معتبر ٥ ؎ روایت سے یہ بھی گزر چکا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک بورئیے پر سوئے تھے اس بوریئے کا نشان آپ کے جسم مبارک پر پڑگیا حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نے کہا کہ مجھ کو خبر ہوتی تو حضرت میں آپ کے لیے کچھ بچھونا پچھا دیتا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مجھ کو دنیا میں زیادہ پھنسنا منظور نہیں ہے دنیا میں فقط اتنا آرام لینا چاہتا ہوں جس طرح ایک مسافر ایک پیڑ کے نیچے ٹھہرا اور پھر اس نے اپنی راہ لی صحیح مسلم کی حضرت جابر (رض) کی حدیث ١ ؎ جس میں مری ہوئی بھیڑ بکری کی مثال دنیا کی حقارت کے باب میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمائی ہے اور مستورد بن شداد (رض) کی صحیح مسلم کی روایت جس میں دریا میں انگلی ڈبو کر نکالنے کی مثال دنیا کے حق میں فرمائی ہے یہ حدیثیں اور اس قسم کی حدیثیں اوپر گذر چکی ہیں حاصل کلام یہ ہے کہ دنیا ایک چند روزہ عارضی مقام ہے اس میں مضبوط عمارتیں یا باغ لگا کر جو کوئی دنیا پر زیادہ گرویدہ ہوتا ہے تو یہ کام اللہ اور اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہرگز پسند نہیں ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) کے صحیح قول کے موافق ریع کے معنے اونچی جگہ کے ہیں اسی مطلب کے ادا کرنے کے لیے شاہ صاحب نے ریع کا ترجمہ ٹیلے کے لفظ سے کیا ہے قوم ہود کے قصہ کا حاصل یہ ہے کہ کہ جب اپنی امت کے لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرح طرح کی نعمتیں یاد دلا کر بےفائدہ عمارتیں بنانے سے اور آپس کے ظلم و زیادتی سے ہود (علیہ السلام) نے منع کیا تو امت کے لوگوں نے سرکشی سے یہ جواب دیا کہ اے ہود ( علیہ السلام) تم ہم کو نصیحت نہ کیا کرو ہم تمہاری ایک نہ سنیں گے اور پچھلے لوگوں کی عادت کے موافق عیش و عشرت سے اپنی زندگی بسر کریں گے اور جس عذاب سے تم ہر وقت ہم کو ڈراتے ہو اس سے ہم نہیں ڈرتے اس کے بعد سورة ہود میں گزر چکا ہے کہ ایک سخت آندھی کے عذاب سے یہ قوم ہلاک ہوئی اسی کو فرمایا کہ ایسی شہ زور قوم کا ہوا جیسی چیز سے ہلاک ہوجانا اللہ کی قدرت کی ایک بڑی نشانی ہے لیکن علم الٰہی میں جو لوگ گمراہ ٹھہر چکے ہیں وہ اللہ کی قدرت کی نشانیوں سے بالکل غافل ہیں جب تک اللہ کو منظور ہوتا ہے یہ غافل لوگ غفلت سے اپنی زندگی بسر کرتے ہیں پھر جب اللہ تعالیٰ ان کو پکڑتا ہے تو پھر برباد کردیتا ہے صحیح بخاری و مسلم کے حوالہ سے ابوموسیٰ اشعری کی حدیث اوپر گذر چکی ہے وہی حدیث قوم ہود کی مہلت اور ہلاکت کی گویا تفسیر ہے جس کا حاصل وہی ہے جو قوم نوح ( علیہ السلام) کے قصہ میں بیان کیا گیا ہے۔ (١ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٣٤٢ ج ٣ تفصیل کے لیے دیکھئے ایضا تفسیر ابن کثیر ص ٥٠٨ ج ٤ تفسیر سورة الفجر ٢ ؎ ) (٣ ؎ تفسیر ابن کثیر (بحوالہ تفسیر ابن ابی حاتم) ص ٤١ ٣ ج ٣۔ ) (٤ ؎ بحوالہ مشکوۃ کتاب الرقاق فیصل دوسری۔ ) (٥ ؎ ایضا۔ ) (١ ؎ ایضا فصل اول۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(26:123) کذبت عاد ن المرسلین۔ ملاحظہ ہو 26:105 ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

10 ۔ عاد اس قوم کے ” جد اعلیٰ “ کا نام تھا۔ عرب عموماً اپنے مح اور ات میں کسی بڑے قبیلے یا قوم کو اس کے ” جد اعلیٰ “ کے نام سے تعبیر کرلیتے ہیں جیسا کہ نبی یا آل فلاں کہہ دیتے ہیں۔ (روح) ان کا مسکن حضرموت کے قریب اس جگہ تھا جس اب ” ربع خالی “ کہا جاتا ہے۔ (دیکھئے سورة اعراف آیت 315 اس قوم نے اگرچہ صرف حضرت ہود ( علیہ السلام) کو جھٹلایا لیکن چونکہ ایک پیغمبر کو جھٹلانا دراصل تمام پیغمبروں کی تکذیب ہے۔ اس لئے فرمایا گیا کہ ” عاد نے پیغمبروں کو جھٹلایا “۔ کما… فی قصہ نوح۔ (قرطبی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

آیات 123 تا 140 اسرار و معارف : ایسا ہی حال قوم عاد کا ہے جس نے اللہ کے رسولوں کی بات کا انکار کیا جبکہ ان کی طرف ہود (علیہ السلام) مبعوث ہوئے جو ان کے قومی بھائی تھے۔ اور انہیں وہی دعوت پہنچائی کہ اللہ سے ڈرو اور اپنے کردار کی اصلاح کرو۔ میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں اور نہایت امانت داری کے ساتھ اللہ کا پیغام پہنچا رہا ہوں لہذا خوف خدا اختیار کرو اور میری بات مانو جس کا تم سے کوئی معاوضہ بھی طلب نہیں کرتا بلکہ اپنی اجرت کا اللہ سے جو سب جہانوں کا پالنے والا ہے امیدوار ہوں۔ تم اپنی حالت پر غور کرو کہ ہر وادی میں تم سے بڑی بڑی یادگاریں تعمیر کی ہیں اور ضرورت سے زائد بڑے بڑے محل بناتے ہو جیسے تم نے ہمیشہ اسی دنیا میں رہنا ہو۔ بلا ضرورت بڑی عمارات اور یادگاریں تعمیر کرنا مذموم ہے : مفسرین کرام کے مطابق بلا ضرورت کروڑوں خرچ کر کے محض یادگاریں بنانا اور بلا ضرورت بڑے بڑے محلات بنانا شرعا قابل مذمت اور بہت برا ہے اور اگر حالم بنائے جب کہ ملک میں لوگ ضروریات زندگی کو ترس رہے ہوں تو یہ حرام ہے۔ نیز اس دنیاوی شوکت کی نمائش نے تمہارے دل بہت سخت کردئے ہیں اور اگر کسی سے مواخذہ کرتے ہو تو اس پر بہت سختی کرتے ہو۔ اور ظلم کی حد تک چلے جاتے ہو۔ یہ متکبرانہ انداز بیاں کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں ان سے باز آؤ اللہ سے ڈرو میری بات مان لو۔ ذرا سوچو اللہ نے تم پر کس قدر انعامات فرمائے ہیں مال اولاد ہنستے بستے گھر خوبصورت باغات او چشمے مگر ڈر اس بات کا ہے کہ تمہاری بداعمالی کسی دن بہت بڑا عذاب نہ لے آئے اور سب کچھ تباہ ہوجائے۔ وہ کہنے لگے کہ آپ کچھ کہیں یا نہ کہیں ہمرے نذدیک آپ کی بات کی کوئی اہمیت نہیں اور اس طرح کی باتیں پہلے بھی لوگ کیا کرتے تھے ہر زمانہ میں ایسے لوگ بھی ضرور ہوتے ہیں جو ایسی باتیں کرتے ہیں مگر کوئی عذاب نہیں آیا اور نہ ہی آئے گا۔ چناچہ جب انہوں نے نبی کی بات کا انکار ہی کردیا تو ان پر عذاب نازل ہوگیا اور وہ تباہ و برباد ہو کر مٹ گئے اس قصہ میں بھی عبرت کا سامان ہے مگر اس کے باوجود بھی اکثر لوگ ایمان سے محروم ہیں اور اللہ قادر ہے کہ ان کی گرفت کرے مگر یہ اس کی رحمت ہے کہ مہلت دے رکھی ہے۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن : آیت نمبر 123 تا 140 : اتبنون ( کیا تم تعمیر کرتے ہو) ‘ ریع (بلندی اونچائی) ‘ تعبثون ( بلا ضرورت کام کرتے ہو) ‘ مصانع (شان دار۔ مضبوط) تخلدون (تم ہمیشہ رہوگے) ‘ بطشتم (تم نے پکڑا۔ گرفت میں لیا) ‘ جبار ین ( زبردستی کرنے والے۔ ظالم لوگ) ‘ امدکم (اس نے تمہاری مدد کی) ‘ انعام (مویشی جانور) بنین (بن) بیٹے ‘ سوائ (برابر) ‘ وعظت (تونے نصیحت کی) ‘ خلق (عادتیں۔ رسمیں۔ اخلاق) ‘۔ تشریح : آیت نمبر 123 تا 140 : سورۃ الشعراء میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ‘ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور حضرت نوح (علیہ السلام) جیسے جلیل القدر پیغمبروں کی دین اسلامی کی سربلندی کے لئے جدوجہد ‘ کچھ لوگوں کا ایمان لا کر نجات پانا اور ان کی قوموں کی نافرمانیوں اور انکار کی وجہ سے جو شدید ترین عذاب آئے ان کا ذکر کرنے کے بعد اب قوم عاد کا ذکر کیا جارہا ہے جن کی اصلاح اور ہدایت کیلئے اللہ نے حضرت ہود (علیہ السلام) کو بھیجا تھا۔ قوم عاد جو عظیم الشان تہذیب و تمدن ‘ حکومت و سلطنت اور بےپناہ قوت و طاقت کی مالک تھی وہ بنیادی طور پر اللہ کی ہستی اور اس کی قدرت و طاقت کا انکار تو نہ کرتی تھی مگر اپنے ہاتھوں سے بنائے گئے ان بیشمار بتوں کو اپنا مشکل کشا اور سفارشی سمجھتی تھی جن کے متعلق ان کا یہ گمان تھا کہ اس دنیا میں اور آخرت میں یہ بت ہی ان کے کام آئیں گے اور سفارش کر کے جہنم سے نجات دلائیں گے۔ انہوں نے اپنی ہر خواہش اور تمنا کے لئے الگ الگ بت بنارکھے تھے جن سے اپنی منتیں اور مرادیں مانگا کرتے تھے۔ اللہ کے پیغمبر حضرت ہود (علیہ السلام) نے ان کی رہنمائی کرتے ہوئے فرمایا کہ اے میری قوم کے لوگو ! تم ایک اللہ کی عبادت و بندگی چھوڑ کر ان بیشمار بتوں کی عبادت و پرستش نہ کرو۔ یہ گمراہی ہے اس راستے کو چھوڑدو۔ برسوں سے ان بتوں کی پوجا کرنیوالے حیران و پریشان ہو کر کہنے لگے کہ کیا ہم اپنے ان معبودوں کی عبادت چھوڑ کر ایک بن دیکھے معبود کی عبادت و بندگی کریں۔ جبکہ ہمارے باپ دادا ان بتوں سے پانی حاجات اور مرادیں مانگ کر کامیاب ہوئے تھے۔ ان کا گمان تھا کہ ان کو جو طاقت وقوت اور عظمت ملی ہے وہ ان کے بتوں کی وجہ سے حاصل ہوئی ہے۔ وہ ان بتوں کو چھوڑ کر ایک اللہ کی عبادت و اطاعت قبول کرنے کو اپنے باپ دادا کی توہین سمجھتے تھے۔ کیونکہ ان کے باپ دادا اسی گمراہی میں مبتلا رہے تھے۔ جب حضرت ہود (علیہ السلام) نے ہر جگہ اور ہر مجلس میں ان باتوں کو کہنا شروع کیا تو قوم عاد کے لوگوں کا غصہ بڑھنا شروع ہوگیا۔ ابتداء میں ان لوگوں نے حضرت ہود (علیہ السلام) اور ان پر ایمان لانے والوں کا مذاق اڑانا شروع کیا۔ بھبتیاں کسیں ‘ دیوانہ اور مجنون کہا جب ان لوگوں نے تحریک کی سنجیدگی اور پھیلائو کو دیکھا تو اہل ایمان کو ستانا شروع کردیا۔ انہیں اپنی قوت و طاقت پر بڑا ناز اور گھمنڈ تھا کہنے لگے کہ اے ہود (علیہ السلام) ! ” من اشد منا قوۃ “ یعنی ہم سے زیادہ قوت و طاقت والا اور کون ہے ؟ کہنے لگے کہ تم جس عذاب کی دھمکیاں دیتے رہے ہو اسکی کوئی حقیقت نہیں ہے اس سے پہلے بھی ہم نے بہت سے لوگوں کی ایسی باتیں سنی ہیں۔ اگر تم واقعی سنجیدہ ہو اور سچ کہہ رہے ہو تو اس عذاب کو لے آئو جس کو تم بیان کرتے ہو تاکہ روز روز کی دھمکیوں سے جان چھوٹ جائے جسنے ہمارا جینا دو بھر کردیا ہے۔ حضرت ہود (علیہ السلام) نے فرمایا کہ واقعی تمہارے اعمال ایسے ہی ہیں کہ تمہارے اوپر عذاب آنے میں دیر نہیں لگنی چاہیے اور آخر کار اس قوم پر اتنا شدید عذاب آیا جس نے ان کو صفحہ ہستی سے مٹادیا۔ روایات میں آتا ہے کہ قوم عاد جسمانی طور پر مضبوط ‘ نہایت لمبے چوڑے ‘ طاقتور ‘ حسین و خوبصورت بہادر اور جنگ جو لوگ تھے۔ خوش حالی ‘ مال و دولت کی ریل پیل اور کثرت ‘ سرسبز و شاداب علاقے بلندو بالا ستونوں والی عمارتیں ‘ شاندار ترقیات نے ان کو نفس پرستی اور مادہ پرستی میں اس قدر ڈوبو دیا تھا کہ دنیا کی چیزوں اور فضول بلڈنگوں کی دوڑ نے ایک جنون کی شکل اختیار کرلی تھی۔ ان کی بلند وبالا عمارتوں کا مقصدمحض ایک دوسرے کو دکھا کر فخر و غرور کے علاوہ کچھ نہ تھا۔ وہ معیار زندگی کو بلند کرنے کی تگ ودو میں انسانی ہمدردی۔ معیار اخلاق اور انسانیت کی حدود کو پھلانگ کر اس قدر کمزور ‘ پست اور ذلیل ہوچکے تھے کہ وہ غریبوں ‘ محتاجوں ‘ بےکسوں پر ظلم و ستم کرنے میں ذرا بھی شرم محسوس نہ کرتے تھے ان کے نزدیک ایک غریب آدمی کسی ہمدردی اور انصاف کا مستحق نہیں تھا۔ لہٰذا وہ کمزوروں کے حقوق کو غصب کرنا اور ان پر ہر طرح کے ظلم و ستم کو جائز سمجھتے تھے ۔ وہ لوگ دولت کینشے میں سخت گیر ‘ ظالم ‘ جابر اور غرور وتکبر کے پیکر بن چکے تھے۔ قوم عاد کے اس فخر و غرور ‘ تکبر اور جھوٹے اعتماد نے بھی ان کو پیغمبر برحق حضرت ہود (علیہ السلام) کی بات سننے سے دور کردیا تھا۔ تاریخی اعتبار سے قوم عاد کا زمانہ حضرت عیسیٰ مسیح (علیہ السلام) کی پیدائش سے تقریباً دو ہزار سال پہلے تھا۔ قرآن کریم میں ” من بعد قوم نوح “ کہہ کر ان کو حضرت نوح (علیہ السلام) کے بعد آنے والی قوم میں شمار کیا ہے۔ قوم عاد کی بستیاں حضرت موت اور یمن میں خلیج فارس کے ساحلوں سے عراق کی حدود تک پھیلی ہوئی تھیں اور یمن ان کا دارالحکومت تھا۔ جب قوم عاد کا اخلاقی بگاڑ اور روحانی گمراہی اپنی انتہاؤں پر پہنچ گئی تو اللہ تعالیٰ نے اس قوم کو خواب غفلت سے جگانے ‘ آگاہ کرنے اور صراط مستقیم پر چلانے کے لئے حضرت ہود (علیہ السلام) کو بھیجا۔ حضرت ہود (علیہ السلام) کوئی اجنبی شخص نہ تھے بلکہ اس قوم کے وطنی اور قومی بھائی تھے۔ حضرت ہود (علیہ السلام) جن کی عمر مبارک تقریباً پونے پانچ سو سال کی ہوئی۔ پوری زندی لوگوں کو فکر آخرت ‘ قیامت کی ہولناکی اور توحید و رسالت کی عظمت بیان کرن کے ساتھ ساتھ بےجا فخر و غرور ‘ تکبر ‘ مال و دولت پر گھمنڈ ‘ فضول بلڈنگوں کی تعمیر اور ظلم و ستم سے روکنے کی بھر پورکوشش فرماتے رہے مگر قوم کی بےحسی ‘ بےعملی کا یہ حال تھا کہ وہ آپ کی باتوں کا اثر لینے کے بجائے مذاق اڑاتے ‘ طرح طرح سے ستاتے اور حضرت ہود (علیہ السلام) کو دیوانہ سمجھتے تھے ۔ حضرت ہود (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے فرمایا کہ میں نہایت دیانت کے ساتھ اللہ کا پیغام تم تک پہنچانے آیا ہوں۔ تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت و فرماں برداری اختیار کرو۔ فرمایا یہ سب کچھ کہنے اور سمجھانے کا مقصد یہ نہیں ہے کہ میں اس اصلاحی کام پر تم سے کسی صلہ ‘ بدلہ یا اجرت کا طلب گار ہوں کیونکہ میرا اجر تو اللہ رب العالمین کے ذمے ہے وہی بہترین بدلہ دینے والا ہے۔ فرمایا کہ دنیا دکھاوے ‘ شہرت اور نام و نمود کے لئے اونچے اونچے ٹیلوں پر بلند وبالا عمارتیں ‘ مینار اور سیر گاہیں اور فضول اور بےضرورت بلڈنگیں بنانا یہ تمہارے کام نہ آئے گا۔ اپنے اعمال کی فکر کرو کیونکہ اگر تمہاری نافرمانیوں کی وجہ سے وہ عذاب آگیا جو قوموں کو ان کی نافرمانیوں کی وجہ سے تباہ و برباد کرکے رکھ دیتا ہے تو یہ تمہاری بلند وبالا بلڈنگیں اور مال و دولت تمہارے کسی کام نہ آسکیں گے۔ تمہیں تو اس پر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اللہ نے تمہیں صحت مند اور تندرست بنایا۔ اولاد کی نعمتوں ‘ خوبصورت باغات ‘ بہتے چشموں اور خوش حالیوں سے نوازا ہے۔ اس پر اگر شکر کرو گے تو اللہ تمہیں اس سے بھی زیادہ عطا فرمائے گا بلکہ آخرت کی کامیابیاں بھی عطا فرمائے گا۔ لیکن اگر تم نے اپنی روش زندگی کو تبدیل نہ کیا اور اسی طرح اللہ کی کھلی ہوئی نافرمانیوں میں لگے رہے تو مجھے ایک بہ تبڑے دن کی عذاب کا اندیشہ ہے۔ قوم عاد کا جواب یہ تھا کہ اے ہود (علیہ السلام) ! تم ہمیں نصیحت کرو یا نہ کرو ہمارے لئے یکساں ہے تم جو کچھ کہہ رہے ہو وہ پہلے کے لوگ بھی کہتے آئے ہیں۔ ہمیں اس بات کا یقین ہے کہ تم جس عذاب کی باتیں کررہے ہو وہ ہمارے اوپر نہیں آئے گا کیونکہ قوت و طاقت میں ہم سے بڑھ کر کوئی نہیں ہے۔ اس طرح وہ حضرت ہود (علیہ السلام) کو مسلسل جھٹلاتے رہے اور کہنے لگے کہ اے ہود (علیہ السلام) ! اگر واقعی کوئی عذاب آنے والا ہے تو ہمیں اس کی پرواہ نہیں ہے۔ تم وہ عذاب بس لے ہی آئو جس کی دھمکیاں سن سن کر ہمارے کان پک گئے ہیں۔ حضرت ہود (علیہ السلام) نے فرمایا کہ میں تمہیں ہر طرح سمجھا چکا ہوں مگر تمہاری نافرمانیاں اس بات کی علامت ہیں کہ اللہ کا وہ عذاب تم سے دور نہیں ہے۔ اللہ نے ان کی ان نافرمانیوں پر فوراً ہی اپنا عذاب نازل نہیں کیا بلکہ ان کو آگاہ کرنے کے لئے ان پر خشک سالی کا عذاب مسلط کیا۔ بارش برسنا بند ہوگئی جس سے ان کی کھیتیاں اس طرح خشک ہوگئیں کہ ان کے کھیتوں میں سوائے کانٹے دار درختوں کے کچھ بھی نہ اگ سکا۔ اس عذاب سے گھبراکر انہوں نے حضرت ہود (علیہ السلام) سے اس قحط سالی کے دور ہونے کے لئے دعا کی درخواست کی چونکہ اللہ کے پیغمبر اپنی قوم پر انتہائی شفیق ‘ مہربان اور انکے خیر خواہ ہوتے ہیں لہٰذا انہوں نے قوم کی اس مشکل کے دورہونے کی دعا کی جو قبول کرلی گئی۔ اس طرح وقتی طور پر قحط کا خطرہ ٹل گیا مگر ان کے کھیتوں کی رونقیں بحال نہ ہوئیں۔ ہر روز وہ امید بھری نظروں سے آسمان کی طرف دیکھتے کہ شاید بارش ہوجائے مگر یہ خشک سالی بڑھتی گئی۔ ایک دن اچانک آسمان پر بادل آنا شروع ہوگئے اور وہ بادل گہرے ہوتے چلے گئے۔ اس وقت بھی وہ اللہ کا شک ادا کرنے کے بجائے اپنے کھیل کود ‘ رنگ رلیوں اور بدمستیوں میں لگ کر خوشیاں منانے لگے مگر اس وقت ان کی امیدوں پر پانی پھر گیا جب ان بادلوں سے بارش برسنے کے بجائے تیز ہواؤں کے جھونکے آنا شروع ہوگئے اور آہستہ آہستہ اس ہوا نے آندھی اور طوفان کی شکل اختیار کرلی۔ تیز طوفانی ہواؤں سے گھروں کی چھتیں اڑگئیں ‘ بڑے بڑے درخت ٹوٹ ٹوٹ کر گرنے اور جڑوں سے اکھڑنے لگے۔ آندھی کی شدت کا یہ عالم تھا کہ اس نے لوگوں کو اٹھا اٹھا کر پتھروں سے ٹکرادیا جس سے ان کی گردنیں ٹوٹ گئیں۔ مکانوں کی دیواریں اور چھتیں گر کر اڑنا شروع ہوگئیں۔ غرضیکہ اس آندھی اور طوفان کی شدت نے ان کے فخر و غرور کی ہر چیز کو تہس نہس کرڈالا۔ یہ آندھی اور طوفان مسلسل آٹھ دن اور سات راتوں تک جاری رہا۔ جب تک اس قوم کا نافرمان ایک ایک فرد ختم نہ ہوگیا اس وقت تک اس طوفان کی شدت میں کمی نہیں آئی۔ اللہ نے بتادیا کہ اس نافرمان قوم کی ترقیات ‘ تہذیب و تمدن ‘ بلندو بالا عمارتیں کسی کام نہ آسکیں اور کھنڈر بن کر ان کے انجام کی داستانیں سنانے کے لئے کھڑ رہ گئیں۔ اس کے برخلاف اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ سے حضرت ہود (علیہ السلام) اور ان پر ایمان والوں کو نجات عطا فرمادی اور ان کا کوئی نقصان نہیں ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس واقعہ میں عبرت و نصیحت کے بیشمار پہلو موجود ہیں۔ لیکن ان نشانیوں کے باوجود جو لوگ ان سچائیوں کو نہیں مانتے جن پر تاریخ کے اوراق بھی گواہ ہیں تو یہ ان کی بدنصیبی ہے مگر اللہ تعالیٰ جو ساری طاقتوں کا مالک ہے اپنے بندوں کو سنبھلنے کی مہلت دیئے چلا جارہا ہے۔ اگر انہوں نے ان واقعات سے عبرت و نصیحت حاصل کرلی تو دنیا اور آخرت کی تمام کامیابیاں ان کے قدم چو میں گی۔ ان آیات میں کفار مکہ اور قیامت تک آنے والے لوگوں کو بتادیا گیا ہے کہ جب تک انسان کے پاس توبہ کا وقت موجود ہے تو وہ توبہ کر کے ایمان اور عمل صالح کا راستہ اختیار کرلے۔ لیکن اگر یہ وقت نکل گیا تو پھر سوائے پچھتانے اور شرمندہ ہونے کے کچھ بھی ہاتھ نہ آئے گا۔ اگر کفار مکہ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت و فرماں برداری نہ کی اور تاریخ کی ان سچائیوں سے عبرت حاصل نہ کی تو پھر ان کا انجام گزری ہوئی قوموں سے مختلف نہیں ہوگا۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : قوم نوح کی غرقابی کے بعد قوم عاد کا کردار اور انجام۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کے بعد حضرت ھود کی قوم کا تذکرہ شروع ہوتا ہے نہ معلوم حضرت ھود نے اپنی قوم کو کتنا عرصہ کس کس انداز سے سمجھایا۔ ان کے سمجھانے کا انداز بھی وہی تھا جو حضرت نوح (علیہ السلام) نے اختیار فرمایا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ھود (علیہ السلام) کو ان کی قوم کا بھائی قرار دیا کیونکہ وہ حسب ونسب کے اعتبار سے اپنی قوم کے فرد تھے۔ لیکن قوم عاد نے انھیں اسی طرح ٹھکرایا جس طرح قوم نوح نے حضرت نوح (علیہ السلام) کو ٹھکرایا تھا۔ حالانکہ حضرت ھود (علیہ السلام) نے انھیں بار بار نصیحت فرمائی کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرو۔ کفر و شرک اور برے کاموں کو چھوڑ دو اور میرے پیچھے چلو۔ میں پوری دیانت و امانت کے ساتھ تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہارے لیے رسول منتخب کیا گیا ہوں۔ اس خدمت پر میں آپ سے کوئی اجر طلب نہیں کرتا، میرا اجر رب العالمین کے ذمہ ہے۔ حضرت ھود (علیہ السلام) نے انھیں سمجھایا کہ تم ہر اونچی جگہ پر یاد گاریں بناتے ہو اور تم بےجا بڑے بڑے محلات تعمیر کرتے ہو جیسے تم نے دنیا میں ہمیشہ رہنا ہے۔ تم میں یہ برائی بھی موجود ہے کہ جب کسی پر گرفت کرتے ہو تو تمھاراروّیہ ظالموں اور خدا کے باغیوں جیسا ہوتا ہے۔ میں تمہیں پھر سمجھتا تا ہوں کہ اللہ سے ڈرو میں اس کا رسول ہوں اور میری تابعداری کرو۔ حضرت ھود (علیہ السلام) کا تعلق عرب کے عاد قبیلے سے تھا جن کی رہائش موجودہ جغرافیے کے مطابق عمان اور یمن کے علاقے حضرموت کے درمیان تھی۔ یہ علاقہ سمندر کے کنارے پر واقع تھا۔ یہاں ریت کے بڑے بڑے ٹیلے اور بلندوبالا پہاڑ تھے۔ قوم عادجسمانی اعتبار سے دراز قامت، کڑیل جوان اور قوی ہیکل تھے۔ دنیا میں ان کا کوئی ثانی نہیں ہوا۔ انھوں نے پہاڑتراش، تراش کر خوبصورت محلات تعمیر کر رکھے تھے۔ ان کی سرزمین نہایت سر سبزتھی جس میں ہر قسم کے باغات آراستہ تھے انھیں قرآن مجید میں ” احقاف والے “ بھی کہا گیا ہے۔ احقاف ریت کے بڑے بڑے ٹیلوں کو کہا جاتا ہے جو عرب کے جنوب مغربی حصہ میں واقع تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اسی علاقہ میں حضرت ھود (علیہ السلام) کو مبعوث فرمایا جو خوش اندام کڑیل جوان اور بہترین صورت و سیرت کے حامل تھے۔ مسائل ١۔ حضرت ھود (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کی تلقین فرمائی۔ ٢۔ حضرت ھود (علیہ السلام) نے بار بار اپنی قوم کو فرمایا کہ میں اللہ کا رسول ہوں اور میں تم سے اس خدمت کا کوئی معاوضہ وصول نہیں کروں گا۔ ٣۔ حضرت ھود (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو شان و شوکت کے اظہار اور تفریح طبع کے لیے بڑی بڑی یاد گاریں بنانے سے منع کیا۔ ٤۔ حضرت ھود (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو سمجھایا کہ انسان نے دنیا میں ہمیشہ نہیں رہنا۔ ٥۔ قوم عاد کے لوگ بڑے ظالم اور سفاک تھے وہ اپنے مخالف پر مظالم ڈھایا کرتے تھے۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

درس نمبر ١٦٥ تشریح آیات ١٢٣……تا……١٤٠ قوم ہود احقاف میں رہتی تھی۔ یہ حضر موت کے قریب یمن کی طرف ریت کے ٹیلے ہیں۔ یہ قوم نوح (علیہ السلام) کے بعد بڑی ترقی یافتہ قوم رہی حضرت نوح (علیہ السلام) کے زمانہ میں کراہ ارض کو سرکشوں سے پاک کردیا تھا گیا جنہیں آپ کے بعد اپنی تقریر کی وجہ سے یہ لوگ سرکش ہوگئے۔ سورت اعراف میں ان کا قصہ متصلا آیا ہے۔ سورت ہود میں بھی آیا ہے۔ سورت مومنین میں یہ قصہ حضرت ہود کے ذکر کے بغیر آیا ہے۔ اس میں ان کا نام عاد بھی نہیں لیا گیا۔ یاں بھی اس قصے کو بڑے اختصار کے ساتھ لیا گیا ہے۔ حضرت ہو داپنی قوم کو دعوت دیتے ہیں۔ قوم تکذیب کرتی ہے اور اللہ کی طرف سے مکذبین ہلاک کردیئے جاتے ہیں۔ اس کا آغاز بھی یوں ہوتا ہے جس طرح قصہ نوح کا آغاز ہوا تھا۔ کذبت عاد……رب العلمین (١٢٧) ایک ہی بات ہے جسے تمام رسول دہراتے نظر آتے ہیں۔ اللہ کی طرف آ جائو ، خدا سے ڈرو اور رسول کی اطاعت کرو ، اور دنیا پرستی کو چھوڑ دو اور دنیا کا ساز و سامان اور ترقی مومن کی منزل مقصود نہیں ہے۔ محض دنیا کے ساز و سامان سے ذرا بلند ہو کر کا مک رو ، اور اللہ کے نزدیک جو عظیم اجر موجود ہے اس پر نظریں گاڑے رہو۔ اس کے بعد بعض اضافی باتوں کا ذکر کیا جاتا ہے جو اس قوم کے مخصوص افعال تھے۔ بتایا جاتا ہے کہ تم بڑے بڑے مکانات بنانے میں سخت اسراف اور فضول خرچی سے کام لیتے ہو محض عظمت کے اظہار کے لئے دولت کی نمائش کے لیے ۔ بڑے بڑے پلازے اور ملٹی سٹوری بلڈنگز ، مزید یہ کہ تم نے دنیا کی مادی قوتوں کو مسخر کرلیا ہے اور اس پر نازاں ہو اور اللہ کی قوت سے غافل ہو جو تمہیں ہر وقت دیکھ رہا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

ٖٖحضرت ھود (علیہ السلام) کی بعثت، قوم عاد کی تکذیب اور بربادی مذکورہ بالا آیات میں حضرت ھود (علیہ السلام) کی قوم کا واقعہ ذکر فرمایا ہے آپ قوم عاد کی طرف مبعوث ہوئے تھے آپ نے بھی ان سے وہ باتیں کیں جن کا حضرت نوح (علیہ السلام) کے واقعہ میں ذکر ہوا۔ آپ نے فرمایا کہ میں تمہاری طرف اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں امانت دار ہوں تم اللہ سے ڈرو میری فرمانبر داری کرو مجھے تم سے کچھ لینا نہیں ہے میرا اجر وثواب صرف اللہ کے ذمہ ہے قوم عاد بڑی سر کش قوم تھی ان کے ڈیل ڈول بھی بڑے تھے جس کو سورة اعراف میں (وَزَادَکُمْ فِی الْخَلْقِ بَسْطَۃً ) سے تعبیر فرمایا ہے اور سورة فجر میں ان کے بارے میں (اَلَّتِیْ لَمْ یُخْلَقْ مِثْلُھَا فِی الْبَلاَدِ ) فرمایا ہے (ان جیسے لوگ زمین کے حصوں میں پیدا نہیں کیے گئے) یہ لوگ اونچی جگہوں پر یاد گار کے طور پر بڑی بڑی عمارتیں بناتے تھے جو ایک عبث اور فضول کام تھا ان چیزوں کی ضرورت بالکل نہ تھی محض فخر و شیخی میں اس طرح کی عمارتیں بناتے تھے (اَتَبْنُوْنَ بِکُلِّ ریعٍ اٰیَۃً تَعْبَثُوْنَ ) میں اس کا تذکرہ فرمایا اس کا ایک مطلب تو یہی ہے کہ بلا ضرورت تعمیر کر کے فضول کام کرتے ہو اور علامہ قرطبی نے ایک مطلب یہ لکھا ہے کہ تم لوگ اوپر بیٹھ بیٹھ کر راہگیروں کا مذاق بناتے اور ان کے ساتھ مسخرہ پن کرتے ہو۔ اپنے رہنے کے لیے بھی یہ لوگ بڑے بڑے مضبوط محل بناتے تھے اور ان کا ڈھنگ ایسا تھا کہ گویا انہیں ہمیشہ دنیا ہی میں رہنا ہے اس کو فرمایا (وَتَتَّخِذُوْنَ مَصَانِعَ لَعَلَّکُمْ تَخْلُدُوْنَ ) لعل عربی زبان میں ترجی کے لیے آتا ہے مطلب یہ ہے کہ تم یہ آرزو لیے بیٹھے ہو کہ دنیا میں ہمیشہ رہو گے اسی لیئے تو اتنی پختہ عمارتوں کے دلدادہ بنے ہوئے ہو، بعض حضرات نے لعل کو بمعنی کی بتایا ہے ای کی ما تخلدون لا تتفکرون فی الموت (یعنی تم اسی لیے مضبوط محل بناتے ہوتا کہ دنیا میں ہمیشہ رہو اسی لیے موت کے بارے میں فکر منہ نہیں ہوتے) اور حضرت ابن عباس (رض) اور قتادہ نے کان کے معنی میں لیا ہے یعنی تم ایسے گھر بناتے ہو گویا کہ تم ان میں ہمیشہ رہو گے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

50:۔ یہ چوتھی نقلی دلیل اور تخویف دنیوی ہے۔ ” اذ قال لھم اخوھم ھود “ تا ” ان اجری الا علی رب العلمین “ اس کی تفسیر ابھی گذری ہے۔ ” اتبنون بکل ریع الخ “ ریع بلند جگہ، آیۃ علامت، مینار، مصانع، عالیشان محلات۔ حضرت ہود (علیہ السلام) نے قوم کو دعوت توحید دینے کے بعد متنبہ فرمایا کہ تم ہر بلند پہاڑ اور ٹیلے پر شان و شوکت کے اظہار کے لیے بےمقصد اونچے اونچے مینار بنا رہے ہو اور بڑی عالیشان عمارتیں تعمیر کر رہے ہو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تم دنیا میں ہمیشہ رہنے کی امیدیں باندھے بیٹھے ہو۔ ” واذا بطشتم الخ “ پہلا ’ بطشتم “ ‘ شرط اور دوسرا جزا ہے اور جبراین، بطشتم ثانی کے فاعل سے حال ہے یعنی دولت وریاس کے خمار میں غریبوں میں پر ٖظلم و جبر بھی کرتے ہو۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(123) اور عاد والوں نے بھی پیغمبروں کو جھٹلایا اور پیغمبروں تک تکذیب کی عاد اور ثمود عرب کی مشہور بستیاں ہیں حضرت ہود (علیہ السلام) کی قوم کو عاد کہتے ہیں۔