Surat us Shooaraa

Surah: 26

Verse: 124

سورة الشعراء

اِذۡ قَالَ لَہُمۡ اَخُوۡہُمۡ ہُوۡدٌ اَلَا تَتَّقُوۡنَ ﴿۱۲۴﴾ۚ

When their brother Hud said to them, "Will you not fear Allah ?

جبکہ ان سے ان کے بھائی ہود نے کہا کہ کیا تم ڈرتے نہیں؟

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

إِذْ قَالَ لَهُمْ أَخُوهُمْ هُودٌ أَلاَ تَتَّقُونَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

1241ہود (علیہ السلام) کو بھی عاد کا بھائی اس لئے کہا گیا ہے کہ ہر نبی اسی قوم کا ایک فرد ہوتا ہے، جس کی طرف اسے مبعوث کیا جاتا تھا اور اسی اعتبار سے انھیں اس قوم کا بھائی قرار دیا گیا۔ جیسا کہ آگے بھی آئے گا اور انبیاء ورسل کی یہ بشریت بھی ان کی قوموں کے ایمان لانے میں رکاوٹ بنی رہی ہے ان کا خیال تھا کہ نبی کو بشر نہیں، مافوق البشر ہونا چاہیے آج بھی اس مسلمہ حقیقت سے بیخبر لوگ پیغمبر اسلام حضرت نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مافوق البشر باور کرانے پر تلے رہتے ہیں حالانکہ وہ بھی خاندان قریش کے ایک فرد تھے جن کی طرف اولا ان کو پیغمبر بنا کر بھیجا گیا تھا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِذْ قَالَ لَہُمْ اَخُوْہُمْ ہُوْدٌ اَلَا تَتَّقُوْنَ۝ ١٢٤ۚ هود الْهَوْدُ : الرّجوع برفق، ومنه : التَّهْوِيدُ ، وهومشي کالدّبيب، وصار الْهَوْدُ في التّعارف التّوبة . قال تعالی: إِنَّا هُدْنا إِلَيْكَ [ الأعراف/ 156] أي : تبنا، وهُودٌ في الأصل جمع هَائِدٍ. أي : تائب وهو اسم نبيّ عليه السلام . ( ھ و د ) الھود کے معنی نر می کے ساتھ رجوع کرن ا کے ہیں اور اسی سے التھدید ( تفعیل ) ہے جسکے معنی رینگنے کے ہیں لیکن عرف میں ھو د بمعنی تو بۃ استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے . : إِنَّا هُدْنا إِلَيْكَ [ الأعراف/ 156] ھود اصل میں ھائد کی جمع ہے جس کے معنی تائب کے ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کے ایک پیغمبر کا نام ہے ۔ وقی الوِقَايَةُ : حفظُ الشیءِ ممّا يؤذيه ويضرّه . يقال : وَقَيْتُ الشیءَ أَقِيهِ وِقَايَةً ووِقَاءً. قال تعالی: فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان/ 11] ، والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] ( و ق ی ) وقی ( ض ) وقایتہ ووقاء کے معنی کسی چیز کو مضر اور نقصان پہنچانے والی چیزوں سے بچانا کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان/ 11] تو خدا ان کو بچا لیگا ۔ التقویٰ اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

89 In order to understand this discourse of Prophet Hud fully, we should keep in mind the various details about the people of `Ad which the Qur'an has given at different places: For instance, it says: (1) After the destruction of the people of Noah, the `Ad were given power and prominence in the world: "Do not forget that after Noah's people your Lord made you the successors." (Al-A`raf: 69). (2) Physically they were very robust and powerful people: " .... and made you very robust." (Al-A`raf: 69). (3)They had no parallel as a nation in the world: "The like of which was not created in the lands." (A1-Fajr: 8). (4) They were civilized and were well-known in the world for their great skill and art in erecting lofty buildings with tall columns: "Have you not seen what your Lord did with `Ad lram, of lofty columns?" (Al-Fajr: 6, 7). (5) This material progress and physical power had made them arrogant and vain: "As for `Ad, they deviated from the right path and adopted an arrogant attitude in the land and said, `who is mightier than we in power'?" (Ha Mim Sajdah: 15) . (6) Their political power was in the hands of a few tyrants before whom none could dare raise his voice: "....and they followed and obeyed every tyrannous enemy of the Truth." (Hud: 59) . (7) They were not disbelievers in the existence of Allah, but were involved in shirk; they only denied that Allah alone should be worshipped and none else: "They said (to Hud), `Have you come to us (with the demand) that we should worship Allah alone and discard those whom our elders have been worshipping?" (Al-A`raf: 70).

سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :89 حضرت ہود کی اس تقریر کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس قوم کے متعلق وہ معلومات ہماری نگاہ میں رہیں جو قرآن مجید نے مختلف مقامات پر ہمیں بہم پہنچائی ہیں ان میں بتایا گیا ہے کہ : قومِ نوح کی تباہی کے بعد دنیا میں جس قوم کو عروج عطا کیا گیا وہ یہ تھی : وَاذْکُرُوْآ اِذْ جَعَلَکُمْ خُلَفَآءَ مِنْ بَعْدِ قَوْمِ نُوْحٍ ۔ ( الاعراف ۔ آیت 69 ) یاد کرو ( اللہ کے اس فضل و انعام کو کہ ) نوح کی قوم کے بعد اس نے تم کو خلیفہ بنایا ۔ جسمانی حیثیت سے یہ بڑے تنو مند اور زور آور لوگ تھے : وَزَادَکُمْ فِی الْخَلْقِ بَصْطَۃً ( الاعراف ، آیت 69 ) اور تمہیں جسمانی ساخت میں خوب تنو مند کیا ۔ اپنے دور میں یہ بے نظیر قوم تھی ۔ کوئی دوسری قوم اس کی ٹکر کی نہ تھی: اَلَّتِیْ لَمْ یُخْلَقْ مِثْلُھَا فِی الْبِلَادِ ( الفجر ، آیت 8 ) جس کے مانند ملکوں میں کوئی قوم پیدا نہیں کی گئی ۔ اس کا تمدن بڑا شاندار تھا ، اونچے اونچے ستونوں کی بلند و بالا عمارتیں بنانا اس کی وہ خصوصیت تھی جس کے لیے وہ اس وقت کی دنیا میں مشہور تھی : اَلَمْ تَرَ کَیْفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِعَادٍ اِرَمَ ذَاتِ الْعِمَادِO ( الفجر ، آیات 6 ۔ 7 ) تو نے دیکھا نہیں کہ تیرے رب نے کیا کیا ستونوں والے عادِ ارم کے ساتھ؟ اس مادی ترقی اور جسمانی زور آوری نے ان کو سخت متکبر بنا دیا تھا اور انہیں اپنی طاقت کا بڑا گھمنڈ تھا: فَاَمَّا عَادٌ فَاسْتَکْبَرُوْا فِی الْاَرْضِ بِغَیْرِ الحَقِّ وَقَالُوْا مَنْ اَشَدُّ مِنَّا قُوَّ ۃً ۔ ( حٰم السجدہ ۔ آیت 15 ) رہے عاد ، تو انہوں نے زمین میں حق کی راہ سے ہٹ کر تکبر کی روش اختیار کی اور کہنے لگے کہ کون ہے ہم سے زیادہ زور آور ۔ ان کا سیاسی نظام چند بڑے بڑے جباروں کے ہاتھ میں تھا جن کے آگے کوئی دم نہ مار سکتا تھا : وَاتَّبَعُوْآ اَمْرَ کُلِّ جَبَّارٍ عَنِیْدٍ O ( ہود ۔ آیت 59 ) اور انہوں نے ہر جبار دشمن حق کے حکم کی پیروی کی ۔ مذہبی حیثیت سے یہ اللہ تعالیٰ کی ہستی کے منکر نہ تھے ، بلکہ شرک میں مبتلا تھے ۔ ان کو اس بات سے انکار تھا کہ بندگی صرف اللہ کی ہونی چاہیے : قَالُوْآ اَجِئْتَنَا لِنَعْبُدَ اللہَ وَحْدَہٗ وَنَذَرَ مَا کَانَ یَعْبُدُ اٰبَآؤْنَا ۔ ( الاعراف آیت 70 ) انہوں نے ( ہود سے ) کہا کیا تو ہمارے پاس اس لیے آیا ہے کہ ہم صرف ایک اللہ کی بندگی کریں اور ان کو چھوڑ دیں جن کی عبادت ہمارے باپ دادا کرتے تھے ؟ ان خصوصیات کو نظر میں رکھنے سے حضرت ہود علیہ السلام کی یہ تقریر دعوت اچھی طرح سمجھ میں آ سکتی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

11 ۔ ” جو اسے چھوڑ کر بتوں کی پوجا کرتے ہو اور دوسرے کے حکموں پر چلتے ہو۔ “

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(124) جبکہ ان کے بھائی ہود (علیہ السلام) نے ان سے کہا کیا تم لوگ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے نہیں۔