Surat us Shooaraa
Surah: 26
Verse: 137
سورة الشعراء
اِنۡ ہٰذَاۤ اِلَّا خُلُقُ الۡاَوَّلِیۡنَ ﴿۱۳۷﴾ۙ
This is not but the custom of the former peoples,
یہ تو بس پرانے لوگوں کی عادت ہے ۔
اِنۡ ہٰذَاۤ اِلَّا خُلُقُ الۡاَوَّلِیۡنَ ﴿۱۳۷﴾ۙ
This is not but the custom of the former peoples,
یہ تو بس پرانے لوگوں کی عادت ہے ۔
This is no other than Khuluq of the ancients. Some scholars read this: "Khalq". According to Ibn Mas`ud and according to Abdullah bin Abbas -- as reported from Al-Awfi -- and Alqamah and Mujahid, they meant, "What you have brought to us is nothing but the tales (Akhlaq) of the ancients." This is like what the idolators of Quraysh said: وَقَالُواْ أَسَـطِيرُ الاٌّوَّلِينَ اكْتَتَبَهَا فَهِىَ تُمْلَى عَلَيْهِ بُكْرَةً وَأَصِيلً And they say: "Tales of the ancients, which he has written down, and they are dictated to him morning and afternoon." (25:5) And Allah said: وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُواْ إِنْ هَـذَا إِلاَّ إِفْكٌ افْتَرَاهُ وَأَعَانَهُ عَلَيْهِ قَوْمٌ ءَاخَرُونَ فَقَدْ جَأءُوا ظُلْماً وَزُوراً وَقَالُواْ أَسَـطِيرُ الاٌّوَّلِينَ ... Those who disbelieve say: "This is nothing but a lie that he has invented, and others have helped him in it. In fact, they have produced an injustice and a lie." And they say: "Tales of the ancients..." (25:4-5) وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ مَّاذَا أَنزَلَ رَبُّكُمْ قَالُواْ أَسَـطِيرُ الاٌّوَّلِينَ And when it is said to them: "What is it that your Lord has sent down" They say: "Tales of the ancient!" (16:24) Some other scholars recited it, إِنْ هَذَا إِلاَّ خُلُقُ الاَْوَّلِينَ (This is no other than Khuluq of the ancients), "as Khuluq," meaning their religion. What they were following was the religion of the ancients, their fathers and grandfathers, as if they were saying: "We are following them, we will live as they lived and die as they died, and there will be no resurrection and no judgement." Hence they said: وَمَا نَحْنُ بِمُعَذَّبِينَ
13 7 1یعنی وہی باتیں ہیں جو پہلے بھی لوگ کرتے آئے ہیں یا یہ مطلب ہے کہ ہم جس دین اور عادات و روایات پر قائم ہیں، وہ وہی ہیں جن پر ہمارے آباء و اجداد کار بند رہے، مطلب دونوں سورتوں میں یہ ہے کہ ہم آبائی مذہب کو نہیں چھوڑ سکتے۔
[٨٦] اس نصیحت کے جواب میں یہ سرکش قوم کہنے لگی کہ ایسی باتیں تو ہم بھی سنتے چلے آئے ہیں۔ کچھ لوگ نبی بن کر ایسی باتیں کیا کرتے ہیں کہ تم پر اللہ کا عذاب آئے گا اور مرتے جینے کا سلسلہ ان سے پہلے بھی چلتا تھا۔ بعد میں بھی چلتا رہا ہے اور آئندہ بھی چلتا رہے گا۔ لہذا تمہاری ایسی نصیحتیں ہمارے لئے بےکار ہیں۔ نہ ہم ان باتوں پر یقین رکھتے ہیں۔ امام بخاری نے خلق الاولین میں خلق سے دین مراد لیا ہے (بخاری۔ کتاب التفسیر۔ زیر تفسیر روم ( اس لحاظ سے اس کا مطلب یہ ہوگا کہ یہ تو پرانے لوگوں کا مذہب ہے۔ پرانے لوگ ایسی باتیں کیا کرتے تھے۔ مگر اب ایسے اولڈ فیشن لوگوں کا زمانہ لد چکا۔ موجودہ دور میں ایسے لوگوں کے لئے بنیاد پرست (Fundamental) کی اصطلاحی وضع کی گئی ہے۔ یعنی وہ لوگ جو اپنے عقیدہ و عمل میں اپنے نبی کی تعلیم پر سختی سے عمل پیرا ہوں اور نئی روشنی یا نئی تہذیب کو پرانی جہالت سمجھتے ہوں۔
اِنْ ھٰذَآ اِلَّا خُلُقُ الْاَوَّلِيْنَ ۔۔ : یعنی یہ بت پرستی، یادگاریں اور عالی شان عمارتیں بنانا اور اپنے مخالفین کے ساتھ ایسا سلوک کرنا کوئی ہمارا شیوہ ہی نہیں، یہی کچھ ہمارے پہلے باپ دادا کرتے آئے ہیں۔ ان کا دین بھی یہی تھا اور تمدن بھی یہی، نہ ان پر کوئی عذاب آیا نہ ہم پر آئے گا۔ آیت کا ایک مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ نصیحت کی یہ باتیں جو تم ہم سے کر رہے ہو کوئی نئی نہیں ہیں، پہلے بھی ایسے خبطی گزرے ہیں جو اس طرح کی باتیں کرتے رہے ہیں۔ ہم پر ان کا کچھ اثر نہیں، نہ ہمیں کوئی عذاب ہوگا۔
اِنْ ھٰذَآ اِلَّا خُلُقُ الْاَوَّلِيْنَ ١٣ ٧ۙ خُلُقُ ( جھوٹ) وكلّ موضع استعمل الخلق في وصف الکلام فالمراد به الکذب، ومن هذا الوجه امتنع کثير من النّاس من إطلاق لفظ الخلق علی القرآن وعلی هذا قوله تعالی: إِنْ هذا إِلَّا خُلُقُ الْأَوَّلِينَ [ الشعراء/ 137] ، وقوله : ما سَمِعْنا بِهذا فِي الْمِلَّةِ الْآخِرَةِ إِنْ هذا إِلَّا اخْتِلاقٌ [ ص/ 7] ، اور وہ ہر مقام جہاں خلق کا لفظ کلام کے متعلق استعمال ہوا ہے ۔ اس سے جھوٹ ہی مرا د ہے ۔ اس بنا پر الگ اکثر لوگ قرآن کے متعلق خلق کا لفظ استعمال نہیں کیا کرتے تھے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا :۔إِنْ هذا إِلَّا خُلُقُ الْأَوَّلِينَ [ الشعراء/ 137] یہ تو اگلوں کے ہی طریق ہیں اور ایک قراءت میں إِنْ هذا إِلَّا خُلُقُ الْأَوَّلِينَ [ الشعراء/ 137] بھی ہے یعنی یہ پہلے لوگوں کی ایجاد واختراع ہو ما سَمِعْنا بِهذا فِي الْمِلَّةِ الْآخِرَةِ إِنْ هذا إِلَّا اخْتِلاقٌ [ ص/ 7] یہ پچھلے مذہب میں ہم نے کبھی سنی ہی نہیں ۔ یہ بالکل بنائی ہوئی بات ہے ۔ خلق ۔ کا لفظ مخلوق کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔
آیت ١٣٧ (اِنْ ہٰذَآ اِلَّا خُلُقُ الْاَوَّلِیْنَ ) ” آپ ( علیہ السلام) ہمارے سامنے پرانے زمانے کی باتوں اور فرسودہ روایات کو دہرا رہے ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ باتیں تو بس یوں ہی چلی آئی ہیں۔
93 This can have two meanings: (1) "Whatever we are doing is not new but has been happening from the tune of our elders since centuries: they had the same creed, the same way of life, the same morality and the same kind of dealings and yet they remained unharmed and safe from every calamity. If there was any evil in this way of life, we should have met the doom with which you are threatening us." (2) "The things you are preaching have been preached and said before also by religious maniacs and so-called moralists, but they could not change the ways of the world. It has never happened that the world suffered a disaster only because people refused to listen to preachers like you."
سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :93 اس کے دو معنی ہو سکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ جو کچھ ہم کر رہے ہیں یہ آج کوئی نئی چیز نہیں ہے ، صدیوں سے ہمارے باپ دادا یہی کچھ کرتے چلے آ رہے ہیں ۔ یہی ان کا دین تھا ، یہی ان کا تمدن تھا اور ایسے ہی ان کے اخلاق اور معاملات تھے ۔ کون سی آفت ان پر ٹوٹ پڑی تھی کہ اب ہم اس کے ٹوٹ پڑنے کا اندیشہ کریں ۔ اس طرز زندگی میں کوئی خرابی ہوتی تو پہلے ہی وہ عذاب آ چکا ہوتا جس سے تم ڈراتے ہو ۔ دوسرے معنی یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ جو باتیں تم کر رہے ہو ایسی ہی باتیں پہلے بھی بہت سے مذہبی خبطی اور اخلاق کی باتیں بگھارنے والے کرتے رہے ہیں ، مگر دنیا کی گاڑی جس طرح چل رہی تھی اسی طرح چلے جا رہی ہے ۔ تم جیسے لوگوں کی باتیں نہ ماننے کا یہ نتیجہ کبھی بر آمد نہ ہوا کہ یہ گاڑی کسی صدمہ سے دو چار ہو کر الٹ گئی ہوتی ۔
28: اس کا یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ تم جو ہمیں دنیا کی شان و شوکت سے بیزار کر کے آخرت کی باتیں کر رہے ہو، پچھلے زمانے میں بھی لوگ اس طرح کے جھوٹے دعوے کرتے آئے ہیں، اس لیے تمہاری بات توجہ کے لائق نہیں ہے۔ اور یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ ہم جو کچھ کر رہے ہیں، یہ کوئی نئی بات نہیں ہے، بلکہ پرانے زمانے سے لوگ یہی کرتے آرہے ہیں۔ اس لیے اس پر اعتراض درست نہیں۔
(26:137) ان ھذا الا خلق الاولین میں ان نافیہ ہے۔ ھذا یہ پندو نصیحت اور یہ جزاء و سزا کے ڈراوے جو تم ہمیں سنا رہے ہو خلق اطوار و عادات الاولین پرانے لوگوں کی باتوں کی طرح ہیں وہ بھی ایسا ہی ڈرایا کرتے تھے۔
5 ۔ اس کے دو مطلب ہوسکتے ہیں ایک یہ کہ یہ نصیحت کی باتیں جو تم ہم سے کر رہے ہو کوئی نئی نہیں ہیں پہلے بھی ایسے خبطی گزرے ہیں جو اس طرح کی پاگل پن کی باتیں کرتے رہے ہی۔ (ان ھذا الالساطیر الاولین۔ اور دوسرا یہ کہ ہم جو کچھ کر رہے ہیں کوئی نئی چیز نہیں ہے پہلے بھی ہمارے باپ دادا یہی کرتے رہے ہیں۔ یہی ان کا دین تھا اور یہی ان کا اخلاق و تمدن۔ (کبیر و شوکانی)
53:۔ ” خلق، یعنی عادت۔ یہ عالیشان محل بنانا اور یادگاریں تعمیر کرنا اور دنیوی نعمتوں سے متمتع ہونا یا ایسا توحید کا وعظ سننا سنانا کوئی نئی بات نہیں بلکہ یہ تو ایک پرانی ریت اور ڈگر ہے جس پر پہلے لوگ چلے آرہے ہیں۔ تم سے پہلے کئی وعظ سنانے والے آئے مگر ہمارے باپ دادا اپنے دین پر قائم رہے اور ہم بھی ان کے دین پر قائم ہیں۔ وہ آئے اور چلے گئے، ہم بھی آئے ہیں اور آخر مرجائیں گے یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہے گا۔ کوئی حشر و نشر نہیں اور نہ کوئی جزاء و سزا ہے۔ ما ھذا الذی نحن علیہ من الدین الا خلق الاولین و عادتھم کانوا بہ یدینون و نحن بہم مقتدون او ما ھذا الذی نحن علیہ من الحیاۃ والموت الا عادۃ لم یزل علیہا الناس فی قدیم الدھر او ما ھذا الذی جئت بہ من الکذب الاعادۃ الاولین کانوا یلفقون مثلہ ویسطرونہ (کبیر ج 6 ص 536) ۔