Surat us Shooaraa
Surah: 26
Verse: 141
سورة الشعراء
کَذَّبَتۡ ثَمُوۡدُ الۡمُرۡسَلِیۡنَ ﴿۱۴۱﴾ۚۖ
Thamud denied the messengers
ثمودیوں نے بھی پیغمبروں کو جھٹلایا ۔
کَذَّبَتۡ ثَمُوۡدُ الۡمُرۡسَلِیۡنَ ﴿۱۴۱﴾ۚۖ
Thamud denied the messengers
ثمودیوں نے بھی پیغمبروں کو جھٹلایا ۔
Salih and the People of Thamud Allah tells: كَذَّبَتْ ثَمُودُ الْمُرْسَلِينَ إِذْ قَالَ لَهُمْ أَخُوهُمْ صَالِحٌ أَلاَ تَتَّقُونَ
صالح علیہ السلام اور قوم ثمود اللہ تعالیٰ کے بندے اور رسول حضرت صالح علیہ السلام کا واقعہ بیان ہو رہا کہ آپ اپنی قوم ثمود کی طرف رسول بنا کر بھیجے گئے تھے یہ لوگ عرب حجر نامی شہر میں رہتے تھے جو وادی القری اور ملک شام کے درمیان ہے ۔ یہ عادیوں کے بعد اور ابراہمیوں سے پہلے تھے شام کی طرف جاتے ہوئے آپ کا اس جگہ سے گزرنے کا بیان سورئہ اعراف کی تفسیر میں پہلے گزرچکا ہے ۔ انہیں ان کے نبی نے اللہ کی طرف بلایا کہ یہ اللہ کی توحید کو مانیں اور حضرت صالح علیہ السلام کی رسالت کا اقرار کریں لیکن انہوں نے بھی انکار کردیا اور اپنے کفر پر جمے رہے اللہ کے پیغمبر کو جھوٹا کہا ۔ باوجود اللہ سے ڈرتے رہنے کی نصیحت سننے کی پرہیزگاری اختیار نہ کی ۔ باوجود رسول امین کی موجودگی کے راہ ہدایت اختیار نہ کی ۔ حالانکہ نبی کا صاف اعلان تھا کہ میں اپنا کوئی بوجھ تم پر ڈال نہیں رہا میں تو رسالت کی تبلیغ کے اجرا کا صرف اللہ تعالیٰ سے خواہاں ہوں ۔ اس کے بعد اللہ کی نعمتیں انہیں یاد دلائیں ۔
14 1 1ثمود کا مسکن حضر تھا جو حجاز کے شمال میں ہے، آجکل اسے مدائن صالح کہتے ہیں۔ (ایسر التفاسیر) یہ عرب تھے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تبوک جاتے ہوئے ان بستیوں سے گزر کر گئے تھے، جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔
[٨٩] قوم عاد اولیٰ کے بعد یہی قوم ثمود، جسے عاد ثانیہ بھی کہتے ہیں، نامور ہوئی۔ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ قوم موسیٰ کا ذکر فرمایا، پھر قوم ابراہیم کا، پھر قوم نوح کا، پھر قوم عاد اولیٰ کا اور پانچویں نمبر پر قوم عاد ثانیہ کا ذکر ہے۔ اس قوم کے مسکن کو الحجر بھی کہا جاتا ہے۔ یہ تین چار سو کلومیٹر لمبا اور تقریباً سو کلومیٹر چوڑا علاقہ حجاز اور شام کے درمیان واقع ہے اور اس راستہ پر واقع ہے جو مدینہ سے تبوک جاتا ہے۔ اس قوم کے رنگ ڈھنگ تقریباً وہی تھے جو عاد اولیٰ کے تھے۔ اسی طرح کے تندمند اور قد آور اور مضبوط جسموں کے مالک تھے۔ اللہ تعالیٰ کی ہستی کے قائل ضرور تھے مگر شرک کی امراض میں بری طرح مبتلا تھے۔ بڑی متکبر اور سرکش قوم تھی۔ ان کی نمایاں خصوصیت یہ تھی کہ اعلیٰ درجہ کے انجینئر اور بہترین قسم کے سنگ تراش تھے۔ وہ اپنے فن کا مظاہرہ یوں کرتے کہ پہاڑوں میں پتھر تراش تراش کر اپنے عالیٰ شان مکان بنالیتے تھے۔ اسی طرح پہاڑوں کے اندر ہی اندر انہوں نے بستیوں کی بستیاں آباد کر رکھی تھیں۔
كَذَّبَتْ ثَمُوْدُ الْمُرْسَلِيْنَ ۔۔ : ثمود اور صالح (علیہ السلام) کا قصہ اس سے پہلے سورة اعراف (٧٣ تا ٧٩) ، ہود (٦١ تا ٦٨) ، حجر (٨٠ تا ٨٤) اور بنی اسرائیل (٥٩) میں گزر چکا ہے۔ مزید دیکھیے سورة نمل (٤٥ تا ٥٣) ، ذاریات (٤٣ تا ٤٥) ، قمر (٢٣ تا ٣١) ، فجر (٩) اور شمس (١١) ۔ اِنِّىْ لَكُمْ رَسُوْلٌ اَمِيْنٌ : صالح (علیہ السلام) کی قوم بھی ان کی امانت و دیانت اور غیر معمولی قابلیت کو مانتی تھی۔ (دیکھیے ہود : ٦٢) قوم کا انھیں ” اِنَّمَآ اَنْتَ مِنَ الْمُسَحَّرِيْنَ “ کہنے سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ نبوت کے اعلان سے پہلے وہ ان کے نزدیک نہایت سمجھ دار اور عقل مند تھے اور ان کی حالت کی تبدیلی ان کے خیال سے جادو کا نتیجہ تھی۔
خلاصہ تفسیر قوم ثمود نے (بھی) پیغمبروں کو جھٹلایا جبکہ ان سے ان کے بھائی صالح (علیہ السلام) نے فرمایا کیا تم (اللہ سے) نہیں ڈرتے، میں تمہارا امانت دار پیغمبر ہوں، سو تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو اور میں تم سے اس پر کچھ صلہ نہیں چاہتا، بس میرا صلہ تو رب العالمین کے ذمہ ہے (اور تم جو خوشحالی کی وجہ سے اس درجہ اللہ سے غافل ہو تو) کیا تم کو ان ہی چیزوں میں بےفکری سے رہنے دیا جاوے گا جو یہاں (دنیا میں) موجود ہیں، یعنی باغوں میں اور چشموں میں اور ان کھجوروں میں جن کے گپھے خوب گوندے ہوئے ہیں (یعنی ان کھجوروں میں خوب کثرت سے پھل آتا ہے) اور کیا (اسی غفلت کی وجہ سے) تم پہاڑوں کو تراش تراش کر اتراتے (اور فخر کرتے) ہوئے مکانات بناتے ہو سو اللہ سے ڈرو اور میرا کہنا مانو اور ان حدود (بندگی) سے نکل جانے والوں کا کہنا مت مانو جو سر زمین میں فساد کیا کرتے ہیں اور (کبھی) اصلاح (کی بات) نہیں کرتے (مراد رؤ سا کفار ہیں جو گمراہی پر لوگوں کو آمادہ کرتے تھے اور فساد اور عدم اصلاح سے یہی مراد ہے) ان لوگوں نے کہا کہ تم پر تو کسی نے بڑا بھاری جادو کردیا ہے (جس سے عقل میں خرابی آگئی ہے کہ نبوت کا دعویٰ کرتے ہو حالانکہ) تم بس ہماری طرح کے ایک (معمولی) آدمی ہو۔ (اور آدمی نبی ہوتا نہیں) سو کوئی معجزہ پیش کرو اگر تم (دعویٰ نبوت میں) سچے ہو، صالح (علیہ السلام) نے فرمایا کہ یہ ایک اونٹنی ہے (جو بوجہ خلاف عادت پیدا ہونے کے معجزہ ہے جیسا کہ پارہ ہشتم کے ختم کے قریب گزرا اور علاوہ اس کے یہ میری رسالت پر دلیل ہے خود اس کے بھی کچھ حقوق ہیں چناچہ ان میں سے ایک یہ ہے کہ) پانی پینے کے لئے ایک باری اس کی ہے اور ایک مقرر دن میں ایک باری تمہاری (یعنی تمہارے مواشی کی) اور (ایک یہ ہے کہ) اس کو برائی (اور تکلیف دہی) کے ساتھ ہاتھ بھی مت لگانا کبھی تم کو ایک بھاری دن کا عذاب آپکڑے سو انہوں نے (نہ رسالت کی تصدیق کی نہ اونٹنی کے حقوق ادا کئے بلکہ) اس اونٹنی کو مار ڈالا، پھر (جب عذاب کے نشان ظاہر ہوئے تو اپنی حرکت پر) پشیمان ہوئے (مگر اول تو عذاب دیکھ لینے کے وقت پشیمانی بیکار، دوسرے خالی طبعی پشیمانی سے کیا ہوتا ہے جب تک اختیاری تدارک یعنی توبہ و ایمان نہ ہو) پھر (آخر) عذاب نے ان کو آلیا، بیشک اس (واقعہ) میں بڑی عبرت ہے اور (باوجود اس کے) ان (کفار مکہ) میں اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے اور بیشک آپ کا رب بڑا زبردست بہت مہربان ہے (کہ باوجود قدرت کے مہلت دیتا ہے۔ )
كَذَّبَتْ ثَمُوْدُ الْمُرْسَلِيْنَ ١٤ ١ۚۖ ثمد ثَمُود قيل : هو أعجمي، وقیل : هو عربيّ ، وترک صرفه لکونه اسم قبیلة، أو أرض، ومن صرفه جعله اسم حيّ أو أب، لأنه يذكر فعول من الثَّمَد، وهو الماء القلیل الذي لا مادّة له، ومنه قيل : فلان مَثْمُود، ثَمَدَتْهُ النساء أي : قطعن مادّة مائه لکثرة غشیانه لهنّ ، ومَثْمُود : إذا کثر عليه السّؤال حتی فقد مادة ماله . ( ث م د ) ثمود ( حضرت صالح کی قوم کا نام ) بعض اسے معرب بتاتے ہیں اور قوم کا علم ہونے کی ہوجہ سے غیر منصرف ہے اور بعض کے نزدیک عربی ہے اور ثمد سے مشتق سے ( بروزن فعول ) اور ثمد ( بارش) کے تھوڑے سے پانی کو کہتے ہیں جو جاری نہ ہو ۔ اسی سے رجل مثمود کا محاورہ ہے یعنی وہ آدمی جس میں عورتوں سے کثرت جماع کے سبب مادہ منویہ باقی نہ رہے ۔ نیز مثمود اس شخص کو بھی کہا جاتا ہے جسے سوال کرنے والوں نے مفلس کردیا ہو ۔
(١٤١ تا ١٤٣) قوم ثمود نے بھی حضرت صالح (علیہ السلام) کو اور جن انبیاء کی حضرت صالح (علیہ السلام) نے ان کو خبر دی سب کو جھٹلایا جب کہ ان کے نبی حضرت صالح (علیہ السلام) نے فرمایا کہ تم اللہ سے نہیں ڈرتے کہ غیر اللہ کی عبادت کرتے ہو، میں اللہ کی طرف سے امانت دار پیغمبر ہوں سو تم اللہ سے ڈرو کہ توبہ کرو اور ایمان لاؤ۔
95 For comparison, see Al-A'raf: 73-79, Hud: 61-68, AI-Hijr: 80-84, Bani Isra'il 59; and for further details, see An-Naml . 45-53, Az-Zariyat: 43-45, AI-Qamar: 23-31, AI-Haqqah: 4-5, Al-Fajr: 9, and Ash-Shams: 11. _Thamud achieved power and glory after the destruction of 'Ad and as far as progress in civilization is concerned, they followed in the footsteps of their predecessors. In their case, too, the standards of living went on rising higher and higher and the standards of humanity continued to fall lower and lower, suffering one deterioration after the other. On the one hand, they erected large edifices on the plains and hewed beautiful houses out of the hills like those in the caves of Ellora and Ajanta in India, and on the other, they became addicted to idol-worship and the land was filled with tyranny and oppression. The worst men became leaders and rulers in the land. As such, Prophet Salih's message of Truth only appealed to the weak people belonging to the lower social strata and the people of the upper classes refused to believe in him.
سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :95 تقابل کے لیے ملاحظہ ہو الاعراف ، آیات 73 تا 79 ۔ ہود ، 61 ۔ 68 ۔ الحجر ، 80 ۔ 84 ۔ بنی اسرائیل 59 ۔ مزید تفصیلات کے لیے قرآن مجید کے حسب ذیل مقامات بھی پیش نظر رہیں : النمل ، 45 ۔ 53 ۔ الذاریات ، 43 ۔ 45 ۔ القمر ، 23 ۔ 31 ۔ الحاقہ ، 4 ۔ 5 ۔ الفجر ، 9 ۔ الشمس ، 11 ۔ اس قوم کے متعلق قرآن مجید میں مختلف مقامات پر جو تصریحات کی گئی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ عاد کے بعد جس قوم کو عروج عطا کیا گیا وہ یہی تھی ، جَعَلَکُمْ خُلَفَآءَ مِنْ بَعْدِ عَادٍ ( الاعراف آیت 74 ) مگر اس کی تمدنی ترقی نے بھی بالآخر وہی شکل اختیار کی جو عاد کی ترقی نے کی تھی ، یعنی معیار زندگی بلند سے بلند تر اور معیار آدمیت پست سے پست تر ہوتا چلا گیا ۔ ایک طرف میدانی علاقوں میں عالی شان قصر اور پہاڑوں میں ایلورا اور اجنٹہ کے غاروں جیسے مکان بن رہے تھے ۔ دوسری طرف معاشرے میں شرک و بت پرستی کا زور تھا اور زمین ظلم و ستم سے لبریز ہو رہی تھی ۔ قوم کے بد ترین مفسد لوگ اس کے لیڈر بنے ہوئے تھے ۔ اونچے طبقے اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں سرشار تھے ۔ حضرت صالح کی دعوت حق نے اگر اپیل کیا تو نچلے طبقے کے کمزور لوگوں کو کیا ۔ اونچے طبقوں نے اسے ماننے سے صرف اس لیے انکار کر دیا کہ اِنَّا بِالَّذِیْٓ اٰمَنْتُمْ بِہ کٰفِرُوْنَ ، جس چیز پر تم ایمان لائے ہو اس کو ہم نہیں مان سکتے ۔
30: قوم ثمود اور حضرت صالح (علیہ السلام) کا تعارف پیچھے سورۂ اعراف (٧۔ ٧٢) اور سورۂ ہود (١١۔ ٦١ تا ٦٨) میں گزرچکا ہے۔
(١٤١ تا ١٥٩) حضرت نوح (علیہ السلام) سے سلسلہ شروع ہو کر یہ تیسرے پیغمبر حضرت صالح ہیں جو حضرت ہود ( علیہ السلام) کے بعد نبی ہوئے قوم ثمود ان کی امت کا نام ہے شروع میں صالح (علیہ السلام) نے بھی اپنی امت کو وہی نصیحت کی ہے جو نوح ( علیہ السلام) اور ہود ( علیہ السلام) (علیہ السلام) نے اپنی امت کو کی تھی مکان اینٹ اور پتھر کے بناتے تھے یہ لوگ پہاڑوں میں مکان تراش ثراش کر ان مکانوں میں رہتے تھے۔ صحیح بخاری وغیرہ کے حوالہ سے سورة ہود میں روایتیں گزر چکی ہیں ١ ؎ کہ تبوک کی لڑائی کے وقت آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی اس قوم کے اجڑے ہوئے مکانات پر سے ہو کر گزرے تھے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ (رض) کو ان لوگوں کے مکانات کے اندر جانے سے منع فرمایا تھا ‘ اور سوائے اونٹنی والے کنوئیں کے اور کسی پانی سے جن صحابہ (رض) نے آٹا گوندھا تھا یا کھانا پکایا تھا وہ آٹا اور کھانا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پھنکوا دیا تھا اور فرمایا تھا کہ اس عذاب میں گرفتار ہوئی قوم کے مکانات کو دیکھ کر خدا سے ڈرنا چاہیے خدا سے کیا دور ہے کہ وہ اوروں کو بھی اسی طرح اپنے عذاب میں پکڑ لیوے جب صالح (علیہ السلام) نے ان لوگوں کو عیش و آرام کی غفلت اور سرکش لوگوں کی عادتوں سے منع کیا تو ان لوگوں نے صالح (علیہ السلام) پر جادو کا اثر بتلایا اور ان سے کسی معجزے کے دکھانے کی خواہش کی اور صالح (علیہ السلام) نے اونٹنی کا معجزہ دکھایا جس کا پورا قصہ سورة ہود میں گزر چکا ہے لیکن اس قوم کے لوگوں نے اونٹنی کا معجزہ دیکھ کر بھی حضرت صالح کی فرمانبرداری قبول نہیں کی اور سرکشی سے اس اونٹنی کو ہلاک کر ڈالا تو ان لوگوں پر اس طرح عذاب آیا کہ آسمان سے ایک سخت آواز آئی اور زمین میں زلزلہ آیا اس صدمے سے ان لوگوں کے کلیجے پھٹ گئے اور مرگئے قرآن شریف میں اس قوم کے عذاب کے ذکر میں اس واسطے کہیں فقط زلزلہ کا ذکر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے اور کہیں سخت آواز کا ابو جعفرابن جریر (رح) اور معتبر مفسر علماء نے اس بات کی صراحت اچھی طرح کردی ہے کہ اس قوم کا عذاب دونوں چیزیں مل کر تھا اس قوم میں سے چار ہزار آدمیوں کے قریب لوگ مسلمان بھی ہوئے باقی کے سرکش لوگ مسلمانوں سے جھگڑتے رہے اور حضرت صالح ( علیہ السلام) سے کہا کہ اگر تم سچے نبی ہو تو ہم پر عذاب لے آؤ۔ اس پر وہ عذاب آیا مسند امام احمد اور مستدرک حاکم میں حضرت جابر (رض) سے ٢ ؎ معتبر روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ تبوک کی لڑائی کے وقت جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ثمود کی بستی حجر سے گذرے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اے لوگوں انبیاء ( علیہ السلام) سے معجزہ چاہنا اچھا نہیں ہے اس قوم ثمود نے اللہ کے نبی صالح سے معجزہ کی خواہش کی اور اونٹنی کا معجزہ دیکھ کر بھی سرکشی سے باز نہ آئے آخر ہلاک ہوگئے حاصل کلام یہ ہے کہ یہ دونوں قومیں قوم عاد اور قوم ثمود جس طرح دنیا کی آرائش کی چیزیں باغ پختہ مکانات کے شوق اور حرص میں اپنی عمر گزارتی تھیں اس طرح کی آرائش دنیا کو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی امت کے حق میں ناپسند فرمایا ہے معتبر سند سے ترمذی میں حضرت علی (رض) سے روایت ١ ؎ ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ ہجرت کے بعد مصعب بن عمیر صحابی (رض) ایک روز مدینہ منورہ کی مسجد میں آپ کو اس حال میں نظر پڑے کہ ان کی چادر میں چمڑے کا پیوند لگا ہوا تھا مصعب بن عمیر (رض) کا یہ حال دیکھ کر آپ کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور آپ نے فرمایا کہ دیکھو مکہ میں مصعب (رض) کس طرح راحت سے رہتے تھے اور اب ان کا کیا حال ہے پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میری امت کے لوگوں کا اس وقت کیا حال ہوگا کہ جب وہ دن میں کئی کئی پوشاکیں بدلیں گے اور طرح طرح کے کھانے کھاویں گے اور مکانوں کو بیت اللہ کی طرح آراستہ کریں گے صحابہ (رض) نے عرض کیا کہ حضرت جب ہم لوگوں کو خوش حالی ہوجاوے گی تو ہم کو اللہ کی عبادت کا اور حقداروں کے حق ادا کرنے کا اچھا موقع ملے گا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا نہیں تم اس حالت سے اس حالت تنگی میں بہتر ہو یہ مصعب بن عمیر (رض) مہاجرین میں ہجرت سے پہلے مکہ میں بہت خوشحالی سے رہتے تھے ہجرت کے بعد تنگ حال ہوگئے کیونکہ ان کا سب مال واسباب مکہ میں رہ گیا۔ صالح (علیہ السلام) نے اپنی امت کے لوگوں کو عیش و آرام کی غفلت سے پچنے کی جو نصیحت کی اس کا حاصل یہ ہے کہ اے لوگو دنیا ناپا ئیدار ہے اس لیے یہ باغ پانی کے چشمے کھیتیاں پکی ہوئی کھجوروں کے درخت پہاڑوں میں کے تراشے ہوئے تکلف کے مکان دنیا میں رہنے والی چیزیں نہیں ہیں۔ سورة النمل میں آوے گا کہ ان لوگوں کا ایک گروہ بڑا سرکش تھا اسی گروہ میں کے ایک شخص قدار بن سائف نے معجزہ کی اونٹنی کو ہلاک کیا اسی واسطے صالح (علیہ السلام) نے اپنی اس نصیحت میں امت کے باقی لوگوں کو اس سرکش گروہ کی عادتوں سے منع کیا صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے ابوموسیٰ اشعری (رض) کی حدیث جو اوپر گزر چکی ہے قوم ثمود کی مہلت اور ہلاکت کی وہی حدیث گویا تفسیر ہے اور حاصل اس تفسیر کا بھی وہی ہے جو اوپر بیان کیا گیا۔ (١ ؎ تفسیر ہذاص ٢٧٣ ص ١٠٩ ج ٣‘ ) (٢ ؎ صتح الباری ص ٢٢٧ ج ٣ باب قول اللہ تعالیٰ والی ثمود اخاھم صالحا۔ الخ ) (١ ؎ الرغیب والترہیب ص ٢٠٩ ج ٤ فصل باب الترغیب فی الزھد )
آیات 141 تا 159 اسرار و معارف قوم ثمود نے بھی اللہ کے رسولوں کی بات نہ مانی جب ان کے ہاں ان کے قومی بھائی صالح (علیہ السلام) مبعوث ہوئے اور انہوں نے فرمایا کہ لوگو اللہ کا خوف کرو میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں اور رسول پوری امانتداری سے اللہ کی بات پہنچاتا ہے چناچہ میری بات مان لو یہی اللہ کی اطاعت ہے اور میں اپنی بات منوا کر کوئی اجرت نہیں چاہتا کہ مجھے مال و دولت مل جائے اور میں حاکم بن جاؤں بلکہ میری اجرت تو اللہ کی بارگاہ سے ملے گی جو سب جہانوں کا پروردگار ہے یاد رکھو تم اپنے گھروں میں نہ رہ پاؤ گے یہ خوبصورت گھر یہ باغات اور چشمے اور پھلوں سے لدی پھندی کھجوریں چھوڑ کر جانا ہوگا۔ کمال ہنر : دیکھو اللہ نے تمہیں کیسی مہارت بخشی ہے کہ پہاڑوں کو کاٹ کر خوبصورت اور پرتکلف گھر بنا لیتے ہو۔ کسی بھی فن میں کمال حاصل کرنا اللہ کا احسان ہے اور ہر زمانے کے اپنے فنون ہیں۔ ازمنہ رفتہ کے بعض فنون ایسے بھی پائے گئے جو آج بھی بہت مشکل نظر آتے ہیں جیسے اہرام کی تعمیر اس میں جیومیٹری کے زاویے اور ریز کا استعمال جو براہ راست سورج کی روشنی سے حاصل کی جاتی ہیں ایسے ہی ثمود کے گھر کے کہ بڑے پہاڑوں کی ٹھوس چٹانوں کو کاٹ کر پرتکلف اور ا وپر نیچے کئی منزلہ گھروں کی تعمیر جو آج بھی محال نظر آتی ہے لہذا کسی بھی فن میں کمال حاصل کرنا جو انسانی بہتری کے کام آئے اللہ کی نعمت ہے ہاں اگر اسے تخریب میں استعمال کیا جائے یا اللہ سے غفلت کا سبب بن جائے تو یہی عذاب بن جائے گا یعنی بات حصول فن کی نہیں اس کے استعمال کی ہے لہذا تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو کہ یہ درحقیقت اللہ کی اطاعت ہے اور اللہ کے نافرمان لوگوں کی بات نہ مانو جو تمہارے سردار اور رہنما بنے ہوئے ہیں اور اللہ کی زمین پر فساد پھلانے کا سبب بن رہے ہیں جن میں بھلائی اور اصلاح کی کوئی بات نہیں تو لوگ کہنے لگے کہ آپ پر تو جادو کہ بہت برے اثرات لگتے ہیں جو یوں بہکی بہکی باتیں کرنے لگے ہو اور کہتے ہو کہ میں نبی ہوں حالانکہ ہماری طرح کے بشر اور آدمی ہو ان کے خیال میں بشر یا آدمی نبی نہیں ہوسکتا تھا چناچہ اگر واقعی نبی ہو اور اپنی بات میں سچے ہو تو کوئی دلیل پیش کرو یعنی کوئی معجزہ دکھاؤ۔ انہوں نے دعا کی اور بطور معجزہ ایک چٹان سے اونٹنی برآمد ہوگئی۔ جس کا مفصل تذکرہ دوسری جگہ موجود ہے۔ فرمایا یہ اونٹنی کا اس طرح سے پیدا ہونا میری دلیل ہے اور اب پانی کے چشموں پر ایک روز یہ سارا پانی پی لے گی اور ایک روز تمہارے مویشی اور ریوڑ پی سکیں گے خبردار اسے کبھی نقصان نہ پہنچانا ورنہ تمہیں اللہ کا عذاب آپکڑے گا وہ ایمان بھی نہ لائے ماسوا چند خوش نصیبوں کے اور اونٹنی کی ٹانگیں کاٹ کر اسے مار ڈالا۔ چناچہ ایک صبح اٹھے تو بہت نادم تھے کہ عذاب کے آثار ظاہر تھے اور عذاب کے ظاہر ہوجانے کے بعد ندامت کس کام کی چناچہ ان پر عذاب نازل ہوگیا اور تباہ و برباد ہوگئے یہ سب عبرت آموز اتاریخ ہے اس کے باوجود اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے حالانکہ اللہ قادر ہے انہیں بھی عذاب میں مبتلا کرسکتا ہے مگر یہ تیرے رب کی رحمت ہے کہ مہلت دے رکھی ہے۔
لغات القرآن : آیت نمبر 141 تا 159 : اتترکون (کیا تم چھوڑدیئے جائو گے) ‘ ھھنا (اسی جگہ) ‘ زروع (زرع) کھیتیاں ‘ طلع (گابھے ۔ خوشے) ‘ ھضیم (نرم و نازک) ‘ تنحتون (تم تراشتے ہو) ‘ فرھین (خوش ہونیوالے) ‘ المسرفین (حد سے بڑھنے والے) ‘ المسحرین ( جادو کے مارے ہوئے) ناقۃ (اونٹنی) ‘ شرب (پانی پینا) عقروا (انہوں نے پاؤں کاٹ ڈالے) ‘ ندمین (شرمندہ ہونے والے۔ پچھتانے والے) ‘۔ تشریح : آیت نمبر 141 تا 159 : سورۃ الشعراء میں جن سات انبیاء کرام ؐ کے واقعات کو عبرت و نصیحت کے لئے بیان فرمایا گیا ہے ان میں سے چار انبیاء کرام (علیہ السلام) کا ذکر ہوچکا ہے۔ اب قوم ثمود کے حضرت صالح (علیہ السلام) کا ذکر مبارک کیا جارہا ہے۔ قوم عاد کی طرح قوم ثمود کے لوگ بھی بہت زیادہ صحت مند ‘ طویل عمروں والے ‘ لمبے چوڑے ‘ مضبوط اور طاقتور تھے۔ جنہیں ہر طرح کی خوش حالی عطا کی گئی تھی۔ ہر طرف سر سز و شاداب باغات کھیت ‘ باغیچے ‘ چشمے ‘ بلندو بالا عمارتیں اور دولت کی ریل پیل تھی۔ جس نے ان کو مغرور اور متکبر اور زندگی کی عیش و آرام اور اس کے وسائل نے ان کو آرام طلب بھی بنادیا تھا۔ قوم ثمود دنیا بھر سے تجارت کرنے اور فن تعمیر میں ساری دنیا سے بہت آگے تھے۔ پتھروں کو تراش کر اور پہاڑوں کو کاٹ کر نہایت شاندار اور مضبوط بلڈنگیں بنننے کے ماہر تھے۔ ہمار دور میں تو دس بیس منزلہ بلڈنگوں کی تعمیر کوئی ایسی حیرت انگیز بات نہیں ہے کیونکہ ان سے بھی زیادہ اونچی عمارتیں بنانے کے تمام وسائل موجود ہیں لیکن اس دور میں بیس بیس منزلہ عمارتیں بنانا یقیناً حیرت میں ڈال دیتا ہے۔ لیکن تمام مادی ترقیات کے باوجود وہ اپنے ہاتھ سے بنائے ہوئے بتوں کی اور کائنات کی سیکڑوں چیزوں کی عبادت و پرستش کرتے وقت بےعملی کا مظاہرہ کرتے اور انکو انپا معبود سمجھتے تھے۔ قوم عاد تو اللہ کی ذات اور ہستی کو مانتے تھے ‘ انکار نہ کرتے تھے وہ بتوں کو اپنا سفارشی سممجھتے تھے۔ ان کا گمان یہ تھا کہ اگر یہ بت اللہ کے پاس ہماری سفارش نہ کریں تو ہمارا کوئی کام صحیح نہیں ہو سکتا۔ اس کے بر، خلاف قوم ثمود اللہ کی ہستی کا انکار کرتے اور بتوں کو اپنا معبود سمجھتے تھے۔ قوم عاد کی تباہی کے بعد ان کی جگہ قوم ثمود نے لی جن کی اصلاح کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت صالح (علیہ السلام) کو مبعوث فرمایا۔ حضرت صالح (علیہ السلام) ثمود ہی کی قوم اور قبیلے کی جانی پہچانی معتبر اور قابل اعتماد شخصیت تھے۔ ہر شخص ان کی دیانت وامانت ‘ نیکی ‘ پرہیز گاری اور عقل و فہم کو اچھی طرح جانتا ھتا بلکہ ان سے بہت اچھی توقعات بھی رکھتا تھا۔ لیکن جب انہوں نے اس بگڑی ہوئی قوم کو اس بات کی نصیحت فرمائی کہ وہ اپنی روش زندگی پر غور کریں۔ اللہ نے جن نعمتوں سے نواز رکھا ہے اس پر وہ اللہ کا شکرادا کریں۔ اسی کی عبادت و بندگی کریں۔ بےحقیقت لکڑی ‘ پتھر کے بتوں کی عبادت چھوڑدیں۔ حضرت صالح نے فرمایا کہ میں اللہ کا بھیجا ہوا دیانتدار رسول ہوں۔ اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت و فرماں برداری کرو۔ میں یہ سب کچھ اس لئے نہیں کہہ رہا ہوں کہ مجھے تم سے اس کا کوئی بدلہ یا صلہ چاہیے کیونکہ میرا اجر تو اللہ رب العالمین کے ذمے ہے۔ میں تو تمہاری خیر خواہی کرتے ہوئے یہی کہتا ہوں کہ اللہ نے تمہیں بہتے چشمے ‘ حسین و خوبصورت باغات ‘ لہلہاتے کھیت ‘ پھل پھول ‘ سبزہ ‘ دنیاوی مال و دولت اور بےانتہا صالاحیتیں عطا کی ہیں ان کا یہ حق ہے کہ مالک کے سامنے جھکا جائے اور اس کا شکر ادا کیا جائے۔ تمہیں اللہ نیتعمیر کرنے کا عظیم فن عطا کیا ہے کہ تم پہاڑوں کو تراش تراش کر بھر بناتے ہو۔ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو۔ میرا کہا مانو کیونکہ میں تمہارا مخلص ہوں خیر خواہ ہوں۔ اگر تم ان لوگوں کی باتیں مانتے رہے جن کا کام صرف فساد کرنا اور تباہی مچانا ہے جو ہر کام میں حد سے گزر جاتے ہیں تو تمہیں کبھی کوئی بھلائی نصیب نہ ہوگئی تم ان کے پیچھے نہ چلو۔ قوم ثمود نے حضرت صالح (علیہ السلام) کی تمام باتیں سن کر کہا کہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جو کچھ ہے بس وہ اس دنیا کی زندگی ہے۔ اس کے بعد کچھ نہیں ہے۔ مرکر دوبارہ زندہ ہونا یہ بات ہماری عقل میں نہیں آتی۔ ہم اسی مٹی پیدا ہوئے اور مرنے کے بعد اسی خاک کا پیوند ہوجائیں گے۔ وہ کہتے تھے اے صالح ایسا لگتا ہے کہ کسی نے تمہارے اوپر جادو کردیا ہے اس لئے یہ بہکی بہکی باتیں کررہے ہو۔ ہم تمہاری کسی بات کو سننے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ آخر تمہارے اندر وہ کونسی خاص بات ہے جس کی بناء پر ہم یہ مان لیں کہ تم اللہ کے رسول ہو ہم تو یہ دیکھتے ہیں کہ تم ہمارے ہی جیسے آدمی ہو یعنی اگر اللہ کو اپنا رسول بنا کر بھیجنا تھا تو کسی فرشتے کو بھیج دیتے ۔ اچھا اگر تم واقعی اللہ کے بھیجے ہوئے ہو تو ہمیں کوئی ایسی نشانی دکھائو جس کو دیکھ کر ہم یقین کرلیں کہ تم جو کچھ کہہ رہے ہو وہ بالکل سچ ہے۔ کہنے لگے کہ اگر تم واقعی سچے ہو تو یہ سامنے جو پہاڑ ہے اس سے ایک گابھن اونٹنی نکلے اور وہ نکلتے ہی بچہ دے۔ اگر ایسا ہوا تو ہم ایمان لے آئیں گے۔ حضرت صالح (علیہ السلام) نے اللہ کی بار گاہ میں پوری صورت حال اور ان کے مطالبے کو پیش کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے قوم ثمود کے مطالبے پر پہاڑی چٹان سے گابھن اونٹنی کو نکالا۔ اس نے آتے ہی بچہ دیا۔ یہ ایک ایسا کھلا ہوا معجزہ تھا جس کے دیکھنے کے بعد ہر شخصکو ایمان لے آنا چاہیے تھا مگر چند لوگوں کے سوا سب نے طرح طرح کے بہانے بنانا شروع کردیئے۔ حضرت صالح (علیہ السلام) نے فرمایا کہ اللہ کا حکم ہے کہ یہ اونٹنی اور اس کا بچہ ایک دن تمہارے کنویں سے پانی پئیں گے اس دن تم اور تمہارے مویشی پانی نہیں پئیں گے۔ دوسری بات یہ فرمائی کہ یہ اونٹنی اللہ کی طرف سے ایک معجزہ ہے اگر کسی نے بری نیت سے اس کو ہاتھ لگایا یا ذبح کیا تو پھر پوری قوم اللہ کے عذاب سے نہ بچ سکے گی۔ قوم ثمود نے حضرت صالح کی تمام باتیں اور شرطیں سن کر کچھ دن تو صبر سے کام لیا لیکنک جب اس طرح پانی کقلت ہوئی اور ان کے مویشی شدید متاثر ہوئے تو انہوں نے اس اونٹنی کو مارڈالنے کی سازشیں شروع کردیں۔ ایک دن ثمود کی قوم کے ایک شخص نے اس اونٹنی کی کونچیں کاٹ ڈالیں جس سے وہ مرگئی۔ حضرت صالح (علیہ السلام) کو اس کا شدید افسوس ہوامگر اب کچھ نہ ہو سکتا تھا چناچہ انہوں نے اعلان فرمادیا کہ اب اللہ کے عذاب سے بچانے والی کوئی چیز نہیں ہے۔ اس لئے تمہیں صرف تین دن کی مہلت دی جارہی ہے اس میں تم عیش کرلو اس کے بعد اللہ کا فیصلہ آنے والا ہے۔ اللہ کا عذاب آنے سے پہلے علامات ظاہر ہونا شروع ہوگئیں۔ پہلے دن پوری قوم کے چہرے زرد پڑگئے۔ دوسرے دن سرخ اور تیسرے دن سیاہ پڑگئے۔ اس کے بعد زمین ہلنا شروع ہوگئی۔ زبردست جھٹکے محسوس کئے جانے لگے۔ اس کے بعد ایسی ہیبت ناک چیخ سنائی دی جس سے ان پر خوف طاری ہوگیا اور ان کے دل کی دھڑکنیں بند ہوگئیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت خاص سے حضرت صالح (علیہ السلام) اور آپ کی بات مان کر ایمان لانے والوں کو اس عذاب سے نجات عطا فرمائی۔ ان کے علاوہ پوری قوم فنا کے گھاٹ اتاردی گئی۔ اس طرح دنیا کی خوش حال قوم اپنی بداعمالیوں کی وجہ سے اللہ کے غضب کا شکار ہو کر تباہ و برباد ہوگئی۔ یہ جگہ آج بھی مدینہ منورہ اور تبوک کے درمیان کا مشہور علاقہ ہے جو الحجر اور مدائن صالح کے نام سے مشہور ہے۔ آج اس قوم کے کھنڈرات پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ جو قوم دنیاوی ترقیات میں بد مست ہو کر اللہ کی نافرمانی کرتی ہے تو اس کو اسی طرح موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔ جب اللہ کا عذاب آتا ہے تو پھر دنیاوی ترقیات ‘ بلند اور اونچی بلڈنگیں ‘ تہذیب و تمدن ان کے ام نہیں آیا کرتا۔ ان آیات اور واقعہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے پھر ان دو آیات کو دھرایا ہے کے اس واقعہ میں عبرت و نصیحت حاصل کرنے والوں کے لئے نشانیاں موجود ہیں۔ لیکن ان نشانیوں ( معجزات) کو دیکھنے کے باوجود ضروری نہیں ہے۔ کہ لوگ ایمان لے ہی آئیں۔ اسی لئے اکثر لوگ دیکھ کر بھی ایمان نہیں لاتے۔ فرمایا کہ اللہ جو زبردست قوت و طاقت کا مالک ہے جس کے سامنے کسی کی قوت و طاقت کوئی حیثیت نہیں رکھتی چونکہ وہ اپنے بندوں پر مہربان ہے اور ان کی فوراً ہی گرفت نہیں کرتا اور ان کو مہلت پر مہلت دیئے چلا جاتا ہے تاکہ وہ اصل حقیقت کو سمجھ کر اللہ پر ایمان لے آئیں لیکن اگر بار بار کی آگاہی کی باوجود وہ اپنی روش زندگی تبدیل نہیں کرتے تو پھر اس قوم پر اللہ کا فیصلہ آجاتا ہے جس سے بچانے والا کوئی نہیں ہوتا۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے جان نثار صحابہ کرام (رض) کو تسلی دی گئی ہے کہ وہ کفار کی اذیتوں اور انکار پر رنجیدہ نہ ہوں بلکہ اپنے ایمان و عمل صالح میں آگے بڑھتے رہیں۔ اگر کفار مکہ نے اپنی اس روش کو برقرار رکھا تو وہ وقت دور نہیں ہے جب ان کے لئے اللہ کا فیصلہ آجائے گا۔
فہم القرآن ربط کلام : قوم عاد کی تباہی کے بعد قوم ثمود کا دور اور اس کا انجام۔ قوم ثمود کی طرف حضرت صالح (علیہ السلام) مبعوث فرمائے گئے۔ انھوں نے بھی وہی انداز اختیار فرمایا جو ان سے پہلے انبیاء کرام نے اختیار کیا تھا۔ حضرت صالح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے ڈرایا اور بار بار سمجھایا کہ میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے جو امانت میرے ذمہ لگائی ہے اسے نہایت ذمّہ داری اور دیانتداری کے ساتھ من و عن تم تک پہنچا رہا ہوں اور تم میری امانت ودیانت سے واقف ہو۔ اس لیے اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور رسول ہونے کی حیثیت سے میری تابعداری کرو۔ میں اپنی تابعداری اور نبوت کے کام پر تم سے کسی اجر کا طلب گار نہیں ہوں۔ میرا صلہ میرے رب کے ذمہ ہے۔ میں تمہیں اس بات سے متنبہ کرتا ہوں کہ جس کردار کو تم اختیار کیے ہوئے ہو اس کا انجام اچھا نہیں ہوگا یہ امن اور سلامتی کا راستہ نہیں اگر تم تائب نہ ہوئے تو یاد رکھو۔ لہلہاتے ہوئے باغ، جاری چشمے، سبز و شاداب کھیتیاں، کھجوروں سے لدے ہوئے باغ، پہاڑوں کو تراش تراش کر بنائے ہوئے محلات تمہیں رب ذوالجلال کے عذاب سے نہیں بچا سکیں گے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ سے ڈر کر میری اطاعت کرو۔ اس قوم کو اصحاب الحجر بھی کہا گیا ہے۔ اصحاب الحجر سے مراد وہ قوم اور علاقہ ہے جو مدینہ سے تبوک جاتے ہوئے راستے میں پڑتا ہے۔ یہ علاقہ جغرافیائی اعتبار سے خلیج اربعہ کے مشرق میں اور شہر مدین کے جنوب مشرق میں واقع ہے۔ قوم ثمود اس قدر ٹیکنالوجی اور تعمیرات کے معاملے میں ترقی یافتہ تھی کہ انہوں نے پہاڑوں کو تراش تراش کر مکانات اور محلات تعمیر کیے تھے تاکہ کوئی زلزلہ اور طوفان انہیں نقصان نہ پہنچا سکے۔ مسائل ١۔ حضرت صالح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو بار بار اللہ کا خوف دلایا۔ ٢۔ حضرت صالح (علیہ السلام) نے تمام انبیاء (علیہ السلام) کی طرح بلامعاوضہ اپنے رب کا پیغام پہنچایا اور لوگوں کی خدمت کی۔ ٣۔ حضرت صالح (علیہ السلام) نے قوم کو یہ بات سمجھانے کی کوشش کی کہ صالح کردار کے سوا۔ دنیا کے اسباب و وسائل مجرموں کو اللہ کے عذاب سے نہیں بچا سکتے۔ ٤۔ حضرت صالح (علیہ السلام) کی قوم زراعت، باغات اور صنعت و حرفت کے اعتبار سے اپنے زمانے کی ترقی یافتہ قوم تھی۔ تفسیر بالقرآن قوم ثمود کی ترقی کی ایک جھلک : ١۔ یہ قوم بڑے بڑے محلات میں رہتی تھی۔ کھیتی باڑی اور باغات میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ (الشعراء ١٢٩ تا ١٣٣) ٢۔ بڑے بڑے محلات تعمیر کیا کرتے تھے۔ (الاعراف : ٧٤)
درس نمبر ١٦٦ تشریح آیات ١٤١……تا……١٥٩ کذبت ثمود ……رب العلمین (١٣٥) وہی الفاظ اور وہی دعوت جسے ہر رسول پیش کر رہا ہے اور قرآن کریم تمام رسولوں کی طرف سے مختلف زبان و مکان اور مختلف اقوام و لسان کے باوجود ایک جیسے الفاظ لاتا ہے۔ یہ بتانے کے لئے کہ تمام رسولوں کی رسالت کا ایک ہی مقصد اور ایک ہی مضمون تھا۔ ایک فکر اور ایک منہاج تھا ۔ وہ ایک ہی اصول اور نظریہ تھا جس پر یہ رسالتیں اور یہ دعوتیں بلند ہوئیں۔ اللہ پر ایمان ، اس کی جو ابدی کا احساس اور ڈر ، اور ہر رسول کی اطاعت۔ اس کے بعد قرآن مجید قوم ثمود کی مخصوص باتیں بیان کرتا ہے۔ جو اس وقت سورت کے مضمون کے ساتھ مناسب ہیں۔ ان کو بھی حضرت صالح یاد دلاتے ہیں کہ دیکھو تم پر اللہ کے کیا کیا انعامات ہیں۔ یہ لوگ شام اور حجاز کے درمیان علاقہ حجر میں رہائش پذیر تھے۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب جنگ تبوک میں گئے تو اپنے صحابہ کرام کے ساتھ آپ نے ان کے علاقے اور گھروں کا عبرت ناک دورہ فرمایا۔ حضرت صالح فرمات یہیں کہ تمارے اعمال کے پیش نظر اللہ تم سے یہ انعامات چھین سکتا ہے ، ذرا خدا کا خوف کرو۔
قوم ثمود کا حضرت صالح (علیہ السلام) کو جھٹلانا اور تکذیب و انکار کے جرم میں ہلاک ہونا اس رکوع میں قوم ثمود کی سر کشی اور بربادی کا تذکرہ فرمایا ہے، یہ لوگ قوم عاد کے بعد تھے ان کی طرف حضرت صالح (علیہ السلام) مبعوث ہوئے تھے انہوں نے ان لوگوں کو توحید کی دعوت دی سمجھایا بجھایا، قوم عاد کی طرح ان لوگوں نے بھی ضد وعناد اور سرکشی پر کمر باندھ لی، حضرت صالح (علیہ السلام) نے انہیں یہ بتایا کہ میں اللہ کا رسول ہوں امین ہوں تم اللہ سے ڈرو اور میری فرمانبر داری کرو اور یہ فرمایا کہ دیکھو اللہ تعالیٰ نے تمہیں خوب نعمتیں دی ہیں انہیں یاد کرو نا شکرے نہ بنو اس نے تمہیں باغ دیئے چشمے عطا فرمائے، کھیتیاں عنایت فرمائیں، کھجوروں کے باغ دیئے، ان کھجوروں کے گپھے گوندھے ہوتے ہیں جو خوب پھل لانے والے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے مزید یہ کرم فرمایا کہ تمہیں پہاڑوں کے تراشنے کی قوت اور ہمت عطا فرمائی تم پہاڑوں کو تراشتے ہو اور فخر کرتے ہوئے اور اتراتے ہوئے ان میں گھر بنالیتے ہو کیا تمہارا یہ خیال ہے کہ ہمیشہ امن وامان اور چین و آرام میں رہو گے اگر تمہارا یہ خیال ہے تو غلط ہے دیکھو تمہیں مرنا بھی ہے اللہ تعالیٰ کی بار گاہ میں پیش ہونا بھی ہے تم اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور میری فرمانبر داری کرو، جن لوگوں نے تمہاری راہ مار رکھی ہے جو حد سے آگے نکل چکے ہیں زمین میں فساد کرتے ہیں اور اصلاح نہیں کرتے تم ان کی باتوں میں آکر اپنی جانوں کو ہلاکت میں نہ ڈالو، تمہارے جو بڑے ہیں تمہارا ناس کھو رہے ہیں۔ وہ تمہیں حق قبول نہیں کرنے دیتے۔ قوم ثمود نے حضرت صالح (علیہ السلام) کو جواب دیا کہ ہمارے خیال میں تو صرف یہ بات ہے کہ تم پر کسی نے جادو کردیا ہے اسی وجہ سے تم ایسی باتیں کر رہے ہو، اور یہ بات بھی ہے کہ تم ہمارے ہی جیسے آدمی ہو تمہارے اندر وہ کون سی بڑائی ہے جس کی وجہ سے تم رسول بنائے گئے ہو ؟ سورة القمر میں ہے کہ ان لوگوں نے کہا (اَبَشَرًا مِّنَّا وَاحِدًا نَتَّبِعُہٗ اِِنَّا اِِذًا لَّفِیْ ضَلاَلٍ وَّسُعُرٍ ءَاُلْقِیَ الذِّکْرُ عَلَیْہِ مِنْ بَیْنِنَا بَلْ ھُوَ کَذَّابٌ اَشِرٌ) (سو وہ کہنے لگے کیا ہم ایسے شخص کا اتباع کریں جو ہم ہی میں سے ایک شخص ہے اگر ہم ایسا کریں تو ضرور بڑی گمراہی اور دیوانگی میں پڑجائیں گے) کیا ہم سب کے درمیان سے اسی کی طرف وحی کی گئی ہے، بلکہ بات یہ ہے کہ وہ جھوٹا ہے شیخی خورہ ہے) باتیں کرتے کرتے وہ لوگ یہاں تک آگے بڑھے کہ انہوں نے یوں کہہ دیا کہ اچھا کوئی خاص معجزہ پیش کرو اگر تم سچے ہو۔ حضرت صالح (علیہ السلام) نے فرمایا کہ دیکھو یہ اونٹنی ہے اللہ کی طرف سے بطور معجزہ بھیجی گئی ہے (بعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ ان لوگوں نے خود ہی کہا تھا کہ ہم تو تمہیں اس وقت نبی مانیں گے جب تم پہاڑ سے اونٹنی نکال کر دکھاؤ ان کو ہرچند سمجھایا کہ اپنا منہ مانگا معجزہ فیصلہ کن ہوتا ہے اگر تمہارے مطالبہ پر پہاڑ سے اونٹنی نکل آئی اور تم ایمان نہ لائے تو سمجھ لو کہ جلد ہی عذاب آجائے گا لیکن وہ نہ مانے) اللہ کے حکم سے پہاڑ سے اونٹنی بر آمد ہوئی یہ اونٹنی عام اونٹنیوں کی طرح نہ تھی اللہ کی بھیجی ہوئی اونٹنی تھی اس کو بہت زیادہ پانی پینے کی ضرورت تھی ان لوگوں کو واضح طور پر بتادیا تھا (لَّہَا شِرْبٌ وَّلَکُمْ شِرْبُ یَوْمٍ مَّعْلُوْمٍ ) (اس کے لیے پانی پینے کا وقت مقرر ہے اور تمہارے لیے ایک دن کا پینا مقرر ہے) یہ اونٹنی کنویں میں منہ لٹکا کر اکیلی کنویں کا پانی پی جاتی تھی اور قوم ثمود کے لوگ روزانہ پانی نہیں پلا سکتے تھے خود ان کے لیے پانی بھرنے کا اور مویشیوں کو پانی پلانے کا دن مقرر کردیا تھا۔ پہلے تو اپنے منہ سے اونٹنی مانگی تھی پھر جب پانی کی تقسیم کا معاملہ در پیش ہوا تو ان لوگوں کو یہ بات کھلنے لگی اور اس اونٹنی کا وجود نا گوار ہوا اونٹنی کے قتل کرنے کا مشورہ کرنے لگے۔ حضرت صالح (علیہ السلام) کو ان کے ارادوں کی اطلاع ملی تو فرمایا اسے برائی کے ساتھ ہاتھ نہ لگانا اگر تم نے ایسا کیا تو تمہیں درد ناک عذاب پکڑ لے گا، بالآخر عذاب آ ہی گیا اور وہ لوگ ہلاک کردیئے گئے ان لوگوں پر سخت چیخ کا اور زلزلہ کا عذاب آیا۔ اسی کو فرمایا (فَعَقَرُوْھَا فَاَصْبَحُوْا نَادِمِیْنَ فَاَخَذَھُمُ الْعَذَابَ ) (سو انہوں نے اس اونٹنی کو کاٹ ڈالا پھر پشیمان ہوئے پھر عذاب نے ان کو پکڑ لیا) سورة اعراف اور سورة ھود میں تفصیل گزر چکی ہے۔ (انوار البیان ص ٤٥٦ ج ٣ وص ٥٠٩ ج ٤) (اِِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لاآیَۃً ) (بلاشبہ اس میں بڑی عبرت ہے) (وَّمَا کَانَ اَکْثَرُھُمْ مُّؤْمِنِیْنَ ) (اور ان میں سے اکثر ایمان لانے والے نہیں ہیں) (وَاِِنَّ رَبَّکَ لَہُوَ الْعَزِیْزُ الرَّحِیْمُ ) (اور بیشک آپ کا رب عزیز ہے رحیم ہے) ۔
55:۔ یہ پانچویں نقلی دلیل اور تخویف اخروی ہے۔ ” اذ قال لھم اخوھم صلح “ تا ” علی رب العلمین “ اس کی تفسیر گذر چکی ہے۔ ” اتترکون الخ ” ما موصولہ ” ھہنا “ صلہ۔ ” اٰمنین “ ، ” تترکون “ کے نائب فاعل سے حال ہے۔ ” فی جنت الخ “ ” فی ما ھہنا “ سے بدل ہے (روح) ۔ کیا تم یہاں دنیا میں، ان باغوں اور چشموں میں، ان سرسبزو شاداب کھیتوں، تروتازہ اور گھنے گچھوں سے لدی ہوئی کھجوروں میں ہمیشہ ہی داد عیش دیتے رہو گے اور خدا کے یہاں حاضر نہیں ہوگے ؟ ” وتنحتون الخ “ یہ ” تترکون “ پر معطوف ہے۔ ” فارھین “ ای اشرین بطرین کما روی عن ابن عباس۔ قال ابو صالح حاذقین وبذالک فسرہ الراغب (روح ج 19 ص 113) ۔ یعنی کیا تم دنیا میں ہمیشہ ہی پہاڑوں کو کاٹ کاٹ کر فخر و مباہات کے طور پر یا اظہار مہارت و فن کاری کے لیے عظیم الشان گھر بناتے رہو گے۔