Surat us Shooaraa

Surah: 26

Verse: 156

سورة الشعراء

وَ لَا تَمَسُّوۡہَا بِسُوۡٓءٍ فَیَاۡخُذَکُمۡ عَذَابُ یَوۡمٍ عَظِیۡمٍ ﴿۱۵۶﴾

And do not touch her with harm, lest you be seized by the punishment of a terrible day."

۔ ( خبر دار! ) اسے برائی سے ہاتھ نہ لگانا ورنہ ایک بڑے بھاری دن کا عذاب تمہاری گرفت کر لے گا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And touch her not with harm, lest the torment of a Great Day should seize you. He warned them of the punishment of Allah if they should do her any harm. The she-camel stayed among them for a while, drinking the water, eating leaves and grazing, and they benefited from her milk which they took in sufficient quantities for every one to drink his fill. After this had gone on for a long time, and the time for their destruction drew near, they conspired to kill her: فَعَقَرُوهَا فَأَصْبَحُوا نَادِمِينَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

1561دوسری بات انھیں یہ کہی گئی کہ اس اونٹنی کو کوئی بری نیت سے ہاتھ نہ لگائے، نہ اسے نقصان پہنچایا جائے۔ چناچہ یہ اونٹنی اسی طرح ان کے درمیان رہی۔ گھاٹ سے پانی پیتی اور گھاس چارہ کھا کر گزارہ کرتی۔ کہا جاتا ہے کہ قوم ثمود اس کا دودھ دوہتی اور اس سے فائدہ اٹھاتی۔ لیکن کچھ عرصہ گزرنے کے بعد انہوں نے اسے قتل کرنے کا منصوبہ بنایا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٩٥] عرب جیسے بےآب و گیا ملک میں پانی کی ہمیشہ کم ہی رہی ہے اور پانی کا مسئلہ نہایت اہم مسئلہ تھا۔ لہذا صالح (علیہ السلام) نے یہ فیصلہ کیا کہ ایک دن صرف یہ اللہ کی اونٹنی فلاں کنوئیں سے پانی پیا کرے گی۔ اس دن قوم کے جانور پانی پینے کے لئے ادھر نہ جائیں اور دوسرے دن قوم کے جانور پانی پیا کریں گے اور اونٹنی ادھر نہیں جائے گی۔ صالح (علیہ السلام) کا یہ فیصلہ اللہ کے حکم کے مطابق تھا۔ جسے قوم نے تسلیم کرلیا۔ مگر اس تسلیم کے پیچھے ان کی اپنی رضا کو کچھ دخل نہ تھا۔ بلکہ وہ یہ فیصلہ تسلیم کرنے پر مجبور تھے۔ اور اس کی دو وجوہ تھیں ایک یہ کہ فیصلہ کے ساتھ ہی صالح (علیہ السلام) نے یہ وارننگ بھی دے دی تھی کہ اگر تم لوگوں نے اس اونٹنی کو کوئی دکھ پہنچایا یا اس کے آزادی سے چرنے چگنے اور پانی پینے میں حائل ہوئے تو تم پر اللہ کا عذاب آجائے گا اور دوسرے یہ کہ یہ اونٹنی کا معجزہ دیکھنے کے بعد انھیں یہ یقین ہوچکا تھا کہ صالح (علیہ السلام) واقعی اللہ کے رسول ہیں۔ لہذا وہ ان پر ایمان لانے کے باوجود ان کی تنبیہ سے خائف تھے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَا تَمَسُّوْہَا بِسُوْۗءٍ فَيَاْخُذَكُمْ عَذَابُ يَوْمٍ عَظِيْمٍ۝ ١٥٦ مسس المسّ کاللّمس لکن اللّمس قد يقال لطلب الشیء وإن لم يوجد والمسّ يقال في كلّ ما ينال الإنسان من أذى. نحو قوله : وَقالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّاماً مَعْدُودَةً [ البقرة/ 80] ، ( م س س ) المس کے معنی چھونا کے ہیں اور لمس کے ہم معنی ہیں لیکن گاہے لمس کیس چیز کی تلاش کرنے کو بھی کہتے ہیں اور اس میں یہ ضروری نہیں کہ وہ چیز مل جل بھی جائے ۔ اور مس کا لفظ ہر اس تکلیف کے لئے بول دیا جاتا ہے جو انسان تو پہنچے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَقالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّاماً مَعْدُودَةً [ البقرة/ 80] اور کہتے ہیں کہ دوزخ کی آگ ہمیں ۔۔ چھوہی نہیں سکے گی سَّيِّئَةُ : الفعلة القبیحة، وهي ضدّ الحسنة، قال : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم/ 10]: بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة/ 81] سَّيِّئَةُ : اور ہر وہ چیز جو قبیح ہو اسے سَّيِّئَةُ :، ، سے تعبیر کرتے ہیں ۔ اسی لئے یہ لفظ ، ، الحسنیٰ ، ، کے مقابلہ میں آتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم/ 10] پھر جن لوگوں نے برائی کی ان کا انجام بھی برا ہوا ۔ چناچہ قرآن میں ہے اور سیئۃ کے معنی برائی کے ہیں اور یہ حسنۃ کی ضد ہے قرآن میں ہے : بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة/ 81] جو برے کام کرے أخذ الأَخْذُ : حوز الشیء وتحصیله، وذلک تارةً بالتناول نحو : مَعاذَ اللَّهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنا مَتاعَنا عِنْدَهُ [يوسف/ 79] ، وتارةً بالقهر نحو قوله تعالی: لا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلا نَوْمٌ [ البقرة/ 255] ( اخ ذ) الاخذ ۔ کے معنی ہیں کسی چیز کو حاصل کرلینا جمع کرلینا اور احاطہ میں لے لینا اور یہ حصول کبھی کسی چیز کو پکڑلینے کی صورت میں ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ { مَعَاذَ اللهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنَا مَتَاعَنَا عِنْدَهُ } ( سورة يوسف 79) خدا پناہ میں رکھے کہ جس شخص کے پاس ہم نے اپنی چیز پائی ہے اس کے سو اہم کسی اور پکڑ لیں اور کبھی غلبہ اور قہر کی صورت میں جیسے فرمایا :۔ { لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ } ( سورة البقرة 255) نہ اس پر اونگھ غالب آسکتی اور نہ ہ نیند ۔ محاورہ ہے ۔ عذب والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر، ( ع ذ ب ) العذاب سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا عظیم وعَظُمَ الشیء أصله : كبر عظمه، ثم استعیر لكلّ كبير، فأجري مجراه محسوسا کان أو معقولا، عينا کان أو معنی. قال : عَذابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ [ الزمر/ 13] ، قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ [ ص/ 67] ، ( ع ظ م ) العظم عظم الشئی کے اصل معنی کسی چیز کی ہڈی کے بڑا ہونے کے ہیں مجازا ہر چیز کے بڑا ہونے پر بولا جاتا ہے خواہ اس کا تعلق حس سے یو یا عقل سے اور عام اس سے کہ وہ مادی چیز ہو یا معنو ی قرآن میں ہے : ۔ عَذابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ [ الزمر/ 13] بڑے سخت دن کا عذاب ) تھا ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ [ ص/ 67] کہہ دو کہ وہ ایک سخت حادثہ ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٥٦) اور اس کو برائی کے ساتھ ہاتھ بھی مت لگانا کہیں تمہیں ایک بھاری دن کا عذاب آپکڑے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(26:156) لاتمسوھا بسوئ : لا تمسوا فعل نہی جمع مذکر حاضر۔ مت چھوؤ۔ ھا ضمیر واحد مؤنث اونٹنی کی طرف راجع ہے۔ سوء ہر وہ چیز ہے جو انسان کو غم میں ڈال دے۔ برائی۔ آفت۔ گناہ وغیرہ۔ قرآن مجید میں اس کا استعمال جن معانی میں ہوا ہے امام سیوطی (رح) نے ان کو تفصیل سے قلمبند کیا ہے :۔ (1) شدت کے لئے۔ یسومونکم سوء العذاب (2:49) وہ کرتے تھے تم پر سخت عذاب۔ (2) کونچیں کاٹنے کیلئے۔ ولا تمسوھا بسوئ (26:156) اور اس کو برائی کے ساتھ ہاتھ بھی نہ لگانا۔ یعنی ناقہ کی کونچیں نہ کاٹ ڈالنا (3) زنا کے لئے۔ ما جزاء من اراد باہلک سوء (12:25) کیا سزا ہے اس کی جو تیری بیوی کے ساتھ زنا کا ارادہ کرے۔ (4) برص کے لئے۔ بیضاء من غیر سوء (20:22) روشن بغیر کسی عیب کے یعنی برص کے۔ (5) عذاب کیلئے ان الخزی الیوم والسوء علی الکفرین (16:27) بیشک آج رسوائی اور سختی (یعنی عذاب) کافروں پر ہے (6) شرک کے لئے۔ ما کنا نعمل من سوء (16:28) اور ہم تو کوئی برائی (یعنی شرک) نہیں کرتے رہے۔ (7) گالی گلوچ کے لئے۔ لا یحب اللہ الجھر بالسوء من القول (4:148) اللہ کسی برائی کی بات (دشنام طرازی) کو منہ پھوڑ کر کرنے کو پسند نہیں کرتا۔ (8) گناہ کے لئے ۔ یعلمون السوء بجھالۃ (4:17) جو بری حرکت (گناہ) جہالت سے کر بیٹھتے ہیں۔ (9) بئس (برا ہے) کے معنی میں ولہم سوء الدار (13:25) ان کے لئے ہے برا گھر۔ (10) ضرر کے لئے ۔ ویکشف السوء (27:62) اور مصیبت کو دور کردیتا ہے۔ (11) قتل و ہزیمت کے لئے۔ لم یمسسھم سوء (3:174) ان کو کوئی آنچ نہ پیش آئی۔ لا تمسوھا بسوئ۔ اس کو برائی کے ساتھ مت چھونا۔ یعنی اس کو کوئی گزند نہ پہنچانا۔ اس کو کونچیں نہ کاٹنا۔ فیاخذکم۔ الفاء سببیہ ہے ورنہ تم کو آلے گا۔ عذاب یوم عظیم۔ (ملاحظہ ہو 26:135)

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(156) اور اس اونٹنی کو برائی اور بدی کے ساتھ ہاتھ بھی نہ لگائو ورنہ تم کو ایک بہت بڑے دن کا عذاب آپکڑے گا۔ حضرت صالح (علیہ السلام) نے باری مقرر کی جس دن وہ پانی پیتی اس دن دوسرے جانور پیاسے رہتے پانی ختم ہوجاتا پھر بری نیت سے اس کو مارنے پیٹنے کی ممانعت کردی گئی۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں اونٹنی پیدا ہوئی پتھر میں سے اللہ کی قدرت سے حضرت صالح (علیہ السلام) کی دعا سے چھٹی پھرتی جس جنگل میں چرنے جاتی سب مواشی بھاگ کر کنارے ہوجاتے اور جس تالاب پر پانی کو جاتی سب مواشی وہاں سے بھاگتے تب یوں ٹھہرا ایک دن پانی پر وہ جاوے ایک دن اور مواشی جاویں 12