Surat us Shooaraa
Surah: 26
Verse: 160
سورة الشعراء
کَذَّبَتۡ قَوۡمُ لُوۡطِ ۣ الۡمُرۡسَلِیۡنَ ﴿۱۶۰﴾ۚۖ
The people of Lot denied the messengers
قوم لوط نے بھی نبیوں کو جھٹلایا ۔
کَذَّبَتۡ قَوۡمُ لُوۡطِ ۣ الۡمُرۡسَلِیۡنَ ﴿۱۶۰﴾ۚۖ
The people of Lot denied the messengers
قوم لوط نے بھی نبیوں کو جھٹلایا ۔
Lut and His Call Allah tells: كَذَّبَتْ قَوْمُ لُوطٍ الْمُرْسَلِينَ إِذْ قَالَ لَهُمْ أَخُوهُمْ لُوطٌ أَلاَ تَتَّقُونَ
لوط علیہ السلام اور انکی قوم اب اللہ تعالیٰ اپنے بندے اور رسول حضرت لوط علیہ السلام کا قصہ بیان فرما رہاہے ۔ ان کا نام لوط بن ہاران بن آزر تھا ۔ یہ ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کے بھتیجے تھے ۔ انہیں اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی حیات میں بہت بڑی امت کی طرف بھیجا تھا ۔ یہ لوگ سدوم اور اس کے پاس بستے تھے بالآخر یہ بھی اللہ کے عذابوں میں پکڑے گئے سب کے سب ہلاک ہوئے اور ان کی بستیوں کی جگہ ایک جھیل سڑے ہوئے گندے کھاری پانی کی باقی رہ گئی ۔ یہ اب تک بھی بلاد غور میں مشہور ہے جو کہ بیت المقدس اور کرک وشوبک کے درمیان ہے ان لوگوں نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب کی ۔ آپ نے انہیں اللہ کی معصیت چھوڑنے اور اپنی تابعداری کرنے کی ہدایت کی ۔ اپنا رسول ہو کر آنا ظاہر کیا ۔ انہیں اللہ کے عذابوں سے ڈرایا اللہ کی باتیں مان لینے کو فرمایا ۔ اعلان کردیا کہ میں تمہارے پیسے ٹکے کا محتاج نہیں ۔ میں صرف اللہ کے واسطے تمہاری خیر خواہی کر رہا ہوں ، تم اپنے اس خبیث فعل سے باز آؤ یعنی عورتوں کو چھوڑ کر مردوں سے حاجت روائی کرنے سے رک جاؤ لیکن انہیں نے اللہ کے رسول علیہ السلام کی نہ مانی بلکہ ایذائیں پہنچانے لگے ۔
16 0 1حضرت لوط علیہ السلام، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بھائی ہارون بن آزر کے بیٹے تھے۔ اور ان کو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ہی کی زندگی میں نبی بناکر بھیجا گیا تھا۔ ان کی قوم ' سدوم ' اور ' عموریہ ' میں رہتی تھی۔ یہ بستیاں شام کے علاقے میں تھیں۔
[٩٩] لوط (علیہ السلام) حضرت ابراہیم کے چچا زاد بھائی تھے۔ جب حضرت ابراہیم نے اپنے وطن کو خیرباد کہا تو اس وقت صرف یہی ایک فرد آپ پر ایمان لایا تھا اور آپ کے ہمراہ فلسطین کی طرف ہجرت کی تھی۔ یہیں آپ کو نبوت عطا ہوئی۔ اور حضرت ابراہیم نے آپ کو شرق اردن کی طرف روانہ کردیا۔ آپ کی تبلیغ کا مرکز سدوم اور اس کے ارد گرد کا علاقہ اور ھمورہ کی بستیں تھیں۔ آپ کی قوم مشرک اور دوسری بداخلاقیوں کے علاوہ لواطت میں گرفتار بلکہ اس بدفعلی کی موجد تھی۔ ان لوگوں پر بھی خاندانی منصوبہ بندی کا بھوت سوار تھا۔ اسی لئے شہوت رانی کے فطری طریق کو چھوڑ کر لونڈے بازی کا فعل شروع کیا پھر یہ لوگ اپنی غیر فطری روش پر نادم نہیں تھے۔ نہ ہی اسے گناہ سمجھتے تھے۔ بلکہ عقلی لحاظ سے اس کے بہت فوائد بتلاتے تھے۔
كَذَّبَتْ قَوْمُ لُوْطِۨ الْمُرْسَلِيْنَ ۔۔ : لوط (علیہ السلام) کے حالات کے لیے دیکھیے سورة اعراف (٨٠ تا ٨٤) ، ہود (٧٧ تا ٨٣) ، حجر (٦١ تا ٧٧) ، انبیاء (٧١ تا ٧٥) ، نمل (٥٤ تا ٥٨) ، صافات (١٣٣ تا ١٣٨) اور قمر (٣٣ تا ٣٩) لوط (علیہ السلام) ابراہیم (علیہ السلام) کے بھتیجے تھے۔ اصلاً یہ عراق کے رہنے والے تھے، انھیں جن بستیوں کی طرف مبعوث کیا گیا ان کا صدر مقام سدوم تھا، اس کے رہنے والوں کو لوط کی قوم اس لیے کہا گیا کہ وہ ان میں جا کر آباد ہوگئے تھے۔ ممکن ہے ان کی بیوی بھی انھی میں سے ہو۔ اگلی آیت میں لوط (علیہ السلام) کو ان کا بھائی اسی مناسبت سے کہا گیا ہے، ورنہ ان کا ان سے نسبی رشتہ نہیں تھا۔ اسی لیے جب ان کی قوم کے بدمعاش ان کے مہمانوں کی بےعزتی پر تل گئے تو انھوں نے کہا : (قَالَ لَوْ اَنَّ لِيْ بِكُمْ قُوَّةً اَوْ اٰوِيْٓ اِلٰي رُكْنٍ شَدِيْدٍ ) [ ھود : ٨٠ ] ” کاش ! واقعی میرے پاس تمہارے مقابلہ کی کچھ طاقت ہوتی، یا میں کسی مضبوط سہارے کی پناہ لیتا۔ “ تفصیل سورة اعراف (٨٠ تا ٨٤) ، ہود (٧٧ تا ٨٣) اور حجر (٦١ تا ٧٧) میں دیکھیے۔
خلاصہ تفسیر قوط لوط نے (بھی) پیغمبروں کو جھٹلایا جبکہ ان سے ان کے بھائی لوط (علیہ السلام) نے فرمایا کہ کیا تم (اللہ سے) ڈرتے نہیں ہو ؟ میں تمہارا امانت دار پیغمبر ہوں، سو تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو اور میں تم سے اس پر کوئی صلہ نہیں چاہتا، بس میرا صلہ تو رب العالمین کے ذمہ ہے، کیا تمام دنیا جہان والوں میں سے تم (یہ حرکت کرتے ہو کہ) مردوں سے بدفعلی کرتے ہو اور تمہارے رب نے جو تمہارے لئے بیبیاں پیدا کی ہیں ان کو نظر انداز کئے رہتے ہو (یعنی اور کوئی آدمی تمہارے سوا یہ حرکت نہیں کرتا اور یہ نہیں کہ اس کے قبیح ہونے میں کچھ شبہ ہے) بلکہ (اصل بات یہ ہے کہ) تم حد (انسانیت) سے گزر جانے والے لوگ ہو، وہ لوگ کہنے لگے کہ اے لوط، اگر تم (ہمارے کہنے سننے سے) باز نہیں آؤ گے تو ضرور (بستی سے) نکال دیئے جاؤ گے، لوط (علیہ السلام) نے فرمایا کہ (میں اس دھمکی پر اپنے کہنے سے نہ رکوں گا کیونکہ) میں تمہارے اس کام سے سخت نفرت رکھتا ہوں (تو کہنا کیسے چھوڑ دوں گا، جب کسی طرح ان لوگوں نے نہ مانا اور عذاب آتا ہوا معلوم ہوا تو) لوط (علیہ السلام) نے دعا کی کہ اے میرے رب مجھ کو اور میرے (خاص) متعلقین کو ان کے اس کام (کے وبال) سے (جو ان پر آنے والا ہے) نجات دے، سو ہم نے ان کو اور ان کے متعلقین کو سب کو نجات دی، سوائے ایک بڑھیا کے (مراد اس سے زوجہ ہے لوط (علیہ السلام) کی) کہ وہ (عذاب کے اندر) رہ جانے والوں میں رہ گئی، پھر ہم نے اور سب کو (جو لوط اور ان کے اہل کے سوا تھے) ہلاک کردیا اور ہم نے ان پر ایک خاص قسم کا (یعنی پتھروں کا) مینہ برسایا، سو کیا برا مینہ تھا جو ان لوگوں پر برسا جن کو (عذاب الٰہی سے) ڈرایا گیا تھا بیشک اس (واقعہ) میں (بھی) عبرت ہے اور (باوجو اس کے) ان (کفار مکہ) میں اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے، اور بیشک آپ کا رب بڑی قدرت والا بڑی رحمت والا ہے کہ (عذاب دے سکتا تھا مگر ابھی نہیں دیا۔ )
كَذَّبَتْ قَوْمُ لُوْطِۨ الْمُرْسَلِيْنَ ١٦ ٠ۚۖ قوم والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ، ( ق و م ) قيام القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] لوط لُوطٌ: اسم علم، واشتقاقه من لَاطَ الشیء بقلبي يَلُوطُ لَوْطاً ولَيْطاً ، وفي الحدیث : «الولد أَلْوَطُ- أي : ألصق۔ بالکبد» وهذا أمر لا يَلْتَاطُ بصفري . أي : لا يلصق بقلبي، ولُطْتُ الحوض بالطّين لَوْطاً : ملطته به، وقولهم : لَوَّطَ فلان : إذا تعاطی فعل قوم لوط، فمن طریق الاشتقاق، فإنّه اشتقّ من لفظ لوط الناهي عن ذلک لا من لفظ المتعاطین له . ( ل و ط ) لوط ( حضرت لوط (علیہ السلام) ) یہ اسم علم ہے لَاطَ الشیء بقلبي يَلُوطُ لَوْطاً ولَيْطاً ، سے مشتق ہے جس کے معنی کسی چیز کی محبت دل میں جاگزیں اور پیوست ہوجانے کے ہیں ۔ حدیث میں ہے ۔ (115) الولد الوط بالکید ۔ کہ اولاد سے جگری محبت ہوتی ہے ۔ ھذا امر لایلنا ط بصفری ۔ یہ بات میرے دل کو نہیں بھاتی ۔ لطت الحوض بالطین لوطا ۔ میں نے حوض پر کہگل کی ۔ گارے سے پلستر کیا ۔۔۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کے نام سے اشتقاق کرکے تولط فلان کا محاورہ ستعمال ہوتا ہے جس کے معنی خلاف فطرت فعل کرنا ہیں حالانکہ حضرت لوط (علیہ السلام) تو اس فعل سے منع کرتے تھے اور اسے قوم لوط س مشتق نہیں کیا گیا جو اس کا ارتکاب کرتے تھے ۔
(١٦٠۔ ١٦٢) قوم لوط (علیہ السلام) نے بھی پیغمبروں کو جھٹلایا جب کہ ان کے نبی نے ان سے فرمایا کیا تم اللہ سے نہیں ڈرتے ہو کہ غیر اللہ کی عبادت کرتے ہو میں تمہارا امانت دار پیغمبر ہوں۔
107 For comparison, see Al-A'raf: 80-84, Hud: 7483. AI-Hijr: 57-77, AI-Anbiya': 71-75, An-Naml; 54-58, Al-'Ankabut: 28-35, As-Saffat: 133-138 and A I-Qamar: 33-39.
سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :107 تقابل کے لیے ملاحظہ ہو الاعراف ، آیات 80 تا 84 ۔ ہود ، 74 تا 83 ۔ الحجر 57 تا 77 ۔ الانبیاء 71 تا 75 النمل 54 تا 58 ۔ العنکبوت 28 ۔ 35 ۔ الصافات 133 تا 138 ۔ القمر 33 تا 39 ۔
(١٦٠ تا ١٧٥) یہ حضرت لوط ( علیہ السلام) اور ان کی امت کا قصہ ہے سورة ہود میں اس قصے کی تفصیل گزر چکی ہے حاصل قصہ کا یہ ہے کہ حضرت لوط ( علیہ السلام) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بھتیجے تھے شام کے ملک کی طرف حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جب ہجرت کی تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ انہوں نے بھی ہجرت کی سدوم ایک بستی شام کے نواح میں ہے وہاں کے یہ نبی ہوئے وہاں کے لوگوں نے یہ گناہ ایجاد کیا تھا کہ عورتوں کو چھوڑ کر لڑکوں سے بدفعلی کیا کرتے تھے مدت تک حضرت لوط ( علیہ السلام) نے لوگوں کو نصیحت کی مگر کچھ اثر نہ ہوا اور ایک شخص بھی ان میں سے راہ راست پر نہ آیا اس لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرئیل اور میکائیل اور اسرافیل کو انسان کی صورت میں ان کے عذاب کے لیے بھیجا پہلے یہ تینوں فرشتے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس آئے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ان کو نہیں پہچانا اور مہمان سمجھ کر ان کے لیے کھانا لے آئے جب انہوں نے کھانا نہیں کھایا تو حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کو تعجب ہوا اس پر انہوں نے جتلایا کہ ہم اللہ کے فرشتے ہیں اور حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کو حضرت اسحاق ( علیہ السلام) کے پیدا ہونے کی خوشخبری دی اور لوط ( علیہ السلام) کی امت پر عذاب نازل ہونے کا حال بھی بیان کیا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اس عذاب کے ٹل جانے کی سفارش کے ان فرشتوں نے جواب دیا کہ اللہ کا حکم نہیں ٹل سکتا پھر یہ فرشتے حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) سے رخصت ہو کر سدوم گئے اور وہاں خوبصورت لڑکوں کی صورت بن گئے اور حضرت لوط کے گھر میں مہمان بن کر اترے حضرت لوط ( علیہ السلام) کی بیوی نے قوم کے لوگوں کو ان خوبصورت نو عمر مہمانوں کی خبر دی اور وہ حضرت لوط ( علیہ السلام) کے گھر پر چڑھ کر آئے جب اللہ کے فرشتوں نے حضرت لوط ( علیہ السلام) کو جتلایا کہ ہم خوبصورت لڑکوں کی صورت میں اللہ کے فرشتے ہیں تمہاری امت پر اللہ کا عذاب لے کر آئے ہیں تھوڑی رات رہے تم اس بستی سے نکل کر چلے جانا پیچھے پھر کر ہرگز نہ دیکھنا صبح کو ان لوگوں پر عذاب آوے گا اور تمہاری بی بی بھی ان لوگوں میں ملی ہوئی ہے اس واسطے وہ بھی اس عذاب میں گرفتار ہوگی صبح کو اللہ کے حکم سے اس بستی پر پتھروں کا مینہ برسا اور حضرت جبرائیل ( علیہ السلام) (علیہ السلام) نے اس بستی کے زمین کے ٹکڑے کو اٹھا کر الٹ دیا اب وہاں کا پانی بھی استعمال کے قابل نہیں رہا خوبصورت لڑکوں کی خبر سن کر جب قوم کے لوگ حضرت لوط ( علیہ السلام) کے گھر پر چڑھ کر آئے اسی وقت حضرت لوط ( علیہ السلام) نے اپنی تنہائی پر افسوس کر کے یہ کہا تھا کہ کاش میرے رشتہ کے لوگ میرے ساتھ ہوتے تو میں ان کی مدد سے امت کے لوگوں سے لڑتا حضرت لوط ( علیہ السلام) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے جدا ہو کر اکیلے سدوم میں نبی ہو کر گئے تھے اور تنہا وہاں رہتے تھے اس واسطے انہوں نے اپنی تنہائی پر افسوس کیا معتبر سند سے مسند امام احمد بن حنبل میں حضرت ابوہریرہ (رض) سے جو روایت ١ ؎ ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ حضرت لوط ( علیہ السلام) کے بعد اللہ تعالیٰ نے بغیر کنبے کے لوگوں کی مدد کے کسی نبی کو اکیلا کسی بستی میں نہیں بھیجا۔ تفسیر ابن مردویہ میں اس روایت کے بعد اتنا اور زیادہ ہے کہ حضرت ابوہریرہ (رض) اس روایت کے ثبوت میں حضرت شعیب کے قصہ کی یہ آیت پڑھا کرتے تھے (ولو لا رھطک لرجمناک) مختصر طور سے ابوہریرہ (رض) کی یہ روایت صحیح بخاری ٢ ؎ میں بھی ہے حضرت شعیب (علیہ السلام) کے قصہ کا حاصل مطلب یہ ہے کہ حضرت شعیب ( علیہ السلام) کی امت میں حضرت شعیب ( علیہ السلام) کے جو مخالف لوگ تھے وہ حضرت شعیب ( علیہ السلام) سے یوں کہا کرتے تھے کہ تمہارے کنبے کے لوگ نہ ہوتے تو اے شعیب ہم تم کو قتل کر ڈالتے۔ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے ابوموسیٰ اشعری (رض) کی حدیث جو اوپر گزر چکی قوم لوط کی مہلت اور ہلاکت کی وہی حدیث گویا تفسیر ہے۔ (١ ؎ دیکھئے فتح الباری ص ٢٢٤ ج ٣ باب ولوطا اذا قال لقومہ الآیہ ) (٢ ؎ کتاب الانبیآء )
آیات 160 تا 175 اسرار و معارف قوم لوط نے بھی اللہ کے رسولوں کا انکار کیا جب ان کے قومی بھائی لوط (علیہ السلام) نے انہیں دعوت دی کہ اللہ کا خوف اختیار کرو میں تمہارے لیے اللہ کا رسول اور امین ہوں لہذا میری بات مان کر اللہ کیا طاعت اختیار کرو میں اس پر تم سے کوئی اجرت نہیں چاہتا بلکہ میرا اجر تو اللہ کریم دیں گے جو سب جہانوں کو پالنے والے ہیں۔ تم اپنے کام کی خباثت تو دیکھو کہ اپنی بیویوں کو چھوڑ کر مردوں اور لڑکوں سے بد فعلی کرتے ہو ایسا برا کام تو دنیا میں تمہارے سوا کوئی نہیں کرتا۔ بد فعلی حرام ہے : یہاں سے علما کرام نے ثابت فرمایا ہے ہے کہ بدفعلی حرام ہے خواہ اپنی بیوی سے بھی کرے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایسے شخص پر لعنت فرمائی ہے۔ بلکہ بیوی بھی اسی طرح حلال ہے جس طرح فطرت کا تقاضا ہے اور غیر فطری طریقہ حرام ہے۔ وہ کہنے لگے کہ اپنے کام سے کام رکھو اور اگر آپ باز نہ آئے تو تو ہم آپ کو شہر بدر کردیں گے پھر تم نیک لوگ الگ شہر بساتے پھرنا آپ نے فرمایا تم جو کچھ بھی کرلو میں تمہارے اس فعل سے سخت بیزار ہوں اور اس سے سمجھوتہ نہیں کرسکتا نیز آپ نے دعا فرمائی کہ اللہ اس بدکاری پر جو عذاب آنے والا ہے اس سے مجھے اور میرے متبعین کو بچا لے چناچہ اللہ کریم نے انہیں اور ان کے لوگوں کو عذاب سے بچا لیا سوائے ان کی بڑھیا بیوی کے جو ایمان نہ لائی تھی وہ پیچھے رہ جانے والوں کے ساتھ رہ گئی اور پھر اس قوم کو اٹھا کر زمین پر پٹخ دیا گیا اور اس پر آسمان سے پتھر برسائے گئے جو بہت سخت عذاب تھا جو ان کے نہ ماننے کے سبب نازل ہوا۔ لوطی کی سزا : یہاں سے حنفیہ نے اخذ فرمایا کہ لوطی کو بلندی سے گرا دیا جائے یا اس پر دیوار گرا دی جائے اور یوں اسے ہلاک کی جائے۔ یہ قصہ بھی بہت عبرت آموز ہے مگر لوگ اکثر ایمان سے محروم رہتے ہیں حالانکہ اللہ غالب ہے مگر اس کی رحمت سے انہیں ابھی مہلت مل رہی ہے۔
لغات القرآن : آیت نمبر 160 تا 175 : اتاتون (کیا تم آتے ہو) الذکران (ذکر) مرد ‘ (تذرون) تم چھوڑتے ہو ‘(عدون) حد سے آگے بڑھنے والے ‘ المخرجین (نکالے جانے والے) ‘ القالین (نفرت کرنے والے) ‘ عجوز (بڑھیا) ‘ الغبرین (پیچھے رہ جانے والے) ‘ دمرنا (ہم نے ہلاک کردیا) ‘ امطرنا (ہم نے برسایا) ‘ المذرین (ڈرائے جانے والے۔ تشریح : آیت نمبر 160 تا 175 : سورۃ الشعراء میں جن سات انبیاء کرام (علیہ السلام) کے واقعات کو بیان کیا گیا ہے ان میں سے چھٹے نبی حضرت لوط (علیہ السلام) ہیں جو حضرت ابراہیم خلیل اللہ (علیہ السلام) کے بھتیجے تھے۔ حضرت لوط (علیہ السلام) جو اللہ کے نبی تھے سدوم اور عامورہ کی بستیوں میں رہنے والے بد کردار لوگوں کی اصلاح کے لئے بھیجے گئے تھے۔ یہ وہ قوم تھی جو اپنی شہوت پرستی کی حدود کو پھلانگ چکی تھی۔ ان کے لئے ان کی عورتیں فطری خواہش کے لئے ناکافی تھیں اور وہ لڑکوں سے غیر فطری فعل بد میں کھلم کھلا بغیر کسی شرم و حیا کے مبتلا تھی۔ یہ قوم اپنی اس ناجائز اور غیر فطری خواہش کی پیچھے ایسے دیوانے ہوچکے تھے کہ جب حضرت لوط (علیہ السلام) نے ان سے فرمایا کہ اے میری قوم تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اپنی فطری خواہش کو پورا کرنے کے لئے لڑکوں کے پیچھے دیوانہ وار دوڑ رہے ہو حالانکہ اللہ تعالیٰ نے جو فطری طریقہ مقرر فرمایا ہے یعنی عورتوں کو تمہارا جوڑا بنایا ہے تاکہ تم ان سے نکاح کر کے اپنے فطری تقاضوں کو حلال اور جائز طریقے سے پورا کرو۔ تم نے فطرت کے قانون کو توڑ کر جس راستے کو اپنا یا ہے اس کا انجام بہت بھیانک ہے۔ میں اللہ کی طرف سے رسول اور امانت دار پیغمبر بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ اللہ سے ڈرو اور میری بات مانوں اور میری اطاعت کرو۔ میں یہ سب کچھ کہنے اور کرنے پر تم سے کوئی اجرت اور معاوضہ تو نہیں مانگ رہا ہوں میرا صلہ اور بدلہتو اللہ کیذمے ہے کتنی بدترین بات ہے کہ تم فطری اور جائزراستے کو چھوڑ کر لڑکوں کے پیچھے لگے ہوئے ہو۔ اس سے باز آجائو۔ یہ قوم اس خبیث اور گندے فعل کی وجہ سے بےشرمی کی انتہا پر پہنچ چکی تھی اس لئے ان کے لئے کسی بڑے سے بڑے نا جا ائز فعل کو کر گزرنے میں کوئی رکاوٹ نہ تھی چناچہ وہ مسافروں کو لوٹتے ‘ ڈاکے ڈالتے اور شراب نوشی میں بد مست ہوچکے تھے۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کی یہ باتیں سن کر کہنے لگے کہ اے لوط اگر تم نے اپنی ان نصیحتوں کا سلسلہ بند نہ کیا تو ہم تمہیں اپنی بستیوں سے باہر نکا ل دیں گے۔ حضرت لوط (علیہ السلام) اپنی قوم کو بےحیائی ‘ بےشرمی اور خبیث فعل پر برابر ملامت کرتے رہے اور ان کو پاکیزہ زندگی گزارنے کی تقلین کرتے رہے مگر یہ بےحیائی کا فعل اس قوم میں اس بری طرح رائج ہوچکا تھا کہ حضرت لوط بھی ان سے مایوس ہوگئے تھے کیونکہ ان بد کرداروں کا کام صرف یہ رہ گیا تھا کہ وہ حضرت لوط (علیہ السلام) کی ہر بات کو جھٹلاتے ان کا مذاق اڑاتے اور جہاں اللہ کے دین کی بات ہوتی وہ رکاوٹ بن کر کھڑے ہوجاتے تھے۔ آخر کار حضرت لوط (علیہ السلام) نے ایک دن اللہ کی بار گاہ میں عرض کیا الہی ! میں نے دن رات اپنی قوم کے لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کی مگر ایسا لگتا ہے کہ یہ قوم سوچنے سمجھنے اور نیک راہوں پر چلنے کی صلاحیت سے محروم ہوچکی ہے۔ اب آپ ہی بہتر فیصلہ فرماسکتے ہیں۔ چنانچہ اللہ خوبصورت لڑکوں کی شکل میں اپنے چند فرشتوں کو بھیجا۔ جب اس بد کردار قوم کو اس بات کی اطلاع ملی کہ کچھ خوبصورت اور نوجوان لڑکے حضرت لوط (علیہ السلام) کے مہمان ہیں تو حضرت لوط (علیہ السلام) کی بیوی جو اپنے کفر وشرک میں مبتلا تھی اس نے قوم کو اس بات کی اطلاع کردی تھی کہ حضرت لوط کے پاس کچھ لڑکے آئے ہوئے ہیں۔ حضرت لوط (علیہ السلام) بھی اس صورت حال سے گھبرا اٹھے اس وقت فرشتوں نے بتایا کہ اے لوط (علیہ السلام) آپ پریشان نہ ہوں دراصل ہم تو اس بد کردار قوم کو اللہ کی طرف سے سزادینے پر مقرر کئے گئے ہیں۔ فرشتوں نے کہا کہ اے لوط (علیہ السلام) ! آپ اور آپ کے ساتھ جتنے بھی اہل ایمان ہیں ان کو لے کر کسی دوسری بستی میں چلے جائیں کیونکہ اس قوم کو اللہ نے شدید ترین عذاب دینے کا فیصلہ فرما لیا ہے۔ البتہ آپ اپنے اہل و عیال میں سے اپنی بیوی کو ساتھ نہ لیں کیونکہ وہ آپ کی بیوی ہونے کے باوجود ایمان سے محروم ہے۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کے چلے جانے کے بعد اس قوم پر عذاب آنا شروع ہوگیا۔ ابتداء میں تو ایک زبردست چیخ سنائی دی جس نے ان کو اور ان کے درو دیوار کو ہلا کر رکھ دیا۔ اس کے بعد اس پوری بستی کو اٹھا کر الٹ دیا گیا اور اوپر سے پتھروں کی بارش کردی گئی جس سے اس قوم کا نام و نشان تک مٹ گیا اور وہی سدوم اور عامورہ کی آباد بستیاں جو کبھی پر رونق تھیں سمندر کے نیچے چلی گئیں۔ یہ علاقہ جو کبھی سرسبز و شاداب علاقہ کہلاتا تھا یا تو ویران حالت میں نظر آتا ہے اور اس بستی کا دوسرا علاقہ بحر مروار (Dead Sea) کے نیچے دفن ہے۔ آج اس بحر مردار کا یہ حال ہے کہ اس میں کوئی جان دار چیز یہاں تک کہ بیکٹریا تک زندہ نہیں رہتا یا یوں کہئے کہ اس جگہ عذاب کیا آج بھی اتنے شدید اثرات ہیں کہ یہ سمندر اپنے اندر کسی جان دار کو قبول تک نہیں کرسکتا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت لوط (علیہ السلام) کا واقعہ سنا کر ایک مرتبہ پھر اس بات کو دھرایا ہے کہ اس واقعہ میں بھی غور و فکر کرنے والوں اور عبرت و نصیحت حاصل کرنے والوں کے لئے ایک نشانی ہے مگر اکثر لوگ وہ ہیں جو ایسی کھلی نشانیوں کو دیکھ کر بھی ایمان نہیں لاتے۔ اللہ کی قوت و طاقت کے سامنے کسی کی قوت نہیں ہے جب قوموں کو ان کی بد عملیوں کی وجہ سے تباہ و برباد کرنے کا ایسا فیصلہ آجاتا ہے تو پھر کوئی طاقت اس کے عذاب کو روکنے والی نہیں ہوتی مگر وہ اپنے بندوں پر بہت مہربان ہے۔ اس کے سا کرم سے فائدہ نہ اٹھانے والے ہی بد نصیب لوگ ہیں۔
فہم القرآن ربط کلام : حضرت صالح (علیہ السلام) کے بعد حضرت لوط (علیہ السلام) کی تشریف آوری اور ان کا اپنی قوم کو سمجھنا۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کو بھی ان کی قوم کا بھائی قرار دیا گیا ہے کیونکہ نسل انسانی کے ناطے سے تمام انسان ایک دوسرے کے بھائی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت لوط (علیہ السلام) کو نبوت سے سرفراز فرمایا۔ انھوں نے انہی الفاظ اور انداز سے اپنی دعوت کا آغاز کیا جس طرح ان کے پیش رو انبیاء کرام (علیہ السلام) نے کیا تھا۔ انھوں نے بار بار قوم کو اپنے رب سے ڈرایا اور فرمایا کہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہاری طرف رسول منتخب کیا گیا ہوں۔ میں رب کے پیغام تم تک پوری دیانت و امانت کے ساتھ پہنچانے کی کوشش کر رہا ہوں۔ تم اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور میری تابعداری کرو۔ کفر و شرک اور بدکاری کو چھوڑ دو ، یاد رکھو ! میں فریضہ نبوت کی انجام دہی اور تمہاری خدمت کرنے پر تم سے کوئی اجرت طلب نہیں کرتا۔ حضرت لوط (علیہ السلام) : حضرت لوط (علیہ السلام) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بھتیجے تھے۔ جنھوں نے عراق کی سرزمین سے ہجرت کرکے غور زنمر کے علاقہ سدوم شہر میں رہائش اختیار کی یہ شہر علاقے کا مرکزی مقام تھا۔ جہاں کے رہنے والے پر لے درجے کے فاسق و فاجر مشرک، کافر، ڈاکو، چور اور انتہائی بد کردارلوگ تھے۔ جنھوں نے دنیا میں بےحیائی کا ایسا عمل اختیار کیا جو اس سے پہلے کسی قوم نے نہیں کیا تھا۔ حضرت لوط نے عقیدہ توحید کی دعوت دینے کے ساتھ اس برائی کو ختم کرنے پر خصوصی توجہ فرمائی۔ آپ نے اپنی قوم کو بار بار فرمایا کہ اے میری قوم ! تم اپنی بیویوں سے صحبت کرنے کی بجائے لڑکوں کے ساتھ بدمعاشی کرتے ہو۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری بیویوں کو ازدواجی تعلقات کے لیے پیدا فرمایا ہے لیکن تم ان کی بجائے لونڈے بازی اور ہم جنسی کا ارتکاب کرتے ہو تم اخلاقی حدوں کو توڑ رہے ہو۔ تمہیں اللہ سے ڈر کر اس سے باز آنا چاہیے۔ قوم نے کہا کہ اے لوط ! اگر تو ہمیں اس کام سے روکنے سے باز نہ آیا تو ہم تمہیں اپنے شہر سے نکال باہر کریں گے۔ مسائل ١۔ حضرت لوط (علیہ السلام) حسب و نسب کے لحاظ سے اپنی قوم کے بھائی تھے۔ ٢۔ حضرت لوط (علیہ السلام) نے بار بار اپنی قوم کو اللہ تعالیٰ سے ڈرایا اور فرمایا کہ کفر و شرک اور بدکاری چھوڑ کر میری تابعداری کرو۔ ٣۔ حضرت لوط (علیہ السلام) بھی پہلے انبیاء (علیہ السلام) کی طرح بلامعاوضہ نبوت کا کام کرتے تھے۔ ٤۔ لوط (علیہ السلام) کی قوم لونڈے بازی کا غیر فطری عمل کرتے تھے۔ ٥۔ حضرت لوط (علیہ السلام) نے بار بار اپنی قوم کو اللہ تعالیٰ سے ڈرایا۔ ٦۔ حضرت لوط (علیہ السلام) نبوت کے کام اور لوگوں کی خدمت کرنے کا کوئی معاوضہ نہیں لیتے تھے۔
درس نمبر ١٦٧ تشریح آیات ١٦٠…………تا ……………١٧٥ کذبت قوم ……رب العلمین (١٤٠) قصہ عوط یہاں لایا گیا ہے حالانکہ تاریخی اعتبار سے اس کا زمانہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا زمانہ ہے۔ لیکن اس سورت میں قصص کی تاریخی ترتیب کا لحاظ نہیں رکھا گیا۔ یہاں اصل بات یہ دکھائی مطلب ہے کہ تمام انبیاء کی دعوت ایک ہی رہی ہے۔ طریقہ کار بھی سب کا ایک ہی رہا ہے اور جھٹلانے والوں کا انجام بھی ایک ہی رہا ہے۔ یعنی مکذبین کو ہلاک کیا گیا اور مومنین کو عذاب سے بچایا گیا۔ حضرت لوط (علیہ السلام) بھی دعوت کا آغاز اسی طرح کرتے ہیں جس طرح حضرت نوح ، حضرت ہود اور حضرت صالح (علیہ السلام) کرتے ہیں۔ قوم کی سرکشی اور عیاشی پر گرفت کرتے ہیں۔ ان کو خدا خوفی ایمان اور اطاعت رسول کی طرف بلاتے ہیں اور یہ اعلان بھی کرتے ہیں کہ اس ہدایت اور راہنمائی پر وہ ان سے کوئی مالی معاوضہ نہیں مانگتے۔ اس کے بعد حضرت ان کو نسبہ کرتے ہیں کہ تم جس بدی میں مبتلا ہو ، اس کا ارتکاب انسانی تاریخ میں نہیں کیا گیا۔
حضرت لوط (علیہ السلام) کا اپنی قوم کو تبلیغ کرنا اور برے کاموں سے روکنا، قوم کا دھمکی دینا کہ ہم تمہیں نکال دینگے، پھر پتھروں کی بارش سے ہلاک ہونا سیدنا حضرت لوط (علیہ السلام) بھی اللہ تعالیٰ کے پیغمبر تھے، جن بستیوں کی طرف مبعوث ہوئے وہ نہراردن کے قریب تھیں یہ لوگ فحش کام کرنے والے تھے یعنی مردوں کے ساتھ شہوت رانی کیا کرتے تھے۔ جیسا کہ سورة اعراف اور سورة ھود اور یہاں سورة شعراء میں بیان فرمایا ہے، ان سے پہلے یہ عمل کسی قوم نے نہیں کیا تھا نیزیہ لوگ ڈاکہ زنی بھی کرتے تھے جیسا کہ سورة عنکبوت (ع ٣) میں مذکور ہے (وَ تَقْطَعُوْنَ السَّبِیْلَ ) (اور تم راہزنی کرتے ہو) حضرت لوط (علیہ السلام) نے ان کو اچھی طرح سے سمجھایا اور برے کام سے روکا لیکن انہوں نے ایک نہ مانی اور بےہودہ جواب دینے لگے، کہنے لگے اجی ! ان لوگوں کو بستی سے نکال دو یہ لوگ پاک باز بنتے ہیں۔ مطلب یہ تھا کہ یہ لوگ خود پاک باز بنتے ہیں اور ہمیں گندہ بتاتے ہیں گندوں میں پاکوں کا کیا کام ؟ یہ بات انہوں نے ازراہ تمسخر کہی تھی۔ یہاں سورة شعراء میں یہ بھی ہے (قَالُوْا لَءِنْ لَّمْ تَنْتَہِ یَا لُوْطُ لَتَکُوْنَنَّ مِنَ الْمُخْرَجِیْنَ ) (ان لوگوں نے حضرت لوط (علیہ السلام) کو جواب دیتے ہوئے کہا اے لوط ! اگر تو باز نہ آیا تو ضرور ان لوگوں میں سے ہوجائے گا جنہیں نکال دیا جاتا ہے) (قَالَ اِِنِّیْ لِعَمَلِکُمْ مِّنَ الْقَالِیْنَ ) (حضرت لوط (علیہ السلام) نے فرمایا میں تمہارے اعمال سے بغض رکھنے والا ہوں) وہ لوگ برابر اپنی بےہودگی اور بےحیائی پر اڑے رہے اور کمال بےہودگی اور ڈھٹائی کے ساتھ انہوں نے کہا کہ اگر تو سچا ہے تو اللہ کا عذاب لے آ، ان پر عذاب آگیا اور انہیں منہ مانگی مصیبت مل گئی، سورة انعام اور سورة شعراء اور سورة نمل میں (وَاَمْطَرْنَا عَلَیْہِمْ مَّطَرًا) فرمایا ہے (کہ ہم نے ان پر خاص قسم کی بارش برسا دی) سورة ھود اور سورة حجر میں فرمایا ہے کہ ہم نے ان کی زمین کے اوپر والے حصہ کو نیچے والا حصہ کردیا یعنی زمین کا تختہ الٹ دیا اور ان پر کنکر کے پتھر برسا دیئے نیز سورة حجر میں یہ بھی ہے کہ سورج نکلتے نکلتے ان کو چیخ نے پکڑ لیا، خلاصہ یہ ہے کہ ان پر تینوں طرح کا عذاب آیا اور ہلاک اور برباد کردیئے گئے، لوط (علیہ السلام) اور ان کے گھر والوں کو نجات مل گئی ہاں ایک بڑھیا جو حضرت لوط (علیہ السلام) کی بیوی تھی انہیں لوگوں میں سے رہ گئی جو عذاب میں مبتلا ہوئے اور وہ بھی ان کے ساتھ ہلاک ہوگئی تفصیل کے ساتھ حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم کا واقعہ سورة اعراف سورة ھود سورة حجر میں گزر چکا ہے، (اِِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لاآیَۃً ) (بلاشبہ اس میں بڑی عبرت ہے) (وَّمَا کَانَ اَکْثَرُھُمْ مُّؤْمِنِیْنَ ) (اور ان میں سے اکثر ایمان لانے والے نہیں ہیں) (وَاِِنَّ رَبَّکَ لَہُوَ الْعَزِیْزُ الرَّحِیْمُ ) (اور بیشک آپ کا رب عزیز ہے رحیم ہے) ۔
60:۔ یہ چھٹی نقلی دلیل اور تخویف دنیوی ہے۔ ” اذ قال لھم اخوھم لوط “ تا ” علی رب العلمین اس کی تفسیر گذر چکی ہے۔ ” اتاتون الذکران الخ “ قوم لوط خلاف فطرت فعل کی عادی تھی حضرت لوط (علیہ السلام) نے انہیں اس فعل بد سے منع کرتے ہوئے فرمایا کس قدر کم عقلی ہے کہ تم مردوں سے خلاف فطرت فعل کا ارتکاب کرتے ہو اور جنسی تسکین حاصل کرنے کے لیے اللہ نے تمہارے لیے جو بیویاں پیدا کی ہیں ان کو چھوڑ دیتے ہو ” بل انتم قوم عٰدون الخ “ پھر اس فعل شنیع کے ارتکاب میں تم اس قدرت حد سے گذر چکے ہو کہ تمہاری فطرت ہی مسخ ہوچکی ہے اور تم بھری مجلس میں بھی یہ فعل کرتے ہوئے نہیں شرماتے ہو۔ جیسا کہ دوسری جگہ ارشاد ہے۔ ” وتاتون فی نادکم المنکر “ (عنکبوت رکوع 3) ۔