Surat us Shooaraa

Surah: 26

Verse: 166

سورة الشعراء

وَ تَذَرُوۡنَ مَا خَلَقَ لَکُمۡ رَبُّکُمۡ مِّنۡ اَزۡوَاجِکُمۡ ؕ بَلۡ اَنۡتُمۡ قَوۡمٌ عٰدُوۡنَ ﴿۱۶۶﴾

And leave what your Lord has created for you as mates? But you are a people transgressing."

اور تمہاری جن عورتوں کو اللہ تعالٰی نے تمہارا جوڑا بنایا ہے ان کو چھوڑ دیتے ہو بلکہ تم ہو ہی حد سے گزر جانے والے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

"Go you in unto the males of Al-`Alamin (people), And leave those whom Allah has created for you to be your wives! Nay, you are a trespassing people!" The Prophet of Allah forbade them from committing evil deeds and intercourse with males, and he taught them that they should have intercourse with their wives whom Allah had created for them. Their response was only to say:

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

1661یہ قوم لوط کی سب سے بری عادت تھی، جس کی ابتداء اسی قوم سے ہوئی تھی، اسی لئے اس فعل بد کو لواطت سے تعبیر کیا جاتا ہے یعنی بدفعلی جس کا آغاز قوم لوط سے ہوا لیکن اب یہ بدفعلی پوری دنیا میں عام ہے بلکہ یورپ میں تو اسے قانوناً جائز تسلیم کرلیا گیا ہے یعنی ان کے ہاں اب سرے سے گناہ ہی نہیں ہے۔ جس قوم کا مذاج اتنا بگڑ گیا ہو کہ مرد عورت کا ناجائز جنسی ملاپ (بشرطیکہ باہمی رضامندی سے ہو) ان کے نزدیک جرم نہ ہو، تو وہاں دو مردوں کا آپس میں بدفعلی کرنا کیونکر گناہ اور ناجائز ہوسکتا ہے۔ ؟ اعاذنا اللہ منہ 166۔2عادون۔ عاد کی جمع ہے عربی میں عاد کے معنی ہیں حد سے تجاوز کرنے والا یعنی حق کو چھوڑ کر باطل کو اور حلال کو چھوڑ کر حرام کو اختیار کرنے والا اللہ تعالیٰ نے نکاح شرعی کے ذریعے سے عورت کو فرج سے اپنی جنسی خواہش کی تسکین کو حلال قرار دیا ہے اور اس کام کے لیے مرد کی دبر کو حرام قوم لوط نے عورتوں کی شرم گاہوں کو چھوڑ کر مردوں کی دبر اس کام کے لیے استعمال کی اور یوں اس نے حد سے تجاوز کیا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَتَذَرُوْنَ مَا خَلَقَ لَكُمْ رَبُّكُمْ ۔۔ : اس آیت کے بھی دو مطلب ہوسکتے ہیں، ایک یہ کہ اس خواہش کو پورا کرنے کے لیے جو بیویاں اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے پیدا کی ہیں انھیں چھوڑ کر مردوں کے پاس جاتے ہو۔ اس صورت میں ” مَا “ بیانیہ ہے، ترجمہ اسی کے مطابق کیا گیا ہے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ تمہاری بیویوں میں سے جو کچھ تمہارے رب نے تمہارے لیے پیدا کیا ہے اسے چھوڑ دیتے ہو ؟ یعنی قبل کے بجائے غیر فطری وضع سے شہوت پوری کرتے ہو۔ اس صورت میں ” مَا “ تبعیض کے لیے ہے۔ بعید نہیں کہ وہ لوگ یہ حرکت اولاد سے بچنے کے لیے کرتے ہوں۔ بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ عٰدُوْنَ : یعنی صرف اسی کام میں نہیں بلکہ ہر کام میں حد سے گزرنا تمہاری عادت بن چکی ہے، جیسا کہ فرمایا : (اَىِٕنَّكُمْ لَتَاْتُوْنَ الرِّجَالَ وَتَقْطَعُوْنَ السَّبِيْلَ ڏوَتَاْتُوْنَ فِيْ نَادِيْكُمُ الْمُنْكَرَ ) [ العنکبوت : ٢٩ ] ” کیا بیشک تم واقعی مردوں کے پاس آتے ہو اور راستہ کاٹتے ہو اور اپنی مجلس میں برا کام کرتے ہو ؟ “ ہمارے عہد میں یورپی لوگ فطرت کی مخالفت میں اس قدر حد سے گزر گئے ہیں کہ انھوں نے قانوناً قوم لوط کے عمل کو جائز قرار دے دیا ہے اور مردوں کا مردوں کے ساتھ نکاح کرنے لگے ہیں۔ اگرچہ نئی سے نئی بیماریوں کی صورت میں اللہ کے عذاب کا کوڑا ان پر برس رہا ہے، تاہم بعید نہیں کہ اللہ تعالیٰ ان پر ایسا عذاب بھیجے جو دنیا کے لیے باعث عبرت ہو۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary Unnatural act is unlawful even with one&s own wife وَتَذَرُ‌ونَ مَا خَلَقَ لَكُمْ رَ‌بُّكُم مِّنْ أَزْوَاجِكُم And leave what your Lord has created for you, that is, your wives? - 26:166 In the phrase مِّنْ أَزْوَاجِكُم the word مِّنْ (min) Min could be descriptive (which is translated above as &that is1) if taken in the technical sense, which would mean that in order to satisfy your lust you go after the homosexual men instead of your wives, whom Allah has given you to meet your natural urge. This is indeed a proof of malignity. The other possibility is that the letter &Min& is used to mean &from& or &out of; then the meaning of the verse would be that it is a special part in the body of your wives which is created for the satisfaction of your natural urge. But you indulge in unnatural act with them, which is totally unlawful. Thus according to this second interpretation, it has also been made clear that it is not permitted to have unnatural intercourse with one&s wife. In a hadith Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has cast curse on such a person. نَعُذ باللہ منۃ (Ruh al-Ma’ ani).

معارف و مسائل غیر فطری فعل اپنی بیوی سے بھی حرام ہے : وَتَذَرُوْنَ مَا خَلَقَ لَكُمْ رَبُّكُمْ مِّنْ اَزْوَاجِكُمْ ، لفظ مِّنْ اَزْوَاجِكُمْ میں صرف من اصطلاحی الفاظ میں بیانیہ بھی ہوسکتا ہے جس کا حاصل یہ ہوگا کہ تمہاری خواہش نفسانی کے لئے جو اللہ نے بیویاں پیدا فرمائی ہیں تم ان کو چھوڑ کر اپنے ہم جنس مردوں کو اپنی شہوت نفس کا نشانہ بناتے ہو جو خباثت نفس کی دلیل ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ حرف من کو تبعیض کے لئے قرار دیں تو اشارہ اس طرف ہوگا کہ تمہاری بیبیوں کا جو مقام تمہارے لئے بنایا گیا اور جو امر فطری ہے اس کو چھوڑ کر بیویوں سے خلاف فطرت عمل کرتے ہو جو کہ قطعاً حرام ہے۔ غرض اس دوسرے معنے کے لحاظ سے یہ مسئلہ بھی ثابت ہوگیا کہ اپنی زوجہ سے خلاف فطرت عمل حرام ہے۔ حدیث میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایسے شخص پر لعنت فرمائی ہے۔ نعوذ اللہ منہ (کذا فی الروح)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَتَذَرُوْنَ مَا خَلَقَ لَكُمْ رَبُّكُمْ مِّنْ اَزْوَاجِكُمْ۝ ٠ۭ بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ عٰدُوْنَ۝ ١٦٦ وذر [يقال : فلان يَذَرُ الشیءَ. أي : يقذفه لقلّة اعتداده به ] ، ولم يستعمل ماضيه . قال تعالی: قالُوا أَجِئْتَنا لِنَعْبُدَ اللَّهَ وَحْدَهُ وَنَذَرَ ما کانَ يَعْبُدُ آباؤُنا[ الأعراف/ 70] ، وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف/ 127] ، فَذَرْهُمْ وَما يَفْتَرُونَ [ الأنعام/ 112] ، وَذَرُوا ما بَقِيَ مِنَ الرِّبا [ البقرة/ 278] إلى أمثاله وتخصیصه في قوله : وَيَذَرُونَ أَزْواجاً [ البقرة/ 234] ، ولم يقل : يترکون ويخلّفون، فإنه يذكر فيما بعد هذا الکتاب إن شاء اللہ . [ والوَذَرَةُ : قطعة من اللّحم، وتسمیتها بذلک لقلة الاعتداد بها نحو قولهم فيما لا يعتدّ به : هو لحم علی وضم ] «1» . ( و ذ ر ) یذر الشئی کے معنی کسی چیز کو قلت اعتداد کی وجہ سے پھینک دینے کے ہیں ( پھر صرف چھوڑ دینا کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ اس کا فعل ماضی استعمال نہیں ہوتا چناچہ فرمایا : ۔ قالُوا أَجِئْتَنا لِنَعْبُدَ اللَّهَ وَحْدَهُ وَنَذَرَ ما کانَ يَعْبُدُ آباؤُنا[ الأعراف/ 70] وہ کہنے لگے کیا تم ہمارے پاس اس لئے آئے ہو کہ ہم اکیلے خدا ہی کی عبادت کریں اور جن اور جن کو ہمارے باپ دادا پوجتے چلے آئے ہیں ان کو چھوڑ دیں ۔ ؟ ، وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف/ 127] اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ فَذَرْهُمْ وَما يَفْتَرُونَ [ الأنعام/ 112] تو ان کو چھوڑ دو کہ وہ جانیں اور انکا جھوٹ ۔ وَذَرُوا ما بَقِيَ مِنَ الرِّبا[ البقرة/ 278] تو جتنا سو د باقی رہ گیا ہے اس کو چھوڑ دو ۔ ان کے علاوہ اور بھی بہت سی آیات ہیں جن میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے اور آیت : ۔ وَيَذَرُونَ أَزْواجاً [ البقرة/ 234] اور عورتیں چھوڑ جائیں ۔ میں یترکون یا یخلفون کی بجائے یذرون کا صیغہ اختیار میں جو خوبی ہے وہ اس کے بعد دوسری کتاب میں بیان کریں گے ۔ الو ذرۃ : گوشت کی چھوٹی سی بوٹی کو کہتے ہیں اور قلت اعتناء کے سبب اسے اس نام سے پکارتے ہیں جیسا کہ حقیر شخص کے متعلق ھو لحم علیٰ وضمی ( یعنی وہ ذلیل ہے ) کا محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔ خلق الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] ، أي : أبدعهما، ( خ ل ق ) الخلق ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے زوج يقال لكلّ واحد من القرینین من الذّكر والأنثی في الحیوانات الْمُتَزَاوِجَةُ زَوْجٌ ، ولكلّ قرینین فيها وفي غيرها زوج، کالخفّ والنّعل، ولكلّ ما يقترن بآخر مماثلا له أو مضادّ زوج . قال تعالی: فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثى[ القیامة/ 39] ( ز و ج ) الزوج جن حیوانات میں نرا اور پایا جاتا ہے ان میں سے ہر ایک دوسرے کا زوج کہلاتا ہے یعنی نرا اور مادہ دونوں میں سے ہر ایک پر اس کا اطلاق ہوتا ہے ۔ حیوانات کے علا وہ دوسری اشیائیں سے جفت کو زوج کہا جاتا ہے جیسے موزے اور جوتے وغیرہ پھر اس چیز کو جو دوسری کی مما ثل یا مقابل ہونے کی حثیت سے اس سے مقترن ہو وہ اس کا زوج کہلاتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثى[ القیامة/ 39] اور خر کار اس کی دو قسمیں کیں یعنی مرد اور عورت ۔ قوم والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ، ( ق و م ) قيام القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] عدا والاعْتِدَاءُ : مجاوزة الحقّ. قال تعالی: وَلا تُمْسِكُوهُنَّ ضِراراً لِتَعْتَدُوا[ البقرة/ 231] ، وقال : وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَتَعَدَّ حُدُودَهُ [ النساء/ 14] ، ( ع د و ) العدو الاعتداء کے معنی حق سے تجاوز کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَلا تُمْسِكُوهُنَّ ضِراراً لِتَعْتَدُوا[ البقرة/ 231] اور اس نیت سے ان کو نکاح میں نہ رہنے دینا چاہیئے کہ انہیں تکلیف دو اور ان پر زیادتی کرو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٦٦ (وَتَذَرُوْنَ مَا خَلَقَ لَکُمْ رَبُّکُمْ مِّنْ اَزْوَاجِکُمْ ط) ” اللہ تعالیٰ نے تمہارے جوڑوں کے لیے عورتیں پیدا کی ہیں۔ انہیں چھوڑ کر تم اپنی شہوت کا تقاضا مردوں سے پورا کرتے ہو۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

109 This can also have two meanings: (1 ) "You leave your wives whom God has created for you to satisfy your sex desire and adopt unnatural ways with the males for the purpose." (2) "Even with respect to your wives you do not follow the natural way but adopt unnatural ways for the gratification of your lust?" This they might have been doing with the intention of family planning. 110 That is, "This is not the only vice in-you; your whole lives have become corrupted and perverted, as stated in An-Naml: 54 thus : "Do you commit indecent acts openly and publicly?" And 'in AI-'Ankabut: 29 thus: "Have you become so perverted that you gratify your lust with the males, you rob travellers, and you commit wicked deeds publicly in your assemblies?" For further details, see E.N. 39 of AI-Hijr.

سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :109 اس کے بھی دو مطلب ہو سکتے ہیں : ایک یہ کہ اس خواہش کو پورا کرنے کے لیے جو بیویاں خدا نے پیدا کی تھیں انہیں چھوڑ کر تم غیر فطری ذریعے یعنی مردوں کا اس غرض کے لیے استعمال کرتے ہو ۔ دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ خود ان بیویوں کے اندر خدا نے اس خواہش کی تکمیل کا جو فطری راستہ رکھا تھا اسے چھوڑ کر تم غیر فطری راستہ اختیار کرتے ہو ۔ اس دوسرے مطلب میں یہ اشارہ نکلتا ہے کہ وہ ظالم لوگ اپنی عورتوں سے بھی خلاف وضع فطری فعل کا ارتکاب کرتے تھے ۔ بعید نہیں کہ وہ یہ حرکت خاندانی منصوبہ بندی کی خاطر کرتے ہوں ۔ سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :110 یعنی تمہارا صرف یہی ایک جرم نہیں ہے ۔ تمہاری زندگی کا تو سارا ہنجار ہی حد سے زیادہ بگڑ چکا ہے ۔ قرآن مجید میں دوسرے مقامات پر ان کے اس عام بگاڑ کی کیفیت اس طرح بیان کی گئی ہے : اَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَۃَ وَاَنْتُمْ تُبْصِرُوْنَ O ( النمل آیت 54 ) ۔ کیا تمہارا یہ حال ہو گیا ہے کہ کھلم کھلا دیکھنے والوں کی نگاہوں کے سامنے فحش کام کرتے ہو؟ اَئِنَّکُمْ لَتَاْتُوْنَ الرِّجَالَ وَتَقْطَعُوْنَ السَّبِیْلَ وَتَاْتُوْنَ فِیْ نَادِیْکُمُ الْمُنْکَرَ ( العنکبوت آیت 29 ) کیا تم ایسے بگڑے گئے ہو کہ مردوں سے مباشرت کرتے ہو ، راستوں پر ڈاکے مارتے ہو ، اور اپنی مجلسوں میں علانیہ برے کام کرتے ہو؟ ( مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم ، الحجر ، حاشیہ 39 ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

34: حضرت لوط (علیہ السلام) جس قوم کی طرف بھیجے گئے تھے، ان کے مرد فطرت کے خلاف مردوں ہی سے اپنی جنسی ہوس پوری کرتے تھے۔ ان کا واقعہ تفصیل کے ساتھ سورۃ ہود : 77 تا 83 اور سورۃ حجر : 58 تا 76 میں گذر چکا ہے، اور ہم نے ان کا مختصر تعارف سورۃ اعراف : 80 میں کرایا ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(26:166) تذرون مضارع جمع مذکر حاضر۔ تم چھوڑتے ہو۔ وذر مصدر بمعنی چھوڑنا اس کا فعل ماضی استعمال نہیں ہوتا۔ عادون : عدو سے اسم فاعل کا صیغہ جمع مذکر ہے عاد کی جمع ہے۔ عادون اصل میں عادودن تھا واؤ کلمہ میں چوتھی جگہ آیا ہے اور ماقبل اس کا مضموم نہ تھا لہٰذا اس کو ی سے تبدیل کیا عادیون ہوا۔ ضمہ ی پر دشوار تھا نقل کرکے ما قبل کو دیا۔ اب دو ساکن جمع ہوگئے ی اور واؤ۔ ی کو حذف کردیا عادون ہوگیا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

12 ۔ یعنی یہ خلاف فطرت کام کر کے آدمیت کی حد سے بھی نکل چکے ہو۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

166۔ اور تمہارے پروردگار نے جو بیویاں تمہارے لئے پیدا کی ہیں تم تم ان کو چھوڑے رکھتے اور نظر انداز کردیتے ہو اصل بات یہ ہے کہ تم انسانیت اور فطرت کی حد سے آگے بڑھ جانے والے لوگ ہو یعنی عورتوں کو نظرانداز کرنا اور اپنی بیویوں کی جانب توجہ نہ کرنا اور لڑکوں سے شہوت رانی کرنا تمام دنیا والوں میں سے تمہارا یہ فعل انوکھا فعل ہے۔ یعنی دنیا کا ہر نر اپنی مادہ کو اپنی خواہش کے لئے تلاش کرتا ہے مگر تم مرد ہوکر مرد ہی کو اپنی شہوت رانی اور اپنی نفسانی خواہش کو پورا کرنے کا ذریعہ بناتے ہو تم سے پہلے جہان والوں میں سے کسی نے ایسا نہیں کیا تم تو فطرت اور انسانیت کی حدود سے آگے نکل جانے والے لوگ ہو۔