Surat us Shooaraa

Surah: 26

Verse: 167

سورة الشعراء

قَالُوۡا لَئِنۡ لَّمۡ تَنۡتَہِ یٰلُوۡطُ لَتَکُوۡنَنَّ مِنَ الۡمُخۡرَجِیۡنَ ﴿۱۶۷﴾

They said, "If you do not desist, O Lot, you will surely be of those evicted."

انہوں نے جواب دیا کہ اے لوط! اگر تو باز نہ آیا تو یقیناً نکال دیا جائے گا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

قَالُوا لَيِن لَّمْ تَنتَهِ يَا لُوطُ ... They said: If you cease not, O Lut, meaning, `if you do not give up what you have brought,' ... لَتَكُونَنَّ مِنَ الْمُخْرَجِينَ verily, you will be one of those who are driven out! meaning, `we will expel you from among us.' This is like the Ayah, فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهِ إِلاَّ أَن قَالُواْ أَخْرِجُواْ ءَالَ لُوطٍ مِّن قَرْيَتِكُمْ إِنَّهمْ أُنَاسٌ يَتَطَهَّرُونَ There was no other answer given by his people except that they said: "Drive out the family of Lut from your city. Verily, these are men who want to be clean and pure!" (27:56) When he saw that they would not give up their ways, and that they were persisting in their misguidance, he declared his innocence of them: قَالَ إِنِّي لِعَمَلِكُم مِّنَ الْقَالِينَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

1671یعنی حضرت لوط (علیہ السلام) کے وعظ نصیحت کے جواب میں انہوں نے کہا تو بڑا پاک باز بنا پھرتا ہے۔ یاد رکھنا اگر تو باز نہ آیا تو ہم اپنی بستی میں تجھے رہنے ہی نہیں دیں گے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٠٠] لوط (علیہ السلام) نے انھیں اللہ تعالیٰ کا پیغام سنایا اور ان کی بدفعلیوں کے برے انجام سے ڈرایا تو انہوں نے حضرت لوط کی بات ماننے کے بجائے الٹا ان پر کئی طرح کی پابندیاں لگا دیں۔ مثلاً اگر تم اس بستی میں رہنا چاہتے ہو تو ہمارے معاملات میں دخل دینا چھوڑ دو ۔ دوسرے یہ کہ اپنے ہاں مہمانوں کو یا مسافروں کو پناہ نہ دیا کرو۔ ورنہ ہم تمہارا کچھ لحاظ نہیں کریں گے اور تمہارے مہمانوں یا مسافروں سے وہی سلوک کریں گے جو ہم کرنا چاہتے ہیں) یہ بدبخت قوم مسافروں یا مہمانوں تک کو بھی نہیں چھوڑتی تھی، پہلے ان سے لواطت کرتی۔ پھر ان سے مال اسباب اور نقدی وغیرہ چھین کر انھیں دھکے دے کر اپنی بستی سے باہر نکال دیتی تھی ( اور اگر تمہیں ہماری یہ شرائط منظور نہ ہوں تو ہم تمہیں اپنے علاقہ سے نکال دیں گے۔ تمہارے جیسے پاکبازوں کی ہماری بستی میں رہنے کی کوئی گنجائش نہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قَالُوْا لَىِٕنْ لَّمْ تَنْتَهِ يٰلُوْطُ ۔۔ : اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں کا شیوہ تھا کہ جو ان کی مرضی کے خلاف بات کرے اسے عبرت ناک طریقے سے ذلیل و خوار کرکے نکال دیتے تھے۔ اس لیے انھوں نے پہلے نکالے جانے والوں کے انجام کا حوالہ دے کر کہا کہ ہم تمہیں بھی ان میں شامل کردیں گے۔ 3 بقاعی نے فرمایا، وہ لوگ لوط (علیہ السلام) کو اپنی بستی سے ذلیل کر کے نکالنا چاہتے تھے، جبکہ اللہ تعالیٰ انھیں اس بستی سے باعزت طریقے سے نکالنے والا تھا، پھر وہی ہوا جو اللہ چاہتا تھا کیونکہ : (وَاللّٰهُ غَالِبٌ عَلٰٓي اَمْرِهٖ ) [ یوسف : ٢١ ]” اور اللہ اپنے کام پر غالب ہے۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالُوْا لَىِٕنْ لَّمْ تَنْتَہِ يٰلُوْطُ لَتَكُوْنَنَّ مِنَ الْمُخْرَجِيْنَ۝ ١٦٧ نهى النهي : الزّجر عن الشیء . قال تعالی: أَرَأَيْتَ الَّذِي يَنْهى عَبْداً إِذا صَلَّى[ العلق/ 9- 10] ( ن ھ ی ) النهي کسی چیز سے منع کردینا ۔ قرآن میں ہے : أَرَأَيْتَ الَّذِي يَنْهى عَبْداً إِذا صَلَّى[ العلق/ 9- 10] بھلاتم نے اس شخص کو دیکھا جو منع کرتا ہے ( یعنی ) ایک بندے کو جب وہ نماز پڑھنے لگتا ہے ۔ خرج خَرَجَ خُرُوجاً : برز من مقرّه أو حاله، سواء کان مقرّه دارا، أو بلدا، أو ثوبا، وسواء کان حاله حالة في نفسه، أو في أسبابه الخارجة، قال تعالی: فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص/ 21] ، ( خ رج ) خرج ۔ ( ن) خروجا کے معنی کسی کے اپنی قرار گاہ یا حالت سے ظاہر ہونے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ قرار گاہ مکان ہو یا کوئی شہر یا کپڑا ہو اور یا کوئی حالت نفسانی ہو جو اسباب خارجیہ کی بنا پر اسے لاحق ہوئی ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص/ 21] موسٰی وہاں سے ڈرتے نکل کھڑے ہوئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٦٧) وہ کہنے لگے اے لوط (علیہ السلام) اگر تم ہمارے کہنے سننے سے باز نہیں آؤ گے تو ضرور اس سدوم سے نکال دیے جاؤ گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٦٧ (قَالُوْا لَءِنْ لَّمْ تَنْتَہِ یٰلُوْطُ لَتَکُوْنَنَّ مِنَ الْمُخْرَجِیْنَ ) ” اگر آپ ( علیہ السلام) اپنی اس وعظ و نصیحت سے اور ہم پر تنقید کرنے سے باز نہ آئے تو ہم آپ ( علیہ السلام) کو اپنی بستی سے نکال باہر کریں گے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

111 That is, "You know that whosoever has spoken against us, or protested against our doings, or opposed us in any way, he has been turned out of our habitations. If you also behave like that, you too will be treated likewise." It has been stated in Surahs AI-A`raf and An-Naml that before giving this warning to Prophet Lot, the wicked people had decided to "turn out these people of your habitations for they pose to be very pious." (VII: 82)

سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :111 یعنی تجھے معلوم ہے کہ اس سے پہلے جس نے بھی ہمارے خلاف زبان کھولی ہے یا ہماری حرکتوں پر احتجاج کیا ہے ، یا ہماری مرضی کے خلاف کام کیا ہے ، وہ ہماری بستیوں سے نکالا گیا ہے ۔ اب اگر تو یہ باتیں کرے گا تو تیرا حشر بھی ایسا ہی ہو گا ۔ سورہ اعراف اور سورہ نمل میں بیان ہوا ہے کہ حضرت لوط علیہ السلام کو یہ نوٹس دینے سے پہلے اس شریر قوم کے لوگ آپس میں یہ طے کر چکے تھے کہ اَخْرِجُوْٓا اٰلَ لُوْطٍ مِّنْ قَرْیَتِکُمْ اِنَّھُمْ اُنَاسٌ یَّتَطَھَّرُوْنَ O لوط علیہ السلام اور اس کے خاندان والوں اور ساتھیوں کو اپنی بستی سے نکال باہر کرو ۔ یہ لوگ بڑے پاک باز بنتے ہیں ۔ ان صالحین کو باہر کا راستہ دکھاؤ ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(26:167) لم تنتہ تو باز نہیں آئے گا۔ ملاحظہ ہو 26:116 ۔ المخرجین اسم مفعول جمع مذکر مجرور معرف باللام اخراج مصدر نکالے گئے۔ نکالے ہوئے ۔ ملک بدر کئے جانے والے۔ القالین۔ اسم فاعل جمع مذکر بحالت جر القالی واحد بیزار ہونے والے۔ چھوڑنے والے۔ اصل میں اس کا مادہ واوی ہے قلو جس کا معنی ہے پھینکنا۔ محاورہ ہے قالت الناقۃ براکبھا۔ اونٹنی نے اپنے سوار کو پھینک دیا۔ جس چیز سے دل بوجہ بغض یا بوجہ ناپسندیدہ ہونے کے اس طرح گھن گھائے گویا اسے پھینک رہا ہے تو اسے مقلو کہا جائے گا۔ پھینک دینے میں نفرت اور بیزاری کا مفہوم بھی پایا جاتا ہے ۔ لہٰذا القالین کے معنی ہوئے بیزار ہونے والے۔ چھوڑنے والے۔ پھینکنے والے۔ انی لعلکم من القالین ۔ میں تمہارے فعل سے بیزار ہوں۔ قلا یقلی (ضرب) اور قلایقلو (نصر) ہر دو سے سورت میں مستعمل ہے۔ اور جگہ قرآن مجید میں ہے ماودعک ربک وما قلی (93:3) (اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) تمہارے پروردگار نے نہ تو تم کو چھوڑا ہے اور نہ تم سے بیزار ہے۔ اگر مادہ قلی ناقص یائی مانا جئے تو بھوننے کے معنی ہوں گے جیسے قلیت السویق بالمقلاۃ میں نے کڑھائی میں ستو بھونے لیکن قرآن مجید میں اسے ناقص واوی ہی استعمال کیا گیا ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوشہ۔ قوم کا جواب : کہنے لگے کہ اے لوط اگر تم باز نہ آؤ گے تو شہر بدر کردیے جاؤ گے۔ اے لوط اگر تم واقعی ہی سچے ہو تو ہم پر اللہ تعالیٰ کا عذاب لے آؤ۔ (العنکبوت : ٢٩) قرآن مجید نے بتلایا ہے کہ جب فرشتے (لڑکوں) کی شکل میں حضرت لوط (علیہ السلام) کے ہاں تشریف لائے۔ تو بدمعاش قوم ان سے بےحیائی کرنے کی نیت سے حضرت لوط (علیہ السلام) کے ہاں دوڑتے ہوئے آئی۔ حضرت لوط (علیہ السلام) نے نہایت عاجزی کے ساتھ انھیں سمجھایا کہ اے میری قوم ! یہ میری بیٹیاں ہیں جو تمہارے لیے حلال ہیں۔ یعنی تم ان کے ساتھ نکاح کرسکتے ہو۔ اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور مہمانوں میں مجھے بےآبرو نہ کرو۔ جب وہ بھاگم بھاگ ایک دوسرے سے آگے بڑھ رہے تھے لوط نے یہ بھی فرمایا کیا تم میں کوئی بھی شریف آدمی نہیں ہے ؟ (ہود : ٧٨) بے حیا کہنے لگے کہ ہمیں تمہاری بیٹیوں سے کیا سروکار، تو جانتا ہے کہ ہم کس ارادہ سے آئے ہیں۔ ان حالات میں لوط کہنے لگے آج کا دن میرے لیے بڑا بھاری ہے۔ کاش تمہارے مقابلے میں میرا کوئی حمایتی ہوتا یا کوئی پناہ گاہ جہاں میں تم سے بچ نکلتا۔ (ہود : ٧٩، ٨٠) ملائکہ اپنے آپ کو ظاہر کرتے ہوئے حضرت لوط (علیہ السلام) کو تسلّی دیتے ہیں : عذاب کے فرشتوں نے حضرت لوط (علیہ السلام) کو تسلی دی کہ اے اللہ کے نبی دل چھوٹا نہ کرو۔ یہ بےحیا تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے۔ بس آپ اہل ایمان کو لے کر رات کے پچھلے پہر ہجرت کر جائیں۔ ہاں یاد رہے کہ آپ اپنی بیوی کو ساتھ نہیں لے جاسکتے کیونکہ اسے بھی وہی عذاب پہنچنے والا جس میں دوسرے لوگ مبتلا ہوں گے اور یہ عذاب ٹھیک صبح کے وقت نازل ہوگا۔ لوط (علیہ السلام) گھبراہٹ کے عالم میں پوچھتے ہیں کہ صبح کب ہوگی ؟ ملائکہ نے مزید تسلی دیتے ہوئے کہا کہ اے اللہ کے رسول صبح تو ہونے ہی والی ہے چناچہ صبح کے وقت رب ذوالجلال کا حکم صادر ہوا تو اس دھرتی کو اٹھا کر نیچے پٹخ دیا گیا پھر ان پر مسلسل نامزد پتھروں کی بارش کی گئی۔ (ھود : ٦٩ تا ٨٣) سورۃ القمر : آیت، ٣٧ تا ٣٨ میں فرمایا کہ ظالموں نے لوط (علیہ السلام) کے مہمانوں پر زیادتی کرنا چاہی تو ہم نے ان کی آنکھوں کو مسخ کردیا۔ سورة الصافات : آیت، ١٣٧ تا ١٣٨ میں ارشاد ہوا یقیناً لوط (علیہ السلام) مرسلین میں سے تھے جب ہم نے انھیں اور اس کے اہل کو نجات دی ہاں ایک بڑھیا کو پیچھے رہنے دیا پھر ہم نے باقی کو ہلاک کردیا۔ اے اہل مکہ تم صبح شام ان بستیوں سے گزرتے ہو لیکن اس کے باوجود عقل نہیں کرتے۔ (الصّٰفٰت : ١٣٥ تا ١٣٨) (فَلَمَّا جَآءَ اَمْرُنَا جَعَلْنَا عَالِیَھَا سَافِلَھَا وَ اَمْطَرْنَا عَلَیْھَا حِجَارَۃً مِّنْ سِجِّیْلٍ مَّنْضُوْدٍ مُّسَوَّمَۃً عِنْدَ رَبِّکَ وَ مَا ھِیَ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ بِبَعِیْدٍ ) [ ھود : ٨٢، ٨٣] ” پھر جب ہم نے حکم نافذ کیا تو ہم نے اس بستی کو اوپر نیچے (تہس نہس) کردیا اور تابڑ توڑ پکی مٹی کے پتھر برسائے۔ تیرے رب کی طرف سے ہر پتھر پر نشان (نام) لکھا ہوا تھا اور ظالموں سے یہ سزا دور نہیں ہے۔ “ دنیا کے موجو دہ جغرافیے میں یہ بحر مردار اردن کی سر زمین میں واقع ہے۔ پچاس میل لمبا، گیارہ میل چوڑا ہے اسکی سطح کا کل رقبہ ٣٥١ مربع میل ہے۔ اسکی زیادہ سے زیادہ گہرائی تیرہ سو فٹ پیمائش کی گئی ہے۔ یہ اسرائیل اور اردن کی سرحد پر واقع ہے۔ اور اس کا کسی بڑے سمندر کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ گویا کہ یہ ایک بہت بڑی جھیل بن چکی ہے۔ اس کی نمکیات اور کیمیائی اجزاء عام سمندروں سے کہیں زیادہ ہے۔ اس کے قریب ترین سمندر بحر روم ہے۔ جدید محققین نے اسی جگہ پر لوط (علیہ السلام) کی قوم کی بستیوں کی نشاندہی کی ہے۔ جو کسی زمانے میں یہاں صدوم عمود کے نام سے بڑے شہر آباد تھے۔ مصر کے محقق عبدالوہاب البخار نے بھرپور دلائل کے ساتھ یہ ثابت کیا ہے کہ عذاب لوط (علیہ السلام) سے پہلے اس جگہ پر کوئی سمندر نہیں تھا۔ اللہ کے عذاب کی وجہ سے اس علاقے کو الٹ دیا گیا تو یہ ایک چھوٹے سے سمندر کی شکل اختیار کر گیا۔ “ ١۔ اس کے پانی کی خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس میں نمکیات کا تناسب پچیس فیصد قرار دیا گیا ہے۔ جب کہ دنیا کے تمام سمندروں میں نمکیات کا تناسب چار سے چھ فیصد ریکارڈ کیا گیا ہے۔ ٢۔ اسکے کنارے نہ کوئی درخت ہے اور نہ ہی اس میں کوئی جانور زندہ رہ سکتا ہے حتی کہ سیلاب کے موقع پر دریائے اردن سے آنیوالی مچھلیاں اس میں داخل ہوتے ہی تڑپ تڑپ کر مرجاتی ہیں۔ اہل عرب اسکو بحیرہ لوط بھی کہتے ہیں۔ مسائل ١۔ قوم نے حضرت لوط (علیہ السلام) کو شہر سے نکال دینے کی دھمکی دی۔ ٢۔ حضرت لوط (علیہ السلام) نے اپنے رب سے اپنے اور گھر والوں کے لیے نجات کی دعا کی۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے لوط (علیہ السلام) کی بیوی کو ان کی قوم کے ساتھ عذاب میں مبتلا کیا۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ نے قوم لوط پر پتھروں کی بارش فرمائی۔ تفسیر بالقرآن لوط (علیہ السلام) کی قوم کا بد ترین کردار اور انجام : ١۔ ہم جنسی کی ابتدا قوم لوط نے کی۔ (الاعراف : ٨٠) ٢۔ قوم لوط کی تباہی کا سبب اغلام بازی کرنا تھا۔ (الاعراف : ٨١) ٣۔ ان کے پاس ان کی قوم کے لوگ دوڑتے ہوئے آئے اور وہ پہلے ہی بدکاریاں کیا کرتے تھے۔ (ھود : ٧٨) ٤۔ لوط نے کہا کہ کاش میرے پاس طاقت ہوتی یا میں کوئی مضبوط پناہ گاہ پاتا۔ (ھود : ٨٠) ٥۔ ہم نے اس بستی کو الٹ کر اس پر پتھروں کی بارش برسائی۔ (الحجر : ٧٤) ٦۔ ہم نے اوپر والی سطح کو نیچے کردیا اور ہم نے ان پر پتھروں کی بارش برسا دی جو تہہ بہ تہہ تھے خاص نشان لگے ہوئے۔ (ھود : ٨٢) ٧۔ ہم جنسی کی سزا۔ (الاعراف : ٨٤)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

قالوا لئن ……المخرجین (١٦٧) حضرت لوط ان لوگوں میں باہر سے آ کر بس گئے تھے۔ یہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ عراق سے آئے تھے۔ جب حضرت ابراہیم نے اپنے باپ اور اپنی قوم کو چھوڑ دیا اور اپنے ملک کو بھی چھوڑ دیا اور دریائے اردن عبور کر کے اس کے اس پار آباد ہوگئے تھے۔ حضرت لوط ان لوگوں میں آ کر آباد ہوگئے تھے اور بعد میں اللہ نے حضرت لوط کو انہی کی طرف نبی بنا کر بھیج دیا تھا تاکہ قوم لوط کے اندر جو برے کام راہ پا گئے تھے ، اس کی اصلاح فرما میں اب جبکہ وہ حضرت کی بات نہیں مانتے تو یہ دھمکی دیتے ہیں کہ اگر وہ باز نہ آئے تو اسے ملک سے نکال دیں گے یعنی وہ تو اس فعل سے باز نہیں آسکتے۔ لوط ہی دعوت کا کام بند کردیں۔ چناچہ حضرت لوط ان کی دھمکی کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اعلان کرتے ہیں کہ وہ تمہارے عمل کو نہایت ہی مکروہ عمل سمجھتے ہیں۔ یہ بہت بڑی گندگی اور گراوٹ ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

61:۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کی مشفقانہ پندو نصیحت کے جواب میں سرکش قوم نے نہایت تند اور طاغیانہ جواب دیا۔ اے لوط ! اگر تو اپنے دعوی نبوت سے اور اس وعظ و تبلیغ سے باز نہ آیا تو ہم تمہیں شہر بدر کردیں گے اور یہاں نہیں رہنے دیں گے۔ ” قال انی لعملکم من القالین “ حضرت لوط (علیہ السلام) نے قوم کی دھمکی کی ذرا پروا نہ کی اور صاف فرمادیا مجھے تمہارے اس فعل سے سخت نفرت ہے اور میں خود تم سے بیزار ہوں اور تم سے دوری چاہتا ہوں۔ قابل (علیہ السلام) تہدید ھم ذلک بما ذکر تنبیھا علی عدم الاکثرات بہ وانہ راغب فی الخلاص من سوء جو ارھم لشدۃ بغضہ لعملہم (روح ج 19 ص 116) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

167۔ لوط (علیہ السلام) کی قوم نے جواب دیا اے لوط (علیہ السلام) تو اپنی ان باتوں سے باز نہ آئے گا تو یقینا تو بستی سے نکال دیاجائے گا یعنی دھمکی دی کہ ہم جو کچھ کرتے ہیں اس سے ہم کو نہ روکو ورنہ بستی سے خارج کردئیے جائو گے۔