Surat us Shooaraa
Surah: 26
Verse: 176
سورة الشعراء
کَذَّبَ اَصۡحٰبُ لۡئَـیۡکَۃِ الۡمُرۡسَلِیۡنَ ﴿۱۷۶﴾ۚۖ
The companions of the thicket denied the messengers
ایکہ والوں نے بھی رسولوں کو جھٹلایا ۔
کَذَّبَ اَصۡحٰبُ لۡئَـیۡکَۃِ الۡمُرۡسَلِیۡنَ ﴿۱۷۶﴾ۚۖ
The companions of the thicket denied the messengers
ایکہ والوں نے بھی رسولوں کو جھٹلایا ۔
Shu`ayb and His Preaching to the Dwellers of Al-Aykah Allah says: كَذَّبَ أَصْحَابُ الاَْيْكَةِ الْمُرْسَلِينَ إِذْ قَالَ لَهُمْ شُعَيْبٌ أَلاَ تَتَّقُونَ إِنِّي لَكُمْ رَسُولٌ أَمِينٌ
شیعب علیہ السلام یہ لوگ مدین کے رہنے والے تھے ۔ حضرت شعیب علیہ السلام بھی ان ہی میں تھے آپ کو ان کا بھائی صرف اس لئے نہیں کہا گیا کہ اس آیت میں ان لوگوں کی نسبت ایکہ کی طرف کی ہے ۔ جسے یہ لوگ پوجتے تھے ۔ ایکہ ایک درخت تھا یہی وجہ ہے کہ جیسے اور نبیوں کی ان کی امتوں کا بھائی فرمایا گیا انہیں ان کا بھائی نہیں کہا گیا ورنہ یہ لوگ بھی انہی کی قوم میں سے تھے ۔ بعض لوگ جن کے ذہن کی رسائی اس نکتے تک نہیں ہوئی وہ کہتے ہیں کہ یہ لوگ آپ کی قوم میں سے نہ تھے ۔ اس لئے حضرت شعیب علیہ السلام کو انکا بھائی فرمایا گیا یہ اور ہی قوم تھی ۔ شعیب علیہ السلام اپنی قوم کی طرف بھی بھیجے گئے تھے اور ان لوگوں کی طرف بھی ۔ بعض کہتے ہیں کہ ایک تیسری امت کی طرف بھی آپ کی بعثت ہوئی تھی ۔ چنانچہ حضرت عکرمہ رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ کسی نبی کو اللہ تعالیٰ نے دو مرتبہ نہیں بھیجا سوائے حضرت شعیب علیہ السلام کے کہ ایک مرتبہ انہیں مدین والوں کی طرف بھیجا اور ان کی تکذیب کی وجہ سے انہیں ایک چنگھاڑ کے ساتھ ہلاک کردیا ۔ اور دوبارہ انہیں ایکہ والوں کی طرف بھیجا اور ان کی تکذیب کی وجہ ان پر سائے والے دن کا عذاب آیا اور وہ برباد ہوئے ۔ لیکن یاد رہے کہ اس کے راویوں میں ایک راوی اسحاق بن بشر کاہلی ہے جو ضعیف ہے ۔ قتادۃ رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے کہ اصحاب رس اور اصحاب ایکہ قوم شعیب ہے اور ایک بزرگ فرماتے ہیں اصحاب ایکہ اور اصحاب مدین ایک ہی ہے ۔ واللہ اعلم ۔ ابن عساکر میں ہے ۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اصحاب مدین اور اصحاب ایکہ دو قومیں ہیں ان دونوں نے امتوں کی طرف اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی حضرت شعیب علیہ السلام کو بھیجا تھا لیکن یہ حدیث غریب ہے اور اسکے مرفوع ہونے میں کلام ہے بہت ممکن ہے کہ یہ موقوف ہی ہو ۔ صحیح امر یہی ہے کہ یہ دونوں ایک ہی امت ہے ۔ دونوں جگہ ان کے وصف الگ الگ بیان ہوئے ہیں مگر وہ ایک ہی ہے ۔ اس کی ایک بڑی دلیل یہ بھی ہے کہ دونوں قصوں میں حضرت شعیب علیہ السلام کا وعظ ایک ہی ہے دونوں کو ناپ تول صحیح کرنے کا حکم دیاہے ۔
17 6 1اَیْکَۃَ ، جنگل کو کہتے ہیں۔ اس سے حضرت شعیب (علیہ السلام) کی قوم اور بستی ' مدین ' کے اطراف کے باشندے مراد ہیں۔ اور کہا جاتا ہے کہ ایکہ کے معنی گھنا درخت اور ایسا ایک درخت مدین کے نواحی آبادی میں تھا۔ جس کی پوجا پاٹ ہوتی تھی۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) کا دائرہ نبوت اور حدود دعوت و تبلیغ مدین سے لے کر اس کی نواحی آبادی تک تھا جہاں ایک درخت کی پوجا ہوتی تھی۔ وہاں کے رہنے والوں کو اصحاب الایکہ کہا گیا ہے۔ اس لحاظ سے اصحاب الایکہ اور اہل مدین کے پیغمبر ایک ہی یعنی حضرت شعیب (علیہ السلام) تھے اور یہ ایک ہی پیغمبر کی امت تھی۔ ایکہ چونکہ قوم نہیں بلکہ درخت تھا۔ اس لیے اخوت نسبی کا یہاں ذکر نہیں کیا جس طرح کہ دوسرے انبیاء کے ذکر میں ہے البتہ جہاں مدین کے ضمن میں حضرت شعیب (علیہ السلام) کا نام لیا گیا ہے وہاں ان کے اخوت نسبی کا ذکر بھی ملتا ہے کیونکہ مدین قوم کا نام ہے والی مدین اخاھم شعیبا۔ کالاعراف۔ بعض مفسرین نے اصحاب الایکہ کی طرف لیکن امام ابن کثیر نے فرمایا ہے کہ صحیح بات یہی ہے کہ یہ ایک ہی امت ہے اوفوا لکیل والمیزان کا جو وعظ اہل مدین کو کیا گیا یہی وعظ یہاں اصحاب الایکہ کو کیا جا رہا ہے جس سے صاف واضح ہے کہ یہ ایک ہی امت ہے دو نہیں۔
[١٠٤] اصحاب الایکہ کون لوگ تھے ؟ اس میں مفسرین کا خاصا اختلاف ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ اصحاب الایکہ اور اصحاب مرین دونوں ایک ہی قوم کے نام ہیں۔ دوسرا قول یہ ہے کہ ایکہ ایک درخت کا نام تھا جس کی یہ لوگ پوجا کرتے تھے۔ اسی نسبت سے انھیں اصحاب الایکہ کہا گیا ہے۔ تیسرا قول یہ ہے کہ ان لوگوں کی بستی اور علاقہ اصحاب مرین سے الگ ہے۔ اصحاب الایکہ کا معنی بن والے یعنی یہ بستی ایک لمبی سی بلند جگہ پر آباد تھی۔ جہاں باغات کے جھنڈ بکثرت تھے اور شعیب نے ان دونوں علاقوں کی طرف مبعوث ہوئے تھے۔
كَذَّبَ اَصْحٰبُ لْــــَٔــيْكَةِ الْمُرْسَلِيْنَ ۔۔ : ” اَلْءَیْکَۃُ “ درختوں کے جھنڈ کو کہتے ہیں، یہ جھنڈ مدین کے اردگرد واقع تھے۔ شعیب (علیہ السلام) مدین والوں اور اصحاب الایکہ دونوں کی طرف مبعوث تھے، مگر چونکہ ان کی رہائش مدین میں تھی اور ان کا نسبی تعلق بھی اہل مدین سے تھا اور پھر اللہ تعالیٰ نے تمام پیغمبروں کا انتخاب بستیوں میں رہنے والے سے کیا ہے (دیکھیے یوسف : ١٠٩) اس لیے مدین کے ذکر میں شعیب (علیہ السلام) کو ان کا بھائی قرار دیا، جیسا کہ فرمایا : ( وَاِلٰي مَدْيَنَ اَخَاهُمْ شُعَيْبًا) [ الأعراف : ٨٥ ] ” اور مدین کی طرف ان کے بھائی شعیب کو بھیجا۔ “ جب کہ اصحاب الایکہ کے ذکر میں فرمایا : ( اِذْ قَالَ لَهُمْ شُعَيْبٌ اَلَا تَتَّقُوْنَ ) [ الشعراء : ١٧٧ ] ” جب شعیب نے ان سے کہا “ اس سے معلوم ہوا کہ شعیب (علیہ السلام) ان کی طرف مبعوث تو تھے مگر نسب یا سسرال یا ان میں رہائش کا کوئی ایسا تعلق نہ تھا کہ انھیں ان کا بھائی کہا جاتا۔ (التحریر والتنویر) ابن کثیر (رض) نے فرمایا : ” صحیح بات یہ ہے کہ اصحاب الایکہ اہل مدین ہی ہیں، دونوں کو ماپ تول پورا کرنے کی نصیحت کی گئی۔ انھیں اصحاب الایکہ اس لیے فرمایا کہ ” الایکہ “ ایک درخت تھا یا درختوں کا جھنڈ تھا، جس کی وہ پرستش کرتے تھے۔ جب مدین (شہر یا قوم) کا ذکر فرمایا تو شعیب (علیہ السلام) کو ان کا بھائی فرمایا، لیکن جب ان کی نسبت شجر پرستی کی طرف کی تو فرمایا : ( اِذْ قَالَ لَهُمْ شُعَيْبٌ اَلَا تَتَّقُوْنَ ) ” جب شعیب نے ان سے کہا “ یعنی اخوت کا تعلق ختم کردیا۔ “
خلاصہ تفسیر اصحاب الائیکہ نے (بھی جن کا ذکر سورة حجر کے اخیر میں گزر چکا ہے) پیغمبروں کو جھٹلایا، جبکہ ان سے شعیب (علیہ السلام) نے فرمایا کہ کیا تم اللہ سے ڈرتے نہیں ہو ؟ میں تمہارا امانتدار پیغمبر ہوں سو تم اللہ سے ڈرو اور میرا کہنا مانو اور میں تم سے اس پر کوئی صلہ نہیں چاہتا، بس میرا صلہ تو رب العالمین کے ذمہ ہے تم لوگ پورا ناپا کرو اور (صاحب حق کا) نقصان مت کیا کرو اور (اسی طرح تولنے کی چیزوں میں) سیدھی ترازو سے تولا کرو (یعنی ڈنڈی نہ مارا کرو نہ باٹوں میں فرق کیا کرو) اور لوگوں کا ان کی چیزوں میں نقصان مت کیا کرو اور سر زمین میں فساد مت مچایا کرو اور اس (خدائے قادر) سے ڈرو جس نے تم کو اور تمام اگلی مخلوقات کو پیدا کیا وہ لوگ کہنے لگے کہ بس تم پر تو کسی نے بڑا بھاری جادو کردیا ہے (جس سے عقل مختل ہوگئی اور نبوت کا دعویٰ کرنے لگے) اور تم تو محض ہماری طرح (کے) ایک (معمولی) آدمی ہو اور ہم تو تم کو جھوٹے لوگوں میں سے خیال کرتے ہیں، سو اگر تم سچوں میں سے ہو تو ہم پر آسمان کا کوئی ٹکڑا گرا دو (تاکہ ہم کو معلوم ہوجاوے کہ واقعی تم نبی تھے تمہاری تکذیب سے ہم کو یہ سزا ہوئی) شعیب (علیہ السلام) بولے کہ (میں عذاب کا لانے والا یا اس کی کیفیت کی تعیین کرنے والا کون ہوں) تمہارے اعمال کو میرا رب (ہی) خوب جانتا ہے (اور اس عمل کا جو مقتضاء ہے کہ کیا عذاب ہو اور کب ہو اس کو بھی وہی جانتا ہے اس کو اختیار ہے) سو وہ لوگ (برابر) ان کو جھٹلایا کئے پھر ان کو سائبان کے واقعہ عذاب نے آپکڑا بیشک وہ بڑے سخت دن کا عذاب تھا (اور) اس (واقعہ) میں (بھی) بڑی عبرت ہے اور (باوجود اس کے) ان (کفار مکہ) میں اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے اور بیشک آپ کا رب بڑی قدرت والا بڑی رحمت والا ہے (کہ عذاب نازل کرسکتا ہے مگر مہلت دے رکھی ہے۔ )
كَذَّبَ اَصْحٰبُ لْــــَٔــيْكَۃِ الْمُرْسَلِيْنَ ١٧ ٦ۚۖ كذب وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی: إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] ، ( ک ذ ب ) الکذب قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے صحب الصَّاحِبُ : الملازم إنسانا کان أو حيوانا، أو مکانا، أو زمانا . ولا فرق بين أن تکون مُصَاحَبَتُهُ بالبدن۔ وهو الأصل والأكثر۔ ، أو بالعناية والهمّة، ويقال للمالک للشیء : هو صاحبه، وکذلک لمن يملک التّصرّف فيه . قال تعالی: إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ [ التوبة/ 40] ( ص ح ب ) الصاحب ۔ کے معنی ہیں ہمیشہ ساتھ رہنے والا ۔ خواہ وہ کسی انسان یا حیوان کے ساتھ رہے یا مکان یا زمان کے اور عام اس سے کہ وہ مصاحبت بدنی ہو جو کہ اصل اور اکثر ہے یا بذریعہ عنایت اور ہمت کے ہو جس کے متعلق کہ شاعر نے کہا ہے ( الطوایل ) ( اگر تو میری نظروں سے غائب ہے تو دل سے تو غائب نہیں ہے ) اور حزف میں صاحب صرف اسی کو کہا جاتا ہے جو عام طور پر ساتھ رہے اور کبھی کسی چیز کے مالک کو بھی ھو صاحبہ کہہ دیا جاتا ہے اسی طرح اس کو بھی جو کسی چیز میں تصرف کا مالک ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ [ التوبة/ 40] اس وقت پیغمبر اپنے رفیق کو تسلی دیتے تھے کہ غم نہ کرو ۔ أيك الأَيْكُ : شجر ملتف وأصحاب الأيكة قيل : نسبوا إلى غيضة کانوا يسکنونهاوقیل : هي اسم بلد . ( ای ک ) الایک ۔ درختوں کا جھنڈ ( ذوای کہ ) اور آیت ۔ وأصحاب الأيكةکی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ الایکۃ ان کے شہر اور آبادی کا نام ہے ۔
(١٧٦۔ ١٧٧) قوم شعیب (علیہ السلام) نے بھی حضرت شعیب (علیہ السلام) اور تمام پیغمبروں کو جھٹلایا جب کہ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے ان سے فرمایا کیا تم اللہ سے ڈرتے نہیں ہو ؟ کہ غیر اللہ کی عبادت کرتے ہو۔
آیت ١٧٦ (کَذَّبَ اَصْحٰبُ لْءَیْکَۃِ الْمُرْسَلِیْنَ ) ” ( ” ایکہ “ کے معنی جنگل یاَ بن کے ہیں۔ یہ لفظ اس سے پہلے حضرت شعیب (علیہ السلام) کی قوم کے لیے سورة الحجر کی آیت ٧٨ میں بھی آچکا ہے۔
115 The people of Aiykah have been briefly mentioned in vv. 78-84 of Surah AI-Hijr. More about them here. There is a difference of opinion among the commentators as to whether the Midianites and the people of Aiykah were two different tribes or one and the same people. One group holds that they were different tribes and gives the argument that in Surah Al-A'raf Prophet Shu'aib has heen "brother elf the MIdIanIteS" (v. RS), whereas here, with regard to the people of. Aiykah, he has not been called so. The other group holds that they were one and the same people on the ground that the moral discases and characteristics mentioned of the Midianites in SurahS AI-A'raf-and Hud arc the same as of the people of Aiykah mentioned here. Then the message and admonition of Prophet Shu'aib to both the tribes was the same, and the two tribes also met the same end. Research in this regard has shown that both the views are correct. The Midianites and the people' of Aiykah were doubtless two different tribes but branches of the same stock. The progeny of Prophet Abraham from his wife (or slave girl) Keturah, is well known in Arabia and in the history of the Israelites as the children of Keturah. Their most prominent branch was the one which became famous as the Midianites, after their ancestor, Midian, son of Abraham. They had settled in the territory between northern Arabia and southern Palestine, and along the coasts of the Red Sea and the Gulf of 'Aqabah. Their capital city was Madyan, which was situated, according to Abul Fida, on the western coast of the Gulf of 'Aqabah at five days' journey from Aiykah (present-day 'Aqabah). The rest of the children of Keturah, among whom the Dedanites are comparatively better known, settled in the territory between Taima and Tabuk and AI-'Ula in northern Arabia, their main city being Tabuk, the Aiykah of the ancient tithes. (Yaqut in his Mu'jam al-Buldan, under Aiykah, writes that this is the old name of Tabuk, and the natives of Tabuk confirm this). The reason why one and the same Prophet was sent to the Midianites and the people of Aiykah was probably that both the tribes were descendants of the same ancestors, spoke the same language and had settled in the adjoining areas. It is just possible that they lived side by side in the same areas and had marriage and other social relations between them. Then, these two branches were traders by profession and had developed similar evil practices and social and moral weaknesses. According to the early books of the Bible, these people worshipped Baal-peor. When the Children of Israel came out of Egypt and entered their territory, they also became infected with the evils of idolatry and adultery. (Numbers, 25: 1-5, 31: 16-17). Then those people had settled on the two main international trade routes, the one joining Yaman with Syria and the other the Persian Gulf with Egypt. Due to their advantageous position they had started big scale highway robbery and would not let any caravan pass till it had paid heavy taxes. They had thus rendered these trade routes highly unsafe. Their characteristic of highway robbery has been mentioned in the Qur'an, for which they were admonished through Prophet Shu'aib, thus: "And do not lie in ambush by every path (of life) as robbers in order to frighten the people" (AI-A'raf: 86). These were the reasons why Allah sent to both the tribes the same Prophet, who conveyed to them the same teachings and message. For the details of the story of Prophet Shu'aib and the Midianites, see A1-A'raf: 85-93, Hud: 8495, Al'Ankabut 36-37.
سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :115 اصحاب الایکہ کا مختصر ذکر سورہ الحجر آیت 78 ۔ 84 میں پہلے گزر چکا ہے ۔ یہاں اس کی تفصیل بیان ہو رہی ہے ۔ مفسرین کے درمیان اس امر میں اختلاف ہے کہ آیا مَدْیَن اور اصحاب الایکہ الگ الگ قومیں ہیں یا ایک ہی قوم کے دو نام ہیں ۔ ایک گروہ کا خیال ہے کہ یہ دو الگ قومیں ہیں اور اس کے لیے سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ سورہ اعراف میں حضرت شعیب علیہ السلام کو اہل مدین کا بھائی فرمایا گیا ہے ( وَاِلیٰ مَدْیَنَ اَخَاھُمْ شُعَیْباً ) ، اور یہاں اصحاب الایکہ کے ذکر میں صرف یہ ارشاد ہوا ہے کہ اِذْ قَالَ لَھُمْ شُعَیبٌ ( جبکہ ان سے شعیب نے کہا ) ، ان کے بھائی ( اَخُوْھُمْ ) کا لفظ استعمال نہیں کیا گیا ۔ اس کے بر عکس بعض مفسرین دونوں کو ایک ہی قوم قرار دیتے ہیں ، کیونکہ سورہ اعراف اور سورہ ہود میں جو امراض اور اوصاف اصحاب مدین کے بیان ہوئے ہیں وہی یہاں اصحاب الایکہ کے بیان ہو رہے ہیں ، حضرت شعیب کی دعوت و نصیحت بھی یکساں ہے ، اور آخر کار ان کے انجام میں بھی فرق نہیں ہے ۔ تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں اقوال اپنی جگہ صحیح ہیں ۔ اصحاب مدین اور اصحاب الایکہ بلا شبہ دو الگ قبیلے ہیں مگر ہیں ایک ہی نسل کی دو شاخیں ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی جو اولاد ان کی بیوی یا کنیز قطورا کے بطن سے تھی وہ عرب اور اسرائیل کی تاریخ میں بنی قطُورا کے نام سے معروف ہے ۔ ان میں سے ایک قبیلہ جو سب سے زیادہ مشہور ہوا ، مدیان بن ابراہیم کی نسبت سے مدیانی ، یا اصحاب مدین کہلایا ، اور اس کی آبادی شمالی حجاز سے فلسطین کے جنوب تک اور وہاں سے جزیرہ نمائے سینا کے آخری گوشے تک بحر قلزم اور خلیج عقبہ کے سواحل پر پھیل گئی ۔ اس کا صدر مقام شہر مدین تھا جس کی جائے وقوع ابوالفدا نے خلیج عقبہ کے مغربی کنارے اَیلَہ ( موجودہ عقبہ ) سے پانچ دن کی راہ پر بتائی ہے ۔ باقی بنی قطورا جن میں بنی ودان ( Dedanites ) نسبۃً زیادہ مشہور ہیں ، شمالی عرب میں تَیماء اور تبوک اور العُلاء کے درمیان آباد ہوئے اور ان کا صدر مقام تبوک تھا جسے قدیم زمانے میں ایکہ کہتے تھے ۔ ( یاقوت نے معجم البلدان میں لفظ ایکہ کے تحت بتایا ہے کہ یہ تبوک کا پرانا نام ہے اور اہل تبوک میں عام طور پر یہ بات مشہور ہے کہ یہی جگہ کسی زمانے میں ایکہ تھی ) ۔ اصحاب مدین اور اصحاب الایکہ کے لیے ایک ہی پیغمبر مبعوث کیے جانے کی وجہ غالباً یہ تھی کہ دونوں ایک ہی نسل سے تعلق رکھتے تھے ، ایک ہی زبان بولتے تھے ، اور ان کے علاقے بھی بالکل ایک دوسرے سے متصل تھے ۔ بلکہ بعید نہیں کہ بعض علاقوں میں یہ ساتھ ساتھ آباد ہوں اور آپس کے شادی بیاہ سے ان کا معاشرہ بھی باہم گھل مل گیا ہو ۔ اس کے علاوہ بنی قطور کی ان دونوں شاخوں کا پیشہ بھی تجارت تھا ۔ اور دونوں میں ایک ہی طرح کی تجارتی بے ایمانیاں اور مذہبی و اخلاقی بیماریاں پائی جاتی تھیں ۔ بائیبل کی ابتدائی کتابوں میں جگہ جگہ یہ ذکر ملتا ہے کہ یہ لوگ بعل فغور کی پرستش کرتے تھے اور بنی اسرائیل جب مصر سے نکل کر ان کے علاقے میں آئے تو ان کے اندر بھی انہوں نے شرک اور زنا کاری کی وبا پھیلا دی ( گنتی ، باب 25 آیت 1 ۔ 5 ، باب 31 آیت 16 ۔ 17 ) ۔ پھر یہ لوگ بین الاقوامی تجارت کی ان دو بڑی شاہراہوں پر آباد تھے جو یمن سے شام اور خلیج فارس سے مصر کی طرف جاتی تھیں ۔ ان شاہراہوں پر واقع ہونے کی وجہ سے انہوں نے بڑے پیمانے پر رہزنی کا سلسلہ چلا رکھا تھا ۔ دوسری قوموں کے تجارتی قافلوں کو بھاری خراج لیے بغیر نہ گزرنے دیتے تھے ، اور بین الاقوامی تجارت پر خود قابض رہنے کی خاطر انہوں نے راستوں کا امن خطرے میں ڈال رکھا تھا ۔ قرآن مجید میں ان کی اس پوزیشن کو یوں بیان کیا گیا ہے : اِنَّھُمَا لَبِاِمَامٍ مُّبِیْنٍ O یہ دونوں ( قوم لوط اور اصحاب الایکہ ) کھلی شاہراہ پر آباد تھے ، اور ان کی رہزنی کا ذکر سورہ اعراف میں اس طرح کیا گیا ہے : وَلَا تَقْعُدُوْا بِکُلِّ صِرَاطٍ تُوْعِدُوْنَ O اور ہر راستے پر لوگوں کو ڈرانے نہ بیٹھو ۔ یہی اسباب تھے جن کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں قبیلوں کے لیے ایک ہی پیغمبر بھیجا اور ان کو ایک ہی طرح کی تعلیم دی ۔ حضرت شعیب علی السلام اور اہل مدین کے قصے کی تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو الاعراف ، آیات 85 ۔ 93 ۔ ہود 84 ۔ 95 ۔ العنکبوت 36 ۔ 37 ۔
38: ایکہ اصل میں گھنے جنگل کو کہتے ہیں۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) جس قوم کی طرف بھیجے گئے تھے، وہ ایسے ہی گھنے جنگل کے پاس واقع تھی، بعض مفسرین نے کہا ہے کہ اسی بستی کا نام مدین تھا، اور بعض کا کہنا ہے کہ یہ مدین کے علاوہ کوئی اور بستی تھی، اور حضرت شعیب (علیہ السلام) اس کی طرف بھی بھیجے گئے تھے۔ اس قوم کا واقعہ سورۃ اعراف : 85 تا 93 میں گذر گیا ہے۔ تفصیلات کے لیے ان آیات کے حواشی ملاحظہ فرمائیے۔
(١٧٦ تا ١٩١) یہ حضرت شعیب ( علیہ السلام) اور ان کی امت کا قصہ ہے شروع میں شعیب (علیہ السلام) نے بھی اپنی امت کو جو نصیحت کی وہ انبیاء کے موافق ہے تفسیر عکرمہ تفسیر قتادہ اور تفسیر سدی میں حضرت شعیب (علیہ السلام) کو اصحاب مدین اور اصحابہ الایکہ دو امتوں کا نبی قرار دیا ہے اس لیے قرآن شریف میں اصحاب مدین کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے حضرت شعیب ( علیہ السلام) کی اس قوم کا بھائی فرمایا ہے اور اصحاب الا یکہ کے ساتھ بھائی نہیں فرمایا اور اصحاب مدین پر زلزلہ اور چنگھاڑ کے عذاب کا نازل ہونا فرمایا ہے اور اصحاب الایکہ پر آسمان سے انگارے برسنے کے عذاب کا نازل ہونا فرمایا ہے اور عذاب کی تین صورتیں زلزلہ اور چنگھاڑ اور انگاروں کا مینہ قرآن شریف میں دیکھ کر بعضے مفسروں نے یہ بھی لکھا ہے کہ حضرت شعیب (علیہ السلام) تینوں امتوں کے نبی ہوئے ہیں۔ لیکن جمہور مفسرین اس بات پر قائم ہیں کہ اصحاب مدین اور اصحاب ایکہ ایک ہی امت ہے مدین کے باہر ہے اسی کو ایکہ فرمایا ہے یہ لوگ پیڑوں کو پوجتے تھے اس واسطے جہاں ان لوگوں کا نام پیڑوں کے پوجنے کا فرمایا ہے وہاں حضرت شعیب ( علیہ السلام) کو ان کا بھائی نہیں فرمایا ابن عساکر نے حضرت عبد اللہ بن عمرو کی روایت سے ایک حدیث بھی نقل کی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اہل مدین اور اہل ایکہ دو امتیں ہیں اور حضرت شعیب ان دونوں امتوں کے نبی مقرر ہوئے تھے حافظ عماد الدین ابن کثیر ١ ؎ (رح) نے اس حدیث کی سند پر اعتراض کیا ہے اور صحیح یہی بات قرار دی ہے کہ یہ حدیث نہیں ہے بلکہ حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) کا قول ہے یہ حضرت شعیب کی امت کے لوگ پیڑوں کو پوجتے تھے کم تولتے تھے راستہ لوٹتے تھے حضرت شعیب ( علیہ السلام) ایک مدت تک ان لوگوں کو نصیحت کرتے رہے لیکن یہ لوگ باز نہ آئے پھر ان پر اس طرح عذاب نازل ہوا کہ پہلے زلزلہ آیا اور سخت آواز آئی جس کے سبب سے گھبرا کر یہ لوگ اپنے گھروں سے نکلے گھروں کے باہر سات روز تک ان پر ایسی گرمی غالب ہوئی کہ کہیں ان کو چین نہ تھا اتنے میں ایک ابر کا ٹکڑا نمودار ہوا پہلے ایک شخص ان میں کا اس ابر کے نیچے گیا اور اس نے اس ابر کے نیچے ٹھنڈک پاکر اس ٹھنڈک کی اوروں کو خبر دی جب سب قوم کے لوگ اس ابر کے نیچے جمع ہوگئے تو ابر میں سے انگارے برس کر سب ہلاک ہوگئے یہ حضرت شعیب ( علیہ السلام) نابینا تھے ان کی تقریر بہت اچھی تھی اس لیے ان کو خطیب الانبیاء کہتے تھے جس امت میں جو کچھ عیب تھا قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے اس کو الگ الگ تفصیل سے بیان فرمایا ہے اہل مدین اور اہل ایکہ کے عیب جدا جدا کچھ بیان نہیں فرمائے اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں قومیں ایک ہی امت کے لوگ تھے اکثر مفسروں کے قول کے موافق یہ حضرت شعیب ( علیہ السلام) وہی ہیں جن کے پاس مصر سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) گئے تھے اور جن کی ایک لڑکی سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا نکاح ہوا اکثر مفسروں کے اس مشہور قول پر حافظ ابن کثیر (رح) نے جو اعتراض کیا ہے اس کا ذکر سورة ہود میں گزر چکا ١ ؎ ہے۔ اس امت پر طرح طرح کا عذاب جو نازل ہوا اس کا سبب مفسرین نے لکھا ہے کہ انہوں نے اپنے نبی سے طرح طرح کی بےادبیاں کی تھیں چناچہ یہ جو انہوں نے کہا تھا کہ اے شعیب ہم تم کو اور تمہارے ساتھ کے مسلمانوں کو بستی سے نکال دیں گے اس کی سزا میں زلزلہ کے سبب سے خود یہ لوگ بستی سے نکلے اور یہ جو کہا تھا کہ اے شعیب کیا تمہاری نماز ہم کو ہمارے معبودوں کی عبادت سے روکتی اور منع کرتی ہے اس بکواس کی سزا میں چنگاڑ کا عذاب آیا جس سے یہ لوگ دم بخود ہو کر پھر بات بھی منہ سے نہ نکال سکے اور یہ جو کہا تھا کہ اے شعیب اگر تم سچے نبی ہو تو عذاب کے طور پر آسمان کا ایک ٹکڑا ہم پر گرادو اس کی سزا میں وہ ابر آیا جس سے انگاروں کا مینہ برسا۔ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے ابوموسیٰ اشعری (رض) کی حدیث جو اوپر گزر چکی ہے قوم شعیب ( علیہ السلام) کی مہلت اور ہلاکت کی بھی وہی حدیث گویا تفسیر ہے ‘ ان سب قصوں سے جو قریش کو اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت سے باز نہیں آئے وہ بدر کی لڑائی کے وقت دنیا اور عقبیٰ کے عذاب میں پکڑے گئے۔ جس کا ذکر انس بن مالک (رض) کی صحیح بخاری ومسلم کی روایتوں کے حوالہ سے ایک جگہ گزر چکا ہے تفسیر ضحاک میں یوم الظلہ کی تفسیر عذاب والے ابر کے دن کی ہے لیکن وہ ابر قوم شعیب ( علیہ السلام) پر سائبان کی طرح چھا گیا تھا اس واسطے شاہ صاحب نے یوم الظلہ کا ترجمہ ” سائبان والا دن “ کیا ہے اس سے زیادہ تفصیل قوم شعیب کے قصہ کی سورة ہود میں گزر چکی ہے۔ (١ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٣٤٥ ج ٣۔ ) (١ ؎ ملاحظہ فرمایے صفحہ ١١٩ جلد ٣ جس میں صحیح باب اسی کو قرار دیا گیا ہے کہ حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کے سسر کوئی دوسرے بزرگ تھے اور یہی شیخ الاسلام ابن تیمیہ (رح) نے لکھا ہے (جامع الرسائل لابن تیمیہ ص ٦٤ ج ا صحقیق محمد رشاد سلام ع۔ ح۔ )
(26:176) اصحب الئیکۃ۔ اہل ایکہ۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) اس قوم کی طرف رسول بنا کر بھیجے گئے تھے۔
5 ۔ یعنی مدین یا اس علاقہ کے رہنے والوں نے جہاں اب شہر تبوک آباد ہے۔ (دیکھئے سورة الحجر آیت 78)
آیات 176 تا 191 اسرار و معارف بن کے باسیوں نے بھی اللہ کے رسولوں کی بات ماننے سے انکار کردیا۔ یہ حضرت شعیب (علیہ السلام) کی قوم تھی اور ان کے گرد خوبصورت جنگل تے انہیں اصحاب الئیکۃ یعنی جنگلوں میں مقیم کہا گیا ہے۔ انہیں بھی شعیب (علیہ السلام) نے ویسا ہی پیغام دیا کہ اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرلو کہ میں اللہ کی طرف سے مبعوث ہوا ہوں اور مجھے تم سے کوئی بدلہ بھی مطلوب نہیں نہ دولت نہ اقتدار بلکہ میرا اجر تو اللہ کریم عطا فرمائیں گے جو سب جہانوں کے پالنے والے ہیں۔ یہ قوم ناپ تول میں کمی کیا کرتی تھی لہذا آپ نے اس پر گرفت فرمائی اور فرمایا کہ ناپ تول میں کمی نہ کیا کرو اور سیدھی ترازو رکھ کر درست ناپ تول کیا کرو۔ ناپ تول میں کمی حرام ہے : ناپ تول سے مراد تمام حقوق اور فرائض ہیں خواہ خریدو فروخت ہو ملازم یا مزدور کی اجرت ہو یا ملازم یا مزدور کام میں سستی کرے یا عبادات میں سستی کی جائے تو یہ سب ناپ تول کے حکم میں ہے۔ لوگوں کے ساتھ لین دین میں کمی نہ کیا کرو اور دوسروں کا حق نہ مارا کرو کہ اس سے زمین میں فساد پھوٹ پڑتا ہے جو بہت بڑا جرم ہے۔ اسلام کا کمال یہی ہے کہ ہر آدمی کے حقوق کا تحفظ کرتا ہے اور سب سے فرائض کی بھرپور ادائیگی کا مطالبہ کرتا ہے لہذا امن عامہ کا کمال تاریخی اعتبار سے بھی اسلامی حکومت ہی میں نظر آتا ہے وہ کہنے لگتا ہے آپ پر کسی نے جادو کردیا ہمارے اپنے اموال ہیں جو چاہیں کریں اور آپ تو عام آدمی ہیں ہماری طرح بھلا نبی کیسے ہوگئے بلکہ ہمارا خیال ہے کہ آپ جھوٹ بول رہے ہیں اور اگر واقعی اللہ کے بھیجے ہوئے ہیں تو ہم پر آسمان کا کوئی ٹکڑا گرا دیجیے تاکہ تصدیق ہوجائے کہ آپ نبی ہیں انہوں نے فرمایا نبی کا کام اللہ کا پیغام پہنچانا ہے وہ میں کر رہا ہوں عذاب دینا یا اعمال پر جزا و سزا یہ میرے رب کا کام ہے اور وہ ہر ایک کے اعمال سے پوری طرح واقف ہے وہ نہ مانے اور ان کے اس انکار پر انہیں سائبان والے دن کے عذاب نے آپکڑا۔ ہوا یہ کہ سخت گرمی پیدا ہوگئی نہ گھر میں چین نہ باہر آرام اور پاس والے جنگل پر بادل چھا گیا جس کے سائے میں ٹھنڈی ہوا چلتی تھی چناچہ سب لوگ بھاگ بھاگ کر اس بادل کے نیچے جمع ہوگئے جو خوبصورت سائبان بن رہا تھا کہ اچانک اس میں سے آگ برسنے لگی اور یوں وہ سب ایک سخت ترین عذاب کی لپیٹ میں آ کر تباہ ہوگئے۔ ان کا قصہ بھی بہت عبرت آموز ہے مگر لوگ ہیں کہ اکثر ایمان سے محروم ہیں حالانکہ اللہ قادر ہے انہیں عذاب دے سکتا ہے مگر یہ اس کی رحمت ہے کہ مہلت دے رکھی ہے۔
لغات القرآن : آیت نمبر 176 تا 191 : اصحاب الایکۃ (بن والے۔ جنگل والے) ‘ اوفوا (تم پورا کرو) الکیل (ماپ تول۔ پیمانہ) المخسرین (نقصان دینے والے) ‘ وزنوا (تم وزن کرو) ‘ القسطاس (ترازو) ‘ لا تبخسوا (تم نہ گھٹائو) ‘ لا تعثوا (تم نہ پھرو) ‘ مفسدین (فساد کرنے والے) ‘ الجبلۃ (مخلوق) ‘ اسقط (گرادے) ‘ کسفا (ٹکڑے ٹکڑے) ‘ یوم الظلۃ (سائبان والا۔ چھتری والا (دن) ‘۔ تشریح : آیت نمبر 176 تا 191 : جب کوئی قوم ضد ‘ ہٹ دھرمی ‘ سرکشی اور نافرمانی کو اپنا مزاج بنا لیتی ہے تو اس میں یہ احساس مٹ جاتا ہے کہ وہ کس قدر کمزور ‘ ناقابل اعتبار اور غلط بنیادوں پر اپنی زندگی کی تعمیر کررہی ہے۔ اس کو ہر وہ شخص سخت ناگوار گزرتا ہے جو صحیح رخ پر چل رہا ہے۔ اس کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ صراط مستقیم پر چلنے والوں کو بےحقیقت ظاہر کرنے کی ہر ممکن جدوجہد کرے ‘ وہ قوم اپنے حال پر اس طرح مطمئن ہوتی ہے کہ وہ غبط تاویلیں کرکے اپنی اصلاح کرنے کی زحمت گوارا نہیں کرتی۔ سورۃ الشعراء میں سات انبیاء کرام اور ان کی دعوت کو قبول کر کے ایمان لانے والوں اور کفر و شرک اور انکار رسالت پر جم جانے والوں کا حال بیان کیا گیا ہے جس میں اسی حقیقت کی طرف واضح اشارے کئے گئے ہیں۔ ان آیات میں حضرت شعیب (علیہ السلام) کی قوم کا ذکر کیا گیا ہے جن کو ” اصحاب الایکہ “ فرمایا گیا ” ایکہ “ کے متعلق مفسرین نے مختلف معنی بیان کئے ہیں۔ ایکہ تبوک کا پرانا نام ہے اسی قوم کی اصلاح کے لئے حضرت شعیب (علیہ السلام) کو بھیجا تھا۔ (2) ایک جنگل ‘ بن ‘ سر سبز و شاداب اور درختوں کے جھنڈ والے علاقے کو کہتے ہیں۔ (3) ایکہ۔ والے ایک درخت کو اپنا معبود مانتے تھے جو ان کے قریب کے بن کا ایک درخت تھا۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) اس قوم کی اصلاح کے لئے تشریف لائے تھے۔ (4) حضرت شعیب (علیہ السلام) جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اودلاد سے تھے پوری زندی اس قوم کی اصلاح کرتے رہے جو اپنے خوش حالی کی وجہ سے تمام اخلاقی اور معاشرتی خرابیوں میں مبتلا ہوچکی تھی۔ خلاصہ یہ ہے کہ حضرت شعیب (علیہ السلام) جس قوم کی اصلاح کے لئے تشریف لائے تھے وہ نہایت متمدن خوش حال اور تجارت پیشہ قوم تھی جو ایسے علاقے میں رہتی تھی جو نہایت سرسبز و شاداب جھاڑیوں ‘ درختوں کی کثرت اور پر فضا مقام پر عیش و عشرت کی زندگی گزار رہی تھی۔ پورا علاقہ نہروں ‘ چشموں اور درختوں کی کثرت کی وجہ سے نہایت حسین نظر آتا تھا۔ خاص طور پر خوشبودار پھولوں کے چمن تھے جو بڑا خوبصورت نظارہ پیش کرتے تھے چونکہ یہ قوم تجارت پیشہ تھی اس لئے مال و دولت کی کثرت نے ان کو دنیاوی زندگی کا ایا دیوانہ بنا دیا تھا کہ وہ بہت سی اخلاقی اور معاشرتی خرابیوں میں مبتلا ہوچکے تھے۔ انہوں نے تجارتی بد دیانتی کو اختیار کرکے ” میزان “ یعنی تو ازن و عتدال کو چھوڑ دیا تھا اور بےایمانی کرنے اور کم تولنے کو اپنا مزاج بنا لیا تھا جس کا نتیجہ یہ تھا کہ ان میں خود غرضی ‘ لالچ اور کردار کی ہزاروں کمزوریاں پیدا ہوچکی تھیں۔ مذہبی اعتبار سے اس قوم میں مشرکا نہ رسمیں اس قدر کثرت سے پھیل چکی تھیں کہ ان کے نزدیک وہی اصل دین تھا۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے جب ان کو بتایا کہ وہ خریدو فروخت میں بددیانتی ‘ مشرکانہ رسمیں اور تجارت کے رستوں کو دوسروں پر بند کرنے کی عادت چھوڑ دیں اور صرف ایک اللہ کی عبادت و بندگی کریں جس نے یہ تمام نعمتیں عطا کی ہیں۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے فرمایا کہ میں نہایت دیانت وامانت والا رسول ہوں مجھے تم سے دنیا کی کوئی چیز بدلہ اور صلہ میں نہیں چاہیے وہ تو میرے رب العالمین کے ذمے ہے میں تو یہ چاہتا ہوں کہ تم میری بات مانو ‘ پورا تولو ‘ اس میں کمی نہ کرو ‘ ترازو کو سیدھا رکھو ‘ لوگوں کو کسی طرح کا نقصان نہ پہنچائو۔ فسادی لوگوں کی اتباع نہ کرو۔ تمہارا اور تم سے پہلے لوگوں کا خالق صرف ایک اللہ ہے جو تمام عبادتوں کا مستحق ہے۔ اگر تم نے میری بات نہ مانتی ‘ میری اطاعت نہ کی تو تمہارے اوپر تمہاری بد اعمالیوں کی وجہ سے سخت عذاب آسکتا ہے۔ اس برے انجام سے ڈرو۔ سورۃ الاعراف میں اس واقعہ کو کافی تفصیل سے ارشاد فرمایا گیا ہے۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) جو نہایت شیریں بیان اور عظیم مقرر تھے جن کو علماء نے ” خطیب الانبیائ “ کا لقب دیا ہے جب اپنی بات کہہ چکے تو پوری قوم غیظ و غضب سے پاگل ہوگئی ‘ آپ کی قوم کے لوگوں نے کہا کہ اے شعیب ہم تو تم سے بہت اچھی امیدیں وابستہ کئے ہوئے تھے مگر تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم ہماری ان رسموں کو برا کہہ رہے ہو جس پر ہمارے باپ دادا چلتے آئے ہیں۔ تم ہمیں تجارتی آداب سکھانے آگئے ہو۔ ایسا لگتا ہے کہ تم پر کسی نے جادو کردیا ہے جس سے ایسی بہکی بہکی باتیں کررہے ہو۔ تم ہم جیسے آدمی ہو یعنی اللہ کو اگر اپنا نبی بنا کر بھیجنا تھا تو کسی فرشتے کو نبی بنا کر بھیجتے۔ ہمیں ایسا لگتا ہے کہ تم جو کچھ کہہ رہے ہو وہ سب جھوٹ ہے۔ کہنے لگے کہ اگر تمہارے اندر طاقت وقوت ہے تو آسمان کا کوئی ٹکڑا ہی ہمارے اوپر گرادو۔ غرضیکہ حضرت شعیب (علیہ السلام) دن رات ان کو سمجھاتے رہے مگر وہ اپنی حرکتوں اور غیر اللہ کی عبادت و بندگی سے باز نہ آئے ‘ بالآخر اللہ نے ان پر عذاب بھیجنے کا فیصلہ فرمایا۔ اس قوم پر عذاب کی ابتداء اس طرح ہوئی کہ سات دن تک پورے علاقے میں اس قدر شدید گرمی پڑی کہ پوری قوم بوکھلا اٹھی ۔ وہ ہر طرف اس دھوپ کی آگ سے بچنے کی کوشش کرتے مگر ان کو گھر میں یا گھر سے باہر کہیں سکون نہ ملتا تھا۔ جب مسلسل سات دن تک شدید دھوپ اور گرمی پڑی تو ایسا لگتا تھا کہ آسمان آگ برسارہا ہے کہ اچانک آسمان پر ایک گہری گھٹا اور بادل چھا گئے۔ گرمی سے پریشان حال لوگوں نے سکھ کا سانس لیا۔ خوشیاں منانا شروع کردیں اور سب کے سب گھروں سے باہر نکل پڑے اور بادلوں کے سائے میں آگئے۔ اس کی بعد ان لوگوں نے دیکھا کہ ابر پھٹا اور اس میں سے آگ برسنا شروع ہوگئی۔ زمین ہلنے اور زور زور سے جھٹکے لینے لگی۔ ایک زور دار اور ہیبت ناک آواز آئی جس سے کانوں کے پردے پھٹنے لگے۔ یہ عذاب اتنا بڑھتا گیا کہ نافرمانوں میں سے کوئی بھی اس عذاب سے نہ بچ سکا۔ اس کیبرخلاف اللہ تعالیٰ نے حضرت شعیب (علیہ السلام) اور آپ کی بات مان کر ایمان لانے والوں کو پوری طرح نجات عطا فرمادی۔ اس عذاب کو ” یوم الظلہ “ فرمایا گیا ہے جو عذاب سائے کی طرح ان پر مسلط کیا گیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس واقعہ پر آخر میں بھی ان ہی دو آیات کو ارشاد فرمایا ہے کہ اس واقعہ میں عبرت و نصیحت کی نشانیاں موجود ہیں۔ لیکن ان نشانیوں کو دیکھنے کے باوجود بھی اکثر و بیشتر لوگ وہ ہیں جو کسی واقعہ سے نصیحت حاصل نہیں کرنا چاہتے اور اپنی روش زندگی میں کسی تبدیلی کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ فرمایا کہ اس کائنات میں ساری قوت و طاقت کا مالک صرف اللہ ہے جو اپنے بندوں پر بہت مہربان ہے۔ اور بالاخر سب کو اس کی پاس لوٹ کر جانا ہے جہاں وہ فیصلہ فرمادے گا۔
فہم القرآن ربط کلام : حضرت لوط (علیہ السلام) کے بعد حضرت شعیب (علیہ السلام) اور ان کی قوم کا ذکر، قوم شعیب کفرو شرک میں ملّوث ہونے کے ساتھ لین دین میں بدترین خیانت کرتی تھی۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) : حضرت شعیب (علیہ السلام) کو مؤرخین اور سیرت نگاروں نے خطیب الانبیاء کے نام سے یاد کیا ہے۔ آپ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بیٹے ” مدیان “ کی اولاد سے تعلق رکھتے ہیں جس بنا پر ان کی قوم کو قوم مدین کہا جاتا ہے۔ اس قوم کا سب سے بڑا شہر ان کے قومی نام مدین سے ہی معروف تھا۔ اس لیے قرآن مجید نے انھیں اہل مدین کے نام سے پکارا ہے۔ حضرت شعیب کو ان کی قوم میں ہی رسول مبعوث کیا گیا تاکہ آپ اپنی قوم کو راہ راست پر لانے کی جدوجہد فرمائیں۔ اہل مدین کو قرآن میں اصحاب الایکہ بھی کہا گیا ہے۔ (الشعراء : ١٧٦) مدین کا اصل علاقہ حجاز کے شمال مغرب اور فلسطین کے جنوب میں بحر احمر اور خلیج عقبہ کے کنارے واقع تھا مگر جزیرہ نمائے سینا کے مشرقی ساحل پر بھی اس کا کچھ سلسلہ پھیلا ہوا تھا۔ یہ ایک بڑی تجارت پیشہ قوم تھی۔ قدیم زمانہ میں جو تجارتی شاہراہ بحر احمر کے کنارے یمن سے مکہ اور ینبوع ہوتی ہوئی شام تک جاتی تھی، اور ایک دوسری تجارتی شاہراہ جو عراق سے مصر کی طرف جاتی تھی اس کے عین چورا ہے پر اس قوم کی بستیاں واقع تھیں۔ اسی بنا پر عرب کا بچہ بچہ مدین سے واقف تھا۔ اس کے مٹ جانے کے بعد بھی عرب میں اس کی شہرت اور کھنڈرات کافی حد تک برقرار تھے۔ عربوں کے تجارتی قافلے مصر اور شام کی طرف جاتے ہوئے رات دن ان کے آثار قدیمہ کے درمیان سے گزرتے تھے۔ ” اللہ “ ہی بہتر جانتا ہے کہ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو کس کس انداز میں کتنا عرصہ سمجھایا ہوگا۔ لیکن قوم سدھرنے کی بجائے بگڑتی ہی چلی گئی۔ حتی کہ انہوں نے شعیب (علیہ السلام) سے کہا کہ اے شعیب کیا تیری نمازیں تجھے یہی کہتی ہیں کہ ہم اپنے باپ دادا کے طریقۂ عبادت کو چھوڑ دیں اور اپنے کاروبار کو اپنے طریقہ کے مطابق نہ کریں ؟ ھود، آیت : ٨٧۔ تم پر اے شعیب (علیہ السلام) کسی نے جادو کردیا ہے۔ (الشعراء : ١٨٥) اے شعیب ! تیری اکثر باتیں ہماری سمجھ میں نہیں آتیں اور ہم تمہیں اپنے آپ میں کمزور دیکھتے ہیں، اگر تیری برادری نہ ہوتی تو ہم تجھے پتھر مار مار کر رجم کردیتے تو ہمارا کچھ نہ بگاڑ سکتا۔ (ھود، آیت : ٩١) حضرت شعیب (علیہ السلام) کا ارشاد : میری قوم کیا تم اللہ تعالیٰ سے میری برادری کو بڑا سمجھتے ہو۔ تم اللہ کی نافرمانی سے باز نہیں آتے۔ تم اپنا کام کرو اور مجھے اپنا کام کرنے دو ۔ عنقریب تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ جھوٹا کون ہے اور کس پر ذلیل کردینے والا عذاب نازل ہوتا ہے۔ (ھود : ٩٠ تا ٩٥) قوم حضرت شعیب (علیہ السلام) سے عذاب کا مطالبہ کرتی ہے : اے شعیب تو ہمارے جیسا انسان ہے اور ہم تجھے کذّاب سمجھتے ہیں اگر تو سچا ہے تو ہم پر آسمان کا ایک ٹکڑا گرادے۔ (الشعراء : ١٨٥ تا ١٨٧) (قَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اکْتَالُوا حَتَّی تَسْتَوْفُوا) [ رواہ البخاری : باب الکیل علی البائع والمعطی ] ” نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب ناپ تول کرو تو اسے پورا کرو۔ “ ماپ تول میں کمی کرنے کی سزا : (مَا طَفِفَ قَوْمُ الْمِیْزَانَ إلَّا أخَذَہُمُ اللّٰہُ بالسِّنِیْنَ ) [ السلسلۃ الصحیحۃ : ١٠٧] ” جو بھی قوم تولنے میں کمی کرتی ہے اللہ تعالیٰ ان پر قحط سالی مسلط فرما دیتا ہے۔ “ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ غَشَّنَا فَلَیْسَ مِنَّا وَالْمَکْرُ وَالْخِدَاعُ فِیْ النَّارِ ) [ اخرجہ ابن حبان : ھذاحدیث حسن ] ” عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس نے دھوکہ کیا وہ ہم میں سے نہیں، مکر و فریب کرنے اور دھوکہ دینے والا آگ میں جائے گا۔ “ مسائل ١۔ قوم شعیب ناپ تول میں کمی بیشی کیا کرتے تھے۔ ٢۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) اپنی قوم کو ماپ تول پورا کرنے کا حکم دیتے تھے۔ ٣۔ انسان کو ہر حال میں خالق کائنات سے ڈرتے رہنا چاہیے۔ ٤۔ پہلوں اور بعد والوں کو اللہ ہی پیدا کرنے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن ناپ تول میں کمی نہیں کرنی چاہیے : ١۔ ماپ تول کو پورا کرو اور لوگوں کو چیزیں کم نہ دو ۔ (الاعراف : ٨٥) ٢۔ ماپ تول کو انصاف سے پورا کرو۔ (الانعام : ٥٢) ٣۔ ماپ، تول پورا رکھنے کا حکم۔ (الاسراء : ٣٥) ٤۔ ماپ تول میں کمی نہ کرو۔ (ھود : ٨٤) ٥۔ ماپ کو پورا کرو اور کمی کرنے والے نہ بنو۔ (الشعراء : ١٨١) ٦۔ ماپ تول میں کمی کرنے والوں کے لیے ہلاکت ہے۔ ( المطففین : ١)
درس نمبر ١٦٨ تشریح آیات ١٧٦……تا……١٩١ کذب اصحب……رب العلمین (١٨٠) یہ حضرت شعیب (علیہ السلام) کا قصہ ہے۔ تاریخی اعتبار سے یہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے پہلے کا واقعہ ہے۔ یہاں یہ قصہ بھی دوسرے قصص کی طرح محض عبرت اور نصیحت حاصل کرنے کے لئے آیا ہے۔ اصحاب ایک غالباً اہل مدین ہی کا نام ہے ایک ایک گہرے سائے والے ایسے درخت کو کہتے ہیں جو دہرا ہوگیا ہو اور مدین کے گائوں کو شاید ایسے بڑے بڑے درختوں نے گھیرا ہوا تھا۔ مدین حجاز اور فلسطین کے درمیان خلیج عقبہ کے کنارے تھا۔ ان کے سامنے حضرت شعیب نے وہی نظریہ حیات پیش کیا جو ہر رسول پیش کرتا چلا آ رہا ہے کہ اللہ کو ایک سمجھو ، میری دعوت قبول کرو ، میں اس پر تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا۔ اس اصل دعوت کے پیش کرنے کے بعد پھر اہل مدین کے لئے دعوت کا مخصوص حصہ پیش کیا جاتا ہے۔
اصحاب الایکہ کو حضرت شعیب (علیہ السلام) کا حق کی دعوت دینا، ناپ تول میں کمی کرنے سے روکنا، پھر ان لوگوں کا نافرمانی کی سزا میں ہلاک ہونا حضرت شعیب (علیہ السلام) اصحاب مدین اور اصحاب ایکہ کی طرف مبعوث ہوئے تھے کفر کے علاوہ ان میں جو دوسرے معاصی رواج پذیر تھے ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ ناپ تول میں کمی کرتے تھے بھاؤ طے ہوجانے کے بعد جب خریدار کو ناپ کر یا تول کر سودا دیتے تھے تو کمی کردیتے تھے حضرت شعیب (علیہ السلام) نے ان کو توحید کی دعوت دی اور فرمایا کہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول امین ہوں اللہ سے ڈرو اور میری فرمانبر داری کرو اور زمین میں فساد نہ کرو، یہ لوگ برابر ضد اور عناد پر اڑے رہے اور حضرت شعیب (علیہ السلام) کو بےت کے جواب دیتے رہے ناپ تول میں کمی کرنے سے جو انہیں منع فرمایا تھا اس کے بارے میں کہنے لگے (یٰشُعَیْبُ اَصَلٰوتُکَ تَاْمُرُکَ اَنْ نَّتْرُکَ مَا یَعْبُدُ اٰبَآؤُنَآ اَوْ اَنْ نَّفْعَلَ فِیْٓ اَمْوَالِنَا مَا نَشآؤُا) (اے شعیب کیا تمہاری نماز تمہیں یہ حکم دیتی ہے کہ ہم ان چیزوں کو چھوڑ دیں جن کی ہمارے باپ دادے عبادت کرتے تھے اور یہ کہ ہم اپنی مرضی سے اپنے مالوں میں تصرف نہ کریں) مطلب یہ تھا ہمارے مال ہیں جو چاہیں کریں کم تولیں کم ناپیں اس سے کیا غرض ہے۔ جب انسان یہ بھول جاتا ہے کہ میں اللہ کا بندہ ہوں میں اور میرا مال اللہ ہی کی ملکیت ہے تو اس طرح کی باتیں کرنے لگتا ہے۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے فرمایا کہ تم اللہ سے ڈرو جس نے تمہیں پیدا فرمایا ہے اور تم سے پہلے جو لوگ گزرے ہیں انہیں بھی اسی نے پیدا فرمایا ہے۔ وہ لوگ کہنے لگے میاں جاؤ تمہاری ایسی ہی باتیں ہیں تم پر کسی نے تگڑا جادو کردیا ہے۔ اور تم ہو بھی ہمارے جیسے ایک آدمی، ہم تم کو کیسے نبی مانیں، ہمارے خیال میں تم تو جھوٹوں میں ہو، اور یہ جو تم بار بار عذاب آنے کی رٹ لگاتے ہو اس سے ہم پر کچھ بھی اثر ہونے والا نہیں، اگر عذاب کی بات سچی ہے یوں ہی دھمکی نہیں ہے تو عذاب لا کر دکھا دو ، چلو آسمان سے ہم پر ایک ٹکڑا گرا دو ، حضرت شعیب (علیہ السلام) نے فرمایا کہ میں عذاب کا لانے والا نہیں ہوں اور میں اس کی کیفیت کی تعیین بھی نہیں کرسکتا۔ تمہارے اعمال کو میرا رب خوب جانتا ہے تم پر کب عذاب آئے گا اور کس طرح عذاب آئے گا یہ سب اسی کے علم میں ہے بہر حال تمہارے اعمال عذاب کی دعوت دینے والے ہیں۔ لوگوں کی سر کشی بڑھتی گئی اور راہ راست پر نہ آئے اور ان پر عذاب آ ہی گیا اور الظلہ (سائبان) کے عذاب سے ہلاک ہوئے، مفسر قرطبی نے لکھا ہے کہ جب عذاب آنے کا وقت قریب آ ہی گیا تو ان پر اللہ تعالیٰ نے سخت گرمی بھیج دی لہٰذا وہ گھروں کو چھوڑ کر درختوں اور جھاڑیوں کے پاس جمع ہوگئے پھر اللہ تعالیٰ نے بادل بھیجا جس کے سایہ میں پناہ لینے کے لیے ایک جگہ جمع ہوگئے جب سب اکٹھے ہوگئے تو وہیں پر جلا دیئے گئے، روح المعانی میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر آگ بھیج دی جو ان سب کو کھا گئی یہ ان کا منہ مانگا عذاب تھا انہوں نے کہا کہ ہم پر آسمان سے ٹکڑا گرا دو ، لہٰذا آسمان ہی کی طرف سے بادل نظر آیا اور اسی کے سایہ میں جل کر بھسم ہوگئے۔ (اِِنَّہٗ کَانَ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍ ) (بلاشبہ یہ بڑے دن کا عذاب تھا) ۔ فائدہ : ایک جھاڑیوں والے جنگل کو کہا جاتا ہے یہ لوگ ایسے جنگل میں رہتے تھے جس میں جھاڑیاں تھیں اور گھنے درخت تھے، علامہ قرطبی فرماتے ہیں کہ (اِِذْ قَالَ لَہُمْ شُعَیْبٌ) فرمایا اور اخوھم نہیں فرمایا کیونکہ حضرت شعیب (علیہ السلام) ان کی قوم میں سے نہ تھے ہاں اصحاب مدین کے بارے میں (اَخَاھُمْ شُعَیْبًا) فرمایا کیونکہ حضرت شعیب (علیہ السلام) نسب اور خاندان کے اعتبار سے انہیں میں سے تھے (کما مرفی سورة الاعراف و فی سورة ھود (علیہ السلام) و یاتی فی سورة العنکبوت انشاء اللہ تعالیٰ ) ۔ (اِِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لاآیَۃً ) (بلاشبہ اس میں بڑی عبرت ہے) (وَّمَا کَانَ اَکْثَرُھُمْ مُّؤْمِنِیْنَ ) (اور ان میں سے اکثر ایمان لانے والے نہیں ہیں) (وَاِِنَّ رَبَّکَ لَہُوَ الْعَزِیْزُ الرَّحِیْمُ ) (اور بیشک آپ کا رب عزیز ہے رحیم ہے) ۔
63:۔ یہ ساتویں نقلی دلیل اور تخویف اخروی ہے۔ ” اذ قال لھم شعیب “ تا ” علی رب العلمین “ اس کی تفسیر گذر چکی ہے حضرت شعیب (علیہ السلام) کا نسبی تعلق چونکہ اہل مدین سے تھا اصحاب الایکہ سے نہیں تھا اس لیے یہاں ” اخوھم شعیب “ نہیں فرمایا اور جہاں اہل مدین کی طرف ان کی بعثت کا ذکر کیا وہاں فرمایا۔ ” والی مدین اخاھم شعیبا “ (ھود رکوع 8) لم یقل ھنا اخوھم شعیب لانہ لم یکن من نسبھم بل کان من نسب اھل مدین ففی الحدیث ان شعیبا اخا مدین ارسل الیھم والی اصحاب الایکۃ (مدارک ج 3 ص 148) ۔