Surat us Shooaraa

Surah: 26

Verse: 18

سورة الشعراء

قَالَ اَلَمۡ نُرَبِّکَ فِیۡنَا وَلِیۡدًا وَّ لَبِثۡتَ فِیۡنَا مِنۡ عُمُرِکَ سِنِیۡنَ ﴿ۙ۱۸﴾

[Pharaoh] said, "Did we not raise you among us as a child, and you remained among us for years of your life?

فرعوں نے کہا کہ کیا ہم نے تجھے تیرے بچپن کے زمانہ میں اپنے ہاں نہیں پالا تھا؟ اور تو نے اپنی عمر کے بہت سے سال ہم میں نہیں گزارے؟

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Saying: ... أَلَمْ نُرَبِّكَ فِينَا وَلِيدًا ... Did we not bring you up among us as a child! meaning, we brought you up among us, in our home and on our bed, we nourished you and did favors for you for many years, and after all that you responded to our kindness in this manner: you killed one of our men and denied our favors to you.' ... وَلَبِثْتَ فِينَا مِنْ عُمُرِكَ سِنِينَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

181فرعون نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی دعوت اور مطالبے پر غور کرنے کی بجائے، ان کی جوابدہی کرنی شروع کردی اور کہا کہ کیا تو وہی نہیں ہے جو ہماری گود میں اور ہمارے گھر میں پلا، جب کہ ہم بنی اسرائیل کے بچوں کو قتل کر ڈالتے تھے ؟ 182بعض کہتے ہیں کہ18سال فرعون کے محل میں بسر کئے، بعض کے نزدیک30سال اور بعض کے نزدیک چالیس سال یعنی اتنی عمر ہمارے پاس گزرانے کے بعد، چند سال ادھر ادھر رہ کر اب تو نبوت کا دعویٰ کرنے لگا ؟

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قَالَ اَلَمْ نُرَبِّكَ فِيْنَا وَلِيْدًا۔۔ : یہاں لمبی بات سننے والے کی سمجھ پر چھوڑ کر حذف کردی گئی کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں ایسی ہیبت عطا فرمائی کہ وہ دونوں کسی فوج یا اسلحے کے بغیر فرعون کے دربار میں پہنچے، اس کی فوج اور پہرے داروں میں سے کسی کو انھیں روکنے کی جرأت نہ ہوسکی اور دربار میں پہنچ کر انھوں نے اس کے تمام سرداروں کی موجودگی میں اسے اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچایا۔ فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) کی گفتگو سے اندازہ لگا لیا کہ اصل رسول وہی ہیں، ہارون صرف معاون ہیں، اس لیے اس نے موسیٰ (علیہ السلام) ہی کو مخاطب کیا، ہارون (علیہ السلام) سے بات نہیں کی۔ موسیٰ (علیہ السلام) سے بات کرتے ہوئے اس نے ان کی دعوت پر بات کرنے سے گریز کرتے ہوئے حکمرانوں کے عام ہتھکنڈے استعمال کیے، جن میں سے پہلا ہتھکنڈا ان کی پرورش کا احسان جتا کر شرمندہ کرنا تھا۔ چناچہ کہنے لگا کہ کیا ہم نے تجھے اپنے پاس رکھ کر تیری اس وقت پرورش نہیں کی جب تو بچہ تھا اور تو اپنی عمر کے کئی برس ہم میں رہا۔ دوسرا ہتھکنڈا انھیں مجرم ثابت کرکے سزا سے خوف زدہ کرنا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ پرورش کے احسان سے شرمندہ ہو کر یا جان کے خوف سے وہ زبان بند رکھیں گے۔ چناچہ کہنے لگا : ” اور تو نے اپنا وہ کام کیا جو تو نے کیا اور تو ناشکروں میں سے ہے “ یعنی ہمارے اتنے احسانات کے باوجود تم نے ہمارے ایک آدمی کو قتل کردیا جو یقیناً تمہاری احسان فراموشی تھی۔ ” اَلَمْ نُرَبِّكَ فِيْنَا “ (کیا ہم نے تیری اپنے ہاں پرورش نہیں کی) کے الفاظ سے ان مفسرین اور مؤرخین کی بات کی کسی قدر تائید ہوتی ہے جن کا خیال ہے کہ یہ فرعون وہ نہیں تھا جس کے گھر موسیٰ (علیہ السلام) کی پرورش ہوئی تھی، بلکہ اس کا بیٹا تھا، کیونکہ اگر یہ وہی ہوتا تو کہتا، کیا میں نے تیری پرورش نہیں کی اور تو کئی سال میرے پاس رہا ؟ (واللہ اعلم)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالَ اَلَمْ نُرَبِّكَ فِيْنَا وَلِيْدًا وَّلَبِثْتَ فِيْنَا مِنْ عُمُرِكَ سِـنِيْنَ۝ ١٨ۙ رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔ ولید والوَلِيدُ يقال لمن قرب عهده بالوِلَادَةِ وإن کان في الأصل يصحّ لمن قرب عهده أو بعد، كما يقال لمن قرب عهده بالاجتناء : جنيّ ، فإذا کبر الوَلَدُ سقط عنه هذا الاسم، وجمعه : وِلْدَانٌ ، قال : يَوْماً يَجْعَلُ الْوِلْدانَ شِيباً [ المزمل/ 17] والوَلِيدَةُ مختصّة بالإماء في عامّة کلامهم، واللِّدَةُ مختصّةٌ بالتِّرْبِ ، يقال : فلانٌ لِدَةُ فلانٍ ، وتِرْبُهُ ، ونقصانه الواو، لأنّ أصله وِلْدَةٌ وتَوَلُّدُ الشیءِ من الشیء : حصوله عنه بسبب من الأسباب، وجمعُ الوَلَدِ أَوْلادٌ. قال تعالی: أَنَّما أَمْوالُكُمْ وَأَوْلادُكُمْ فِتْنَةٌ [ التغابن/ 15] إِنَّ مِنْ أَزْواجِكُمْ وَأَوْلادِكُمْ عَدُوًّا لَكُمْ [ التغابن/ 14] فجعل کلّهم فتنة وبعضهم عدوّا . وقیل : الوُلْدُ جمعُ وَلَدٍ نحو : أُسْدٍ وأَسَدٍ ، ويجوز أن يكون واحدا نحو : بُخْلٍ وبَخَلٍ ، وعُرْبٍ وعَرَبٍ ، وروي : ( وُلْدُكِ مَنْ دَمَّى عَقِبَيْكِ ) وقرئ : مَنْ لَمْ يَزِدْهُ مالُهُ وَوَلَدُهُ [ نوح/ 21] الولید ۔ عرف میں نوزائید ہ بچے پر بولاجاتا ہے ۔ اگرچہ لغت کے لحاظ سے ہر چھوٹے بڑے کو ولید کہنا صحیح ہے ۔ جیسا کہ تازہ چنے ہوئے پھل کو جنی کہاجاتا ہے پھر ججب بچہ بڑا ( یعنی بالغ ) ہوجائے تو اسے ولید نہیں کہتے ۔ اسکی جمع ولدان ہے ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے ۔ يَوْماً يَجْعَلُ الْوِلْدانَ شِيباً [ المزمل/ 17] ( اس دن سے ) ( کیونکر بچو گے ) جو بچوں کو بوڑھا کردے گا ۔ الولید ۃ عرف عام میں کنیز کے ساتھ مختص ہے اور لدۃ خاص کر ترب ( لنگوٹیا ) کو کہتے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ فلان لدۃ فلان وتربہ فلاں اس کا ہم عمر ہی یہ اصل میں ولدۃ ہے تخفیف کے لئے واؤ ساقط ہوگئی ہے ۔ تولد الشئی من الشئی ایک چیز کو دوسری سے پیدا ہونا ۔ اور ولد کی جمع اولاد آتی ہے ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ أَنَّما أَمْوالُكُمْ وَأَوْلادُكُمْ فِتْنَةٌ [ التغابن/ 15] تمہارا مال اور اولاد بڑی آزمائش ہے ۔ إِنَّ مِنْ أَزْواجِكُمْ وَأَوْلادِكُمْ عَدُوًّا لَكُمْ [ التغابن/ 14] تمہاری عوتوں اور اولاد میں سے بعض تمہارے دشمن بھی ہیں ۔ ان ہر دوآیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اولاد انسان کے لئے آزمائش ہے ۔ مگر بعض اور دوشمن ثابت ہوتی ہے، پہلی آیت میں سب کو فتنہ قرار دیا ہے ۔ لیکن دودسری آیت میں بعض کو دشمن قرار دیا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ اسد کی جمع ولد بھی آتی ہے جیسے اسد کی جمع اسد مگر ہوسکتا ہے کہ ولد کا لفظ مفرد جیسے بخل وبخل اور عرب وعرب کہ یہ دونوں مفرد ہیں مثل مشہور ہے ۔ ولد ک من دمٰی عقیبک یعنی تیر ا لڑکا تو وہی ہے جو تیری ایڑیوں کو خون آلود کرے یعنی جو تہمارے بطن سے پیدا ہوا ہوا اور ایک قراءت میں ہے : ۔ جن کو ان کے مال اور اولاد نے کچھ فائدہ نہیں دیا۔ لبث لَبِثَ بالمکان : أقام به ملازما له . قال تعالی: فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ [ العنکبوت/ 14] ، ( ل ب ث ) لبث بالمکان کے معنی کسی مقام پر جم کر ٹھہرنے اور مستقل قیام کرنا کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ [ العنکبوت/ 14] تو وہ ان میں ۔ ہزار برس رہے ۔ عمر ( زندگی) والْعَمْرُ والْعُمُرُ : اسم لمدّة عمارة البدن بالحیاة، فهو دون البقاء، فإذا قيل : طال عُمُرُهُ ، فمعناه : عِمَارَةُ بدنِهِ بروحه، وإذا قيل : بقاؤه فلیس يقتضي ذلك، فإنّ البقاء ضدّ الفناء، ولفضل البقاء علی العمر وصف اللہ به، وقلّما وصف بالعمر . والتَّعْمِيرُ : إعطاء العمر بالفعل، أو بالقول علی سبیل الدّعاء . قال : أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ ما يَتَذَكَّرُ فِيهِ [ فاطر/ 37] ، وَما يُعَمَّرُ مِنْ مُعَمَّرٍ وَلا يُنْقَصُ مِنْ عُمُرِهِ [ فاطر/ 11] ، وَما هُوَ بِمُزَحْزِحِهِ مِنَ الْعَذابِ أَنْ يُعَمَّرَ [ البقرة/ 96] ، وقوله تعالی: وَمَنْ نُعَمِّرْهُ نُنَكِّسْهُ فِي الْخَلْقِ [يس/ 68] ، قال تعالی: فَتَطاوَلَ عَلَيْهِمُ الْعُمُرُ [ القصص/ 45] ، وَلَبِثْتَ فِينا مِنْ عُمُرِكَ سِنِينَ [ الشعراء/ 18] . والعُمُرُ والْعَمْرُ واحد لکن خُصَّ القَسَمُ بِالْعَمْرِ دون العُمُرِ «3» ، نحو : لَعَمْرُكَ إِنَّهُمْ لَفِي سَكْرَتِهِمْ [ الحجر/ 72] ، وعمّرک الله، أي : سألت اللہ عمرک، وخصّ هاهنا لفظ عمر لما قصد به قصد القسم، ( ع م ر ) العمارۃ اور العمر والعمر اس مدت کو کہتے میں جس میں بدن زندگی کے ساتھ آباد رہتا ہے اور یہ بقا سے فرو تر ہے چنناچہ طال عمر ہ کے معنی تو یہ ہوتے ہیں کہ اس کا بدن روح سے آباد رہے لیکن طال بقاء ہ اس مفہوم کا مقتضی نہیں ہے کیونکہ البقاء تو فناء کی ضد ہے اور چونکہ بقاء کو عمر پر فضیلت ہے اس لئے حق تعالیٰ بقاء کے ساتھ تو موصؤف ہوتا ہے مگر عمر کے ساتھ بہت کم متصف ہوتا ہے ۔ التعمیر کے معنی ہیں بالفعل عمر بڑھانا نا یا زبان کے ساتھ عمر ک اللہ کہنا یعنی خدا تیری عمر دراز کرے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ ما يَتَذَكَّرُ فِيهِ [ فاطر/ 37] کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی تھی کہ اس میں جو سوچنا چاہتا سوچ لیتا ۔ وَما يُعَمَّرُ مِنْ مُعَمَّرٍ وَلا يُنْقَصُ مِنْ عُمُرِهِ [ فاطر/ 11] اور نہ کسی بڑی عمر والے کو عمر زیادہ دی جاتی ہے اور نہ اس کی عمر کم کی جاتی ہے ۔ وَما هُوَ بِمُزَحْزِحِهِ مِنَ الْعَذابِ أَنْ يُعَمَّرَ [ البقرة/ 96] اگر اتنی لمبی عمر اس کو مل بھی جائے تو اسے عذاب سے تو نہیں چھڑا سکتی ۔ اور آیت : ۔ وَمَنْ نُعَمِّرْهُ نُنَكِّسْهُ فِي الْخَلْقِ [يس/ 68] اور جس کو بڑی عمر دیتے ہیں اسے خلقت میں اوندھا کردیتے ہیں ۔ فَتَطاوَلَ عَلَيْهِمُ الْعُمُرُ [ القصص/ 45] یہاں تک کہ ( اسی حالت میں ) ان کی عمر ین بسر ہوگئیں ۔ وَلَبِثْتَ فِينا مِنْ عُمُرِكَ سِنِينَ [ الشعراء/ 18] اور تم نے برسوں ہمارے عمر بسر کی ۔ العمر والعمر کے ایک ہی معنی ہیں لیکن قسم کے موقعہ پر خاص کر العمر کا لفظ ہی استعمال ہوتا ہے ۔ عمر کا لفظ نہیں بولا جاتا جیسے فرمایا : ۔ لَعَمْرُكَ إِنَّهُمْ لَفِي سَكْرَتِهِمْ [ الحجر/ 72] تمہاری زندگی کی قسم وہ اپنی مستی میں عمرک اللہ خدا تمہاری عمر دارز کرے یہاں بھی چونکہ قسم کی طرح تاکید مراد ہے اس لئے لفظ عمر کو خاص کیا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٨) یہ پیغام سن کر فرعون نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو نظر اٹھا کر دیکھا اور کہنے لگا اے موسیٰ (علیہ السلام) کیا ہم نے تمہیں بچپن میں پرورش نہیں کیا اور تیس سال تک تم ہم میں رہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٨ (قَالَ اَلَمْ نُرَبِّکَ فِیْنَا وَلِیْدًا وَّلَبِثْتَ فِیْنَا مِنْ عُمُرِکَ سِنِیْنَ ) ” یہ قرآن کا خاص اسلوب ہے کہ کوئی واقعہ بیان کرتے ہوئے اس کی غیر ضروری تفاصیل چھوڑ دی جاتی ہیں۔ چناچہ یہاں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے مصر پہنچنے اور اپنے بھائی ہارون (علیہ السلام) کے ساتھ فرعون کے دربار میں جا کر اسے دعوت دینے سے متعلق تمام تفصیلات کو چھوڑ کر فرعون کے جواب کو نقل کیا گیا ہے کہ کیا تم وہی نہیں ہو جس کو ہم نے دریائے نیل میں بہتے ہوئے صندوق سے نکالا تھا اور پھر پال پوس کر بڑا کیا تھا ؟ آیت زیر مطالعہ میں قرآن کے الفاظ کا امکانی حد تک مناسب انداز میں ترجمہ تو وہی ہے جو اوپر کیا گیا ہے ‘ لیکن جس ماحول اور جس انداز میں فرعون نے یہ جملے کہے ہوں گے ان کا تصور کریں تو مفہوم کچھ یوں ہوگا کہ تم ہمارے ٹکڑوں پر پلے ہو اور آج اللہ کے رسول بن کر ہمارے ہی سامنے آ کھڑے ہوئے ہو۔ ہماری بلیّ اور ہمیں کو میاؤں ! [ سورة الاعراف کی آیات ١٠٤ ‘ ١٠٥ کے ذیل میں یہ وضاحت آچکی ہے کہ یہ وہ فرعون نہ تھا جس کے گھر میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے پرورش پائی تھی ‘ بلکہ یہ اس کا بیٹا تھا۔ زیر مطالعہ آیت کے اسلوب سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ اگر یہ وہی فرعون ہوتا تو کہتا کہ میں نے تجھے پالا پوسا ‘ لیکن یہ کہہ رہا ہے کہ تو ہمارے ہاں رہا ہے اور ہم نے تیری پرورش کی ہے۔ ]

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

14 This remark of Pharaoh shows that he was not the same Pharaoh who had brought up Moses in his house, but his son. Had he been the same Pharaoh, he would have said, "I brought you up." But, on the contrary. he says, "You were brought up among ourselves." For a detailed discussion, see E.N.'s 85-93 of AlA'raf.

سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :14 اس سے ایک اشارہ اس خیال کی تائید میں نکلتا ہے کہ یہ فرعون وہ فرعون نہ تھا جس کے گھر میں حضرت موسیٰ نے پرورش پائی تھی ، بلکہ یہ اس کا بیٹا تھا ۔ اگر یہ وہی فرعون ہوتا تو کہتا کہ میں نے تجھے پالا تھا ۔ لیکن یہ کہتا ہے کہ ہمارے ہاں تو رہا ہے اور ہم نے تیری پرورش کی ہے ۔ ( اس مسئلے پر تفصیلی بحث کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم الاعراف ، حواشی 85 ۔ 93 ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

5: یہ واقعہ سورۂ طٰہٰ :39 میں گذر چکا ہے

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(26:18) الم نربک۔ ہمزہ استفہامیہ ہے لم نرب مضارع مجزوم نفی جحد بلم جمع متکلم۔ ک ضمیر مفعول واحد مذکر حاضر۔ کیا ہم نے تجھے پالا نہیں تھا۔ فینا۔ اپنے ہاں۔ ہمارے اپنے پاس ای فی منازلنا ہمارے گھروں میں۔ ولیدا صیغہ صفت ہے ولادۃ سے نوزائیدہ بچہ۔ سنین سنۃ کی جمع ہے سال۔ برس۔ مجازا قحط والے سالوں کو بھی سنین کہتے ہیں۔ جیسے ولقد اخذنا ال فرعون بالسنین (7:130) اور ہم نے پکڑ لیا فرعونیوں کو قحط والے سالوں میں یعنی قحط سالی میں ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

8 ۔ حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کو فرعون نے پہچان لیا اور کہا کیا ہم تم سے واقف نہیں ہیں ؟ اس وقت تو تم نے کوئی پیغمبری کا دعویٰ نہیں کیا تھا کیا اب تمہارا دماغ چل گیا ہے جو پیغمبری کا دعویٰ کرنے لگے ہو اور خود ہمیں اپنی پیروی کی دعوت دیتے ہو۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

قال الم نربک ……بنی اسرآئیل (٢٢) فرعون کو سخت تعجب ہوتا ہے۔ وہ یقین نہیں کرسکتا کہ موسیٰ اس قدر عظیم دعویٰ بھی کرسکتے ہیں کہ میں (رسول رب العالمین) ہوں اور پھر وہ فرعون سے اس قدر عظیم مطالبہ کرتے ہیں۔ ان ارسل معنا بنی اسرآئیل (٢٦ : ١٨) ” کہ ہمارے ساتھ بنی اسرائیل کو بھیج دو ۔ “ کیونکہ انہوں نے جب موسیٰ کو آخری بار دیکھا تھا تو وہ ان کے گھر میں ان کا پروردہ تھا ، جس کے صندوق کو انہوں نے دریا سے اٹھا لیا تھا اور پھر ایک قبطی کے قتل کے بعد بھاگ گیا تھا۔ وہ قطبی جو ایک اسرائیل کے ساتھ ناحق الجھ رہا تھا۔ روایات میں آتا ہے کہ یہ قبطی فرعون کے حاشیہ نشینوں میں سے تھا۔ موسیٰ (علیہ السلام) دس سال تک غائب رہے اور اب آئے تو اس عظیم اور ناقابل تصور مطالبے کے ساتھ یہی وجہ ہے کہ فرعون بات کا آغاز نہایت تعجب ، حقارت اور مزاحیہ انداز سے کرتا ہے کہ تم وہی تو ہو جس نے یہ یہ کام کئے اور اب : قال الم …الکفرین (٢٦ : ١٩) ” فرعون نے کہا ” کیا ہم نے تجھ کو اپنے ہاں بچہ سا نہیں پالا تھا ؟ تو نے اپنی عمر کے کء سال مہارے ہاں گزارے اور اس کے بعد کر گیا جو کچھ کر گیا تو بڑا احسان فراموش آدمی ہے۔ “ کیا اس پرورش اور عزت کا یہ صلہ ہے جو تو ہمیں دے رہا ہے ؟ اب تو آیا ہے اور ہم جس نظام زندگی کے مطابق اپنا نظام چلا رہے ہیں تو اس کی مخالفت کر رہا ہے۔ تاکہ تو اس بادشاہ کے خلاف بغاوت کر دے جس کے گھر میں پلا ہے اور میرے سوا تو کسی اور الہ اور رب اور حاکم کی بات کرتا ہے۔ تو ایک عرصہ تک ہمارے اندر رہ چکا ہے ، اس وقت تو تو نے کبھی ایسا کوئی پروگرام نہیں بنایا۔ نہ ایسے دعوے کئے جو اب کر رہا ہے۔ اس عظیم پروگرام سے تو ، تو نے ہمیں خبردار نہیں کیا۔ اور فرعون قبطی کے قتل کے واقعہ کو نہایت مبالغے کے ساتھ پیش کرتا ہے اور دھمکی آمیز انداز میں یاد دلاتا ہے۔ وفعلت فعلتک التی فعلت (٦٢ : ١٩) ” اور تو نے وہ اپنا کام کیا جو تو نے کیا۔ “ یعنی بہت ہی برا کام ، اس قدر برا کہ اس کو صراحت کے ساتھ منہ پر لانا ہی اچھا نہیں ہے۔ تو نے اس قدر عظیم جرم کا ارتکاب کیا۔ وانت من الکفرین (٢٦ : ١٩) ” اس طرح تو رب العالمین کا منکر بن گیا۔ “ اور اب تو اسی رب العالمین کی باتیں کرتا ہے۔ اس وقت تو تو رب العالمین کی بات نہ کرتا تھا۔ یوں فرعون نے حضرت موسیٰ کی تردید میں تمام مسکت دلائل گنوا دیئے اور اس نے یہ خیال کیا کہ شاید موسیٰ (علیہ السلام) ان دلائل کے بعد لاجواب ہوجائیں گے۔ کوئی مقابلہ نہ کرسکیں گے ، خصوصاً اس نے ایک سابق مقدمہ قتل کی طرف بھی اشارہ کردیا اور بالواسطہ دھمکی دے دی ہے کہ تمہارے خلاف اس مقدمہ کی کارروائی بھی ہو سکتی ہے اور سزائے قصاص تم پر نافذ ہو سکتی ہے۔ لیکن حضرت موسیٰ کی تو دعا قبول ہوچکی تھی۔ اب ان کی زبان میں کوئی گرہ نہ تھی۔ وہ بڑی روانی سے کہہ رہے تھے۔ قال فعلتھا ……المرسلین (٢٦ : ٢١) وتلک نعمۃ تمنھا علی ان عبدت بنی اسرائیل (٢٦ : ٢٢) ” موسیٰ (علیہ السلام) نے جواب دیا ” اس وقت وہ کام میں نے نادانستگی میں کردیا تھا۔ پھر میں تمہارے خوف سے بھاگ گیا۔ اس کے بعد میرے رب نے مجھ کو حکم عطا کیا اور مجھے رسولوں میں شامل فرما لیا۔ رہا تیرا احسان ، جو تو نے مجھ پر جتایا ہے تو اس کی حقیقت یہ ہے کہ تو نے بنی اسرائیل کو غلام بنا لیا تھا۔ “ میں نے جو مستحق کا ارتکاب کیا تو اس وقت میں نادان تھا۔ اس وقت میں نے اپنی مظلوم قوم کی حمایت کی بنا پر یہ فعل کیا تھا۔ یہ کام میں اپنے اس نظریہ حیات کی حمایت میں نہ کیا تھا جو اللہ نے اب مجھے بطور حکمت عطا کیا ہے۔ فقرت منکم لما خفتکم (٢٦ : ٢١) ” پھر میں تمہارے خوف سے بھاگ گیا “۔ کیونکہ مجھے جان کا ڈر تھا۔ اللہ کو میری خیریت مطلوب تھی۔ اس نے مجھے یہ حکمت عطا کرنی تھی۔ وجعلنی من المرسلین (٢٦ : ٢١) ” اور مجھے رسولوں میں شامل کرلیا۔ “ میں کوئی نیا رسول نہیں ہوں۔ میں جماعت رسل میں سے ایک ہوں۔ اب حضرت موسیٰ اس شخص کی طنز کا جواب طنزیہ انداز میں دیتے ہیں۔ وتلک نعمۃ تمنھا علی ان عبدت بنی اسرائیل (٢٦ : ٢٢) ” یہ احسان جو تو نے مجھ پر جتایا ہے ، اس کی حقیقت یہ ہے کہ تو نے بنی اسرائیل غلام بنا لیا تھا۔ “ میں تمہارے گھر میں باہر مجبوری پلا ، کیونکہ تو نے بنی اسرائیل کو غلام بنا رکھا تھا۔ تو ان کے لڑکوں کو قتل کرتا تھا ، اس وجہ سے میری ماں مجبور ہوئی کہ مجھے صندوق میں بند کر کے موجوں کے حوالے کر دے ۔ اس طرح تم لوگوں نے صندوق کو پکڑ لیا اور اس طرح میں تمہارے گھر میں پلا اور والدین کے گھر میں پلنے سے محروم رہا تو کیا یہ ہے وہ احسان جو تم جتلاتے ہو اور کیا یہ تمہاری مہربانیاں ہیں ؟ اب فرعون اپنی بات بدل دیتا ہے۔ اس موضوع کو چھوڑ کر اب وہ اصل بات پر آجاتا ہے لیکن یہاں بھی وہ مستکبرین کی طرح تجاہل عارفانہ کے انداز میں بات کرتا ہے۔ مزاحیہ اور گستاخانہ انداز اور گستاخی بھی رب العالمین کے نجاب میں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

11:۔ ان کی دعوت کے جواب میں فرعون نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر دو اعتراض کیے۔ یہ پہلا اعتراض ہے۔ فرعون نے کہا اے موسیٰ کیا حالت شیر خوارگی میں میں ہی نے تیری پرورش نہیں کی اور بچپن کا زمانہ تو نے میرے گھر ہی میں ناز و نعمت سے نہیں گذارا ؟ تجھے تو میرے احسانات کا شکر ادا کرنا چاہیے تھا لیکن تو بڑا احسان فرا موش ثابت ہوا کہ میرے سوا کسی اور کو اپنا رب اور الہ مانتا ہے۔ ” وفعلت فعلتک الخ “ یہ دوسرا اعتراض ہے اور پھر تو نے میرے احسانات کی نا شکری اور حق تربیت کو فراموش کرتے ہوئے ایک اور سنگین جرم کا ارتکاب کیا اور میری قوم کا ایک آدم بلا وجہ قتل کردیا۔ ” وانت من الکفرین “ یہ کفرانِ نعمت سے ہے اکثر المفسرین الجاحدین لنعمتی وحق تربیتی یقول بیناک فینا فکافیتنا ان قتلت منا نفسا و کفرت نعمتنا وھی روایۃ عن ابن عباس (خازن و معالم ج 5 ص 94) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(18) چناچہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہا السلام) فرعون کے پاس پہونچے فرعون کے سامنے وہ پیام بیان کیا اس پر فرعون نے اپنے احسانات بیان کرتے ہوئے کہا کیا ہم نے تجھ کو بچپنے میں اپنے یہاں رکھ کر تیری پرورش نہیں کی اور کیا تو نے اپنی عمر کے کئی سال ہمارے ہاں نہی گزارے۔