Surat us Shooaraa

Surah: 26

Verse: 183

سورة الشعراء

وَ لَا تَبۡخَسُوا النَّاسَ اَشۡیَآءَہُمۡ وَ لَا تَعۡثَوۡا فِی الۡاَرۡضِ مُفۡسِدِیۡنَ ﴿۱۸۳﴾ۚ

And do not deprive people of their due and do not commit abuse on earth, spreading corruption.

لوگوں کو ان کی چیزیں کمی سے نہ دو بے باکی کے ساتھ زمین میں فساد مچاتے نہ پھرو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَلاَ تَبْخَسُوا النَّاسَ أَشْيَاءهُمْ ... And defraud not people by reducing their things, means, do not shortchange them. ... وَلاَ تَعْثَوْا فِي الاَْرْضِ مُفْسِدِينَ nor do evil, making corruption and mischief in the land. means, by engaging in banditry. This is like the Ayah, وَلاَ تَقْعُدُواْ بِكُلِّ صِرَطٍ تُوعِدُونَ And sit not on every road, threatening, (7:86) وَاتَّقُوا الَّذِي خَلَقَكُمْ وَالْجِبِلَّةَ الاْاَوَّلِينَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

1831یعنی لوگوں کو دیتے وقت ناپ یا تول میں کمی مت کرو۔ 832یعنی اللہ کی نافرمانی مت کرو اس سے زمین میں فساد پھیلتا ہے بعض نے اس سے مراد وہ رہزنی لی ہے جس کا ارتکاب بھی یہ قوم کرتی تھی جیسا کہ دوسرے مقام پر ہے۔ ( وَلَا تَقْعُدُوْا بِكُلِّ صِرَاطٍ تُوْعِدُوْنَ ) 7 ۔ الاعراف :86) ۔ راستوں میں لوگوں کو ڈرانے کے لیے مت بیٹھو۔ ابن کثیر۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٠٧] یہ لوگ صرف ناپ اور تول میں ہی کمی بیشی نہ کرتے تھے۔ بلکہ تجارتی بد دیانتوں کے سارے سر اور رموز سے اور فریب کاریوں سے واقف تھے۔ عیب دار مال کا عیب چھپا کر فروخت کرنا، جھوٹ بول کر اور جھوٹی قسمیں کھا کر مال بیچنا، ایسا ماحول پیدا کردینا کہ چیز کا مالک کم سے کم قیمت پر اپنی چیز فروخت کرنے پر مجبور ہوجائے۔ اسی طرح اپنی چیز فروخت کرنے کے لئے ایسا ماحول بنادینا کہ وہ زیادہ سے زیادہ رقم دینے پر مجبور ہوجائے۔ غرض ہر طریقہ جس سے دوسروں کے حقوق غصب کئے جاسکتے ہوں وہ جانتے تھے۔ اور یہی وہ فساد فی الارض یا شریفانہ قسم کے ڈاکہ زنی ہے۔ جس سے شعیب (علیہ السلام) نے انھیں منع کیا تھا۔ اور انھیں یہ نصیحت فرمائی تھی کہ میرے خیال کے مطابق تو تم سب اچھے بھلے کھاتے پیتے لوگ ہو۔ لہذا اگر ایسی بددیانتیاں چھوڑ دو اور حلال طریقے سے روزی کماؤ تو تمہارے گزارے کے لئے حلال کا رزق بھی بہت کافی ہوسکتا۔ لہذا اللہ سے ڈر جاؤ اور لوگوں کے حقوق غصب کرنا چھوڑ دو ۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ أَشْيَاءَهُمْ And do not make people short of their things - 26:183 What it means is that it is unlawful to reduce any quantity or amount from that which has been contracted with anyone, whether it is a measurable thing or otherwise. Therefore, if a servant or a laborer does not work his full time at his workplace, he too is included in this warning. Imam Malik (رح) has reported a narration in his Muwatta& that Sayyidna ` Umar (رض) noticed that someone did not join in the ` Asr prayer. So, he enquired about the reason for that, to which he offered some excuse. Then Sayyidna ` Umar (رض) said, طَفَّفتَ ` You have reduced in measuring&. As prayer is not something to be measured, hence after quoting this hadith Imam Malik (رح) has said that this command is not restricted to measurable things. Rather, performing any obligation less than due is included in prohibition highlighted in this verse and in Surah |"At-tatfif 84|".

وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْيَاۗءَهُمْ یعنی نہ کمی کرو لوگوں کی اپنی چیزوں میں۔ مراد یہ ہے کہ معاہدہ کے مطابق جتنا کسی کا حق ہے اس سے کمی کرنا حرام ہے خواہ وہ ناپنے تولنے کی چیز ہو یا کوئی دوسری۔ اس سے معلوم ہوا کہ کوئی ملازم مزدور اگر اپنے مقررہ وقت میں چوری کرتا ہے وقت کم لگاتا ہے وہ بھی اس وعید میں داخل ہے۔ امام مالک نے مؤ طا میں روایت نقل فرمائی ہے کہ حضرت عمر فاروق (رض) نے ایک شخص کو دیکھا کہ نماز عصر میں شریک نہیں ہوا۔ وجہ پوچھی تو اس نے کچھ عذر کیا تو حضرت فاروق اعظم نے فرمایا طففت یعنی تو نے تولنے میں کمی کردی، چونکہ نماز کوئی تولنے کی چیز نہیں اس لئے یہ حدیث نقل فرما کر امام مالک فرماتے ہیں کہ وفاء و تطفیف یعنی حق کے مطابق کرنا یا کم کرنا ہر چیز میں ہے یعنی صرف ناپ تول ہی کے ساتھ یہ حکم مخصوص نہیں بلکہ کسی کے حق میں کمی کرنا خواہ کسی صورت سے ہو وہ تطفیف میں داخل ہے جس کا حرام ہونا وَيْلٌ لِّـلْمُطَفِّفِيْنَ میں بیان فرمایا گیا ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْيَاۗءَہُمْ وَلَا تَعْثَوْا فِي الْاَرْضِ مُفْسِدِيْنَ۝ ١٨٣ۚ بخس البَخْسُ : نقص الشیء علی سبیل الظلم، قال تعالی: وَهُمْ فِيها لا يُبْخَسُونَ [هود/ 15] ، وقال تعالی: وَلا تَبْخَسُوا النَّاسَ أَشْياءَهُمْ [ الأعراف/ 85] ، والبَخْسُ والبَاخِسُ : الشیء الطفیف الناقص، وقوله تعالی: وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ [يوسف/ 20] قيل : معناه : بَاخِس، أي : ناقص، وقیل : مَبْخُوس أي : منقوص، ويقال : تَبَاخَسُوا أي : تناقصوا وتغابنوا فبخس بعضهم بعضا . ( ب خ س ) البخس ( س ) کے معنی کوئی چیز ظلم سے کم کرنا کے ہیں قرآن میں ہے وَهُمْ فِيها لا يُبْخَسُونَ [هود/ 15] اور اس میں ان کی حتی تلفی نہیں کی جاتی ولا تَبْخَسُوا النَّاسَ أَشْياءَهُمْ [ الأعراف/ 85] اور لوگوں کو چیزیں کم نہ دیا کرو ۔ البخس وا ابا خس ۔ حقیر اور آیت کریمہ : وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ [يوسف/ 20] میں بعض نے کہا ہے کہ بخس کے معنی حقیر اور ناقص کے ہیں اور بعض نے منحوس یعنی منقوص کا ترجمہ کیا ہے ۔ محاورہ ہے تباخسوا ۔ انہوں نے ایک دوسرے کی حق تلفی کی ۔ نوس النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب، قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] ( ن و س ) الناس ۔ بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ شيء الشَّيْءُ قيل : هو الذي يصحّ أن يعلم ويخبر عنه، وعند کثير من المتکلّمين هو اسم مشترک المعنی إذ استعمل في اللہ وفي غيره، ويقع علی الموجود والمعدوم . ( ش ی ء ) الشئی بعض کے نزدیک شی وہ ہوتی ہے جس کا علم ہوسکے اور اس کے متعلق خبر دی جاسکے اور اس کے متعلق خبر دی جا سکے اور اکثر متکلمین کے نزدیک یہ اسم مشترکہ ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے ماسواپر بھی بولا جاتا ہے ۔ اور موجود ات اور معدہ سب کو شے کہہ دیتے ہیں ، عثی العَيْثُ والعِثِيُّ يتقاربان، نحو : جَذَبَ وجَبَذَ ، إلّا أنّ العَيْثَ أكثر ما يقال في الفساد الذي يدرک حسّا، والعِثِيَّ فيما يدرک حکما . يقال : عَثِيَ يَعْثَى عِثِيّاً «4» ، وعلی هذا : وَلا تَعْثَوْا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدِينَ [ البقرة/ 60] ، وعَثَا يَعْثُو عُثُوّاً ، والأَعْثَى: لونٌ إلى السّواد، وقیل للأحمق الثّقيل : أَعْثَى. ( ع ث ی ) العثي والعثی سخت فساد پیدا کرنا ) بھی جذاب اور جیذ کی طرح تقریبا ہم معنی ہی میں لیکن عیث کا لفظ زیادہ تر فساد حسی کے لئے بولا جاتا ہے اور العثی کا حکمی یعنی ذہنی اور فسکر ی فساد کے لئے آتا ہے کہا جاتا ہے ۔ عثی یعثی عثیا چناچہ اسی سے قرآن میں ہے ولا تَعْثَوْا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدِينَ [ البقرة/ 60] اور ملک میں فساد اور انتشار پیدا نہ کرو ۔ اور عثا یعثوا عثوا باب نصر سے ) بھی آتا ہے اور الاعلٰی سیاہی مائل اور سست نیز احمق آدمی کو بھی اعثی کہا جاتا ہے ۔ فسد الفَسَادُ : خروج الشیء عن الاعتدال، قلیلا کان الخروج عنه أو كثيرا،. قال تعالی: لَفَسَدَتِ السَّماواتُ وَالْأَرْضُ [ المؤمنون/ 71] ، ( ف س د ) الفساد یہ فسد ( ن ) الشئی فھو فاسد کا مصدر ہے اور اس کے معنی کسی چیز کے حد اعتدال سے تجاوز کر جانا کے ہیں عام اس سے کہ وہ تجاوز کم ہو یا زیادہ قرآن میں ہے : ۔ لَفَسَدَتِ السَّماواتُ وَالْأَرْضُ [ المؤمنون/ 71] تو آسمان و زمین ۔۔۔۔۔ سب درہم برہم ہوجائیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

40: یہ لوگ مسافروں کو لوٹنے کے لیے ڈاکے بھی ڈالتے تھے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(26:183) لا تبخسوا : بخس یبخس (فتح) سے فعل نہی جمع مذکر حاضر تم کم نہ دو ۔ تم گھٹاؤ نہیں۔ الناس، مفعول ثانی۔ اشیاء ھم مضاف مضاف الیہ مل کر مفعول اول۔ تم لوگوں کو ان کی چیزیں کم نہ دیا کرو۔ بخس سے جس کے معنی ظلم سے کسی چیز کے گھٹانے اور کم کرنے کے ہیں۔ لاتعثوا۔ تم فساد نہ کیا کرو۔ فعل نہی کا صیغہ جمع مذکر حاضر باب سمع سے اس کا مصدر عثی وعثی ہیں جس فساد کا ادراک حکمی ہو وہ اسی باب سے ہے۔ جس فساد کا ادراک حسی ہو وہ باب نصر سے مصدر عیث وعثو سے آتا ہے۔ مفسدین۔ حال ہے درآں حالیکہ تم فساد کرنے والے ہو۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(183) اور لوگوں کو ان کی چیزوں میں نقصان نہ پہونچایا کرو اور ملک میں فساد برپا کرتے نہ پھرا کرو۔ یعنی لینے دینے کی ترازو اور بٹے یکساں ہوں یہ نہ ہو کہ لو بڑھتی اور دو کمتی اور لوگوں کو لوٹتے نہ پھرو جیسا کہ تم راہ زنی کرتے پھرتے ہو اور مسافروں کو لوٹتے ہو۔