Surat us Shooaraa

Surah: 26

Verse: 2

سورة الشعراء

تِلۡکَ اٰیٰتُ الۡکِتٰبِ الۡمُبِیۡنِ ﴿۲﴾

These are the verses of the clear Book.

یہ آیتیں روشن کتاب کی ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

These are the Ayat of the Book Mubin. means, these are the verses of the Clear Qur'an, i.e. the clear and unambiguous Book which distinguishes between truth and falsehood, misguidance and guidance.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١] کتاب سے مراد یہی خاص سورة شعراء بھی ہوسکتی ہے اور پورا قرآن بھی۔ کیونکہ قرآن کی ہر سورة اپنی ذات میں جامع ہے، مکمل ہے اور مفصل کتاب ہے۔ جیسا کہ پہلے اس کی وضاحت کی جاچکی ہے اور مبین سے مراد یہ ہے کہ یہ کتاب اپنا مدعا صاف صاف بیان کر رہی ہے اس میں کچھ ابہام نہیں جس کی کسی کو سمجھ نہ آسکے۔ اور اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ ان آیات سے واضح طور پر معلوم ہوجاتا ہے کہ اللہ کی طرف سے نازل شدہ کتاب کی آیات ہں۔ کسی انسان سے یہ ممکن نہیں کہ وہ ایسی آیات پیش کرسکے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

تِلْكَ اٰيٰتُ الْكِتٰبِ الْمُبِيْنِ : یہ تمہیدی فقرہ اس مضمون کے ساتھ پوری مناسبت رکھتا ہے جو اس سورت میں آگے بیان ہوا ہے۔ کفار مکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کوئی نشانی (معجزہ) مانگتے تھے، تاکہ اسے دیکھ کر انھیں اطمینان ہوجائے کہ آپ واقعی یہ پیغام اللہ کی طرف سے لائے ہیں۔ فرمایا، اگر کسی کو ایمان لانے کے لیے نشانی کی طلب ہے تو کتاب مبین کی یہ آیات موجود ہیں، مزید کسی معجزے کی ضرورت نہیں۔ اس بات کو اللہ تعالیٰ نے اس سورت میں ہر واقعہ کے آخر پر دہرایا ہے : (اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَةً ) [ الشعراء : ٨ ] ” بیشک اس میں یقیناً عظیم نشانی ہے۔ “ یعنی قرآن میں آنے والی ہر آیت اور ہر واقعہ ہی معجزہ ہے، جو قرآن کے من جانب اللہ ہونے کی دلیل ہے اور جس کا جواب لانے سے پوری مخلوق عاجز ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

1 That is, the verses being presented in this Surah are of that Book, which presents and explains its subject-matter clearly and plainly so that every reader and listener may easily understand what it invites to, what it enjoins and what it forbids, and what it regards as true and what as false. To believe or not to believe is a differen! matter; but no one can have the excuse that he could not understand the teachings of the Book and its injunctions and prohibitions. "Al-Kitab-ul-Mubin" also has the meaning that the Qur'an is, beyond any doubt, a Divine Book. Its language, its diction and themes, the facts presented by it and the background of its revelations, all testify !o the fact that this is indeed the Book of the Master of all Creation. In this sense, its every sentence is a Sign and a miracle. As such, any person who has common sense has no need of any other Sign than the verses of this Book for believing in the Prophethood of Muhammad (upon whom be Allah's peace and blessings). This brief introductory sentence, which covers both these meanings, has a close connection with the subject-matter of this Surah. The disbelievers of Makkah demanded a miracle from the Holy Prophet so as to be convinced that the message he gave was really from AIIah. In answer to that, it has been said that if some one really wanted a Sign for believing in the Prophet, he should study the verses of this Book. Then, the disbelievers accused the Holy Prophet of being a sorcerer. This charge has been refuted by saying that the Qur'an has nothing ambiguous or mysterious in it; butit plainly puts forward aII its teachings which cannot be the creation of a poet or a sorcerer's imagination.

سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :1 یعنی یہ آیات جو اس سورے میں پیش کی جا رہی ہیں ، اس کتاب کی آیات ہیں جو اپنا مدعا صاف صاف کھول کر بیان کرتی ہے ۔ جسے پڑھ کر یا سن کر ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ وہ کس چیز کی طرف بلاتی ہے ، کس چیز سے روکتی ہے ، کسے حق کہتی ہے اور کسے باطل قرار دیتی ہے ۔ ماننا یا نہ ماننا الگ بات ہے ، مگر کوئی شخص یہ بہانہ کبھی نہیں بنا سکتا کہ اس کتاب کی تعلیم اس کی سمجھ میں نہیں آئی اور وہ اس سے یہ معلوم ہی نہ کر سکا کہ وہ اس کو کیا چیز چھوڑنے اور کیا اختیار کرنے کی دعوت دے رہی ہے ۔ قرآن کو الکِتَابُ الْمُبِیْن کہنے کا ایک دوسرا مفہوم بھی ہے ، اور وہ یہ کہ اس کا کتاب الہیٰ ہونا ظاہر و باہر ہے ۔ اس کی زبان ، اس کا بیان ، اس کے مضامین ، اس کے پیش کردہ حقائق ، اور اس کے حالات نزول ، سب کے سب صاف صاف دلالت کر رہے ہیں کہ یہ خداوند عالم ہی کی کتاب ہے ۔ اس لحاظ سے ہر فقرہ جو اس کتاب میں آیا ہے ایک نشانی اور ایک معجزہ ( آیت ) ہے ۔ کوئی شخص عقل و خرد سے کام لے تو اسے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا یقین کرنے کے لیے کسی اور نشانی کی حاجت نہیں ، کتاب مبین کی یہی آیات ( نشانیاں ) اسے مطمئن کرنے کے لیے کافی ہیں ۔ یہ مختصر تمہیدی فقرہ اپنے دونوں معنوں کے لحاظ سے اس مضمون کے ساتھ پوری مناسبت رکھتا ہے جو آگے اس سورہ میں بیان ہوا ہے ۔ کفار مکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے معجزہ مانگتے تھے تاکہ اس نشانی کو دیکھ کر انہیں اطمینان ہو کہ واقعی آپ یہ پیغام خدا کی طرف سے لائے ہیں ۔ فرمایا گیا کہ اگر حقیقت میں کسی کو ایمان لانے کے لیے نشانی کی طلب ہے تو کتاب مبین کی یہ آیات موجود ہیں ۔ اسی طرح کفار نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر الزام رکھتے تھے کہ آپ شاعر یا کاہن ہیں ۔ فرمایا گیا کہ یہ کتاب کوئی چیستاں اور معما تو نہیں ہے ۔ صاف صاف کھول کر اپنی تعلیم پیش کر رہی ہے ۔ خود ہی دیکھ لو کہ یہ تعلیم کسی شاعر یا کاہن کی ہو سکتی ہے ؟

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(26:2) تلک۔ اسم اشارہ بعید ہے واحد مؤنث۔ مشار الیہ السورۃ ہے۔ یہ سورۃ۔ ایت الکتب المبین : الکتب المبین موصوف و صفت مل کر مضاف الیہ ایات مضاف۔ واضح کتاب کی آیات، یہ سورة واضح کتاب کی آیات (پر مشتمل) ہے یا یہ واضح کتاب کی آیات ہیں۔ الکتب سے مراد القران ہے۔ مبین اسم فاعل واحد مذکر بمعنی کھولنے والا۔ ظاہر کرنے والا۔ ابانۃ (افعال) سے بین مادہ باب تفعیل (تبیین) باب تفعل تبیین لازم بھی آتے ہیں متعدی بھی۔ ظاہر ہونا یا ظاہر کرنا۔ لہٰذا مبین کا معنی ظاہر بھی ہے اور ظاہر کرنے والا بھی۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

6 ۔ یعنی جو اپنے مطالب کو بالکل واضح انداز میں بیان کرتی ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن : آیت نمبر 1 تا 9 : الکتاب المبین (کھلی اور واضح کتاب) باخع (گھلا ڈالنے والا) ظلت ( ہوگئی (ہوجائیں) ‘ اعناق (عنق) (گردنیں) ‘ خضعین (جھکنے والے) ‘ محدث (نئی بات۔ نئی نصیحت) ‘ انبئوا (خبریں) ‘ انبتنا (ہم نے اگایا) ‘ زوج کریم (عمدہ پاکیزہ جوڑے) ‘۔ تشریح : آیت نمبر 1 تا 9 : سورۃ الشعراء کی ابتداء حروف مقطعات سے کی گئی ہے۔ اس سے پہلے وضاحت کردی گئی ہے کہ قرآن کریم کی انتیس (29) سورتوں کی ابتداء میں ان حروف کو لایا گیا ہے۔ ان حروف کے کیا معنی ہیں ؟ علماء کرام نے فرمایا ہے کہ ان حروف کے معنی کا علم اللہ رب العزت کو ہے۔ ممکن ہے اللہ تعالیٰ نے ان حروف کے معنی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بتا دیئے ہوں مگر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان حروف کے معنی امت کو نہیں بتائے۔ اگر ان حروف کے معنی بتانا امت کے لئے ضروری ہوتاتو آپ اپنے جاں نثاروں کو ضرور بتا دیتے۔ علماء مفسرین نے حروف مقطعات کو آیات متشابہات میں شمار فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس حقیقت کو بار بار بیان کیا ہے کہ قرآن کریم اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فیض صحبت سے ان ہی لوگوں کو ہدایت اور صراط مستقیم پر چلنے کی روشنی عطا کی جاتی ہے جو اپنے دلوں میں حق و صداقت کی طلب اور تڑپ رکھتے ہیں لیکن جنہوں نے ضد ‘ ہٹ دھرمی اور رسول دشمنی کا مزج بنا لیا ہے وہ بڑی سے بڑی سچائی اور صداقت کو کھلی آنکھوں سے دیکھنے کے باوجود اس پر ایمان لاکر ایک اللہ کی عبادت و بندگی اور نبی آخرالزماں حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت و محبت اختیار نہیں کرتے حالانکہ کائنات کا ذرہ ذرہ خود اپنے منہ سے اللہ کی خالق ومالک ہونے کی گواہی پیش کررہا ہے۔ لذت و شیرینی سے بھر پور طرح طرح کے پھل ‘ میوے ‘ ترکاریاں اور غلے ‘ سرسبز و شاداب درخت ‘ پودے اور قسم قسم کے نباتات ‘ لہلہاتے کھیت ‘ زمین ‘ پانی ‘ ہوا ایک ہونے کے باوجودرنگ برنگ کے پھول ‘ پتے ‘ پہاڑ ‘ دریا ‘ چاند ‘ سورج ‘ ستارے ‘ صبح و شام اور رات دن کے آنے جانے کا نظام اور خود انسان کا اپنا اوجود اور اس کیا رد گرد پھیلی ہوئی سیڑوں نشانیاں عقل و فہم اور تفکر و تدبر کو دعوت نظارہ دیتی نظر آتی ہیں کہ اس پوری کائنات کا نظام و انتظام صرف اللہ تعالیٰ فرمارہا ہے جو تمام عبادتوں کا مستحق ہے لیکن کھلی آنکھوں سے دیکھنے کے باوجود وہ ان سچائیوں پر ایمان نہیں لاتے۔ جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کفار مکہ کے سامنے قرآن کریم کی آیات کی تلاوت فرماتے تو کہتے کہ یہ قرآن تو محض شعر و شاعری ہے۔ کبھی کہتے کہ یہ تو کوئی جادو یا کہانت ہے حد تو یہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو شاعرو مجنون قرار دیتے تھے۔ آپ کی بیان کی ہوئی سچائیوں کا انکار کرکے طرح طرح کے معجزات کا مطالبہ کیا کرتے تھے ۔ حالانکہ قرآن کریم کی کھلی اور واضح آیات جو ایک معجزہ ہی تھیں ان کی موجودگی میں کسی طرح کے معجزے کا مطالبہ کرنا محض ایک بچکا نہ سی بات تھی جس کا کوئی جو ازنہ تھا مگر ان کے لئے عمل سے بھاگنے کا اس سے بہتر راستہ کوئی نہ تھا۔ نبی اپنی امت کا سب سے زیادہ خیر خواہ اور بھلائی چاہنے والا ہوتا ہے اور دین اسلام کی سچائی پھیلانے کی دن رات جدوجہد کرتا ہے لیکن سوائے چند سعادت مندوں کے ہر ایک انکار کر کے نبی کے پر خلوص جذبے کی ناقدری کرتا ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب اعلان نبوت فرمایا تو علاوہ شدید مصائب اور پریشانیوں کے اپنے بھی غیر بن گئے تھے جس کی وجہ سے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بہت صدمہ پہنچتا تھا۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ قرآن کریم کی تمام آیات واضح اور صاف صاف احکامات پر مشتمل ہیں جن میں پاکیزہ اور کامیاب زندگی گذارنے کے پر تاثیر اور بھر پور طریقے ارشاد فرمائے گئے ہیں جن کی وضاحت آپ اپنے حسن عمل اور اعلیٰ کردار یس بھی فرما رہے ہیں۔ اگر وہ قرآن کریم کا انکار کریں اور آپ کو جھٹلائیں تو آپ اس پر اتناغم نہ کیجئے کہ خیر و بھلائی سے دور بھاگنے والوں کے پیچھے اپنی جان گھلا ڈالیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر ہم چاہتے تو آسمان سے کوئی ایسی نشانی نازل کردیتے جس کے سامنے تکبر اور غرور سے گردنیں اکڑانے والوں کی گردنیں جھک جاتیں لیکن ہم زبردستی کو ایمان لانے پر مجبور نہیں کرتے کیونکہ ہم تو یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ اللہ کے دیئے ہوئے اختیار اور ارادے کو کس حد تک اور کہاں تک استعمال کرتے ہیں کیونکہ قیامت میں اسی بات پر فیصلہ ہوگا۔ کہ کس شخص نے اپنے لئے کونسا راستہ اختیار کیا تھا۔ یقیناً نیکیوں کا راستہ اختیار کرنے والے ہی دنیا اور آخرت میں کامیاب و بامراد ہوں گے۔ فرمایا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ اللہ کا دین پہنچاتے رہیے اور ان کی فکر چھوڑ دیجئے جو دین کی ہر سچائی سے منہ پھیر کر چلنے والے اور دین کا مذاق اڑانے والے ہیں۔ اس کے برخلاف وہ لوگ جو عقل و فکر رکھنے والے سعادت مند ہیں وہ بغیر کسی معجزے اور نشانی کے بھی ایمان لے آئیں گے لیکن جو ضدی ‘ ہٹ دھرم اور بےانصاف لوگ ہیں اگر ان کے سامنے ہر طرح کی نشانیاں بھی رکھ دی جائیں تو وہ اس خیر اور بھلائی سے محروم ہی رہیں گے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دینے اور کفارو مشرکین کو برے انجام سے آگاہ کرنے کے لئے اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے سات انبیاء کرام کے حالات اور واقعات کا ذکر فرمایا ہے جس میں اسی حقیقت کو کھول کروضاحت سے بیان فرمادیا ہے کہ جن لوگوں نے عقل و فکر اور انبیاء کرام (علیہ السلام) کی اطاعت و فرماں برداری کا راستہ اختیار کیا تھا ان کی دنیا بھی بہتر ہوگئی اور آخرت کی کامیابی بھی یقینی ہے۔ لیکن جن لوگوں نے اپنے وقتی مفادات اور فائدوں کے سامنے انبیاء کرام (علیہ السلام) کی مخالفت کی اور دین اسلام کی سچائی کا مذاق اڑایا ضد ‘ ہٹ دھرمی اور رسول دشمنی کا طریقہ اختیار کیا ان کی دنیا ان کے سامنے ہی اجاڑ دی گئی یا پانی میں غرق کردی گئی اور آخرت میں بھی وہ ہر طرح کی خیر اور بھلائی سے محروم رہیں گے۔ یہ ایسی کھلی حقیقتیں ہیں جن پر گذشتہ امتوں کی زندگیاں اور تاریخ کے اوراق گواہ ہیں اور عبرت و نصیحت کے لے کافی ہیں۔ اکثر لوگ ان باتوں پر غور و فکر کر کیا یمان نہیں لاتے لیکن اللہ جو زبردست حکمت و دانائی والا ہے اور اپنے بندوں پر مہربان ہے وہ قیامت تک انسانوں کی ہدایت و رہنمائی کرتا رہے گا۔ نبوت کا سلسلہ تو سرکار دو عالم حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ختم ہوگیا ہے اب قرآن کریم جیسی واضح کتاب اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنتوں کی موجودگی میں کسی نئے نبی یا رسول کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اب آپ کی لائی ہوئی تعلیمات کو لے کر آپ کی امت کے علماء کرام دین کی سچائیوں کو پھیلاتے رہیں گے اور ہر دور میں ایسے مخلص اور کتاب و سنت پر چلنے والے علماء رہیں گے جو اللہ کے دین سے ساری دنیا کے اندھیرے دور کرنے کی جدوجہد کرتے رہیں گے۔ تاریخ گواہ ہے کہ گذشتہ ڈیڑھ ہزار سال سے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی لائی ہوئی تعلیمات کو مخلص اور کتاب و سنت پرچلنے والے علماء کرام ہی دنیا کے کونے کونے تک پہنچاتے رہے ہیں اور انشاء اللہ قیامت تک پہنچاتے ہیں گے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

2:۔ یہ تمہید ہے اس میں قرآن پر عمل کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ یہ اس قرآن کی آیتیں ہیں جس کے مضامین خوب واضح، جس کا اعجاز اور جس کا من عنداللہ ہونا اس قدر عیاں ہے کہ اس کے لیے کسی بیرونی دلیل کی ضرورت نہیں۔ ” الکتاب “ کی صفت ” المبین “ لا کر اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ اس سورت میں زیادہ تر دلائل نقلیہ بیان کیے گئے ہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(2) یہ سورت اور یہ مضامین ایک واضح اور کھلی کتاب کی آیتیں ہیں یعنی قرآن کریم کی۔