Surat us Shooaraa

Surah: 26

Verse: 57

سورة الشعراء

فَاَخۡرَجۡنٰہُمۡ مِّنۡ جَنّٰتٍ وَّ عُیُوۡنٍ ﴿ۙ۵۷﴾

So We removed them from gardens and springs

بالآخر ہم نے انہیں باغات سے اور چشموں سے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَكُنُوزٍ وَمَقَامٍ كَرِيمٍ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَاَخْرَجْنٰهُمْ مِّنْ جَنّٰتٍ وَّعُيُوْنٍ ۔۔ : چند ہی دنوں میں فرعون نے بنی اسرائیل کے تعاقب کے لیے ایک لشکر جرار تیار کرلیا۔ اس کے نزدیک تو یہ کام نہایت عقل مندی کا تھا کہ اس نے پورے ملک سے اپنی ساری قوت اکٹھی کرلی، تاکہ بنی اسرائیل کو زبردستی دوبارہ اپنی غلامی میں واپس لے آئے، یا انھیں دنیا سے مٹ... ا دے، مگر اللہ تعالیٰ کی تدبیر غالب ہے۔ اس نے فرعون کی چال اسی پر پلٹ دی، اس کی سلطنت کے بڑے بڑے ستون پورے ملک سے اکٹھے ہوگئے، تمام فوجیں بھی یکجا ہوگئیں اور ایک ہی وقت میں سمندر میں غرق کردی گئیں۔ اگر وہ بنی اسرائیل کے لیے فوجیں جمع نہ کرتا تو زیادہ سے زیادہ ایک قوم اس کے ہاتھ سے نکل جاتی، مگر اس کی سلطنت اور عیش و عشرت کے اسباب باقی رہتے۔ اب اس کی تدبیر کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ خود، اس کی افواج اور اس کے امراء و وزراء، جو اس کی سلطنت کا خلاصہ تھے، سب سمندر میں غرق ہوگئے۔ یہ اس قادر و مختار کا کام تھا کہ ایک طرف اس نے فرعون کو، اس کی پوری قوت کو اور اس کی قوم کے سرداروں کو ان کے باغوں، چشموں، خزانوں اور عالی شان مقامات سے نکالا اور سمندر میں لا کر غرق کردیا اور دوسری طرف بنی اسرائیل کو خیریت کے ساتھ مصر سے نکال کر آزادی سے ہمکنار کردیا۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَاَخْرَجْنٰہُمْ مِّنْ جَنّٰتٍ وَّعُيُوْنٍ۝ ٥٧ۙ خرج خَرَجَ خُرُوجاً : برز من مقرّه أو حاله، سواء کان مقرّه دارا، أو بلدا، أو ثوبا، وسواء کان حاله حالة في نفسه، أو في أسبابه الخارجة، قال تعالی: فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص/ 21] ، ( خ رج ) خرج ۔ ( ن) خروجا کے معنی کسی کے اپنی قرار گاہ ... یا حالت سے ظاہر ہونے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ قرار گاہ مکان ہو یا کوئی شہر یا کپڑا ہو اور یا کوئی حالت نفسانی ہو جو اسباب خارجیہ کی بنا پر اسے لاحق ہوئی ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص/ 21] موسٰی وہاں سے ڈرتے نکل کھڑے ہوئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔ جَنَّةُ : كلّ بستان ذي شجر يستر بأشجاره الأرض، قال عزّ وجل : لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ/ 15] الجنۃ ہر وہ باغ جس کی زمین درختوں کیوجہ سے نظر نہ آئے جنت کہلاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ/ 15]( اہل ) سبا کے لئے ان کے مقام بود باش میں ایک نشانی تھی ( یعنی دو باغ ایک دائیں طرف اور ایک ) بائیں طرف ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جنات جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ بہشت سات ہیں ۔ (1) جنۃ الفردوس (2) جنۃ عدن (3) جنۃ النعیم (4) دار الخلد (5) جنۃ المآوٰی (6) دار السلام (7) علیین ۔ عين ويقال لذي العَيْنِ : عَيْنٌ «3» ، وللمراعي للشیء عَيْنٌ ، وفلان بِعَيْنِي، أي : أحفظه وأراعيه، کقولک : هو بمرأى منّي ومسمع، قال : فَإِنَّكَ بِأَعْيُنِنا[ الطور/ 48] ، وقال : تَجْرِي بِأَعْيُنِنا [ القمر/ 14] ، وَاصْنَعِ الْفُلْكَ بِأَعْيُنِنا[هود/ 37] ، أي : بحیث نریونحفظ . وَلِتُصْنَعَ عَلى عَيْنِي[ طه/ 39] ، أي : بکلاء تي وحفظي . ومنه : عَيْنُ اللہ عليك أي : كنت في حفظ اللہ ورعایته، وقیل : جعل ذلک حفظته وجنوده الذین يحفظونه، وجمعه : أَعْيُنٌ وعُيُونٌ. قال تعالی: وَلا أَقُولُ لِلَّذِينَ تَزْدَرِي أَعْيُنُكُمْ [هود/ 31] ، رَبَّنا هَبْ لَنا مِنْ أَزْواجِنا وَذُرِّيَّاتِنا قُرَّةَ أَعْيُنٍ [ الفرقان/ 74] . ويستعار الْعَيْنُ لمعان هي موجودة في الجارحة بنظرات مختلفة، واستعیر للثّقب في المزادة تشبيها بها في الهيئة، وفي سيلان الماء منها فاشتقّ منها : سقاء عَيِّنٌ ومُتَعَيِّنٌ: إذا سال منها الماء، وقولهم : عَيِّنْ قربتک «1» ، أي : صبّ فيها ما ينسدّ بسیلانه آثار خرزه، وقیل للمتجسّس : عَيْنٌ تشبيها بها في نظرها، وذلک کما تسمّى المرأة فرجا، والمرکوب ظهرا، فيقال : فلان يملك كذا فرجا وکذا ظهرا لمّا کان المقصود منهما العضوین، وقیل للذّهب : عَيْنٌ تشبيها بها في كونها أفضل الجواهر، كما أنّ هذه الجارحة أفضل الجوارح ومنه قيل : أَعْيَانُ القوم لأفاضلهم، وأَعْيَانُ الإخوة : لنبي أب وأمّ ، قال بعضهم : الْعَيْنُ إذا استعمل في معنی ذات الشیء فيقال : كلّ ماله عَيْنٌ ، فکاستعمال الرّقبة في المماليك، وتسمية النّساء بالفرج من حيث إنه هو المقصود منهنّ ، ويقال لمنبع الماء : عَيْنٌ تشبيها بها لما فيها من الماء، ومن عَيْنِ الماء اشتقّ : ماء مَعِينٌ. أي : ظاهر للعیون، وعَيِّنٌ أي : سائل . قال تعالی: عَيْناً فِيها تُسَمَّى سَلْسَبِيلًا[ الإنسان/ 18] ، وَفَجَّرْنَا الْأَرْضَ عُيُوناً [ القمر/ 12] ، فِيهِما عَيْنانِ تَجْرِيانِ [ الرحمن/ 50] ، يْنانِ نَضَّاخَتانِ [ الرحمن/ 66] ، وَأَسَلْنا لَهُ عَيْنَ الْقِطْرِ [ سبأ/ 12] ، فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ [ الحجر/ 45] ، مِنْ جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ [ الشعراء/ 57] ، وجَنَّاتٍ وَعُيُونٍ وَزُرُوعٍ [ الدخان/ 25- 26] . وعِنْتُ الرّجل : أصبت عَيْنَهُ ، نحو : رأسته وفأدته، وعِنْتُهُ : أصبته بعیني نحو سفته : أصبته بسیفي، وذلک أنه يجعل تارة من الجارحة المضروبة نحو : رأسته وفأدته، وتارة من الجارحة التي هي آلة في الضّرب فيجري مجری سفته ورمحته، وعلی نحوه في المعنيين قولهم : يديت، فإنه يقال : إذا أصبت يده، وإذا أصبته بيدك، وتقول : عِنْتُ البئر أثرت عَيْنَ مائها، قال :إِلى رَبْوَةٍ ذاتِ قَرارٍ وَمَعِينٍ [ المؤمنون/ 50] ، فَمَنْ يَأْتِيكُمْ بِماءٍ مَعِينٍ [ الملک/ 30] . وقیل : المیم فيه أصليّة، وإنما هو من : معنت «2» . وتستعار العَيْنُ للمیل في المیزان ويقال لبقر الوحش : أَعْيَنُ وعَيْنَاءُ لحسن عينه، وجمعها : عِينٌ ، وبها شبّه النّساء . قال تعالی: قاصِراتُ الطَّرْفِ عِينٌ [ الصافات/ 48] ، وَحُورٌ عِينٌ [ الواقعة/ 22] . ( ع ی ن ) العین اور عین کے معنی شخص اور کسی چیز کا محافظ کے بھی آتے ہیں اور فلان بعینی کے معنی ہیں ۔ فلاں میری حفاظت اور نگہبانی میں ہے جیسا کہ ھو بمر ا ئ منی ومسمع کا محاورہ ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِنَّكَ بِأَعْيُنِنا[ الطور/ 48] تم تو ہماری آنکھوں کے سامنے ہو ۔ وہ ہماری آنکھوں کے سامنے چلتی تھی ۔ وَلِتُصْنَعَ عَلى عَيْنِي[ طه/ 39] اور اس لئے کہ تم میرے سامنے پر دریش پاؤ ۔ اور اسی سے عین اللہ علیک ہے جس کے معنی ہیں اللہ تعالیٰ تمہاری حفاظت اور نگہداشت فرمائے یا اللہ تعالیٰ تم پر اپنے نگہبان فرشتے مقرر کرے جو تمہاری حفاظت کریں اور اعین وعیون دونوں عین کی جمع ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَلا أَقُولُ لِلَّذِينَ تَزْدَرِي أَعْيُنُكُمْ [هود/ 31] ، اور نہ ان کی نسبت جن کو تم حقارت کی نظر سے دیکھتے ہو یہ کہتا ہوں کہ ۔ رَبَّنا هَبْ لَنا مِنْ أَزْواجِنا وَذُرِّيَّاتِنا قُرَّةَ أَعْيُنٍ [ الفرقان/ 74] اے ہمارے پروردگار ہم کو ہماری بیویوں کی طرف سے آ نکھ کی ٹھنڈک عطا فرما ۔ اور استعارہ کے طور پر عین کا لفظ کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے جو مختلف اعتبارات سے آنکھ میں پائے جاتے ہیں ۔ مشکیزہ کے سوراخ کو عین کہا جاتا ہے کیونکہ وہ ہیئت اور اس سے پانی بہنے کے اعتبار سے آنکھ کے مشابہ ہوتا ہے ۔ پھر اس سے اشتقاق کے ساتھ کہا جاتا ہے ۔ سقاء عین ومعین پانی کی مشک جس سے پانی ٹپکتا ہو عین قر بتک اپنی نئی مشک میں پانی ڈالواتا کہ تر ہو کر اس میں سلائی کے سوراخ بھر جائیں ، جاسوس کو عین کہا جاتا ہے کیونکہ وہ دشمن پر آنکھ لگائے رہتا ہے جس طرح کو عورت کو فرج اور سواری کو ظھر کہا جاتا ہے کیونکہ ان دونوں سے مقصود یہی دو چیزیں ہوتی ہیں چناچنہ محاورہ ہے فلان یملک کذا فرجا وکذا ظھرا ( فلاں کے پاس اس قدر لونڈ یاں اور اتنی سواریاں ہیں ۔ (3) عین بمعنی سونا بھی آتا ہے کیونکہ جو جواہر میں افضل سمجھا جاتا ہے جیسا کہ اعضاء میں آنکھ سب سے افضل ہوتی ہے اور ماں باپ دونوں کی طرف سے حقیقی بھائیوں کو اعیان الاخوۃ کہاجاتا ہے ۔ (4) بعض نے کہا ہے کہ عین کا لفظ جب ذات شے کے معنی میں استعمال ہوجی سے کل مالہ عین تو یہ معنی مجاز ہی ہوگا جیسا کہ غلام کو رقبۃ ( گردن ) کہہ دیا جاتا ہے اور عورت کو فرج ( شرمگاہ ) کہہ دیتے ہیں کیونکہ عورت سے مقصود ہی یہی جگہ ہوتی ہے ۔ (5) پانی کے چشمہ کو بھی عین کہاجاتا ہے ۔ کیونکہ اس سے پانی ابلتا ہے جس طرح کہ آنکھ سے آنسو جاری ہوتے ہیں اور عین الماء سے ماء معین کا محاورہ لیا گیا ہے جس کے معنی جاری پانی کے میں جو صاف طور پر چلتا ہوا دکھائی دے ۔ اور عین کے معنی جاری چشمہ کے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : عَيْناً فِيها تُسَمَّى سَلْسَبِيلًا[ الإنسان/ 18] یہ بہشت میں ایک چشمہ ہے جس کا نام سلسبیل ہے ۔ وَفَجَّرْنَا الْأَرْضَ عُيُوناً [ القمر/ 12] اور زمین میں چشمے جاری کردیئے ۔ فِيهِما عَيْنانِ تَجْرِيانِ [ الرحمن/ 50] ان میں دو چشمے بہ رہے ہیں ۔ يْنانِ نَضَّاخَتانِ [ الرحمن/ 66] دو چشمے ابل رہے ہیں ۔ وَأَسَلْنا لَهُ عَيْنَ الْقِطْرِ [ سبأ/ 12] اور ان کیلئے ہم نے تانبے کا چشمہ بہا دیا تھا ۔ فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ [ الحجر/ 45] باغ اور چشموں میں ۔ مِنْ جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ [ الشعراء/ 57] باغ اور چشمے اور کھیتیاں ۔ عنت الرجل کے معنی ہیں میں نے اس کی آنکھ پر مارا جیسے راستہ کے معنی ہوتے ہیں میں نے اس کے سر پر مارا فادتہ میں نے اس کے دل پر مارا نیز عنتہ کے معنی ہیں میں نے اسے نظر بد لگادی جیسے سفتہ کے معنی ہیں میں نے اسے تلوار سے مارا یہ اس لئے کہ اہل عرب کبھی تو اس عضو سے فعل مشتق کرتے ہیں جس پر مارا جاتا ہے اور کبھی اس چیز سے جو مار نے کا آلہ ہوتی ہے جیسے سفتہ ورمحتہ چناچہ یدیتہ کا لفظ ان ہر دومعنی میں استعمال ہوتا ہے یعنی میں نے اسے ہاتھ سے مارا یا اس کے ہاتھ پر مارا اور عنت البئر کے معنی ہیں کنواں کھودتے کھودتے اس کے چشمہ تک پہنچ گیا قرآن پاک میں ہے :إِلى رَبْوَةٍ ذاتِ قَرارٍ وَمَعِينٍ [ المؤمنون/ 50] ایک اونچی جگہ پر جو رہنے کے لائق تھی اور ہوا پانی جاری تھا ۔ فَمَنْ يَأْتِيكُمْ بِماءٍ مَعِينٍ [ الملک/ 30] تو ( سوائے خدا کے ) کون ہے جو تمہارے لئے شیریں پال کا چشمہ بہالائے ۔ بعض نے کہا ہے کہ معین میں لفظ میم حروف اصلیہ سے ہے اور یہ معنت سے مشتق ہے جسکے معنی ہیں کسی چیز کا سہولت سے چلنا یا بہنا اور پر بھی بولا جاتا ہے اور وحشی گائے کو آنکھ کی خوب صورتی کہ وجہ سے اعین دعیناء کہاجاتا ہے اس کی جمع عین سے پھر گاواں وحشی کے ساتھ تشبیہ دے کر خوبصورت عورتوں کو بھی عین کہاجاتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : قاصِراتُ الطَّرْفِ عِينٌ [ الصافات/ 48] جو نگاہیں نیچی رکھتی ہوں ( اور ) آنکھیں بڑی بڑی ۔ وَحُورٌ عِينٌ [ الواقعة/ 22] اور بڑی بڑی آنکھوں والی حوریں ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥٧۔ ٥٨) غرض کہ ہم نے فرعونیوں کو باغوں سے، پاکیزہ پانی کے چشموں سے اور مالوں کے خزانوں اور عمدہ مکانات سے نکال باہر کیا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(26:57) فاخرجناھم من جنت وعیون۔ پس ہم نے ان کو نکال باہر کیا باغوں اور چشموں سے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : فرعون اور اس کے ذمہ دار لوگ بنی اسرائیل کے تعاقب میں فرعون کے حکم کے مطابق انتظامیہ کے لوگ اور بڑے بڑے لیڈر اپنے گھروں سے نکل کر اجتماعی شکل میں بنی اسرائیل کا تعاقب کرتے ہیں۔ ان کے نکلنے کو اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف منسوب کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ہم نے انھیں ان کے باغات، چشموں، ... خزانوں اور عمدہ مکانوں سے نکالا اور اس طرح ہم نے بنی اسرائیل کو ان چیزوں کا وارث بنایا۔ فرعون نے بنی اسرائیل کا تعاقب کرتے وقت سرکاری طور پر جو اعلان کیا تھا اس کے الفاظ یہ تھے کہ لوگو ! اپنے اپنے شہروں سے باہر نکلو بیشک بنی اسرائیل تھوڑے ہیں لیکن ان کا پوری طرح تعاقب کرو یہ لوگ جانے نہ پائیں۔ انتظامی نقطہ نظر سے چاہیے تو یہ تھا کہ فوج کے چند دستے اور سول انتظامیہ کی بھاری نفری بھیج کر قلیل اور نہتے اسرائیلیوں کو گرفتار کرلیا جاتا یا پھر مار مار کر ملک کی سرحد سے باہر نکال دیا جاتا۔ لیکن فرعون نے طیش میں آکر سول انتظامیہ اور فوج کے ساتھ وزیروں، مشیروں اور ملک بھر سے بڑے بڑے پارٹی لیڈروں کو اکٹھا کر کے بنی اسرائیل کا پیچھا کیا۔ ان کے اس طرح نکلنے کو اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف منسوب فرماکر ثابت کیا ہے کہ یہ ہماری منشاء کے مطابق ہوا تاکہ ہم انھیں ان کے باغات، چشموں، خزانوں اور ان کے محلاّت سے بےدخل کریں اور بنی اسرائیل کو ان کی تمام چیزوں کا وارث بنائیں۔ (کَمْ تَرَکُوْا مِنْ جَنّٰتٍ وَّعُیُوْنٍ وَزُرُوْعٍ وَّمَقَامٍ کَرِیمٍ وَنَعْمَۃٍ کَانُوْا فِیْہَا فَاکِہِیْنَ کَذٰلِکَ وَاَوْرَثْنَاہَا قَوْمًا آخَرِیْنَ فَمَا بَکَتْ عَلَیْہِمْ السَّمَآءُ وَالْاَرْضُ وَمَا کَانُوْا مُنظَرِیْنَ وَلَقَدْ نَجَّیْنَا بَنِیْ اِِسْرَآءِیلَ مِنَ الْعَذَابِ الْمُہِیْنِ ۔ مِنْ فِرْعَوْنَ اِِنَّہٗ کَانَ عَالِیًا مِنَ الْمُسْرِفِینَ ) [ الدّخان : ٢٥ تا ٣١] وہ لوگ بہت سے باغ، چشمے، کھیتیاں اور عمدہ مکانات چھوڑ گئے اور آرام کی چیزیں جن میں عیش کیا کرتے تھے۔ اسی طرح ہوا، ہم نے دوسرے لوگوں کو ان کا مالک بنا دیا۔ پھر ان پر نہ تو آسمان اور زمین کو رونا آیا اور نہ ان کو مہلت ہی دی گئی۔ اور ہم نے بنی اسرائیل کو ذلت کے عذاب سے نجات دی۔ بیشک فرعون سرکش اور حد سے نکلا ہوا تھا۔ “ اکثر مفسرین کا خیال ہے کہ اس کا یہ معنی نہیں کہ فرعون اور اس کے لشکر غرق کیے جانے کے بعد بنی اسرائیل ان کے محلاّت اور باغات کے مالک ہوئے۔ کیونکہ تاریخ سے اس کی تائید نہیں ہوتی۔ ان کا فرمان ہے کہ جب بنی اسرائیل نے سمندر عبور کرنے کے بعد چالیس سال وادئ سینا میں گزارے تو پھر انھیں فلسطین کے علاقے کا اقتدار ملا۔ جسے اللہ تعالیٰ نے ہر قسم کی برکات سے نوازا ہوا تھا۔ وہاں بنی اسرائیل کو ساری نعمتیں میسر آئیں جو مصر میں آل فرعون کو حاصل تھیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بنی اسرائیل فلسطین اور اس کے ملحقہ علاقوں پر قابض ہوئے۔ حقیقت کیا ہے : بے شک تاریخ سے بنی اسرائیل کا آل فرعون کے محلاّت اور باغات کا مالک ہونا ثابت نہیں۔ لیکن دیکھنا یہ ہے کہ قرآن مجید یہاں کھلے الفاظ میں کہہ رہا ہے کہ ہم نے آل فرعون کو غرق کیا اور بنی اسرائیل کو ان کے باغوں، چشموں اور محلّات کا مالک بنا یا۔ اس وضاحت کے بعد تاریخ کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے ؟ جب کہ تاریخی ریکارڈ تسلسل کے ساتھ دنیا میں موجود نہیں ہے۔ لہٰذا قرآن مجید کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل فلسطین کے ساتھ مصر کے بھی مالک ہوئے اور انہیں وہ سب کچھ ملا جو آل فرعون کے پاس ہوا کرتا تھا۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ جب چاہے کسی قوم کو ان کے باغوں اور مکانوں سے بےدخل کر دے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ان تمام چیزیں کا مالک بنایا جو آل فرعون کے قبضہ میں تھیں۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ ہی ایک قوم کے بعد دوسری قوم کو وارث بنانے والا ہے : ١۔ اللہ نے حق کی تکذیب کرنے والوں کو انکے گناہوں کی وجہ سے ہلاک کر کے دوسری قوم کو وارث بنایا۔ (الانعام : ٦) ٢۔ اے ایمان والو ! اگر تم دین سے مرتد ہوجاؤ تو اللہ تعالیٰ تمہارے جگہ دوسری قوم کو لے آئے گا۔ (المائدۃ : ٥٤) ٣۔ اگر اللہ چاہے تو تمہیں فنا کردے اور نئی مخلوق لے آئے۔ یہ اللہ کے لیے کچھ مشکل نہیں ہے۔ (ابراہیم : ١٩۔ ٢٠) ٤۔ اگر اللہ چاہے تو تم کو فنا کر کے دوسری مخلوق لے آئے یہ اللہ کے لیے مشکل نہیں۔ (فاطر : ١٦۔ ١٧) ٥۔ اگر اللہ چاہے تو تمہیں لے جائے اور تمہاری جگہ دوسروں کو لے آئے۔ (انساء : ١٢٣) ٦۔ اگر اللہ چاہے تو تمہیں لے جائے اور تمہارے بعد جسے چاہے لے آئے۔ (الانعام : ١٣٣)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

قبل اس کے کہ آخری منظر پیش کیا جائے ، یہاں قرآن کریم یہ بتاتا ہے کہ فرعونیوں کو اللہ تعالیٰ نے ان کی سرکشی کی وجہ سے ان نعمتوں ، ان باغات اور مکانات عالی شان اور اس عیش و عشرت سے نکال دیا اور یہ مقام اختیار و اقتدار بنی اسرائیل جیسے مستصفعین کو دے دیا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

29:۔ فاء فصیحہ ہے۔ فرعون مع لاؤ لشکر بنی اسرائیل کے تعاقب میں چل نکلا، اس طرح ہم نے ان کو باغوں اور ٹھنڈے چشموں سے، دولت سے لبریز خزانوں اور شاندار محلات سے نکال باہر کی اور باقیماندہ بنی اسرائیل کو ان کی تمام املاک کا مالک بنا دیا۔ ” کذالک “ کاف بیان کمال کے لیے ہے۔ یعنی قوم فرعون کو سلطنت اور تمام...  املاک سے محروم کرنا اور بنی اسرائیل کو ان کا وارث بنا دینا ہمارا ہی کام تھا۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

57۔ آخر کار ہم نے فرعون والوں کو باغوں سے اور چشموں سے۔