Surat us Shooaraa

Surah: 26

Verse: 61

سورة الشعراء

فَلَمَّا تَرَآءَ الۡجَمۡعٰنِ قَالَ اَصۡحٰبُ مُوۡسٰۤی اِنَّا لَمُدۡرَکُوۡنَ ﴿ۚ۶۱﴾

And when the two companies saw one another, the companions of Moses said, "Indeed, we are to be overtaken!"

پس جب دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھ لیا ، تو موسیٰ کے ساتھیوں نے کہا ہم تویقیناً پکڑ لئے گئے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

فَلَمَّا تَرَاءى الْجَمْعَانِ ... And when the two hosts saw each other, means, each group saw the other. At that point, ... قَالَ أَصْحَابُ مُوسَى إِنَّا لَمُدْرَكُونَ the companions of Musa said: "We are sure to be overtaken." This was because Fir`awn and his people caught up with them on the shores of the Red Sea, so the sea was ahead of them and Fir`awn and his troops were behind them. Hence they said: إِنَّا لَمُدْرَكُونَ (We are sure to be overtaken). قَالَ كَلَّ إِنَّ مَعِيَ رَبِّي سَيَهْدِينِ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

611یعنی فرعون کے لشکر کو دیکھتے ہی وہ، گھبرا اٹھے کہ آگے سمندر ہے اور پیچھے فرعون کا لشکر، اب بچاؤ کس طرح ممکن ہے ؟ اب دوبارہ وہی فرعون اور اس کی غلامی ہوگی۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤٢] فرعون کی بدحواسی کا یہ عالم تھا کہ ایک طرف تو وہ بنی اسرائیل کو ایک مٹھی بھر اور کمزور سی جماعت قرار دے رہا تھا دوسری طرف وہ ایک عظیم الشان مسلح لشکر کی تیاری کا حکم دے رہا تھا۔ جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ فرعون کو یقین تھا کہ بنی اسرائیل محض ایک کمزور سی اور مٹھی بھر جماعت ہی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی مدد بھی ان کے شامل حل ہے۔ لہذا اس نے ہر ممکن احتیاط کو ملحوظ رکھتے ہوئے ایسا لشکر جرار تیار کرنے کا حکم دیا تھا جس کے تیار ہونے میں خواہ مخواہ کچھ عرصہ لگ گیا۔ فرعون کے اس لشکر نے بالاخر بنی اسرائیل کو بحیرہ قلزم کے کنارے پر جا پکڑا۔ اب صورت حال یہ تھی کہ دونوں لشکروں میں صرف اتنا فاصلہ رہ گیا تھا کہ دونوں لشکر ایک دوسرے کو دیکھ سکتے تھے۔ بنی اسرائیل سمندر کے کنارے پر کھڑے تھے۔ پیچھے سے فرعون کا لشکر تیز رفتار گھوڑوں پر سوار ان کی طرف بڑھا چلا آرہا تھا۔ بنی اسرائیل جو فرعون سے پہلے ہی سخت خوف زدہ تھے یہ صورت حال دیکھ کر سخت گھبرا گئے۔ آگے سمندر تھا پیچھے فرعون کا لشکر، دونوں طرف موت ہی موت کھڑی نظر آرہی تھی۔ لہذا ان کی زبان سے بےساختہ یہ الفاظ نکل گوے، موسیٰ اب تو ہم مارے گئے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَلَمَّا تَرَاۗءَ الْجَمْعٰنِ ۔۔ :” تَرَاءٰ ی یَتَرَاءٰ ی تَرَاءُیًا “ (تفاعل) ایک دوسرے کو دیکھنا۔ جب دونوں جماعتیں ایک دوسرے کو نظر آنے لگیں تو موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھی کہنے لگے کہ ہم تو یقیناً پکڑے جانے والے ہیں۔ ”إِنَّ “ اور ” لام تاکید “ سے ان کے شدید خوف کا اظہار ہو رہا ہے کہ اب ہر صورت یہ لوگ ہمیں مار ڈالیں گے، یا پھر غلام بنا کر ساتھ لے جائیں گے۔ اس سے پہلے مصر میں بھی انھوں نے موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا تھا : (اُوْذِيْنَا مِنْ قَبْلِ اَنْ تَاْتِيَنَا) [ الأعراف : ١٢٩ ] ” ہمیں اس سے پہلے ایذا دی گئی کہ تو ہمارے پاس آئے اور اس کے بعد بھی کہ تو ہمارے پاس آیا۔ “ اب انھیں فرعون کی صورت میں موت نظر آئی تو انھوں نے یہ بات کہی۔ یہاں ” قَالَ بَنُوْ إِسْرَاءِیْلَ “ کے بجائے ” قَالَ اَصْحٰبُ مُوْسٰٓي “ اس لیے فرمایا کہ ہجرت کرکے آنے والوں میں بنی اسرائیل کے علاوہ مسلمان بھی تھے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

قَالَ أَصْحَابُ مُوسَىٰ إِنَّا لَمُدْرَ‌كُونَ ﴿٦١﴾ قَالَ كَلَّا ۖ إِنَّ مَعِيَ رَ‌بِّي سَيَهْدِينِ ﴿٦٢﴾ (The Companions of Musa said: |"Surely we are overtaken.|" He said, |"Never! Indeed with me is my Lord. He will guide me -26:61-62. When the Pharaoh&s army, which was in their pursuit, reached right behind them, all the people of Bani Isra&il called out ` We are caught&. And there was little doubt in their nabbing as the river was in front of them and the Pharaoh&s enormous army behind them. Sayyidna Musa (علیہ السلام) was fully aware of the situation, but his belief in the promise of Allah was unshaken like a rock. He, therefore, replied firmly that they will never be caught.

قَالَ اَصْحٰبُ مُوْسٰٓي اِنَّا لَمُدْرَكُوْنَ ، قَالَ كَلَّا ۚ اِنَّ مَعِيَ رَبِّيْ سَيَهْدِيْنِ ، اس وقت جبکہ فرعونی لشکر جو ان کے تعاقب میں تھا جب بالکل سامنے آ گیا تو پوری قوم بنی اسرائیل چلا اٹھی کہ ہم تو پکڑ لئے گئے اور پکڑے جانے میں شبہ اور دیر ہی کیا تھی کہ پیچھے یہ لشکر جرار اور آگے دریا حائل یہ صورت حال موسیٰ (علیہ السلام) سے بھی غائب نہ تھی مگر وہ کوہ استقامت اللہ کے وعدہ پر یقین کئے ہوئے اس وقت بھی بڑی زور سے کہتے ہیں كَلَّا ہرگز نہیں پکڑے جاسکتے

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَلَمَّا تَرَاۗءَ الْجَمْعٰنِ قَالَ اَصْحٰبُ مُوْسٰٓي اِنَّا لَمُدْرَكُوْنَ۝ ٦١ۚ رأى والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس : والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] ، والثاني : بالوهم والتّخيّل، نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] . والثالث : بالتّفكّر، نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] . والرابع : بالعقل، وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] ، ( ر ء ی ) رای الرؤیتہ کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔ ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔ (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ صحب الصَّاحِبُ : الملازم إنسانا کان أو حيوانا، أو مکانا، أو زمانا . ولا فرق بين أن تکون مُصَاحَبَتُهُ بالبدن۔ وهو الأصل والأكثر۔ ، أو بالعناية والهمّة، ويقال للمالک للشیء : هو صاحبه، وکذلک لمن يملک التّصرّف فيه . قال تعالی: إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ [ التوبة/ 40] ( ص ح ب ) الصاحب ۔ کے معنی ہیں ہمیشہ ساتھ رہنے والا ۔ خواہ وہ کسی انسان یا حیوان کے ساتھ رہے یا مکان یا زمان کے اور عام اس سے کہ وہ مصاحبت بدنی ہو جو کہ اصل اور اکثر ہے یا بذریعہ عنایت اور ہمت کے ہو جس کے متعلق کہ شاعر نے کہا ہے ( الطوایل ) ( اگر تو میری نظروں سے غائب ہے تو دل سے تو غائب نہیں ہے ) اور حزف میں صاحب صرف اسی کو کہا جاتا ہے جو عام طور پر ساتھ رہے اور کبھی کسی چیز کے مالک کو بھی ھو صاحبہ کہہ دیا جاتا ہے اسی طرح اس کو بھی جو کسی چیز میں تصرف کا مالک ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ [ التوبة/ 40] اس وقت پیغمبر اپنے رفیق کو تسلی دیتے تھے کہ غم نہ کرو ۔ موسی مُوسَى من جعله عربيّا فمنقول عن مُوسَى الحدید، يقال : أَوْسَيْتُ رأسه : حلقته . درك الدَّرْكُ کالدّرج، لکن الدّرج يقال اعتبارا بالصّعود، والدّرک اعتبارا بالحدور، ولهذا قيل : درجات الجنّة، ودَرَكَات النار، ولتصوّر الحدور في النار سمّيت هاوية، وقال تعالی: إِنَّ الْمُنافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ [ النساء/ 145] ، والدّرك «3» أقصی قعر البحر . ويقال للحبل الذي يوصل به حبل آخر ليدرک الماء دَرَكٌ ، ولما يلحق الإنسان من تبعة دَرَكٌ «1» کالدّرک في البیع «2» . قال تعالی: لا تخافُ دَرَكاً وَلا تَخْشى [ طه/ 77] ، أي : تبعة . وأَدْرَكَ : بلغ أقصی الشیء، وأَدْرَكَ الصّبيّ : بلغ غاية الصّبا، وذلک حين البلوغ، قال : حَتَّى إِذا أَدْرَكَهُ الْغَرَقُ [يونس/ 90] ، وقوله : لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام/ 103] ، فمنهم من حمل ذلک علی البصر الذي هو الجارحة، ومنهم من حمله علی البصیرة، وذکر أنه قد نبّه به علی ما روي عن أبي بکر رضي اللہ عنه في قوله : (يا من غاية معرفته القصور عن معرفته) إذ کان غاية معرفته تعالیٰ أن تعرف الأشياء فتعلم أنه ليس بشیء منها، ولا بمثلها بل هو موجد کلّ ما أدركته . والتَّدَارُكُ في الإغاثة والنّعمة أكثر، نحو قوله تعالی: لَوْلا أَنْ تَدارَكَهُ نِعْمَةٌ مِنْ رَبِّهِ [ القلم/ 49] ، وقوله : حَتَّى إِذَا ادَّارَكُوا فِيها جَمِيعاً [ الأعراف/ 38] ، أي : لحق کلّ بالآخر . وقال : بَلِ ادَّارَكَ عِلْمُهُمْ فِي الْآخِرَةِ [ النمل/ 66] ، أي : تدارک، فأدغمت التاء في الدال، وتوصّل إلى السکون بألف الوصل، وعلی ذلک قوله تعالی: حَتَّى إِذَا ادَّارَكُوا فِيها [ الأعراف/ 38] ، ونحوه : اثَّاقَلْتُمْ إِلَى الْأَرْضِ [ التوبة/ 38] ، واطَّيَّرْنا بِكَ [ النمل/ 47] ، وقرئ : بل أدرک علمهم في الآخرة وقال الحسن : معناه جهلوا أمر الآخرة وحقیقته انتهى علمهم في لحوق الآخرة فجهلوها . وقیل معناه : بل يدرک علمهم ذلک في الآخرة، أي : إذا حصلوا في الآخرة، لأنّ ما يكون ظنونا في الدّنيا، فهو في الآخرة يقين . ( درک ) الدرک اور درج کا لفظ اوپر چڑھنے کے اعتبار سے بولا جاتا ہے اور الدرک کا لفظ نیچے اترنے کے لحاظ سے اس لئے درجات الجنۃ اور درکات النار کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جیسا کہ پستی کے اعتبار سے دوذخ کو ھاویۃ کہا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنَّ الْمُنافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ [ النساء/ 145] کچھ شک نہیں کہ منافق لوگ دوزخ کے سب سے نیچے کے طبقہ میں ہوں گے ۔ اور سمندر کی گہرائی کی تہہ اور اس رسی کو جس کے ساتھ پانی تک پہنچنے کے لئے دوسری رسی ملائی جاتی ہے بھی درک کہا جاتا ہے اور درک بمعنی تاوان بھی آتا ہے مثلا خرید وفروخت میں بیضانہ کو درک کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ لا تخافُ دَرَكاً وَلا تَخْشى [ طه/ 77] پھر تم کو نہ تو ( فرعون کے ) آپکڑے نے کا خوف ہوگا اور نہ غرق ہونے کا ( ڈر ۔ ادرک ۔ کسی چیز کی غایت کو پہچنا ، پالنا جیسے ادرک الصبی لڑکا بچپن کی آخری حد کو پہنچ گیا یعنی بالغ ہوگیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ حَتَّى إِذا أَدْرَكَهُ الْغَرَقُ [يونس/ 90] یہاں تک کہ اس کو غرق ( کے عذاب ) نے آپکڑا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام/ 103] وہ ایسا ہے کہ ( نگا ہیں اس کا اور اک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا اور اک کرسکتا ہے ۔ کو بعض نے ادارک بصری کی نفی پر حمل کیا ہے اور بعض نے ادارک کی نفی ملحاظ بصیرت مراد دلی ہے اور کہا ہے کہ اس آیت سے اس معنی پر تنبیہ کی ہے جو کہ حضرت ابوبکر کے قول اے وہ ذات جس کی غایت معرفت بھی اس کی معرفت سے کوتاہی کا نام ہے ) میں پایا جاتا ہے ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی معرفت کی غایت یہ ہے کہ انسان کو تمام اشیاء کا کماحقہ علم حاصل ہونے کے بعد یہ یقین ہوجائے کہ ذات باری تعالیٰ نہ کسی کی جنس ہے اور نہ ہی کسی چیز کی مثل ہے بلکہ وہ ان تمام چیزو ن کی موجد ہی ۔ التدارک ۔ ( پالینا ) یہ زیادہ تر نعمت اور رسی کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ لَوْلا أَنْ تَدارَكَهُ نِعْمَةٌ مِنْ رَبِّهِ [ القلم/ 49] اگر تمہارے پروردگار کی مہر بانی ان کی یاوری نہ کرتی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ حَتَّى إِذَا ادَّارَكُوا فِيها جَمِيعاً [ الأعراف/ 38] یہاں تک کہ جب سب اس میں داخل ہوجائیں گے کے معنی یہ ہیں کہ جب سب کے سب اس میں ایک دوسرے کو آملیں گے ۔ پس اصل میں تدارکوا ہے ۔ اسی طرح آیت کریمہ : ۔ بَلِ ادَّارَكَ عِلْمُهُمْ فِي الْآخِرَةِ [ النمل/ 66] بلکہ آخرت کے بارے میں انکا علم منتہی ہوچکا ہے ۔ میں ادراک اصل میں تدارک ہے تاء کو دال میں ادغام کرنے کے بعد ابتدائے سکون کی وجہ سے ہمزہ وصلی لایا گیا ہے جس طرح کہ آیات : ۔ اثَّاقَلْتُمْ إِلَى الْأَرْضِ [ التوبة/ 38] میں ہے ایک قراءت میں ہے ۔ حسن (رح) نے اس کے یہ معنی کئے ہیں کہ وہ امور آخرت سے سراسر فاعل ہیں مگر اس کے اصل معنی یہ ہیں کہ آخرت کو پالینے سے انکا علم بنتی ہوچکا ہے اس بنا پر وہ اس سے جاہل اور بیخبر ہیں ۔ بعض نے اس کے یہ معنی کئے کہ انہیں آخرت میں ان چیزوں کی حقیقت معلوم ہو جائیگی کیونکہ دنیا میں جو چیزوں معلوم ہو جائیگی کیونکہ دنیا میں جو چیزیں محض ظنون نظر آتی ہیں آخرت میں ان کے متعلق یقین حاصل ہوجائے گا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦١ (فَلَمَّا تَرَآءَ الْجَمْعٰنِ قَالَ اَصْحٰبُ مُوْسٰٓی اِنَّا لَمُدْرَکُوْنَ ) ” جب فرعونی لشکر تعاقب کرتے ہوئے ان کے قریب پہنچ گیا تو بنی اسرائیل کو اپنے پکڑے جانے کا یقین ہوگیا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

14: موسیٰ (علیہ السلام) کے لشکر کے سامنے سمندر آگیا تھا، اور پیچھے سے فرعون کا لشکر، اس لیے موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھی سمجھے کہ اب بچنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(26:61) تراء ماضی واحد مذکر غائب وہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔ تراء ی (تفاعل) سے جس کے معنی باہم ایک دوسرے کے اس طرح مقابل ہونے کے ہیں کہ یہ اس کو دیکھ سکے اور وہ اس کو۔ الجمعن : جمع کا تثنیہ ہے دو گروہ، دو فوجیں، دو جماعتیں۔ پس جب دونوں گروہوں نے ایک دوسرے کو دیکھا۔ لمدرکون۔ لام تاکید کا مدرکون اسم مفعول جمع مذکر مدرک واحد ادراک افعال۔ ہم پکڑے گئے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

13 ۔ یعنی دشمن سر پر پہنچ گیا ہے اب ہم بچ کر نہیں جاسکتے۔ (وحیدی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

61۔ پھر جب دونوں جماعتیں ایک دوسرے کو دیکھنے لگیں تو موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھیوں نے کہا بلاشبہ ہم تو پکڑے گئے۔ یعنی آگے دریا پیچھے لشکر اب پکڑے جانے میں شک ہی کیا باقی رہا۔