Surat us Shooaraa
Surah: 26
Verse: 78
سورة الشعراء
الَّذِیۡ خَلَقَنِیۡ فَہُوَ یَہۡدِیۡنِ ﴿ۙ۷۸﴾
Who created me, and He [it is who] guides me.
جس نے مجھے پیدا کیا ہے اور وہی میری رہبری فرماتا ہے ۔
الَّذِیۡ خَلَقَنِیۡ فَہُوَ یَہۡدِیۡنِ ﴿ۙ۷۸﴾
Who created me, and He [it is who] guides me.
جس نے مجھے پیدا کیا ہے اور وہی میری رہبری فرماتا ہے ۔
Ibrahim mentions Allah's Kindness towards Him Ibrahim said, "I will not worship any but the One Who does these things: الَّذِي خَلَقَنِي فَهُوَ يَهْدِينِ Who has created me, and it is He Who guides me. He is the Creator Who has decreed certain things to which He guides His creation, so each person follows the path which is decreed for him. Allah is the One Who guides whomsoever He wills and leaves astray whomsoever He wills. وَالَّذِي هُوَ يُطْعِمُنِي وَيَسْقِينِ
خلیل اللہ کی تعریف حضرت خلیل اللہ علیہ السلام اپنے رب کی صفتیں بیان فرماتے ہیں کہ میں تو ان اوصاف والے رب کاہی عابد ہوں ۔ اس کے سوا اور کسی کی عبادت نہیں کرونگا ۔ پہلا وصف یہ کہ وہ میرا خالق ہے اسی نے اندازہ مقرر کیا ہے اور وہی مخلوقات کی اس کی طرف رہبری کرتا ہے ۔ دوسرا وصف یہ کہ وہ ہادی حقیقی ہے جسے چاہتا ہے اپنی راہ مستقیم پر چلاتا ہے جسے چاہتا ہے اسے غلط راہ پر لگا دیتا ہے ۔ تیسر وصف میرے رب کا یہ ہے کہ وہ رازق ہے آسمان وزمین کے تمام اسباب اسی نے مہیا کئے ہیں ۔ بادلوں کا اٹھانا پھیلانا ان سے بارش کا برسانا اس سے زمین کو زندہ کرنا پھر پیداوار اگانا اسی کا کام ہے ۔ وہی میٹھا اور پیاس بجھانے والا پانی ہمیں دیتا ہے اور اپنی مخلوق کو بھی غرض کھلانے پلانے والا ہی ہے ۔ ساتھ ہی بیمار تندرستی بھی اسی کے ہاتھ ہے لیکن خلیل اللہ علیہ السلام کا کمال ادب دیکھئے کہ بیماری کی نسبت تو اپنی طرف کی اور شفا کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہے ۔ گو بیماری بھی اس قضا وقدر ہے اور اسی کی بنائی ہوئی چیز ہے ۔ یہی لطافت سورۃ فاتحہ کی دعا میں بھی ہے کہ انعام وہدایت کی اسناد تو اللہ عالم کی طرف کی ہے اور غضب کے فاعل کو حزف کردیا ہے اور ضلالت بندے کی طرف منسوب کردی ہے ۔ سورہ جن میں جنات کا قول بھی ملاحظہ ہوجہاں انہوں نے کہا ہے کہ ہمیں نہیں معلوم کہ زمین والی مخلوق کے ساتھ کسی برائی کا ارادہ کیا گیا ہے یا ان کے ساتھ ان کے رب نے بھلائی کا ارادہ کیا ہے؟ یہاں بھی بھلائی کی نسبت رب کی طرف کی گئی اور برائی کے ارادے میں نسبت ظاہر نہیں کی گئی ۔ اسی طرح کی آیت ہے کہ جب میں بیمار پڑتا ہوں تو میری شفا پر بجز اس اللہ کے اور کوئی قادر نہیں ۔ دوا میں تاثیر پیدا کرنا بھی اسی کے بس کی چیز ہے ۔ موت وحیات پر قادر بھی وہی ہے ۔ ابتدا اسی کے ساتھ ہے اسی نے پہلی پیدائش کی ہے ۔ وہی دوبارہ لوٹائے گا ۔ دنیا اور آخرت میں گناہوں کی بخشش پر بھی وہی قادر ہے وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے ، غفور ورحیم وہی ہے ۔
[٥٤] ان چار آیات میں حضرت ابراہیم نے اللہ تعالیٰ کی ان صفات کا ذکر کیا۔ جن کا تعلق حضرت ابراہیم کی ذات سے ہی نہیں بلکہ ہر انسان سے تعلق ہوتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کی یہی وہ صفات ہیں جن کی بنا پر ہر انسان کو صرف ایک اللہ ہی کی عبادت کرنا چاہئے۔ پہلی صفت یہ ہے کہ اسی نے مجھے پیدا کیا اور وجود بخشا۔ اللہ تعالیٰ کی یہ صفت ایسی ہے جس کا کسی بھی دور کے مشرکوں نے کبھی انکار نہیں کیا۔ یعنی جب میری تخلیق میں کسی دوسری ہستی کا کچھ حصہ نہیں۔ تو میری عبادت میں کوئی دوسرا کیسے حصہ دار بن سکتا ہے ؟ دوسری صفت یہ ہے کہ اللہ نے مجھے پیدا کرکے تنہا نہیں چھوڑ دیا۔ بلکہ ہر ہر مقام پر میری رہنمائی بھی کرتا ہے۔ اس سے مراد فطری رہنمائی بھی ہے جو ہر جاندار کو مہیا ہوتی ہے۔ مثلاً جب پیدا ہوتا ہے تو اپنی خوراک حاصل کرنے کے لئے ماں کی چھاتیوں کی طرف لپکتا ہے۔ پھر اللہ نے ہی اسے دودھ پینے کا طریقہ بھی بتلا دیا۔ غرض موقع و محل کے لحاظ سے اللہ ہر ہر مقام پر ہر جاندار کی رہنمائی اور دست گیری کرتا ہے اور انسانوں کی اخروی فلاح کے لئے وحی کے ذریعے رہنمائی فرماتا ہے اور اس ہمہ گیر قسم کی رہنمائی میں کسی دوسری ہستی کا کچھ بھی تعلق نہیں ہے۔ لہذا میری عبادت میں اللہ کے علاوہ دوسرا کوئی کیسے شریک بن سکتا ہے۔
الَّذِيْ خَلَقَنِيْ فَهُوَ يَهْدِيْنِ : ” يَهْدِيْنِ “ اصل میں ” یَھْدِیْنِيْ “ ہے، آیات کے آخری حروف کی موافقت کے لیے یاء حذف کردی گئی ہے، نون کا کسرہ اس کی دلیل ہے۔ آئندہ آیات کے اندر ” يَسْقِيْنِ “ ، ” يَشْفِيْنِ “ اور ” يُحْيِيْنِ “ میں بھی یاء محذوف ہے۔ یہاں سے ابراہیم (علیہ السلام) نے رب العالمین کی وہ صفات بیان کی ہیں جن کی وجہ سے وہ عبادت کا حق دار ہے، یعنی ” رب العالمین “ وہ ہے جس نے مجھے پیدا کیا، پھر وہی مجھے راستہ دکھاتا ہے۔ یہاں ” الَّذِيْ خَلَقَنِيْ “ (وہ جس نے مجھے پیدا کیا) کے بعد ” فَهُوَ يَهْدِيْنِ “ (پھر وہی مجھے راستہ دکھاتا ہے) حصر کے ساتھ ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ پیدا کرنے کا دعویٰ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کے متعلق موجود ہی نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے متعلق کہا جائے کہ اسی نے مجھے پیدا کیا ہے، جبکہ ہدایت کا دعویٰ بہت سی ہستیوں کے متعلق ہے، اس لیے فرمایا کہ پھر وہی مجھے ہدایت دیتا ہے، اور کوئی نہیں۔ مطلب یہ ہے کہ تم مانتے ہو کہ اس نے پیدا کیا تو مانو کہ ہدایت بھی وہی دیتا ہے۔ ” الَّذِيْ خَلَقَنِيْ “ (جس نے مجھے پیدا کیا) ماضی کے ساتھ ہے، کیونکہ پیدا تو وہ کرچکا، جبکہ ” فَهُوَ يَهْدِيْنِ “ (پھر وہ مجھے راستہ دکھاتا ہے) مضارع ہے، کیونکہ ہدایت کی ضرورت ہر ہر لمحے میں ہے اور وہ ہر لمحے مجھے ہدایت دیتا ہے۔ پیدائش کے بعد سب سے زیادہ اہم ہدایت ہے، اس لیے ان دونوں کا ذکر سب سے پہلے فرمایا۔
الَّذِيْ خَلَقَنِيْ فَہُوَيَہْدِيْنِ ٧٨ۙ خلق الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] ، أي : أبدعهما، ( خ ل ق ) الخلق ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے هدى الهداية دلالة بلطف، وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه : الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل، والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] . الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء، وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا [ الأنبیاء/ 73] . الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی، وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن/ 11] الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43]. ( ھ د ی ) الھدایتہ کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه/ 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء/ 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ ( 3 ) سوم بمعنی توفیق خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔ ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43] میں فرمایا ۔
57 This is the first reason for which AIlah, and One Allah alone, is worthy of man's worship. The people also knew and believed that Allah alone was their Creator without any partner. Not only they but all the polytheists of the world also have always held the belief that even the deities they worshipped were the creation of Allah, and except for the atheists none have ever denied that Allah is the Creator of the whole universe. This argument of Prophet Abraham implied that being a creature, he could only worship his Creator, Who was alone worthy of his worship, and none else, because none besides Allah had any share in His creation.
سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :57 یہ اولین وجہ ہے جس کی بنا پر اللہ اور صرف ایک اللہ ہی عبادت کا مستحق ہے ۔ مخاطب بھی اس حقیقت کو جانتے اور مانتے تھے کہ اللہ تعالیٰ ان کا خالق ہے ، اور انہیں یہ بھی تسلیم تھا کہ ان کے پیدا کرنے میں کسی دوسرے کا کوئی حصہ نہیں ہے ۔ حتّیٰ کہ اپنے معبودوں کے بارے میں بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قوم سمیت تمام مشرکین کا یہ عقیدہ رہا ہے کہ وہ خود اللہ تعالیٰ کے مخلوق ہیں ۔ بجز دہریوں کے اور کسی کو بھی دنیا میں اللہ کے خلق کائنات ہونے سے انکار نہیں رہا ۔ اس لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پہلی دلیل یہ تھی کہ میں صرف اس کی عبادت کو صحیح و بر حق سمجھتا ہوں جس نے مجھے پیدا کیا ہے ۔ دوسری کوئی ہستی میری عبادت کی کیسے مستحق ہو سکتی ہے جبکہ میرے پیدا کرنے میں اس کا کوئی حصہ نہیں ۔ مخلوق کو اپنے خالق کی بندگی تو کرنی ہی چاہیے ، لیکن غیر خالق کی بندگی وہ کیوں کرے ؟
(26:78) الذی اسم موصول۔ مبتدائ۔ خلقنی۔ ماضی واحد مذکر غائب نون وقایہ ی ضمیر مفعول واحد متکلم صفت ہے الذی کی فھو مبتدا ثانی۔ یھدین مضارع واحد مذکر غائب ی ضمیر واحد متکلم محذوف، خبر۔
8۔ یعنی عقل و فہم دیتا ہے جس سے نفع و ضرر کو سمجھتا ہوں۔
الذی خلقنی فھو ……یوم الدین (٨٢) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے یہاں اپنے رب کی جو حمد کی ہے اور اس میں وہ تفصیلات تک چلے گئے ہیں اور تصویر کشی کی ہے ، اس سے ہمیں یہ شعور ملتا ہے کہ آپ اپنی پوری شخصیت کے ساتھ معرفت رب میں ڈوبے ہوئے تھے اور ان کی پوری شخصیت کا خدا کے ساتھ رابطہ تھا۔ وہ نہایت ہی محبت سے اللہ کی طرف متوجہ ہوتے تھے اور حضرت اپنے رب کی حمد اس طرح کرتے تھے کہ گویا وہ اللہ کو دیکھ رہے ہوں اور وہ اپنے تمام احساسات ، تمام شعور اور وجدان کے ساتھ اور اپنے تمام اعضاء کے ساتھ اللہ کے فضل و کرم کو پا رہے تھے۔ قرآن کریم نے حضرت ابراہیم اور رب العالمین کے تعلق کو جس قدر دھیمے نغمے کے ساتھ یہاں بیان کیا ہے اس سے اس تعلق کی فضا ، اس کے آثار اور پر تو اچھی طرح واضح ہوتا ہے۔ میٹھا اور نرم نغمہ اور طویل اور وسیع اثرات۔ الذی خلقنی فھو یھدین (٢٦ : ٨٨) ” جس نے مجھے پیدا کیا پھر وہی میری راہنمائی فرماتا ہے۔ “ اس نے مجھے پیدا کیا ، وہی جانتا ہے اور میں نہیں جانتا کہ کہاں کہاں سے اجزائے جسم جمع ہوئے۔ میری ماہیت اور میری تشکیل سے وہی باخبر ہے۔ میرے فرئاض اور میرے شعور کی باریکیوں سے بھی وہی باخبر ہے۔ میرے مال اور میرے متال سیب ھی وہی خبردار ہے۔ فھو یھدین (٢٦ : ٨٨) ’ پھر وہی تو ہم جو میری راہنمائی فرماتا ہے۔ ‘ اپنی طرف راہنمائی جس راہ پر مجھے چلنا ہے اس کی نشاندہی ، جس نظام کے مطباق مجھے زندگی بسر کرنی ہے۔ اس کی نشاندہی ، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) یہ احساس دے رہے ہیں کہ وہ اس طرح ہیں جس طرح پگھلا ہوا مادہ اس سے صانع ہو چاہتا ، بنا لیتا ہے۔ جس شکل و صورت میں چاہتا ہے مصنوعات تیار کرلیتا ہے یہ ہے مکمل اطاعت ، مکمل سپردگی ، مکمل اطمینان ، راحت ، سکون اور اعتماد ذات باری پر۔ والذی ھو یطمعنی ویسقین (٢٦ : ٨٩) و اذا مرضت فھو یشفین (٢٦ : ٨) ” جو مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے اور جب میں بیمار ہوتا ہوں تو وہی شفا دیتا ہے۔ “ یہ براہ راست کفالت ہے ، گہری شفقت ہے ، ساتھ رہنے والی محبت ہے اس کا احساس ابراہیم ہی کرسکتے ہیں۔ صحت میں اور مضر میں حضرت میں اور سفر میں ، ہر حال میں بلند آداب نبوت کے ساتھ ہو جانتے ہیں کہ مرض بھی تو اللہ کی مشیت سے آتی ہے۔ نہیں ، وہ اس کو اللہ کی طرف منسوب نہیں کرتے حالانکہ مرض و شفا دونوں اللہ کی طرف سے ہے۔ لیکن مرضت فھو یشفین (٢٦ : ٨٠) میں گہرا احترام محلوظ ہے۔ کرم کا مقام یطعمنی ویسقین (٢٦ : ٨٩) اور یشفین لکین ابتلا میں نعش کا اسناد خود اپنی طرف کرتے ہیں۔ یہ ہے مقام ابراہیم۔ والذین یمتنی ثم یحیین (٢٦ : ٨١) ” جو مجھے موت دے گا اور دوبارہ زندگی بخشے گا۔ “ ہر مسلمان کا یہ ایمان ہے کہ موت کا فیصلہ اللہ کرتا ہے اور پھر ایک دن حساب و کتاب کے لئے اللہ ہی اٹھائے گا لہٰذا یہ مکمل تسلیم و رضا کا اظہار ہے ۔ والذین اطمع ان یغفرلی ……یوم الدین (٢٦ : ٨٢) ” اور جس سے میں امید رکھتا ہوں کہ روز جزاء میں میری خطا معاف فرمائے گا۔ “ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) جو نبی اور رسول ہیں ان کی منتہائے آرزو ہے کہ اللہ قیامت کے دن ان کی خطائیں معاف کر دے ، حالانکہ وہ پوری طرح عارف باللہ ہیں۔ وہ اللہ کی ذات کا گہرا شعور رکھتے ہیں اور ان کے نفس کی گہرائیوں میں رب کی معرفت رچی بسی ہے۔ وہ اپنے نفس کو پاک و صاف تصور نہیں کرتے۔ اس معرفت اور قرب کے ساتھ پھر بھی ڈرتے ہیں کہ ان سے کوئی خطا ہوئی ہو ، وہ اپنے اعمال پر بھروسہ نہیں کرتے نہ وہ اپنے اعمال کی اساس پر اپنے آپ کو مستحق نجات کہتے ہیں۔ وہ فضل ربی پر بھروسہ کرتے ہیں ، اللہ کی رحمت کے طلبگار ہیں اور یہ رحمت خداوندی ہے جس کے وہ امیدوار ہیں کہ عفو و درگزر ہوگا اور تب ان کی نجات ہوگی۔ تقویٰ اور خدا خوفی کا یہ پیغمبرانہ شعور ہے ، ادب و احترام پر مبنی شعور ہے ، نہایت احتیاط کا انداز ہے۔ اللہ کی عظمتوں اور اللہ کے انعامات کا یہ حقیقی شعور ہے۔ اس شعو کے مطابق عمل کی قیمت بہت ہی کم ہے اور مغفرت کی قیمت زیادہ ہے۔ یوں ذات باری کے بارے میں حضرت ابراہیم اپنے عقائد کے بنیادی عناصر ترکیبی یہاں بیان کرتے ہیں کہ رب العالمین وحدہ لاشریک ہے ، زمین پر انسان کی زنگدی کے چھوٹے چھوٹے معاملات میں بھی اللہ رب العالمین متصرف ہے۔ بعث بعد الموت اور حساب و کتاب میں صرف فضل الٰہی بندے کو بچا سکتا ہے۔ اعمال کے اعتبار سے بندہ و تقصیر ہی ہوتا ہے اور وہ یہ باتیں ہیں کہ مشرکین اور ارباہیم کی قوم ان کی منکر ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) جو نہایت ہی حلیم الطبع اور اللہ کے سامنے گریہ و بکا کرنے والے ہیں وہ نہایت ہی خضوع و خشوع کے ساتھ اپنی ابراہیم جو نہایت ہی حلیم الطبع اور اللہ کے سامنے گریہ و بکا کرنے والے ہیں وہ نہایت ہی خضوع و خشوع کے ساتھ اپنی دعا کو آگے بڑھاتے ہیں۔
36:۔ اسی نے پیدا کیا ہے اور وہی دین و دنیا کے منافع و مصالح کی طرف راہنمائی فرماتا ہے ” والذی ہو یطعمنی الخ “ میرا روزی رساں بھی وہی ہے ” واذا مرضت الخ “ بیماری سے شفاء بھی وہی عطا کرتا ہے۔ ” والذی یمیتنی الخ “ موت وحیات بھی اسی کے قبضے میں ہے۔ ” والذی اطمع الخ “ اور اسی سے امید ہے کہ قیامت کے دن وہ میری خطا سے درگذر فرمائے گا۔ خطا سے کوئی خاص خطا مراد نہیں ملکہ مطلب یہ ہے کہ اگر مجھ سے کوئی خلاف اولیٰ کام سرزد ہوگیا تو امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس پر مواخذہ نہ فرمائے گا۔ اللہ تعالیٰ کے پیغمبر چونکہ اللہ تعالیٰ کے سب سے زیادہ فرمانبردار اور اس سے بہت زیادہ ڈرتے ہیں اس لیے وہ عمل کی معمولی فروگذاشت کو بھی گناہ سمجھتے ہیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کی یہ صفات بیان کر کے قوم پر حجت قائم کی تمہارے معبود عاجز و بےبس ہیں اس لیے وہ کارساز اور برکات دہندہ نہیں ہوسکتے اور اللہ تعالیٰ سب کی فریادیں سنتا ہے اور سب کچھ اس کی قدرت میں ہے اور ہر ایک کا نفع نقصان اس کے اختیار میں ہے اس لیے وہی سب کا کارساز اور وہی برکات دہندہ ہے۔ وھذا کلہ احتجاج من ابراہیم علی قومہ انہ لایصلح للالھیۃ الا من یفعل ھذہ الافعال (خازن و معالم ج 5 ص 99) ۔
78۔ رب العالمین ایسا ہے جس نے مجھ کو پیدا کیا اور عدم محض سے وجود بخشا اور وہی تمام کاموں میں میری رہنمائی فرماتا ہے یعنی جیسا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا ربنا الذی اعطی کل شئی خلقہ ثم ھدی اور سب سے آخر میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان فیض ترجمان سے ظاہر ہوا۔ والذی قدر فھدیٰ سبحان اللہ ! انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کی تعلیم میں کیسی یکسانیت ہے آگے حق تعالیٰ کی مزید صفات فرمائیں۔