Surat un Namal
Surah: 27
Verse: 2
سورة النمل
ہُدًی وَّ بُشۡرٰی لِلۡمُؤۡمِنِیۡنَ ۙ﴿۲﴾
As guidance and good tidings for the believers
ہدایت اور خوشخبری ایمان والوں کے لئے ۔
ہُدًی وَّ بُشۡرٰی لِلۡمُؤۡمِنِیۡنَ ۙ﴿۲﴾
As guidance and good tidings for the believers
ہدایت اور خوشخبری ایمان والوں کے لئے ۔
A guide and glad tidings for the believers. meaning, guidance and good news may be attained from the Qur'an for those who believe in it, follow it and put it into practice. الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَةَ وَيُوْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُم بِالاْخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ
[٢] اللہ تعالیٰ نے اس کتاب کی صفات بیان کرتے ہو وے ہدایت دینے والی یا بشارت دینے والی کے بجائے صرف ہدایت اور بشارت فرمایا۔ گویا یہ کتاب مجسم ہدایت اور مجسم بشارت ہے۔ اور ان الفاظ کے استعمال میں بلاغت بھی ہے اور فضاحت بھی۔ البتہ یہ کتاب ہدایت اور بشارت صرف ان لوگوں کے لئے ہے جو اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ سمجھتے ہیں اور اللہ پر ایمان بالغیب رکھتے ہیں۔ اور جو سرے سے اسے اللہ کی طرف نازل شدہ نہ سمجھیں۔ ان کے لئے نہ یہ ہدایت بن سکتی ہے اور نہ بشارت۔
هُدًى وَّبُشْرٰي لِلْمُؤْمِنِيْنَ ۔۔ : ان آیات کی تفسیر کے لیے سورة بقرہ کی ابتدائی آیات (٢ تا ٤) کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں۔
ہُدًى وَّبُشْرٰي لِلْمُؤْمِنِيْنَ ٢ۙ هدى الهداية دلالة بلطف، وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه : الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل، والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] . الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء، وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا [ الأنبیاء/ 73] . الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی، وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن/ 11] الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43]. ( ھ د ی ) الھدایتہ کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه/ 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء/ 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ ( 3 ) سوم بمعنی توفیق خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔ ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43] میں فرمایا ۔ بشر واستبشر : إذا وجد ما يبشّره من الفرح، قال تعالی: وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ [ آل عمران/ 170] ، يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ [ آل عمران/ 171] ، وقال تعالی: وَجاءَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَسْتَبْشِرُونَ [ الحجر/ 67] . ويقال للخبر السارّ : البِشارة والبُشْرَى، قال تعالی: هُمُ الْبُشْرى فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَفِي الْآخِرَةِ [يونس/ 64] ، وقال تعالی: لا بُشْرى يَوْمَئِذٍ لِلْمُجْرِمِينَ [ الفرقان/ 22] ، وَلَمَّا جاءَتْ رُسُلُنا إِبْراهِيمَ بِالْبُشْرى [هود/ 69] ، يا بُشْرى هذا غُلامٌ [يوسف/ 19] ، وَما جَعَلَهُ اللَّهُ إِلَّا بُشْرى [ الأنفال/ 10] . ( ب ش ر ) البشر التبشیر کے معنی ہیں اس قسم کی خبر سنانا جسے سن کر چہرہ شدت فرحت سے نمٹما اٹھے ۔ مگر ان کے معافی میں قدر سے فرق پایا جاتا ہے ۔ تبیشتر میں کثرت کے معنی ملحوظ ہوتے ہیں ۔ اور بشرتہ ( مجرد ) عام ہے جو اچھی وبری دونوں قسم کی خبر پر بولا جاتا ہے ۔ اور البشرتہ احمدتہ کی طرح لازم ومتعدی آتا ہے جیسے : بشرتہ فابشر ( یعنی وہ خوش ہوا : اور آیت کریمہ : { إِنَّ اللهَ يُبَشِّرُكِ } ( سورة آل عمران 45) کہ خدا تم کو اپنی طرف سے بشارت دیتا ہے میں ایک قرآت نیز فرمایا : لا تَوْجَلْ إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ عَلِيمٍ قالَ : أَبَشَّرْتُمُونِي عَلى أَنْ مَسَّنِيَ الْكِبَرُ فَبِمَ تُبَشِّرُونَ قالُوا : بَشَّرْناكَ بِالْحَقِّ [ الحجر/ 53- 54] مہمانوں نے کہا ڈریے نہیں ہم آپ کو ایک دانشمند بیٹے کی خوشخبری دیتے ہیں وہ بولے کہ جب بڑھاپے نے آپکڑا تو تم خوشخبری دینے لگے اب کا ہے کی خوشخبری دیتے ہو انہوں نے کہا کہ ہم آپ کو سچی خوشخبری دیتے ہیں ۔ { فَبَشِّرْ عِبَادِ } ( سورة الزمر 17) تو میرے بندوں کو بشارت سنادو ۔ { فَبَشِّرْهُ بِمَغْفِرَةٍ وَأَجْرٍ كَرِيمٍ } ( سورة يس 11) سو اس کو مغفرت کے بشارت سنادو استبشر کے معنی خوش ہونے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ [ آل عمران/ 170] اور جو لوگ ان کے پیچھے رہ گئے ( اور شہید ہوکر ) ان میں شامل ہیں ہوسکے ان کی نسبت خوشیاں منا رہے ہیں ۔ يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ [ آل عمران/ 171] اور خدا کے انعامات اور فضل سے خوش ہورہے ہیں ۔ وَجاءَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَسْتَبْشِرُونَ [ الحجر/ 67] اور اہل شہر ( لوط کے پاس ) خوش خوش ( دورے ) آئے ۔ اور خوش کن خبر کو بشارۃ اور بشرٰی کہا جاتا چناچہ فرمایا : هُمُ الْبُشْرى فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَفِي الْآخِرَةِ [يونس/ 64] ان کے لئے دنیا کی زندگی میں بھی بشارت ہے اور آخرت میں بھی ۔ لا بُشْرى يَوْمَئِذٍ لِلْمُجْرِمِينَ [ الفرقان/ 22] اس دن گنہگاروں کے لئے کوئی خوشی کی بات نہیں ہوگی ۔ وَلَمَّا جاءَتْ رُسُلُنا إِبْراهِيمَ بِالْبُشْرى [هود/ 69] اور جب ہمارے فرشتے ابراہیم کے پاس خوشخبری سے کرآئے ۔ يا بُشْرى هذا غُلامٌ [يوسف/ 19] زہے قسمت یہ تو حسین ) لڑکا ہے ۔ وَما جَعَلَهُ اللَّهُ إِلَّا بُشْرى [ الأنفال/ 10] اس مدد کو تو خدا نے تمہارے لئے رذریعہ بشارت ) بنایا أیمان يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ( ا م ن ) الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ { وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ } ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔
1 Kitab-i-mubin has three meanings: (1) This book presents its teachings and instructions and injunctions plainly; (2) it distinguishes between the Truth and falsehood clearly; and (3) its being a Divine Book is obvious: whoever studies it with open eyes will realize that it has not been composed and forged by the Holy Prophet himself. 2 That is, the verses themselves are a "guidance" and "good news", because they give guidance and convey good news in a most excellent manner.
سورة النمل حاشیہ نمبر :2 یعنی یہ آیات ہدایت اور بشارت ہیں ، ہدایت کرنے والی اور بشارت دینے والی کہنے کے بجائے انہیں بجائے خود ہدایت اور بشارت کہا گیا جس سے رہنمائی اور بشارت کے وصف میں ان کے کمال کا اظہار مقصود ہے ، جیسے کسی کو آپ سخی کہنے کے بجائے مجسم سخاوت اور حسین کہنے کے بجائے ازسرتاپا حسن کہیں ۔
(27:2) ھدی وبشری۔ آیت کا حال ہے۔ للمؤمنین : اس کی دو صورتیں ہوسکتی ہیں :۔ (1) اس کا تعلق ہر دو ھدی و بشری سے ہے یعنی مومن لوگ ہی ہدایت یاب ہوتے ہیں اور بشارت کے بھی وہی مستحق ہیں۔ (2) اس کا تعلق صرف بشری سے ہے یعنی ہدایت کا پیغام تو اس میں ہر ایک کے لئے یکساں ہے خواہ مومن ہو یا کافر ۔ لیکن بشارت صرف اسی کے لئے ہے جس نے ہدایت پائی۔
فہم القرآن ربط سورة : الشعراء کا اختتام کفار کے الزامات کے جواب پر ہوا ہے اور سورة النمل کا آغاز قرآن مجید کے تعارف سے کیا گیا ہے۔ تاکہ الزام لگانے والوں کو معلوم ہو کہ اس کتاب کو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی طرف سے نہیں بنایا بلکہ اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا ہے۔ یہ قرآن مجید کی آیات ہیں جو اپنے الفاظ، انداز اور مدعا کے اعتبار سے واضح ہیں۔ اس کتاب مبین میں نہ کوئی ابہام ہے اور نہ اس کے مضامین اور مسائل میں کوئی الجھاؤ ہے۔ یہ حق اور باطل کے درمیان حدِّ فاصل قائم کرتی ہے۔ بشرطیکہ کوئی انسان ایمان اور ایقان کے ساتھ اس کی تلاوت کرے۔ یہ انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے ہر پہلو میں اس کی رہنمائی کرتی ہے۔ جو لوگ اس کی رہنمائی پر یقین اور عمل کریں گے ان کے لیے دنیا اور آخرت میں خوشخبری ہے۔ اس پر ایمان لانے والوں کی نشانی یہ ہے کہ وہ نماز قائم کرتے ہیں، زکوٰۃ ادا کرتے اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔ خوشخبری کا پیغام : (عن عمر (رض) قال قال رسول اللّٰہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِنَّ اللّٰہَ یَرْفَعُ بِہٰذَا الْکِتَابِ أَقْوَامًا وَیَضَعُ بِہٖ آخَرِینَ ) [ رواہ مسلم : کتاب صلاۃ المسافرین ] ” حضرت عمر (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بلا شبہ ” اللہ “ اس کتاب کے ساتھ اقوام کو بلند کرے گا اور دوسروں کو پست کردے گا۔ “ مسائل ١۔ قرآن مجید کی آیات اپنا مدعا بیان کرنے میں بالکل واضح ہیں۔ ٢۔ قرآن مجید پر ایمان لانے والوں کے لیے کامیابی کی نوید ہے۔
ھدی و بشریٰ للمئومنین (٢) یہ اسلوب اس سے زیادہ بلیغ ہے اگر کہا جاتا ” اس میں ایمان لانے والوں کے لئے ہدایت و بشارت ہے۔ “ قرآن جو اسلوب اختیار کیا ہے اس کا مفہوم یہ ہے کہ اس کتاب کا مواد ہی بذات خود ہدایت و بشارت ہے۔ اس طرح قرآن کریم اہل ایمان کو ان کی زندگی کے ہر نشیب و فراز میں ہدایت دیتا ہے۔ ہر پہلو سے ہدایت ہے اور انسان کی دنیاوی اور اخروی دونوں زندگیوں کے لئے یہ کتاب بشارت اور خوشخبری ہے۔ یہ کتاب صرف مومنین کے لئے ہدایت اور بشارت ہے ؟ اس فقرے میں اللہ نے ایک عظیم اور گہری حقیقت کو سمو دیا ہے۔ یہ قرآن کوئی نظریاتی اور فلسفیانہ کتاب نہیں ہے کہ جو بھی اسے پڑھے اور اس کے مضامین کا انطباق کرے اور ان کو نافذ کر دے تو بس قرآن کا مقصد پورا ہوگیا۔ یہ کتاب سب سے پہلے انسان کے قلب و نظر کو مخاطب کرتی ہے تاکہ وہ اسے ایمان ، احترام اور یقین کے ساتھ قبول کرے۔ کھلے دل سے قبول کرے۔ پھر یہ کتاب اپنا نور ، اپنا خطر اور اپنی حکمت اس کے دل میں ڈال دیتی ہے اور جس قدر قاری کا دل ایمان کی تراوٹ رکھتا ہوگا اسی قدر وہ اس کے مٹھاس کو پائے گا۔ اس کے معانی اس پر کھلتے جائیں گے اور اس کی توجہات اور تاویلات اس کی سمجھ میں آئیں گی۔ کسی سنگدل اور خشک دل و دماغ رکھنے والے انسان پر اس کتاب کے راز نہیں کھلتے۔ اسی طرح ایک مومن صادق کو اس سے وہ ہدایات ملتی ہیں جو منکر حق اور سخت دل کو نہیں ملتیں اور اس کے نور سے وہ شخص ہدایت پاتا ہے جو مومن ہو اور وہ نہیں پاتا جس کا دل و دماغ مسخ ہوچکے ہوں۔ بعض اوقات یوں ہوتا ہے کہ ایک انسان کسی آیت اور کسی سورت کو بار بار پڑھتا ہے۔ وہ غفلت اور جلدی میں گزر جاتا ہے۔ اس کے پلے کچھ نہیں پڑتا۔ اچانک اس کے قلب میں روشنی کی ایک چمک اٹھتی ہے۔ اس کے ذہن میں معانی کے جہان روشن ہو کر آجاتے ہیں جن کے بارے میں کبھی اس نے سوچا بھی نہ تھا۔ یوں اشراق کے بن اوقات میں اس کی زندگی میں ایک انقلاب آجاتا ہے۔ وہ ایک منہاج سے دوسرا منہاج اور ایک راستہ اختیار کرلیتا ہے۔ غرض قرآن کے اندر جس نظام ، جس قانون اور جن اخلاق کی تعلیم دی گئی ہے اس کا دار و مدار ایمان پر ہے۔ لہٰذا جس شخص کے دل میں ایمان نہیں ہے اور وہ اس قرآن کریم کو منجانب اللہ وحی نہیں سمجھتا ہے اور یہ یقین نہیں رکھتا کہ اس کے اندر جو کچھ آیا ہے وہ ایک نظام ہے جسے اللہ تعالیٰ قائم کرنا چاہتے ہیں۔ جو شخص قرآن کے بارے میں ایسا ایمان و یقین نہیں رکھتا وہ قرآن کریم سے کوئی ہدایت نہیں پا سکتا۔ نہ اس میں پھر اس کے لئے کوئی خوشخبری ہے اور نہ کوئی فائدہ۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن کریم کے اندر ہدایت و معرفت اور تحریک اور راہنمائی کے عظیم المقدار خزانے پڑے ہوئے ہیں لیکن ان خزانوں کے دروازے کھولنے کی چابی ایمان ہے۔ یہ خزانے اس چابی کے بغیر کھل نہیں سکتے۔ جو لوگ صحیح طرح ایمان لے ٓتے ہیں۔ ان ہاتھوں پر ، اس قرآن کے ذریعے ایسے عظیم کارنامے صادر ہوتے ہیں جس طرح پیغمبروں کے معجزات لیکن اگر قرآن کی حیثیت یہ ہوجائے کہ اسے گانے والے ترنم سے گائیں تو اس صورت میں قرآن صرف کانوں کے پردوں سے ٹکراتا ہے ، دلوں تک نہیں اترتا۔ اور اس صورت میں قرآن پھر کوئی تبدیلی نہیں لاتا اور اس سے کسی کو کوئی فائدہ نہ ہوگا اور اس کی حیثیت اس خزانے کی سی ہوئی ، جس کی چابی نہ ہو۔ اس سورت میں ان مومنین کی تعریف بھی کی گئی جن کے ہاتھ میں قرآن کے خزانوں تک پہنچنے کی چابی ہوتی ہے ، یہ لوگ ایسے ہوتے ہیں۔