Surat un Namal

Surah: 27

Verse: 26

سورة النمل

اَللّٰہُ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ رَبُّ الۡعَرۡشِ الۡعَظِیۡمِ ﴿ٛ۲۶﴾

Allah - there is no deity except Him, Lord of the Great Throne."

اسکے سوا کوئی معبود برحق نہیں وہی عظمت والے عرش کا مالک ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah, La ilaha illa Huwa, the Lord of the Supreme Throne! means, He is the One to be called upon, Allah, He is the One other than Whom there is no god, the Lord of the Supreme Throne, and there is none greater than Him in all of creation. Since the hoopoe was calling to what is good, and for people to worship and prostrate to Allah alone, it would have been forbidden to kill him. Imam Ahmad, Abu Dawud and Ibn Majah recorded that Abu Hurayrah, may Allah be pleased with him, said that: the Prophet forbade killing four kinds of animals: ants, bees, hoopoes and the sparrow hawks. Its chain of narration is Sahih.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٧] ہدہد نے ملکہ سبا کے متعلق یہ یقینی خبر دی تھی کہ اس کا عرش عظیم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا عرش عظیم تو صرف اللہ کا ہے۔ اس کے عرش کے مقابلہ میں کسی کا تخت عظیم نہیں ہوسکتا۔ نہ ہی اللہ کے مقابلہ میں آفتاب یا دوسری اشیاء کو الٰہ کہا جاسکتا ہے۔ یا کسی ایسی چیز کو سجدہ کیا جاسکتا ہے۔ اس مقام پر سجدہ کرنا واجب ہے۔ جس سے مقصود یہ ہے کہ ایک مومن اپنے آپ کو ان آفتاب پرستوں سے جدا کرے جو سورج کو سجدہ کرتے ہیں اور اپنے عمل سے یہ ظاہر کرے کہ وہ آفتاب کو نہیں بلکہ صرف اللہ تعالیٰ کو ہی اپنا معبودو مسجود تسلیم کرتا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَللّٰهُ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ ۔۔ : یہ توحید کی تیسری دلیل ہے کہ وہ عرش عظیم کا رب ہے۔ مالک تو وہ کائنات کی ہر چیز کا ہے، لیکن یہاں صرف عرش عظیم کا ذکر کیا۔ ایک تو اس لیے کہ عرش الٰہی کائنات کی سب سے بڑی چیز اور سب سے برتر ہے۔ دوسرا یہ واضح کرنے کے لیے کہ ملکہ سبا کا تخت شاہی بھی گو بہت بڑا ہے، مگر اسے عرش عظیم سے کوئی نسبت نہیں، جس پر اللہ تعالیٰ اپنی شان کے مطابق مستوی ہے۔ یہاں ہد ہد کا کلام ختم ہوا۔ بعض مفسرین نے ان دو آیات کو اللہ تعالیٰ کا کلام قرار دیا ہے، جو اللہ تعالیٰ نے ہد ہد کے کلام کے بعد توحید کی تعلیم کے لیے فرمایا ہے۔ ابن عباس (رض) نے فرمایا : ( إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ نَھٰی عَنْ قَتْلِ أَرْبَعٍ مِنَ الدَّوَابِّ : النَّمْلَۃُ وَالنَّحْلَۃُ وَالْھُدْھُدُ وَالصُّرَدُ ) [ أبوداوٗد، الأدب، باب في قتل الذر : ٥٢٦٧ ] ” نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چار جانوروں کو قتل کرنے سے منع فرمایا ہے، چیونٹی، شہد کی مکھی، ہد ہد اور صُرَد (لٹورا) کو۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَللہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَرَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيْمِ۝ ٢ ٦۞ رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔ عرش العَرْشُ في الأصل : شيء مسقّف، وجمعه عُرُوشٌ. قال تعالی: وَهِيَ خاوِيَةٌ عَلى عُرُوشِها[ البقرة/ 259] والعَرْشُ : شبهُ هودجٍ للمرأة شبيها في الهيئة بِعَرْشِ الکرمِ ، وعَرَّشْتُ البئرَ : جعلت له عَرِيشاً. وسمّي مجلس السّلطان عَرْشاً اعتبارا بعلوّه . قال : وَرَفَعَ أَبَوَيْهِ عَلَى الْعَرْشِ [يوسف/ 100] ( ع رش ) العرش اصل میں چھت والی چیز کو کہتے ہیں اس کی جمع عروش ہے ۔ قرآن میں ہے : وَهِيَ خاوِيَةٌ عَلى عُرُوشِها[ البقرة/ 259] اور اس کے مکانات اپنی چھتوں پر گرے پڑے تھے ۔ العرش چھولدادی جس کی ہیت انگور کی ٹٹی سے ملتی جلتی ہے اسی سے عرشت لبئر ہے جس کے معنی کو یں کے اوپر چھولداری سی بنانا کے ہیں بادشاہ کے تخت کو بھی اس کی بلندی کی وجہ سے عرش کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَرَفَعَ أَبَوَيْهِ عَلَى الْعَرْشِ [يوسف/ 100] اور اپنے والدین کو تخت پر بٹھایا ۔ عظیم وعَظُمَ الشیء أصله : كبر عظمه، ثم استعیر لكلّ كبير، فأجري مجراه محسوسا کان أو معقولا، عينا کان أو معنی. قال : عَذابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ [ الزمر/ 13] ، قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ [ ص/ 67] ، ( ع ظ م ) العظم عظم الشئی کے اصل معنی کسی چیز کی ہڈی کے بڑا ہونے کے ہیں مجازا ہر چیز کے بڑا ہونے پر بولا جاتا ہے خواہ اس کا تعلق حس سے یو یا عقل سے اور عام اس سے کہ وہ مادی چیز ہو یا معنو ی قرآن میں ہے : ۔ عَذابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ [ الزمر/ 13] بڑے سخت دن کا عذاب ) تھا ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ [ ص/ 67] کہہ دو کہ وہ ایک سخت حادثہ ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

35 This is one of those verses of the Qur'an, whose recital makes it obligatory for one to perform a Sajdah (prostration), and there is a consensus on this of the Muslim jurists. The object of performing a Sajdah here is that a believer should set himself apart from the sun-worshippers and should decalre by his action that he does not regard the sun but Allah Almighty alone as his Deity and Lord.

سورة النمل حاشیہ نمبر : 35 اس مقام پر سجدہ واجب ہے ، یہ قرآن کے ان مقامات میں سے ہے جہاں سجدہ تلاوت واجب ہونے پر فقہاء کا اتفاق ہے ، یہاں سجدہ کرنے سے مقصود یہ ہے کہ ایک مومن اپنے آپ کو آفتاب پرستوں سے جدا کرے اور اپنے عمل سے اس بات کا اقرار و اظہار کرے کہ وہ آفتاب کو نہیں بلکہ صرف اللہ تعالی ہی کو اپنا مسجود و معبود مانتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

یہ سجدے کی آیت ہے، جو کوئی شخص عربی میں یہ آیت پڑھے یا سنے اُس پر سجدۂ تلاوت واجب ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

5 ۔ اس کے عرش کے سامنے کسی بڑی سے بڑی چیز کی کوئی حقیقت نہیں… اس آیت پر ہد ہد کی تقریر ختم ہوئی۔ اس نے چونکہ خالص توحید کی دعوت دی اس لئے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسلمانوں کو اس کے مارنے سے منع فرمایا۔ ابو دائود کی ایک صحیح روایت میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شہد کی مکھی، چیونٹی اور ہد ہد کے مارنے سے منع فرمایا۔ (قرطبی۔ ابن کثیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

25:۔ جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ عالم الغیب اور کارساز اللہ تعالیٰ ہی ہے تو معلوم ہوا کہ پکارنے کے لائق بھی وہی ہے اور کوئی نہیں۔ ہدہد نے یہ ثمرہ اپنی دلیل عقلی پر بیان کیا ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(26) اللہ تعالیٰ کی ہی ذات ایسی ہے کہ اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور وہی عرش عظیم یعنی بڑے تخت کا مالک ہے چونکہ اوپر بلقیس کے تخت کا ذکر کیا تھا اس لئے اللہ تعالیٰ کے عرش عظیم کا ذکر کیا اور یہ واقعہ ہے کہ بلقیس کے تخت کو عرش الٰہی سے کوئی نسبت نہیں۔