Surat un Namal

Surah: 27

Verse: 33

سورة النمل

قَالُوۡا نَحۡنُ اُولُوۡا قُوَّۃٍ وَّ اُولُوۡا بَاۡسٍ شَدِیۡدٍ ۬ ۙ وَّ الۡاَمۡرُ اِلَیۡکِ فَانۡظُرِیۡ مَاذَا تَاۡمُرِیۡنَ ﴿۳۳﴾

They said, "We are men of strength and of great military might, but the command is yours, so see what you will command."

ان سب نے جواب دیا کہ ہم طاقت اور قوت والے سخت لڑنے بھڑنے والے ہیں آگے آپ کو اختیار ہے آپ خود ہی سوچ لیجئے کہ ہمیں آپ کیا کچھ حکم فرماتی ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

قَالُوا نَحْنُ أُوْلُوا قُوَّةٍ وَأُولُوا بَأْسٍ شَدِيدٍ ... They said: "We have great strength, and great ability for war..." They reminded her of their great numbers, preparedness and strength, then they referred the matter to her and said: ... وَالاْاَمْرُ إِلَيْكِ فَانظُرِي مَاذَا تَأْمُرِينَ but it is for you to command; so think over what you will command. meaning, `we have the power and strength, if you want to go to him and fight him.' The matter is yours to decide, so instruct us as you see fit and we will obey.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

331یعنی ہمارے پاس قوت اور اسلحہ بھی ہے اور لڑائی کے وقت نہایت پا مردی سے لڑنے والے بھی ہیں، اس لئے جھکنے اور دبنے کی ضرورت نہیں ہے۔ 332اس لئے کہ ہم تو آپ کے تابع ہیں، جو حکم ہوگا، بجا لائیں گے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٠] ملکہ کے مشیروں اور درباری لوگوں نے وہی جواب دیا جو عام طور پر درباری لوگ دیا کرتے ہیں۔ یہ وہ اپنے ذہن پر بار دال کر کوئی دانشمندانہ جواب دینے کے عادی ہوتے ہیں اور نہ وہ اپنے سر کوئی ذمہ داری لینا چاہتے ہیں۔ وہ صرف جی حضور کہنا اور اپنے آپ کو حکم کے بندے ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ اور یہی کچھ ان لوگوں نے بھی کیا۔ کہ ہماری خدمات حاضر ہیں۔ ہم زور آور بھی اور لڑائی کا فن بھی خوب جانتے ہیں۔ تاہم یہ فیصلہ کرنا کہ سلیمان سے جنگ کرنی چاہئے یا مطیع فرمان بن جانا چاہئے۔ آپ ہی کی صوابدید پر منحصر ہے۔ گویا ملکہ کو اپنے مشیروں سے مشورہ کرنے کا کوئی خاص فائدہ نہ ہوا ماسوائے اس کے کہ اگر ملکہ مقابلہ کا ارادہ رکھتی ہو تو انہوں نے اپنی وفاداریوں کا اسے یقین دلا دیا۔ البتہ اس سے یہ بات ضمناً معلوم ہوجاتی ہے کہ سبا میں اگرچہ شاہی نظام رائج تھا تاہم یہ استبدادی نظام نہ تھا۔ بلکہ فرمانروا اہم معاملات میں اپنے مشیروں سے مشورہ کرنا ضروری سمجھتے تھے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قَالُوْا نَحْنُ اُولُوْا قُوَّةٍ ۔۔ : سرداروں نے متفقہ طور پر جواب دیا کہ ہم بڑی قوت والے اور سخت جنگجو ہیں، یعنی اسلحہ، فوج اور تیاری ہر لحاظ سے پورے ہیں، مگر ہم آپ کے حکم کے بغیر کچھ بھی کرنے والے نہیں، آپ غور و فکر کرلیں کہ کیا حکم دیتی ہیں، ہم آپ کی اطاعت کریں گے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالُوْا نَحْنُ اُولُوْا قُوَّۃٍ وَّاُولُوْا بَاْسٍ شَدِيْدٍ۝ ٠ۥۙ وَّالْاَمْرُ اِلَيْكِ فَانْظُرِيْ مَاذَا تَاْمُرِيْنَ۝ ٣٣ قوی القُوَّةُ تستعمل تارة في معنی القدرة نحو قوله تعالی: خُذُوا ما آتَيْناكُمْ بِقُوَّةٍ [ البقرة/ 63] ( ق وو ) القوۃ یہ کبھی قدرت کے معنی میں اسرعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ خُذُوا ما آتَيْناكُمْ بِقُوَّةٍ [ البقرة/ 63] اور حکم دیا کہ جو کتاب ہم نے تم کو دی اس کو زور سے پکڑے رہو ۔ نظر النَّظَرُ : تَقْلِيبُ البَصَرِ والبصیرةِ لإدرَاكِ الشیءِ ورؤيَتِهِ ، وقد يُرادُ به التَّأَمُّلُ والفَحْصُ ، وقد يراد به المعرفةُ الحاصلةُ بعد الفَحْصِ ، وهو الرَّوِيَّةُ. يقال : نَظَرْتَ فلم تَنْظُرْ. أي : لم تَتَأَمَّلْ ولم تَتَرَوَّ ، وقوله تعالی: قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس/ 101] أي : تَأَمَّلُوا . والنَّظَرُ : الانْتِظَارُ. يقال : نَظَرْتُهُ وانْتَظَرْتُهُ وأَنْظَرْتُهُ. أي : أَخَّرْتُهُ. قال تعالی: وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود/ 122] ، ( ن ظ ر ) النظر کے معنی کسی چیز کو دیکھنے یا اس کا ادراک کرنے کے لئے آنکھ یا فکر کو جو لانی دینے کے ہیں ۔ پھر کبھی اس سے محض غو ر وفکر کرنے کا معنی مراد لیا جاتا ہے اور کبھی اس معرفت کو کہتے ہیں جو غور وفکر کے بعد حاصل ہوتی ہے ۔ چناچہ محاور ہ ہے ۔ نظرت فلم تنظر۔ تونے دیکھا لیکن غور نہیں کیا ۔ چناچہ آیت کریمہ : قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس/ 101] ان کفار سے کہو کہ دیکھو تو آسمانوں اور زمین میں کیا کیا کچھ ہے ۔ اور النظر بمعنی انتظار بھی آجاتا ہے ۔ چناچہ نظرتہ وانتظرتہ دونوں کے معنی انتظار کرنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود/ 122] اور نتیجہ اعمال کا ) تم بھی انتظار کرو ۔ ہم بھی انتظار کرتے ہیں أمر الأَمْرُ : الشأن، وجمعه أُمُور، ومصدر أمرته : إذا کلّفته أن يفعل شيئا، وهو لفظ عام للأفعال والأقوال کلها، وعلی ذلک قوله تعالی: إِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ [هود/ 123] ( ا م ر ) الامر ( اسم ) کے معنی شان یعنی حالت کے ہیں ۔ اس کی جمع امور ہے اور امرتہ ( ن ) کا مصدر بھی امر آتا ہے جس کے معنی حکم دینا کے ہیں امر کا لفظ جملہ اقوال وافعال کے لئے عام ہے ۔ چناچہ آیات :۔ { وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ } ( سورة هود 123) اور تمام امور کا رجوع اسی طرف ہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣٣) وہ لوگ کہن لگے ہم ہتھیاروں کے اعتبار سے بڑے طاقتور ہیں اور لڑنے والے بھی ہیں باقی جیسی آپ کی رائے ہو آپ جیسا ہمیں حکم دیں ہم اس کی بجا آوری کے لیے تیار ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(27:33) اولوا۔ والے۔ جمع ہے اس کا واحد نہیں آتا۔ اولوا بحالت رفع اولی بحالت نصب وجر۔ اولوا قوۃ طاقت والے۔ صاحب قوت۔ اولوا باس : باس بمعنی لڑائی۔ جنگ کی شدت۔ سختی۔ بڑے بڑے لڑنے والے۔ بڑے جنگ جو۔ بڑے شجاع۔ بہادر۔ الامر الیک فیصلہ امر تمہارے اختیار میں ہے۔ انظری امر واحدمؤنث حاضر۔ تو دیکھ۔ تو دیکھ لے۔ تو غور کر۔ تو غور کرلے ۔ تو سوچ لے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

قالوا ……تامرین (٢٣) اب یہاں اس عورت کی اصل شخصیت سامنے آئی ہے۔ یہ ملکہ سبا کی صورت میں ہے۔ ہر عورت تباہی اور بربادی کو فطرتاً ناپسند کرتی ہے۔ چناچہ وہ سیاست اور تدبیر کے ہتھیار کو جنگی ساز و سامان سے پہلے آزمانا چاہتی ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(33) اہل دربار نے کہا ہم پورے طاقتور اور صاحب قوت ہیں اور بڑے جنگ جو اور لڑنے والے ہیں اور حکم دینے کا اختیار آپ کو حاصل ہے لہٰذا اب آپ غور کرلیں جو حکم ہم کو دیناچا ہیں یعنی جہاں تک لڑائی کات علق ہے اور دشمن سے مقابلہ کا معاملہ ہے اس کے لئے ہم بالکل آمادہ اور تیار ہیں اور سازو سامان سے بالکل لیس ہیں لیکن جہاں تک جنگ کا حکم دینا اور میدان جنگ میں نکلنے کا معاملہ ہے وہ آپ کے اختیار میں ہے لہٰذا آپ اپنی مصلحت دیکھ لیں کہ آپ کیا حکم کرتی ہیں۔