Surat un Namal

Surah: 27

Verse: 42

سورة النمل

فَلَمَّا جَآءَتۡ قِیۡلَ اَہٰکَذَا عَرۡشُکِ ؕ قَالَتۡ کَاَنَّہٗ ہُوَ ۚ وَ اُوۡتِیۡنَا الۡعِلۡمَ مِنۡ قَبۡلِہَا وَ کُنَّا مُسۡلِمِیۡنَ ﴿۴۲﴾

So when she arrived, it was said [to her], "Is your throne like this?" She said, "[It is] as though it was it." [Solomon said], "And we were given knowledge before her, and we have been Muslims [in submission to Allah ].

پھر جب وہ آگئی تو اس سے کہا ( دریافت کیا ) گیا کہ ایسا ہی تیرا ( بھی ) تخت ہے؟ اس نے جواب دیا کہ یہ گویا وہی ہے ہمیں اس سے پہلے ہی علم دیا گیا تھا اور ہم مسلمان تھے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

فَلَمَّا جَاءتْ قِيلَ أَهَكَذَا عَرْشُكِ ... So when she came, it was said: "Is your throne like this'!' Her throne, which had been altered and disguised, with some things added and others taken away, was shown to her. She was wise and steadfast, intelligent and strong-willed. She did not hasten to say that this was her throne, because it was far away from her. Neither did she hasten to say that it was not her throne, when she saw that some things had been altered and changed. ... قَالَتْ كَأَنَّهُ هُوَ ... She said: (It is) as though it were the very same. This is the ultimate in intelligence and strong resolve. ... وَأُوتِينَا الْعِلْمَ مِن قَبْلِهَا وَكُنَّا مُسْلِمِينَ Knowledge was bestowed on us before her, and we had submitted to Allah. Mujahid said, "This was spoken by Suleiman." وَصَدَّهَا مَا كَانَت تَّعْبُدُ مِن دُونِ اللَّهِ إِنَّهَا كَانَتْ مِن قَوْمٍ كَافِرِينَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

421ردو بدل سے چونکہ اس کی وضع شکل میں کچھ تبدیلی آگئی تھی، اس لئے اس نے صاف الفاظ میں اس کے اپنے ہونے کا اقرار بھی نہیں کیا اور ردو بدل کے باوجود انسان پھر بھی اپنی چیز کو پہچان لیتا ہے، اس لئے اپنے ہونے کی نفی بھی نہیں کی۔ اور یہ کہا ' گویا یہ وہی ہے ' اس میں اقرار ہے نہ نفی۔ بلکہ نہایت محتاط جواب ہے۔ 422یعنی یہاں آنے سے قبل ہی ہم سمجھ گئے تھے کہ آپ اللہ کے نبی ہیں اور آپ کے مطیع و منقاد ہوگئے تھے۔ لیکن امام ابن کثیر و شوکانی وغیرہ نے اسے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا قول قرار دیا ہے کہ ہمیں پہلے ہی یہ علم دے دیا گیا تھا کہ ملکہ سبا تابع فرمان ہو کر حاضر خدمت ہوگی۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤٠] بلقیس جب حضرت سلیمان کے دربار میں پہنچی تو اسے تخت دکھا کر پہلا سوال ہی یہ کیا گیا کہ کیا تمہارے پاس بھی ایسا تخت ہے ؟ وہ بڑی عقلمند عورت تھی اس نے فوراً پہچان لیا کہ یہ تخت اسی کا ہے۔ البتہ اس میں کچھ تبدیلیاں کر لیگئی ہیں۔ لہذا اس نے جواب بی سوال کے مطابق دیتے ہوئے کہا کہ یہ تو بالکل ویسا ہی لگتا ہے اگر اس سے یہ سوال کیا جاتا کہ کیا یہ تیرا تخت ہے۔ تب وہ یہ جواب دیتی کہ ہاں یہ میرا ہی تخت ہے۔ اس امتحان سے حصرت سلیمان نے اس کے عقلمند ہونے کا اندازہ کرلیا۔ اس سوال کے بعد جو بات سلیمان (علیہ السلام) اسے سمجھانا چاہتے تھے اس کا اس نے خود ہی اظہار کردیا اور کہنے لگی۔ یہ عرش کے یہاں لانے کا کام واقعی معجزانہ ہے جو آپ کی نبوت پر دلیل ہے۔ لیکن ہمیں تو اس سے پہلے ہی آپ کے متعلق بہت کچھ معلومات حاصل ہوچکی ہیں۔ اور آپ کے تابع فرمان بن کر ہی یہاں آئے ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَلَمَّا جَاۗءَتْ قِيْلَ اَهٰكَذَا عَرْشُكِ ۔۔ : جب ملکہ سبا آئی تو سلیمان (علیہ السلام) نے اس سے پوچھا : ” کیا تیرا تخت ایسا ہی ہے ؟ “ سلیمان (علیہ السلام) کے سوال میں ان کی کمال ذہانت ظاہر ہو رہی ہے، انھوں نے یہ نہیں فرمایا کہ کیا یہ تمہارا تخت ہے ؟ کیونکہ اس میں جواب کا بھی اشارہ ہوجاتا اور وہ کہہ دیتی کہ ہاں ! یہ میرا ہی تخت ہے۔ اس کے بجائے سلیمان (علیہ السلام) نے موجودہ تخت کو الگ تخت ظاہر کیا اور پوچھا : ” کیا تمہارا تخت ایسا ہی ہے ؟ “ ملکہ کے جواب سے اس کی عقل مندی معلوم ہوتی ہے، اگر وہ کہتی کہ ہاں میرا تخت ایسا ہی ہے تو ثابت ہوجاتا کہ اس نے اپنا تخت نہیں پہچانا اور اگر کہتی کہ یہ وہی ہے تو شناخت بدلنے کی وجہ سے اسے ایسا کہنا مشکل تھا، اس لیے اس نے تھوڑے سے شک کے الفاظ کے ساتھ کہا : ” یہ تو گویا وہی ہے۔ “ اس طرح وہ امتحان میں کامیاب ہوگئی۔ وَاُوْتِيْنَا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِهَا وَكُنَّا مُسْلِمِيْنَ : یعنی ہمیں تو اس سے پہلے ہی آپ کی قوت و شوکت اور عظیم سلطنت کا علم ہوگیا تھا اور ہم تابع فرمان ہوچکے تھے، اسی لیے خدمت میں حاضر ہوگئے ہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر (سلیمان (علیہ السلام) نے یہ سب سامان کر رکھا تھا، پھر بلقیس پہنچی) سو جب بلقیس آئی تو اس سے (تخت دکھا کر) کہا گیا (خواہ سلیمان (علیہ السلام) نے خود کہا ہو یا کسی سے کہلوایا ہو) کہ کیا تمہارا تخت ایسا ہی ہے ؟ وہ کہنے لگی کہ ہاں ہے تو ویسا ہی (بلقیس سے اس طور پر اس لئے سوال کیا کہ ہیئت تو بدل دی گئی تھی اپنی اصل کے اعتبار سے تو وہی تخت تھا اور صورت وہ نہ تھی۔ اس لئے یوں نہیں کہا کہ کیا یہی تمہارا تخت ہے بلکہ یہ کہا کہ ایسا ہی تمہارا تخت ہے اور بلقیس اس کو پہچان گئی اور اس کے بدل دینے کو بھی سمجھ گئی اس لئے جواب بھی مطابق سوال کے دیا) اور (یہ بھی کہا کہ) ہم لوگوں کو تو اس واقعہ سے پہلے ہی (آپ کی نبوت کی) تحقیق ہوچکی ہے اور ہم (اسی وقت سے دل سے) مطیع ہوچکے ہیں (جب قاصد سے آپ کے کمالات معلوم ہوئے تھے اس معجزہ کی چنداں حاجت نہ تھی) اور (چونکہ اس معجزہ سے قبل تصدیق و اعتقاد کرلینا کمال عقل کی دلیل ہے اس لئے اللہ تعالیٰ اس کے عاقل ہونے کی تقریر فرماتے ہیں کہ فی الواقع وہ تھی سمجھدار مگر چند روز تک جو ایمان نہ لائی تو وجہ اس کی یہ ہے کہ) اس کو (ایمان لانے سے) غیر اللہ کی عبادت نے (جس کی اس کو عادت تھی) روک رکھا تھا (ور وہ عادت اس لئے پڑگئی تھی کہ) وہ کافر قوم میں کی تھی (پس جو سب کو دیکھا وہی آپ کرنے لگی اور قومی عادات اکثر اوقات انسان کے سوچنے سمجھنے میں رکاوٹ بن جاتی ہیں مگر چونکہ عاقل تھی اس لئے جب تنبیہ کی گئی تو سمجھ گئی۔ اس کے بعد سلیمان (علیہ السلام) نے یہ چاہا کہ علاوہ اعجاز و شان نبوت دکھلانے کے اس کو ظاہری شان سلطنت بھی دکھلا دی جائے تاکہ اپنے کو دنیا کے اعتبار سے بھی عظیم نہ سمجھے اس لئے ایک شیش محل بنوا کر اس کے صحن میں حوض بنوایا اور اس میں پانی اور مچھلیاں بھر کر اس کو شیشہ سے پاٹ دیا۔ اور شیشہ ایسا شفاف تھا کہ ظاہر نظر میں نظر نہ آتا تھا اور وہ حوض ایسے موقع پر تھا کہ اس محل میں جانے والے کو لامحالہ اس پر سے عبور کرنا پڑے۔ چناچہ اس تمام سامان کے بعد) بلقیس سے کہا گیا کہ اس محل میں داخل ہو (ممکن ہے وہی محل قیام کے لئے تجویز کیا ہو، غرض وہ چلیں راہ میں حوض آیا) تو جب اس کا صحن دیکھا تو اس کو پانی (سے بھرا ہوا) سمجھا اور (چونکہ قرینہ سے پایاب گمان کیا اس لئے اس کے اندر گھسنے کے لئے (دامن اٹھائے اور) اپنی دونوں پنڈلیاں کھول دیں (اس وقت) سلیمان (علیہ السلام) نے فرمایا کہ یہ تو محل ہے جو (سب کا سب مع صحن) شیشوں سے بنایا گیا ہے (اور یہ حوض بھی شیشہ سے پٹا ہوا ہے۔ دامن اٹھانے کی ضرورت نہیں اس وقت) بلقیس (کو معلوم ہوگیا کہ یہاں پر دنیوی صنعت کاری کے عجائب بھی ایسے ہیں جو آج تک میں نے آنکھ سے نہیں دیکھے تو ان کے دل میں ہر طرح سے سلیمان (علیہ السلام) کی عظمت پیدا ہوئی اور بےساختہ) کہنے لگی کہ اے میرے پروردگار میں نے (اب تک) اپنے نفس پر ظلم کیا تھا (کہ شرک میں مبتلا تھی) اور میں (اب) سلمان (علیہ السلام) کے ساتھ (یعنی ان کے طریق پر) ہو کر رب العالمین پر ایمان لائی۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَلَمَّا جَاۗءَتْ قِيْلَ اَہٰكَذَا عَرْشُكِ۝ ٠ۭ قَالَتْ كَاَنَّہٗ ہُوَ۝ ٠ۚ وَاُوْتِيْنَا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِہَا وَكُنَّا مُسْلِـمِيْنَ۝ ٤٢ عرش العَرْشُ في الأصل : شيء مسقّف، وجمعه عُرُوشٌ. قال تعالی: وَهِيَ خاوِيَةٌ عَلى عُرُوشِها[ البقرة/ 259] والعَرْشُ : شبهُ هودجٍ للمرأة شبيها في الهيئة بِعَرْشِ الکرمِ ، وعَرَّشْتُ البئرَ : جعلت له عَرِيشاً. وسمّي مجلس السّلطان عَرْشاً اعتبارا بعلوّه . قال : وَرَفَعَ أَبَوَيْهِ عَلَى الْعَرْشِ [يوسف/ 100] ( ع رش ) العرش اصل میں چھت والی چیز کو کہتے ہیں اس کی جمع عروش ہے ۔ قرآن میں ہے : وَهِيَ خاوِيَةٌ عَلى عُرُوشِها[ البقرة/ 259] اور اس کے مکانات اپنی چھتوں پر گرے پڑے تھے ۔ العرش چھولدادی جس کی ہیت انگور کی ٹٹی سے ملتی جلتی ہے اسی سے عرشت لبئر ہے جس کے معنی کو یں کے اوپر چھولداری سی بنانا کے ہیں بادشاہ کے تخت کو بھی اس کی بلندی کی وجہ سے عرش کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَرَفَعَ أَبَوَيْهِ عَلَى الْعَرْشِ [يوسف/ 100] اور اپنے والدین کو تخت پر بٹھایا ۔ إِيتاء : الإعطاء، [ وخصّ دفع الصدقة في القرآن بالإيتاء ] نحو : وَأَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ [ البقرة/ 277] ، وَإِقامَ الصَّلاةِ وَإِيتاءَ الزَّكاةِ [ الأنبیاء/ 73] ، ووَ لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً [ البقرة/ 229] ، ووَ لَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمالِ [ البقرة/ 247] الایتاء ( افعال ) اس کے معنی اعطاء یعنی دینا اور بخشنا ہے ہیں ۔ قرآن بالخصوص صدقات کے دینے پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا :۔ { وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ } [ البقرة : 277] اور نماز پڑہیں اور زکوۃ دیں { وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ } [ الأنبیاء : 73] اور نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کا حکم بھیجا { وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ } ( سورة البقرة 229) اور یہ جائز نہیں ہے کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو { وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ } [ البقرة : 247] اور اسے مال کی فراخی نہیں دی گئی

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤٢) چناچہ جب بلقیس آئیں تو حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے ان کو تخت دکھا کر فرمایا کہ کیا تمہارا تخت ایسا ہی ہے وہ کہنے لگیں ہاں ہے تو ایسا ہی اور ہمیں تو اس واقعہ سے پہلے ہی آپ کی نبوت کی تحقیق ہوگئی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٢ (فَلَمَّا جَآءَ تْ قِیْلَ اَہٰکَذَا عَرْشُکِط قَالَتْ کَاَنَّہٗ ہُوَ ج) ” چنانچہ اس نے اپنے تخت کو پہچان لیا۔ یعنی وہ واقعی ایک ذہین اور سمجھ دار عورت تھی۔ اس سے پہلے آیت ٤٣ میں فاتح بادشاہوں کے بارے میں اس کا تبصرہ بھی اس کی ذہانت اور دانش مندی کا ثبوت ہے۔ (وَاُوْتِیْنَا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِہَا وَکُنَّا مُسْلِمِیْنَ ) ” یعنی میرے تخت کا یہاں پہنچ جانا اب میرے لیے کوئی بہت بڑی حیرت کی بات نہیں۔ آپ ( علیہ السلام) کا اللہ کے ہاں جو مقام و مرتبہ ہے اس کے بارے میں مجھے بہت پہلے ہی علم ہوچکا ہے اور اسی وجہ سے ہم مسلمان ہو کر آپ ( علیہ السلام) کی اطاعت قبول کرچکے ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

52 This also refutes the speculations of those people who depict the event in :t manner as though the Prophet Solomon wanted to have u throne made for the queen and for this purpose he invited tenders and a strong, robust artisan offered to make hint a throne in the matter of a few hours, but ,n expert craftsman submitted that he could make and produce it in no time. This w hole guess-work is destroyed by the tact that Solomon himself ordered the throne to be fetched before him (v. 381,, and when it had been fetched, ordered his servants to set it before the queen casually Iv. 41), and then when she arrived, she was asked whetlter her throne was like that (v. 42), and she answered, "It is just the same." Obviously, there could he no room for the absurd interpretations in the face of such a clear statement of facts. If there is still any doubt left, it can be satisfied by the next sentence. 53 That is, "Even before we saw this miracle we had been convinced by what we had heard of Solomon (peace be upon him) that he was a Prophet of Allah, and not merely a ruler of a kingdom." After seeing the throne and saying, "It is just the same", what could be the relevance of adding this sentence if it is supposed that the Prophet Solomon had got a throne manufactured and set the same before her? Even if it is supposed that no effort was spared to have a throne manufactured closely resembling the queen's what special excellence it could have to make a sun- worshipping queen exclaim "We had already known this and we had become Muslims!"

سورة النمل حاشیہ نمبر : 52 اس سے ان لوگوں کے خیالات کی بھی تردید ہوجاتی ہے جنہوں نے صورت واقعہ کا نقشہ کچھ اس طرح کھینچا ہے کہ گویا حضرت سلیمان اپنی مہمان ملکہ کے لیے ایک تخت بنوانا چاہتے تھے ، اس غرض کے لیے انہوں نے ٹینڈر طلب کیے ، ایک ہٹے کٹے کاریگر نے کچھ زیادہ مدت میں تخت بنا دینے کی پیش کش کی ، مگر ایک دوسرے ماہر استاد نے کہا میں ترت پھرت بنائے دیتا ہوں ، اس سارے نقشے کا تارو پود اس بات سے بکھر جاتا ہے کہ حضرت سلیمان نے خود ملکہ ہی کا تخت لانے کے لیے فرمایا تھا ( اَيُّكُمْ يَاْتِيْنِيْ بِعَرْشِهَا ) اور اس کی آمد پر اپنے ملازموں کو اسی کا تخت انجام طریقے سے اس کے سامنے پیش کرنے کا حکم دیا تھا ( نَكِّرُوْا لَهَا عَرْشَهَا ) پھر جب وہ آئ تو اس سے پوچھا گیا کہ کیا تیرا تخت ایسا ہی ہے ( اَهٰكَذَا عَرْشُكِ ) اور اس نے کہا گویا یہ وہی ہے ( كَاَنَّهٗ هُوَ ) اس صاف بیان کی موجودگی میں ان لا طائل تاویلات کی کیا گنجائش رہ جاتی ہے ، اس پر بھی کسی کو شک رہے تو بعد کا فقرہ اسے مطمئن کرنے کے لیے کافی ہے ۔ سورة النمل حاشیہ نمبر : 53 یعنی یہ معجزہ دیکھنے سے پہلے ہی سلیمان علیہ السلام کے جو اوصاف اور حالات ہمیں معلوم ہوچکے تھے ان کی بنا پر ہمیں یقین ہوگیا تھا کہ وہ اللہ کے نبی ہیں ، محض ایک سلطنت کے فرمانروا نہیں ہیں ، تخت کو دیکھنے اور گویا یہ وہی ہے کہنے کے بعد اس فقرے کا اضافہ کرنے میں آخر کیا معنویت باقی رہ جاتی ہے ، اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ حضرت سلیمان نے اس کے لیے ایک تخت بنوا کر رکھ دیا تھا ؟ بالفرض اگر وہ تخت ملکہ کے تخت سے مشابہ ہی تیار کرا لیا گیا ہو تب بھی اس میں آخر وہ کیا کمال ہوسکتا تھا کہ ایک آفتاب پرست ملکہ اسے دیکھ کر یہ بول اٹھتی کہ ( اُوْتِيْنَا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِهَا وَكُنَّا مُسْلِمِيْنَ ) ہم کو پہلے ہی علم نصیب ہوگیا تھا اور ہم مسلم ہوچکے تھے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

16: بلقیس سمجھ گئی کہ اس تخت کی شکل میں کچھ رد وبدل کیا گیا ہے اس لئے اس نے ایک طرف تو یقین ظاہر کرنے کے بجائے یہ کہا کہ ایسا لگتا ہے، لیکن دوسری طرف یہ بھی ظاہر کردیا کہ وہ اپنے تخت کو پہچان گئی ہے۔ 17: یعنی مجھے آپ کی سچائی کا یقین کرنے کے لئے یہ معجزہ دیکھنے کی ضرورت نہیں تھی، بلکہ آپ کے ایلچیوں کے ذریعے آپ کے جو حالات مجھے معلوم ہوئے تھے ان کی وجہ سے مجھے پہلے ہی آپ کی سچائی کا علم حاصل ہوگیا تھا اور ہم نے آپ کی تابع داری میں سرجھکانے کا ارادہ کرلیا تھا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(27:42) اھکذا۔ ہمزہ استفہامیہ ھا حرف تنبیہ ک حرف تشبیہ ذا اسم اشارہ قریب مذکر کیا ایسا ہی ہے ؟ کیا اس کی طرح کا ہی ہے ؟ عرشک۔ تمہارا تخت۔ کانہ۔ کان حرف مشابہ بفعل ہ ضمیر واحد مذکر غائب کان کا اسم گریا کہ وہ۔ کانہ ھو گویا وہی ہے یعنی اسی کی طرح کا ہے۔ اوتینا۔ ماضی مجہول جمع متکلم۔ ہم کو دیا گیا۔ ہم کو ملا۔ ایتاء (افعال) مصدر۔ العلم : ای العلم بکمال قدرۃ اللہ تعالیٰ وصحۃ نبوتک۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ اور آپ کی نبوت کا علم (ہم کو پہلے ہی پہنچ چکا تھا) ۔ وکنا مسلمین اور ہم مسلمان ہوچکے ہیں ایمان لا چکے ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

2 ۔ نہ صاف طور پر اثبات میں جواب دیا اور نہ نفی میں بلکہ توقف کیا جو اس کی کمال دانشمندی کی دلیل ہے۔ (کبیر) عکرمہ (رح) کہتے ہیں کہ وہ بڑی دانا تھی اس نے اپنا تخت پہچان لیا لیکن چونکہ اس سے یہ پوچھا گیا تھا کہ کیا تیرا تخت بھی ایسا ہی ہے اس لئے اس نے جواب دیا کہ یہ تو گویا وہی ہے۔ اگر اس سے یہ پوچھا جاتا کہ کیا یہی تیرا تخت ہے تو وہ صاف طور ہاں میں جواب دیتی۔ (شوکانی) 3 ۔ کہ حضرت سلیمان ( علیہ السلام) اللہ کے نبی ہیں۔ اب یہ ایک اور نشانی دیکھنے میں آئی کہ اتنا بڑا تخت اتنے دور دراز ملک سے یوں منگوا لیا گیا۔ (کبیر) اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ حضرت سلیمان ( علیہ السلام) اور اس کے مصاحبین کا کلام ہو یعنی ہمیں پہلے ہی یہ معلوم ہوچکا تھا کہ تم بڑی عقلمند ہو اور یہی جواب دو گی۔ (کبیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : تخت کے بارے میں حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا ملکہ کو سوال اور اس کا جواب۔ جونہی ملکہ اپنے وزیروں اور مشیروں کے ساتھ شاہانہ انداز میں حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے پاس آئی تو حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اس کے تخت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے استفسار فرمایا۔ ” کیا آپ کا تخت اس طرح کا ہے ؟ “ اس نے کہا جی ہاں ! کیوں نہیں یہ وہی ہے ہمیں تو آپ کے بارے میں سب کچھ پہلے ہی معلوم ہوچکا ہے۔ اس لیے ہم تابعدار ہو کر آئے ہیں۔ تخت کی پہچان اور ملکہ کی گفتگو سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بڑی ہی دانا عورت تھی۔ جس نے سفارتی نمائندوں کے ذریعے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے کردار اور اقتدار کو سمجھ لیا اور فیصلہ کیا کہ اپنی قوم کو رسوا اور ملک کو تباہ کرنے کی بجائے۔ اس حکمران کے پاس پہنچ کر براہ راست مذاکرات کرنے چاہییں۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے پاس پہنچنے کے بعد اس نے اپنے تبدیل شدہ تخت کو پہچان لیا جس سے اسے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی قوت کا مزید اندازہ ہوا۔ اس کے ساتھ ہی اس نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی شکل و صورت اور پیغمبرانہ گفتگو اور حیادار انداز دیکھا تو اسے یقین ہوگیا یہ کوئی دنیا دار حکمران نہیں کہ جس نے محض کشور کشائی کے لیے مجھے دھمکی دی ہے یہ تو اللہ کا خاص بندہ ہے جو میری اور میری قوم کی ہدایت کے لیے کوشاں ہے۔ اس لیے ملکہ نے شاہانہ انداز کی بجائے عاجزانہ انداز میں حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی شخصیت اور ان کی دعوت کا اعتراف کیا اور اپنے مسلمان ہونے کا اظہار فرمایا۔ قرآن مجید نے اس کے بارے میں فرمایا ہے کہ وہ اللہ کے سوا سورج کی عبادت کرتی تھی کیونکہ اس نے کافر قوم میں پرورش پائی تھی۔ جو نہی اس کا ماحول تبدیل ہوا اور اسے عقیدہ توحید کی دعوت دی گئی تو اس نے اپنی بادشاہت کی پرواہ کیے بغیر مسلمان ہونے کا فیصلہ کیا۔ ماحول کے اثرات : (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کُلُّ مَوْلُودٍ یُولَدُ عَلَی الْفِطْرَۃِ فَأَبَوَاہُ یُہَوِّدَانِہٖ أَوْ یُنَصِّرَانِہٖ أَوْ یُمَجِّسَانِہٖ کَمَثَلِ الْبَہِیمَۃِ تُنْتَجُ الْبَہِیمَۃَ ہَلْ تَرٰی فیہَا جَدْعَاءَ ) [ رواہ البخاری : کتاب الجنائز، باب ماقیل فی أولاد المشرکین ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہر نو مولود فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے اس کے والدین اسے یہودی، عیسائی یا مجوسی بنا دیتے ہیں جس طرح جانور اپنے بچے کو جنم دیتا ہے تو کیا تم ان میں کسی کو مقطوع الاعضا پاتے ہو ؟ (عَنْ أَبِيْ مُوْسٰی (رض) عَنِ النَّبِيِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ مَثَلُ الْجَلِیْسِ الصَّالِحِِ وَالسُّوْءِ کَحَامِلِ الْمِسْکِ وَنَافِخِ الْکِیْرِ فَحَامِلُ الْمِسْکِ إِمَّآ أَنْ یُّحْذِیَکَ وَإِمَّآ أَنْ تَبْتَاعَ مِنْہُ وَإِمَّآ أَنْ تَجِدَ مِنْہُ رِیْحًاطَیِّبَۃً وَنَافِخُ الْکِیْرِ إِمَّآ أَنْ یُّحْرِقَ ثِیَابَکَ وَإِمَّا أَنْ تَجِدَ رِیْحًاخَبِیْثَۃً ) [ رواہ البخاری : کتاب الذبائح والصید، باب المسک ] ” حضرت ابوموسیٰ (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان فرماتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : اچھے اور برے ساتھی کی مثال کستوری بیچنے والے اور بھٹی پھونکنے والے کی طرح ہے۔ کستوری بیچنے والا یا تو تجھے تحفہ دے گا یا تو اس سے خریدلے گا یا تو اس سے اچھی خوشبو پائے گا۔ بھٹی پھونکنے والا یا تو تمہارے کپڑوں کو جلا دے گا یا تو اس سے دھواں کی بو محسوس کرے گا۔ “ مسائل ١۔ انسان کی ہدایت اور گمراہی میں ماحول کا بڑا اثر ہوتا ہے۔ ٢۔ ذہین اور عقلمند وہ شخص ہے جو حق کو پہچانے اور اسے تسلیم کرنے میں تاخیر نہ کرے۔ ٣۔ عقلمند کے لیے ایمان کے مقابلہ میں دنیا کے اقتدار اور اختیارات کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ ٤۔ مشرکانہ ماحول عقیدہ توحید سمجھنے اور ماننے میں بہت بڑی رکاوٹ ہوتا ہے۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

فلما جآءت قیل اھکذا عرشک قالت کانہ ھو یہ اس لئے ایک انوکھی اور غیر متوقع بات تھی۔ اس کی مملکت کہاں اور تخت کہاں اور وہ دیکھ رہی ہے۔ آخر محفوظ مقامات کے اندر زیر حراست تخت یہاں کس طرح آگیا ۔ جنوب یمن اور بیت المقدس کا فاصلہ یہ کیسے آگیا اور کون اسے لایا ہے۔ لیکن تھوڑی سی تبدیلی کے باوجود تخت تو اسی کا ہے لیکن وہ غیر متوقع ہونے ، حالاتی شہادت خلاف ہونے کی وجہ سے اور زیادہ تر علامات اصلی باقی رہنے کی وجہ سے وہ یوں کہتی ہے کہ ” گویا یہ وہی ہے۔ “ اس نے نہایت فراست اور عقلمندی سے یہ جواب دیا۔ جس میں نہ اس تخت کا اقرار ہے اور نہ انکار ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ان غیر متوقع حالات میں بھی دھوکہ نہیں کھاتی اور اعلیٰ درجے کی سفارتی زبان استعمال کرتی ہے۔ اب یہاں سیاق کلام میں ایک خلا ہے۔ گویا اسے حضرت سلیمان نے اطلاع کردی کہ یہ قوت ہے جس کے ذریعے ہم تمہارا تخت تم سے بھی پہلے لے آئے۔ تو اس کا جواب وہ دیتی ہے کہ ہم نے خود اپنے ہاں حالات کا جائزہ لے لیا تھا اور یہ عزم کرلیا تھا کہ ہم سلیمان کی اطاعت قبول کریں گے جب ہمارے ہدایا رد کردیئے گئے تھے۔ واو تینا العلم من قبلھا وکنا مسلمین (٢٤) اب قرآن کریم یہ بتاتا ہے کہ ملک سبا اپنی اس دانشمندی کے باوجود پھر حضرت سلیمان کے پہلے خط پر ایمان کیوں نہیں لائی۔ یہ اس لئے کہ یہ ایک کافر سوسائٹی میں پیدا ہوئی تھی۔ لہٰذا وہ بھی عام رواج کے مطابق اللہ کی بندگی کے بجائے سورج کی بندگی کرتی رہی۔ جیسا کہ ہد ہد کی رپورٹ سے ظاہر ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(وَاُوْتِیْنَا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِہَا وَکُنَّا مُسْلِمِیْنَ ) بعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ یہ ملکہ کا قول ہے اس نے اپنا تخت دیکھ کر کہا کہ میرے عرش کا آجانا حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی شوکت کی ایک نشانی ہے۔ اس نشانی کے ظاہر ہونے سے پہلے ہی ہم نے جان لیا تھا کہ وہ بڑی سلطنت اور دبدبہ والے ہیں اور ہم پہلے ہی سے ان کے فرمانبر دار بن گئے تھے، اور بعض حضرات کا قول ہے کہ یہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا قول ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں تو پہلے ہی معلوم تھا کہ وہ فرمانبر دار ہو کر آنے والے ہیں، ہم اللہ تعالیٰ کے فرمانبر دار ہیں وہ بھی ہمارے ساتھ اس وصف میں شریک ہوگئے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(42) پھر جب بلقیس حاضر ہوئی تو اس سے کہا گیا کیا تیرا تخت ایسا ہی ہے اس نے جواب دیا گویا ہوبہو وہی ہے کہنے لگی ہاں ہے تو ایسا ہی اور ہم لوگوں کو تو اس واقعہ سے پہلے معلوم اور تحقیق ہوچکا ہے اور ہم حکم بردار ہوچکے ہیں یعنی آپ کا حال پہلے ہی معلوم ہوچکا ہے کہ آپ صرف بادشاہ ہی نہیں ہیں بلکہ آپ کے پاس حکومت و نبوت دونوں چیزیں ہیں اس معجزے کی چنداں ضرورت نہ تھی ہم تو آپ کے کمالات کے پہلے ہی معترف اور آپ کے مطیع و منقاد ہیں۔ حضرت شاہ صاحب (رح) یعنی اس معجزے کی حاجت نہ تھی 12