52 This also refutes the speculations of those people who depict the event in :t manner as though the Prophet Solomon wanted to have u throne made for the queen and for this purpose he invited tenders and a strong, robust artisan offered to make hint a throne in the matter of a few hours, but ,n expert craftsman submitted that he could make and produce it in no time. This w hole guess-work is destroyed by the tact that Solomon himself ordered the throne to be fetched before him (v. 381,, and when it had been fetched, ordered his servants to set it before the queen casually Iv. 41), and then when she arrived, she was asked whetlter her throne was like that (v. 42), and she answered, "It is just the same." Obviously, there could he no room for the absurd interpretations in the face of such a clear statement of facts. If there is still any doubt left, it can be satisfied by the next sentence.
53 That is, "Even before we saw this miracle we had been convinced by what we had heard of Solomon (peace be upon him) that he was a Prophet of Allah, and not merely a ruler of a kingdom." After seeing the throne and saying, "It is just the same", what could be the relevance of adding this sentence if it is supposed that the Prophet Solomon had got a throne manufactured and set the same before her? Even if it is supposed that no effort was spared to have a throne manufactured closely resembling the queen's what special excellence it could have to make a sun- worshipping queen exclaim "We had already known this and we had become Muslims!"
سورة النمل حاشیہ نمبر : 52
اس سے ان لوگوں کے خیالات کی بھی تردید ہوجاتی ہے جنہوں نے صورت واقعہ کا نقشہ کچھ اس طرح کھینچا ہے کہ گویا حضرت سلیمان اپنی مہمان ملکہ کے لیے ایک تخت بنوانا چاہتے تھے ، اس غرض کے لیے انہوں نے ٹینڈر طلب کیے ، ایک ہٹے کٹے کاریگر نے کچھ زیادہ مدت میں تخت بنا دینے کی پیش کش کی ، مگر ایک دوسرے ماہر استاد نے کہا میں ترت پھرت بنائے دیتا ہوں ، اس سارے نقشے کا تارو پود اس بات سے بکھر جاتا ہے کہ حضرت سلیمان نے خود ملکہ ہی کا تخت لانے کے لیے فرمایا تھا ( اَيُّكُمْ يَاْتِيْنِيْ بِعَرْشِهَا ) اور اس کی آمد پر اپنے ملازموں کو اسی کا تخت انجام طریقے سے اس کے سامنے پیش کرنے کا حکم دیا تھا ( نَكِّرُوْا لَهَا عَرْشَهَا ) پھر جب وہ آئ تو اس سے پوچھا گیا کہ کیا تیرا تخت ایسا ہی ہے ( اَهٰكَذَا عَرْشُكِ ) اور اس نے کہا گویا یہ وہی ہے ( كَاَنَّهٗ هُوَ ) اس صاف بیان کی موجودگی میں ان لا طائل تاویلات کی کیا گنجائش رہ جاتی ہے ، اس پر بھی کسی کو شک رہے تو بعد کا فقرہ اسے مطمئن کرنے کے لیے کافی ہے ۔
سورة النمل حاشیہ نمبر : 53
یعنی یہ معجزہ دیکھنے سے پہلے ہی سلیمان علیہ السلام کے جو اوصاف اور حالات ہمیں معلوم ہوچکے تھے ان کی بنا پر ہمیں یقین ہوگیا تھا کہ وہ اللہ کے نبی ہیں ، محض ایک سلطنت کے فرمانروا نہیں ہیں ، تخت کو دیکھنے اور گویا یہ وہی ہے کہنے کے بعد اس فقرے کا اضافہ کرنے میں آخر کیا معنویت باقی رہ جاتی ہے ، اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ حضرت سلیمان نے اس کے لیے ایک تخت بنوا کر رکھ دیا تھا ؟ بالفرض اگر وہ تخت ملکہ کے تخت سے مشابہ ہی تیار کرا لیا گیا ہو تب بھی اس میں آخر وہ کیا کمال ہوسکتا تھا کہ ایک آفتاب پرست ملکہ اسے دیکھ کر یہ بول اٹھتی کہ ( اُوْتِيْنَا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِهَا وَكُنَّا مُسْلِمِيْنَ ) ہم کو پہلے ہی علم نصیب ہوگیا تھا اور ہم مسلم ہوچکے تھے ۔