Surat un Namal

Surah: 27

Verse: 45

سورة النمل

وَ لَقَدۡ اَرۡسَلۡنَاۤ اِلٰی ثَمُوۡدَ اَخَاہُمۡ صٰلِحًا اَنِ اعۡبُدُوا اللّٰہَ فَاِذَا ہُمۡ فَرِیۡقٰنِ یَخۡتَصِمُوۡنَ ﴿۴۵﴾

And We had certainly sent to Thamud their brother Salih, [saying], "Worship Allah ," and at once they were two parties conflicting.

یقیناً ہم نے ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا کہ تم سب اللہ کی عبادت کرو پھر بھی وہ دو فریق بن کر آپس میں لڑنے جھگڑنے لگے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Salih and Thamud Allah tells: وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا إِلَى ثَمُودَ أَخَاهُمْ صَالِحًا أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ ... And indeed We sent to Thamud their brother Salih, (saying): "Worship Allah." Allah tells us about Thamud and how they responded to their Prophet Salih, when Allah sent him to call them to worship Allah alone, with no partner or associate. ... فَإِذَا هُمْ فَرِيقَانِ يَخْتَصِمُونَ Then look! They became two parties quarreling with each other. Mujahid said, "These were believers and disbelievers." This is like the Ayah, قَالَ الْمَلَ الَّذِينَ اسْتَكْبَرُواْ مِن قَوْمِهِ لِلَّذِينَ اسْتُضْعِفُواْ لِمَنْ ءامَنَ مِنْهُمْ أَتَعْلَمُونَ أَنَّ صَـلِحاً مُّرْسَلٌ مّن رَّبّهِ قَالُواْ إِنَّا بِمَأ أُرْسِلَ بِهِ مُوْمِنُونَ قَالَ الَّذِينَ اسْتَكْبَرُواْ إِنَّا بِالَّذِى ءامَنتُمْ بِهِ كَـفِرُونَ The leaders of those who were arrogant among his people said to those who were counted weak -- to such of them as believed: "Know you that Salih is one sent from his Lord." They said: "We indeed believe in that with which he has been sent." Those who were arrogant said: "Verily, we disbelieve in that which you believe in." (7:75-76)

صالح علیہ السلام کی ضدی قوم حضرت صالح علیہ السلام جب اپنی قوم ثمود کے پاس آئے اور اللہ کی رسالت ادا کرتے ہوئے انہیں دعوت توحید دی تو ان میں دو فریق بن گئے ایک جماعت مومنوں کی دوسرا گروہ کافروں کا ۔ یہ آپس میں گتھ گئے جیسے اور جگہ ہے کہ متکبروں نے عاجزوں سے کہا کہ کیا تم صالح کو رسول اللہ مانتے ہو؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم کھلم کھلا ایمان لاچکے ہیں انہوں نے کہا بس تو ہم ایسے ہی کھلم کھلا کافر ہیں ۔ آپ نے اپنی قوم سے فرمایا کہ تمہیں کیا ہوگیا بجائے رحمت کے عذاب مانگ رہے ہو؟ تم استغفار کرو تاکہ نزول رحمت ہو ۔ انہوں نے جواب دیا کہ ہمارا تو یقین ہے کہ ہماری تمام مصیبتوں کا باعث تو ہے اور تیرے ماننے والے ۔ یہی فرعونیوں نے کلیم اللہ سے کہا تھا کہ جو بھلائیاں ہمیں ملتی ہیں ان کے لائق تو ہم ہیں لیکن جو برائیاں پہنچتی ہیں وہ سب تیری اور تیرے ساتھیوں کی وجہ سے ہیں اور آیت میں ہے ( وَاِنْ تُصِبْھُمْ حَسَـنَةٌ يَّقُوْلُوْا هٰذِهٖ مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ ۚ وَاِنْ تُصِبْھُمْ سَيِّئَةٌ يَّقُوْلُوْا هٰذِهٖ مِنْ عِنْدِكَ ۭقُلْ كُلٌّ مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ ۭ فَمَالِ هٰٓؤُلَاۗءِ الْقَوْمِ لَا يَكَادُوْنَ يَفْقَهُوْنَ حَدِيْثًا 78؀ ) 4- النسآء:78 ) یعنی اگر انہیں کوئی بھلائی مل جاتی ہے تو کہتے ہیں یہ اللہ کی طرف سے اور اگر انہیں کوئی برائی پہنچ جاتی ہے تو کہتے ہیں یہ تیری جانب سے ہے تو کہہ دے کہ سب کچھ اللہ ہی کی طرف سے ہے یعنی اللہ کی قضا و قدر سے ہے ۔ سورہ یسین میں بھی کفار کا اپنے نبیوں کو یہی کہنا موجود ہے آیت ( قَالُوْٓا اِنَّا تَــطَيَّرْنَا بِكُمْ ۚ لَىِٕنْ لَّمْ تَنْتَهُوْا لَنَرْجُمَنَّكُمْ وَلَيَمَسَّـنَّكُمْ مِّنَّا عَذَابٌ اَلِــيْمٌ 18؀ ) 36-يس:18 ) ہم تو آپ سے بدشگونی لیتے ہیں اگر تم لوگ باز نہ رہے تو ہم تمہیں سنگسار کردیں گے اور سخت دیں گے ۔ نبیوں نے جواب دیا کہ تمہاری بدشگونی تو ہر وقت تمہارے وجود میں موجود ہے ۔ یہاں ہے کہ حضرت صالح نے جواب دیا کہ تمہاری بدشگونی تو اللہ کے پاس ہے یعنی وہی تمہیں اس کا بدلہ دے گا ۔ بلکہ تم تو فتنے میں ڈالے ہوئے لوگ ہو تمہیں آزمایا جارہا ہے اطاعت سے بھی اور معصیت سے بھی اور باوجود تمہاری معصیت کے تمہیں ڈھیل دی جارہی ہے یہ اللہ کی طرف سے مہلت ہے اس کے بعد پکڑے جاؤ گے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

451ان سے مراد کافر اور مومن ہیں، جھگڑنے کا مطلب ہر فریق کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ حق پر ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤٥] اور یہ معاملہ صرف صالح (علیہ السلام) سے ہی مختص نہیں بلکہ ہر نبی کی دعوت پر یہی کچھ ہوتا ہے کہ کچھ انصاف پسند، معاشرتی ناہمواریوں سے بیزار اور مظلوم قسم کے انسان نبی کی دعوت پر لبیک کہتے ہیں۔ اور چودھری قسم کے کھاتے پیتے اور اثرو رسوخ رکھنے والے لوگ نبی کے دشمن بن جاتے ہین۔ پھر وہ ان کی آپس میں ٹھن جاتی ہے اور حق و باطل کے معرکہ کا آغاز ہوجاتا ہے یہی صورت حال قوم ثمود میں بھی رونما ہوگئی تھی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَلَقَدْ اَرْسَلْنَآ اِلٰى ثَمُوْدَ اَخَاهُمْ ۔۔ : اس کا عطف ” وَلَقَدْ اٰتَيْنَا دَاوٗدَ وَسُلَيْمٰنَ عِلْمًا “ پر ہے اور یہ موسیٰ اور داؤد و سلیمان کے قصوں کے بعد تیسرا قصہ ہے۔ اس کی تفصیلات کے لیے دیکھیے سورة اعراف (٧٣ تا ٧٩) ، ہود (٦١ تا ٦٨) ، شعراء (١٤١ تا ١٥٩) ، قمر (٢٣ تا ٣٢ ) اور شمس (١١ تا ١٥) ملکہ سبا اور اس کی قوم عزت و سلطنت کے باوجود سلیمان (علیہ السلام) کی دعوت پر اسلام لے آئی۔ اب صالح (علیہ السلام) کی قوم کا ذکر ہوتا ہے جو صالح (علیہ السلام) کی بعثت پر دو گرہوں میں بٹ گئی۔ ایک مومن و مسلم جو عموماً ” مستضعفین “ (کمزور) تھے، دوسرا کافر و منکر جو ” مستکبرین “ (متکبر لوگ) تھے۔ دو گروہ بنتے ہی ان کے درمیان سخت جھگڑا شروع ہوگیا، جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : (قَالَ الْمَلَاُ الَّذِيْنَ اسْتَكْبَرُوْا مِنْ قَوْمِهٖ لِلَّذِيْنَ اسْتُضْعِفُوْا لِمَنْ اٰمَنَ مِنْهُمْ اَتَعْلَمُوْنَ اَنَّ صٰلِحًا مُّرْسَلٌ مِّنْ رَّبِّهٖ ۭقَالُوْٓا اِنَّا بِمَآ اُرْسِلَ بِهٖ مُؤْمِنُوْنَ قَالَ الَّذِيْنَ اسْتَكْبَرُوْٓا اِنَّا بالَّذِيْٓ اٰمَنْتُمْ بِهٖ كٰفِرُوْنَ ) [ الأعراف : ٧٥، ٧٦ ] ” اس کی قوم میں سے ان سرداروں نے جو بڑے بنے ہوئے تھے، ان لوگوں سے کہا جو کمزور گنے جاتے تھے، ان میں سے انھیں (کہا) جو ایمان لے آئے تھے، کیا تم جانتے ہو کہ واقعی صالح اپنے رب کی طرف سے بھیجا ہوا ہے ؟ انھوں نے کہا بیشک ہم جو کچھ دے کر اسے بھیجا گیا ہے اس پر ایمان لانے والے ہیں۔ وہ لوگ جو بڑے بنے ہوئے تھے، انھوں نے کہا بیشک ہم جس پر تم ایمان لائے ہو، اس کے منکر ہیں۔ “ یہی صورت حال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے ساتھ مکہ میں بھی پیدا ہوئی کہ قوم دو گروہوں میں بٹ گئی اور یہ جھگڑا اس وقت تک جاری رہا جب تک اللہ تعالیٰ کے فضل سے جزیرۂ عرب پورے کا پورا اسلام کے زیر نگیں نہیں آگیا اور کفار یا تو ذلیل و خوار ہو کر مردار ہوئے یا اسلام کے سایۂ رحمت میں آگئے۔ یہ قصہ ان حالات کے عین مطابق تھا جن میں یہ آیات نازل ہوئیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary لِمَ تَسْتَعْجِلُونَ بِالسَّيِّئَةِ قَبْلَ الْحَسَنَةِ (why do you seek evil to come sooner before good? - 27:46). Sayyidna Salih (علیہ السلام) is referring here to the demand of the infidels that he should bring the divine torment to them in this world, so that they may know his truthfulness. Therefore, |"evil|" in this sentence stands for torment, while |"good|" refers to their repentance and invoking divine mercy. It, therefore means, |"Why are you asking me to bring the divine punishment before you repent?|"

خلاصہ تفسیر اور ہم نے (قوم) ثمود کے پاس ان کے (برادری کے) بھائی صالح کو (پیغمبر بنا کر) بھیجا (یہ پیغام دے کر) کہ تم (شرک کو چھوڑ کر) اللہ کی عبادت کرو (چاہئے تو یہ تھا کہ سب ایمان لے آتے مگر خلاف توقع) اچانک ان میں دو فریق ہوگئے جو دین کے بارے میں باہم جھگڑنے لگے (یعنی ایک فرقہ تو ایمان لایا اور ایک نہ لایا اور ان میں جو جھگڑا اور کلام ہوا بعض اس میں کا سورة اعراف میں مذکورہ ہے قال الْمَلَاُ الَّذِيْنَ اسْتَكْبَرُوْا مِنْ قَوْمِهٖ لِلَّذِيْنَ اسْتُضْعِفُوْا، اور بعض اس میں کا آگے مذکور ہے قالوا اطَّيَّرْنَا بِكَ الخ اور جب ان لوگوں نے کفر پر اصرار کیا تو صالح (علیہ السلام) نے موافق عادت انبیاء (علیہم السلام) کے ان کو عذاب الہی سے ڈرایا جیسا سورة اعراف میں ہے فَيَاْخُذَكُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ تو انہوں نے کہا کہ لاؤ وہ عذاب کہاں ہے جیسا سورة اعراف میں ہے وَقَالُوْا يٰصٰلِحُ ائْتِنَا بِمَا تَعِدُنَآ اِنْ كُنْتَ مِنَ الْمُرْسَلِيْنَ اس پر) صالح (علیہ السلام) نے فرمایا کہ ارے بھائیو تم نیک کام (یعنی توبہ و ایمان) سے پہلے عذاب کیوں جلدی مانگتے ہو (یعنی چاہئے تو یہ تھا کہ عذاب کی وعید سن کر ایمان لے آتے نہ یہ کہ ایمان تو نہ لائے اور بالعکس اس عذاب ہی کی درخواست کرنے لگے بڑی بیباکی کی بات ہے۔ بجائے اس استعمال عذاب کے) تم لوگ اللہ کے سامنے (کفر سے) معافی کیوں نہیں چاہتے جس سے توقع ہو کہ تم پر رحم کیا جاوے (یعنی عذاب سے محفوظ رہو) وہ لوگ کہنے لگے کہ ہم تو تم کو اور تمہارے ساتھ والوں کو منحوس سمجھتے ہیں (کہ جب سے تم نے یہ مذہب نکالا ہے اور تمہاری یہ جماعت پیدا ہوئی ہے قوم میں نا اتفاقی ہوگئی اور نا اتفاقی کی جو مضرتیں اور خرابیاں ہوتی ہیں وہ سب مرتب ہونے لگیں۔ بس سبب ان تمام خرابیوں کے تم لوگ ہو) صالح (علیہ السلام) نے (جواب میں) فرمایا کہ تمہاری (اس) نحوست (کا سبب) اللہ کے علم میں ہے (یعنی تمہارے اعمال کفریہ اللہ کو معلوم ہیں یہ خرابیاں ان ہی اعمال پر مرتب ہیں۔ چناچہ ظاہر ہے کہ نا اتفاقی مذموم وہی ہے جو حق کے خلاف کرنے سے ہو تو اس کا الزام ایمان والوں پر نہیں ہوسکتا بلکہ اہل کفر پر ہوگا اور بعض تفاسیر میں ہے کہ ان پر قحط ہوا تھا اور تمہارے کفر کی مضرت کچھ ان شرور ہی تک ختم نہیں ہوئی) بلکہ تم وہ لوگ ہو کہ (اس کفر کی بدولت) عذاب میں مبتلا ہوگئے اور (یوں تو کافر اس قوم میں بہت تھے لیکن سرغنہ) اس بستی (یعنی حجر) میں نو شخص تھے جو سر زمین (یعنی بستی سے باہر تک بھی) فساد کیا کرتے تھے اور (ذرا) اصلاح نہ کرتے تھے (یعنی بعضے مفسد ایسے ہوتے ہیں کہ کچھ فساد کیا کچھ اصلاح کرلی مگر وہ ایسے نہ تھے بلکہ خاص مفسد تھے چناچہ ایک بار یہ فساد کیا کہ) انہوں نے (ایک دوسرے سے) کہا کہ آپس میں سب (اس پر) اللہ کی قسم کھاؤ کہ ہم شب کے وقت صالح اور ان کے متعلقین (یعنی ایمان والوں) کو جا ماریں گے پھر (اگر تحقیق کی نوبت آئی تو) ہم ان کے وارث سے (جو خون کا دعویٰ کرے گا) کہہ دیں گے کہ ان کے متعلقین کے (اور خود ان کے) مارے جانے میں موجود (بھی) نہ تھے (مارنا تو درکنار) اور (تاکید کے لئے یہ بھی کہہ دیں گے کہ) ہم بالکل سچے ہیں۔ (اور گواہ کوئی معائنہ کا ہوگا نہیں۔ بس بات دب دبا جاوے گی) اور (یہ مشورہ کر کے) انہوں نے ایک خفیہ تدبیر کی (کہ شب کے وقت اس کارروائی کے لئے چلے) اور ایک خفیہ تدبیر ہم نے کی اور ان کو خبر بھی نہ ہوئی (وہ یہ کہ ایک پہاڑ پر سے ایک پتھر ان پر لڑھک آیا اور وہ سب وہاں ہی کھیت رہے یعنی ہلاک ہوئے۔ کذافی الدر المنثور) سو دیکھئے ان کی شرارت کا کیا انجام ہوا کہ ہم نے ان کو (بطریق مذکور) اور (پھر) ان کی (باقی) قوم کو (آسمانی عذاب سے) سب کو غارت کردیا (جس کا قصہ دوسری آیات میں ہے فَعَقَرُوا النَّاقَةَ الی فَاَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ ، وَاَخَذَ الَّذِيْنَ ظَلَمُوا الصَّيْحَةُ ) سو یہ ان کے گھر ہیں جو ویران پڑے ہیں ان کے کفر کے سبب سے (جو اہل مکہ کو ملک شام کے سفر میں ملتے ہیں) بلاشبہ اس (واقعہ) میں بڑی عبرت ہے دانشمندوں کے لئے اور ہم نے ایمان اور تقوی والوں کو (اس قتل سے بھی جس کا مشورہ ہوا تھا اور عذاب قہری سے بھی) نجات دی۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَقَدْ اَرْسَلْنَآ اِلٰى ثَمُوْدَ اَخَاہُمْ صٰلِحًا اَنِ اعْبُدُوا اللہَ فَاِذَا ہُمْ فَرِيْقٰنِ يَخْتَصِمُوْنَ۝ ٤٥ رسل وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ، ( ر س ل ) الرسل اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ ثمد ثَمُود قيل : هو أعجمي، وقیل : هو عربيّ ، وترک صرفه لکونه اسم قبیلة، أو أرض، ومن صرفه جعله اسم حيّ أو أب، لأنه يذكر فعول من الثَّمَد، وهو الماء القلیل الذي لا مادّة له، ومنه قيل : فلان مَثْمُود، ثَمَدَتْهُ النساء أي : قطعن مادّة مائه لکثرة غشیانه لهنّ ، ومَثْمُود : إذا کثر عليه السّؤال حتی فقد مادة ماله . ( ث م د ) ثمود ( حضرت صالح کی قوم کا نام ) بعض اسے معرب بتاتے ہیں اور قوم کا علم ہونے کی ہوجہ سے غیر منصرف ہے اور بعض کے نزدیک عربی ہے اور ثمد سے مشتق سے ( بروزن فعول ) اور ثمد ( بارش) کے تھوڑے سے پانی کو کہتے ہیں جو جاری نہ ہو ۔ اسی سے رجل مثمود کا محاورہ ہے یعنی وہ آدمی جس میں عورتوں سے کثرت جماع کے سبب مادہ منویہ باقی نہ رہے ۔ نیز مثمود اس شخص کو بھی کہا جاتا ہے جسے سوال کرنے والوں نے مفلس کردیا ہو ۔ أخ أخ الأصل أخو، وهو : المشارک آخر في الولادة من الطرفین، أو من أحدهما أو من الرضاع . ويستعار في كل مشارک لغیره في القبیلة، أو في الدّين، أو في صنعة، أو في معاملة أو في مودّة، وفي غير ذلک من المناسبات . قوله تعالی: لا تَكُونُوا كَالَّذِينَ كَفَرُوا وَقالُوا لِإِخْوانِهِمْ [ آل عمران/ 156] ، أي : لمشارکيهم في الکفروقوله تعالی: أَخا عادٍ [ الأحقاف/ 21] ، سمّاه أخاً تنبيهاً علی إشفاقه عليهم شفقة الأخ علی أخيه، وعلی هذا قوله تعالی: وَإِلى ثَمُودَ أَخاهُمْ [ الأعراف/ 73] وَإِلى عادٍ أَخاهُمْ [ الأعراف/ 65] ، وَإِلى مَدْيَنَ أَخاهُمْ [ الأعراف/ 85] ، ( اخ و ) اخ ( بھائی ) اصل میں اخو ہے اور ہر وہ شخص جو کسی دوسرے شخص کا ولادت میں ماں باپ دونوں یا ان میں سے ایک کی طرف سے یا رضاعت میں شریک ہو وہ اس کا اخ کہلاتا ہے لیکن بطور استعارہ اس کا استعمال عام ہے اور ہر اس شخص کو جو قبیلہ دین و مذہب صنعت وحرفت دوستی یا کسی دیگر معاملہ میں دوسرے کا شریک ہو اسے اخ کہا جاتا ہے چناچہ آیت کریمہ :۔ { لَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ كَفَرُوا وَقَالُوا لِإِخْوَانِهِمْ } ( سورة آل عمران 156) ان لوگوں جیسے نہ ہونا جو کفر کرتے ہیں اور اپنے مسلمان بھائیوں کی نسبت کہتے ہیں ۔ میں اخوان سے ان کے ہم مشرب لوگ مراد ہیں اور آیت کریمہ :۔{ أَخَا عَادٍ } ( سورة الأَحقاف 21) میں ہود (علیہ السلام) کو قوم عاد کا بھائی کہنے سے اس بات پر تنبیہ کرنا مقصود ہے کہ وہ ان پر بھائیوں کی طرح شفقت فرماتے تھے اسی معنی کے اعتبار سے فرمایا : ۔ { وَإِلَى ثَمُودَ أَخَاهُمْ صَالِحًا } ( سورة هود 61) اور ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا ۔ { وَإِلَى عَادٍ أَخَاهُمْ } ( سورة هود 50) اور ہم نے عاد کی طرف ان کے بھائی ( ہود ) کو بھیجا ۔ { وَإِلَى مَدْيَنَ أَخَاهُمْ شُعَيْبًا } ( سورة هود 84) اور مدین کی طرف ان کے بھائی ( شعیب ) کو بھیجا ۔ عبد العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] . ( ع ب د ) العبودیۃ کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ فریق والفَرِيقُ : الجماعة المتفرّقة عن آخرین، قال : وَإِنَّ مِنْهُمْ لَفَرِيقاً يَلْوُونَ أَلْسِنَتَهُمْ بِالْكِتابِ [ آل عمران/ 78] ( ف ر ق ) الفریق اور فریق اس جماعت کو کہتے ہیں جو دوسروں سے الگ ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِنَّ مِنْهُمْ لَفَرِيقاً يَلْوُونَ أَلْسِنَتَهُمْ بِالْكِتابِ [ آل عمران/ 78] اور اہل کتاب میں بعض ایسے ہیں کہ کتاب تو راہ کو زبان مروڑ مروڑ کر پڑھتے ہیں ۔ خصم الخَصْمُ مصدر خَصَمْتُهُ ، أي : نازعته خَصْماً ، يقال : خاصمته وخَصَمْتُهُ مُخَاصَمَةً وخِصَاماً ، قال تعالی: وَهُوَ أَلَدُّ الْخِصامِ [ البقرة/ 204] ، وَهُوَ فِي الْخِصامِ غَيْرُ مُبِينٍ [ الزخرف/ 18] ، ثم سمّي المُخَاصِم خصما، واستعمل للواحد والجمع، وربّما ثنّي، وأصل المُخَاصَمَة : أن يتعلّق كلّ واحد بخصم الآخر، أي جانبه وأن يجذب کلّ واحد خصم الجوالق من جانب، وروي : ( نسیته في خصم فراشي) «1» والجمع خُصُوم وأخصام، وقوله : خَصْمانِ اخْتَصَمُوا [ الحج/ 19] ، أي : فریقان، ولذلک قال : اخْتَصَمُوا وقال : لا تَخْتَصِمُوا لَدَيَّ [ ق/ 28] ، وقال : وَهُمْ فِيها يَخْتَصِمُونَ [ الشعراء/ 96] ، والخَصِيمُ : الكثير المخاصمة، قال : هُوَ خَصِيمٌ مُبِينٌ [ النحل/ 4] ، والخَصِمُ : المختصّ بالخصومة، قال : بَلْ هُمْ قَوْمٌ خَصِمُونَ [ الزخرف/ 58] . ( خ ص م ) الخصم ۔ یہ خصمتہ کا مصدر ہے جس کے معنی جھگڑنے کے ہیں کہاجاتا ہے خصمتہ وخاصمتہ مخاصمۃ وخصاما کسی سے جھگڑا کر نا قرآن میں ہے :۔ وَهُوَ أَلَدُّ الْخِصامِ [ البقرة/ 204] اور وہ حالانکہ سخت جھگڑا لو ہے ۔ وَهُوَ فِي الْخِصامِ غَيْرُ مُبِينٍ [ الزخرف/ 18] اور جھگڑنے کے وقت بات نہ کرسکے ۔ اور مخاصم کو خصم کہا جات ہے ، اور خصم کا لفظ واحد جمع دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے مگر کبھی تثنیہ بھی آجاتا ہے۔ اصل میں خصم کے معنی کنارہ کے ہیں ۔ اور مخاصمت کے معنی ایک دوسرے سے کو کنارہ سے پکڑنے کے ہیں ۔ اور بوری کو کونے سے پکڑکر کھینچنے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔ ایک حدیث میں ہے :۔ (114) نسی تھا فی خصم فراشی کہ میں اسے اپنے بسترہ کے کونے میں بھول آیا ہوں خصم کی جمع خصوم واخصام آتی ہے اور آیت کریمہ ؛۔ اخْتَصَمُوا[ الحج/ 19] دوفریق جھگڑتے ہیں ۔ میں خصما ن سے دو فریق مراد ہیں اسی لئے اختصموا آیا ہے ۔ الاختصام ( افتعال ) ایک دوسرے سے جھگڑنا ۔ قرآن میں ہے :۔ لا تَخْتَصِمُوا لَدَيَّ [ ق/ 28] ہمارے حضور رد کد نہ کرو ۔ وَهُمْ فِيها يَخْتَصِمُونَ [ الشعراء/ 96] ۔۔۔۔ وہ آپس میں جھگڑیں گے ۔ الخصیم ۔ جھگڑا لو بہت زیادہ جھگڑا کرنے والا جیسے فرمایا :۔ هُوَ خَصِيمٌ مُبِينٌ [ النحل/ 4] مگر وہ ( اس بارے میں ) علانیہ جھگڑنے لگا ۔ الخصم سخٹ جھگڑالو جس کا شیوہ ہ جھگڑنا ہو ۔ قرآن میں ہے :َ بَلْ هُمْ قَوْمٌ خَصِمُونَ [ الزخرف/ 58] حقیقت یہ ہے ۔ یہ لوگ ہیں ہی جھگڑا لو، لو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤٥) اور ہم نے قوم ثمود کی طرف ان کے نبی حضرت صالح (علیہ السلام) کو یہ پیغام دے کر بھیجا کہ تم کفر وشرک سے توبہ کرو اور توحید خداوندی کا اقرار کرلو تو ان میں مومن و کافر کے دو گروہ ہوگئے جو دین کے بارے میں باہم جھگڑنے لگے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

57 For comparison. see Al-A'raf: 73-79, Hud: 61-68, Ash-Shu'ara': 141159, AI-Qamar: 23-32, Ash-Shams: 11-15. 58 That is, as soon as the Prophet Salih embarked on his mission, his people were divined into two groups, the believers and the disbelievers, and a conflict started between them as stated elsewhere in the Qur'an: "The chiefs of his tribe, who .were full of pride, said to those who had believed from among the oppressed people, 'Do you know it for certain that Salih is a Messenger from his Lord?' They replied, `Indeed, we believe in the message with which he has been sent.' But those who had arrogant assumption of superiority, said, `We deny that which you believe'." (Al-A'raf: 75-76). One should note that precisely the same situation arose in Makkah at the advent of the Holy Prophet Muhammad (may Allah's peace be upon him). The nation was divided into two factions and a conflict started between them. Therefore, this story fully applied to the conditions in which these verses were revealed.

سورة النمل حاشیہ نمبر : 57 تقابل کے لیے ملاحظہ ہو الاعراف ، آیات 73 تا 79 ۔ ہود 61 تا 68 ۔ الشعراء 141 تا 159 ۔ القمر 23 تا 32 ۔ الشمس ، آیات 11 تا 15 سورة النمل حاشیہ نمبر : 58 یعنی جونہی کہ حضرت صالح کی دعوت کا آغاز ہوا ، ان کی قوم دو گروہوں میں بٹ گئی ۔ ایک گروہ ایمان لانے والوں کا ، دوسرا گروہ انکار کرنے والوں کا ، اور اس تفرقہ کے ساتھ ہی ان کے درمیان کش مکش شروع ہوگئی ، جیسا کہ قرآن مجید میں دوسری جگہ ارشاد ہوا ہے : قَالَ الْمَلَاُ الَّذِيْنَ اسْتَكْبَرُوْا مِنْ قَوْمِهٖ لِلَّذِيْنَ اسْتُضْعِفُوْا لِمَنْ اٰمَنَ مِنْهُمْ اَتَعْلَمُوْنَ اَنَّ صٰلِحًا مُّرْسَلٌ مِّنْ رَّبِّهٖ ۭقَالُوْٓا اِنَّا بِمَآ اُرْسِلَ بِهٖ مُؤْمِنُوْنَ ۔ قَالَ الَّذِيْنَ اسْتَكْبَرُوْٓا اِنَّا بِالَّذِيْٓ اٰمَنْتُمْ بِهٖ كٰفِرُوْنَ ۔ اس کی قوم میں سے جو سردار اپنی بڑائی کا گھمنڈ رکھتے تھے انہوں نے ان لوگوں سے جو کمزور بنا کر رکھے گئے تھے ، جو ان سے ایمان لائے تھے ، کہا کیا واقعی تم یہ جانتے ہو کہ صالح اپنے رب کی طرف سے بھیجا گیا ہے؟ انہوں نے جوابد یا ہم اس چیز پر ایمان رکھتے ہیں جس کو لے کر وہ بھیجے گئے ہیں ، ان متکبرین نے کہا جس چیز پر تم ایمان لائے ہو اس کے ہم کافر ہیں ۔ ( الاعراف ، آیات 75 ۔ 76 ) یاد رہے کہ ٹھیک یہی صورت حال محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے ساتھ مکہ میں بھی پیدا ہوئی تھی کہ قوم دو حصوں میں بٹ گئ اور اس کے ساتھ ہی ان دونوں گروہوں میں کش مکش شروع ہوگئی ۔ اس لیے یہ قصہ آپ سے آپ ان حالات پر چسپاں ہورہا تھا جن میں یہ آیات نازل ہوئیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

21: قوم ثمود اور حضرت صالح (علیہ السلام) کا تعارف پیچھے سورۃ اعراف : 72 اور سورۃ ہود : 61 تا 68 میں گذر چکا ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٤٥ تا ٥٩۔ سورة اعراف میں یہ قصہ پورا گزر چکا ہے حضرت سلیمان اور بلقیس کے قصہ کے بعد مختصر طور پر اللہ تعالیٰ حضرت صالح اور حضرت لوط ( علیہ السلام) کا قصہ اس تنبیہ کے لیے ذکر فرمایا ہے کہ قریش کو ذرا عبرت ہوجاوے کہ نبی وقت کی اطاعت کا انجام تو یہ ہوتا ہے جو بلقیس کا ہوا کہ دنیا کی بادشاہت بھی قائم رہی اور عاقبت بھی سدھر گئی اور جو لوگ رسول سے مخالفت کریں جس طرح مخالفت پر قریش آمادہ ہیں ایسے لوگوں کا انجام آخر وہی ہونے والا ہے جو ثمود اور قوم لوط کا ہوا ملک شام کے سفر میں قوم لوط اور قوم ثمود کی اجڑی ہوئی بستیاں اہل مکہ کو نظر آیا کرتی تھیں علاوہ اس کے صالح (علیہ السلام) اہل عرب کے انبیاء میں سے شمار کئے جاتے ہیں اور یہاں خاص کر قریش کی تنبیہ مقصود تھی اس لیے حضرت صالح کے قصہ سے یہاں کلام کا سلسلہ اللہ تعالیٰ نے شروع فرمایا اور سورة اعراف میں عام انبیاء ( علیہ السلام) صاحب شریعت کا ذکر ہے اس واسطے وہاں حضرت نوح ( علیہ السلام) سے سلسلہ کلام کا شروع فرمایا ہے کہ حضرت نوح ( علیہ السلام) سب سے پہلے صاحب شریعت نبی ہیں اور ان کے بعد حضرت ہود ( علیہ السلام) ہیں اور ان کے بعد حضرت صالح ( علیہ السلام) ہیں حضرت صالح ( علیہ السلام) کی امت نے جب حضرت صالح ( علیہ السلام) سے اونٹنی کا معجزہ چاہا اور ان کی خواہش کے موافق وہ اونٹنی پیدا ہوگئی تو سورة اعراف اور سورة ہود میں یہ گزر چکا ہے کہ حضرت صالح ( علیہ السلام) نے اپنی امت کے لوگوں سے یہ فرما دیا تھا کہ تم لوگ جس روز اس اونٹنی کو کسی طرح کی ایذا پہنچاؤ گے تو تم پر اللہ کا عذاب آجاوے گا پھر جب اس قوم کے سرداروں کی اولاد میں سے نو شخصوں نے صلاح مشورہ کر کے اس اونٹنی کو مار ڈالا تو حضرت صالح ( علیہ السلام) کو تنگ کرنے کے لیے حضرت صالح ( علیہ السلام) سے یہ کہنے لگے کہ وائتنا بما تعدنا جس سے ان کا مطلب یہ تھا کہ تم نے تو کہا تھا کہ اونٹنی کی ایذا سے اللہ کا عذاب آوے گا اب ہم نے تو اس اونٹنی کو مار ڈالا پھر اگر تم اللہ کے سچے نبی ہو تو ہم پر اللہ کا عذاب کیوں نہیں لاتے ان کے اس بات کا جواب حضرت صالح نے یہ دیا ہے جس کا ذکر ان آیتوں میں ہے کہ اللہ سے توبہ استغفار کرو عذاب کی خواہش اور عذاب کی جلدی کیوں کرتے ہو اس نصیحت سے حضرت صالح کی مراد یہ تھی کہ اونٹنی کے مار ڈالنے کے بعد بھی اگر ان کی توبہ استغفار سے اس عذاب کا ٹل جانا علم الٰہی میں قرار پاچکا ہو تو ان کے سر سے یہ بلا رفع ہوجاوے جب ان لوگوں نے عذاب کی خواہش سے حضرت صالح ( علیہ السلام) کو بہت تنگ کیا تو حضرت صالح ( علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے موافق آخر کو فرمایا کہ تین روز کے اندر تم پر عذاب آوے گا پھر اس پر ان نوشریر لوگوں نے یہ قصد کیا کہ رات کو جب اپنی مسجد میں حضرت صالح ( علیہ السلام) اکیلے نماز کو جاویں تو تین دن سے پہلے ہی ان کو شہید کر ڈالیں اور اپنے اس ارادہ کے پورا کرنے کے خیال سے مسجد کے پاس ایک غار تھا اس میں تلواریں لے کر چھپے اللہ تعالیٰ کے حکم سے فرشتوں نے ان پر اسی غار کے پتھر ایسے برسائے کہ ان کے سر کچلے گئے اور انہی پتھروں کے نیچے دب کر رہ گئے اسی کا ذکر اللہ تعالیٰ نے ان آیتوں میں فرمایا ہے کہ ان لوگوں نے اللہ کے نبی سے فریب کرنا چاہا تھا مگر اللہ کے حکم کے آگے ان کا فریب کچھ چل نہ سکایہ تو قوم صالح کے ان نو شریر شخصوں کا حال ہوا جن کی صلاح سے اونٹنی ہلاک کی گئی تھی باقی قوم کے سرکش لوگوں پر زلزلہ اور چنگھاڑ کا عذاب آیا جس کا ذکر سورة اعراف اور سورة شعرا میں گذر چکا ہے غرض ثمود میں کے حضرت صالح کے مخالف لوگ دو طرح کے تھے ایک تو سرداروں کی اولاد میں کے نو شخص شریر تھے دوسرے یہ نو شخص سرگروہ تھے اور عام لوگ ساتھی تھے اور الگ الگ ان دونوں فریقوں کی ہلاکت ہوئی اس لیے اللہ نے ان آیتوں میں یہ فرمایا ہے کہ ہم نے ان کو اور ان کی قوم کو سب کو ہلاک کر ڈالا جس سے مطلب یہ ہے کہ وہ نوشخص سرگروہ اور قوم بھر میں جو ان کے ساتھ تھے وہ سب ہلاک ہوگئے صرف اللہ کے نبی حضرت صالح اور چار ہزار کے قریب لوگ جو حضرت صالح پر ایمان لائے تھے وہی عذاب الٰہی سے بچ گئے قوم لوط کا قصہ سورة الا عراف سورة ہود اور سورة الشعرا میں گزر چکا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ کہ اس قوم نے عورتوں کو چھوڑ کر لڑکوں سے بدفعلی کرنے کی عادت دنیا میں نئی نکالی تھی ان سے پہلے کسی قوم میں یہ عادت نہ تھی۔ لوط (علیہ السلام) نے ایک عرصہ تک ان لوگوں کو سمجھایا مگر انہوں نے نہ مانا آخر اللہ تعالیٰ کے حکم سے ان کی بستی کو جبرئیل (علیہ السلام) نے الٹ دیا اور ان پر پتھروں کا مینہ بھی بر سا۔ قوم ثمود کے قصہ میں صحیح بخاری کے حوالہ سے عبداللہ بن عمر (رض) کی روایت گزر چکی ہے ہے کہ قوم لوط نے عذاب سے پہلے لوط (علیہ السلام) کو یہاں تک تنگ کیا کہ لوط (علیہ السلام) اپنی تنہائی پر بہت افسوس کرتے تھے۔ یہ اوپر گزر چکا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور لوط (علیہ السلام) کا اصل وطن ملک عراق ہے حضرت لوط (علیہ السلام) حضرت ابرہیم (علیہ السلام) کے ساتھ اپنے وطن سے ہجرت کرکے ملک شام کو آئے تھے اور ملک شام کی الٹی ہوئی بستی سدوم میں بالکل تنہا تھے اسی واسطے قوم کی زیادتی کے وقت اپنی تنہائی پر افسوس کرتے تھے ان قصوں کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ارشاد فرمایا کہ تم مخالفوں کی ہلاکت اور رسول کی آمد پر اللہ تعالیٰ کی تعریف بیان کرو اور مکہ کے مشرکوں سے پوچھو کہ اس اللہ کی عبادت بہتر ہے جس کو اپنے نافرمانوں کو برباد کرنے اور فرما نبرداروں کو بچانے کی قدرت ہے یا ان پتھر کی مورتوں کی تعظیم بہتر ہے جن میں کسی طرح کی کوئی قدرت نہیں۔ “

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(27:45) ولقد ارسلنا۔ واؤ عطف کی ہے لقد ارسلنا کا عطف۔ ولقد اتینا داؤد و سلیمان علما پر ہے۔ پارہ کے دوسرے رکوع سے آیت (15) سے حضرت داؤد (علیہ السلام) اور ان کے وارث حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا قصہ شروع ہوا تھا۔ جو رکوع 3 آیت نمبر 44 کے اختتام پر مکمل ہوا۔ اور چوتھے رکوع کا آغاز ولقد ارسلنا سے ہوا۔ اور یہاں ثمود کی طرف حضرت صالح (علیہ السلام) کے بھیجے جانے کا قصہ شروع ہوتا ہے۔ پہلے قصہ کے بعد یہ دوسرے قصہ کا واؤ عطف سے ربط کیا گیا ہے۔ لقد ارسلنا میں لام جواب قسم کے لئے واقع ہوا ہے اور قسم شان حکم کے لحاظ سے ہے اور یہاں محذوف ہے ای وباللہ لقد ارسلنا۔ صلحا اخاھم سے بدل ہے۔ ان اعبدوا اللہ۔ میں ان مفسرہ ہے کیونکہ ارسال میں قول کا مفہوم موجود ہے اس حکم کے ساتھ کہ (شرک چھوڑ کر) تم اللہ (وحدہ لاشریک لہ) کی عبادت کرو۔ فاذاھم فریقین یختصمون ۔ میں فاذا فجائیہ ہے ہم مبتدا۔ فریقن خبر اور یختصمون خبر۔ اور لو وہ دو گروہوں میں بٹ گئے (ایک مومن ایک کافر) (اور ) باہم جھگڑنے لگے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

8 ۔ یعنی جونہی انہوں نے اپنی دعوت کا آغاز کیا ان کی قوم دو گروہوں میں بٹ گئی اور ان دو گروہوں میں سخت تصادم شروع ہوگیا۔ ایک گروہ ایمان لانے والوں کا دوسرا انکار کرنے والوں کا۔ دیکھئے سورة اعراف رکوع 10)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

رکوع نمبر 4 ۔ آیات 45 تا 59 ۔ اسرار و معارف : ورنہ قوم ثمود میں دیکھیے جب ان ہی کا قومی بھائی صالح (علیہ السلام) ہم نے مبعوث فرمایا اور یہی دعوت کہ اللہ ہی کی عبادت کرو انہیں پہنچی تو وہ دو حصوں میں بٹ گئے کچھ لوگ ایمان لانے کے حق میں تھے اور کچھ نہ لانے پر مصر تھے جو ایمان نہ لا رہے تھے بلکہ یہ کہنے لگے کہ جو بھی عذاب آتا ہے آئے ہم ایمان نہ لائیں گے اور آگے بیان ہے کہ اس طرف بڑے بڑے سردار تھے تو صالح (علیہ السلام) نے فرمایا کہ بھلا یہ کیا دانشمندی ہے کہ توبہ کا موقع نصیب ہے اور تم اللہ کی رحمت کو پا سکتے ہو مگر تم اس سے پہلے عذاب کا مطالبہ لیے بیٹھے ہو تو وہ کہنے لگے کہ یہ ساری بدبختی اور نااتفاقی آپ کے سبب ہے اور آپ کے ماننے والوں کی وجہ سے ہے ورنہ ہم تو بہت اتفاق سے رہ رہے تھے یہ اعتراض آج بھی کیا جاتا ہے کہ جب دین کی بات کی جائے اور برائی سے روکا جائے تو معاشرے میں ناتفاقی کا طعنہ دیا جاتا ہے مگر یاد رہے برائی پر اتفاق اجتماعی خود کشی کا نام ہے اور نیکی پہ قائم رہنا ہی اصل اتفاق ہے خواہ اس پہ چند لوگ ہوں اور برائی پہ اکثریت بھی متفق ہوگی تو فساد ہی لائے گی جیسا کہ مغربی جمہوریت میں کثرت رائے کے نتائج کا مشاہدہ وطن عزیز میں گذشتہ نصف صدی سے ہورہا ہے۔ سو فرمایا کہ بدبختی تمہارے کردار کی وجہ سے کہ اللہ کی نافرمانی پہ جمے ہوئے ہو اور یاد رکھو یہ جو تمہیں چند روز مہلت مل رہی ہے یہ بھی محض آزمائش ہے اگر باز نہ آئے تو نتیجہ بہت سخت ہوگا مگر شہر میں جو نو سردار تھے وہ سب کے سب فسادی تھے اور انہوں نے تو نہ صرف اپنی قوم میں بلکہ گردو نواح میں بھی فساد ڈال رکھا تھا اور کبھی بھلائی کا کام نہ کرتے تھے جب لاجواب ہوئے تو کہنے لگے کہ آپش میں قسمیں کھا کر عہد کرو کہ رات کی تاریکی میں سب مل کر حضرت صالح (علیہ السلام) کو اور ان کے گھر والوں کو قتل کردیں پھر ان کے ورثا سے کہیں گے کہ ہم تو ان دنوں یہاں موجود ہی نہ تھے اور اپنے کاموں سے باہر گئے ہوئے تھے یوں اپنی بات کے سچا ہونے پر اصرار کریں گے اور معاملہ ختم ہوجائے گا انہوں نے یہ خفیہ تدبیر کی اور ہم نے بھی ایک خفیہ تدبیر کی جو وہ نہ سمجھ سکے۔ تفاسیر میں ہے کہ رات کو نکلے تو ایک پہاڑی کے دامن سے گزرتے ہوئے ایک بہت بڑا پتھر لڑھک کر ان پر آگرا اور ہلاک ہوگئے اور پھر قوم بھی اپنے کردار کے باعث ہلاک ہو کر نابود ہوگئی اور ان کے برے کردار نے ان کے گھروں کو اجاڑ دیا جو ویران پڑے ہیں اگر کسی کی بھی عقل سلامت ہو تو اس کے لئے اس واقعہ میں بڑی عبرت ہے جب کہ سب قوم تباہ ہوگئی مگر اہل ایمان کا بال بیکا نہ ہوا کہ وہ اللہ کیا اطاعت کرتے تھے یعنی جس بات پر ایمان لاتے تھے اس پر عمل بھی کرتے تھے۔ ایسا ہی واقعہ لوط (علیہ السلام) کا ہے جب انہوں نے قوم کو برائی سے روکا اور فرمایا کہ تم لوگ کتنے بےحیا ہو کہ کھے بندوں برائی کرتے ہو۔ اور عورتوں کو چھوڑ کر مردوں سے شہوت رانی کرتے ہو تم نہ صرف بےحیا ہو بلکہ تم جاہل ہو۔ عام اخلاق بھی نہیں جانتے۔ مغرب کا معاشرہ : آج یہی تصویر مغرب کے معاشرہ کی ہے کہ کلیسا نے ہم جنس پرستی کی اجازت دے دی ہے اور مرد مرد سے شادی کرتا ہے اور ننگے قلب بن گئے ہیں بلکہ سر بازار برہنہ پھرتے ہیں یہ بےحیائی تو ہے ہی جہالت بھی ہے جن لوگوں کو مغربی تہذیب اپنانے کا بھوت سوار ہے یہ سوچ لیں کہ قرآن کی رائے ان کے بارے کیا ہے۔ تو وہ قوم بھڑک اٹھی اور اس کے سوا ان کا جواب نہ تھا کہ لوط (علیہ السلام) کو اور ان کے ماننے والوں کو شہر سے نکال دو یہ بڑے پاکباز بنے پھرتے ہیں مگر قدرت الہی دیکھئے کہ جنہیں وہ آبادی تک سے نکال باہر کرنا چاہتے تھے انہیں کو اللہ نے بچا لیا اور ساری بستی کو لوط (علیہ السلام) کی اہلیہ سمیت جو دل سے کفار کے ساتھ تھی تباہ کردیا ان پر پتھروں کی بارش ہوئی جس نے تباہی میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ کہ دیجیئے کہ سب تعریف اللہ کو سزاوار ہے اور وہ ذات ہر قسم کے یب سے پاک اور بالاتر ہے اور سلامتی اللہ کے برگزیدہ بندوں کے لیے ہے انبیاء (علیہ السلام) اور ان کے متبعین کے لیے خواہ کافر بظاہر کتنا محفوظ نظر آتا ہو بالآخر عذاب الہی کی زد پر ہے اور ان کی مشرکانہ رسومات سے اللہ کی ذات بہت ہی بلند ہے۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن : آیت نمبر 45 تا 53 : فریقن (دو جماعتیں) یختصمون ( وہ آپس میں جھگڑتے ہیں) لم تستعجلون ( تم کیوں جلدی مچاتے ہو ؟ ) اطیرنا ( ہم نے برا شگون لیا) رھط ( لوگ ۔ اشخاص) تقاسموا (تم آپس میں قسم کھائو) ۔ (نبی تن (ہم رات کو حملہ کریں گے) ماشھدنا ( ہم موجود نہ تھے) ‘ مکر (فریب۔ دھوکہ) ‘ خاویۃ (گرپڑنے والے) ‘ انجینا (ہم نے نجات دی) ۔ تشریح : آیت نمبر 45 تا 53 : بد عمل قوموں کی بد نصیبی یہ ہوتی ہے کہ جب ان کے سامنے حق و صداقت اور فکر آخرت کی بات کی جاتی ہے اور اس پر عمل نہ کرنے سے ان پر اللہ کے عذاب کی مختلف شکلیں سامنے آتی ہیں تو وہ اپے برے اعمال پر غور کرنے کے بجائے انبیاء کرام (علیہ السلام) اور نیک لوگوں کے قدموں کو منحوس قراردیتے ہوئیے کہتے ہیں کہ جب اسے انہوں نے دین کی باتیں کرنا شروع کی ہیں اس وقت سے ہم اور ہمارے خاندان گروہوں میں بٹ کر رہ گئے ہیں۔ اور جب اسے انہوں نے ہمارے معبودوں کو برا بھلا کہنا شروع کیا ہے وہ ہم سے ناراض ہوگئے ہیں جس کی وجہ سے ہماری زندگیوں کا عیش و آرام اور سکون جاتارہا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا واقعہ بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ جب فرعون کو کوئی اچھی بات پہنچتی یا اس کی قوم کو کوئی دنیاوی فائدہ مل جاتاتو وہ اس کو اپناحق سمجھتا تھا اور جب اللہ کے عذاب کی کوئی شکل سامنے آتی تو کہتا کہ یہ سب موسیٰ کی نحوستیں ہیں۔ اسی طرح کفار مکہ نبی مکرم حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق بھی کہتے تھے کہ جب سے یہ آئے ہیں اس وقت سے ہمارے قبیلوں اور گھروں میں نحوستوں نے ڈیرے ڈال دیئے ہیں۔ حالانکہ یہ ساری نحوستیں ان کفار کے برے اعمال کا نتیجہ تھیں جن کو وہ بھگت رہے تھے ۔ زیر مطالعہ آیات میں حضرت صالح (علیہ السلام) نے جب اللہ کا پیغام اپنی قوم کے سامنے رکھا تو ان میں سے کچھ لوگوں نے اللہ کے دین کو قبول کرلیا اور اکثریت ان لوگوں کی تھی جنہوں نے اس پیغام حق و صداقت کو ماننے سے انکار کردیا تھا۔ اس طرح پوری قوم نظریاتی طور پر دو گروہوں میں تقسیم ہوگئی تھی۔ جب بات کا فی بڑھ گئی تو قوم ثمود کے نافرمان لوگ کہنے لگے کہ ” اے صالح اگر واقعی تم اللہ کے رسولوں میں سے ایک رسول ہو تو (ہم روز روز کی اس دھمکی سے عاجز آچکے ہیں) اس عذاب کو لے ہی آئو تاکہ قصہ تمام ہوجائے۔ “ حضرت صالح (علیہ السلام) نے فرمایا کہ تمہیں تو اللہ تعالیٰ نے خیر اور سلامتی مانگنا چاہیے تھی لیکن تم اس اللہ سے عذاب مانگ رہے ہو ؟ ۔ اگر تم توبہ اور استغفار کا راستہ اختیار کرتے تو اللہ تعالیٰ تمہارے حال پر رحم و کرم کردیتا۔ کہنے لگے کہ ہم بڑے عیش و آرام سے رہا کرتے تھے لیکن اے صالح یہ تمہاری نحوست ہے جس کی وجہ سے ہم میں پھوٹ پڑگئی ہے اور ہم دو گروہوں میں تقسیم ہو کر رہ گئے ہیں۔ حضرت صالح (علیہ السلام) نے فرمایا کہ تمہاری اس نحوست کا سبب تو اللہ کے علم میں ہے لیکن میں یہ دیکھ رہا ہوں کہ تم اپنے برے اعمال کی وجہ سے اللہ کے عذاب میں گرفتارہو۔ یہ سب کچھ سننے کے باوجود قوم ثمود اپنی نافرمانیوں میں لگی رہی اور انہوں نے مخالفتوں کا طوفان برپا کردیا تھا۔ ، اص طور پر ان میں سے نو ایسے بڑے بڑے سردار تھے جو قوم کی اصلاح کرنے کے بجائے شرارت اور فساد مچایا کرتے تھے ۔ چناچہ انہوں نے مل یہ فیصلہ کیا کہ آج رات ہم سب مل کر اس بات پر قسم کھائیں گے کہ آج کی رات حضرت صالح (علیہ السلام) اور ان کے متعلقین اور گھر والوں کو قتل کردیں گے تاکہ یہ روز روز کا جھگڑا ختم ہوجائے۔ اس زمانہ میں یہ رواج تھا کہ اگر کسی قبیلے کا آدمی مار دیا جاتا تو وہ قبیلہ اس کے خون کا قصاص اور بدلہ مانگا کرتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ہم سب رات کے اندھیرے میں اس طرح قتل کریں گے کہ حضرت صالح (علیہ السلام) کا قبیلہ ہم سے خون کا بدلہ نہ مانگ سکے ۔ یہ ان کفار و مشرکین کی خفیہ تدبیریں اور سازشیں تھیں لیکن وہ قدرت کی خفیہ تدبیروں سے ناواقف تھے۔ کفار کی کوشش تھی کہ پہلے اس اونٹنی کو ذبح کریں گے جو اس قوم کے مطالبہ پر ان کو معجزاتی طور پر دی گئی تھی۔ پھر حضرت صالح (علیہ السلام) اور ان کے گھر والوں اور ماننے والوں کو قتل کردیں گے۔ لیکن دوسری طرف اللہ کا فیصلہ آگیا اور پوری قوم کو تہس نہس کرکے رکھ دیا گیا۔ جس طرح قوم ثمود کے سرداروں نے حضرت صالح (علیہ السلام) اور ان کے گھروالوں کو قتل کرنے کی سازش تیار کی تھی بالکل اسی طرح کفار مکہ نے بھی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قتل کرنے کی اسی طرح منصوبہ بندی کی تھی لیکن جس طرح اللہ نے حضرت صالح (علیہ السلام) اور ان کے گھر والوں اور متعلقین کو بچا کر ان سازشیوں کو تباہ و برباد کردیا تھا اسی طرح اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس سازش سے محفوظ رکھا۔ اور آپ نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرمائی اور آہستہ آہستہ آپ کے گھر والوں اور صحابہ کرام (رض) نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرمائی۔ اللہ نے ان کو نجات عطافرمائی اور کفار کا برا انجام ہوا۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کی خفیہ تدبیروں کے سامنے انسانی سازشوں کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اللہ ان لوگوں کا انجام بخیر فرماتا ہے جو اللہ کی فرماں برداری کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے عبرت دلاتے ہوئے فرمایا کہ آج بھی قوم ثمود کے کھنڈرات اور عظیم الشان بلڈنگیں عبرت کا نمونہ بنی ہوئی ہیں جن کو مکہ والے ملک شام جاتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔ ان سے عبرت و نصیحت حاصل کرنا چاہیے کہ اللہ کس طرح اہل ایمان اور اہل تقویٰ کو نجات عطا فرماتا ہے اور کس طرح کفار و مشرکین اپنے انجام کو پہنچتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ یعنی ایک فرقہ تو ایمان لے آیا اور ایک نہ لایا، اور ان میں جو جھگڑا اور کلام ہوا بعض اس میں کا سورة اعراف میں مذکور ہے اور بعض اس سے آگے مذکور ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے بعد حضرت صالح (علیہ السلام) اور ان کی قوم کا ذکر۔ جونہی حضرت صالح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو خالص اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کا حکم دیا تو ان کی قوم دو حصوں میں تقسیم ہوگئی۔ توحید خالص کا انکار کرنے والے لوگ حضرت صالح (علیہ السلام) اور آپ کے ساتھیوں سے جھگڑنے لگے۔ جوں ہی صالح (علیہ السلام) نے اپنی دعوت کا آغاز کیا تو ان کی قوم دو گروہوں میں بٹ گئی ایک گروہ ایمان لانے والوں کا اور دوسرا گروہ انکار کرنے والوں کا تھا۔ دونوں گروہوں کے درمیان زبردست کش مکش شروع ہوگئی جس طرح قرآن مجید نے دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا ہے : (قَالَ الْمَلَاُ الَّذِیْنَ اسْتَکْبَرُوْا مِنْ قَوْمِہٖ لِلَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا لِمَنْ اٰمَنَ مِنْھُمْ اَتَعْلَمُوْنَ اَنَّ صٰلِحًا مُّرْسَلٌ مِّنْ رَّبِّہٖ قَالُوْٓا اِنَّا بِمَآ اُرْسِلَ بِہٖ مُؤْمِنُوْن قَالَ الَّذِیْنَ اسْتَکْبَرُوْٓا اِنَّا بالَّذِیْٓ اٰمَنْتُمْ بِہٖ کٰفِرُوْن)[ الاعراف : ٧٥۔ ٧٦] ” اس کی قوم میں سے جو سردار اپنی بڑائی پر فخر کرتے تھے انہوں نے ان لوگوں سے کہا جو کمزور بنائے گئے تھے کیا واقعی تم جانتے ہو کہ صالح (علیہ السلام) اپنے رب کا رسول ہے ؟ ایمان والوں نے جواب دیا ہم اس دعوت پر ایمان رکھتے ہیں جس کے ساتھ حضرت صالح (علیہ السلام) بھیجے گئے ہیں۔ متکبرین نے کہا جس چیز پر تم ایمان لائے ہو اس کا ہم تو انکار کرتے ہیں۔ “ (الاعراف : ٧٥۔ ٧٦) حضرت صالح (علیہ السلام) کی قوم بغاوت میں یہاں تک آگے بڑھی کہ انھوں نے اللہ تعالیٰ سے ہدایت مانگنے کی بجائے صالح (علیہ السلام) سے بار بار یہ مطالبہ کیا اگر آپ واقعی اپنے دعویٰ میں سچے ہو تو ہم پر اللہ کا عذاب نازل ہونا چاہیے۔ حضرت صالح (علیہ السلام) نے بھی انہیں بار بار پھر سمجھایا کہ اے میری قوم تمہیں کیا ہوگیا ہے ؟ کہ تم اللہ تعالیٰ کا کرم مانگنے کی بجائے اس کا عذاب مانگ کر رہے ہو ؟ اللہ تعالیٰ کی بخشش کیوں نہیں مانگتے ؟ تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔ ” اَلْحَسَنَۃٌ“ اس چیز کو کہا جاتا ہے جو انتہائی خوبصورت ہو اور اس کی طرف انسان کا دل مائل ہو۔ یہ دنیا کی کوئی بھی نعمت ہوسکتی ہے اور یہ لفظ نیکی اور خیر کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے کیونکہ نیکی سے بڑھ کر نیک آدمی کو کوئی چیز مرغوب نہیں ہوتی۔ اس کے مقابلہ میں السیءۃ کا لفظ آتا ہے اس سے مراد دنیا کا ہر قسم کا نقصان ہے خواہ وہ بیماری کی شکل میں ہو یا مالی خسارے کی صورت میں اس کے لیے السَّیِءَۃٌ کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ چھوٹے بڑے گناہ کو بھی سَیِءَۃٌ کہا جاتا ہے۔ مسائل ٍ ١۔ حضرت صالح (علیہ السلام) نے قوم کو توحید خالص کی دعوت دی تو ان کی قوم دو حصوں میں تقسیم ہوگئی۔ ٢۔ حضرت صالح (علیہ السلام) کی قوم نے بار بار ان سے عذاب کا مطالبہ کیا۔ ٣۔ حضرت صالح (علیہ السلام) نے قوم کو توبہ و استغفار کے لیے کہا لیکن وہ اپنے کفر و شرک پر قائم رہے۔ تفسیر بالقرآن توبہ و استغفار کے فائدے : ١۔ اپنے پروردگار سے توبہ کرو اور اس کی طرف رجوع کرو وہ تمہیں خوشی و عیش دے گا۔ (ہود : ٣) ٢۔ اپنے رب سے بخشش طلب کرو وہ آسمان سے بارش نازل فرمائے گا اور تمہاری قوت میں اضافہ کرے گا۔ (ہود : ٥٢) ٣۔ تم اللہ سے بخشش طلب کرو میرا رب تمہاری توبہ قبول کرے گا۔ (ہود : ٦١) ٤۔ اپنے رب سے بخشش طلب کرو وہ تمہیں معاف کردے گا اور بارش، مال اور اولاد سے نوازے گا۔ (نوح : ١٠۔ ١٢) ٥۔ اللہ سے بخشش طلب کرو اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ (المزمل : ٢٠) ٦۔ جب تک لوگ بخشش طلب کرتے رہیں گے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ہم انہیں عذاب نہیں دیں گے۔ (الانفال : ٣٣)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

درس نمبر ٣٧١ تشریح آیات ٥٤……تا……٣٥ قرآن کریم میں حضرت صالح اور قوم ثمود کا قصہ بالعموم حضرت نوح ، حضرت ہود ، حضرت لوط اور حضرت شعیب (علیہم السلام) کے قصص کے ساتھ آتا ہے۔ ان قصص کے ساتھ حضرت ابراہیم کا قصہ کبھی آتا ہے اور کبھی نہیں آتا۔ اس سورة میں بھی بنی اسرائیل کے قصص آئے ہیں۔ حضرت موسیٰ اور حضرت دائود اور حضرت سلیمان کے قصے گزر گئے ہیں۔ ہیاں بھی حضرت ہود اور حضرت شعیب کا قصہ مختصراً آیا ہے جبکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا قصہ نہیں آیا۔ حضرت صالح کے قصے میں ناقہ والی کڑی نہیں ہے بلکہ اس کے بجائے ٩ مفسدین کا ذکر ہے جو حضرت صالح کے خلاف سازشیں کرتے تھے۔ حضرت صالح کو ان کی مکاریوں کا علم نہ تھا۔ ان کی ان سازشوں کے جواب میں اللہ نے ان کے خلاف ایسی تدبیر اختیار کی جس کا وہ سوچ بھی نہ سکتے تھے۔ وہ یہ کہ ان سب مفسدوں کو تباہ کر کے رکھ دیا اور حضرت صالح اور اہل ایمان کو نجات دے دی۔ مشرکین مکہ کو کہا جاتا ہے کہ تم اپنی آنکھوں سے ان کے مکانات کو دیکھتے ہو مگر عبرت نہیں پکڑتے۔ ولقد ……یختصمون (٥٤) حضرت صالح کی رسالت کا خلاصہ صرف یہ ہے کہ ” صرف اللہ کی بندگی کرو۔ “ ہر دور میں انسانوں کو جو سماوی ہدایت دی گئی ہے اس کا خلاصہ یہی رہا ہے کہ صرف اللہ وحدہ کی بندگی رو ، ہر رسول اور ہر قوم کو یہی تعلیم دی گئی جبکہ اس کائنات میں انسانوں کے اردگرد پائی جانے والی کائنات میں اور خود انسانوں کے نفوس کے اندر بھی وجدانی دلائل موجود ہیں جو یہی حقیقت بتاتے ہیں کہ اس کائنات کا معبود ایک ہی ہے۔ لیکن انسان ہے کہ وہ اس سادہ حقیقت کا انکار کرتا ہے۔ نہ صرف انکار بلکہ وہ اس دعوت کے ساتھ مذاق بھی کرتا ہے۔ اور حقارت آمیز انداز میں اسے ٹھکراتا ہے اور آج تک انسان بھٹک رہا ہے ۔ مختلف راستوں پہ چلتا ہے ، ٹھوکریں کھاتا ہے لیکن صراط مستقیم کی طرف نہیں آتا۔ یہاں قرآن کریم نے حضرت صالح کی دعوت کا صرف یہ اثر بتایا ہے کہ قوم دو ٹکڑے ہوگئی اور ان کے درمیان مخاصمت شروع ہوگئی۔ ایک فریق نے دعوت قبول کرلی اور دوسرا مخالف ہوگیا۔ فریق ، تعداد میں بہت زیادہ تھا جیسا کہ قرآن کریم کی دوسری سورتوں سے ظاہر ہے۔ یہاں قصے کے اختصار کی وجہ سے خلا ہے۔ اس میں قوم نے حضرت صالح سے مطالبہ کیا ہے کہ تم ہمیں جس عذاب سے ڈراتے ہو ، اسے لے آئو۔ منکرین کا ہمیشہ یہ طریقہ ہوتا ہے کہ وہ ہدایت و رحمت طلب کرنے کی بجائے اللہ کا عذاب طلب کرتے ہیں جس طرح مشرکین قریش نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مطالبہ کرتے تھے۔ حضرت صالح نے انہیں تنبیہ کی کہ تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم رحمت و ہدایت طلب کرنے کی بجائے خدا کا عذاب طلب کرتے ہو۔ وہ ان کو مشورہ دیتے ہیں اللہ سے مغفرت طلب کرو وہ تم پر رحم کر دے گا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

قوم ثمود کی طرف حضرت صالح (علیہ السلام) کا مبعوث ہونا، قوم کی بدسلوکی کرنا پھر ہلاک ہونا ان آیات میں قوم ثمود کی کٹ حجتی اور بربادی کا ذکر ہے ان کی طرف صالح (علیہ السلام) مبعوث ہوئے تھے یہ لوگ بھی مشرک تھے، حضرت صالح (علیہ السلام) نے ان کو ہر طرح سمجھایا لیکن ان میں سے تھوڑے سے لوگ ایمان لائے جو دنیاوی اعتبار سے ضعیف سمجھے جاتے تھے۔ جو لوگ اہل دنیا تھے وہ کفر پر اڑے رہے اسی کو فرمایا (فَاِِذَا ھُمْ فَرِیْقَانِ یَخْتَصِمُوْنَ ) (کہ وہ دو جماعتیں ہوگئیں جو آپس میں جھگڑتے تھے) اس کا ذکر سورة اعراف میں گزر چکا ہے، جو لوگ دنیاوی اعتبار سے بڑے تھے انہوں نے اہل ایمان سے کہا جو ضعیف تھے۔ (اَتَعْلَمُوْنَ اَنَّ صَالِحًا مُّرْسَلٌ مِنْ رَبِِّہٖ ) (کیا تم جانتے ہو کہ صالح اپنے رب کی طرف سے بھیجا ہوا ہے) مومنین نے کہا جو ضعفاء تھے (اَنَّا بِمَا اُرْسِلَ بِہٖ مُؤْمِنُوْنَ ) (بےشک ہم اس پر ایمان لائے جو صالح پر نازل ہوا) اس پر منکرین نے کہا (اَنَّا بِمَا اُرْسِلَ بِہٖ مُؤْمِنُوْنَ ) (بےشک ہم اس کے منکر ہیں جس پر تم ایمان لائے) ان متکبرین نے حضرت صالح (علیہ السلام) سے یوں بھی کہا (یَا صَالِحُ اءْتِنَا بِمَا تَعِدُنَا اِنْ کُنْتَ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَ ) (اے صالح وہ عذاب لے آؤ جس کا تم ہم سے وعدہ کرتے ہو اگر تم پیغمبروں میں سے ہو) ۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

39:۔ یہ تیسرا قصہ ہے اور دوسرے دعوے سے متعلق ہے یعنی کارساز صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ حضرت صالح (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے فرمایا اعبدو اللہ حاجات میں غائبانہ صرف اللہ کو پکارو اللہ کے سوا کوئی کارساز نہیں۔ اعبدوا اللہ ای وحدوہ ولا تشرکوا بہ شیئا (خازن ج 5 ص 126) ، قوم نے نہ مانا تو اللہ تعالیٰ نے ماننے والوں کو بچا لیا اور نہ ماننے والوں کو ہلاک کردیا۔ مومنوں کو بچانا اور نہ ماننے والوں کو ہلاک کردیا۔ مومنوں کو بچانا اور منکروں کو ہلاک کرنا اللہ کے اختیار میں تھا حضرت صالح (علیہ السلام) کو اس کا اختیار نہ تھا اس طرح اس واقعہ میں ہدایت بھی ہے اور بشارت بھی۔ 40:۔ جب حضرت صالح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کے سامنے دعوت توحید پیش کی تو قوم دو گروہوں میں بٹ گئی کچھ لوگوں نے ان کی دعوت قبول کرلی اور کچھ لوگ کفر و شرک پر قائم رہے دونوں گروہ آپس میں جھگڑنے لگے اور ہر فریق اپنے حق پر اور فریق مخالف کے باطل پر ہونے کا دعویدار تھا۔ والمعنی فاذا قوم صالح فریقان مومن بہ و کافر بہ یختصمون فیقول کل فریق الحق مع الخ (مدارک ج 3 ص 164) اس سے معلوم ہوا کہ جب مسئلہ توحید بیان کیا جاتا ہے تو یہ گروہ بندی لازمی طور پر معرض وجود میں آجاتی ہے اس کو فتنہ انگیزی اور افتراق مذموم سے تعبیر کرنا سراسر غلطی اور نادانی ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(45) اور ہم نے ثمود کے پاس ان کے بھائی صالح (علیہ السلام) کو یہ پیام دیکر بھیجا کہ تم اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو یہ پیغام بنتے ہی وہ لوگ دو فریق ہوکر آپس میں جھگڑنے لگے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی ایک ایمان والے اور ایک منکر جیسے مکہ کے لوگ پیغمبر کے آنے سے جھگڑنے لگے 12 خلاصہ یہ کہ دونوں فریق ہوگئے ایک سرداروں اور سرمایہ داروں کا دوسرا غرباء اور ضعفاء کا جیسا کہ سورة اعراف میں گزرچکا ہے اور یہ ایک عام قاعدہ ہے کہ جب کوئی صحیح خبر پیش کی جائے تو کچھ مانتے ہیں اور کچھ نہیں مانتے یہی جھگڑے کی صورت ہوتی ہے۔