Surat un Namal

Surah: 27

Verse: 47

سورة النمل

قَالُوا اطَّیَّرۡنَا بِکَ وَ بِمَنۡ مَّعَکَ ؕ قَالَ طٰٓئِرُکُمۡ عِنۡدَ اللّٰہِ بَلۡ اَنۡتُمۡ قَوۡمٌ تُفۡتَنُوۡنَ ﴿۴۷﴾

They said, "We consider you a bad omen, you and those with you." He said, "Your omen is with Allah . Rather, you are a people being tested."

وہ کہنے لگے ہم تو تیری اور تیرے ساتھیوں کی بد شگونی لے رہے ہیں؟ آپ نے فرمایا تمہاری بد شگونی اللہ کے ہاں ہے ، بلکہ تم فتنے میں پڑے ہوئے لوگ ہو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

قَالُوا اطَّيَّرْنَا بِكَ وَبِمَن مَّعَكَ ... "Why seek you not the forgiveness of Allah, that you may receive mercy!" They said: "We augur an omen from you and those with you." This means: "We do not see any good in your face and the faces of those who are following you." Since they were doomed, whenever anything bad happened to any of them they would say, "This is because of Salih and his companions." Mujahid said, "They regarded them as bad omens." This is similar to what Allah said about the people of Fir`awn: فَإِذَا جَأءَتْهُمُ الْحَسَنَةُ قَالُواْ لَنَا هَـذِهِ وَإِن تُصِبْهُمْ سَيِّيَةٌ يَطَّيَّرُواْ بِمُوسَى وَمَن مَّعَهُ But whenever good came to them, they said: "Ours is this." And if evil afflicted them, they saw it as an omen about Musa and those with him. (7:131) And Allah says: وَإِن تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُواْ هَـذِهِ مِنْ عِندِ اللَّهِ وَإِن تُصِبْهُمْ سَيِّيَةٌ يَقُولُواْ هَـذِهِ مِنْ عِندِكَ قُلْ كُلٌّ مِّنْ عِندِ اللَّهِ And if some good reaches them, they say, "This is from Allah," but if some evil befalls them, they say, "This is from you." Say: "All things are from Allah." (4:78) i.e., by virtue of His will and decree. And Allah tells us about the dwellers of the town, when the Messengers came to them: قَالُواْ إِنَّا تَطَيَّرْنَا بِكُمْ لَيِن لَّمْ تَنتَهُواْ لَنَرْجُمَنَّكُمْ وَلَيَمَسَّنَّكُمْ مِّنَّا عَذَابٌ أَلِيمٌ قَالُواْ طَـيِرُكُم مَّعَكُمْ They (people) said: "For us, we see an omen from you; if you cease not, we will surely stone you, and a painful torment will touch you from us." They (Messengers) said: "Your omens are with yourselves! (36:18) And these people (Thamud) said: اطَّيَّرْنَا بِكَ وَبِمَن مَّعَكَ قَالَ طَايِرُكُمْ عِندَ اللَّهِ ... "We augur an omen from you and those with you." He said: "Your omen is of Allah; meaning, Allah will punish you for that. ... بَلْ أَنتُمْ قَوْمٌ تُفْتَنُونَ nay, but you are a people that are being tested. Qatadah said: "You are being tested to see whether you will obey or disobey." The apparent meaning of the phrase تُفْتَنُونَ (are being tested) is: you will be left to get carried away in your state of misguidance.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

471عرب جب کسی کام کا یا سفر کا ارادہ کرتے تو پرندے کو اڑاتے اگر وہ دائیں جانب اڑتا تو اسے نیک شگون سمجھتے اور وہ کام کر گزرتے یا سفر پر روانہ ہوجاتے اور اگر بائیں جانب اڑتا تو بد شگونی سمجھتے اور اس کام یا سفر سے رک جاتے (فتح القدیر) اسلام میں یہ بدشگونی اور نیک شگونی جائز نہیں ہے البتہ فال نکالنا جائز ہے 472یعنی اہل ایمان نحوست کا باعث نہیں ہیں جیسا کہ تم سمجھتے ہو بلکہ اس کا اصل سبب اللہ ہی کے پاس ہے کیونکہ قضا و تقدیر اسی کے اختیار میں ہے مطلب یہ ہے کہ تمہیں جو نحوست پہنچی ہے وہ اللہ کی طرف سے ہے اور اس کا سبب تمہارا کفر ہے۔ فتح القدیر 473یا گمراہی میں ڈھیل دے کر تمہیں آزمایا جا رہا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤٧] اس آیت کے دو مطلب ہوسکتے ہیں ایک یہ کہ جب سے تم نے اپنی نبوت کا ڈھونگ رچایا ہے۔ اس وقت سے ہم پر کوئی نہ کوئی افتاد پڑی ہی رہتی ہے۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ پہلے ہم سب ایک ہی قوم تھے۔ تم نے آکر ہم میں پھوٹ ڈال دی۔ اور ہماری زندگی اجیرن بنا رکھی ہے۔ یہ سب تمہاری ہی نحوست ہے اور یہی اعتراض کفار مکہ کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر تھا۔ [٤٨] اس آیت کے بھی دو مطلب ہیں ایک یہ کہ تم پر جو وقتاً فوقتاً کوئی مصیبت آن پڑتی ہے تو یہ تمہاری تنبیہ کے لئے آتی ہے اور تمہیں سنبھلنے کے لئے کچھ مزید مہلت دی جاتی ہے اور دوسرا یہ کہ قوم کے جو دو فریق بن چکے ہیں تو اسی بات میں تمہاری آزماوش ہو رہی ہے تم حق کا ساتھ دیتے ہو یا باطل کا اور اگر باطل کا ساتھ دیتے ہو تو اس میں کس حد تک سرگرمیاں دکھاتے ہو۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قَالُوا اطَّيَّرْنَا بِكَ ۔۔ :” اطَّيَّرْنَا “ اصل میں ” تَطَیَّرْنَا “ ہے، (ہم نے بدشگونی لی) تاء کو ساکن کرکے طاء میں ادغام کیا اور پہلا حرف ساکن ہوجانے کی وجہ سے شروع میں ہمزہ وصلی کا اضافہ کردیا۔ ادغام کی وجہ سے بدشگونی کے معنی میں شدت کا اظہار ہو رہا ہے۔ صالح (علیہ السلام) کو جھٹلانے والوں نے کہا کہ ہم نے تمہارے اور تمہارے ساتھیوں کے ساتھ بدشگونی پکڑی ہے اور تمہیں منحوس ہی پایا ہے کہ آئے دن ہم پر آفات و مصائب کا ہجوم رہتا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ اس کا باعث تم اور تمہارے ساتھی ہیں۔ آل فرعون پر جب مختلف عذاب آئے تو انھوں نے بھی یہی بات کہی تھی : (فَاِذَا جَاۗءَتْهُمُ الْحَسَنَةُ قَالُوْا لَنَا هٰذِهٖ ۚ وَاِنْ تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ يَّطَّيَّرُوْا بِمُوْسٰي وَمَنْ مَّعَهٗ ) [ الأعراف : ١٣١ ] ” تو جب ان پر خوش حالی آتی تو کہتے یہ تو ہمارے ہی لیے ہے اور اگر انھیں کوئی تکلیف پہنچتی تو موسیٰ اور اس کے ساتھ والوں کے ساتھ نحوست پکڑتے۔ “ سورة یٰس میں مذکور بستی کے لوگوں نے بھی اپنے رسولوں سے یہی کہا تھا : (اِنَّا تَــطَيَّرْنَا بِكُمْ ۚ لَىِٕنْ لَّمْ تَنْتَهُوْا لَنَرْجُمَنَّكُمْ وَلَيَمَسَّـنَّكُمْ مِّنَّا عَذَابٌ اَلِــيْمٌ) [ یٰسٓ : ١٨ ] ” بیشک ہم نے تمہیں منحوس پایا ہے، یقیناً اگر تم باز نہ آئے تو ہم ضرور ہی تمہیں سنگسار کردیں گے اور تمہیں ہماری طرف سے ضرور ہی دردناک عذاب پہنچے گا۔ “ ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی کفار ایسے ہی کہتے تھے : (وَاِنْ تُصِبْھُمْ سَيِّئَةٌ يَّقُوْلُوْا هٰذِهٖ مِنْ عِنْدِكَ ۭقُلْ كُلٌّ مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ ۭ فَمَالِ هٰٓؤُلَاۗءِ الْقَوْمِ لَا يَكَادُوْنَ يَفْقَهُوْنَ حَدِيْثًا ) [ النساء : ٧٨ ] ” اور اگر انھیں کوئی بھلائی پہنچتی ہے تو کہتے ہیں یہ اللہ کی طرف سے ہے اور اگر انھیں کوئی برائی پہنچتی ہے تو کہتے ہیں یہ تیری طرف سے ہے۔ کہہ دے سب اللہ کی طرف سے ہے، پھر ان لوگوں کو کیا ہے کہ قریب نہیں ہیں کہ کوئی بات سمجھیں۔ “ قَالَ طٰۗىِٕرُكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ : اس کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورة اعراف (١٣١) کی تفسیر۔ بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ تُفْتَنُوْنَ : یعنی تمہارے مصائب کا سبب ہمارا منحوس ہونا نہیں، بلکہ اصل سبب یہ ہے کہ اب تمہارا امتحان شروع ہے کہ تم آفات و مصائب سے سبق حاصل کرکے ایمان قبول کرتے ہو یا کفر پر جمے رہتے ہو۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالُوا اطَّيَّرْنَا بِكَ وَبِمَنْ مَّعَكَ۝ ٠ۭ قَالَ طٰۗىِٕرُكُمْ عِنْدَ اللہِ بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ تُفْتَنُوْنَ۝ ٤٧ طير ( فال) ، وتَطيَّرَ فلانٌ ، واطَّيَّرَ أصله التّفاؤل بالطَّيْرِ ثمّ يستعمل في كلّ ما يتفاء ل به ويتشاءم، قالُوا : إِنَّا تَطَيَّرْنا بِكُمْ [يس/ 18] ، ولذلک قيل : «لا طَيْرَ إلا طَيْرُكَ «1» » ، وقال تعالی: إِنْ تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ يَطَّيَّرُوا[ الأعراف/ 131] ، أي : يتشاء موا به، أَلا إِنَّما طائِرُهُمْ عِنْدَ اللَّهِ [ الأعراف/ 131] ، أي : شؤمهم : ما قد أعدّ اللہ لهم بسوء أعمالهم . وعلی ذلک قوله : قالُوا اطَّيَّرْنا بِكَ وَبِمَنْ مَعَكَ قالَ طائِرُكُمْ عِنْدَ اللَّهِ [ النمل/ 47] ، قالُوا طائِرُكُمْ مَعَكُمْ [يس/ 19] ، وَكُلَّ إِنسانٍ أَلْزَمْناهُ طائِرَهُ فِي عُنُقِهِ [ الإسراء/ 13] ، أي : عمله الذي طَارَ عنه من خيرٍ وشرٍّ ، ويقال : تَطَايَرُوا : إذا أسرعوا، ويقال :إذا تفرّقوا «2» ، قال الشاعر : 303 ۔ طَارُوا إليه زَرَافَاتٍ ووُحْدَاناً وفجرٌ مُسْتَطِيرٌ ، أي : فاشٍ. قال تعالی: وَيَخافُونَ يَوْماً كانَ شَرُّهُ مُسْتَطِيراً [ الإنسان/ 7] ، وغبارٌ مُسْتَطَارٌ ، خولف بين بنائهما فتصوّر الفجر بصورة الفاعل، فقیل : مُسْتَطِيرٌ ، والغبارُ بصورة المفعول، فقیل : مُسْتَطَارٌ وفرسٌ مُطَارٌ للسّريع، ولحدید الفؤاد، وخذ ما طَارَ من شَعْر رأسك، أي : ما انتشر حتی كأنه طَارَ. تطیر فلان واطیر اس کے اصل معنی تو کسی پرندہ سے شگون لینے کے ہیں پھر یہ ہر اس چیز کے متعلق استعمال ہونے لگا ہے ۔ جس سے برا شگون لیا جائے اور اسے منحوس سمجھا جائے قرآن میں ہے : ۔ إِنَّا تَطَيَّرْنا بِكُمْ [يس/ 18] ہم تم کو منحوس سمجھتے ہیں ۔ اسی لئے کہا گیا ہے لا طیر الا طیرک کہ نہیں ہے نحوست مگر تیری طرف سے ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنْ تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ يَطَّيَّرُوا[ الأعراف/ 131] اگر سختی پہنچتی ہے تو بد شگونی لیتے ہیں ۔ یعنی موسٰی (علیہ السلام) کو باعث نحوست سمجھتے ہیں چناچہ ان کے جواب میں فرمایا أَلا إِنَّما طائِرُهُمْ عِنْدَ اللَّهِ [ الأعراف/ 131] یعنی یہ ان کی بد اعمالیوں کی سزا ہے جو اللہ کے ہاں سے مل رہی ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : ۔ قالُوا اطَّيَّرْنا بِكَ وَبِمَنْ مَعَكَ قالَ طائِرُكُمْ عِنْدَ اللَّهِ [ النمل/ 47] وہ کہنے لگے کہ تم اور تمہارے ساتھیوں کو ہم بد شگون خیال کرتے ہیں ( صالح (علیہ السلام) نے ) کہا کہ تمہاری بد شگوفی خدا کی طرف سے ہے ۔ قالُوا طائِرُكُمْ مَعَكُمْ [يس/ 19] انہوں نے کہا ہے کہ تمہاری نحوست تمہارے ساتھ ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَكُلَّ إِنسانٍ أَلْزَمْناهُ طائِرَهُ فِي عُنُقِهِ [ الإسراء/ 13] اور ہم نے ہر انسان کے اعمال کو اس کے گلے میں لٹکا دیا ہے ۔ میں انسان اعمال کو طائر کہا گیا ہے ( کیونکہ عمل کے سر زد ہوجانے کے بعد انسان کو یہ اختیار نہیں رہتا کہ اسے واپس لے گویا وہ ( اس کے ہاتھوں سے اڑجا تا ہے تطائر وا وہ نہایت تیزی سی گئے منتشر ہوگئے ہیں ۔ شاعر نے کہا ہے طاردو الیہ ذرافات ووحدانا تو جماعتیں بن کر اور اکیلے اکیلے اس کی طرف اڑتے چلے جاتے ہیں ۔ فجر مستطیر منتشر ہونے والی صبح قرآن میں ہے : ۔ وَيَخافُونَ يَوْماً كانَ شَرُّهُ مُسْتَطِيراً [ الإنسان/ 7] اور اس دن سے جس کی سختی پھیل رہی ہوگی خوف رکھتے ہیں ۔ غبار مستطار بلند اور منتشر ہونے والا غبار فجر کو فاعل تصور کر کے اس کے متعلق مستطیر اسم فاعل کا صیغہ استعمال کرتے ہیں اور غبار کو مفعول تصور کر کے مستطار کہتے ہیں ۔ فرس مطار ہوشیار اور تیزرو گھوڑا ۔ خذ ماطا ر من شعر راسک یعنی اپنے سر کے پرا گندہ اور لمبے بال کاٹ ڈالو ۔ فتن أصل الفَتْنِ : إدخال الذّهب النار لتظهر جو دته من رداء ته، واستعمل في إدخال الإنسان النار . قال تعالی: يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ [ الذاریات/ 13] ( ف ت ن ) الفتن دراصل فتن کے معنی سونے کو آگ میں گلانے کے ہیں تاکہ اس کا کھرا کھوٹا ہونا ہوجائے اس لحاظ سے کسی انسان کو آگ میں ڈالنے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ [ الذاریات/ 13] جب ان کو آگ میں عذاب دیا جائے گا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤٧) وہ لوگ بولے ہم تو تم کو اور تمہارے ساتھ جو مومن ہیں انہیں منحوس سمجھتے ہیں جس کی وجہ سے ہم پر سختی ہو رہی ہے حضرت صالح (علیہ السلام) نے فرمایا تمہاری سختی اور خوش حالی کی سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے بلکہ تم سختی اور خوشحالی کے ذریعے آزمائے جاؤ گے اور یہ کہ تم کفر کی بدولت عذاب میں مبتلا ہوجاؤ گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٧ (قَالُوا اطَّیَّرْنَا بِکَ وَبِمَنْ مَّعَکَ ط) ” ہمیں خدشہ ہے کہ آپ لوگوں کی نحوست کی وجہ سے ہم کسی آفت میں گرفتار نہ ہوجائیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

60 One meaning of what they said is: "Your movement has proved to be an evil omen for us. Since you and your companions have revolted against the ancestral religion, one or the other calamity is befalling us almost daily, because our deities have become angry with us. In this sense, this saying is similar to the sayings of most of those polytheistic nations who regarded their Prophets as ominous. In Surah Ya Sin, for instance, a nation has been mentioned, which said to its Prophet "We regard you as an evil omen for ourselves." (v. 18) The same thing was said by the Pharaoh's people about the Prophet Moses: "Whenever a good time came, they would say, `This is but our due', and when there was a bad time, they would ascribe their calamities to Moses and his companions." (AIA`raf 130) Almost similar things were said in Makkah about the Holy Prophet also. The other meaning of their saying is this: "Your advent has stirred up divisions in our eation. Before this we were a united people, who followed one religion. Your ominous coming has turned brother against brother, and separated son from father. " This very accusation was being brought against the Holy Prophet by his opponents over and over again. Soon after he started his mission of inviting the people to the Faith, the delegation of the chiefs of the Quraish, who went to Abu Talib, had said, "Give up to us this nephew of yours: he has opposed your religion and your forefathers' religion and has sown discord among your people, and has held the whole nation as foolish." (Ibn Hisham, Vol. I. p. 285). On the occasion of Hajj, when the disbelievers of Makkah feared that the visitors from outside might be influenced by the Holy Prophet, they held consultations and decided to approach the Arab tribes and tell them: "This man is a sorcerer, who by his sorcery separates son from his father, brother from his brother, wife from her husband, and man from his family." (Ibn Hisham, p. 289). 61 That is, "The truth is not that which you understand it to be. The fact which you have not yet realized is that my advent has put you to the test. Until my arrival you were following a beaten track in your ignorance. You could not recognize the truth from the falsehood; you had no criterion for judging the genuine from the counterfeit; your worst people were lording over your best people, who were rolling in the dust. But now a criterion has come against which you will alI be judged and assessed. Now a balance has been set up publicly, which will weigh everybody according to his true worth. Now both the truth and the falsehood have been made manifest. Whoever accepts the truth will weigh heavy whether he was not being held even worth a farthing so far; and whoever persists in falsehood will not weigh a gramme even though he was being esteemed as the chief of the chiefs before this. Now the judgement will not be based on the nobility or otherwise of the family one came of, or the abundance of the means and resources that one possessed, or one's physical strength but on this whether one accepted the truth gracefully or preferred to remain attached to falsehood. "

سورة النمل حاشیہ نمبر : 60 ان کے اس قول کا ایک مطلب یہ ہے کہ تمہاری یہ تحریک ہمارے لیے سخت منحوس ثابت ہوئی ہے ، جب سے تم نے اور تمہارے ساتھیوں نے دین آبائی کے خلاف یہ بغاوت شروع کی ہے ہم پر آئے دن کوئی نہ کوئی مصیبت نازل ہوتی رہتی ہے ، کیونکہ ہمارے معبود ہم سے ناراض ہوگئے ہیں ، اس معنی کے لحاظ سے یہ قول اکثر ان مشرک قوموں کے اقوال سے مشابہ ہے جو اپنے انبیاء کو منحوس قرار دیتی تھیں ۔ چنانچہ سورہ یسین میں ایک قوم کا ذکر آتا ہے کہ اس نے اپنے انبیاء سے کہا اِنَّا تَــطَيَّرْنَا بِكُمْ ، ہم نے تم کو منحوس پایا ہے ( آیت 18 ) یہی بات فرعون کی قوم حضرت موسی کے متعلق کہتی تھی: فَاِذَا جَاۗءَتْهُمُ الْحَسَنَةُ قَالُوْا لَنَا هٰذِهٖ ۚ وَاِنْ تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ يَّطَّيَّرُوْا بِمُوْسٰي وَمَنْ مَّعَهٗ ۔ جب ان پر کوئی اچھا وقت آتا تو کہتے کہ ہمارے لیے یہی ہے اور جب کوئی مصیبت آجاتی تو موسی اور ان کے ساتھیوں کی نحوست کو اس کا ذمہ ٹھہراتے ۔ ( الاعراف ، آیت 131 ) قریب قریب ایسی ہی باتیں مکہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بھی کہی جاتی تھیں ۔ دوسرا مطلب اس قول کا یہ ہے کہ تمہارے آتے ہی ہماری قوم میں پھوٹ پڑ گئی ہے ، پہلے ہم ایک قوم تھے جو ایک دین پر مجتمع تھے ، تم ایسے سبز قدم آئے کہ بھائی بھائی کا دشمن ہوگیا اور بیٹا باپ سے کٹ گیا ، اس طرح قوم کے اندر ایک نئی قوم اٹھ کھڑی ہونے کا انجام ہمیں اچھا نظر نہیں آتا ، یہی وہ الزام تھا جسے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالفین آپ کے خلاف بار بار پیش کرتے تھے ، آپ کی دعوت کا آغاز ہوتے ہی سرداران قریش کا جو وفد ابو طالب کے پاس گیا تھا اس نے یہی کہا تھا کہ اپنے اس بھتیجے کو ہمارے حوالہ کردو جس نے تمہارے دین اور تمہارے باپ دادا کے دین کی مخالفت کی ہے اور تمہاری قوم میں پھوٹ ڈال دی ہے اور ساری قوم کو بے وقوف قرار دیا ہے ۔ ( ابن ہشام جلد اول ، ص 285 ) حج کے موقعہ پر جب کفار مکہ کو اندیشہ ہوا کہ باہر کے زائرین آکر کہیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت سے متاثر نہ ہوجائیں تو انہوں نے باہم مشورہ کرنے کے بعد یہی طے کیا کہ قبائل عرب سے کہا جائے یہ شخص جادوگر ہے ، اس کے جادو کا اثر یہ ہوتا ہے کہ بیٹا باپ سے ، بھائی بھائی سے ، بیوی شوہر سے اور آدمی اپنے سارے خاندان سے کٹ جاتا ہے ۔ ( ابن ہشام ، ص 289 ) سورة النمل حاشیہ نمبر : 61 یعنی بات وہ نہیں ہے جو تم نے سمجھ رکھی ہے ، اصل معاملہ جسے اب تک تم نہیں سمجھے ہو یہ ہے کہ میرے آنے سے تمہارا امتحان شروع ہوگیا ہے ۔ جب تک میں نہ آیا تھا تم اپنی جہالت میں ایک ڈگر پر چلے جارہے تھے ، حق اور باطل کا کوئی کھلا امتیاز سامنے نہ تھا ، کھرے اور کھوٹے کی پرکھ کا کوئی معیار نہ تھا ، بدتر سے بدتر لوگ اونچے ہورہے تھے ، اور اچھی سے اچھی صلاحیتوں کے لوگ خاک میں ملے جارہے تھے ، مگر اب ایک کسوٹی آگئی ہے جس پر تم سب جانچے اور پرکھے جاؤ گے ، اب بیچ میدان میں ایک ترازو رکھ دیا گیا ہے جو ہر ایک کو اس کے وزن کے لحاظ سے تولے گا ، اب حق اور باطل آمنے سامنے موجود ہیں ، جو حق کو قبول کرے گا وہ بھاری اترے گا خواہ آج تک اس کی کوڑی بھر بھی قیمت نہ رہی ہو ۔ اور جو باطل پر جمے گا اس کا وزن رتی بھر بھی نہ رہے گا چاہے وہ آج تک امیر الامراء ہی بنا رہا ہو ، اب فیصلہ اس پر نہیں ہوگا کہ کون کس خاندان کا ہے اور کس کے ذرائع و وسائل کتنے ہیں ، اور کون کتنا زور رکھتا ہے ، بلکہ اس پر ہوگا کہ کون سیدھی طرح صداقت کو قبول کرتا ہے اور کون جھوٹ کے ساتھ اپنی قسمت وابستہ کردیتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

23: یعنی آپ کے نبوت کا دعویٰ کرنے کے بعد ہماری قوم دو حصوں میں بٹ گئی ہے، اور ہم اسے آپ کی نحوست سمجھتے ہیں۔ نیز بعض روایات میں ہے کہ ان پر قحط بھی آ پڑا تھا، اس کو بھی انہوں نے حضرت صالح (علیہ السلام) کی نحوست قرار دیا۔ 24: یعنی نحوست تو تمہارے اعمال کی ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئی ہے اور اس لیے آئی ہے کہ تمہیں آزمایا جائے کہ ان مصائب کے وقت اللہ تعالیٰ سے رجوع کرتے ہو یا اپنی بد اعمالیوں پر قائم رہتے ہو۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(27:47) اطیرنا ماضی جمع متکلم۔ تطیر تفعل مصدر۔ اصل میں تطیرنا تھا تا کو طاء میں مدغم کیا اور شروع میں ہمزہ وصل لایا گیا۔ اطیر تطیر کے اصل معنی پرندوں سے بدفالی لینے کے ہیں پھر اس کا استعمال ہر بدفالی کے لیے ہونے لگا۔ اطیرنا بک ہم تجھ سے برا شگون لیتے ہیں۔ ہم تجھ کو منحوس سمجھتے ہیں۔ طائرکم۔ مضاف مضاف الیہ۔ تمہاری قال بد۔ تمہارا شگون بد، تمہاری بری قسمت۔ تمہاری نحوست۔ تمہاری نامبارکی۔ اصل میں طائر کے معنی اڑنے والے کے ہیں مگر عرب میں جاہلیت کے زمانے میں پرندوں سے فال لیتے تھے پرندوں کو اڑاتے اگر وہ بائیں طرف کو اڑ جاتے تو برا شگون لیتے اور جس کام کے لئے شگون لیا گیا تھا اس کو نہ کرتے تھے۔ پھر یہ لفظ ہر اس چیز کے متعلق استعمال ہونے لگا جس سے برا شگون لیا جاوے اور اسے منحوس سمجھا جائے۔ مثلاً سفر پر جانے کے لئے گھر سے نکلے اور کالی بلی راستہ کاٹ کے نکل جائے وغیرہ۔ یعنی طائر کا لفظ بذات خود نحوست کی علامت بن گیا۔ لہٰذا طائرکم کے معنی تمہاری نحوست بری قسمت تو لکھی جا چکی ہے۔ اور جگہ ہے طائرکم معکم (36:19) تمہاری نحوست تمہارے ساتھ ہے۔ تفتنون ۔ مضارع مجہول جمع مذکر حاضر۔ تم فتنہ میں ڈالے جاتے ہو۔ فتن کے معنی سونے کو آگ میں گلانے کے ہیں تاکہ اس کا کھرا کھوٹا معلوم ہوجاوے۔ اسی لحاظ سے کسی انسان کو آگ میں ڈالنے (بمعنی عذاب دینے) کے لئے بھی مستعمل ہے جیسے یوم ہم علی النار یفتنون (51:13) جس دن ان کو آگ میں عذاب دیا جائے گا۔ یا ژوقوا فتنکم (51:14) اپنی شرارت کا مزہ چکھو۔ یعنی عذاب کا مزہ چکھو۔ کبھی اس کے معنی آزمائش کرنے اور امتحان کے بھی آتے ہیں۔ جیسے وفتناک فتونا (20:40) ہم تیری کئی بار آزمائش کی۔ بل انتم قوم تفتنون۔ البتہ تم ہی وہ لوگ ہو کہ عذاب میں پڑو گے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

10 ۔ یعنی ہم پر جو قحط آنے شروع ہوگئے ہیں تو یہ سب تمہاری نحوست ہے۔ (شوکانی) 11 ۔ یعنی تمہیں جو نحوست پہنچی وہ اللہ کی طرف سے تمہارے اپنے کفر کی بدولت پہنچی۔ وہ تم پر مصیبتیں بھیج کر تمہیں خواب غفلت سے جھنجھوڑتا ہے تاکہ کفر و شرک کی راہ چھوڑ کر اس کی سیدھی راہ اختیار کرو۔ (شوکانی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ یعنی تمہارے اعمال کفریہ اللہ کو معلوم ہیں، یہ شرور ان ہی اعمال پر مرتب ہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : قوم کا حضرت صالح (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کے خلاف پر اوپیگنڈا۔ حضرت صالح (علیہ السلام) کی قوم نے ان کے خلاف زور و شور کے ساتھ پر اوپیگنڈہ کیا کہ جب سے صالح (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں نے یہ کام شروع کیا ہے قوم کا اتحاد ختم ہوا اور گھر گھر اختلاف پیدا کیا گیا ہے۔ یہاں تک کہ ملک کی ترقی میں رکاوٹیں پیدا ہوگئی ہیں۔ ہمارا دن رات کا سکون لٹ گیا ہے شعیب اور اسکے ساتھیوں کی نحوست کی وجہ سے یہ ہوا ہے۔ حضرت صالح (علیہ السلام) نے انھیں سمجھایا کہ یہ نحوست ہماری وجہ سے نہیں بلکہ تمہاری وجہ سے ہے۔ تمہیں اپنے فکر و عمل پر غور کرتے ہوئے یہ بات سوچنی چاہیے کہ تم بہت بڑی آزمائش میں مبتلا کیے گئے ہو۔ آزمائش سے مراد حق و باطل کی آویزش اور اللہ تعالیٰ کا عذاب ہے جس سے صالح (علیہ السلام) نے انھیں یہ کہہ کر آگاہ کیا تھا۔ اگر تم نے توبہ استغفار نہ کیا تو ٹھیک تین دن کے بعد تم پر اللہ کا عذاب نازل ہوگا۔ (عَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَ قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ےَقُوْلُ لَا طِےَرَۃَ وَخَےْرُھَا الْفَالُ قَالُوْا وَمَا الْفَالُ قَالَ الْکَلِمَۃُ الصَّالِحَۃُ ےَسْمَعُھَا اَحَدُکُمْ ۔ ) [ رواہ البخاری : باب الجذام ] حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ‘ آپ نے فرمایا بد شگونی جائز نہیں البتہ فال بہتر ہے صحابہ کرام (رض) نے دریافت کیا کہ فال کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا ‘ اچھا کلمہ جو تمہیں سنائی دے۔ مسائل ١۔ قوم نے حضرت صالح (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کو منحوس قرار دیا۔ ٢۔ حضرت صالح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو آزمائش سے آگاہ فرمایا تھا۔ تفسیر بالقرآن آزمائش کی شکلیں اور انبیاء پر منحوس ہونے کا الزام : ١۔ پہلے لوگوں کو بھی آزمایا گیا۔ (العنکبوت : ٣) ٢۔ ڈر سے آزمائش۔ (البقرۃ : ١٥٥) ٣۔ فاقوں سے آزمائش۔ (البقرۃ : ١٥٥) ٤۔ مال و جان کی کمی کے ساتھ آزمائش۔ (البقرۃ : ١٥٥) ٥۔ آل فرعون نے کہا موسیٰ اور اس کے ساتھی منحوس ہیں۔ ( الاعراف : ١٣١) ٦۔ قوم نے تین پیغمبروں کو منحوس قرار دیا۔ ( یٰس : ١٨۔ ١٩)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

قالوا اطیرنا بک وبمن معک ط تطسیر کے معنی بدشگونی کے ہیں۔ یہ لفظ اقوام جاہلہ کی وہم پرستیوں اور خرافات سے نکلا ہے۔ وہ اوبام جن سے کوئی شخص صرف سیدھے اور صاف ایمان کے ذریعے نکل سکتا ہے۔ ایام جاہلیت میں اگر کوئی کسی کام کے لئے نکلنے کا ارادہ کرتا ہے تو وہ نیک شگون یا بدشگون معلوم کرنے کے لئے کسی پرندے سے فال گیری کرتا ہے۔ وہ کسی جگہ بیٹھے ہوئے پرندے کو اڑاتا۔ اگر یہ پرندہ اس کے دائیں جانب سے بائیں جانب جاتا تو یہ خوش ہوتا اور وہ کام کر گزرتا۔ اور اگر یہ پرندہ بائیں جانب سے دائیں جانب کی طرف جاتا تو یہ شخص بدشگوفی کرتے ہوئے یہ سمجھتا کہ یہ معاملہ خطرناک ہے۔ سوال یہ ہے کہ کسی پرندے کو لیا معلوم ہے کہ وہ کدھر جائے اور کدھر نہ جائے۔ نیز کسی پرندے کی اتفاق حرکت سے غیبی باتیں کس طرح معلوم ہو سکتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ نفس انسانی اپنے معاملات ہمیشہ کسی غیبی قوت کے حوالے کرتا ہے۔ اگر کوئی اپنا غیب اور مستقبل اللہ علام الغیوب کے حوالے نہیں کرتا اور اللہ پر بھروسہ نہیں کرتا تو پھر وہ ایسے ہی اوہام و خرافات کا شکار ہوتا ہے۔ پھر وہ اوبام و خرافات کسی حد پر جا کر رکتے نہیں۔ نہ عقل کی حدود میں رہتے ہیں۔ نہ ان سے کوئی یقین و اطمینان حاصل ہوتا ہے۔ آج صورت حال ایسی ہے جو لوگ ایمان نہیں لاتے اور عالم غیب کے پوشیدہ امور کو اللہ کے سپرد کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں اور جن کا زعم یہ ہے کہ انہوں نے اس قدر علمی ترقی حاصل کرلی ہے کہ دین و مذاہب کے خرافات پر ایمان لانا ضروری نہیں ہے۔ یہ لوگ نہ اللہ پر ایمان لاتے ہیں ، نہ دین اسلام پر ایمان لاتے ہیں اور نہ غیب پر ایمان لاتے ہیں ، لیکن ایسے تعلیم یافتہ لوگوں کی وہم پرستی کا حال یہ ہے کہ یہ لوگ بھی عدد ٣١ کو بڑی اہمیت دیتے ہیں۔ اور جب یہ لوگ جا رہے ہوں اور کوء سیاہ بلی ان کے راستے سے گزر جائے تو اس کو بھی نہایت ہی اہم واقعہ سمجھتے ہیں۔ مثلاًدیا سلائی کی ایک پتلی سے دو سے زیادہ سگریٹ جلانا اور اس قسم کے دور سے خرافات پر یہ لوگ بڑا یقین رکھتے ہیں۔ یہ اس لئے کہ اس قسم کے لوگ دراصل فطرت سے عناد کرتے ہیں حالانکہ فطرت سلیمہ کے اندر ایمان باللہ کو پیاس ہوتی ہے۔ وہ اللہ سے کبھی بھی مستغنی نہیں ہوتی۔ اس دنیا کے حقائق میں اسے عالم غیب کا سہارا لینا پڑتا ہے ، جن تک انسانی علم و معرفت کی رسائی نہیں ہوتی اور بعض حقائق تو ایسے ہیں کہ ان تک انسانی علم کبھی بھی نہیں پہنچ سکتا ۔ کیونکہ یہ حقائق انسان کی قوت مدرکہ کی حدود طاقت ہی سے ماوراء ہیں اور جو انسان کے مخصوص مقصد پیدائش او خلافت فی الارض کے منصب کے ساتھ متعلق ہی نہیں ہیں۔ اس لئے انسان کو ان کے علم کی طاقت ہی نہیں دی گئی۔ انسانی قوتیں اس کے منصب تک محدود ہیں۔ جب قوم صالح نے اپنی وہی بدویانہ اور گمراہانہ بات کہی ، جو اوہام و خرافات کے اندر ڈوبی ہوئی تھی تو حضرت صالح نے ان کو یقین کی روشنی کی طرف موڑ دیا اور ایک واضح حقیقت کی دعوت دی جس کے اندر کوئی پیچیدگی اور کوئی تاریک گوشہ نہ تھا۔ قال طئرکم عند اللہ صالح نے جواب دیا تمہارا نیک و بد اور تمہارا انجام اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اللہ نے اس کائنات کے لئے ایک سنت جاری کی ہے اور پھر لوگوں کو کچھ احکام دیئے ہیں اور لوگوں کے لئے ایک نہایت ہی سیدھی راہ تجویز کی ہے۔ پس جس نے سنن الہیہ کا اتباع کیا ، اللہ کی ہدایات پر چلا تو اس کا انجام اچھا ہوگا اور اسے پرندے اڑانے کی کوئی ضرورت نہ ہوگی ، اور جو شخص سنن الہیہ سے سرتابی کرے گا اور صحیح راستے سے ادھر ادھر ہوجائے گا وہ ایک عظیم شر سے دوچار ہوگا۔ اسے پھر پرندوں سے نیک شگون اور بدشگون لینے کی ضرورت نہ ہوگی۔ بل انتم قوم تقنتون (٧٤) ” اصل بات یہ ہے کہ تم لوگوں کی آزمائش ہو رہی ہے۔ “ اللہ نے تم پر جو انعامات کئے ہوئے ہیں۔ یہ تمہارے لئے ایک فتنہ ہے اور جو خیر و شر تمہیں پیش آ رہا ہے۔ وہ تمہارے لئے آزمائش ہے۔ لہٰذا بیداری ، اللہ کے قوانین فطرت کے مطابق تدبیر اور واقعات و حادثات کو سمجھنا اور ان کے اندر جو آزمائش اور ابتلا ہوتی ہے ، اس کا ادراک کرنا اور شعور رکھنا ہی اچھے انجام کا ضامن ہے۔ یہ جو تم پرندوں کو اڑا کر شگون یا بدشگون معلوم کرتے ہو ، اس کا واقعات کے انجام پر کوئی اثر نہیں ہوتا ، یہ محض تمہارے اوہام ہیں۔ ایک صحیح نظریہ اور عقیدہ لوگوں کو ذہنی روشنی اور استقامت عطا کرتا ہے اور انسان معاملات کی صحیح قدر معلوم کرلیتا ہے۔ انسان کا دل بیدار ہوتا ہے اور وہ اپنے ماحول پر اچھی نظر رکھتا ہے اور غور و فکر کرتا ہے۔ انسان کو یہ شعور ہوتا ہے کہ اس کے اردگرد جو کچھ ہو رہا ہے دست قدرت اس میں موثر ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ دنیا میں یہ واقعات یونہی اتفاقاً واقع نہیں ہوتے ، نہ یہ زندگی ایک عبث عمل ہے بلکہ انسان کی زندگی بامقصد ہوتی ہے ، وہ ایک قیمت رکھتی ہے۔ لوگوں کی ایک قیمت ہوتی ہے۔ اور یوں یہ چھوٹا سا انسان اس کرہ ارض پر ایک بامقصد سفر کرتا ہے۔ وہ اللہ سے بھی مربوط ہوتا ہے اور اللہ کی اس کائنات کے ساتھ بھی جڑا ہوا ہوتا ہے اور ان قوانین کے ساتھ بھی جڑا ہوا ہوتا ہے۔ جو خالق نے اس کائنات کے لئے وضع کئے ہیں اور جن کے مطابق یہ کائنات بحفاظت چل رہی ہے۔ لیکن یہ سادہ سادہ استدلال ان لوگوں پر کیا اثر کرتا جن کے قلوب بگڑ چکے ہوں۔ ان کے دل اس قدر فساد میں مبتلا ہوئے ہوں جہاں سے واپسی ممکن نہ ہو۔ اصلاح کا کوئی امکان نہ رہا ہو۔ قوم صالح بگاڑ کے اس مرحلے پر پہنچ گئی تھی جہاں سے واپسی ممکن نہ تھی۔ ان میں ٩ افراد ایسے تھے جو پوری بگاڑ کے ذمہ دار تھے۔ یہ لوگ فساد کی آخری سرحدوں کو چھو رہے تھے چناچہ انہوں نے اس تحریک کو ختم کرنے کے لئے ایسی سازش تیار کی جس پر رات کے اندھیروں میں عمل کیا جانا تھا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ تُفْتَنُوْنَ ) (بلکہ بات یہ ہے کہ اب تمہیں عذاب میں مبتلا ہونا ہی ہے) اس سے معلوم ہوا کہ مبلغ اور داعی تبلیغ کرنے اور اظہار حق میں یہ سوچ کر کوتاہی نہ کرے کہ میری بات سے قوم میں انتشار اور خلفشار ہوجائے گا جب حق بات کہی جائے گی تو منکرین اور معاندین بہرحال مخالفت کریں گے ان کی وجہ سے جو انتشار ہو اس کا خیال کیے بغیر حق کی دعوت دی جائے اور کھل کر حق بیان کیا جائے۔ جن لوگوں نے ایمان قبول کرلیا تھا ان کے علاوہ باقی قوم کافر اور منکر ہی تھی ان کافروں میں نو شخص ایسے تھے جو بڑے فسادی تھے ان کا کام یہی تھا کہ زمین میں فساد کریں نام کو بھی اصلاح نہیں کرتے تھے، ان لوگوں نے آپس میں حضرت صالح (علیہ السلام) کو شہید کرنے کی ٹھان لی۔ کہنے لگے کہ آؤ آپس میں مل کر اللہ کی قسم کھا لیں کہ اس شخص (یعنی حضرت صالح (علیہ السلام) کو اور اس کے گھر والوں کو راتوں رات قتل کردیں۔ جب صبح کو اس کے قتل کا چرچا ہو اور اس کا ولی پوچھ پاچھ کرے کہ کس نے قتل کیا ؟ تو ہم کہہ دیں گے کہ ہمیں پتہ نہیں، ان کے گھر والوں کے قتل کے وقت ہم موجود نہیں تھے۔ ہم سچ کہہ رہے ہیں ہماری اس بات میں شک نہ کیا جائے، ان لوگوں نے کہا تھا کہ پہاڑ سے اونٹنی نکال کر دکھاؤ تو تب آپ کو نبی مانیں گے حضرت صالح (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی پہاڑ سے اونٹنی بر آمد ہوگئی حضرت صالح (علیہ السلام) نے فرمایا (لَا تَمَسُّوْھَا بِسُوْٓءٍ فَیَاْخُذَکُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ) (کہ اس کو برائی کے ساتھ ہاتھ نہ لگانا ورنہ تمہیں درد ناک عذاب پکڑے گا) ۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

42:۔ جب قوم ثمود نے حضرت صالح (علیہ السلام) کی تکذیب کی تو اللہ تعالیٰ نے ان پر قحط مسلط کردیا اور ان میں اختلاف تو پہلے ہی پیدا ہوچکا تھا۔ اب وہ حضرت صالح (علیہ السلام) سے کہنے لگے ہم تمہاری بات کس طرح مان لیں تم اور تیرے پیروکار عیاذا باللہ کیسے نامبارک ہو کہ جب سے تم نے یہ نیا دین (صرف ایک اللہ کی عبادت و پکار) ایجاد کیا ہے تب سے ہم قحط کا شکار ہیں اور آپس میں ایک دوسرے سے برسر پیکار ہیں۔ تشاء منابک لانھم قحطوا عند مبعثہ لتکذیبھم فنسبوہ الی مجیئہ (مدارک) ۔ 43:۔ حضرت صالح (علیہ السلام) نے جواب میں فرمایا یہ خیر و شر اور نفع و نقصان تو اللہ تعالیٰ کی قضاء و قدر سے ہے۔ شر کو ہماری طرف منسوب کرنا تمہاری جہالت و نادانی ہے شیطان نے تمہیں ورغلا کر اس فتنے اور گمراہی میں مبتلا کر رکھا ہے۔ طائرکم عند اللہ ای السبب الذی منہ یجئ خیرکم و شرکم عنداللہ وھو قضاءہ وقدرہ ان شاء رزقکم وان شاء احرمکم (کبیر ج 6 ص 570) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(47) وہ کہنے لگے ہم نے تو تجھ کو اور تیرے ساتھیوں کو منحوس قدم پایا صالح (علیہ السلام) نے کہا تمہاری نحوست کا آزمائش میں ڈالے گئے ہو اور جانچے گئے ہو یعنی الزام دیا حضرت صالح (علیہ السلام) کو نااتفاقی پھیلانے کا یعنی تو نے یہ نئی بات چلا کر ہم میں تفریق پیدا کردی یا قحط ہوا تھا اس کو کہا کہ تیری اور تیرے ساتھیوں کی یہ نحوست ہے حضرت صالح (علیہ السلام) نے فرمایا کہ اس تمہاری نحوست کا سبب تو اللہ کے علم میں ہے اور وہ تمہارے اعمال میں جن کو اللہ تعالیٰ جانتا ہے بلکہ بات یہ ہے کہ تم کو جانچا جاتا ہے اور تم لوگ جانچے جاتے ہو۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی کفر کی شامت سے تم پر سختی پڑی ہے کہ دیکھیں سمجھتے ہو یا نہیں 12