Surat un Namal

Surah: 27

Verse: 48

سورة النمل

وَ کَانَ فِی الۡمَدِیۡنَۃِ تِسۡعَۃُ رَہۡطٍ یُّفۡسِدُوۡنَ فِی الۡاَرۡضِ وَ لَا یُصۡلِحُوۡنَ ﴿۴۸﴾

And there were in the city nine family heads causing corruption in the land and not amending [its affairs].

اس شہر میں نو سردار تھے جو زمین میں فساد پھیلاتے رہتے تھے اور اصلاح نہیں کرتے تھے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Plot of the Mischief-Makers and the End of the People of Thamud Allah tells us about the evildoers of Thamud and their leaders who used to call their people to misguidance and disbelief, and to deny Salih. Eventually they killed the she-camel and were about to kill Salih too. They plotted to let him sleep with his family at night, then they would assassinate him and tell his relatives that they knew nothing about what happened to him, and that they were telling the truth because none of them had seen anything. Allah says: وَكَانَ فِي الْمَدِينَةِ ... And there were in the city, meaning, in the city of Thamud, ... تِسْعَةُ رَهْطٍ ... nine Raht, meaning, nine people, ... يُفْسِدُونَ فِي الاَْرْضِ وَلاَ يُصْلِحُونَ who made mischief in the land, and would not reform. They forced their opinions on the people of Thamud, because they were the leaders and chiefs. Al-`Awfi reported that Ibn Abbas said: "These were the people who killed the she-camel," Meaning, that happened upon their instigation, may Allah curse them. Allah says: فَنَادَوْاْ صَـحِبَهُمْ فَتَعَاطَى فَعَقَرَ But they called their comrade and he took (a sword) and killed (the she-camel). (54:29) إِذِ انبَعَثَ أَشْقَـهَا When the most wicked man among them went forth (to kill the she-camel). (91:12) Abdur-Razzaq said that Yahya bin Rabi`ah As-San`ani told them, "I heard `Ata' -- i.e. Ibn Abi Rabah -- say: وَكَانَ فِي الْمَدِينَةِ تِسْعَةُ رَهْطٍ يُفْسِدُونَ فِي الاَْرْضِ وَلاَ يُصْلِحُونَ (And there were in the city nine Raht, who made mischief in the land, and would not reform), `They used to break silver coins."' They would break off pieces from them, as if they used to trade with them in terms of numbers (as opposed to weight), as the Arabs used to do. Imam Malik narrated from Yahya bin Sa`id that Sa`id bin Al-Musayyib said: "Cutting gold and silver (coins) is part of spreading corruption on earth." What is meant is that the nature of these evil disbelievers was to spread corruption on earth by every means possible, one of which was that mentioned by these Imams.

اونٹنی کو مار ڈالا ثمود کے شہر میں نوفسادی شخص تھے جن کی طبعیت میں اصلاح تھی ہی نہیں یہی ان کے رؤسا اور سردار تھے انہی کے مشورے اور حکم سے اونٹنی کو مار ڈالا ان کے نام یہ ہیں رعی ، رعم ، ھرم ، ھریم ، داب ، صواب ، مطع ، قدار بن سالف یہ آخری شخص وہ ہے جس نے اپنے ہاتھ سے اونٹنی کی کوچیں کاٹی تھیں ۔ جس کا بیان آیت ( فَنَادَوْا صَاحِبَهُمْ فَتَعَاطٰى فَعَقَرَ 29؀ ) 54- القمر:29 ) اور ( اِذِ انْۢبَعَثَ اَشْقٰىهَا 12۝۽ ) 91- الشمس:12 ) میں ہے ۔ یہی وہ لوگ تھے جو درہم کے سکے کو تھوڑا ساکتر لیتے تھے اور اسے چلاتے تھے ۔ سکے کو کاٹنا بھی ایک طرح فساد ہے چنانچہ ابو داؤد وغیرہ میں حدیث ہے جس میں بلاضرورت سکے کو جو مسلمانوں میں رائج ہو کاٹنا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے الغرض ان کا یہ فساد بھی تھا اور دیگر فساد بھی بہت سارے تھے ۔ اس ناپاک گروہ نے جمع ہو کر مشورہ کیا کہ آج رات کو صالح کو اور اسکے گھرانے کو قتل کرڈالو اس پر سب نے حلف اٹھائے اور مضبوط عہد وپیمان کئے ۔ لیکن یہ لوگ حضرت صالح تک پہنچیں اس سے پہلے عذاب الٰہی ان تک پہنچ گیا اور ان کا ستیاناس کردیا ۔ اوپر سے ایک چٹان لڑھکتی ہوئی اور ان سب سرداروں کے سر پھوٹ گئے سارے ہی ایک ساتھ مرگئے ان کے حوصلے بہت بڑھ گئے تھے خصوصا جب انہوں نے حضرت صالح کی اونٹنی کو قتل کیا ۔ اور دیکھا کہ کوئی عذاب نہیں آیا تو اب نبی اللہ علیہ السلام کے قتل پر آمادہ ہوئے ۔ مشورے کئے کہ چپ چاپ اچانک اسے اور اسے کے بال بچوں اور اس کے والی وارثوں کو ہلاک کردو اور قوم سے کہہ دو کہ ہمیں کیا خبر ؟ اگر صالح نبی ہے تو ہمارے ہاتھ لگنے کا نہیں ورنہ اسے بھی اس کی اونٹنی کے ساتھ سلادو اس ارادے سے چلے راہ ہی میں تھے جو فرشتے نے پتھر سے ان سب کے دماغ پاش پاش کردئیے ان کے مشوروں میں جو اور جماعت شریک تھی انہوں نے جب دیکھا کہ انہیں گئے ہوئے عرصہ ہوگیا اور واپس نہیں آئے تو یہ خبر لینے چلے دیکھا کہ سب کے سر پھٹے ہوئے ہیں بھیجے نکلے پڑے ہیں اور سب مردہ ہیں ۔ انہوں نے حضرت صالح پر ان کے قتل کی تہمت رکھی اور انہیں مار ڈالنے کے لئے نکلے لیکن ان کی قوم ہتھیار لگا کر آگئی اور کہنے لگے دیکھو اس نے تم سے کہا کہ تین دن میں عذاب اللہ تم پر آئے گا تم یہ تین دن گذرنے دو ۔ اگر یہ سچا ہے تو اس کے قتل سے اللہ کو اور ناراض کروگے اور زیادہ سخت عذاب آئیں گے اور اگر یہ جھوٹا ہے تو پھر تمہارے ہاتھ سے بچ کر کہاں جائے گا ؟ چنانچہ وہ لوگ چلے گئے ۔ فی الواقع ان سے نبی اللہ حضرت صالح علیہ السلام نے صاف فرمادیا تھا کہ تم نے اللہ کی اونٹنی کو قتل کیا ہے تو تم اب تین دن تک مزے اڑالو پھر اللہ کا سچا وعدہ ہو کر رہے گا ۔ یہ لوگ حضرت صالح کی زبانی یہ سب سن کر کہنے لگے یہ تو اتنی مدت سے کہہ رہا ہے آؤ ہم آج ہی اس سے فارغ ہوجائیں جس پتھر سے اونٹنی نکلی تھی اسی پہاڑی پر حضرت صالح علیہ السلام کی ایک مسجد تھی جہاں آپ نماز پڑھاکرتے تھے انہوں نے مشورہ کیا کہ جب وہ نماز کو آئے اسی وقت راہ میں ہی اس کا کام تمام کردو ۔ جب پہاڑی پر چڑھنے لگے تو دیکھا کہ اوپر سے ایک چٹان لڑھکتی ہوئی آرہی ہے اس سے بچنے کے لئے ایک غار میں گھس گئے چٹان آکر غار کے منہ میں اس طرح ٹھہر گیا کہ غار کامنہ بالکل بند ہوگیا ۔ سب کے سب ہلاک ہوگئے اور کسی کو پتہ بھی نہ چلا کہ کہاں گئے؟ انہیں یہاں عذاب آیا وہاں باقی والے وہیں ہلاک کردئیے گئے نہ ان کی خبر انہیں ہوئی اور نہ ان کی انہیں ۔ حضرت صالح اور باایمان لوگوں کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکے اور اپنی جانیں اللہ کے عذابوں میں گنوادیں ۔ انہوں نے مکر کیا اور ہم نے ان کی چال بازی کا مزہ انہیں چکھا دیا ۔ اور انہیں اس سے ذرا پہلے بھی مطلق علم نہ ہوسکا ۔ انجام کار ان کی فریب بازیوں کا یہ ہوا کہ سب کے سب تباہ وبرباد ہوئے ۔ یہ ہیں ان کی بستیاں جو سنسان پڑی ہیں انکے ظلم کی وجہ سے یہ ہلاک ہوگئے ان کے بارونق شہر تباہ کردئے گئے ذی علم لوگ ان نشانوں سے عبرت حاصل کرسکتے ہیں ۔ ہم نے ایمان دار متقیوں کو بال بال بچالیا ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤٩] رھط بمعنی ایک ہی خاندان کے لوگوں کی مختصر سی جماعت جن کی تعداد دس سے کم ہو اور ان میں کوئی عورت نہ ہو۔ نیز اس کے جماعت کے سردار یا سرغنہ کو بھی رھط کہتے ہیں۔ ) مفردات ( اور یہ لفظ عموماً بڑے مفہوم میں استعمال ہوتا ہے۔ اور رھط کی۔۔ کسی عدد کی طرف ہو تو اس سے اشخاص مراد لئے جاتے ہیں۔ ) منجد ( اسی لئے ہم نے رھط کا ترجمہ سرغنہ کیا ہے یعنی کسی اوباش اور بدکردار چھوٹی سی جماعت کا لیڈر۔ قوم ثمود کی معروف بستی کا نام ھجر ہے۔ اور اسے ام القریٰ بھی کہتے ہیں یہ مکہ سے شام جاتے ہوئے راستہ میں پڑتی ہے اسی شہر میں ایسے نو سرغنے تھے یا بدمعاش ٹائپ چوہدری تھے اور ان سب میں سر کردہ قدار تھا یعنی سب سے بڑا بدبخت اور حرامی یہی قدار ہی تھا جس نے اللہ کی اونٹنی کی کونچیں کاٹ ڈالی تھیں۔ اور باقی آٹھ سرغنے اسی قدار کے ممدو معاون ساتھی تھے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَكَانَ فِي الْمَدِيْنَةِ تِسْعَةُ رَهْطٍ ۔۔ : قوم ثمود کے شہر کا معروف نام ” حجر “ ہے۔ سورة حجر کا نام اسی شہر کے نام پر ہے۔ یہ مکہ سے شام جاتے ہوئے راستے پر پڑتا ہے۔ اس شہر میں نو (٩) بدمعاش تھے، جو ملک میں فساد کرتے تھے اور یہ نہیں کہ تھوڑی بہت خرابی کرتے ہوں اور کچھ اچھے کام بھی کرتے ہوں، بلکہ فرمایا کہ وہ کوئی اچھا کام کرتے ہی نہیں تھے۔ جن میں سب سے نمایاں وہ ملعون تھا جس نے اونٹنی کی کونچیں کاٹی تھیں، دوسرے آٹھ اس کے ساتھی تھے۔ اس ملعون کا تذکرہ سورة شمس میں ہے۔ ان کے نام بعض روایات میں آتے ہیں، مگر ان میں سے کوئی روایت بھی ثابت نہیں۔ بعض لوگ اس قصے کی وجہ سے نو (٩) کے عدد کو منحوس سمجھتے ہیں، حالانکہ ایسی بدشگونی سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منع فرمایا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

تِسْعَةُ رَ‌هْطٍ (nine persons - 27:48). The word رَ‌هْطٍ (Raht) is used for a group. Here each of the nine persons is called Raht presumably because they were regarded superior among their clan for having wealth and dignity. Each one of them had his own separate group of people, hence they are called nine groups. They were known as the chiefs of Hijr, which was a city of the people of Salih (علیہ السلام) . Hijr was a well-known city of Syria.

معارف و مسائل تِسْعَةُ رَهْطٍ لفظ رَهْطٍ ، جماعت کے معنے میں آتا ہے، یہاں نو اشخاص میں سے ہر شخص کو رھط کے لفظ سے شاید اس لئے تعبیر کیا گیا ہے کہ یہ لوگ اپنے مال و دولت اور جاہ و حشم کے سبب قوم کے بڑے مانے جاتے تھے اور ہر ایک کے ساتھ الگ الگ جماعتیں تھیں اس لئے ان نو آدمیوں کو نو جماعتیں فرمایا۔ یہ لوگ قوم صالح (علیہ السلام) کی بستی یعنی حجر کے بڑے مانے جاتے تھے۔ حجر ملک شام میں معروف مقام ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَكَانَ فِي الْمَدِيْنَۃِ تِسْعَۃُ رَہْطٍ يُّفْسِدُوْنَ فِي الْاَرْضِ وَلَا يُصْلِحُوْنَ۝ ٤٨ مدن المَدينة فَعِيلَةٌ عند قوم، وجمعها مُدُن، وقد مَدَنْتُ مَدِينةً ، ون اس يجعلون المیم زائدة، قال تعالی: وَمِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ مَرَدُوا عَلَى النِّفاقِ [ التوبة/ 101] قال : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] ، وَدَخَلَ الْمَدِينَةَ عَلى حِينِ غَفْلَةٍ مِنْ أَهْلِها [ القصص/ 15] . ( م دن ) المدینۃ ۔ بعض کے نزدیک یہ فعیلۃ کے وزن پر ہے اس کی جمع مدن آتی ہے ۔ اور مدنت مدینۃ کے معنی شہر آیا ہونے کے ہیں ۔ اور بعض کے نزدیک اس میں میم زیادہ ہے ( یعنی دین سے مشتق ہے ) قرآن پاک میں ہے : وَمِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ مَرَدُوا عَلَى النِّفاقِ [ التوبة/ 101] اور بعض مدینے والے بھی نفاق پر اڑے ہوئے ہیں ۔ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک آدمی آیا ۔ وَدَخَلَ الْمَدِينَةَ عَلى حِينِ غَفْلَةٍ مِنْ أَهْلِها [ القصص/ 15] اور وہ شہر میں داخل ہوئے ۔ رهط الرَّهْطُ : العصابة دون العشرة، وقیل : يقال إلى الأربعین، قال : تِسْعَةُ رَهْطٍ يُفْسِدُونَ [ النمل/ 48] ، وقال : وَلَوْلا رَهْطُكَ لَرَجَمْناكَ [هود/ 91] ( رھ ط ) الرھط دس آدمیوں سے کم جماعت کو رھط کہتے ہیں بعض نے کہا ہے کہ اس کا اطلاق چالیس آدمیوں تک کی جماعت پر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ تِسْعَةُ رَهْطٍ يُفْسِدُونَ [ النمل/ 48] نو آدمی تھے جو ملک میں فساد کرتے ۔ وَلَوْلا رَهْطُكَ لَرَجَمْناكَ [هود/ 91] اگر تیری بر اور ی کے لوگ نہ ہوتے تو ہم ےتجھے سنگسار کردیتے ہیں۔ فسد الفَسَادُ : خروج الشیء عن الاعتدال، قلیلا کان الخروج عنه أو كثيرا،. قال تعالی: لَفَسَدَتِ السَّماواتُ وَالْأَرْضُ [ المؤمنون/ 71] ، ( ف س د ) الفساد یہ فسد ( ن ) الشئی فھو فاسد کا مصدر ہے اور اس کے معنی کسی چیز کے حد اعتدال سے تجاوز کر جانا کے ہیں عام اس سے کہ وہ تجاوز کم ہو یا زیادہ قرآن میں ہے : ۔ لَفَسَدَتِ السَّماواتُ وَالْأَرْضُ [ المؤمنون/ 71] تو آسمان و زمین ۔۔۔۔۔ سب درہم برہم ہوجائیں ۔ صلح والصُّلْحُ يختصّ بإزالة النّفار بين الناس، يقال منه : اصْطَلَحُوا وتَصَالَحُوا، قال : أَنْ يُصْلِحا بَيْنَهُما صُلْحاً وَالصُّلْحُ خَيْرٌ [ النساء/ 128] ( ص ل ح ) الصلاح اور الصلح کا لفظ خاص کر لوگوں سے باہمی نفرت کو دورکر کے ( امن و سلامتی پیدا کرنے پر بولا جاتا ہے ) چناچہ اصطلحوا وتصالحوا کے معنی باہم امن و سلامتی سے رہنے کے ہیں قرآن میں ہے : أَنْ يُصْلِحا بَيْنَهُما صُلْحاً وَالصُّلْحُ خَيْرٌ [ النساء/ 128] کہ آپس میں کسی قرار داد پر صلح کرلیں اور صلح ہی بہتر ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤٨) اور اس بستی کے رؤساء کے بیٹوں میں نو آدمی نہایت فاسق تھے یعنی قدار بن سالف، مصد بن سالف، مصد بن رہو، اور اس کے ساتھی جو بہت گناہ کیا کرتے تھے اور بالکل اصلاح کا حکم نہیں دیا کرتے تھے اور نہ خود ہی اس پر عمل پیرا ہوا کرتے تھے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

62 That is, nine chiefs of the tribes each of whom had a band of followers with him.

سورة النمل حاشیہ نمبر : 62 یعنی 9 سرداران قبائل جن میں سے ہر ایک اپنے ساتھ ایک بڑا جتھا رکھتا تھا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

25: یہ حضرت صالح (علیہ السلام) کی قوم کے نو سردار تھے، جن میں سے ہر ایک کے پیچھے ایک جتھہ تھا۔ اور بالآخر یہی لوگ تھے جنہوں نے اس اونٹنی کو ہلاک کیا جو معجزے کے طور پر پیدا ہوئی تھی۔ جب حضرت صالح (علیہ السلام) نے ان کو عذاب سے ڈرایا تو انہوں نے آپس میں یہ معاہدہ کیا کہ وہ رات کے وقت ان پر خفیہ طور پر حملہ کریں گے، اور ان کو اور ان کے گھر والوں کو ہلاک کردیں گے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(27:48) رھط۔ نفر۔ شخص۔ قبیلہ۔ برادری۔ بھائی بند۔ دس آدمیوں سے کم جماعت کو رھط کہتے ہیں بعض نے کہا ہے کہ اس کا اطلاق چالیس آدمیوں تک کی جماعت پر ہوتا ہے۔ تسعۃ رھط۔ نو آدمی۔ اور جگہ قرآن مجید میں ہے ولو لا رھطک لرجمنک (11:91) اگر تیری برادی کے لوگ نہ ہوتے تو ہم تجھے سنگسار کردیتے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

12 ۔ اصل میں لفظ ” رھط “ کے معنی جتھہ کے ہیں۔ مراد ایسے نو سردار ہیں جن میں سے ہر ایک اپنے ساتھ گویا ایک جتھا رکھتا ہے۔ یہ سب ” قدار “ ملعون (جس نے اونٹنی کو زخمی کیا تھا) کے ساھی تھے۔ (شوکانی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : قوم کے نمائندوں کا حضرت صالح (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کے خلاف مذموم منصوبہ۔ صالح (علیہ السلام) کی قوم کا مسکن شمال مغربی عرب کا وہ علاقہ تھا جو آج بھی الحجر کے نام سے موسوم ہے جو مدینہ اور تبوک کے درمیان واقع ہے جسے مدائن صالح کہتے ہیں یہی ثمود کا صدر مقام تھا اور قدیم زمانہ میں حجر کہلاتا تھا۔ وسیع رقبے میں ان کی عمارتوں کے گھنڈرات پائے جاتے ہیں۔ جن کو قوم ثمود نے پہاڑتراش تراش کر بنایا تھا ان گھنڈرات سے اندازہ ہوتا ہے کہ کسی زمانے میں اس کی آبادی لاکھوں افراد پر مشتمل ہوگی اس شہر کی آبادی چار پانچ لاکھ سے کم نہ ہوگی۔ حضرت صالح (علیہ السلام) کی قوم کے نوبڑے سردار تھے۔ جنھوں نے مل بیٹھ کر منصوبہ بنایا کہ حضرت صالح (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کو قتل کردینا چاہیے۔ اس بات کو صیغہ راز میں رکھنے کے لیے انھوں نے آپس میں قسمیں اٹھائیں اور یہ بھی طے کیا کہ اگر صالح (علیہ السلام) کا کوئی وارث اس کیس کو اٹھانا چاہے تو ہم کہیں گے کہ اس کام میں ہم کسی طرح بھی ملوث نہیں ہیں۔ سب کو یہی بات کہنا چاہیے تاکہ ہم سچے ثابت ہوں۔ اس کے بعد انھوں نے رات کے وقت صالح (علیہ السلام) اور ان کے ایمان والے ساتھیوں پر یکبارگی حملہ کرنے کا منصوبہ بنایا۔ انھیں معلوم نہ تھا کہ اللہ تعالیٰ بھی حضرت صالح (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کو بچانے کا فیصلہ کرچکا ہے۔ لفظ مکر کے بارے میں سورة آل عمران کی آیت کی ٥٤ تفسیر میں ذکر ہوچکا ہے کہ مکر کا لفظ لوگوں کی طرف منسوب ہو تو اس کا معنٰی مکر و فریب اور سازش ہوتا ہے اگر یہ لفظ اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب ہو تو اس کا معنی اللہ تعالیٰ کی تدبیر اور اس کا فیصلہ ہوتا ہے۔ حضرت صالح (علیہ السلام) کی قوم کے نو نمائندے تھے گویا کہ نوقبائل یا نو پارٹیاں تھیں۔ جو سب کے سب اس بات پر متفق تھے کہ صالح (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کو قتل کردینا چاہیے۔ جس طرح انھوں نے صالح (علیہ السلام) کے خلاف منصوبہ بندی کی اور اس کے نتیجہ میں تباہ و برباد ہوئے۔ اسی طرح رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف اہل مکہ نے منصوبہ بندی کی اور ذلیل ہوئے۔ (وَ اِذْ یَمْکُرُبِکَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لِیُثْبِتُوْکَ اَوْ یَقْتُلُوْکَ اَوْ یُخْرِجُوْکَ وَ یَمْکُرُوْنَ وَ یَمْکُرُ اللّٰہُ وَ اللّٰہُ خَیْرُ الْمٰکِرِیْنَ ) [ الانفال : ٣٠] ” اور جب کفر کرنے والے لوگ آپ کے خلاف تدبیریں کر رہے تھے کہ آپ کو قید کردیں یا آپ کو قتل کردیں یا آپ کو ملک بدر کردیں وہ سازش کررہے تھے اور اللہ بھی تدبیر کر رہا تھا اور اللہ سب تدبیر کرنے والوں سے بہتر تدبیر کرنے والا ہے۔ “ مسائل ١۔ قوم کے نو لیڈروں نے حضرت صالح (علیہ السلام) کے خلاف مذموم منصوبہ بنایا۔ ٢۔ قوم کے نمائندوں نے حضرت صالح (علیہ السلام) اور ان کے ایماندار ساتھیوں کو قتل کرنے کی قسمیں اٹھائیں۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے مذموم منصوبہ کو ناصرف ناکام کیا بلکہ انھیں تباہ و برباد کردیا۔ تفسیر بالقرآن انبیائے کرام (علیہ السلام) کے خلاف سازشیں : ١۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم نے ان کو جلانے کی کوشش کی۔ ( الانبیاء : ٦٨) ٢۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) کی قوم نے ان کو ملک بدر کرنے کی دھمکی دی۔ ( الاعراف : ٨٨) ٣۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کرنے کا منصوبہ۔ ( المؤمن : ٢٨) ٤۔ آپ غمزدہ نہ ہوں اور کفار کے مکرو فریب سے تنگی محسوس نہ کریں۔ (النحل : ١٢٧) ٥۔ نبی کریم کو حق سے پھیر دینے کے لیے کافروں نے سازش کی۔ (البقرۃ : ١٠٩) ٦۔ کفار نے نبی اکرم کو قتل کرنے اور ملک بدر کرنے کی سازش کی۔ (الانفال : ٣٠)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

وکان فی المدینۃ ……لصدقون (٩٤) یہ نو افراد ایسے تھے جن کی اصلاح ناممکن ہوگئی تھی ، یہ ہر وقت فساد اور سرکشی پر آمادہ رہتے تھے۔ یہ لوگ حضرت صالح کی دعوت سے اس قدر تنگ آگئے کہ انہوں نے ایک دور سے کے ساتھ رات کو ایک خفیہ معاہدہ کیا اور اس عہد پر اللہ کے نام سے قسم بھی اٹھائی کہ اس پر عمل کریں گے ، حضرت صالح کو قتل کردیں گے۔ حالانکہ حضرت صالح تو ان کو صرف اللہ ہی کی طرف بلاتے تھے۔ یہاں عجیب بات یہ ہے کہ انہوں نے اس سازش پر بھی اللہ ہی کو گواہ ٹھہرایا۔ تقاسموا ……اھلہ (٨٢ : ٩٣) ” خدا کی قسم کھا کر عہد کر لوگو ہم صالح اور اس کے گھر والوں پر شبخون ماریں گے اور پھر اس کے ولی سے کہہ دیں گے کہ ہم اس کے خاندان کی ہلاکت کے موقع پر موجود نہ تھے۔ “ نہ ہم نے قتل کیا ہے نہ موجود تھے۔ وانا لصدقون (٨٢ : ٩٣) ” اور ہم بالکل سچے ہیں۔ “ اس لئے کہ یہ قتل رات کے اندھیرے میں ہوگا کوئی دیکھنے والا نہ ہوگا۔ ان لوگوں کی یہ تدبیر بھی نہایت سطحی اور سادہ تدبیر تھی لیکن بہرحال یہ تدبیر کر کے وہ اپنے آپ کو مطئمن کر رہے تھے۔ اور ان لوگوں کے نزدیک خدا کے نام پر یہ جھوٹ بالکل جائز تھا اور پھر یہ اپنی اس اسکیم کے مطابق اپنے آپ کو بالکل سچا بھی ثابت کرتے ہیں۔ انسانی سوچ بھی عجیب پیچیدہ اور سطحی ہوتی ہے۔ خصوصاً جبکہ انسان کا دل نور ایمان سے خالی ہو ، کیونکہ سیدھا راستہ تو ایمان ہی بناتا ہے۔ یہ تھی ان کی تدبیر اور ان کی سوچ۔ لیکن اللہ بزرگ و برتر تو سب کچھ دیکھ رہا ہے اور یہ لوگ اللہ کو نہیں دیکھ رہے ۔ اللہ کے علم میں ان کی پوری سازش ہے ، لیکن اپنے خیال میں یہ سازش بھی اندھیرے میں کر رہے ہیں اور عمل بھی اندھیرے میں ہوگا۔ لیکن ہیں خود اندھیرے میں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

44:۔ حضرت صالح (علیہ السلام) کے شہر میں نو آدمی رہتے تھے جو بڑے فسادی اور غنڈے تھے انہوں نے سارے علاقے میں شر و فساد بپا کر رکھا تھا وہ کوئی تعمیری یا نیک کام نہیں کرتے تھے یہ ان کی عادت مستمرہ تھی۔ قالوا تقاسموا الخ، ان غنڈوں نے حضرت صالح (علیہ السلام) اور ان کے متبعین پر جو مسئلہ توحید مان چکے تھے شب خون مارنے کا پروگرام بنایا اور آپس میں خدا کے نام کی قسمیں کھا کر عہد کیا کہ رات کو حملہ کر کے صالح اور اس کے متبعین کو قتل کردیں اور جب ہم سے پوچھ گچھ ہو تو صاف کہہ دیں کہ ہم تو اس کے قتل کے موقع پر موجود ہی نہ تھے۔ تقاسموا جمہور مفسرین کے نزدیک فعل امر کا صیغہ ہے اور قالوا کا مقولہ ہے اور بعض نے اس کے فعل ماضی ہونے کو بھی جائز کہا ہے اس صورت میں وہ قالوا سے بدل ہوگا یا اس کے فاعل سے حال ہوگا۔ امر من التقاسم ای التحالف وقع مقول القول وھو قول الجمہور و جوز ان یکون فعلا ماضیا بدل من (قالوا) او حالا من فاعلہ الخ (روح ج 15 ص 213) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(48) اور اس بستی میں نو 9 آدمی تھے جو ملک میں فساد برپا کرتے تھے اور سنوارو اصلاح نہ کرتے تھے یعنی نو آدمی بہت ہی شریر تھے ان کا کام سوائے فساد کے اور کچھ تھا ہی نہیں حجر جو بستی کا نام تھا اس میں بھی فساد برپا کرتے رہتے تھے اور بستی سے باہر بھی فساد کیا کرتے تھے اصلاح اور سنوارو سے ان کو کوئی تعلق نہ تھا۔