The Plot of the Mischief-Makers and the End of the People of Thamud
Allah tells us about the evildoers of Thamud and their leaders who used to call their people to misguidance and disbelief, and to deny Salih. Eventually they killed the she-camel and were about to kill Salih too. They plotted to let him sleep with his family at night, then they would assassinate him and tell his relatives that they knew nothing about what happened to him, and that they were telling the truth because none of them had seen anything.
Allah says:
وَكَانَ فِي الْمَدِينَةِ
...
And there were in the city,
meaning, in the city of Thamud,
...
تِسْعَةُ رَهْطٍ
...
nine Raht,
meaning, nine people,
...
يُفْسِدُونَ فِي الاَْرْضِ وَلاَ يُصْلِحُونَ
who made mischief in the land, and would not reform.
They forced their opinions on the people of Thamud, because they were the leaders and chiefs.
Al-`Awfi reported that Ibn Abbas said:
"These were the people who killed the she-camel,"
Meaning, that happened upon their instigation, may Allah curse them.
Allah says:
فَنَادَوْاْ صَـحِبَهُمْ فَتَعَاطَى فَعَقَرَ
But they called their comrade and he took (a sword) and killed (the she-camel). (54:29)
إِذِ انبَعَثَ أَشْقَـهَا
When the most wicked man among them went forth (to kill the she-camel). (91:12)
Abdur-Razzaq said that Yahya bin Rabi`ah As-San`ani told them,
"I heard `Ata' -- i.e. Ibn Abi Rabah -- say:
وَكَانَ فِي الْمَدِينَةِ
تِسْعَةُ رَهْطٍ يُفْسِدُونَ فِي الاَْرْضِ وَلاَ يُصْلِحُونَ
(And there were in the city nine Raht, who made mischief in the land, and would not reform),
`They used to break silver coins."'
They would break off pieces from them, as if they used to trade with them in terms of numbers (as opposed to weight), as the Arabs used to do.
Imam Malik narrated from Yahya bin Sa`id that Sa`id bin Al-Musayyib said:
"Cutting gold and silver (coins) is part of spreading corruption on earth."
What is meant is that the nature of these evil disbelievers was to spread corruption on earth by every means possible, one of which was that mentioned by these Imams.
اونٹنی کو مار ڈالا
ثمود کے شہر میں نوفسادی شخص تھے جن کی طبعیت میں اصلاح تھی ہی نہیں یہی ان کے رؤسا اور سردار تھے انہی کے مشورے اور حکم سے اونٹنی کو مار ڈالا ان کے نام یہ ہیں رعی ، رعم ، ھرم ، ھریم ، داب ، صواب ، مطع ، قدار بن سالف یہ آخری شخص وہ ہے جس نے اپنے ہاتھ سے اونٹنی کی کوچیں کاٹی تھیں ۔ جس کا بیان آیت ( فَنَادَوْا صَاحِبَهُمْ فَتَعَاطٰى فَعَقَرَ 29 ) 54- القمر:29 ) اور ( اِذِ انْۢبَعَثَ اَشْقٰىهَا 12۽ ) 91- الشمس:12 ) میں ہے ۔ یہی وہ لوگ تھے جو درہم کے سکے کو تھوڑا ساکتر لیتے تھے اور اسے چلاتے تھے ۔ سکے کو کاٹنا بھی ایک طرح فساد ہے چنانچہ ابو داؤد وغیرہ میں حدیث ہے جس میں بلاضرورت سکے کو جو مسلمانوں میں رائج ہو کاٹنا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے الغرض ان کا یہ فساد بھی تھا اور دیگر فساد بھی بہت سارے تھے ۔ اس ناپاک گروہ نے جمع ہو کر مشورہ کیا کہ آج رات کو صالح کو اور اسکے گھرانے کو قتل کرڈالو اس پر سب نے حلف اٹھائے اور مضبوط عہد وپیمان کئے ۔ لیکن یہ لوگ حضرت صالح تک پہنچیں اس سے پہلے عذاب الٰہی ان تک پہنچ گیا اور ان کا ستیاناس کردیا ۔ اوپر سے ایک چٹان لڑھکتی ہوئی اور ان سب سرداروں کے سر پھوٹ گئے سارے ہی ایک ساتھ مرگئے ان کے حوصلے بہت بڑھ گئے تھے خصوصا جب انہوں نے حضرت صالح کی اونٹنی کو قتل کیا ۔ اور دیکھا کہ کوئی عذاب نہیں آیا تو اب نبی اللہ علیہ السلام کے قتل پر آمادہ ہوئے ۔ مشورے کئے کہ چپ چاپ اچانک اسے اور اسے کے بال بچوں اور اس کے والی وارثوں کو ہلاک کردو اور قوم سے کہہ دو کہ ہمیں کیا خبر ؟ اگر صالح نبی ہے تو ہمارے ہاتھ لگنے کا نہیں ورنہ اسے بھی اس کی اونٹنی کے ساتھ سلادو اس ارادے سے چلے راہ ہی میں تھے جو فرشتے نے پتھر سے ان سب کے دماغ پاش پاش کردئیے ان کے مشوروں میں جو اور جماعت شریک تھی انہوں نے جب دیکھا کہ انہیں گئے ہوئے عرصہ ہوگیا اور واپس نہیں آئے تو یہ خبر لینے چلے دیکھا کہ سب کے سر پھٹے ہوئے ہیں بھیجے نکلے پڑے ہیں اور سب مردہ ہیں ۔ انہوں نے حضرت صالح پر ان کے قتل کی تہمت رکھی اور انہیں مار ڈالنے کے لئے نکلے لیکن ان کی قوم ہتھیار لگا کر آگئی اور کہنے لگے دیکھو اس نے تم سے کہا کہ تین دن میں عذاب اللہ تم پر آئے گا تم یہ تین دن گذرنے دو ۔ اگر یہ سچا ہے تو اس کے قتل سے اللہ کو اور ناراض کروگے اور زیادہ سخت عذاب آئیں گے اور اگر یہ جھوٹا ہے تو پھر تمہارے ہاتھ سے بچ کر کہاں جائے گا ؟ چنانچہ وہ لوگ چلے گئے ۔ فی الواقع ان سے نبی اللہ حضرت صالح علیہ السلام نے صاف فرمادیا تھا کہ تم نے اللہ کی اونٹنی کو قتل کیا ہے تو تم اب تین دن تک مزے اڑالو پھر اللہ کا سچا وعدہ ہو کر رہے گا ۔ یہ لوگ حضرت صالح کی زبانی یہ سب سن کر کہنے لگے یہ تو اتنی مدت سے کہہ رہا ہے آؤ ہم آج ہی اس سے فارغ ہوجائیں جس پتھر سے اونٹنی نکلی تھی اسی پہاڑی پر حضرت صالح علیہ السلام کی ایک مسجد تھی جہاں آپ نماز پڑھاکرتے تھے انہوں نے مشورہ کیا کہ جب وہ نماز کو آئے اسی وقت راہ میں ہی اس کا کام تمام کردو ۔ جب پہاڑی پر چڑھنے لگے تو دیکھا کہ اوپر سے ایک چٹان لڑھکتی ہوئی آرہی ہے اس سے بچنے کے لئے ایک غار میں گھس گئے چٹان آکر غار کے منہ میں اس طرح ٹھہر گیا کہ غار کامنہ بالکل بند ہوگیا ۔ سب کے سب ہلاک ہوگئے اور کسی کو پتہ بھی نہ چلا کہ کہاں گئے؟ انہیں یہاں عذاب آیا وہاں باقی والے وہیں ہلاک کردئیے گئے نہ ان کی خبر انہیں ہوئی اور نہ ان کی انہیں ۔ حضرت صالح اور باایمان لوگوں کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکے اور اپنی جانیں اللہ کے عذابوں میں گنوادیں ۔ انہوں نے مکر کیا اور ہم نے ان کی چال بازی کا مزہ انہیں چکھا دیا ۔ اور انہیں اس سے ذرا پہلے بھی مطلق علم نہ ہوسکا ۔ انجام کار ان کی فریب بازیوں کا یہ ہوا کہ سب کے سب تباہ وبرباد ہوئے ۔ یہ ہیں ان کی بستیاں جو سنسان پڑی ہیں انکے ظلم کی وجہ سے یہ ہلاک ہوگئے ان کے بارونق شہر تباہ کردئے گئے ذی علم لوگ ان نشانوں سے عبرت حاصل کرسکتے ہیں ۔ ہم نے ایمان دار متقیوں کو بال بال بچالیا ۔